Tuesday, July 28, 2009

تقریبِ بخاری و سالانہ جلسۂ تقسیمِ انعامات کی آڈیوز

جامعہ ابی بکرالاسلامیہ ،کراچی میں تعلیمی سال 09-2008 کے اختتام پر ایک عظیم و شان دعوتی اور تعلیمی پروگرام مرتب دیا گیا۔جس میں ملک بھر کے معروف ع جید علماء کرام نے شرکت فرمائی۔اس پرگرام کی مکمل صوتی کاروائی قارئین مجلہ اسوہ حسنہ کے لئے پیش کی جارہی ہیں۔

نشست اول
بعد نمازِ عصر تا مغرب
خطاب : مولانا عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ


نشست دوم
تلاوتِ قرآن کریم
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
خطاب : فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ


خطاب مہمانِ خصوصی : جناب مصباح الدین صاحب
درس صحیح بخاری : فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ


کلمۃ الاساتذہ : الشیخ عبدالرحمن حفظہ اللہ
جامعہ سے فارغ التحصیل طلباء کے ترجمان : الشیخ عبدالحئی مدنی حفظہ اللہ
تعارف جامعہ بذریعہ پروجیکٹر



خطاب : مدیر جامعہ جناب ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب


اعلان نتائج : الشیخ افتخار شاہد حفظہ اللہ


مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

Monday, July 27, 2009

سانحۂ جامعہ نعیمیہ۔۔۔ ملک دشمن عناصر کی سازش

اداریہ
23مارچ 1987کو قلعہ لچھمن سنگھ لا ہور میں جمعیت اہلحدیث پاکستان کے جلسے میں جو پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کا پہلا بم دھماکہ تھا جس میں جمعیت اہلحدیث کے قائد اور ملک کے ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنما علامہ احسان الہی ظہیرؒ کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں علامہ صاحب اہلحدیث کی مرکزی قیادت سمیت داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اسی واقعہ سے ملک عزیز میں مذہبی اجتماعات میں بم دھماکوں کی رسم بد کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں مختلف مکاتب فکر کے کئی علماء کرام ایسے ہی ظلم وتشدد کا نشانہ بنے ۔ سانحہ جامعہ نعیمیہ اسی سلسلے کی ایک کڑ ی ہے جب 12جون2009بروز جمعہ کو نماز جمعہ کے فورا بعد جامعہ نعیمیہ میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑ ا دیاجس کے نتیجے میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور ملک عزیز کی معروف مذہبی، دینی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی سمیت پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب انتہائی صلح جو، معتدل المزاج اورمتوازن شخصیت کے مالک تھے ، آپ اختلافی مسائل میں شدت پسندی کی بجائے رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل وفاعل تھے ، انہوں نے مملکت خدادا د پاکستان میں جاری دہشت گردی کی مخالفت میں 21جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیا تھا.
جس پر ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں ان کا قتل ملک دشمن عناصر کی ساز ش کا نتیجہ ہے ۔ اس سے پہلے اسطرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں مگرآج تک ہماری حکومتیں مجرموں کو پکڑ نے میں ناکام رہی ہیں ، ان بم دھماکوں کامقصد فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کو آپس میں لڑ انا ہے ۔ سانحہ جامعہ نعیمیہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے کہ جس کی مذمت کرنا انسانیت کا تقاضا ہے ، یہ سانحہ اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ حکومتیں امن وامان کے قیام اور لوگوں کے جان ومال کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک اوربیرون ملک انسانیت کے ان دشمنوں کا تعاقب کرے جو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ۔ جامعہ نعیمیہ کے اس انسانی المیے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مذہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کو وطن عزیز میں کون تحفظ فراہم کرے گا؟؟ اور یہ بھی کہ ملک کو ملک دشمن عناصر کی نذر کرنے والی وہ قوتیں تو اس کی ذمہ دار نہیں ؟ جو مذہبی قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے ہر مکتبہ فکرکواس کی صف اول کی قیادت سے محروم کر کے امت مسلمہ کو انتشار کا شکار کرنا چاہتی ہے ؟؟
سانحہ جامعہ نعیمیہ ملک کی مذہبی قوتوں کو بھی لمحہ فکریہ فراہم کر رہا ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ، ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے اختلافات اور باہمی کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر انسانیت کے دشمن کامیاب وارداتیں کر رہے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ مذہبی گروہ کو اس دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا جائے تاکہ یہ لوگ باہم دست وگریباں رہیں اور عوام الناس اس باہمی لڑ ائی سے متنفر اور بد ظن ہو کر دین سے دور او ر مغربی تہذیب وتمدن سے قریب ہو جائیں ۔ چنانچہ وطن عزیز کی دینی قوتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فروعی اختلافات کے باوجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیں ۔ مذا کرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے ایک دوسرے کے مؤقف کو سنیں اور اس پر غور کریں ۔ قرآن کریم وسنت مبارکہ کو پیمانہ بنا کر اختلاف کی شدت میں کمی لائیں ۔حکومتی حلقے بھی فرقہ واریت کے سلسلے میں فکر مند رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی سے لیکر اب تک کوئی بھی حکومت فرقہ واریت کے تدارک کیلئے کوئی بھی موثر حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے ۔بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ حکومتیں فرقہ واریت کے فروغ کا سبب بنتی رہی ہیں فرقہ واریت کے تدارک کیلئے حکمت عملی یہ ہونا چاہئے تھی کہ حکومت اسلا م ایسی کی تعلیمات کو فروغ دیتی جو تمام مکاتب فکر کے نزدیک متفق علیہ ہوں برعکس اس کے کہ ہر حکومت فرقہ وارانہ تعلیمات کو فروغ دینے کی مرتکب ہورہی ہے ۔جس کیوجہ سے ملک کمزو راور فرقے مضبوط ہو تے جا رہے ہیں ۔
یہاں پر غور طلب امر یہ ہے کہ اگر 23مارچ 1987کو جمعیت اہلحدیث کے جلسہ میں ہونے والے ہم دھماکے اور اس کے بعد ہونے والے دھماکوں کا حکومت وقت سختی سے نوٹس لیتی اور مجرموں کو عبرتناک سزا دیکر کیفر کردار تک پہنچاتی تو اس طرح کے واقعات کاسدباب ممکن تھا لیکن یہ اس وقت کی حکومت کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت ان دہشت گردوں کو اپنی گرفت میں نہ لے سکی جس کے نتیجہ میں آج بھی یہی ظلم وستم جاری ہے جس کا سب سے بڑ ا نقصان علمائے دین کی شہادت ہے ۔
آخر میں ہم اپنے اس مجلہ کے ذریعے ارباب اختیار واقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سانحہ جامعہ نعیمیہ کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو عوام کیلئے عبرت کا نشان بناد یا جائے ۔ تاکہ آئندہ ایسے واقعا ت رونما نہ ہوں اور لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیث رسول پڑھیں

نخبۃ الاحادیث
تالیف فضیلۃ الشیخ محمد داؤد رحمۃ اللہ علیہ

ترجمہ و تشریح
ڈاکٹر عبدالحئی مدنی حفظہ اللہ
کون سی نذر پوری کرنی چاہئے؟

عَن٘ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم : قَالَ :’’ مَن٘ نَذَرَ أَن٘ یُّطِی٘عَ اللّٰہَ فَل٘یُطِع٘ہُ وَمَن٘ نَذَرَ أَن٘ یَّع٘صِیَہُ فَلاَ یَع٘صِی٘ہِ ۔‘‘
تخریج : صحیح بخاری ، کتاب الإیمان والنذور ۔ باب النذر فی الطاعۃ : حدیث :۶۶۹۶
معانی الکلمات
مَن٘ : جو شخص who ever
نَذَرَ:اس نے منت مانی He concecratod / dedicated
أَن٘ :یہ کہ That
یُّطِی٘عَ :اطاعت / فرمانبرداری کرے Obey
فَل٘یُطِع٘ہُ : پس اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے He may obey him
یَع٘صِی٘ہِ :اس کی نافرمانی کرے Disobey him
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص (ایسی )نذر مانے کہ اللہ کی اطاعت کرے تو وہ اس کی اطاعت (ضرور) کرے اور جو

شخص (ایسی )نذر مانے کہ اس کی نافرمانی کرے تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے ۔‘‘

تشریح: نذر ونیاز صرف اللہ کا حق ہے ۔غیر اللہ کی نذر ونیاز شرک ہے ۔اسی طرح نذ ر(منت) کسی ایسے کام کے کرنے کی ہونا ضروری ہے جوشرعاً جائز ہو۔ناجائز کام درحقیقت

قانون الٰہی کی خلاف ورزی ہے چنانچہ یہ جُرم (گناہ) ہے ، جس سے حتی المقدور اجتناب ضرور ی ہے ۔اچانک کوئی معاملہ درپیش ہوتو بھی رک کر غو رکرنا ضرور ی ہے کہ اس

سلسلہ میں اللہ کا دستور کیا کہتا ہے اور اسی دستور الٰہی کے مطابق اقدام کرنا فرض ہے چہ جائیکہ بندہ مستقبل میں کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ کر لے جو اللہ کے قانون سے

متصادم (ناجائز ) ہو۔
عموماً نذر (منت) پوری کرنا ضرور ی ہے لیکن اگر کم علمی کی وجہ سے کوئی ایسی منت مان لی ہو جوناجائز ہوتو ایسی منت پوری کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ مثلاً اگر بندہ یہ

منت مان لے کہ میرا فلاں مسئلہ حل ہو گیا تو میں اتنی شراب مفت تقسیم کرونگا یا فلاں مقبرہ تعمیر کرو ادونگا ، فلاں کا عرس کرواؤنگا وغیرہ وغیرہ یہ تمام غیر شرعی کام ہیں لہذا

منت کی صورت میں بھی انکا اقدام حرام ہے ۔ البتہ منت پوری نہ کرسکنے کا کفّارہ (جو اگلی حدیث میں بیان ہورہا ہے ) ادا کرنا ضروری ہے ۔ واللہ أعلم بالصواب
نذر پوری نہ کرنے کا کفارہ
عَن٘ عُق٘بَۃَ ب٘نِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ عَن٘ رَسُو٘لِ اللہ ﷺ قَالَ : کَفَّارَۃُ النَّذ٘رِ کَفَّارَۃُ ال٘یَمِی٘نِ
تخریج : صحیح مسلم، کتاب النذر ، حدیث نمبر۴۲۵۳
روای کا تعارف : حدیث نمبر 32 کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں
معانی الکلمات :
کَفَّارَۃٌ : Penance/ Reparation / atone ment
اَل٘یَمِی٘ن: قسم Swear
ترجمہ: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر کا کفّارہ (وہی ہے جو) قسم کا کفارہ ہے ۔
تشریح : اگر کسی بھی وجہ سے قسم پوری کرنا ناممکن ہوتو اس کا کفارہ درج ذیل ہے جوکہ سورئہ مائدۃ میں مذکور دس مساکین کو کھانا کھلانا یا دس مساکین کو لباس دینا یا ایک غلام

آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فیوض القرآن

از فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر ۱۵

أم ن
یہ لفظ عربی زبان کے ان افعال میں سے ہے جو کثیر الأبواب ہیں جیسا کہ ذیل میں تذکرہ کیا جائے گا۔
أمن : بے خوفی ، اطمینان / خوف سے محفوظ ہونے کی حالت ۔ تاج العروس
ابن الفارس لکھتے ہیں کہ اس کے تین بنیادی معانی ہیں -
۱۔ خیانت کی ضد
۲۔ اطمینان قلب
۳۔ تصدیق کرنا (معجم مقابیس اللغۃ /۸۸)
امن کسی کو بے فکر اور مطمئن کرنا یادوسرے کو أمن دینا اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لینا ۔ تاج العروس راغب نے اس کے معنی بیان کیے ہیں کہ أمن کی اصل یہ ہے کہ طمانیت نفس حاصل ہونا اور خوف کا زائل ہونا۔
الأمن : الأمانۃ ، الأمان یہ دراصل مصادر ہیں ۔ أمانۃ کبھی کسی کی حفاظت کی ذمہ داری لے لینا کے مفہوم ہوتی ہے اور کبھی حفاظت کے مفہوم میں ۔ (مفردات الفاظ القرآن : ۹۰)
٭ اگر باب فَرِحَ یَفرَحُ سے ہوتو اس سے مراد مطمئن ہونا محفوظ ہونا ، بے خوف ہونا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔
﴿فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ﴾(البقرۃ:۲۳۹)
ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ۔
﴿فَلَا یَأْمَنُ مَکْرَ اللَّہِ﴾(الأعراف:۹۹)
سواللہ کی پکڑ سے بے فکر نہ ہوں ۔
اگر اس کا صلہ ب ہوتو اس کا مطلب کسی کا اعتبار کرنا ہوتا ہے ۔
﴿وَمِنْہُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ﴾(آل عمران :۷۵)
اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔
اگر اس کا صلہ علی ہوتو اس سے مراد کسی پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے ۔
﴿مَالَکَ لاَ تَامَنَّا عَلَی یُوسُفَ﴾(یوسف :۱۱)
آخر آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ؟۔(غریب القرآن فی لغات القرآن /۲۳)
یَکرُمُ
٭ اور اگر یہ لفظ باب کَرُمَ یعنی أَمُنَ یَأمُنُ ہوتو اس کا مطلب امین ہونا ۔ امانت دار ہونا معتمد علیہ ہونا جس کی صفت أمین ہے ۔ (منجد/۴۵)
٭ اور اگر یہ لفظ باب ضَرَبَ یَضرِبُ یعنی أَمَنَ یَامِنُ سے ہوتو اس کا مطلب اعتماد کرنا اور بھروسہ کرنا ہے یا مائل ہونا ہے جس کی صفت آمِن بنائی جاتی ہے ۔ (تاج العروس )
جبکہ یہ لفظ ثلاثی مزید میں بھی اضافی معانی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس میں سے ایک مشہور اصطلاح ایمان بھی ہے ۔
جس کے دوسرے معنی محفوظ کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿وَآمَنَہُم مِن خَوفٍ ﴾ (قریش :۶)
اور ڈر وخوف میں امن وامان دیا۔
لفظ ایمان در حقیقت إِئمَانٌّ ہے جوکہ اسم فاعل ہے ۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جو قوت بطور امانت کے ودیعت کی ہیں ان کا مناسب استعمال کرنا ان کا بیجا استعمال کر کے ان میں خیانت نہ کرنا ۔ یعنی ایمان اس اعتبار سے امانت داری کے مترادف ہے چونکہ اس میں مسلمان اپنے اسلام کی حفاظت کرتا ہے اور اس میں خیانت نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں ہے :
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا ﴾ (الأحزاب : ۷۲)
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑ وں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا وہ بڑ ا ہی ظالم وجاہل ہے ۔
۲۔ تصدیق (کتاب الصحاح ) یقینی طور پر جاننا اور ماننا ، ایمان
﴿قَالَتِ الْأَعْرَابُ آَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ﴾ (الحجرات: ۱۶)
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ آپ کہہ دیجئے : کہ در حقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم (مخالفت چھوڑ کر ) مطیع ہوگئے کیونکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔
۳۔ محض زبانی یا رسمی ایمان
﴿قُل یَومَ الفَتحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِیمَانُہُمْ ﴾(السجدۃ : ۲۹)
جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان لانا بے ایمانوں کے کچھ کام نہ آئے گا۔
۴۔ امن دینا
﴿اِنَّہُم لَا أَیْمَانَ لَہُمْ﴾ ( التوبۃ:۱۲)
ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ۔
صاحب تاج العروس نے سب حالتِ ایمان کیلئے خوبصورت مثال دی کہ ایسی اونٹنی کو ناقۃٌ أَمُون کہتے ہیں جو قُویٰ اور عادات کے اعتبار سے قابل اعتماد ہو جس کامطلب یہ اطمینان ہو کہ وہ مسلسل سفر سے کمزور نہیں ہو گی اور راستے میں ٹھوکر کھا کر گر نہیں جائے گی۔ (تاج العروس)
انہی جامع معانی کے حامل فرد کو مؤمن کہا جاتا ہے جو امن عالم کا ضامن ہو ۔ (المحیط )( اللین)
اگر اَمَنَ کا صلہ لام ہوتو اس کے معنی بات ماننا کے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
﴿لَن نُومِنَ لَکَ ﴾ (البقرۃ:۵۵)
ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔
اس لفظ میں اعتبار ، اعتماد ، یقین اور اطاعت وتصدیق سب کا مفہوم آ جاتا ہے لیکن اگر اس کا صلہ ب ہوتو اس کا مطلب ایمان لانے کے ہوتے ہیں ۔ (اضرارالبیان)
قرآن کریم میں ہے :
﴿کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ﴾ (البقرۃ:۲۸۵)
یہ سب اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ۔
یعنی ایمان کا تعلق قلب اور عمل دونوں سے ہے اسی لئے قرآن میں ہمیشہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تقاضا کیا گیا ہے ۔ لہذا واضح رہے کہ ایمان صرف حقائق کو مان لینے کانام نہیں بلکہ عملاً اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا بھی از حد ضروری ہے ۔ (تدبر قرآن)
یہ لفظ قرآن مجید میں کہیں فسق کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے تو کہیں منافق کی ضد کے طور پر اور کہیں بغاوت اور نافرمانی کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔
المختصر ایمان لانے سے درج ذیل مفاہیم مراد لیے جا سکتے ہیں :
۱۔ یقین کرنا ، ماننا ، تسلیم کرنایعنی انکار نہ کرنا
۲۔ تصدیق کرنا یعنی تکذیب نہ کرنا
۳۔ اعتماد اور بھروسہ کرنا
۴۔ بات ماننا ، اطاعت کرنا سرتسلیم خم کرنا
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

جلسۂ استراحت اور اس کی کیفیت

از پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی

جلسئہ استراحت
پہلی اور تیسری رکعت کے بعد قیام سے قبل تھوڑ ی دیر بیٹھنا جلسئہ استراحت کہلاتا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے دو قول ہیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ اور امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک یہ جلسہ (بیٹھنا) سنت ہے اور احناف اس کی مشروعیت وسُنیت کے قائل نہیں ۔
شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ السنۃ عند الشافعی رحمہ اللہ ان یقوم معتمداً علی الأرض خلافاً للحنفیۃ۔(شرح تراجم ابواب صحیح البخاری ص/۳۵)
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سنت یہ ہے کہ نمازی زمین پر ٹیک لگا کر اٹھے بخلاف احناف کے ۔

المغنی میں ابن قدامہ لکھتے ہیں : قال مالک والشافعی السنۃ ان یعتمد علی یدیہ فی النہوض۔ (۱/۵۳۰)
کہ امام مالک وشافعی رحمہما اللہ فرماتے ہیں : اٹھتے وقت ہاتھوں کا آسرالینا سنت ہے ۔
اب ہم جانِبین کے دلائل ذکر کرتے ہیں ۔ اوّلا ہم احناف کے دلائل اور ساتھ ساتھ ان کے جواب لکھیں گے ۔ اس کے بعد جلسہ استراحت کے قائلین کا ذکر ہو گا۔ ان شاء اللہ
احناف کے دلائل
۱۔ حدثنا خالد بن ایاس (یقال خالد بن الیاس) عن صالح مولی التواُمۃ عن أبی ہریرۃ قال کان النبی ﷺ یَنہَضُ فِی الصَّلوٰۃِ عَلیَ صُدُورِ قَدَمَیہِ۔ (جامع ترمذی ، مع تحفۃ الأحوذی ۱/۲۳۸ ، باب کیف النہوض من السجود)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑ ے ہوتے تو پاؤں کے سینہ پر کھڑ ے ہوتے ۔ (یعنی جلسہ استراحت کیلئے نہ بیٹھتے )۔
جواب : یہ دلیل قابل استدلال نہیں کیونکہ یہ ضعیف ہے اسے روایت کرنے کے معاً بعد امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : خالد بن ایاس ضعیف عند اہل الحدیث کہ یہ راوی خالد بن ایاس محدثین کے ہاں ضعیف ہے ۔ (حوالہ مذکور) نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ترک الناس حدیثہ ۔ (المغنی ۱/۵۳۰)
کہ لوگوں نے (اس کے ضعف کے سبب) اس کی احادیث ترک کر دیں ۔ پس یہ روایت قابل احتجاج نہیں ۔
۲۔ وَاِذَا نَہَضَ نَہَضَ عَلَی رُکبَتَیہِ وَاعتَمَدَ عَلیٰ فَخِذِہِ۔ (سنن ابی داؤد مع العون ۱/۳۱۱)
جب رسول اللہ ﷺ کھڑ ے ہوتے توگھٹنوں کے بل کھڑ ے ہوتے اور ران کا آسرا لیتے ۔
جواب : امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے اور دونوں پر کلام ہے ۔ ایک سند میں محمد بن جحادہ ، عبد الجبار بن وائل عن أبیہ کے طریق سے روایت کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق امام منذری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ عبد الجبار کا سماع اپنے والد (وائل) سے ثابت نہیں ۔
اسی طرح دوسری سند جو ہمام عن شفیق کے واسطے سے ہے ۔ اس میں عاصم بن کلیب اپنے والد ( کلیب) سے اور وہ (کلیب) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔
کلیب کے متعلق امام منذری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : وحدیثہ عن النبی ﷺ مرسل فانہ لم یدرکہ (عون المعبود، ۱/۳۱۱)
کہ کلیب کی حدیث جو براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے ہو ، مرسل ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں پایا۔ پس یہ حدیث اپنی دونوں سندوں کے لحاظ سے متکلم فیہ اور ناقابل احتجاج ہے ۔
۳۔ مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ میں ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں ہے ۔
فَسَجَدَ فَانتَہَضَ قَائِماً کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور کھڑ ے ہوگئے ۔
جواب:(۱) اس کی سند میں ایک راوی شہر بن حوشب ہے ۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کثیر الإرسال والاوہام۔ کہ یہ شخص کثرت سے ارسال کرتا اور اسے وہم ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ متکلم فیہ راوی ہے ۔
(۲) نیز اس حدیث میں جلسہ استراحت کی نفی نہیں ، بالفرض نفی ہوبھی تو زیادہ سے زیادہ وجوب کی نفی ہو گی۔ اس کی سنیت کی نفی نہیں ۔
(۳) مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے زیادہ قوی ہے جس میں جلسہ استراحت کا اثبات ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ۱/۲۳۸)
(۴) عکرمہ کا بیان ہے کہ میں نے مکے میں ایک بزرگ کے پیچھے نماز پڑ ھی تو انہوں نے بائیس تکبیریں کہیں ۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا یہ شخص بے وقوف ہے جو اس قدر زیادہ تکبیرات کہتا ہے انہوں نے کہا یہی تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔
(صحیح البخاری)
استدلال
اس اثر ثابت ہوا کہ نماز میں جلسہ استراحت نہیں ۔ اگر ہوتا تو جلسوں سے اٹھنے کیلئے دو تکبیریں زیادہ ہوجاتیں ۔ اور تکبیرات بائیس کے بجائے چوبیس ہوتیں ۔ کیونکہ ہر دفعہ قیام وقعود میں رسول اللہ ﷺ تکبیر کہا کرتے تھے ۔
جواب: چونکہ جلسہ استراحت خفیف اور تھوڑ ا ہوتا ہے لہذا اس کیلئے کوئی ذکر ودعاء مشروع نہیں ۔ یہ کوئی مستقل بیٹھنا نہیں بلکہ قیام ہی کا ایک حصہ ہے لہذا اس سے جلسہ استراحت کی عدم مشروعیت پر استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔ اگر اس سے استدلال کیا بھی جائے تو وہ اشارۃ ہو گا۔ جب کہ سیدنا مالک بن حویرث کی حدیث (جو آئندہ ذکر ہو گی) جلسہ استراحت کے اثبات میں صریح ہے ۔
ومن المعلوم ان العبارۃ مقدمۃ علی الإشارۃاور قاعدہ کلیہ ہے کہ عبارت اشارہ سے مقدم ہوتی ہے پس یہ دلیل بھی ناکافی ہے ۔
(۵) نَہَی اَن یَّعتَمِدَ الرَّجُلُ عَلیٰ یَدِہِ اِذَا نَہَضَ فِی الصَّلوٰۃِ ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۳۷۷)
رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ نماز ی نماز میں کھڑ ے ہوتے وقت ہاتھ کا آسرالے ۔
جواب:اس حدیث کے بیان کرنے میں راویوں کے الفاظ مختلف ہیں ۔ ابوداؤد رحمہ اللہ کے حوالے سے مکمل متن مع سند ملاحظہ ہو۔
حدثنا احمد بن حنبل ومحمد بن شبویۃ ومحمد بن رافع ومحمد بن عبد الملک الغزال قالوا حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن اسمعیل بن امیۃعن نافع عن ابن عمر قال نہی رسول اللہ ﷺ
قال احمد بن حنبل : ان یجلس الرجل فی الصلوۃ وہو معتمدعلی یدہ۔
وقال ابن شبویۃ : نہی ان یعتمد الرجل علی یدہ فی الصلوۃ
وقال ابن رافع : نہی ان یصلی الرجل وہو معتمد علی یدہ
وقال ابن عبد الملک : نہی ان یعتمد الرجل علی یدیہ اذا نہض فی الصلوۃ
پس امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے اندازِ روایت سے واضح ہے کہ یہ روایت ایک ہی ہے صرف راویوں کے الفاظ میں اختلاف ہے ۔ پہلے راوی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔ ان کے بیان کردہ الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ نمازی دورانِ نماز ہاتھ پر ٹیک لگا کر نہ بیٹھے ۔ دوسرے اور تیسرے راوی کی روایت کا مفہوم ہے کہ مطلقاً نماز کے دوران نماز ی ہاتھ کی ٹیک نہ لے مگر اس کو بھی بیٹھنے کے وقت کے ساتھ خاص کیا جا سکتا ہے کیونکہ دوسری روایات میں بالصراحت نمازی کو بحالتِ جلوس ہاتھ کی ٹیک سے منع کیا گیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو مصنف عبد الرزاق ۲/۱۹۷ والسنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۱۳۵ والمستدرک للحاکم ۱/۲۷۲)
ان تمام روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ امام احمد کی روایت سب سے صحیح ہے جسے دوسری روایات کی تائید حاصل ہے ۔ پس احناف نے صرف ابن عبد الملک کی روایت اور الفاظ سے استدلال کیا جو دوسری روایات کے مقابلے میں شاذ ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ اس کی تائید میں کوئی مستند روایت ہی ہے لہذا یہ بھی غیر مقبول اور مردود ہے ۔ اس سے بھی احناف کے موقف کی تائید نہ ہو سکی۔
(۶) سنن ابی داؤدرحمہ اللہ میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے : فَسَجَدَ ثُمَّ کَبَّرَ فَقَامَ وَلَم یَتَوَرَّک ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۲۶۷)
کہ رسول اللہ ﷺ سجدے کے بعد تکبیر کہہ کر کھڑ ے ہوئے اور نہ بیٹھے ۔
اس سے امام طحاوی حنفی نے استدلال کیا ہے کہ چونکہ ابو حُمید کی اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں لہذا یہ مشروع نہیں ۔ (حاشیہ صحیح البخاری ۱/۱۱۳)
جواب: یہ صحیح ہے کہ ابو حُمید رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں لیکن اس میں جلسہ استراحت کا مذکور نہ ہونا اس کے عدم وجود اور نفی پر کیسے دال ہوا؟
اگر امام طحاوی کے بقول جلسہ استراحت کا عدم ذکر اس کے عدمِ مشروعیت پر دال ہے تو
۱۔اس میں وضو کا ذکر نہیں ۔
۲۔نماز میں قبلہ رو ہونے کا بھی ذکر نہیں ۔
۳۔ دعاء استفتاح کا نام ونشان تک نہیں ۔
۴۔نماز میں ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں ۔
۵۔رکوع وسجود کی دعاؤں کا بھی کوئی ذکر نہیں ۔
کیا طحاوی صاحب اور ان کے ہمنواوہم خیال احباب مندرجہ بالا پانچوں امور کی عدمِ مشروعیت کا فتویٰ دیں گے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
امام طحاوی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا اس حدیث میں ذکر نہیں وہی مشروع ہے تو ہم عرض کریں گے کہ :
ا۔ اس حدیث میں رکوع کو جاتے ہوئے ، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے قیام کے وقت رفع الیدین کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے ۔ احناف کو اس سنت سے کیوں عداوت ہے ؟
ب: اس حدیث میں آخری تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ (تورّک) جس پر اصحاب الحدیث عامل ہیں ۔ (الحمد للہ) یہ احناف کو کیوں گوارا نہیں ؟
پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں اگر جلسہ استراحت کا ذکر نہیں تو کیا ہوا؟ دیگر صحیح ترین روایات میں صراحتاً ذکر موجود ہے وہی اس کے سنت ہونے کی دلیل میں کافی ہے ویسے احناف کی معلومات میں اضافے کی غرض سے عرض ہے کہ سنن ابی داؤد رحمہ اللہ میں باب افتتاح الصلوٰۃ کی دوسری حدیث انہی ابو حُمید رضی اللہ عنہ سے ہے اس میں جلسہ استراحت موجود ہے ۔ ذرا غور سے دیکھیں ۔
۷۔ کَانَ اِذَا رَفَعَ رَاسَہُ مِنَ السَّجدَتَینِ اِستَوَی قَائِماً۔ (سبل السلام شرح بلوغ المرام بحوالہ مسند بزار باب صفۃ الصلاۃ ۱/۳۱۱، حدیث :۲۸۶)
کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدوں سے اٹھتے تو سیدھے کھڑ ے ہوجاتے ۔
جواب : یہ حدیث بھی ناقابل استدلال وناقابل احتجاج ہے ۔ امام نو وی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (ملاحظہ ہو سبل السلام صفحہ ایضاً)
۸۔ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلوٰۃِ المَکتُوبَۃِ اِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِی الرَّکَعتَینِ الأُولَیَینِ اَن لاَ یَعتَمِدَ عَلَی الأَرضِ إِلاَّ اَن یَّکُونَ شَیخاً کَبِیراً لاَ یَستَطِیعُ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۱۳۶)
سنت ہے کہ پہلی دو رکعتوں کے بعد جب نمازی کھڑ ا ہو تو زمین پر آسرا نہ لے الا یہ کہ بوڑ ھا ہو۔
جواب: اس کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق اور زیاد بن زیاد السوائی ہیں اور یہ دونوں راوی اہل علم کے ہاں روایت حدیث میں مجروح اور متکلم فیہ ہیں اس وجہ سے ان کی بیان کردہ روایات ضعیف اور ناقابل عمل ہیں ۔
۹۔ عن النعمان بن ابی عیاش قال اَدرَکتُ غَیرَ وَاحِدٍ مِن اَصحَابِ النَّبِیِّ ﷺ فَکَانَ اِذَا رَفَعَ رَأسَہُ مِنَ السَّجدَۃِ فِی اَوَّلِ رَکعَۃٍ وَالثَّالِثَۃِ قَامَ کَمَا ہُوَ وَلَم یَجلِس۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)
نعمان بیان کرتے ہیں میں نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ پہلی رکعت میں بیٹھے بغیر کھڑ ے ہوجاتے تھے ۔
جواب: اس کی سند میں محمد بن عجلان راوی مدلس ہے جو عن سے روایت کرتا ہے اہل علم جانتے ہیں کہ مدلس راوی کی روایت بصیغہ عن مقبول نہیں ہوتی۔ نیز اس کا حافظہ بھی درست نہ تھا اور یہ بیان کرنے میں اکیلا ہے نیز ابن عجلان سے ابو خالد الاحمر راوی ہے اس کا حافظہ درست نہ تھا۔ لہذا یہ اثر بھی ناقابل استدلال ہے ۔
۱۰۔عن عبد الرحمن بن یزید قال رَمَقتُ عَبدَ اللّٰہِ بنَ مَسعُودٍ فِی الصَّلوٰۃِ فَرَأَیتُہُ یَنہَضُ وَلاَ یَجلِسُ قَالَ یَنہَضُ عَلیٰ صُدُورِ قَدَمَیہِ فِی الرَّکعَۃِ الاُولیٰ وَالثَّالِثَۃِ ۔ (بیہقی فی السنن)
عبد الرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز میں غور سے دیکھا وہ پہلی اور تیسری رکعت میں بیٹھے بغیر کھڑ ے ہوا کرتے تھے ۔
جواب: اس حدیث کو بیان کر کے امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اگرچہ جلسہ استراحت کا ترک کرنا ابن مسعود سے صحیح ثابت ہے تاہم سنت کی اتباع واطاعت افضل ہے ۔لہذا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس عمل کو ترک کرنا اس کی عدم مشروعیت پر دلالت نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کا اسے ترک کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کسی عمل کو ترک کرنا اس کے مسنون نہ ہونے پر دال نہیں ۔
۱۱۔ عن عطیۃ العوفی قال رَأَیتُ ابنَ عُمَرَ وَابنَ عَبَّاسٍ وَابنَ الزُّبَیرِ وَاَباَ سَعید الخدریِّ یَقُومُونَ عَلیٰ صُدُورِ اَقدَامِہِم فِی الصَّلوٰۃِ ۔ (بیہقی)
عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ، ابن عباس ، ابن الزبیر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم کو دیکھاکہ یہ لوگ نماز میں سیدھے پاؤں کے بل کھڑ ے ہوتے ہیں ۔
جواب : اس اثر کا راوی عطیہ ہے جس کے متعلق امام بیہقی نے اسی اثر کے بعد لکھا وعطیۃ لا یحتج بہ کہ عطیہ قابل احتجاج نہیں ۔
میزن الاعتدال میں امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ مشہور تابعی ہے مگر ضعیف ہے ۔
نیز صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کا کسی عمل کو ترک کر دینا اس کے مسنون ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ صحابہ کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع اولیٰ اور افضل ہے ۔
۱۲۔ بعض احناف کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ جلسہ منسون ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی نماز بیان کرنے والا ہر صحابی اسے ذکر کرتا کچھ ذکر کرتے ہیں کچھ ذکر نہیں کرتے لہذا یہ سنت نہیں ہے ۔
جواب: یہ اعتراض بے محل اور بے جا ہے کیونکہ کسی بھی ایک صحابی نے مکمل نماز بیان نہیں کی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی مکمل نماز تمام صحابہ کی احادیث اور بیان جمع کر کے سب سے مجموعی طور پر معلوم ہوئی ہے ورنہ کسی ایک حدیث میں مکمل نماز کا بیان نہیں آیا۔
۱۳۔ اگر یہ جلسہ استراحت مسنون ہوتا تو اس کیلئے کوئی ذکر مشروع ہوتا اس جلسہ میں چونکہ کوئی ذکر اور دعاء نہیں معلوم ہوا کہ یہ سنت نہیں ۔
جواب: یہ اعتراض بھی محض اعتراض ہے ورنہ اس میں بھی کوئی وزن نہیں چونکہ یہ انتہائی مختصر ، خفیف جلسہ ہے اور قیام ہی کا ایک حصہ ہے اس لئے علیحدہ دعا مشروع نہیں ۔
۱۴۔صاحب ہدایہ وغیرہ جب اپنے جملہ دلائل کے جوابات پا چکے اور اپنے اعتراضات کی غیر معقولیت ان پر واضح ہوئی تو عاجز ہوکر جلسہ استراحت کی تاویل یہ کی کہ یہ بڑ ھاپے پر محمول ہے جب رسول اللہ ﷺ عمر رسیدہ ہوگئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ ﷺ نے بیٹھنا شروع کیا ورنہ یہ سنت نہیں ۔
جواب : لیکن ان کی یہ تاویل بھی اہل علم کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ یہی وجہ سے کہ خود احناف میں سے البحر الرائق کے مصنف نے اس تاویل کو پسند نہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کی کوئی دلیل پیش کرنی چاہیے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسی طرح نماز پڑ ھو جیسے مجھے نماز پڑ ھتے دیکھتے ہو لہذا صاحب ہدایہ کی یہ تاویل بھی غیر معقول اور غیر مقبول ہوئی۔
جلسہ استراحت کا ثبوت
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔
صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی ۔(صحیح بخاری)
کہ تم نماز اسی طرح پڑ ھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑ ھتے دیکھا ، کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ مروی روایات میں جلسہ استراحت کا ثبوت موجود ہے ۔
عن ابی قلابۃ قال اخبرنی مالک بن الحویرث اللیثی أنہ رَأَیَ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّی فَإِذَا کَانَ فِی وِترٍ مِن صَلٰوتِہِ لَم یَنہَضَ حَتَّی یَستَوِیَ قاَعِداً۔ (صحیح بخاری ، ۱/۱۱۳ ، باب من استوی قاعدا فی وتر من صلوتہ ثم نہض ۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۳۱۳ ، باب کیف النہوض فی المفرد ۔ سنن النسائی ۱/۱۳۶ ، باب الاستواء للجلوس عند الرفع من السجدتین )
ترجمہ:مالک بن حویرث کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑ ھتے دیکھا جب پہلی اور تیسری رکعت میں ہوتے تو نہ کھڑ ے ہوتے جب تک برابر ہوکر نہ بیٹھتے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ جلسہ سنت ہے اور کان کا لفظ استمرار پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کسی عذر کی وجہ سے نہ تھا۔
نمازی جلسہ استراحت کے بعد کیسے کھڑ ا ہو؟
جلسہ استراحت کے بعد جب نمازی کھڑ ا ہوتو اسے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر ان کا آسرا لے کر کھڑ ا ہونا چاہیے ۔
مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہوئے ابو قلابہ نے بیان کیا ہے کہ سیدنا مالک بن حویرث رحمہ اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑ ھائی اور فرمایا میں تمہیں نماز پڑ ھاتا ہوں میرا نماز کا کوئی ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے نبی محترم ﷺکیسے نماز پڑ ھتے تھے ؟
ابو قلابہ کے شاگرد ایوب نے ان سے پوچھا کہ سیدنا مالک رضی اللہ عنہ کی نماز کیسے تھی ؟ انہوں نے عمرو بن سلمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ان شیخ کی نماز جیسی تھی ۔
ایوب کہتے ہیں وہ شیخ(عمرو بن سلمہ) جب دوسرے سجدسے سے سراٹھاتے تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ہاتھ رکھتے ، پھر کھڑ ے ہوتے ۔( صحیح بخاری ، سنن ابی داؤد ، سنن النسائی ، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ۱/۲۳۷ ، باب کیف النہوض من السجود)
معلوم ہوا کہ یہ جلسہ سنت ہے تبھی تو سیدنا مالک رحمہ اللہ نے یہ بتایا اور کر کے دکھایا اور دیگر لوگ بھی اس کے عامل رہے ۔ یادرہے کہ کسی امتی کے کسی عمل کو ترک کر دینے سے اس عمل کا سنت ہونا مشکوک نہیں ہوجاتا۔
نمازی زمین پر ہاتھ کیسے رکھے ؟
سابقہ بحث سے واضح ہوا کہ جلسہ استراحت مسنون ہے جلسہ کے بعد قیام کو جاتے ہوئے زمین پر ہاتھ رکھنے چاہیں اب آخری ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ نمازی جلسہ کے بعد زمین پر ہاتھ کیسے رکھے ؟ ہاتھ کھلے ہوں یا مٹھی بند ہو؟۔
اس بارے میں محدث العصر الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ مٹھی یوں بند ہو جیسے آٹا گوندھنے والا بند کرتا ہے ۔ انہوں نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (۲/۳۹۲) میں ایک حدیث نقل کی ہے ۔ لفظ یہ ہیں :
اخرج ابو اسحق الحربی فی غریب الحدیث (۵/۹۸/۱) عن الأزرق بن قیس رَأَیتُ ابنَ عُمَرَ یَعجِنُ فِی الصَّلٰوۃِ یَعتَمِدُ عَلیَ یَدَیہِ اِذَا قَامَ فَقُلتُ لَہُ : فَقَالَ: رَاَیتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ یَفعَلُہُ ۔
ازرق بن قیس فرماتے ہیں میں نے سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا جب کھڑ ے ہوتے تو ہاتھوں کو ٹیکتے اور آٹا گوندھنے والے کی طرح ہاتھ رکھتے ۔ ازرق کہتے ہیں کہ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا ، تو انہوں نے جواب دیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۔ یادر رہے کہ اس اثر کی سند کو شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے ۔
النہایہ فی غریب الحدیث میں ابن الاثیر نے یعجن کا معنی لکھا ہے کہ ہاتھ کو آٹا گوندھنے والے کی طرح رکھا جائے ۔ جلسہ استراحت کے اثبات میں مالک بن حویرث کی حدیث بروایت ابی قلابہ بحوالہ صحیح بخاری اوپر ذکر ہو چکی ۔ کرمانی کے حوالے سے اس حدیث کے حاشیہ پر صحیح بخاری میں ہے ۔
قال الفقہاء : یعتمد کما یعتمد العاجن للخمیرکہ ہاتھ یوں رکھے جیسے آٹا گوندھنے والار کھتا ہے ۔
پس علامہ الالبانی رحمہ اللہ اور علامہ کرمانی کے حوالوں سے جلسہ استراحت کے بعد قیام کیلئے کھڑ ے ہوتے وقت زمین پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت متعین ہوگئی۔
استاذ الاساتذہ الحافظ محمد صاحب محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں نے ہم سے بیان کیا کہ محترم حافظ صاحب رحمہ اللہ کا عمل بھی اس کے مطابق تھا۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی ﷺ

از محمد طیب معاذ
قسط نمبر : 6


محترم قارئین کرام ! اللہ احکم الحاکمین نے اپنی خاص حکمت کے تحت صبح کے وقت کو انتہائی بابرکت وقت بنایا ہے ، ہمیں چاہیے کہ ہم اس وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں تاکہ یہ ساعات قیامت کے دن ہمارے لئے مسعود ثابت ہوں ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ فجر کے بعد اس وقت تک اپنی جگہ پرذکر الٰہی میں مشغول رہتے جب تک سورج طلوع ہوکر بلند نہ ہوجاتا۔ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر :۶۷۰ ، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ )
اور دوسری حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپ۔نے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکر کرنے والے خوش بخت لوگوں کیلئے مغفرت کی دعا کرو۔ (صحیح بخاری ، ۴۷۷ ، کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ فی مسجد السوق ۔ عن أبی ہریرۃ )

خادم رسول ﷺ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگ جو کہ نمازِ فجر سے لیکر طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے ہیں میں ان کے ساتھ بیٹھنا افضل اور بہتر سمجھتا ہوں اس چیز کے مقابلے میں کہ میں اولادِ اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام اللہ کی رضا کیلئے آزاد کروں ۔
یعنی کہ صبح کے وقت مسجد میں بیٹھ کر ذکر واذکار میں مشغول رہنا چار غلام آزاد کرنے سے بہتر اور افضل عمل ہے ۔
نمازِ چاشت کی فضیلت
۱۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوع آفتاب تک ذکر کرتارہتا ہے پھر اشراق کی دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو اس کے نامہ عمل میں ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے آپ ﷺ نے تامۃ (مکمل ) کے الفاظ تاکیداً تین دفعہ کہے ۔
۲۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے ابن آدم دن کے اول حصے میں میرے لئے چار رکعت پڑ ھ اس کے آخر میں (یعنی دن کے آخر میں ) میں تیرے لئے کفایت کرونگا یعنی کہ چاشت کی چار رکعتیں ادا کرنے والا خوش نصیب سارا دن اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے ۔
۳۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص صبح اٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے اسی طرح ایک بار اللہ اکبر اور لا إلہ إلا اللہ کہہ دینا بھی صدقہ ہے کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعتیں ان تمام امور سے کفایت کرجاتی ہیں ۔
۴۔سید الفقہاء أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں ان چیزوں کو مرتے دم تک نہ چھوڑ وں ۔
۱۔ ہر مہینے تین دن روزے رکھوں
۲۔ چاشت کی نماز پابندی سے ادا کروں
۳۔ سونے سے پہلے وتر پڑ ھوں
نماز چاشت کا حکم
نمازِ چاشت کی مشروعیت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں چھ(6) اقوال ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ صحیح اور راجح یہی ہے کہ اشراق کی نماز مستحب اور سنت ہے نہ کہ واجب یا فرض
دلیل : عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ ﷺ یصلی الضحی حتی نقول لا یدع ویدعہا حتی نقول لا یصلی ۔ (رواہ الترمذی ، کتاب الصلاۃ ، حدیث نمبر :۴۳۹ وأخرجہ الحاکم بحوالہ فتح الباری ص/۷۲، ج/۳، دار السلام فیہ ضعف )
ترجمہ :سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل مکرم ﷺ نمازِ اشراق ادا کرتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ اسے ترک نہ کریں گے پھر اسے ( نمازِ اشراق کو) چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب آپ ﷺ اسے نہیں پڑ ھیں گے ۔
نمازِ چاشت کا وقت
چاشت کی نماز کا سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہوجانے سے شروع ہوکر زوال آفتاب تک باقی رہتا ہے لیکن اگر اس کو زوال سے پہلے سورج کی تپش کے وقت پڑ ھا جائے تو اس وقت ادا کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے ۔
دلیل : عن زید بن أرقم رضی اللہ عنہ قال خرج رسول اللہ ﷺ علی اہل قباء وہم یصلون الضحی فقال صلاۃ الاوابین إذا رمضت الفصال من الضحی ۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول عربی ﷺ اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نمازِ چاشت ادا کر رہے ہیں آپ ﷺ فرمایا کہ اوابین کی نماز تو اس وقت ہوتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں گرم ہوجائیں یعنی جب زمین سورج کی تپش کی شدت سے گرم ہوجائے ۔( صحیح مسلم )
تعدادِ رکعات
رسول ا کرم ﷺ کے قول مبارک کے مطابق نمازِ چاشت کی کم ازکم 2 رکعتیں ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ فعل مبارک کے مطابق چاشت کی نماز چار اور آٹھ رکعات تک منقول ہیں ۔ جبکہ 12 رکعت والی حدیث کو علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
دلیل : 2 رکعتیں
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص صبح اٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے اسی طرح ایک بار اللہ اکبر اور لا إلہ إلا اللہ کہہ دینا بھی صدقہ ہے کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعتیں ان تمام امور سے کفایت کرجاتی ہیں ۔
دلیل : 4 رکعتیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ چاشت کی چار رکعتیں پڑ ھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی زیادہ بھی پڑ ھ لیتے تھے ۔ ( صحیح مسلم ، عن عائشہ )
دلیل : 8 رکعتیں
ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے روزدن چڑ ھنے کے بعد آئے کپڑ ا لا کر پردہ کیا گیا پھر آپ ﷺ نے غسل کے بعد آٹھ رکعتیں نمازِ چاشت ادا کی۔ (صحیح مسلم)
غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ مغرب کے بعد چھ رکعت نماز کو اوابین کی نماز سمجھتے ہیں حالانکہ اوابین اور چاشت کی نماز ایک چیز کے دو مختلف نام ہیں ۔ چاشت کے وقت پڑ ھی جانے والی نماز ہی کو صلاۃ الاوابین کہتے ہیں اور مغرب کے بعدچھ رکعتیں پڑ ھنے والی روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔ ( تفصیل ترغیب وترہیب للمنذری ، فتح الباری لابن حجر میں ملاحظہ فرمائیں )
لا یحافظ علی صلاۃ الضحی إلا أواب ۔ (الترغیب والترہیب ۹۷۷ حسن)
نمازِ چاشت کی حفاظت اوّاب شخص ہی کر سکتا ہے
اواب
یعنی جس شخص میں کثرت کے ساتھ رجوع إلی اللہ کی صفت ہو اس کو اواب کہتے ہیں ۔
خاتمہ : محترم قارئین کرام! آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی اسوۂ حسنہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
جاری ہے
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تحریک ختمِ نبوت اور تاریخِ اہلِ حدیث کے عظیم مصنف

از محمد رمضان یوسف
پہلی قسط

ڈاکٹر محمد بہاء الدین اور ان کی خدمات

ڈاکٹر محمد بہاء الدین حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے اس گروہ با صفا سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اپنی وجماعتی خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ان کا شمار عصر رواں کے نامور قلم کاروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے قلم وقرطاس کے ذریعہ تاریخ کے سینے پر ان مٹ نقوش ثبت کئے ہیں ، اب ان کا شمار برصغیر پاک وہند اور برطانیہ کی جماعت اہلحدیث کے چوٹی کے مصنفین میں ہونے لگاہے اور لوگ انہیں تحریک ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث کے محقق ومؤرخ کے طور پر جاننے لگے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب برصغیر پاک وہند کی مذہبی وسیاسی تحریکوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں اور ان سے متعلق موضوعات پر انہیں کامل دستگاہ حاصل ہے ۔ ان کا مطالعہ وسعت پذیر اور ذہن اخاذ ہے ۔
اللہ رب العزت نے ان کو علم وتحقیق کے جوہر سے خوب بہرہ مند فرمایا ہے ۔ مسلک اہل حدیث سے انہیں بے پناہ شیفتگی ہے اور آپ بابائے تبلیغ مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری حفظہ اللہ کے صاحبزادہ گرامی قدر ہیں ۔ اپنے عالی قدر باپ کی طرح علم وفضل میں صاحب کمال ہیں ۔ تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل دھاریوال ضلع گرداسپور(ہند) میں پیدا ہوئے ان دنوں ان کے والد محترم ، و ولن ملز دھاریوال میں مسجد اہل حدیث کے خطیب وامام تھے انہوں نے اپنے عظیم المرتبت استاد مولانا عطاء اللہ (شہید) کے صاحبزادے حافظ محمد سلیمان (وفات ۲۹ اگست ۲۰۰۸ء) کی علمی استعداد اور ذہانت اور فطانت سے متاثر ہوکر اپنے بیٹے کا نام محمد سلیمان رکھا جس نے آگے چل کر محمد بہاء الدین کے قلمی نام سے شہرت دوام حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبد اللہ افراد خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور رائے ونڈ ضلع لا ہور میں مقیم ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ۱۹۴۹ء میں بورے والا ضلع ملتان (حال ضلع وہاڑ ی) میں سکونت اختیار کر کے وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں فریضہ امامت وخطابت انجام دینے لگے ۔ محمد بہاء الدین نے بوریوالا ہی میں شعور کی آ۔نکھ کھولی اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کیا ۔ قرآن پاک ، قاری خدا بخش مرحوم سہارنپوری سے مدرسہ محمدیہ میں پڑ ھا۔ ترجمۃ القرآن ، صرف ونحواور حدیث شریف کی ابتدائی کتابیں اپنے والد گرامی سے پڑ ھیں ۔ عربی کی تعلیم مقامی ہائی ا سکول میں مولانا محمد افضل فرید کوٹی سے حاصل کی جو مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے دینی تعلیم کے ساتھ ا سکول وکالج میں عصری تعلیم بھی حاصل کی۔ بورے والا ڈگری کالج میں ۱۹۶۸ء میں اول آنے پر گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لا ہور میں دو سال زیر تعلیم رہ کر علوم اسلامیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پورے پنجاب کے طلباء میں امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر یونیورسٹی گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ (یادرہے کہ اس وقت پاکستان پنجاب میں ایک ہی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی) اس کے بعد اسی یونیورسٹی میں ایک سال مزید زیر تعلیم رہ کر عربی میں ایم اے کیا۔
ایم اے عربی کی تعلیم کے دوران ہی انہیں جامعہ سلفیہ لائل پور(حال فیصل آباد) میں انگریزی زبان کے استاد کی حیثیت سے متعین کر دیا گیا اور یوں وہ لا ہور اور فیصل آباد کے درمیان تقسیم ہوگئے ۔ جامعہ سلفیہ میں بی اے کرنے کے خواہشمند طلباء کو انگریزی پڑ ھانے کے علاوہ جامعہ کی لائبریری کا انچارج بھی انہیں بنا دیا گیا اور ان کی کوشش سے یہ لائبریری مدارس اسلامیہ کی بڑ ی اور منظم لائبریریوں میں شمار ہونے لگی۔
کچھ عرصہ بعد انہوں نے سرکار کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوکر سیالکوٹ کے ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دئیے ۔ بعد ازاں لا ہور کے ایک مشہور کالج میں پڑ ھایا کچھ عرصہ بہاولپور یونیورسٹی میں تاریخ اسلام اور تقابل ادیان کے مضامین پڑ ھاتے رہے ۔ برطانیہ کی اڈنبرایونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر ڈاکٹریٹ کی بعد میں چند سال اسی یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلو کی حیثیت سے تحقیقی کاموں میں منہمک رہے ۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے لیسٹر یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر سوشل ورک میں ایم اے کیا اس کے بعد بحالی مجرمین کے ایک محکمے میں کچھ عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد خرابی صحت کی بنا پر ریٹائر ہوگئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ہی قلم وقرطاس اور تحریر وتقریر سے ناطہ جوڑ لیا تھا ہائی ا سکول میں تعلیم کے دوران انہیں بہترین مقرر Best Orator کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا گیا۔ بورے والا ڈگری کالج کے میگزین الفرید کے اڈیٹر رہے بہاولپور یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے مجلہ بصائر کے انچارج رہے ۔ علامہ احسان الہی ظہیر کے ترجمان الحدیث لا ہور کی مجلس ادارت میں کچھ عرصہ شامل رہے ۔
ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مضمون نگار اور صاحب علم و محقق ہیں ان کے علمی وتحقیقی مضامین معروف رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ان معروف رسائل میں ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ہفت روزہ الاعتصام لا ہور۔ ماہنامہ معارف ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور ، ماہنامہ محدث لا ہور، ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور، ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک، ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ، ماہنامہ سٹریٹ پاتھ برمنگھم ، دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ محدث بنارس اور ماہنامہ البلاغ ممبئی ، جریدہ ترجمان دہلی شامل ہیں ۔
رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے چند تحقیقی مضامین کے عنوان یہ ہیں :
شریف مکہ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۷ جنوری ۱۹۷۱ء) سرگذشت یہود (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین) ، یہود کا مذہبی لٹریچر (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین۹، کنعان کنعانیوں کا ہے (کئی اقساط پر مشتمل مضمون ، ماہنامہ محدث لا ہور جلد ۸، ۱۳۹۸ھ)، تحریک ختم نبوت میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی خدمات۔(ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کے آئینے میں (ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام تاریخ کے آئینے میں ( ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) (عہد رسالت ﷺ کے ) قریش کی حربی صلاحیت(ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) عبد المطلب اور بنو خزاعہ کا باہمی معاہدہ اور عہد رسالت میں اس کے اثرات (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) تحریک آزادی کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) ، شاہ احمد رضا خان (الحق اکوڑ ہ خٹک میں تحریک آزادی پرشائع ہونے والے ان کے ایک طویل مضمون کو مولانا عطاء اللہ حنیف نے مختصر کتابچے کی صورت میں شائع کروایا ) ، خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق ، کتب شیعہ کی روشنی میں (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت ، پیغمبر ﷺ کا وصی کون ( کتب شیعہ کی روشنی میں ۔ ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک ستمبر ۱۹۷۶ء) ، سیدہ ام کلثوم بنت محمد ﷺ ( ماہنامہ محدث لا ہور ) ، امام دار الجہرۃ(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ( حضرت خضر علیہ السلام ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ۶۔ اپریل ۱۹۷۳ء) ، ذکر محبت ( ہفت روزہ اہلحدیث لا ہور ) ، برطانوی ہند میں جہاد کی بحث ( دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ البلاغ ممبئی) ، اہل الرائے اور اہل الحدیث ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور۱۲ مارچ، ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء) ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۲۳ ، ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء) قبل بدر مہمات کے شرکاء اور مقاصد ، سید احمد شہید کا سرکہاں دفن ہے ؟ (ہفت روزہ اہل حدیث لا ا ہور ) ، تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دو سال ، تحریک ختم نبوت کے گمشدہ اوراق ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور) ۱۹۷۸ء کئی اقساط) ، تحریک ختم نبوت کا میرکارواں کون ۔ مہر علی گولڑ وی یا محمد حسین بٹالوی ؟ ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۱۷اگست ۲۰۰۱ء) ، (تحریک ختم نبوت میں ) قصہ ایک کرسی کا ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) ، (تحریک ختم نبوت کے دوران) جلسہ لا ہور ۱۹۰۰ء (ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، مباحثہ دیوبند ۱۸۸۵ء ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) مدرسہ رحیمیہ دہلی ( ماہنامہ محدث لا ہور) کیا حضرت عمر رضی اللہ نے سزائے قطع ید منسوخ کر دی تھی؟ تحریک ختم نبوت کے بانی(ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، کوفیوں کے خطوط بنام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کہاں گئے ؟ (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) جامع اموی دمشق (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، اصحاب ثلاثہ (حافظ محمد لکھوی، سید عبد اللہ غزنوی ، مولانا غلام رسول قلعوی ) کا سفر دہلی ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ) الطاف حسین حالی کی ، حیات جاوید ، سے ایک اقتباس ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، آیا تھا جب مزاج ترا امتحان پر ، شیخ الکل کا سفر حج اور مقلدین کا متحدہ محاذ ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور ) بالاکوٹ سے چمرقند ، آمادہ بقتل من آں شوخ ستم گارے ، شیخ الکل کی سیاسی زندگی ، فضل حق خیر آبادی (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) وغیرہ۔تحریک ختم نبوت پر ان کا لکھا جانے والا ساٹھ اقساط پر مشتمل مضمون کئی سال تک ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں شائع ہوتا رہا اور ہند وپاک کے چند جماعتی جرائد میں بھی اس کی جستہ جستہ اقساط شائع ہوتی رہیں ، ارو اس کے بعض حصوں کو ہند ی اورعربی میں ترجمہ کر کے بھی شائع کیا گیا۔ تقسیم ہند سے قبل اکمل البیان فی تائید تقویۃ الإیمان از مولانا عزیز الدین مراد آبادی کے بعد اہل حدیث کے صحافی تاریخ کا شائد یہ طویل ترین مضمون ہے ۔
ان عنوانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع کس قدر اہمیت کے حامی ہیں اور محترم ڈاکٹر صاحب نے ان مضامین میں خوب داد تحقیق دی ہے اور اپنی وسعت معلومات سے تاریخی حقائق کھول کر بیان کئے ہیں ۔ کسی صاحب ذوق کو چاہیے کہ ان مقالات کو رسائل سے نکال کر ترتیب دے کر شائع کر دے ۔ یہ بہت بڑ ی دینی وعلمی خدمت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے مضامین ہفت روزہ الاعتصام شیش محل روڈ لا ہور کی لائبریری سے مل سکتے ہیں کہ وہاں بہت سے رسائل وجرائد کی فائلیں موجود ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے دوست جناب ضیاء اللہ کھوکھر، مدیر عبد المجید کھوکھر لائبریری ۸۳ بی ماڈل ٹاؤن گوجرنوالہ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے پاس بھی رسائل وجرائد کا وسیع ذخیرہ موجودہے ۔
ڈاکٹر بہاء الدین تصنیف وتالیف کا بڑ ا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں ۔ ان کی کتابوں میں عقیدے کی پختگی ، فکر کی بلندی ، تاریخی حالات و واقعات کی صحت وثقاہت ، توحید وسنت کا احیاء اور مسلک اہل حدیث کی حقانیت کے پہلو نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ قلم کی زبان نہایت شستہ وسلیس اور ندرت کا پہلو لئے ہوئے ہے ان کی تحریر میں علمی شان اور مؤرخانہ بصیرت واضح دکھائی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے رواں اور پربہارقلم سے جو علمی تاریخی اور تحقیقی کتب معرض وجود میں آئی ہیں اس کی تفصیل یہ ہے-
٭ تحریک ختم نبوت۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ نہایت بلند پایہ تاریخی کتاب ہے اس میں انہوں نے علماء اہل حدیث کی فتنہ مرزائیت کے خلاف خدمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ۱۸۹۱ء سے ۱۹۱۲ء تک کے دور کی تاریخ پر مشتمل اس کتاب کی چارہزار صفحات پر مشتمل ۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ دو جلدیں مزید تیار ہیں اور آگے یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔
یہ قاموسی انداز کا تاریخی نوعیت کاکام ہے جس میں تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دور کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اس ضمن میں انہوں نے مرزا قادیانی اور اس کے قریبی لوگوں کی کتابوں سے اس کے افکار ونظریات عقائد باطلہ ، ہفوات وکذبات اور اس کی پیش گوئیوں کو نقل کر کے اس کی سخت گرفت اور نکیر کی ہے اور زیر نظر دور میں ان موضوعات پر پیدا ہونے والے لٹریچر کے احیاء کی کوشش کی ہے ۔ اپنے موقف کی تائید میں سینکڑ وں حوالے دیئے ہیں اور اس کے علاوہ بعض جلدوں میں شخصیات کاعنوان دے کر اس دور کے مجاہدین ختم نبوت کے مساعی کا دل آویزتذکرہ کیا ہے اس کتاب میں علمائے اہل حدیث کی ردّ قادیانیت پر نادر ونایاب تحریریں بھی شامل کر دی گئی ہیں جوکہ مورد زمانہ کے سبب ناپید ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف جاری ہونے والے پہلے متفقہ فتوی تکفیر کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے اور اس فتوی کے مرتب کرنے والے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کے ماہنامہ اشاعۃ السنہ کا ایک تہائی حصہ جو کہ ردّ قادیانیت پر تھا، ایڈٹ کر کے تلخیص واختصار کے ساتھ اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے ۔(چند سو صفحات کا موادتاحال میسر نہیں ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایات کے نتیجے میں وہ مواد میسر آ گیا تو اسے بھی کسی آئندہ جلد میں شامل کرنے کا ارادہ ہے ) اسی طرح شحنہ ہند میرٹھ کے ضمیمہ سے رد قادیانیت پر قیمتی مواد ، اور قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تائید الاسلام اور غایۃ المرام ، مولانا محمد اسماعیل علی گڈھی کی اعلاء الحق الصریح اور مولانا محمد بشیر سہسوانی کی الحق الصریح فی حیائۃ المسیح اور مولانا عبد المجید دہلوی کی بیان للناس ، مولانا عبد اللہ شاہجہاں پوری کی شفاء للناس، مولانا محمد حعفر تھانیسری کی تائید آسمانی ، شیخ غلام حیدر کی عشرہ کاملہ ، مولانا ثناء اللہ کی شاہ انگلستان اور مرزا، اور ان کی تفسیر ثنائی رد قادیانیت کے مضامین ، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی الخبر الصحیح، اور شہادۃ القرآن ملخصاً ، اس کتاب میں شامل کر دی گئی ہیں ۔
شیخ الاسلام مولانا امر تسری رحمہ اللہ کے اخبار اہل حدیث سے بیسیوں واقعات اور حوالے جو مرزائیوں کے خلاف تھے اس کتاب میں دئیے گئے ہیں ۔ اس کتاب کو پڑ ھ کر قاری کو صحیح حقائق اور قادیانیت کے خلاف علمائے اہل حدیث کی مساعی سے کامل آگاہی ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لائق مصنف نے تاریخی حقائق بیان کرنے میں مسلکی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ وسعت ظرفی سے کام لیتے ہوئے اس دور میں بعض دوسرے مسالک کے بزرگوں کی خدمات کو بھی بیان کیا ہے جن میں مولانا غلام دستگیر قصوری ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا محمد لدھیانوی، مولانا عبد العزیز لدھیانوی، مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، مولانا کرم الدین بھیں ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا احمد رضا خان بریلوی وغیرہ شامل ہیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اسلام کا نوجوان

از محمد سفیان

نوجوان کسے کہتے ہیں ؟
کسی بھی معاشرے ، جماعت یا قوم کے لئے نوجوان ریڑ ھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں ، معاشرے کا انقلاب انہی کے دم سے وابستہ ہے ۔ اگر کسی قوم کے نوجوان بگاڑ اور فساد کا شکار ہوجائیں تو پوری قوم تنزلی اور پستی کا شکار ہوجاتی ہے ، لیکن اگر نوجوان صحیح سمت اختیار کریں تو پوری قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی دنیا و آخرت میں اپنا نام روشن کرتی ہے ۔
اسلامی لغت کے اعتبار سے نوجوان سخت جان، سخت طبیعت اور پختہ عقل ، بردبار، عقلمند اور باشعور انسان کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نوجوانوں کے لئے ہمیشہ لفظِ اَشُدَّہٗ (سختی) کا استعمال کیا ہے ۔

اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے اسے انتہائی تکلیف کے ساتھ (اپنے پیٹ میں ) اٹھائے رکھا اور انتہائی تکلیف کے ساتھ جنم دیا، اس کے حمل اور دودھ پلانے کی مدت تیس ماہ ہے ، ﴿حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہُ﴾ حتیٰ کہ جب وہ سختی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں تیری ان تمام نعمتوں کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں شکریہ ادا کروں اور میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میری خاطر میری اولاد کی بھی اصلاح فرمادے ، بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ (الاحقاف:۱۵)
اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے میں کوئی شک ہے تو (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر خون کے لوتھڑ ے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل صورت میں بھی ہوتی ہے اور غیر مکمل بھی، تاکہ ہم تم پر اپنی قدرت کو واضح کر دیں ، پھر ہم جس نطفہ کے متعلق چاہتے ہیں ‘ اور رحموں میں ایک خاص مدت تک جمائے رکھتے ہیں ، پھر تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں ، ﴿ثُمَّ لِتَبلُغُوآ اَشُدَّکُم﴾ تاکہ پھر تم اپنی (جوانی کی) سختی کو پہنچو۔ (الحج: 5)
اور یتیم کے مال کے قریب بھی مت جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو اس (یتیم) کے حق میں بہتر ہو، حتیٰ کہ وہ سختی کی عمر (جوانی) کو پہنچ جائے ۔ (الانعام:152)
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ، پس جب تم ان میں بردباری محسوس کر لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔ (النساء:6)
ابتدائی تین آیات میں اللہ تعالیٰ نے نوجوانی کو سختی کی عمر سے تعبیر کیا ہے ۔ اور چوتھی آیت میں نوجوانی کو نکاح کی عمر اور بردباری سے تعبیر کیا ہے ۔ جو کہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ شرعی اعتبار سے نوجوانی یا جوانی کی عمر سخت اور کٹھن کام کرنے ، نکاح کرنے اور بردباری اور فہم و بصیرت کی عمر ہے ۔
ان آیاتِ مقدسہ کی روشنی میں مسلمان نو جوان ذرا اپنی جوانیوں کو دیکھیں کہ کیا ان کی جوانی واقعتا کوئی سخت، محنت طلب اور کٹھن کام کر نے کے قابل ہے یا نہیں ؟ اور کیا جوانی کے ساتھ ان کے پاس عقل و شعور اور فہم و بصیرت کی دولت بھی ہے یا نہیں ؟
مگر یہ انتہائی افسوس ناک صورتِ حال ہے کہ آج کے مسلمان نوجوان ان دونوں چیزوں سے یکسر خالی اور بے نیاز ہیں ۔ آج کا مسلمان نوجوان انتہائی نازک مزاج، حساس طبیعت اور کمزور عقیدہ کا حامل اور اس قدر توہم پرست ہے کہ اس پر عورت ہونے کا گمان ہوتا ہے ۔ ذرا سی تکلیف اسے بے چین کر دیتی ہے ، جب کوئی اس کے بارے میں کوئی بات کہے تو اس کی نازک مزاجی کو آبگینہ کی طرح ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کی حساس طبیعت اسے دوسرے کے خلاف اپنے دل میں عداوت اور بغض رکھنے پر آمادہ کر دیتی ہے ۔
اور عقل و شعور اور فہم و بصیرت سے اس کی دوری کا یہ عالم ہے کہ جو بندہ جب چاہے لیڈر یا قائد کے رُوپ میں آ کر اسے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر استعمال کر لیتا ہے اور اس نوجوان کی تسلی و تشفی کے لئے چند دلکش اور خوبصورت نعرے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے ہاتھ میں جھنڈے کی صورت میں تھما دیتا ہے ، جس طرح کسی چھوٹے سے بیوقوف بچے کو جھوٹی اُمیدوں میں الجھایا جاتا اور اس کے ہاتھوں میں کھلونا دے کر اسے بہلایا جاتا ہے ۔ اور پھر راہنما نوجوان کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑ ھا کر اسے اس طرح بھول جاتا ہے کہ گو یا کبھی دنیا میں اس کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور پھر اس کی جگہ لینے والے کئی اور نوجوان موجود ہوتے ہیں ۔
نوجوانی کا سب سے بڑ ا سرمایہ‘ دوستی اور دشمنی
جب انسان بلوغت تک پہنچتا ہے تو لازماً اس کی ترجیحات و ترغیبات میں بہت زیادہ رد و بدل ہوتا ہے ۔ کچھ نئی دوستیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ نئی دشمنیاں بھی۔ لیکن کیا کوئی مسلمان نوجوان ایسا بھی ہے جس نے دوستی اور دشمنی کے کچھ معیار بھی بنارکھے ہوں کہ میرا دوست کون بنے اور میرا دشمن کون؟ حالانکہ اسلام نے ہر مسلمان کو وہ معیار بطورِ رہنمائی عطاکیا ہوا ہے ، دیر صرف ہمارے قرآن و حدیث کو کھول کر پڑ ھنے کی ہے ۔
دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار: دینِ اسلام کا ہر معاملہ میں سب سے پہلا معیار اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول ہے ۔ یہی معاملہ دوستی اور دشمنی کا بھی ہے ۔ نبی کریم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے :
جس نے اللہ کیلئے کسی سے محبت کی اور اللہ کیلئے کسی سے بغض رکھا، اللہ کیلئے کسی کو کچھ دیا اور اللہ کیلئے کسی کو دینے سے منع کیا تو اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔ (ابوداؤد:ح، ۴۰۶۱)
یعنی محبت، دوستی اور اتحاد، دشمنی، بغض اور نفرت کا اسلامی معیار‘ ذاتی، انفرادی، اجتماعی، یا تنظیمی مفادات نہیں ، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے ۔
دوستی اور دشمنی کے دنیا و آخرت میں گہرے اثرات: دوستی اور دشمنی کا دنیا و آخرت کے حوالے سے بہت ہی گہرا تعلق ہے ، حتیٰ کہ کسی بھی انسان کے اُخروی انجام کو دنیا میں دیکھنے کے لئے اس کے دوستوں کو دیکھ لینا کافی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کے فرامینِ عالیہ ملاحظہ فرمائیں : ہر آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہٰذا تم میں سے ہر کوئی ضرور دیکھے کہ اس کا دوست کون ہے ؟ (ابوداؤد: ح، ۴۱۹۳/ ترمذی: ح، ۲۳۰۰)
(قیامت کے دن) آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ (دنیا میں ) محبت کی ہو گی۔ (صحیح بخاری: ح، ۵۷۲۰/ صحیح مسلم: ۴۷۷۹)
دنیا میں کسی برے دین و اخلاق و کردار کے حامل انسان سے دوستی کرنے والا قیامت کے دن حسرت و ندامت سے چیخ و پکار کرے گا۔
ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ ربُّ العزَّت کے فرامین ملاحظہ ہوں : اے کاش! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو میرے پاس (اسلام کی) نصیحت آجانے کے بعد مجھے بہکادیا۔
(الفرقان:۲۸۲۹)
ئتمام گہرے دوست اس(قیامت کے ) دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے ، سوائے پرہیزگاروں ہے ۔ (الزخرف:۶۷)
وہ نوجوان جو دنیا میں اپنی دوستیوں ، محبتوں اور اتحادوں پر فخر محسوس کرتے ہیں ‘ ذرا اِن کے اُخروی انجام پر بھی ضرورغور کریں ۔ اس لئے کہ قیامت کے دن انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہو گا، نہ کوئی تنظیم اور نہ ہی کوئی اتحاد، بلکہ اس دن اس کا مال و دولت اور کسی کی سفارش بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں : اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے کہ جب نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کسی کی سفارش۔ (البقرہ:۲۵۴)
اس(قیامت کے ) دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد۔ اِلاّ یہ کہ کوئی فرمانبردار دل لے کر اللہ کے پاس حاضر ہو۔ (الشعرآء:۸۹۔۸۸)
نوجوان اور گمراہ کن تحریکیں
نوجوانوں کی مثال ایک ایسے برتن کی مانند ہوتی ہے جو بالکل خالی ہو اور پھر اس میں جو چیز بھی ڈالی جائے برتن اس سے بھر جاتا ہے ۔ اسی طرح نوجوان کا ذہن بھی جوانی کی دہلیز پر پہنچنے تک بالکل خالی ہوتا ہے ، اس میں جس طرح کے بھی خیالات ڈالے جاتے ہیں ‘ ذہن انہیں قبول کر لیتا ہے اور پھر وہی اچھے یا برے خیالات اس کے دین، اخلاق و کردار اور معاشرتی ادب و آداب کی بہتری یا برائی کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔
اور وہ لوگ جو دینی گمراہیوں ، شیطانی طاقتوں اور فحاشی و عریانیت کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں ‘ وہ ایسے نوجوانوں کو اپنا خصوصی ہدف بناتے ہیں اور ان کے سامنے دنیا کی رنگینیوں اور عیاشیوں کی ایسی دلکش اور خوشنما تصویر پیش کرتے ہیں کہ نوجوان بغیر سوچے سمجھے اور اپنے اُخروی انجام سے بے پرواہ ہو کر مقناطیسی کشش کی مانند ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں ۔
لیکن اس حوالے سے اگر نوجوان اپنی فطری صلاحیتوں کا صحیح استعمال کریں ، گمراہ کرنے والے لوگوں کی گمراہ کن باتوں سے اپنا دامن بچاکر رکھیں ، ان سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیں اور خالصتاً قرآن و حدیث سے اپنا دامن وابستہ کر لیں تو کچھ بعید نہیں کہ یہ ساری گمراہ کن تحریکیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔
جوانی کس طرح گزاریں ؟
نوجوانی کی عمر عموماً ‘ لا اُبالی، گنا ہوں کی طرف میلان، من مانی، کھیل کود، دولت جمع کرنے کی لگن، عشق و محبت، محنت اور جد و جہد کی عمر کہلاتی ہے ۔
اسلام میں نوجوانوں کے لئے ان تمام چیزوں کے بارے میں مکمل راہنمائی موجود ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء : میں اس عمر کو نکاح اور بردباری کی عمر قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ نکاح نوجوان کو گنا ہوں سے بچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے ۔ رسولِ ا کرم ﷺ نے فرمایا:
اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کر لے ، اس لئے کہ نکاح نگا ہوں کو جھکاتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری: ح، ۴۷۷۸/ صحیح مسلم:ح، ۱۴۰۰)
اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے والے لوگوں سے مال و دولت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے :
اور تم میں سے جو مرد و عورتیں بے نکاح ہیں ‘ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں مالدار کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے ۔ (النور:۳۲)
اور عشق و محبت کی صداقت اور پائیداری بھی صرف نکاح کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
رسولِ ا کرم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے : ہم نے دو محبت کرنے والوں (کی محبت) کو نکاح سے زیادہ (پائیدار) نہیں دیکھا۔ (سنن ابن ماجہ:ح، ۱۸۴۷/ السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی، ج:۲، ح، ۶۲۴)
اسی طرح اگر نوجوان اپنی عمر کو لا اُبالی پن، کھیل کود اور غیر اَخلاقی کاموں میں لگانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن اپنا سایہ عطا فرمائے گا۔
سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اُس (قیامت کے ) دن اپنا سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا:( ۱) انصاف کرنے والا حکمران (۲ ) وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری (۳) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہے (۴) وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں محبت کریں ، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں (۵) وہ آدمی جسے کوئی اونچے مرتبے والی خوبصورت عورت دعوتِ گناہ دے مگر وہ یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، (۶) وہ آدمی جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کے صدقے کا علم نہیں ہوتا۔ (۷) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں ۔(صحیح بخاری: ح، ۶۲۰/ صحیح مسلم:ح، ۱۰۳۱)
م! اللہ تعالیٰ کی نوجوانوں پر اپنے فضل و انعام کی اس سے زیادہ تیز بارش اور کیا ہو گی کہ مذکورہ سات خوش نصیبوں میں سے چھ نوجوانوں سے متعلق ہیں ، اس لئے کہ یہ سارے کام وہ ہیں جو عموماً نوجوان ہی سرانجام دیتے ہیں ۔ الحمد ﷲ رب العالمین۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں نوجوانوں کو محنت اور جدو جہد کا جذبہ عطا فرمایا ہے وہیں اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ فرامینِ الٰہی ملاحظہ فرمائیں : اور جو لوگ ہمارے بارے میں جد و جہد کرتے ہیں ‘ ہم انہیں اپنے راستے کی ہدایت ضرور دیتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے ۔ العنکبوت:۶۹
اور اللہ کے راستے میں ویسے ہی جد و جہد کرو جیسا کہ کر نے کا حق ہے ۔الحج:۷۸
اللہ تعالیٰ کے بارے میں یا اس کے راستے میں جہد وجہد سے مراد ‘ اس کے دین کا علم سیکھنا، اسلام کے غلبہ کیلئے جہاد، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور نفسِ امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا ہے ۔
مو ت کو کثرت سے یاد کیجئے ، آخرت کی فکر کیجئے اور اصل کامیابی کی طرف پلٹ آیئے !
انسان کو ہر حال میں اپنی موت کو یاد رکھنا چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔ (سنن ترمذی:ح، ۳۲۰۷)
اصل کامیابی دنیا کو فتح کر لینا نہیں ، بلکہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مجید میں بیان فرمائی ہے ۔
ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤگے ، پس جو شخص (جہنم کی) آگ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا‘ بے شک وہ کامیاب ہو گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کاسامان ہے ۔ (آل عمران:۱۸۵)
اللہ تعالیٰ نوجوانوں کو اپنی جوانیاں اسلام کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

رسول اللہ ﷺ غیروں کی نظر میں

از فرید اللہ مروت

مقام مصطفی ﷺ وشانِ مصطفی ﷺ وہ مقام ہے جس کی وسعت ورفعت کا اندازہ لگانا محال وناممکن ہے ۔
بقول شاعر : خدا کا حُسنِ انتخاب ، انتخابِ لاجواب
ہمارے نبی ﷺ کی شان ومقام مانتی تو ساری کائنات ہے ، کیا نباتات ، کیا جمادات ، کیا بحروبر ، کیا شمس وقمر ، کیا چرند پرند، کیا حور وملائک ، کیا جن وبشر ، کیا بہار وخزاں ، کیا آسمان وزمین ، کیا دوست ودشمن ، کیا اپنے وپرائے ، غرض کائنات کی ہرہستی مقام مصطفی ﷺ اور پیغمبرِ اسلام کی تہذیب ، امانت داری ، دیانت ، اعلیٰ اخلاق اور مساوات کا اقرار کرتے ہیں مگر کائنات کی کوئی بھی ہستی یا کل کائنات بھی مل کر مکمل طور پر شان اور مقامِ مصطفی ﷺ بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ مسلمان تو اسے مانتے ہی ہیں لیکن غیر مسلم بھی محبوبِ خدا ﷺ کی عظمت وشان کو بیان کرتے ہیں ۔ کفارِ مکہ سے لے کر آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد تک بے شمار غیر مسلموں نے زبانی ، تحریری ، شعری اور ہر انداز میں مقام مصطفی ﷺ کے مقام کو تسلیم کیا ہے ۔ ایک غیر مسلم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ -
ہوجائے عشق اس میں چارہ تو نہیں
فقط مسلم کا محمد ﷺ پہ اجارہ تو نہیں
مشرق ومغرب کے بڑ ے بڑ ے محقق ، اصحابِ فراست ولیاقت اور مفکرین نے اپنی تحریروں میں سرورِ کائنات ﷺ کے متعلق جو اعتراف حقیقت کیا ، انہی کے الفاظ میں پیشِ خدمت ہے ۔
ایک ہندوپروفیسر اما کرشنا راؤ رسول معظم ﷺ کواس طرح خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے : رسول عربی ﷺ کے کل تک تو پہنچنا مشکل ہے البتہ یہ محمداجرنیل ہیں ، یہ محمد بادشاہ ہیں ، سپہ سالار ہیں ، تاجر ہیں ، داعی ہیں ، فلاسفر ہیں ، مدبر ہیں ، خطیب ہیں ، مصلح ہیں ، یتیموں کی پناہ گاہ ہیں ، عورتوں کے نجات دہندہ ہیں ، جج ہیں ، ولی ہیں ۔ یہ تمام اعلیٰ اور عظیم الشان کردار ایک ہی شخصیت کے ہیں ۔ ہر شعبہ زندگی کیلئے آپ ﷺ کی حیثیت مثالی ہے ۔
فرانس کے عظیم جرنیل نپولین بوناپارٹ نے رسول کریم ﷺ کی ذات کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے
محمد ﷺ دراصل اصل سالارِ اعظم تھے ۔ آپ نے اہلِ عرب کو درسِ اتحاد دیا۔ ان کے آپس کے تنازعات ومناقشات ختم کیے ۔ تھوڑ ی ہی مدت میں آپ کی امت نے نصف دنیا کو فتح کر لیا۔ ۱۵ سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی ۔ مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں ، بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔ حیرت انگیز کارنامہ تھا رسول معظم ﷺ کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ صرف پندرہ ہی سال کے عرصے میں ہو گیا۔ جبکہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پندرہ سوسال میں اپنی امتوں کو صحیح راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تھے ۔ حضرت محمد ﷺ عظیم انسان تھے ۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائے اس وقت اہل عرب صدیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھے ۔ دنیا کی اسٹیج پر دیگر قوموں نے جو عظمت وشہرت حاصل کی اس قوم نے بھی اس طرح ابتلاء ومصائب کے دور سے گزر کر عظمت حاصل کی اور اس نے اپنی روح اور نفس کو تمام آلائشوں سے پاک کر کے تقدس وپاکیزگی کا جوہر حاصل کیا۔
یورپ کا مشہور عالم ٹامس کارلائل رسول اللہ ﷺ کی صداقت کا ان الفاظ میں اظہار کرتا ہے ۔
صحرائے عرب کی یہ عظیم شخصیت جنہیں دنیا محمد ﷺ کے نام سے جانتی ہے پاکیزہ روح ، شفاف قلب وبلند نظری اور مقدس خیالات رکھتا تھا۔ جن کو خدا ہی نے حق وصداقت کی اشاعت کیلئے پیدا کیا۔ ہستی کا بھیدان پر کھل گیا تھا۔ آپ کا کلام خود اللہ کی آواز تھا۔
موہن چند کرم داس گاندھی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں
اسلام نے تمام دنیا سے خراج تحسین وصول کیا جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہوگئے ۔ اسلام دین باطل نہیں ہے ، ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام نے بزورِ شمشیر سرفرازی اور سربلندی حاصل نہیں کی بلکہ اس کی بنیاد نبی کا خلوص ، خودی پر آپ کا غلبہ ، وعدوں کا پاس ، غلام ، دوست اور احباب سے یکساں محبت۔ آپ کی جرأت اور بے خوفی اللہ اور خود پر یقین جیسے اوصاف۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اس کی فتوحات میں یہی اوصاف حمیدہ شامل ہیں اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کی مدد سے مسلمان تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود پیش قدمی کرتے چلے گئے ۔
روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹانی کہتا ہے
محمد ﷺ عظیم الشان مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے اتحاد امت کی بہت بڑ ی خدمت کی ہے ۔ ان کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے وحشی انسانوں کو نورحق کی جانب ہدایت کی اور ان کو اتحاد ، صلح پسندی اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنے والا بنا دیا اور ان کے لیے ترقی وتہذیب کے راستے کھول دئیے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا بڑ ا کام صرف ایک فرد واحد کی ذات سے ظہور پذیر ہوا۔
سرولیم میود اپنی کتاب لائف آف محمد میں لکھتا ہے
ہمیں بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ تعلیم نبوی ﷺ نے ان تاریک توہمات کو ہمیشہ کے لئے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھأئے ہوئے تھے ، بت پرستی نابود ہوگئی ، توحید اور اللہ کی بے پناہ رحمت کا تصور محمد ﷺ کے متبعین کے دلوں میں گہرائیوں اور زندگی کے اعماق میں جاگزیں ہوگئی ، معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی ۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت ، یتیموں کی پرورش ، غلاموں سے احسان ومروت جیسے جوہر نمودار ہوگئے امتناع شراب میں جو کامیابی اسلام نے حاصل کی اور کسی مذہب کو نصیب نہیں ہوئی۔
جوزف جے نوٹن رقم طراز ہیں
جناب محمد ﷺ کا مذہب مطلق العنان روس کیلئے بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا جمہوریت پسند متحدہ امریکا کے لئے وہ مناسب ومفید ہے اسلام ایک عالمگیر حکومت کی نشاندہی کرتا ہے اور اسلام کی کتاب قرآن کا موضوع زندگی ہے اور اس میں پوری انسانی زندگی کو سمیٹ دیا گیا ہے ۔
موتی لال نہرو کہتے ہیں
سچی توحید نے مسلمانوں کے اندر خوف وجرأت بے باکی اور شجاعت وبسالت پیدا کر دی اور عزم وارادوں میں پختگی اس درجہ پیدا کر دی کہ پہاڑ وں کو اپنی بلندی اور مضبوطی ہیچ نظر آنے لگی۔ سمندوں کا جوش ٹھنڈا ہو گیا ۔توحید کی ایسی تعلیم آپ نے مسلمانوں کو دی جس سے ہر قسم کی توہمات کے جڑ یں کھوکھلی ہوگئیں ۔ ہر قسم کا خوف دلوں سے نکل گیا اور یہ سب کس کے سبب تھا۔ اس شخصیت کے جس کو مسلمانوں نے نبی آخر الزماں کہا اور دوسروں نے اس کو بنی نوع انسان کا ایک عظیم رہنما جانا۔
مشہور فرانسیسی مؤرخ موسیوسیدیو نبی کریم ﷺ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں
محمد ﷺ یوں تو محض اُمی تھے ۔ مگر عقل ورائے میں یگانہ روزگار تھے ۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور اکثر خاموش رہتے ۔ طبیعت کے حلیم ، خلق کے نیک ، اکثر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ذکر کیا کرتے لغویات کبھی زبان سے نہ نکالتے ۔ مساکین کو دوست رکھتے کبھی فقیر کو فقر کے سبب سے حقیر نہ جانتے نہ کسی بادشاہ سے اس کی بادشاہی کے سبب سے خوف کھاتے تھے ۔
جارج برناڈ شاہ لکھتا ہے
میں نے رسول ا کرم ﷺ کے دین کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ آپ عیسائیوں کے دشمن تھے میں نے اس حیرت انگیز شخصیت کی سوانح مبارک کا گہرا مطالعہ کیا ہے میری رائے میں آپ پورے بنی نوع انسان کے محافظ تھے ۔
ایس مار گولیوتھ رقم طراز ہے : رسول امین ﷺ کی دردمندی کا دائرہ انسان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے جانوروں پر بھی ظلم وستم توڑ نے کو بہت بُرا کہا ہے ۔
مسٹر ایڈورڈ مونٹے کہتے ہیں : آپ نے سوسائٹی کے تزکیہ اور اعمال کی تطہیر کیلئے جو اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے وہ آپ کو انسانیت کا محسن اوّل قرار دیتا ہے ۔
ڈاکٹر جی ویل نے رسول ا کرم ﷺ کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے : بیشک رہبر اعظم محمد ﷺ نے گمرا ہوں کیلئے ایک بہترین راہ ہدایت قائم کی اور یقینا آپ کی زندگی نہایت پاک صاف تھی آپ کا لباس اور آپ کی غذا بہت سادہ تھی۔ آپ کے مزاج میں بالکل تمکنت نہ تھی یہاں تک کہ وہ اپنے متبعین کو تعظیم وتکریم کے رسمی آداب سے منع فرماتے تھے ۔ آپ نے اپنے غلام سے کبھی وہ خدمت نہ لی جس کو آپ خود کرسکتے تھے آپ بازار جا کر خود ضرورت کی چیزیں خریدتے ، اپنے کپڑ وں میں پیوند لگاتے ، خودبکریوں کا دودھ دوہتے اور ہر وقت ہر شخص سے ملنے کیلئے تیار رہتے تھے ۔ آپ بیماروں کی عیادت کرتے تھے اور ہرشخص سے مہربانی کا برتاؤ فرماتے تھے ۔ آپ کی خوش اخلاقی ، فیاضی اور رحم دلی محدود نہ تھی۔ غرض آپ قوم کی اصلاح کی فکر میں ہر وقت مشغول رہتے تھے آپ کے پاس بے شمار تحائف آتے تھے لیکن بوقت وفات آپ نے صرف چند معمولی چیزیں چھوڑ یں اور ان کو بھی مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے ۔
لیفٹیننٹ کرنل سالیکس کہتے ہیں : نبی محترم محمد ﷺ کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی انصاف پسند شخص ان کی اولوالعزمی ، اخلاقی جرأت ، نہایت خلوصِ نیت، سادگی اور رحم وکرم کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا پھر انہی صفات کے ساتھ استقلال وعزم وحق پسندی اور معاملہ فہمی کی قابلیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ آپ نے اپنی سادگی، لطف وکرم اور اخلاق کو بلا خیال ومرتبہ قائم رکھا۔ اس کے علاوہ شروع سے آخر تک وہ اپنے آپ کو ایک بندۂ خدا اور پیغمبر خدا بتلاتے رہے حالانکہ وہ اس سے زیادہ کا دعویٰ کر کے اس میں کامیاب ہو سکتے تھے ۔
The Hundred ڈاکٹر مائیکل مارٹ نے اپنی کتاب
میں تاریخ کی ۱۰۰ ایسی شخصیتوں کا ذکر کیا جنہوں نے دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑ ے ۔ اس عیسائی نے ۱۰۰ ہستیوں میں سب سے پہلے نمبر پر نبی آخر الزماں کا مبارک تذکرہ کیا ۔ وہ لکھتا ہے : کہ میں نے ان سو آدمیوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں سب سے پہلے محمد ﷺ کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس سے بعض لوگ حیران ہوں گے لیکن اس کی میرے پاس ایک ٹھوس دلیل موجود ہے ۔ کائنات میں جتنی بھی ہستیاں آئیں اگر ان کے حالات پڑ ھتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے بچپن سے لڑ کپن میں کسی نہ کسی استاد کے سامنے بیٹھے تعلیم پاتے نظر آتے ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام ہستیوں نے پہلے مروجہ تعلیم حاصل کی اور پھر اس کی بنیاد بنا کر انہوں نے زندگیوں میں کچھ اچھے کام کر دکھائے لیکن دنیا میں فقط ایک ہستی ایسی نظر آتی ہے کہ جس کی زندگی کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو پوری زندگی کسی کے سامنے شاگرد بن کر بیٹھی نظر نہیں آتی۔ وہ ہستی محمدﷺ ہیں ۔ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے دنیا سے علم نہیں پایا بلکہ دنیا کو ایسا علم دیا کہ جیسا علم نہ پہلے کسی نے دیا اور نہ بعد میں کوئی دے گا۔ لہذا اس بات پر میرے دل نے چاہا کہ جس شخصیت نے ایسی علمی خدمات سرانجام دی ہوں میں غیر مذہب کا آدمی ہونے کے باوجود ان کو تاریخ کی سب سے اعلیٰ شخصیات میں پہلا درجہ مانتا ہوں ۔
ریمنڈ لیروگ رسول ا کرم ﷺ کو اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے : نبی عربی ﷺ اس معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی ہیں جس کا سراغ اس سے قبل تاریخ میں نہیں ملتا۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جسے تمام کرۂ ارض پرپھیلنا تھا اور جس میں سوائے عدل اور احسان کے اور کسی قانون کو نہیں ہونا تھا۔ ان کی تعلیم تمام انسانوں کی مساوات ، باہمی تعاون اور عالمگیر اخوت تھی۔
قارئین کرام! جب کافر اپنی زبان سے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے یقینا انسانیت کے اوپر بڑ ا احسان فرمایا ہے اور نبی ا کرم ﷺ کی ذات کو ایک ایسی فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری ہستی کو حاصل نہیں ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم محبوب خدا کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

داعی کے اوصاف

از فضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

اللہ تعالیٰ نے آغاز نبوت میں داعی اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کو فرمایا : ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ ٭وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ٭وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ٭وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ٭ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ٭وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾
(المدثر:۱۔۷)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے والے کو مندرجہ ذیل باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
۱۔ ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی ہے کہ غفلتِ نیند کی چادر پوشی اور تمام قسم کے آرام چھوڑ کر ہمہ وقت دعوت تبلیغ کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ، آپ ﷺ یہ حکم ملتے ہی دعوت وتبلیغ کیلئے اس طرح کھڑ ے ہوئے کہ ۲۲ سال تک آرام وسکون نہ کیا اور انسانیت کی ہدایت کیلئے تڑ پ کر رہ گئے ۔
۲۔ ﴿وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ روئے زمین پر صرف ایک اللہ کی کبریائی بیان ہو اور معبودانِ باطلہ کی شان وشوکت کو مسمار کر دیا جائے ۔

۳۔ ﴿وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ داعی جسمانی وروحانی اور ظاہری وباطنی پاکیزگی اس قدر اختیار کرے کہ مدت مدید گزارنے پر بھی یہ چلینج کرسکے ۔
﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ (یونس:۱۶)
اس سے قبل عمر کا ایک طویل حصہ تم میں بسر کر چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔
یعنی چالیس سال کی عمر میں کسی ایک عیب ، بداخلاقی یا ظلم یا زیادتی کی طرف کر کے دکھلاؤ ۔ ۔ ۔ اگر نہیں تو یقین کر لو کہ میری دعوت حق ہے ۔
داعی کے اوصاف
دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کو مندرجہ ذیل اوصاف اپنانا ضروری ہیں -
۱۔ خالص نیت
دعوت تبلیغ کاکام کرنے والے کیلئے سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا ضرور ہے ، اگر دنیا کا مال ومتاع یا شہرت مقصود ہوئی تو آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ نہ ہو گا، بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے ایسے آدمی جہنم کا ایندھن بنے گا ، اگر رضائے الٰہی مقصود ہوتو راستے سے ایک شاخ کاٹ پھینکنا بھی جنت کا سبب بن سکتا ہے ، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا : ( اِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امرِیئٍ مَا نَوَی) ( صحیح بخاری ، کتاب بدء الوحی ، حدیث نمبر:۱)
ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر انسان کو نیت کے مطابق ہی بدلہ ملے گا۔
۲۔ علم راسخ
دعوت وتبلیغ کے میدان میں اتر نے سے پہلے علم کے ہتھیار سے آراستہ ہونا ضروری ہے ، حتی کہ عمل سے پہلے بھی علم سیکھنا ضروری ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ ﴾ (محمد:۱۹)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے گنا ہوں سے استغفار سے قبل علم کوحاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جوشخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اصلاح کی بجائے بگاڑ کا مرتکب زیادہ ہو گا۔ علم کی فضیلت وبرتری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال اور غیر سکھلائے ہوئے کا حرام ہے ۔
(فتاوی ابن تیمیہ)
اس لیے دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب وسنت ، ان کے معاون علوم اور عصری علوم میں راسخ ہو، چند مشہور اختلافی مسائل اور رٹی رٹائی تقاریر تک محدود نہ ہو بلکہ جس چیز کی دعوت دینا چاہتا ہو ، اس کا مکمل علم رکھتا ہو اور حصول علم کو اسباب و وسائل کے حصول پر مقدم کرے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لوگوں کو علم کی ضرورت ان کے کھانے پینے سے بھی زیادہ ہے کیونکہ کھانے کی طرف دن میں ایک یا دو مرتبہ ضرورت ہوتی ہے اور علم کی ضرورت تو ہمہ وقت ہے ۔
(اصول الدعوۃ:۳۲۷)
۳۔ عمل
دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کا اول مخاطب اپنے آپ کو سمجھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو ، کیونکہ قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ ﴾ (البقرۃ:۴۴)
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو ۔
اور فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾(الصف:۲)
جو کام خود نہیں کرتے وہ دوسروں کو کیوں کہتے ہو۔
اپنی اصلاح کے بعد اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں کی اصلاح کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی بدعملی بھی دعوت وتبلیغ میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ ﴾(الشعراء :۲۱۴) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور گھر کے افراد کی مکمل ہدایت دوسرے کے اختیار میں نہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے گھر بھی کنعان پیدا ہو گیا تھا لیکن اتنا فریضہ تو ہر ایک پر عائد ہوتا ہے کہ اپنے ماتحت افراد کی اصلاح کیلئے بھر پور کوشش کرے ۔ اگر انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ راہ ہدایت پر نہ آئے تو پھر یہ بری الذمہ ہو گا۔
کنعان نے سفینہئِ ہدایت کی بجائے کفر و ضلالت کی موجیں پسند کیں لیکن اس کی ہدایت کیلئے حضرت نوح علیہ السلام نے کس قدر جتن کئے ، یہ ہر صاحب علم پر واضح ہیں ، اب حضرت نوح علیہ السلام اس کی گمرائی سے بری الذمہ ہیں ۔
اگر کوئی اپنے آپ کو دین دار بنائے رکھے اور گھر والوں کو حالات کے دھارے پر بے فکری سے بہتا ہوا چھوڑ دے تو بری الذمہ نہیں ہو سکتا، اس کی مثال اس احمق کی سی ہو گی جو اپنے بیٹے کو خودکشی کرتے دیکھے اور یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ جو ان بیٹا اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔
۴۔ اخلاق حسنہ
دعوت وتبلیغ میں مؤثر ترین چیز اخلاق حسنہ ہیں ، داعی کیلئے ضروری ہے کہ میدان دعوت میں اترنے سے پہلے امکانی حد تک اپ۔نے اندر اخلاق حسنہ پیدا کر چکا ہو ، انبیاء کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کے دعو وں کو مثاثر کیا، یہی وجہ تھی کہ مخالفین شدید مخالفت کے باوجود ان کی بات سننے پر مجبور ہوجاتے تھے اور اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَکمَلُ المُؤمِنِینَ إِیمَاناً اَحسَنُہُم خُلُقاً۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ)
مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہو۔
اچھے اخلاق کے بغیر ایک معمولی دکان کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی تو دعوت وتبلیغ کا عظیم کام اس کے بغیر کیسے چلایا جا سکتا ہے ۔
۵۔ حکمت عملی
دعوت وتبلیغ میں حکمت عملی اپ۔نانا ضرور ی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ﴾ (النحل:۱۲۵)
اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت ، حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دیجئے ۔ اس آیت کریمہ میں دو بنیادی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
٭ دعوت حکومت ودانائی سے دی جائے ، یعنی اپنا مؤقف انتہائی سنجیدہ ، باوقار اور مدلل ہونا چاہیے اور لب ولہجہ بھی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو جس سے مخاطب واقعی اثر لے کہ ناصح مجھے حقیر سمجھ کر اپنی بلندی جتلانا نہیں چاہتا بلکہ وہ میری اصلاح کیلئے بے پناہ تڑ پ رکھتا ہے ۔
اکثر وبیشتر حالات میں دعوت مثبت انداز میں ہونی چاہیے ، منفی انداز صرف ناگزیز حالات میں مد مقابل کی تردید کیلئے اپ۔نانا چاہیے ، لیکن اس میں بھی سنجیدگی اور متانت کا ہونا ضرور ی ہے ، ہمہ وقت مخالفین کی تردید کی تاک میں رہنے سے دعوت میں پھیلاؤ نہیں ہو سکتا ، جس طرح غذا ہمیشہ کھائی جاتی ہے لیکن صرف بیماری کی صورت میں دفاع کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔
حکمت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے مؤقف کو ہی تبدیل کر دیا جائے یا اس انداز میں مداہنت اختیار کر لی جائے کہ اصل مقصد ہی فراموش ہوجائے بلکہ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ سخت سے سخت اورتلخ سے تلخ مسئلہ بیان کرنے میں بھی انتہائی نرم الفاظ کا انتخاب کیا جائے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دو: ﴿فَقُولاَ قَولاً لَیِّناً﴾ (طٰہٰ:۴۴) اسے نرم انداز سے بات کہنا۔ اور سورۃ النازعات میں قول لین کی وضاحت فرمائی : ﴿فَقُل ہَل لَّکَ إِلَی اَن تَزَکَّی ٭ وَأَہدِیَکَ إِلیٰ رَبِّکَ فَتَخشیٰ﴾ (۱۸۔۱۹) اے نبی کہو! کیا تو اپنی درستگی واصلاح چاہتا ہے اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھلاتا ہوں تاکہ تو ڈر جائے ۔
۶۔ دعوت مخاطب کے لحاظ سے
دعوت مخاطب کے حالات سے اور موقع محل کے موافق دینا ضروری ہے ، کامیاب طبیب وہی ہوتا ہے کہ جو مریض اور اس کے مرض کے مطابق دوا دے ، ہر مریض کو ہر موسم میں ایک ہی دوا دینا مفید نہیں ہوتا ، اگر دوا مریض کے مزاج کے مطابق نہ دی جائے تو وہ دوا ضائع ہوجاتی ہے ، اس طرح دعوت مخاطب بھی ضائع ہوجائے گی اور مخاطب بھی آئندہ آپ کی بات سننے کو تیار نہ ہو گا ، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت نصیحت فرمائی انک ستأتی قوما أہل کتاب لیعرف حالہم ویستعد لہم جو اہل مکہ کی طرح جاہل نہیں ہیں ان کے حالات معلوم کرنے چاہیں اور ان کیلئے تیاری کرنی چاہیے ۔
مبلغ کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ دعوت تدریجاً پیش کرے ، یک بارگی تمام دعوت پیش نہ کرے بلکہ اہم وبنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ، مثلا اگر کوئی دین سے بہت دور ہوتو اسے دین کے قریب کرنے کی دعوت دے ، اگر کوئی دین سے قریب ہے لیکن عملی کوتائی میں ملوث ہے تو اس کو عملی طور پر میدان میں اترنے کی دعوت دے ، اگر عملی طور پر کاربند ہے لیکن آگے دعوت میں سستی کر رہا ہوتو اس کو دین حنیف کی طرف دعوت دینے کی طرف مائل کرے ۔
اس طرح اگر کوئی آدمی بہت سی برائیوں میں گرفتار ہے مثلاً : سودخوری ، رشوت ، جھوٹ ، بدزبانی وغیرہ اور وہ بیک وقت ان کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تو آپ یک بارگی تمام کو چھوڑ نے کا مطالبہ نہ کریں بلکہ ایک خطر ناک جرم کو چھڑ وانے کی کوشش کریں ، پھر آہستہ آہستہ ایک ایک جرم سے متنفر کر کے چھوڑ نے کا مطالبہ کریں اور یہ مت سوچیں کہ ایک آدمی بیسوں گنا ہوں میں سے ایک چھوڑ بھی دے تو کیا فائدہ؟ کیونکہ ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اطاعت الٰہی سے نور کی ہلکی شعاع بھی بے فائدہ نہیں ہوتی ، اگر آپ ظلمت کدے میں سرچ لائٹ روشن نہیں کرسکتے تو کم از کم دیا سلائی معمولی روشنی تو کریں ۔ ممکن ہے اس دیا سلائی کی روشنی میں آپ کو سوئچ مل جائے جس سے سرچ لائٹ روشن ہوتی ہے ۔
انبیاء علیم السلام نے تن تنہا دعوت کاکام شروع کیا اور چاروں طرف اندھیروں اور گمراہیوں کے طوفان تھے ، وہ ایسے حالات میں ہدایت کے چراغ جلاتے رہے ، حتی کہ تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔
۷۔ صبر واستقامت
کوئی کام صبر واستقامت کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ خصوصاً دین کاکام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اس لئے داعی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پر اس پر ہونے والے اعتراضات پر اور دعوت کے دوران پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے والا ہو، صبر کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے کام پر ہمیشگی اختیار کرے ، اسے منقطع نہ ہونے دے اور نہ ہی اپنے دعوتی مشن سے اکتاہٹ محسوس کرے ، بلکہ مخالفین کی جس قدر مخالفت زیادہ ہو ، اس قدر زیادہ محنت وجذبہ سے کام کرے ، جس طرح گیند کو جتنا زور سے زمین پر ماریں اتنا زیادہ اچھلتی ہے ، اسی طرح ہی باطل مغلوب اور حق غالب ہو سکتا ہے ، اگر داعی لوگوں کو طعن وتشیع سن کر ہمت ہار کر بیٹھ جائے تو گویا اس نے باطل کو غالب کرنے اور حق کو مغلوب کرنے میں تعاون کیا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت گرفت کا سبب ہو گا۔
کائنات میں سب سے زیادہ پاک اور قدسی افراد جن کے اخلاق وکردار کا کوئی ثانی نہیں ، جب ان کو دعوت وتبلیغ کی وجہ سے طعن وتشیع کا نشانہ بنایا گیا اور طر طرح کے مصائب سے دو چارہونا پڑ ا تو دوسرے افراد اس طوفان سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

قوتِ اسلامیہ کی بنیاد اخوتِ اسلامیہ ہے

از عرفان قدیر

ربِّ جلیل کا قرآنِ کریم میں فرمانِ عظیم ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاء ً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا - آل عمران :۱۰۳)
اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ و اور پراگندہ نہ ہو اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑ ھے کے کنارے پر کھڑ ے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔
اعتصام ٌبحبلِ اللہ کے ساتھ ساتھ جمیعاً کی تاکید اور ولا تفرقوا کی نہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ چیز جماعتی حیثیت میں مطلوب ہے ۔ سب مل کر اِس کو مضبوطی سے تھا میں ۔ اِسی حبلُ اللہ سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی ہوئی ہے ۔ اگر اِس کے ساتھ تعلق میں ضعف پیدا ہو گیا، اِس کی جگہ مسلمانوں نے دوسری رسیوں کا سہارا لے لیا اور حق وباطل کے جانچنے کے اِس سے الگ معیارات بنالیے تو وہ پراگندہ ہوجائیں گے ۔ اِس حبلُ اللہ نے باہم متصادم لوگوں کو ایک رشتہ میں پروکرموتیوں کی لڑ ی بنادیا ۔وہ جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ایک دوسرے کے جگری دوست بن گئے ۔

اِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِہَذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ -مسلم
اللہ رب العزت بعض قوموں کو اس کتابِ انقلاب پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے عزت وعظمت سے نوازتا اور بعض کو اِسے پسِ پشت ڈالنے کے سبب ذلیل ورسوا کرتا ہے ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے ، تارکِ قرآں ہوکر
وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآَنَ مَہْجُورًا - فرقان:۳۰
اور رسول (ﷺ) کہیں گے : اے میرے پروردگار! میری امت نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا۔
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ، طرزِ سلف سے بیزار؟

عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ قبائلی حمیت ، جسے قرآن نے حمیۃٌ جاہلیۃ کانام دیا ہے ، اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے ؟ انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑ ائی نصف صدی جاری رہی ۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوئے ، کشتوں کے پشتے لگے ۔ تقریباً ایسی ہی صورتِ حال مدینہ میں اوس اور خزرج کے درمیان جنگِ بعاث کی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے ۔یہ صورتِ حال مکہ ومدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست ونابود ہوجائے ۔ اس حال میں اللہ نے اُنہیں دولتِ اسلام سے سرفراز فرمایا۔ پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں ۔ دشمنی وعداوت کی بجائے محبت والفت پیدا ہوگئی۔ اِس طرح اللہ نے اُنہیں لڑ ائی کی آگ کے گڑ ھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑ ھے میں گرنے سے بچالیا۔ اِسی نعمتِ الفت ومحبت کا تذکرہ اللہ نے سورئہ انفال میں فرمایا تو نبی رحمت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا :
لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ - انفال:۶۳
زمین میں جو کچھ ہے اگرآپ سارا کا سارا بھی خرچ کرڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے ۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔
ایسی نعمتِ غیر مُتَرَقَّبَہ صرف اسلام کے ذریعے ہی نصیب ہو سکتی ہے کہ باہم متنافر اجزاء کو جوڑ کر بنیانٌ مرصوص بنادے ۔

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں ، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں
جس کے پھولوں میں اُخوّت کی ہوا آئی نہیں
اُس چمن میں کوئی لطفِ نغمہ پیرائی نہیں

اسلام ، مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتا ہے جبکہ مغرب کا تصورِ قومیت ایک مادی شے ہے یعنی ’ملک‘۔

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ کسی شیطانی مقصد کیلئے کسی بھیڑ کا اکٹھا کر لینا تو مشکل نہیں ہوتا، ہر نعرہ باز یہ کام کرسکتا ہے ۔لیکن خاص اللہ کے کام کیلئے ، جس میں خدا کی خوشنودی اور آخرت کی طلب کے سوا کسی بھی دوسری چیز کا کوئی ادنی شائبہ تک نہ ہو ، کلمۂ حق کے جانثاروں کی ایک جمیعت کا فراہم ہوجانا اللہ کی تائیدوتوفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ باہم متصادم لوگوں کو اُن کے تمام تعصبات ومفادات اور تمام رسوم وعادات سے چھڑ ا کر بالکل ایک نئے سانچہ میں ڈھال دینا اور اُس سانچے کو اُن کی نگا ہوں میں اتنا محبوب بنا دینا کہ اُس کی خاطر وہ قوم، وطن ، خاندان، جائداد اور بیوی بچے سب کو چھوڑ کر اٹھ کھڑ ے ہوں ، یہ خدا ہی کیلئے ممکن ہے ، کوئی انسان یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا، اگرچہ وہ دنیا جہان کے سارے وسائل اس پر صَرف کرڈالے ۔

یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی
اُخوّت کی جہانگیری ، مُحبت کی فراوانی
بتاںِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی

ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ ﷺ نے تاریخِ انسانی کا ایک نہایت تابناک کارنامہ سرانجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مؤاخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں ۔ حمیّت وغیرت جو کچھ ہو اسلام کیلئے ہو ۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں ۔بلندی وپستی کا معیار انسانیت وتقوی کے علاوہ کچھ اور نہ ہو ۔ پیغمبر انقلاب ﷺ نے اس بھائی چارے کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قرار دیا تھا جو خون اور مال سے مربوط تھا۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکبادنہ تھی کہ زبان پر ر وانی کے ساتھ جاری رہے مگر نتیجہ کچھ نہ ہو بلکہ اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور مُوَانَسَت کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لیے اُس نے اِس نئے معاشرے کو بڑ ے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کر دیا تھا۔
﴿وَالَّذِینَ تَبَوَّء ُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾(حشر:۹)
جواِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کردارِ ہجرت (مدینہ) میں مقیم ہیں یعنی انصار وہ اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جوکچھ دے دیا جائے اِس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے بلکہ خود اپنے اوپر اُنہیں ترجیح دیتے ہیں گوخود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ اور جو خود غرضی سے محفوظ رکھے گئے تو درحقیقت وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت، حکیمانہ سیاست اورمسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔ مذکورہ بھائی چارے کی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک اور عہد وپیمان کرایا جس کے ذریعے ساری جاہلی کشاکش اور قبائلی کشمکش کی بنیاد ڈھادی اور دورِ جاہلیت کے رسم ورواج کیلئے کوئی گنجائش نہ چھوڑ ی ۔ اس پیمان کی ایک دفعہ یہ ہے کہ سب مسلمان اپنے ماسوا انسانوں سے الگ ایک امّت ہیں ۔

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑ ے ٹکڑ ے نوعِ انساں کو
اُخوّت کا بیاں ہو جا ، مُحبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی ، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا
غبار آلودئہ رنگ ونسب ہیں بال وپَر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑ نے سے پہلے پَر فشاں ہوجا

جن لوگوں کو اللہ زمین میں اپنے دین کا گواہ اور علَم بردار بنا کر کھڑ ا کرتا ہے ان کی صفات کیا ہونی چاہئیں ؟ ایسے مومنین کی صفاتِ محمودہ ، قرآنِ حمید بیان کرتا ہے ۔
﴿أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾ (فتح:۲۹)کافروں کیلئے چٹان کی طرح سخت، مومنوں کیلئے موم کی طرح نرم ۔ ﴿ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ ﴾ ۔ ۔ ۔ کَالأَسَدِ عَلَی فَرِیسَتِہِ ۔ ۔ ۔ جیسے شیر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے ۔ ﴿ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾۔ ۔ ۔ کَالعَبدِ لِسَیِّدِہِ ۔ ۔ ۔ جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتا ہے ۔

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن

﴿أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ﴾ (المائدۃ:۵۴)
مومن کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ۔
مومنوں پر نرم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذہانت ، اس کی ہوشیاری ، اس کی قابلیت ، اس کا اثر ورسوخ ، اس کا مال ، اس کا جسمانی زور کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے کیلئے نہ ہو۔ مومن نرم خو، نرم دل ، ہمددر اور حلیم انسان ہوتا ہے ۔
’جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم‘
کفار پرسخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلوص، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخالفینِ اسلام اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ پائیں ۔ بندئہ مومن مرسکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا۔
’دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان‘
لیکن حقیقتِ حال کیا ہے ؟ ذرا آئینۂ کردار میں دیکھو۔ ۔ ۔
تم ہو آپس میں غضبناک ، وہ آپس میں رحیم
تم خطا کاروخطابیں ، وہ خطا پوش وکریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِکَے بھی
یوں ہی باتیں ہیں ، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

اَلکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ عَلَی مَنہَجِ سَلَفِ الأُمَّۃِکے دعوے دارو! اپنے کردار پر نظر دوڑ اؤ اور اپنے اسلاف کے طرزِ عمل کو بھی دیکھو۔ ۔ ۔

خود کُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور وخوددار
تم اُخوّت سے گریزاں ، وہ اُخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو ، وہ گلستاںِبکنار
اب تلک یادہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
کفر ، ملتِ واحدہ بن گئی ۔اگر اُمّت سراپا اُخوّت نہیں بنتی تو نتیجہ ، فتنہ وفساد اور تباہی وبربادی۔
﴿وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء ُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ ﴾ (انفال:۷۳)
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہو گا اور زبردست فساد ہوجائے گا۔

شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!
یوں تو سیّد بھی ہو ، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو

رسمِ اُخوّت رہ گئی ، روحِ اُخوّت ہم نے گنوادی ۔ ہمیں اپنے اندر صحابۂ عظّام جیسا جذبۂ ایمان پیدا کرنا ہے ۔ ان نفوسِ قدسیہ جیسی سپرٹ (spirit) پیدا کرنی ہے ، جو اپنے اسلامی بھائی سے ، اپنے حقیقی بھائی کے بارے میں کہتی ہے کہ اِسے کَس کے باندھ۔
﴿فَإِنْ آَمَنُوا بِمِثْلِ مَا آَمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾ (البقرۃ:۱۳۷)
اگر یہ اِس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو ہدایت پائیں ۔
اہلِ ایمان کے وہ تابناک نقوش جو لوحِ تاریخ پر کندہ ہیں ذرا اُن پر غور تو کرو!
٭مصعب بن عمیر عَبدَرِی نے اپنے انصاری بھائی سے کیا کہا؟
٭ ابو حذیفہ کے اپ۔نے باپ عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں کیا احساسات تھے ؟
٭ صدیق وفاروق کا معاملہ کیا تھا؟
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
قُوّتِ اسلامیہ کی بنیاد اُخوّتِ اسلامیہ ہے ۔ اُخوّتِ اسلامی ہی میں قُوّتِ اسلام ہے ۔

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑ ایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!

عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام میں کیا فرق ہے ؟ ایک اسلام پسند دوسرا قوم پرست۔ ایک ابوالحفص سے امیر المؤمنین بنا ، دوسرا ابو الحَکم سے ابو جہل اور فِرعَونُ ہَذِہِ الأُمَّۃ قرار پایا۔
واللہ! تکمیلِ ایمان اور حلاوتِ ایمان ، اُخوّتِ اسلام کے بغیر ممکن نہیں ۔
مَن أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبغَضَ لِلّٰہِ وَأَعطَیٰ لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ استَکمَلَ الإِیمَانَ ۔ (أبوداؤد)
جس کا لینا اور دینا ، محبت اور عداوت اللہ کیلئے ہو اُس نے تکمیلِ ایمان کی منزل کو پالیا۔
ثَلاَثٌ مَن کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الإِیمَانِ ، مِنہَا: وَاَن یُّحِبَّ المَرئُ لاَ یُحِبُّہُ إِلاَّ لِلّٰہِ ۔ متفق علیہ
حلاوتِ ایمان اُسے نصیب ہو گی جو اپنے مسلمان بھائی سے خالص رضائے الٰہی کیلئے محبت کرے ۔
جس روز، آج کے جانِ جاں کل کے دشمنِ جاں ہوں گے ۔
الْأَخِلَّاء ُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِینَ- الزخرف :۶۷
اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے ۔
جس روز، دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، حاملہ کا حمل گِر جائے گا، لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے ۔
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْء ٌ عَظِیم ٌ٭ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَی وَمَا ہُمْ بِسُکَارَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّہِ شَدِیدٌ - حج:۱۔۲-
لوگو! اپنے رب کے غضب سے ڈرو! حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑ ی ہی ہولناک چیز ہے ۔ اُس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑ ی ہولناک چیز!۔
جس روز، سورج سوانیزے پہ ہو گا۔ وہ کون خوش نصیب ہوں گے جنہیں سایۂ عرش نصیب ہو گا ؟
سَبعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَومَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ : مِنہُم : رَجُلاَنِ تَحَآبَا فِی اللّٰہِ ، اِجتَمَعاَ عَلَیہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیہِ ۔ (متفق علیہ)
روزِ قیامت جس دن کوئی سایہ نہ ہو گا عرشِ الٰہی کے سائے کے سات لوگ مستحق قرار پائیں گے اُن میں سے دو وہ ہوں گے جن کی آپس کی محبت ، ملنا اور جدا ہونا محض اللہ کیلئے تھا۔
مَثَلُ المُؤمِنِینَ فِی تَوَآدِّہِم وَتَرَاحُمِہِم کَمَثَلِ الجَسَدِ الوَاحِدِ ، إِذَا اشتَکیٰ مِنہُ عُضوٌ تَدَاعیٰ لَہُ سَآئِرُ الجَسَدِ بِالحُمَّی وَالسَّہَرِ ۔ (متفق علیہ)
آپس میں محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے میں سب ایمان دار ایک جسم کی مانند ہیں ۔ اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہوتو اس کی وجہ سے سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
کیا ہم مِثلِ جسدِ واحد ہیں ؟ کیا ہمیں ایک دوسرے کے درد کا احساس ہے ؟ کیا ہمیں یہ درد دنوں کو تڑ پاتا اور راتوں کو جگاتا ہے ؟ آتجھ کو بتاؤں کہ دردِ امّت کیا ہے ؟ نبیء امّت ، غمِ امّت میں گُھلا جاتا ہے حتی کہ آسمان سے صدا آتی ہے :
﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آَثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا ﴾(کہف:۶)
اگر یہ لوگ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ اِن کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے ؟۔
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں
یارو بتلاؤ! میں وہ قوتِ تاثیر کہاں سے لاؤں ، جو دلوں کو گرمادے ، جوروحوں کو تڑ پادے ۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
یارب! مرا نورِ بصیرت عام کر دے ، جوکچھ دیکھا ہے میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ۔
’ترادرد دردِ تنہا، مراغم غمِ زمانہ‘
قطرہ قطرہ گرے تو پتھر کی سِل میں بھی سوراخ ہوجائے ۔ کیا ہم پتھر دل ہوگئے ؟ ﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾(البقرۃ:۷۴) پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اتنے سخت جیسے پتھر یا ان سے بھی سخت تر۔
کیا اہلِ ایمان کے دل بھی ذکرِ کتاب وسنت سے پسیجتے نہیں ؟﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ﴾ (الحدید:۱۶) کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکرِ الٰہی سے پگھلیں اور نازل کردہ حق کے آگے جھکیں ۔
دلوں کا سخت ہوجانا افراد اور امتوں کیلئے سخت تباہ کن اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبولِ حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے ، اس کے بعد اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے اہلِ ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے :
﴿وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ ﴾ (الحدید:۱۶)
اُن لوگوں کی طرح نہ ہوکر رہ جانا جنہیں اِس سے پہلے کتاب دی گئی پھر جب اُن پر ایک زمانہ دراز بیت گیا تو اُن کے دل سخت ہوگئے ۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑ ی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کیا ہم نہیں چاہتے کہ پوری دنیا میں کلمۂ حق گونجے ؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ نظامِ خلافت قائم ہو؟ تو پھر ہمیں ایک ہونا ہو گا۔ ایشیا سے افریقہ تک ، پاکستان وافغانستان سے یوگنڈا وکیمرون تک۔ ۔ ۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے ۔
’ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ﴾ (المائدۃ :۵۴)
اے ایمان والو! تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو پھر جائے اللہ کو کوئی پروا نہیں ۔ وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اُس سے محبت کریں گے ۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ۔ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔ اللہ تعالی وسیع ذرائع کا مالک ہے اور زبردست علم والا ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟