Friday, April 2, 2010

تبصرۂ کتب

نام کتاب:
ہدیة الاطفال:
تالیف: مولانا مفتی عبد الولی خان۔
ناشر: دارالسلام 36 لوئر مال لاہور۔
بچہ جب بڑا ہوتا ہے اور اس کا عقل وشعور بھی بڑھتا جاتا ہے تو ذہن میں طرح طرح کے سوالات جنم لینے لگتے ہیں مثلاً: ہم کون ہیں ؟ کس لیے پیدا کیے گئے ہیں ؟ ہمارا دین کیا ہے ؟ ایمان کسے کہتے ہیں ؟ توحید کے کیا معنی ہیں ؟ افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ اکثر والدین دین کی بنیادی باتوں اور زندگی کے اصل مقاصد سے خود بے خبر ہوتے ہیں ، اس لیے وہ اپنے بچوں کو صحیح جواب نہیں دے پاتے اور اکثر حالتوں میں غلط اور خلاف شریعت جواب دے دیتے ہیں ۔
اس صورتحال کے پیش نظر ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جوبچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے فطری سوالات کا صحیح اور تسلی بخش جواب دے کر ان کی اعلیٰ اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنے ۔ یہ کتاب اس مقصد کو بہ تمام وکمال پورا کرتی ہے اسی لیے اس کی تعلیم وتدریس نہایت ضروری ہے
زیر نظر ''ہدیة الاطفال'' سوال وجواب کے پیرائے میں مرتب کی گئی ہے جو کہ والدین ، اساتذہ اور بچوں کیلئے رہنما کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں اسلام ، ارکان اسلام ، ارکان ایمان ، جنت ، جہنم ، شرک ، وسیلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، مسلمانوں کے باہمی اختلافات ، اخلاقیات ، اسلامی آداب ، علم اور اس کی فضیلت جیسے موضوعات کو عام فہم اور آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب ہر گھر اور لائبریری کی ضرورت ہے اور اس قابل ہے کہ اسے دینی مدارس اور سکولوں کے نصاب میں داخل کیا جائے ۔
64 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے خوبصورت تحفہ ہے ۔کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ یہ کتاب دارالسلام 36 لوئر مال ، غزنی سڑیٹ اردو بازار لاہور، Y-260 بلاک ڈیفنس لاہور، دارالسلام F-8 مرکز اسلام آباد اور دارالسلام مین طارق روڈ کراچی سے دستیاب ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

النفس وحقیقتہ

أولاً : مفہوم النفس :
الروح ، یقال خرجت نفسہ أی روحہ ، والدم ، یقال ما لا نفس لہ سائلة أی لا دم ، وذات الشیء وعینہ ، یقال جاء ہو نفسہ أو بنفسہ ، والعین ، یقال نفستہ بنفس أی أصبتہ بعین .
والنفس بفتحتین نسیم الہواء والجمع أنفاس ، والنفس الریح الداخل والخارج فی البدن من الفم والأنف .
قال الخلیل بن أحمد رحمہ اللہ: "النَّفسُ وجمعہا النُّفُوس لہا معان:
النَّفْسُ: الروح الذی بہ حیاة الجسد، وکل نسانٍ نَفْس، حتی آدم علیہ السلام، الذکر والأنثی سواء , وکلُّ شیء ٍ بعینہ نَفْس, ورجل لہ نَفْس، أی: خُلُق وجَلادة وسَخاء " -کتاب العین، الخلیل بن أحمد مادة: نفس.
ویشیع استعمال ہذہ اللفظة فی جملة من المصطلحات منہا:
١۔ العقل الذی یکون التمییز بہ .
٢۔ الذات ،
٣۔ الروح ، ومنہ: خرجت نفسُہ، ذا مات -واللفظ بہذا الطلاق مؤنثة-،
٤۔ شخص النسان، ومنہ: أسرتُہ أحد عشر نَفْساً -واللفظ بہذا الطلاق مذکر- ،
٥۔ نفس الأمر،
٦۔ ذات الشیء وعینہ،
٧۔ النفس السائلة: الدَّم السائل -معجم لغة الفقہاء -ص484-، التعریفات -ص312-، القاموس الفقہی -ص:٣٧٥-
ثانیاً : مفہوم النفس فی العرف :
قال الجرجانی: النفس من الجوہر البخاری اللطیف الحامل لقوة الحیاة والحس والحرکة الرادیة ، وسماہا الحکیم الروح الحیوانیة فہو جوہر مشرق للبدن ، فعند الموت ینقطع ضوؤہ عن ظاہر البدن وباطنہ ، وأما فی وقت النوم فینقطع عن ظاہر البدن دون باطنہ فثبت أن النوم والموت من جنس واحد ، لأن الموت ہو الانقطاع الکلی ، والنوم ہو الانقطاع الناقص ، فثبت أن القادر الحکیم دبر تعلق جواہر النفس بالبدن علی ثلاثة أضرب
الأول: ن بلغ ضوء النفس لی جمیع أجزاء البدن ظاہرہ وباطنہ فہو الیقظة .
الثانی: ن انقطع ضوؤہا عن ظاہرہ دون باطنہ فہو النوم .
الثالث: ن انقطع ضوء النفس عن ظاہر البدن وباطنہ بالکلیة فہو الموت . .- تعریفات للجرجانی , ص 80 -
ولا یخرج استعمال الفقہاء لہذا اللفظ عن معانیہ اللغویة .
وقال بعض الحکماء : أنّ النسان لہ نفسان نفس حیوانیة ونفس روحانیة.
فالنفس الحیوانیة لا تفارقہ والنفس الروحانیة التی ہی من أمر اللہ فیما یفہم ویعقل فیتوجہ لہا الخطاب وہی التی تفارق النسان عند النوم ولیہا الشارة بقولہ تعالی: اللَّہُ یَتَوَفَّی الْأَنفُسَ حِینَ مَوْتِہَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِہَا - الزمر39 -
ثم أنہ تعالی ذا أراد الحیاة للنائم رد علیہ روحہ فاستیقظ وذا قضی علیہ الموت أمسک عنہ روحہ فیموت وہو معنی قولہ تعالی: فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرَی ِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی -الزمر39 -
وقال المادیون: نّ النفس ہی الہیکل المحسوس والبنیة المشاہدة.
وقال بعضہم: النفس جزء لا یتجزأ من القلب ولیس ہی جسماً ولا جسمانیة.
وقال غیرہ: النفس أجزاء أصیلة من فضل البدن باقیة من أول العمر لی آخرہ مصونة عن التغییر والتبدیل والمتبدل فضل الہضم لیہ.
وقال غیرہم: النفس ہی الدم المعتدل ذ بکثرتہ واعتدالہ تبقی الحیاة وبقلتہ وعدم اعتدالہ تضعف الحیاة.
ومنہم من قال: النفس ہی العتدال المزاجی النوعی ذ تبقی الحیاة ما بقی ہذا العتدال وتزول ذا زال.
وتطلق النفوس عندہم علی الطبائع کالنفس الأمارة بالسوء والنفس اللوامة والنفس المطمئنة والنفس الناطقة وغیر ذلک من الأباطیل التی توہمت بہا الأطباء والفلاسفة والحکماء والمادیون وقد نزّہت القلم عن وضع ما سوّلت لہم أنفسہم من الخرافات والأوہام وکل ذلک رجم بالغیب ویا لہ من داء عقام.
ویعرفہا ابن سینا بحسب اقسامہا فیقول: "والنفس کجنس واحد ینقسم بضرب من القسمة لی ثلاثة اقسام:
أحدہا: النباتیة وہی کمال أول لجسم طبیعی من جہة ما یتولد ویربو ویتغذی.
والثانی: النفس الحیوانیة وہی کمال أول لجسم طبیعی آلی من جہة ما یدرک الجزئیات ویتحرک بالرادة.
الثالث: النفس النسانیة وہی کمال أول لجسم طبیعی آلی من جہة ما یفعل الأفعال الکائنة بالاختیار الفکری والاستنباط بالرأی ومن جہة ما یدرک الأمور الکلیة".- نظریة المعرفة بین القرآن والسنة، د. أحمد الکردی ص-110 -
وخلاصة القول فی تعریف النفس عند العلماء : أن النفس ہی الجوہر البسیط الذی قیل لأجلہ نما خلقتم للبقاء لا للفناء .
وقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أعرفکم بنفسہ أعرفکم لربہ ومن عرف نفسہ عرف ربہ.
ثالثاً :أہداف علم النفس عند المسلم:
معرفة آیات اللہ فی النفس النسانیة والسلوک البشری مما یؤکد فی وعی المسلم الیمان باللہ وعظمتہ وأنہ وحدہ المستحق لآن یفرد بالعبادة والطاعة. تعریف المسلم بسنناللہ فی علم النفس وتزویدہ بما یحتاج الیہ من الحقائق النفسیة لیترقی بالنسجام مع ہذہ السنن والحقائق وتبصیرہ بنعم اللہ.دراک الفروق بین الأفراد فی أنواع المواہب وألوان القدرات وأن کلا میسر لما خلق لہ.
تعزیز الشعوربالمسئولیة الفردیة بین یدی اللہ.تمکین المسلم من معرفة الأساسیات السلامیة فی علم النفس من الأفکار والنظریات وتوقی ماقد یکون فیہا من فساد.الطلاع علی ماترکہ أعلام السلام فی میدان الحقائق والدراسات النفسیة من الآثاروالأفکار.
الطلاع علی ما وصل الیہ الفکر البشری فی میدان علم النفس من الحقائق المقررة والمسلمات الثابتہ ماییغنی شخصیة المسلم ویقوی الکیان السلامی.تکوین المقدرة لدی المسلم علی فہم الروابط الطبیعیة بین الدوافع والتصرفات فی أعمال النسان.
عانة المسلم علی حل مشکلاتہ بحلول متفقة مع السلام مشتقة من حقائق علم النفسیة وذلک لتخلوحیاتہ من المتاعب النفسیةوالنحرافات التی تنغص عیشہ وتحد من نتائجہ.
مساعدة المسلمین علی التعلم الجید والدراسة المنتجة بتقدیم قواعد تطبیقیة مشتقة منا لسنن النفسیة وتولیدالرغبة لدیہم فی القراء ة النافعة وتقویمہا.تأکید ماجاء بہ السلام منوحدة الفطرة البشریة وستعدادہا للتجاہات المختلفة کساب المسلم روح البحث العالمی الذی یقتضیہ علم النفس ویساعد علیہ التأمل الذاتی وملاحظة تصرفات الآخرین وتقدیرہا بروح علمیة مساعدة المسلم علی فہم الظواہر النفسیة فی مرحلتی المراہقة والشباب لیجتازہا بسلام ونجاح.
تعریف المسلم قدرالمستطاع بالقدرات الخاصة والستعدادات التی وہبہا اللہ لہ لیساعدہ ذلک علی ختیار مایناسب قدراتہ وستعدداتہ من دراسة أو مہنة أوعمل براز خصائص الحیاة النفسیة المنضویة تحت لواء العقیدة السلامیة وبیان ماتضیفہ ہذہ العقیدةعلی الحیاہ النفسیة من الطمأنینہ والتساق والسمو والکمال والسعادة والبطولة.
حمایة السلام للنفس
أولاً :میزة السلام فی حمایة النفس
کانت البشریة قبل بعثة النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی ضلالة عمیاء وجاہلیة جہلاء ، لا تعرف معروفا ولا تنکر منکرا، أحسنُہم حالا من کان علی دین محرّفٍ مبدّل، التبس فیہ الحقّ بالباطل، واختلط فیہ الصدق بالکذب، فبعث اللہ سبحانہ نبیّہ ومصطفاہ محمّدا صلی اللہ علیہ وسلم بالہدی ودین الحقّ لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون، وکانت الرحمة المطلقة العامّة ہی المقصد من بعثتہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ تعالی: -وَمَا أَرْسَلْنَٰکَ ِلاَّ رَحْمَةً لّلْعَٰلَمِینَ- -الأنبیاء 7-، فحصر سبحانہ وتعالی المقصد من بعثة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی تحقیق الرحمة للعالمین، والعالمون جمیع الخلق. ولقد کان أسّ ہذہ الرحمة وقطبہا ہو الفرقان بین الحق والباطل وبین الضلالة والہدی.
فہو صلی اللہ علیہ وسلم الرحمة المہداة، عن أبی موسی الأشعری رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسمی لنا نفسہ أسماء فقال: --أنا محمد وأحمد والمقفّی والحاشر ونبی التوبة ونبی الرحمة- - أخرجہ مسلم فی الفضائل -2355-
وقد کان صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للناس فی أحلک الظروف وأقساہا وأشدّہا، عن عائشة رضی اللہ عنہا أنہا قالت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم: ہل أتی علیک یوم کان أشد من یوم أحد؟ قال: --لقد لقیت من قومک ما لقیت، وکان أشدّ ما لقیت منہم یوم العقبة، ذ عرضت نفسی علی ابن عبد یالیل بن عبد کلال، فلم یجبنی لی ما أردت، فانطلقت وأنا مہموم علی وجہی، فلم أستفق لا وأنا بقرن الثعالب، فرفعت رأسی فذا أنا بسحابة قد أظلتنی، فنظرت فذا فیہا جبریل، فنادانی فقال: ن اللہ قد سمع قول قومک لک وما ردّوا علیک وقد بعث لیک ملک الجبال لتأمرہ بما شئت فیہم، فنادانی ملک الجبال فسلم علی ثم قال: یا محمد، فقال: ذلک فیما شئت، ن شئت أن أطبق علیہم الأخشبین-، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: --بل أرجو أن یخرج اللہ من أصلابہم من یعبد اللہ وحدہ لا یشرک بہ شیئا- -أخرجہ البخاری فی بدء الخلق 3231- واللفظ لہ، ومسلم فی الجہاد -1795-
أرسل اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بدینٍ کلُّہ رحمة وخیر وسعادة لمن اعتنقہ وتمسّک بہ، قال اللہ تعالی: -یٰأَیُّہَا لنَّاسُ قَدْ جَاء تْکُمْ مَّوْعِظَة مّن رَّبّکُمْ وَشِفَاء لِمَا فِی لصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَة لّلْمُؤْمِنِینَ * قُلْ بِفَضْلِ للَّہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ ہُوَ خَیْر مّمَّا یَجْمَعُونَ- -یونس:57۔58-، وتتجلّی رحمة السلام فی مقاصدہ العظیمة وقواعدہ الجلیلة ونُظمہ الفریدة وأخلاقہ النبیلة، فہو رحمة فی السلم والحرب، ورحمة فی الشدة والرخاء ، ورحمة فی الوسع والضیق، ورحمة فی الثابة والعقوبة، ورحمة فی الحکم والتنفیذ، ورحمة فی کل الأحوال.
ولتحقیق ہذہ الرحمة جاء السلام بحفظ الضروریات الخمس التی لا بد منہا فی قیام مصالح الدین والدنیا، بحیث ذا فقدت لم تجر مصالح الدنیا علی استقامة، بل علی فساد وتہارج واضطراب وفوت حیاة، وفی الأخری فوت النجاة والنعیم والرجوع بالخسران المبین.
وہذہ الضروریات الخمس ہی الدین والنفس والعقل والعرض والمال، وأعظمہا بعد مقصد حفظ الدین مقصدُ حفظ النفس، فقد عُنیت الشریعة السلامیة بالنفس عنایة فائقة، فشرعت من الأحکام ما یحقّق لہا المصالح ویدرأ عنہا المفاسد، وذلک مبالغة فی حفظہا وصیانتہا ودرء الاعتداء علیہا.
والمقصود بالأنفس التی عنیت الشریعة بحفظہا الأنفس المعصومة بالسلام أو الجزیة أو العہد أو الأمان -روضة الطالبین -9/148-. وأما غیر ذلک کنفس المحارب فلیست مما عنیت الشریعة بحفظہ، لکون عدائہ للسلام ومحاربتہ لہ أعظم فی میزان الشریعة من زہاق نفسہ، بل وقد تکون النفس معصومة بالسلام أو الجزیة أو العہد أو الأمان ومع ذلک یجیز الشرع للحاکم زہاقہا بالقصاص أو الرجم أو التعزیر، ولا یقال: ہذا مناف لمقصد حفظ النفس؛ لکون مصلحة حفظہا والحالة ہذہ عورضت بمصلحة أعظم، فأخِذ بأعظم المصلحتین.
وقد وضعت الشریعة السلامیة تدابیر عدیدة کفیلة بذن اللہ بحفظ النفس من التلف والتعدی علیہا, بل سدّت الطرقَ المفضیة لی زہاقہا أو تلافہا أو الاعتداء علیہا, وذلک بسدّ الذرائع المؤدّیة لی القتل.
فممّا جاء ت بہ الشریعة لتحقیق ہذا المقصد:
١۔ تحریم الانتحار والوعید الشدید لمن قتل نفسہ:
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: --من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجّأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدا مخلّدا فیہا أبدا, ومن شرب سُمّا فقتل نفسہ فہو یتحسّاہ فی نار جہنم خالدا مخلّدا فیہا أبدا, ومن تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو یتردّی فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا- -أخرجہ البخاری فی الطب, باب: شرب السم والدواء -5333-, ومسلم فی الیمان 158- واللفظ لہ.
قال السندی: "--تردی- أی: سقط، -یتردی- أی: من جبال النار لی أودیتہا، -خالدا مخلدا- ظاہرہ یوافق قولہ تعالی: -وَمَن یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا- الآیة لعموم المؤمن نفسَ القاتل أیضا, لکن قال الترمذی: قد جاء ت الروایة بلا ذکر خالدا مخلّدا أبدا, وہی أصح؛ لما ثبت من خروج أہل التوحید من النار, قلت: ن صحّ فہو محمول علی من یستحلّ ذلک, أو علی أنہ یستحقّ ذلک الجزاء , وقیل: ہو محمول علی الامتداد وطول المکث, کما ذکروا فی الآیة واللہ تعالی أعلم. -ومن تحسی- آخرہ ألف, أی: شرب وتجرّع, والسمّ بفتح السین وضمّہا وقیل: مثلّثة السین: دواء قاتل یطرح فی طعام أو ماء , فینبغی أن یحمل -تحسی- علی معنی أدخل فی باطنہ لیعمّ الأکل والشرب جمیعا, -یجأ- بہمزة فی آخرہ, مضارع: وجأتہ بالسکین ذا ضربتہ بہا" -حاشیة السندی 4/67- باختصار.
٢۔ النہی عن القتال فی الفتنة:
عن الأحنف بن قیس قال: خرجت وأنا أرید ہذا الرجل, فلقینی أبو بکرة فقال: أین ترید یا أحنف؟ قال: قلت: أرید نصر ابنَ عمِّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی علیًّا قال: فقال لی: یا أحنف, ارجِع, فنی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: --ذا تواجہ المسلمان بسیفیہما فالقاتل والمقتول فی النار-، قال: فقلت أو قیل: یا رسول اللہ, ہذا القاتل فما بال المقتول؟ قال: --نہ قد أراد قتل صاحبہ- - أخرجہ البخاری فی الیمان, باب: -ون طائفتان من المؤمنین- 30-, ومسلم فی الفتن وأشراط الساعة 5139- واللفظ لہ.
قال النووی: "معنی تواجہا--: ضرب کلّ واحد وجہ صاحبہ, أی: ذاتہ وجملتہ, وأمّا کون القاتل والمقتول من أہل النار فمحمول علی من لا تأویل لہ, ویکون قتالہما عصبیة ونحوہا, ثم کونہ فی النار معناہ: مستحقّ لہا, وقد یجازی بذلک, وقد یعفو اللہ تعالی عنہ, ہذا مذہب أہل الحق. -شرح صحیح مسلم -18/11-
٣۔ النہی عن الشارة بالسلاح ونحوہ من حدیدة وغیرہا:
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال أبو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم: --من أشار لی أخیہ بحدیدة فن الملائکة تلعنہ حتی یدعہ, ون کان أخاہ لأبیہ وأمہ- -أخرجہ مسلم فی الیمان -158-
قال النووی: "فیہ تأکید حرمة المسلم, والنہی الشدید عن ترویعہ وتخویفہ والتعرض لہ بما قد یؤذیہ, وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: -ون کان أخاہ لأبیہ وأمہ- مبالغة فی یضاح عموم النہی فی کل أحد, سواء من یتّہم فیہ ومن لا یتّہم, وسواء کان ہذا ہزلا ولعبا أم لا؛ لأن ترویع المسلم حرام بکل حال؛ ولأنہ قد یسبقہ السلاح کما صرّح بہ فی الروایة الأخری, ولعن الملائکة لہ یدلّ علی أنہ حرام" -شرح صحیح مسلم -16/170-
٤۔ النہی عن السبّ والشتم المفضی للعداوة ثم التقاتل:
قال تعالی: -وَقُل لّعِبَادِی یَقُولُواْ لَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ِنَّ لشَّیْطَٰنَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ ِنَّ لشَّیْطَٰنَ کَانَ لِلِنْسَٰنِ عَدُوّا مُّبِینًا- -السراء 53-.
قال الطبری: "یقول تعالی ذکرہ لنبیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم: وقل یا محمد لعبادی یقل بعضہم لبعض التی ہی أحسن؛ من المحاورة والمخاطبة, وقولہ: -ِنَّ لشَّیْطَٰنَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ- یقول: ن الشیطان یسوء محاورة بعضہم بعضا -یَنزَغُ بَیْنَہُمْ- یقول: یفسد بینہم, یہیج بینہم الشر، -ِنَّ لشَّیْطَٰنَ کَانَ لِلِنْسَٰنِ عَدُوّا مُّبِینًا- یقول: ن الشیطان کان لآدم وذریتہ عدوّا قد أبان لہم عداوتہ بما أظہر لآدم من الحسد وغرورہ یاہ حتی أخرجہ من الجنة" -جامع البیان -15/102- باختصار.
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: -سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر- -أخرجہ البخاری فی الیمان, باب: خوف المؤمن من أن یحبط عملہ -46-, ومسلم فی الیمان -97-
قال المناوی: "--سِباب- بکسر السین والتخفیف -المسلم- أی: سبّہ وشتمہ, یعنی التکلّم فی عرضہ بما یعیبہ, --فسوق- أی: خروج عن طاعة اللہ ورسولہ, ولفظہ یقتضی کونہ من اثنین, قال النووی: فیحرم سبّ المسلم بغیر سبب شرعی, وقتالہ أی: محاربتہ لأجل السلام کفر حقیقة, أو ذکرہ للتہدید وتعظیم الوعید, أو المراد الکفر اللغوی وہو الجحد, أو ہضم أخوة الیمان" -فیض القدیر ، باختصار.
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

Tuesday, March 2, 2010

بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

از الشیخ ضیاءالرحمٰن
کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور اساس اس وقت مضبوط اور مستحکم ہو سکتی ہے جب اس کے افراد کی ذہنی وفکری تربیت میں کسی قسم کی کمی نہ ہو ۔ افراد معاشرہ کو اخلاق کریمانہ سے روشناس کروا کر رذیلہ اخلاق وعادات سے محفوظ کرنا ہی اصل کامیابی ہے اسی لئےرسول مکرم ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچ کر مدنی معاشرہ کی بنیاد اخوت اسلامی پر رکھی جس سے چند سالوں میں اسلام اکناف عالم میں پھیل گیا۔آج بھی تبلیغ اسلام اور ترویج دین حنیف کے لیے اخوت اسلامی اور اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرنا ہو گا ارشاد رب العزت ہے :
﴿یا ایھا الناس! ﴿اِنَّا خَلَقنٰٰکُم مِن ذَکَرٍ وَ اُنثٰی وَجَعَلنٰکُم شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَاللّٰہِ اَتقٰٰکُم﴾ (الحجرات :13)اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک د کوپہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے ۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کوحقیرنہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑجائے گا۔
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے ۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں ۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں ، دوریوں ، کدورتوں ، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا ہے ۔
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے ہرکام میں نہایت اعتدال قائم رکھا ہے قبل از اسلام دنیا میں ہر سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جارحانہ اصول ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کالے وگورے کا امتیاز رائج تھا جرائم کی سزا بھی شخصیات وخاندانوں کی حشم ومنزلت دیکھ کر دی جاتی پھر جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ اسلام کی صورت میں اہل عالم کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے ان گم گشتہ راہ انسانوں کو یہ باور کرایا کہ تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
خلقکم من نفس واحدۃ (النساء:۱ )یعنی تمہیں ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا۔ اسی کی تشریح کرتے ہوئے رسول رحمت ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد) ترجمہ:۔اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے ‘‘یہی مضمون قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا:﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ (حجرات:۱۳)
ترجمہ :یقیناً تم میں سب سے زیادہ صاحب عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ غرض یہ کہ اسلام نے ﴿ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ کے قاعدہ سے ذات پات کی اونچ نیچ نسلی اور لسانی امتیازات کو یکسر مٹا کر شرافت ورذالت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور اطاعت الٰہیہ کو قرار دیا اور’’ انما المؤمنون اخوۃ ‘‘(بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں )کا اصول وضع کر کے کالے حبشیوں سرخ وگورے ترکیوں ورومیوں نچلی ذات کے عجمیوں اور عرب کے قریشیوں اور ہاشمیوں کو بھائی بھائی بنادیا۔اور﴿ خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن﴾(التغابن :۲)کے ضابطہ سے قومیت اس بنیاد پر قائم کی کہ ایمان والے ایک قوم اور بے ایمان دوسری قوم یہی وہ بنیاد ہے جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خونی رشتوں کو توڑ کر بلال حبشی رضی اللہ عنہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا رشتہ محسن انسانیت ﷺسے جوڑ دیا۔
اسی اسلامی دو قومی نظریہ کی رو سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ قومیت کی بنیاد صرف ایمان وکفر ہی ہو سکتی ہے رنگ ونسل زبان و وطن ایسی چیزیں ہیں ہی نہیں جو انسان کو مختلف گروہوں میں بانٹ سکیں چنانچہ اسلام نے زمانۂ جاہلیت کی نسبی و وطنی بنیاد گرا کر ایمانی وکفری بنیاد قائم کر کے پھر’’ ان ا کرمکم عند اللہ اتقاکم ‘‘کے ذریعہ یہ بھی وضاحت کر دی کہ فضیلت کا معیار صرف مسلمان ہوکر کسی خاص برادری میں سے ہونا نہیں ہے بلکہ پھر فضیلت کا معیار وکسوٹی تقویٰ ہے مرد کو عورت پر عرب کو عجم پر اگر کچھ فضیلت ہے بھی تو وہ تقویٰ ہی کی بنیاد پر ہے ۔
خدارا ہوش کے ناخن لیجئے ! ہم بھی مسلمان اور آپ بھی مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور ہم اس نبی کریم ﷺ کو ماننے والے ہیں جنہوں نے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کا علم بلند کر کے خون کے پیاسوں ، جانی دشمنوں اور کٹر متعصبین کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ جوڑ دیا اور فرمایا کہ:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔(بخاری ، کتاب الایمان)
ترجمہ: سچا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ نبی رحمت ﷺ فرقہ پرستی اور تعصب کے درخت پر یوں تیشہ چلا تے ہیں :
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ (رواہ ابوداؤ)
ترجمہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی طرف بلائے تعصب کے طور پر لڑ ے اور تعصب پر مرے ۔ نبی کریم انے کٹر دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی ایسی تربیت واصلاح کی جن کی اخوت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔
صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس تعصب پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ، پٹھان، بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے ۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑ ا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے ۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلائی ہوئی ہیں ۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے ۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑ ا کھڑ ا ہوتا۔
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے ۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں ۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی، اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں ۔ وہاں امتیاز کے خلاف (Anti-Discrimination) قوانین بنائے جا چکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جا رہا ہے ۔
اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے ۔
محترم قارئین ! ہمیں اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرنے اورگروہی لسانی ، علاقائی ، نسلی ، اور مذہبی عصیبتوں کو فنا کر دینے کی ضرورت ہے تب ہی ہمیں کامیابی وکامرانی نصیب ہو گی وگرنہ ذلت وخواری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تفسیر سورۂ نور

قسط نمبر ۴
ازالشیخ فیض الابرار
احکام قذف
قال تعالی : ﴿وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ٭ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴾
(سورۃ النور۴۔۵)
ترجمہ : اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی (۸۰)کوڑ ے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں (۴)یا جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا اور مہر بانی کرنے والا ہے (۵)
معانی الکلمات :
یرمون : لفظی معنی پھینکنا اور مارنا ہے اور الرمی کا مطلب پتھر پھینکنا اور اصلاحی طور پر چونکہ انسان اپنے کلمات کے ذریعے دوسرے پر تہمت لگاتا ہے اور جسم پر لگے گھاؤ زخم بھر جاتے ہیں لیکن روح پر لگے زخم نہیں بھرتے
المحصنات: الاحصان کسی چیز کی حفاظت کرنا اسے محفوظ رکھنا یہ اس لفظ کے بنیادی معنی ہیں عربی زبان میں اور قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ حصان اس عورت کو کہتے ہیں جو پاک دامن ہو اپنی عفت کو محفوظ رکھتی ہو (تاج راغب ،
محیط )
عورت کی پاک دامنی دو طریق سے ہوتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ غیرشادی شدہ ہو اور اپنی عفت کو محفوظ رکھے دوسرا یہ کہ وہ شادی کر کے صرف ایک کی ہو جائے اور اس طرح اس کی عصمت محفوظ ہو جائے ۔ اس اعتبار سے پاک دامن عورت کو محصَن بھی کہتے
ہیں اور محصِن بھی کہتے ہیں ۔ راغب نے لکھا ہے کہ محصِن حفاظت کرنے والی جب وہ غیر شادی شدہ حالت میں اپنی عفت کی حفاظت آپ کرے اور محصَن اس کو کہتے ہیں (جس کی حفاظت کی جائے )جب ا سکی عصمت کی حفاظت شادی کے ذریعے ہو جائے
چنانچہ المحصنت شادی شدہ عورتوں کو کہتے ہیں ۔
الفاسقون : فسق دائرہ حق سے باہر نکل جانا یعنی وہ شخص جو اطاعت رسالت سے باہر نکل جائے یعنی اطاعت نہ کرنے والا فاسق کہلاتا ہے .جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ فاسقین وہ ہیں جو اللہ سے پختہ عہد باندھ کر اسے توڑ دیتے ہیں اور جس رشتے کو ملانے کا اللہ نے
حکم دیا ہے اسے کاٹ کاٹ کر ٹکڑ ے کر دیتے ہیں ‘‘
(سورۃ البقرۃ: ۲۷)
اور ظالمین ، کافرین ، احکام خداوندی کی مخالفت کرنے والا ، مجرمین ، فحش کلامی کرنے والا بھی فاسق ہے . مختصراًمؤمن اور فاسق ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی بات کوالنابغہ الذبیانی نے یوں بیان کیا ہے ’’جرح اللسان کجرح الید‘‘ کہ زبان کا دیا گیا زخم ہاتھ کے
دیے گئے زخم کی طرح ہے .
المحصنا ت : پاک دامن، اپنے آپ کو اسلام ، زواج اور عفاف کے ذریعے محفوظ رکھنے والی .
شھداء: شاھد کی جمع گواہ اور یہ گواہ مرد ہونے چاہیئے اور آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہ چونکہ مرد ہونے چاہیئے لہذا عورتوں کی گواہی یہاں قبول نہ ہو گی .
فاجلدوھم:کوڑ ے مارنا(وضاحت گزر چکی ہے )
الفاسقون : جمع فاسق نافرمان الفاسق وہ شخص جو اطاعت سے نکل گیا ہو اور برائی کے ارتکاب میں حد سے تجاوز کر گیا ہو .
تابوا :توبہ اللہ کی طرف رجوع کرنا .خلوص دل سے ندامت اور گناہ نہ کرنے کا ارادہ وغیرہ . تابوا : تاب ، یتوب ، توبا ، توبۃ ، متابا کے معنی ہیں واپس آنا
(تاج، راغب)
کسی غلط کام سے واپسی کو توبہ کہتے ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ توبہ ایک عملی اقدام ہے جس سے کئے ہوئے غلط کام کا مداوا کیا جاتا ہو اور اس کے مضر اثرات کی تلافی کی جاتی ہے تاب عنہ اور تاب منہ کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی غلطی کا احساس کر کے غلط روش کو
چھوڑ دیا اور صحیح راستہ کی طرف لوٹ آیا . غلطی کا احساس ، احساس کے بعد غلط روش سے اجتناب اور پھر صحیح روش کا اختیا ر کرنا یہ تینوں مراحل توبہ کے اندر شامل ہیں اور قرآن مجید میں آیا کہ ﴿اِنَّ الحَسَنَاتَ یُذھِبنَ السَّیِّئَات﴾ (سورۃ ھود:۱۱۴)’’یعنی
حسنات سیئات کو ختم اور دفع کر دیتی ہیں ‘‘ یعنی توبہ کے بعد صالح کام غلط کامو ں کے مداوا سے اورتدارک کے لئے معین ثابت ہوتے ہیں . توبہ سابقہ گنا ہوں پر ندامت کو کہتے ہیں .انابت مستقبل میں ترک معاصی کو کہتے ہیں . استغفار مغفرت اور بخشش کی
طلب کو کہتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ صرف گنہگار ہی کرے بلکہ ؛یہ مسلمان و مومن پر فرض ہے
تفسیر و تشریح : بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیات حادثہ افک کے نتیجے میں نازل ہوئیں اور ان لوگوں پر نازل ہوئیں جنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی . لیکن جس رائے پر اکثر مفسرین مجتمع ہیں وہ یہ ہے کہ یہ آیت صرف اسی سبب کی بناء
پر نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ آیت عام ہے اور ہر تہمت لگانے والے کے بارے میں ہے
سابقہ آیات میں بد کاری کرنے والوں کا تذکرہ موجود ہے جیسا کہ سابقہ سطورپر گزرا ہے کہ اسلا م وہ واحد دین ہے جو کہ نہ صرف جرائم سے روکتا ہے بلکہ جرائم کی طرف جانے والے راستوں سے بھی روکتا ہے لہذا سب سے پہلے زنا کی حرمت اور قباحت اور تباہ
کاری کا ذکر کرنے کے بعد اب اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ معاشرے میں ان نا جائز تعلقات کا تذکرہ بھی بند کرایا جائے کیونکہ ان تذکروں سے بھی بے شمار باتیں پھیلتی ہیں جن میں چغلی اور غیبت سر فہرست ہیں اور اس کے بعد لاشعوری طور پر
ایک ماحول اس قسم کا بن جاتا ہے اور جس سے معاشرے میں موجود افراد پر انتہائی غلط اثرات پڑ تے ہیں لہذا شریعت اسلامیہ اس برائی کا ابتدا میں ہی سد باب کرنا چاہتی ہے ایک طرف زنا کے ثابت ہونے پر سزا اور دوسری طرف پارسا اور نیک لوگوں پر تہمت
لگانے کی سزا بھی سنا دی ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی اپنی زبان سے ایسی کوئی بات بلا ثبوت نہ نکالے اور وہ اس بات کا احساس کرے کہ اسلامی معاشرے میں کسی مسلمان کی عزت ، عصمت اور عفت کا کیا مقام ہے اور وہ اتنی معمولی چیز نہیں کہ جو چاہے جب چاہے
جہاں چاہے جسے چاہے کہ اس کو تباہ کر دے اور اس بارے میں ایک قاعدہ بتا دیا کہ اگر کوئی شخص ایسی کسی گندگی سے آگاہ ہوتا ہے اگر تو اس کے پاس مطلوبہ گواہیاں ہیں تو وہ معاملہ قوانین کے مطابق قاضی وقت کے پاس لے جائے ورنہ وہ مسئلہ وہیں چھوڑ دے
اور اس کو آگے نہ پھیلائے .
والذین یرمون المحصنات سے اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے کہ یہ الزام کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ کسی کی عزت کے خلاف ہے اور کسی کی طہارت اور پاکیزگی کے خلاف ہے اور کسی مسلمان کے پاس سب سے بڑ ی دولت اس کے کردار کی طہارت اور پاکیزگی
ہے اور اس کردار کی بناء پر اس کو دنیا میں امامت کا حق ملا ہے اور اگر وہی کردار باقی نہ رہے تو دعوت و تبلیغ کا سارا عمل بیکار ہو جائے گا اور ’’المحصنات‘‘یعنی پاک صاف عورتیں عورتوں کا تذکرہ اس لئے کیا گیا کہ افراد کی تربیت میں جتنا بڑ ا ہاتھ خواتین کا ہوتا ہے
اتنا مرد کا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تربیت کا حجر اساس ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول ملتا ہے کہ تم مجھے ایک اچھی ماں دو میں تمھیں ایک اچھی نسل دوں گا لہذا کسی معاشرے کی تربیت کے حجر اساس پر ہم تہمت لگا کر اس کو تباہ و برباد کر دیں بالفاظ
دیگر ہم نے اس معاشرے میں ہر اچھائی پر اپنی انگلی اٹھا دی ہے کہ جب طہارت اور پاکیزگی ہی نہ ہو تو نہ تو تربیت ہو گی اور نہ ہی دعوت و تبلیغ ۔
لفظ’’ احصان‘‘ لغت میں کبھی عفت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے کبھی حریت کبھی زواج کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے یہ حکم جس طرح پاک صاف عورتوں پر تہمت لگانے پر ہے اس طرح پاک صاف مردوں پر تہمت
لگانے پر بھی یہی سزا ہے . کیونکہ برائی ہر حا ل میں برائی ہے خواہ اس کا اظہار مردوں کی طرف ہو یا عورتوں کی طرف ہو .
عزت ، عفت ، عصمت سب کی یکساں ہوتی ہے اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور یہ بات واضح رہے کہ یہ حکم صرف پاک صاف لوگوں پر تہمت لگانے کے بارے میں ہے غیر طاھر اور غیر پاک لوگوں کے لئے یہ کیفیت نہ ہو گی . ان کے
لئے قاضی وقت خود حالات کے مطابق سزا تجویز کرے گا ۔
اب تہمت لگانے والے کے لئے لازم ہے کہ اپنی اس تہمت پر چار گواہ بھی لیکر آئے جنھوں نے یہ بدکاری اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے سنی سنائی بات پر گواہی قبول نہیں ہے اور گواہ کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا ایک معین معیار ہے جس کی وضاحت اپنے
مقام پر آئے گی . اب اگر کسی ایسی بدکاری پر چار گواہ میسر نہیں ہوتے تو دوسرے لفظوں میں اس شخص کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو محفلوں اور مجلسوں میں نہ اچھا لے بلکہ بغرض اصلاح ان بد کاری کرنے والوں کو نصیحت بھی کرے تاکہ ’’من رای منکم منکر فلیغیرہ
بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان‘‘ کا فریضہ بھی پورا ہو جائے اور ہمارے ایک استاد شیخ عبد الرحمان السعدی (استاذ جامعہ اسلامیہ بالمدینہ المنورہ) اس بارے میں ایک عجیب اور خوبصورت بات بتاتے ہیں کہ ’’اس گناہ اور بد کاری
پر چار گوا ہوں کا میسر نہ ہونا اس بات کی دلالت ہے کہ اللہ تعالی ابھی ان کو سنبھلنے کا ایک موقع اور دے رہا ہے اور اللہ تعالی ان کے اس جرم پر پردہ ڈال رہا ہے لہذا ان کو چاہیے اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی اصلاح کر لیں . (جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں

قسط نمبر 47
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ’’اَلمُسلِمُ اَخُو المُسلِم لَا یَظلِمُہُ وَلَایَخذُلُہُ وَلَا یَحقِرُہُ التَّقویٰ ھٰھُنَا وَ یُشِیرُ اِلٰی صَدرِہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ بِحَسبِ امرِئٍی مِنَ الشَّرِّ اَن یَحقِرَ اَخَاہُ المُسلِم کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرضُہُ ۔
تخریج : صحیح مسلم شریف ۔کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم ۔ ۔ ۔ حدیث نمبر( ۶۵۴۱).
راوی کا تعارف : حدیث نمبر ۱۵کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں .
معانی الکلمات : المسلم :مسلمان ( The Muslim ) اخو :بھائی ہے ( Is brother ) لایظلمہ : اس پر ظلم نہیں کرنا Does not ) oppress him /Does not trent him unjustly ) لا یخذلہ: ا سے رسوا نہیں کرتا Does not farsake him /Does not ) disappoint him ) لایحقرہ : اس کو حقیر نہیں سمجھتا ( Does not despise him ) التقوی : پرہیز گاری( piety) ھھنا : یہاں ( here)
یشیر : اشارہ کرتا ہے (Indicates ) ا لی : طرف (To ) صدرہ : اس کا سینہ ( His chest ) ثلاث مرار : تین مرتبہ (Three times )
بحسب : کافی ہے ( Enough ) امری : شخص( Person ) من : سے (From ) الشر : برائی (Wicked ness /Vice/Sin /Evil )
ان : یہ کہ( That ) اخاہ : ا سکا بھائی (is brother ) کل : تمام (All ) علی : اوپر (Upon ) حرام : حرام ہے ( Prohibited /Forbidden /Unlauoful ) دمہ : ا س کا خون (is blood ) مالہ : اس کا مال ( His proporty ) عرضہ : اس کی عزت(His honowr )
ترجمہ : سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان (دوسرے )مسلمان کا بھائی (ہوتا) ہے ۔اس پر ظلم نہیں کرتا ، اسے رسوا نہیں کرتا، اور نہ ہی اسے گھٹیا (کم تر ) جانتا ہے ۔ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا تقوی یہاں (ہوتا)ہے (کسی ) شخص کے شرارتی (ثابت ) ہونے کیلئے اتنا (ہی ) کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، ہر مسلمان پر (دوسرے )مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہے ۔
تشریح : شریعت اسلامیہ میں باہمی اتفاق و اتحاد ، الفت و یگانگت اور امن پسندی کی بہت تاکید فرمائی گئی ہے ۔ چنانچہ معاشرتی آداب اور اخلاقیات اپنی جگہ پر مستقل نیکی اور اچھائی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ میں قیام امن کیلئے راہنما اصول بھی ہیں ۔ چنانچہ اس حدیث میں حکم ہے کہ مسلمان آپس میں حقیقی بھائیوں کی طرح رہیں ، ظلم و زیادتی، سے منع کیا گیا . ہر اس اقدام سے روکا گیا جو دوسرے مسلمان کی ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتا ہو . کسی بھی مسلمان کو اپنے آپ سے کم تر سمجھنا کبر اور بڑ ائی ہے لہذا تاکید کر دی کہ اسے حقیر نہ سمجھنا ۔ در حقیقت حقیر تو وہ ہے جو اللہ کی نظر میں حقیر ہو عزت والا تو وہ شخص ہے جو اللہ کے ہاں عزت والا ہو اور اللہ کے نزدیک اصول ’’ان ا کرمکم عنداللہ اتقاکم ‘‘ہے یعنی ’’جو شخص تم سے زیادہ متقی ہے وہی اللہ کے ہاں مکرم ہے ‘‘ تقوی ہی اصل معیار ہے اور تقوی دل کا معاملہ ہے جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے . علاوہ ازیں ایک اہم نکتہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر اپنے مسلمان بھائی کو حقیر اور گھٹیا سمجھتا ہے تو در حقیقت یہ ا سکے برے ہونے کی واضح علامت ہے ۔ اسی طرح دوسرے مسلمان کی جان ، مال ، عزت کیساتھ کھیلنا حرام قرار دیا گیا ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

استفتاء

از الشیخ محمد شریف
سوال :ایک گھر میں بیوی اور شوہر آپس میں کسی مسئلے پر لڑ رہے تھے کہ شوہر نے اپنی بیوی سے کہا: آپ میرے لیے میری امی اور بہن جیسی ہو اور پھر اپنے بیٹے کو کھجور کی تین گٹھلیاں دے کر تین مرتبہ کہا کہ یہ تمہاری امی کی طلاق ہیں ، پھر ایک مہینے بعد رجوع
کر کے اپنی بیوی کو بیوی ماننے لگا مگر لڑ کی والوں نے غصے کی حالت میں انکار کر دیا ، اسی طرح وقت گزرتے گزرے چھ (6) سال ہو گئے اور معاملہ ٹھنڈا ہو گیا اور جب شوہر نے پھر کہا کہ یہ میری بیوی ہے تو بیوی کے دل میں بھی یہ بات آئی کہ دوبارہ اسے تسلیم
کرے لیکن دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شریعت اس معاملہ میں جو فیصلہ کرے گی وہ ہم مانیں گے ۔
الجواب بعون الوھاب :
الحمد للہ وحدہ ، والصلاہ والسلام علی من لا نبی بعدہ ،
اما بعد :
صورت مسؤلہ کے مطابق واضح ہو کہ جو آپ نے چھے سال پہلے اپنی بیوی سے غصہ میں یہ بات کی تھی (کہ تم میرے نزدیک میری ماں بہن جیسی ہو ) تو اس بات کو شریعت کی اصطلاح میں ظہار کہا جاتا ہے اور کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے ظہار کرے تو اس
شوہر پر اپنی اسی بیوی سے حق زوجیت قائم کرنے سے پہلے کفارہ واجب ہو جاتا ہے کفارہ یہ ہے کہ یا تو ایک گردن آزاد کرے اگر کوئی غلام وغیرہ نہ ملے تو دو مہینے مسلسل روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے جیسا کہ
ارشاد باری تعالی ہے ﴿وَالَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِنْ نِسَائِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ٭فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِینًا ذَلِکَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتِلْکَ
حُدُودُ اللَّہِ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴾( سورۃ المجادلہ آیت ۳، ۴)
ترجمہ : اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کر لیں تو آپس میں ایک دوسرے کو چھو نے سے پہلے (یعنی حق زوجیت قائم کرنے سے پہلے ) خاوند پر ایک غلام آزاد کرنا لازمی ہو گا ، اس کے ذریعے تم نصیحت کیے جاتے ہو اور اللہ
تعالی تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے . اگر کسی شخص کو (غلام ) نہیں ملا تو اس کے ذمہ دومہینے لگاتار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں (حق زوجیت قائم کرنے سے پہلے ) اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں
کو کھانا کھلانا ہے یہ اس لئے کہ تم اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ اور یہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور انکار کرنے والوں (کفار) کیلئے دردناک عذاب ہے .
پھر آپ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین گٹھلیاں دیکر طلاق دی تھی یہ ایک ہی طلاق ہو گی کیونکہ ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ ﷺ کے دو رمبارک سے لیکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال مکمل ہونے تک ایک ہی شمار کی جاتی
تھی جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کان الطلاق علی عہد رسول اللہ ﷺ وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدہ .
(دیکھئے صحیح مسلم ۲/۱۰۹۹ حدیث نمبر ۱۴۷۲)
’’اللہ کے رسول ﷺ کے دور نبوت اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال مکمل ہونے تک ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق شمار کی جاتی تھی ۔ ‘‘
لہذا آپ نے طلاق دینے کے بعد اپنی بیوی سے دوران عدت رجوع کر لیا ہے تو وہ ابھی بھی آپ کی بیوی ہے دوبارہ نکاح یا رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اور اگر آپ نے طلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع نہیں کیا ہے تو نئے سرے سے نکاح
کر کے آپ دونوں کے درمیان ازدواجی تعلقات بحال ہو سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب ،
وصلی اللہ علی نبینا محمد ﷺ وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین
٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

ہر دو خطبۂ جمعۃ المبارک میں درود شریف پڑھنا

از الشیخ محمد یوسف
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ إلی یوم الدین
مفسر قرآن مصلح اعظم پنجاب حافظ محمد لکھوی تفسیر محمدی پنجابی ساتویں منزل سورۃ الجمعہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔
ہر خطبہ حمد للہ دا پڑ ھے درود رسول الٰہی
بھی کرے وصیت خوف خدا دی چھوڑ ن لوگ تباہی
(تفسیر محمدی منظوم پنجابی ص/۱۷۵، کتب خانہ عزیزیہ کشمیر بازار لا ہور، تفسیر محمدی ص/۱۵۱ جلد نمبر ۷ مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لا ہور)
خطیب اسلام امام الہند حضرت مولانا محمد جوناگڑ ھی رحمہ اللہ خطبات محمدی جلد سوم کے صفحہ نمبر ۵۶ میں خطبہ اس طرح تحریر فرماتے ہیں ۔
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین والعاقبۃ للمتقین أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید ۔ أمابعد
یا أیہا الناس توبوا إلی اللہ قبل أن تموتوا وبادروا بالأعمال الصالحۃ قبل أن تشتغلوا عنہا ہرماً ناغضا وموتا خالصا ومرضاً حابساً وتسویفا مولیا وصلو الذی بینکم وبین ربکم تسعدوا واکثروا الصدقۃ فی السر والعلانیۃ توجروا وتحمدوا وترزقوا وتنصروا وتحبروا وأمرو بالمعروف تخصبوا وانہو عن
المنکر تنصروا أیہا الناس أن اکتیتکم أکثرکم ذکراً للموت وا کرمکم احسنکم استعداداً لہ إلا وإن من علامت العقل التجافی عن دار الغرور والإنابۃ إلی دار الخلود والزود لیسکنی القبور والتأہب لیوم النشور۔
ترجمہ:’’ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے اور درود کے لائق سید المرسلین کی ذات ہے اور آخرت کا بہتر انجام متقین کیلئے ہے اور میری گواہی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک
نہیں اور میری گواہی ہے حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
اے اللہ رحمت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تونے رحمت نازل فرمائی إبراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر یقینا تو تعریف کیا ہوا بزرگی والا ہے ۔
لوگو!موت سے پہلے توبہ کرو لوگو کمر توڑ بڑ ھاپے سے اور خالص موت اور روک دینے والی بیماری اور بے فائدہ افسوس کے موقعہ سے پہلے ہی پہلے نیکیاں کر لو اللہ تعالیٰ سے اچھے تعلقات توحید وسنت کی پابندی سے پیدا کر لو تاکہ سعادت سے محروم نہ رہ جاؤ
پوشیدگی میں اور ظاہر بھی صدقہ خیرات دیتے رہو تاکہ اجروثواب بھی ملے ستائش اور تعریف بھی ہو روزی رزق میں بھی کشادگی اور فراوانی ہو دشمنوں کے مقابلے میں اور تمہارے اپنے کاموں میں بھی تمہاری مدد خدا کی طرف سے کی جائے ۔ لوگو! سب سے
دانا وہ ہے جو اپنی موت کو کبھی نہ بھولے سب سے زیادہ بزرگی اور ا کرام اس کا ہو گا جو اپنی موت کیلئے موت کے وقت سے پہلے بخوبی تیاریاں کر لے یعنی نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر لے لوگو! عقل کی علامتیں یہ ہیں کہ انسان اس دھوکے کی ناپائیدار دنیا سے الگ
تھلگ رہے اور اللہ تعالیٰ کی ہمیشگی کی نعمتوں والی جنت کا طالب اور اس کی طرف راغب رہے اور قبر کی لمبی رہائش کیلئے توشہ ساتھ لیجائے اور دوبارہ بھی اٹھنے کے دن کیلئے تیاریاں کرتا رہے یعنی نیکیوں میں مشغول اور برائیوں سے دور رہے ‘‘
والصلاۃ والسلام علی خیر الأنام ﷺ
تالیف : امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ
مترجم : قاضی محمد سلیمان منصورپوری سیشن جج ریاست پٹیالہ
درود شریف پڑ ھنے کے چالیس مواقع ذکر فرماتے ہیں خطبہ میں درود پڑ ھنے کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت حیطہ تحریر میں لائے ہیں ۔
مقامات درود میں سے ایک جگہ خطبے میں مثل خطبہ جمعۃ المبارک وعیدین واستسقاء وغیرہ ۔ (والصلاۃ والسلام علی خیر الأنام ﷺ ص/۲۲۵، ادارہ ضیاء الحدیث مدنی روڈ مصطفی آباد لا ہور )
برصغیر کے ہیرو جناب سیدنا ومولانا محمد جونا گڑ ھی رحمہ اللہ مترجم تفسیر ابن کثیر ودیگر کتب کثیر۔
( تفسیر ابن کثیر کے صفحہ :۲۷۴ جلد/۴)
درود پڑ ھنے کے متعدد مواقع ذکر کے ہیں آٹھویں نمبر پر یوں تحریر فرمایا ہے کہ : اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درودپڑ ھنا واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہونگے اس لئے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول ﷺبھی
واجب ہو گا۔
(ذکر رسول بطور شہادت ہے نہ کہ بطور عبادت کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بطور عبادت کیا جاتا ہے ۔ اور عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی کی جاتی ہے ۔ (از مرتب)
اہم ترین نوٹ : درود شریف پڑ ھنے کے باقی مواقع بخوف طوالت ترک کیے گئے ہیں جو ان مواقع مطالعہ کرنا چاہے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’الصلاۃ والسلام علی خیر الأنام ‘‘اور ابن کثیر کی طرف رجوع کریں ۔
حالیہ تاریخ کے مفتی ومترجم صحیح بخاری شریف حافظ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ فاضل مدینہ یونیورسٹی ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ محسن انسانیت ہیں آپ ﷺ کے احسانات کے پیش نظر اہل ایمان کو ہر وقت ہر جگہ پر درود بھیجنے کا حکم ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہوتو مجھ پر درود بھیجتے رہو تمہارا درود مجھے
پہنچایا جاتا ہے ۔ ( مسند أحمد)
بلکہ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے اور رسول اللہ ﷺ پر درود نہ پڑ ھا جائے وہ قیامت کے دن ایسے نقصان کا باعث ہو گی جس کی تلافی نہیں ہو سکے گی بلکہ حسرت وارمان کے علاوہ وہاں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو مجلس اللہ
تعالیٰ کے ذکر اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑ ھے بغیر برخاست ہوجائے وہ قیامت کے دن نقصان کا باعث ہو گی (بیہقی ص/۲۱۰، ج/۳)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان احادیث کی ثقاہت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑ ھنا ضروری ہے ۔ (الأحادیث الصحیحہ ص/۱۶۲، ج/۱)
جمعہ کے دن بالخصوص حکم ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر بکثرت درود بھیجنا چاہیے چنانچہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود پڑ ھا کرو کیونکہ جو آدمی جمعہ کے دن مجھ پر درود بھیجتا
ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (مستدرک حاکم ص:۴۲۱ ، ج:۲)
اس قسم کی ایک روایت حضرت اوس بن اوس سے بھی مروی ہے ۔ (سنن ابی داؤد :۱۰۴۷)
جمعۃ المبارک اور عیدین کے خطبات میں درود پڑ ھنے کے متعلق بعض اسلاف کا عمل ملتا ہے چنانچہ عبد اللہ بن أبی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم مقام خیف میں سیدنا عبد اللہ بن ابی عتبہ کے ہمراہ تھے اس نے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی رسول اللہ ﷺ پر
درود پڑ ھا اور دعائیں مانگیں پھر ہمیں نماز پڑ ھائی ۔ (فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۷۸ تحقیق الألبانی)
حضرت ابو إسحاق عمرو بن عبد اللہ السبیعی رحمہ اللہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ خطبہ کے وقت امام کی طرف منہ کر کے توجہ سے بیٹھتے کیونکہ خطبہ میں وعظ ونصیحت اور رسول اللہ ﷺ پردرودوسلام ہوتا تھا۔
(فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ ۸۷ تحقیق الألبانی)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی تالیف جلاء الأفہام میں متعدد مقامات کی نشاندھی کی ہے جہاں رسول اللہ ﷺ پر درود پڑ ھنا چاہیے ان میں سے خطبات جمعہ وعیدین بھی ہیں انہوں نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بیان کیا ہے کہ وہ خطبات میں درود پڑ
ھا کرتے تھے چنانچہ عون بن ابی جحیفہ کہتے ہیں کہ میرے والد ابو جحیفہ رحمہ اللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خدام میں سے تھے اور منبر کے نیچے بیٹھتے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پرچڑ ھے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور رسول اللہ ﷺ پر
درود پڑ ھا پھر فرمایا کہ اس امت میں رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے اس طرح سیدنا عمرو بن عاص اور سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی بیان کیا ہے کہ وہ بھی اپنے خطبات میں
رسو ل اللہ ﷺ پر درود پڑ ھنے کا اہتمام کرتے تھے ۔ (جلاء الأفہام مترجم ص/۲۶۹)
ان شواہد کی بنا پر خطبات جمعہ وعیدین میں رسول اللہ ﷺ پر درود پڑ ھنے میں چنداں حرج نہیں بلکہ ایسا کرنا خیروبرکت کا باعث ہے اس مقام پر یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ اذان سے قبل فرض نماز کے بعد یا نماز جمعہ کے بعد کھڑ ے ہوکر بآواز بلند
اجتماعی درود پڑ ھنا سنت سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی قرون اولیٰ میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے (بلکہ ایسا کرنا بدعت اور گناہ کبیرہ ہے )۔ (فتاوی اصحاب الحدیث ص/۱۵۹، ج/۲، مکتبہ اسلامیہ لا ہور)
خطبہ جمعہ کے پانچ ارکان ہیں
۱۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا
۲۔ نبی کریم ﷺ پر درود شریف
۳۔ تقوی کی وصیت کرنا
یہ تین امور دونوں خطبوں میں واجب ہیں ۔
۴۔ قرآنی آیات کی تلاوت اور ان کا مفہوم
۵۔ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا خیر کرنا، امام کی دعا پر مقتدی دل میں آمین کہیں ۔ (از مرتب)
جب کسی چیز کو کسی عمل کے رکن کی حیثیت حاصل ہوتی ہے تواس کا ادا کرنا واجب ہوتا ہے ۔ درود شریف چونکہ خطبہ کا رکن ہے لہذا اس کا خطبہ جمعہ میں پڑ ھنا بھی واجب ہے ۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ ج/۲، ص/۲۸۶)
خطباء سلف اور تابعین کرام رحمہم اللہ ایسے خطبہ کو جس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے نہ ہو دم بریدہ اور ایسا خطبہ جو آیات قرآنیہ سے آراستہ اور درود پاک سے مزین نہ ہوتا اسے بدنما قرار دیا کرتے تھے ۔ (از مرتب)
اسی طرح سید الاولین والآخرین خطیب اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کے فرامین بھی دلالت کرتے ہیں کہ خطبہ میں بھی درود پاک پڑ ھا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے کہ مجھ پر کثرت سے درود پڑ ھا کرو اور پھر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑ ھنا بھی
ثابت ہے اور خطبہ جمعہ بھی یوم الجمعہ میں داخل ہے ۔
ثم اعلم أن الخطبۃ المشروعۃ ہی ماکان یعتادہ رسول اللہ ﷺ من ترغیب الناس وترہیبہم فہذا فی الحقیقۃ روح الخطبۃ الذی لاجلہ شرعت وأما اشراط الحمد للہ والصلاۃ علی رسول اللہ ﷺ أو قرأۃ شئ من القرآن مجمیعۃ خارج عن معظم المقصود من شرعیۃ الخطبۃ
مشروع خطبہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو رغبت دیتے اور ڈراتے پس یہ درحقیقت خطبہ کی جان ہے جس کی خاطر خطبہ کا حکم ہوا اور خدا کی تعریف کی شرط اور رسول اللہ ﷺ پر درود شریف کی شرط اور قرآن مجید پڑ ھنے کی
شرط اصل مقصود خطبہ سے خارج ہے ۔ جب اصل مقصود لوگوں کو وعظ ہے تو مخاطب لوگوں کی زبان کا لحاظ ضروری ہوا۔ (فتاوی اہلحدیث ص:۳۶، ج:۳۷، المرتب : ابو السلام مولانا محمد صدیق آف سرگودھا ، ادارہ احیاء السنۃ سرگودھا)
مجتہد العصر محدث زماں سیدنا حضرت حافظ محمد عبد اللہ روپڑ ی رحمہ اللہ المتوفی اگست 1964 کے فتوی اور سید نواب صدیق الحسن کے فتوی سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ میں درود شریف پڑ ھنا شرط ہے ۔
’’اذا فاتت الشرط فاتت المشروط ‘‘
مشہور ترین قاعدہ ہے ۔
مسند احمد میں ہے :’’ من صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم واحدۃ صلی اللہ علیہ وملائکتہ سبعین صلاۃ (مسند أحمد ۲/۱۸۷)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے نبی ا کرم ﷺ پر ایک مرتبہ درود پڑ ھا اللہ تعالیٰ اس پر ۷۰ ستر رحمتیں نازل فرماتے ہیں اور فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں ۔ (یہ فضیلت جمعۃ المبارک کے ساتھ خاص ہے ) (شیخ الألبانی نے اس کو
حسن کہا ہے ) (مشکاۃ لألبانی ص:۲۹۵، حدیث نمبر :۹۳۵)
جملہ معترضہ
درود شریف کے فضائل پر متعدد احادیث وارد ہیں اور اسی طرح جمعۃ المبارک کے دن کثرت درود شریف پڑ ھنے کی احادیث خصوصا وارد ہیں تو کیا خطبہ جمعہ اس میں نہیں آتا آیا خطبہ جمعہ۔ جمعہ کے دن کے علاوہ کسی دن میں ہورہا ہوتا ہے ۔واللہ الموفِّق للصواب
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں

از محمد تنزیل صدیقی
نبی کریم ﷺ سے منسوب ایک روایت کے الفاظ ہیں :’’علمائِ امتی کأنبیاء بنی اسرائیل۔‘‘
ترجمہ :’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانندہیں ۔‘‘
نبوّت ایک ایسا مقام عالی ہے جس سے کسی دوسرے طبقے کے حامل فرد کو ، خواہ وہ کتنا ہی معزز و مکرم کیوں نہ ہو، تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ایک شخص براہِ راست مخاطبِ الٰہی ہے اور دوسرا اس شرف سے محروم ۔تو کیا یہ قرینِ عقل و قیاس ہو سکتا ہے کہ دونوں کو
باعتبارِ علم ومعرفت یکساں قرار دیا جائے یا ان میں تشبیہ ہی دی جائے ۔نبی کریم ﷺ خاتم النبییٖن ہیں اب ناممکن ہے کہ کوئی فرستادئہ الٰہی از سرنَو کسی پیامِ نبوت کو لے کر آئے ۔اس قسم کی موضوع روایتوں ہی سے دجالِ قادیاں اور اس کے ہمنواؤں کو
اثباتِ نبوت کے لیے دلائل ملتے ہیں ۔لیکن چونکہ روایت ہی موضوع ہے اس لیے مسلمانوں پر ان کی ایسی دلیلیں حجت نہیں ۔
نبی کریم ﷺ اور انبیائے سابقہ کی نبوّت میں بالخصوص جو فرق ہے اسے سمجھنے کے لیے چند نکات سمجھ لینے ضروری ہیں :
٭نبی کریم ﷺ کی شریعت کسی لاحق و سابق شریعت کی محتاج نہیں ۔
٭شریعتِ محمدی ﷺ اپنی تکمیل کے لیے کسی نبیِ ملہم کی قطعاً محتاج نہیں جیسا کہ گزشتہ شریعتوں میں ہوا۔ مثلاً سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعدمختلف انبیائے بنی اسرائیل کا مبعوث کیاجانا جس کے ذریعے شریعت موسوی علیہ السلام کی تکمیل ہوئی ۔ جبکہ نبی
کریم ﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت ہی کو ختم کر دیا گیا۔
٭ نبی کریم ﷺ کے بعد اب کوئی بھی شخص مقام نبوت پر فائز نہیں ہو سکتا ۔
٭ اب کوئی شخص اس وقت تک مقام ولایت کی رفعتوں کو بھی نہیں پا سکتا جب تک کہ نبوت محمدی ﷺ کا بہ دل و جاں اقرار نہ کرے ۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ خاتم النبییٖن (ﷺ)اور انبیائے سابقہ علیہم السلام کی نبوت کا تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس کے علاوہ اور بہت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہو اور خصوصاً محمد ﷺ اپنی نبوت میں کسی اور کے محتاج نہیں ہو سکتے ۔ ان کی شریعت کسی سابق و لاحق کی محتاج نہیں ہوتی ۔ بخلاف مسیح علیہ السلام
کے جنہوں نے اپنی شریعت میں اکثر تورات کا حوالہ دیا ہے اور خود صرف شریعت موسوی کی تکمیل کے لیے آئے تھے ۔چنانچہ نصاریٰ مسیح علیہ السلام سے پہلے کی نبوتوں تورات و زبور اور چوبیس نبیوں کے محتاج تھے ۔ ہم سے پہلی امتیں محدثین ملہمین کی محتاج
ہوتی تھیں ۔ لیکن امت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مستغنیٰ کر دیا ۔ان کو نہ کسی نبی کی ضرورت باقی ہے اور نہ کسی محدّث کی ۔ بلکہ ان کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام فضائل و معارف اور اعمالِ صالحہ جو کہ دیگر انبیاء میں متفرق طور پر موجود تھے جمع کر
دیے ہیں ۔ آپ کو جو فضیلت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہے وہ اس سبب سے ہوئی ہے کہ آپ کی طرف وحی بھیجی گئی ہے اور آپ پر احکام و شرائع نازل ہوئی ہیں ۔ اور تنزیل و تشریع میں کسی دوسرے بشر کی وساطت وقوع میں نہیں آئی ۔ بخلاف اولیاء
کے جن کو اگر محمدﷺ کی رسالت پہنچ چکی ہو تو وہ صرف حضورﷺ کی اتباع سے ولی اللہ بن سکتے ہیں اور جب بھی ان کو ہدایت یا راہِ حق حاصل ہو گارسول رحمت محمد ﷺ کی وساطت سے ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس جس شخص کو کسی رسول کی رسالت بھی پہنچی
ہو وہ اس رسول کی اتباع کے بغیر ولی نہیں بن سکتا اور جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ بعض اولیاء ایسے بھی ہیں جن کو محمدﷺ کی رسالت پہنچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے بعض راستے ان کے پاس ایسے ہیں جن میں وہ محمدﷺ کے محتاج نہیں ہیں ، وہ
شخص کافر اور بے دین ہے ۔‘‘]الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان (اردو):-[
۹۳۹۲حافظ ابن حجر عسقلانی اور علّامہ زرکشی رحمہما اللہ کے مطابق ’’علمائُ امتی کأنبیاء بنی اسرائیل۔‘‘ کی کچھ اصل نہیں ۔
]ملاحظہ ہو: الفوائد المجموعۃ:[
ملّا علی قاری رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق لکھتے ہیں :’’ قال الدمیری و العسقلانی : لا اصل لہٗ ، و کذا قال الزّرکشی، و سکت عنہٗ السیوطی ‘‘ ]ملاحظہ ہو: الموضوعات الکبریٰ :[
۱۵۹:’’علّامہ دمیری اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس کی کچھ اصل نہیں ، اور ایسا ہی علّامہ زرکشی نے بھی کہا اور علّامہ سیوطی نے اس پر سکوت کیا ہے ۔‘‘
علّامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں :’’ لا اصل لہٗ ، باتفاق العلماء ، و ھو مما یستدل بہ القادیانیۃ الضالۃ علی بقاء النبوۃ بعدہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم۔‘‘
]السلسلۃ الضعیفۃ حدیث نمبر [
۴۶۶’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی کچھ اصل نہیں ، یہ وہی روایت ہے جس پر گمراہ قادیانی نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کی بقا پر استدلال کرتے ہیں ۔‘‘
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

سلسلہ احادیث صحیحہ

از الشیخ مقبول مکی
۲۸۶قارئین کرام !
ماہنامہ اسوئہ حسنہ ’’سلسلہ احادیث صحیحہ ‘‘ کا آغاز کر رہا ہے یہ کتاب ماضی قریب کے مشہور معروف محدث علامہ ناصر الدین الالبانی کی شہرہ آفاق تصنیف ہے جسے عالم اسلام میں غیرم معمولی پذیرائی ملی ہے ۔ اس کتاب میں عبادات ، معاملات وجملہ اخلاقیات کے
بارے میں صحیح احادیث کو جمع کیا گیا ہے ۔ مصنف کا مختصر شخصی تعارف مندرجہ ذیل ہے ۔
نام: محمد ناصر الدین الالبانی۔
ولادت: آپ 1914؁ء میں البانیہ کے دارالحکومت اشقودر میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد نوح نجاتی البانی ایک بڑ ے حنفی فقیہ تھے ۔
تعلیم:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم جمیعۃ اسعاف الخیریۃ کے سکول سے حاصل کی اس کے بعدان کے والد نے ان کیلئے ایک خاص نصاب مرتب کیا ، وہ انہیں ایک حنفی عالم بنانا چاہتے تھے لیکن قدرت الہٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ شیخ البانی کو بچپن سے ہی مطالعے
کا بہت شوق تھا اسی شوق کی تسکین کیلئے انہوں نے جب بیس برس کی عمرمیں علامہ رشید رضا مصری کا ’’المنار ‘‘پڑ ھا تو ان کے دل میں علم حدیث کے حصول کی تڑ پ پیدا ہوگئی ۔ علامہ البانی نے علم حدیث کے حصول کیلئے سب سے زیادہ استفادہ دمشق کے مکتبہ
الظاہریہ سے کیا۔
تصنیفی خدمات:
علامہ البانی رحمہ اللہ کی ساری زندگی درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گزری ان کی مؤلفات اور تعلیقات کی تعداد سو سے زیادہ ہے ان میں سے وہ کتب بھی شامل ہیں جن پر شیخ نے تحقیق وتخریج کی اور ان میں سے ہی ’’سلسلہ احادیث الصحیحہ ‘‘ کو بہت زیادہ
شہرت ملی۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تمام مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتب اور لائبریری جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کیلئے وقف کر دی تھی۔
آپ کی مشہور تصانیف میں مختصر صحیح البخاری، صحیح وضعیف سنن اربعۃ ، التوسل انواعہ واحکامہ، تحذیر الساجد من اتخاذ القبور المساجد، ارواء الغلیل، صحیح الجامع الصغیر ، صحیح الترغیب والترھیب، آداب الزفاف ، غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام، جلباب المرأۃ
المسلمۃ، تمام المنۃ اور آلات الطرب شامل ہیں
وفات: اس عالم ربانی نے ۲۲ جمادی الآخر ۱۴۲۰ھ کو اردن کے شہر عمان میں وفات پائی ۔ انہیں ان کی وصیت کے مطابق وفات کے بعد بہت جلد دفن کر دیا گیا نماز عصراور مغرب کے درمیان ان کی وفات ہوئی اور نماز عشاء کے بعد ان کو دفن کر دیا گیا۔

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ؑﷺ کی چند نصیحتیں :
ِ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ أَمَرَنِی خَلِیلِی صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ أَمَرَنِی بِحُبِّ الْمَسَاکِینِ وَالدُّنُوِّ مِنْہُمْ وَأَمَرَنِی أَنْ أَنْظُرَ إِلَی مَنْ ہُوَ دُونِی وَلَا أَنْظُرَ إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقِی وَأَمَرَنِی أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ وَأَمَرَنِی أَنْ لَا أَسْأَلَ أَحَدًا شَیْئًا وَأَمَرَنِی أَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ کَانَ مُرًّا وَأَمَرَنِی أَنْ لَا أَخَافَ فِی اللَّہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ وَأَمَرَنِی
أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ فَإِنَّہُنَّ مِنْ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ ۔(مسند احمد ، ابن حبان، وطبرانی فی الصغیر)
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میرے خلیل رسول اللہ ﷺ نے مجھے سات باتوں کا حکم فرمایا:
۱۔مسکینوں سے محبت اوران سے قریب رہنے کا حکم دیا
۲۔مجھے حکم دیا کہ میں اپنے سے ادنیٰ شخص کی طرف دیکھوں ، اعلیٰ کی طرف نہ دیکھوں ۔
۳۔مجھے صلہ رحمی کاحکم دیا اگرچہ دوسرا توڑ نے کی کوشش کرے ۔
۴۔مجھے حکم دیا کہ میں کسی سے کچھ نہ مانگوں ۔
۵۔مجھے حکم دیا کہ میں حق بات کہوں اگرچہ وہ کڑ وی ہو۔
۶۔مجھے حکم دیا کہ میں اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں ۔
۷۔مجھے حکم دیا کہ کثرت سے لاحول ولا قوۃ پڑ ھوں ، کیونکہ یہ کلمات عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے ہیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

قسط نمبر : ۱۲
از محمد طیب معاذ
نماز عشاء کی فضیلت:
شریعت اسلامیہ میں نماز عشاء کو ایک خاص اوراہم مقام حاصل ہے اس کے بارے میں کافی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں نماز عشاء کی فضیلت اور اس کے ترک کرنے کی معصیت کا تذکرہ ملتا ہے ، ان میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں ۔
۱۔ عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: مَن صَلَّی العِشَائَ فِی جَمَاعَۃٍفَکَاَنَّمَا قَامَ نِصفَ الَّلیل(صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ا کرم ﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا جوشخص نماز عشاء باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو آدھی رات قیام کے بقدر ثواب ملتا رہتا ہے ‘‘
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِینَ صَلَاۃُ الْعِشَاءِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا(مسلم)
’’سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : منافقین پر نماز عشاء اور فجر کی حاضری بہت گراں گزرتی ہے اور اگر ان کو ان نمازوں کی قدروقیمت کا علم ہو جائے تو ان کی ادائیگی کیلئے رینگ کربھی آنا پڑ ے تو ضرور آئیں گے
‘‘
۳۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدَ نَاسًا فِی بَعْضِ الصَّلَوَاتِ فَقَالَ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُصَلِّی بِالنَّاسِ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ یَتَخَلَّفُونَ عَنْہَا فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ بُیُوتَہُمْ وَلَوْ عَلِمَ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَظْمًا سَمِینًا لَشَہِدَہَا یَعْنِی صَلَاۃَ الْعِشَاءَ۔
(صحیح الترغیب والترہیب ، ج: ۱۔ ص:۲۰۹)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ بعض لوگ کچھ نمازوں میں حاضر نہیں ہورہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا: میرا ارادہ یہ ہے کہ میں کسی شخص کو امامت کا حکم دوں اور خود ان لوگوں کے پاس جاؤں جو
کہ نماز میں حاضر نہیں ہوئے تاکہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا سکوں اگر ان لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ اس نماز میں موٹی تازی ہڈی (مراد دنیاوی فائدہ)پائیں گے تو ضرور بالضرور اس نماز میں شریک ہوں ‘‘ شارحین حدیث نے اس حدیث میں مذکور
نمازسے مراد ’’نماز عشاء ‘‘لیا ہے
۴۔ ترجمہ: ’’ قبیلہ نخع کے ایک آدمی سے روایت ہے کہتے ہیں جب سیدنا ابو الدرداء کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو کہ میں نے رسول معظم ﷺ سے سنی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۱۔ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے تو وہ توکم از کم تمہیں دیکھ رہا ہے
۲۔ اپنے نفس کو موت کے لئے تیار رکھو
۳۔ مظلوم کی بددعا سے بچوکیونکہ وہ قبول ہوتی ہے ۴۔ اور جو آدمی نماز عشاء اور فجر میں حاضر ہونے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے ضرور بالضرور ان نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد میں آنا چاہئے ‘‘
۵۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال کنّا اذا فَقَدنَا الرَّجُلَ فِی الفَجرِ وَالعِشَاء أسَانَا بِہِ الظَّن۔ (ابن خزیمہ فی صحیحہ)
ترجمہ: ’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز فجر وعشاء میں کسی آدمی کو غائب پاتے تو اس کے متعلق برا(نفاق کا) گمان کرتے تھے ‘‘
یعنی سلف صالحین کے نزدیک نماز فجرو عشاء سے غفلت برتنے والے کا شمار منافقوں میں ہوتا ہے ۔
وقت عشاء:
نماز عشاء کے ابتدائی وقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کی ابتداء سرخی کے غائب ہوتے ہی ہو جاتی ہے مگر کیا نماز عشاء کا وقت ایک تہائی رات تک ہے یا نماز فجر تک ، اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
القول الاول: نماز عشاء کا وقت ثلث اللیل (ایک تہائی حصہ)تک رہتا ہے ۔
دلیل: جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کو اوقات نماز بتانے کیلئے دودن نماز پڑ ھائی دوسرے دن نماز عشاء ثلث اللیل کے وقت پڑ ھائی ۔
القول الثانی: نماز عشاء کاوقت آدھی رات تک رہتا ہے ۔
دلیل: عن عبد اللہ بن عمرأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال: وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَط۔ (مسلم)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز عشاء کا وقت رات کے پہلے درمیانے نصف تک ہے ‘‘
۱۔عن انس رضی اللہ عنہ قال ا أَخَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْعِشَاءِ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ ۔ (صحیح بخاری، ۹۶۶ )
ترجمہ :سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے نماز عشاء کو آدھی رات کے وقت ادا کیا ۔
۲۔کَتَبَ عُمَر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ الی ابی موسی الاشعری أَنْ صَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَاء ُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیرُ الرَّاکِبُ ثَلَاثَۃَ فَرَاسِخَ وَأَنْ صَلِّ الْعِشَاءَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثِ اللَّیْلِ فَإِنْ أَخَّرْتَ فَإِلَی شَطْرِ اللَّیْلِ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ(اخرجہ مالک بحوالہ تمام المنۃ)
ترجمہ: ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ نماز عشاء کو ثلث اللیل تک(ایک تہائی رات ) ادا کر لیا کرو اور اگر کبھی اس کو تاخیر کرنا پڑ ے تو زیادہ سے زیادہ آدھی رات تک مؤخر کرو اور غفلت نہ برتو‘‘
القول الثالث: نماز عشاء کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے تک رہتا ہے ۔
دلیل:عن ابی قتادۃ مرفوعا : اِنَّمَا التَّفرِیطَُعلیَمنلم یُصَلِّ حَتّیٰ یَجِیء وَقتُ الصَّلَاۃِ الاُخرَی ۔ (اخرجہ البخاری)
’’ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: گناہ تو اس آدمی پر ہے جو نماز کو چھوڑ تا ہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جاتا ہے ‘‘
وجہ الاستدلال: یعنی کہ جب تک دوسری نماز کا وقت نہ آئے اس وقت تک پہلی نماز چھوڑ نے والا گناہ گار نہیں ہوتا اس لیے وہ عشاء کی نماز فجر سے پہلے پہلے ادا کر لے تو صحیح ہے ۔
خلاصہ: نماز عشاء کو وقت داخل ہونے کے فوراًبعد ادا کرنا اختیار ی وقت ہے جبکہ نمازیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر تاخیر سے ادا کرنا افضل اور زیادہ قرب کا باعث ہے ۔ جبکہ اس کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا اضطراری (مجبوری)وقت ہے ۔ (الموسوعۃ
الفقہیۃ)
دلیل: ۱۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال :وَالْعِشَاءَ وَأَحْیَانًا إِذَا رَآہُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ وَإِذَا رَآہُمْ أَبْطَوْا أَخَّر۔
(بخاری۵۲۷ ، مسلم ، تیسیر العلام)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نماز عشاء کبھی جلد ی (اول وقت میں ) پڑ ھ لیتے اور کبھی تاخیر سے (عموما نصف اللیل کے قریب) اس کی صورت یہ ہوتی کہ آپ ﷺ دیکھتے کہ نمازی جمع ہو چکے ہیں تو جلد پڑ ھا دیتے اور اگر دیکھتے
کہ نمازی دیر سے آتے تو تاخیر کر دیتے ۔
۲۔عن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال : کُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِی الَّذِینَ قَدِمُوا مَعِی فِی السَّفِینَۃِ نُزُولًا فِی بَقِیعِ بُطْحَانَ وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ فَکَانَ یَتَنَاوَبُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاۃِ الْعِشَاءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ نَفَرٌ مِنْہُمْ فَوَافَقْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِی وَلَہُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِی بَعْضِ
أَمْرِہِ فَأَعْتَمَ بِالصَّلَاۃِ حَتَّی ابْہَارَّ اللَّیْلُ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہم عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِہِمْ فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَہُ قَالَ لِمَنْ حَضَرَہُ عَلَی رِسْلِکُمْ أَبْشِرُوا إِنَّ مِنْ نِعْمَۃِ اللَّہِ عَلَیْکُمْ أَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یُصَلِّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ غَیْرُکُمْ أَوْ قَالَ مَا صَلَّی ہَذِہِ السَّاعَۃَ أَحَدٌ غَیْرُکُمْ لَا یَدْرِی أَیَّ الْکَلِمَتَیْنِ قَالَ قَالَ أَبُو مُوسَی فَرَجَعْنَا
فَفَرِحْنَا بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
(سلسلۃ احادیث الصحیحۃ ، ج: ۱)
ترجمہ: ’’ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور کشتی میں میرے ساتھ آنے والے ساتھیوں نے وادی بقیع بطحان میں پڑ اؤ ڈالا ہوا تھا اور نبی کریم ﷺ مدینہ میں فروکش تھے ہم میں سے کچھ لوگ باری باری ہر روز آپ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا
کرنے کے لیے آپ کے پاس آتے تھے جس دن میں اور میرے ساتھی آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ کسی کام میں مصروف تھے اس لیے نماز عشاء کو مؤخر کرتے رہے یہاں تک کہ (تقریبا) نصف رات گزر گئی (بالآخر ) نبی ا کرم ﷺ تشریف لائے
نماز پڑ ھائی اور فارغ ہونے کے بعد حاضرین سے فرمایا: ذرا ٹھہرو ! خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام کیا ہے تمہارے علاوہ کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اس گھڑ ی میں نماز پڑ ھ رہا ہو ۔ ۔ یا فرمایا: تمہارے علاوہ کسی نے بھی یہ نماز (اس وقت میں )نہیں پڑ ھی ۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سن کر ہم خوشی خوشی گھر لوٹے ‘‘
نماز عشاء میں قراء ت:
رسول اللہ ﷺ نماز عشاء میں طویل قراء ت کو ناپسند کرتے تھے آپ ﷺسے نماز عشاء میں منقول قرأت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱۔ پہلی دو رکعتوں میں اوساط مفصل سورتوں میں سے تلاوت کرتے تھے ۔ (نسائی بسند صحیح)
ب: سورۃ الضحیٰ (احمد ، حسنہ الترمذی)
ج: سورۃ انشقاق ۔
د: سورۃ التین، (دوران سفر آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں یہ سورت تلاوت فرمائی (بخاری ، مسلم، ملخصا از صفۃ صلاۃ النبی ﷺ)
طویل قرأت سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ نمازیوں کی سہولت کے پیش نظر سورتوں کا انتخاب کریں جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قصہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے لوگوں کو نماز عشاء کافی لمبی پڑ ھائی توایک دفعہ ایک انصاری شخص نے نماز توڑ دی
اور پھر تنہا نماز پڑ ھ لی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم ہواتوانہوں نے فرمایا کہ وہ منافق ہے اس پر انصاری صحابی کوجب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے سیدنا معاذ
رضی اللہ عنہ سے کہا (اَفَتَّانٌ اَنتَ یَا مَعَاذ)’’ کیاتم فتنہ انگیزی چاہتے ہو ؟‘‘ جب لوگوں کو نماز پڑ ھاؤ تو سورۃ الشمس یا سورۃ الاعلیٰ یا سورۃ العلق اور سورۃ اللیل پڑ ھا کرو کیونکہ تمہارے پیچھے نماز میں بوڑ ھے ، کمزور اور ضرور ت مند سبھی ہوتے ہیں ۔
(بخاری ، مسلم، کتاب الاذان ، ۶۶۴)
نماز عشاء میں تعداد رکعات:
نماز عشاء کی رکعات کی تعداد میں ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط پایا جاتا ہے ، ذیل میں ہم صحیح فقہ السنۃسے خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے جبکہ عمومی روایات (بین کل الاذانین صلاۃ) کے تحت نماز عشاء سے پہلے دو رکعتیں ہیں ۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ عشاء کی وہ نماز جو نبی ﷺ نے پڑ ھی اور جسے صحابہ کرام نے امت کے لیے بیان فرمایا وہ صرف چارفرض ہیں اور اس کے بعد دوسنتیں ہیں ، وتر کا بیان اس لئے نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے تھے تاہم تین وتر شامل
کر کے یہ نو (۹) رکعتیں بنتی ہیں ۔’’ یار لوگوں ‘‘ نے عشاء کی سترہ (۱۷) رکعتیں بنائی ہوئی ہیں جس کے تصور سے ہی لوگ گھبراتے ہیں اور نماز کے قریب نہیں جاتے اگر لوگوں کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق عشاء کی نو رکعتیں بتلائی جائیں تو وہ کبھی نماز
سے بالخصوص عشاء کی نماز سے وحشت نہ کھائیں ۔
(شرح ریاض الصالحین ، ج:۲، ص:۸۴)
بعد از نماز عشاء :
نماز عشاء کے فورا بعد سو جانا چاہیے کیونکہ نماز عشاء کے بعد فضول گفتگو اور لا یعنی امور میں مشغول رہنا رسول ا کرم ﷺ کو سخت ناپسند تھا
عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِیثَ بَعْدَہَا۔
سیدنا ابو برزہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور عشاء کی نماز کے بعد گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے ۔
لیکن اگرامت کے عمومی فوائد کے لیے جاگنا پڑ ے تو اس کی گنجائش شریعت نے عطا کی ہے ۔
(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بدعات اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم

الشیخ عبدالحمید اثری
بعض لوگ توحید، قیامت اور رسالت کے یکتا اصول کے تحت ارکان اسلام کو تاقیامت باقی اور جدید وقدیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اسلامی قانون کا مسلم اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ جس کام سے شریعت میں منع نہیں کیا گیا تو اس کی اجازت ہے
۔
گویا انسان کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ فرائض وسنن اور مستحبات کی ادائیگی اور حرام ومکروہات سے اجتناب کرتے ہوئے وہ امور جن کی حلت وحرمت کے بیان سے شریعت خاموش ہے انہیں مباح اور جائز سمجھتے ہوئے ان میں جب چاہے جتنا
چاہے اضافہ کرے اور قولی، فعلی اور مالی عبادت میں آزاد ہے ۔
اگر کوئی شخص اس بات کو غلط کہے کہ جو عبادت سنت میں نہیں ہے تو اس کو جواب دیا جائے کہ اس کی ممانعت ثابت کرو حالانکہ جس عمل کی ممانعت بالصراحت نہیں وہ مباح کی ذیل میں آتا ہے اور فقہ اسلامی میں اس کا حکم کیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں ۔
تمام اہل اسلام سے یہ بات مخفی نہیں کہ دین اسلام کامل ہے اور اس میں قیامت تک کے پیش آمدہ مسائل کا حل اور رہنمائی موجود ہے جو سعادت دارین کی کامیابی کی ضامن ہے ۔اور یہ دین وحی الہی سے ظہور پذیر ہوا اور یہ بنی نوع انسان کی زندگی کے ہر شعبے کو
محیط ہے ، تخلیق انسان کا مقصد وحید اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت کی حقیقت وتفصیل ازخود معلوم کرنا انسان کے بس میں ہر گز نہیں ہے ورنہ تو وحی کا انتظام ہی نہ ہوتا ، اسلام کے سارے نصاب کو شریعت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک
عبادات کا اور دوسرا معاملات باہمی کا ۔ یا یوں کہا جائے کہ دین اسلام حقوق اللہ اورحقوق العباد پر مشتمل ہے ، اللہ تعالیٰ کا حق اس کی عبادت ہے ، جس کی قبولیت کی دو شرطیں ہیں ، خلوص اور سنت نبوی ﷺ کی موافقت ۔ ان میں کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو
گی تو عبادت رائیگاں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حدیث قدسی میں ہے :
أنا أغنی الشرکاء عن الشرک۔ میں تمام شریکوں کے شرک سے بے نیاز ہوں اور جس کام میں شرک شامل ہو میں مشرک او ر اس کے شرک سے دستبردار ہو جاتا ہوں اور اسے چھوڑ دیتا ہوں اور سنت کی موافقت نہ ہونے کی صورت میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان دونوں شقوں کو ملحوظ رکھا اور ان میں کوتاہی کو عبادت میں کوتاہی سے تعبیر کیا ، مثلا: عبادت خواہ قولی ہے تو اس میں وصف کی تبدیلی کو بدعت، ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہما اجلّہ صحابہ مسجد میں اسوہ نبی سے ہٹ کر ذکر الہی کرنے والوں کی سرزنش فرماتے ہیں اور اسے بدعت اور گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ ذا کرین کو فرماتے ہیں کہ اپنی خطائیں شمار کرو نیکیوں کے ہم ضامن ہیں ، اور کیا تمہار ا طریقہ رسول اللہ کے
طریقہ سے اچھا ہے ؟اوریہ حدیث صحیح ہے جس کی تفصیل کتب سنن میں دیکھی جا سکتی ہے ، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عید گاہ میں نمازعید سے پہلے ایک شخص کو نما ز پڑ ھتے ہوئے دیکھا توا سے منع فرمایا اس نے کہا :میں نماز ہی تو پڑ ھ رہا ہوں تو فرمایا: جو
عبادت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی اس میں تم آپ ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو بجائے ثواب عذاب پاؤ گے اور تیرا یہ نماز پڑ ھنا بھی عبث ہے اور عبث حرام ہے یہاں اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ نے منع تو نہیں فرمایا یا کثرت عبادت عبث اور
حرام کیسے ہو گی ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرا یہ نماز پڑ ھنا شاید رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب الہٰی کا سبب بنے ۔
معلوم ہوا کہ عبادت کے کاموں میں اگر کوئی عمل بدون اذن شرع اور شارع علیہ الصلاۃ والسلام کے کیا جائے تو وہ مردودہو گا ۔ بعض لوگوں نے اہل اسلام کا مسلم اصول یہ پیش کیا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت اور مباح کو یہ مقام حاصل ہے کہ جتنا چاہیں کریں
خواہ عبادت قولی ، فعلی یا مالی ہو اور جس وقت چاہیں کریں اگر سنت ہونے کا استفسار کرے تو بڑ ی ڈھٹائی سے کہو کہ تم منع دکھاؤ ۔ اس جوابی نکتے کی تکرار کی تلقین کی جاتی ہے ۔
کتاب وسنت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی اتباع کی تلقین کریں اور من مرضی کے اضافوں کو بدعت سے تعبیر کریں لیکن یہاں اسلام کی ہمہ گیری اور وسعت کے تقاضے ہیں کہ ہر شخص مباح میں آزاد ہے اور امت مسلمہ کو مباح کی ڈھیل میں بدعت کی
دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ۔
مباح کی کیا حیثیت ہے ، اصول فقہ میں تواس کا فعل وترک برابر لکھا گیا ہے یعنی کرے تو ثواب ، نہ کرے تو گناہ نہیں ۔ (اصول فقہ کی کتابوں کا حوالہ )
یہ اس کی قانونی حیثیت ہے لیکن لوگ اسے تشریعی حکم کا درجہ دے رہے ہیں حالانکہ شارع علیہ السلام نے اسے نظرا نداز کر دیا ہے لہذا سنت کا مطالبہ کرنے والوں کے مقابلہ میں اس موقف سے مذکور عمل کی تشریع کا وہم پڑ تا ہے چنانچہ یہ عدم ثبوت اس کی
ممانعت کی دلیل ہو گا پھر یہ اصول متفقہ نہیں ہے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل تحریم ہے ، یہ ملحوظ رہے کہ اہل سنت کے ائمہ اس با ت پر متفق ہیں کہ عبادت میں اصل یہ ہے کہ کوئی عبادت تب تک
مشروع نہ کہلائے گی جب تک شرع شریف سے اس کا اذن واجازت نہ ہو یعنی عبادات میں اصل تحریم ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فروع فقہ شافعیہ ‘‘ میں جو کہ ’’الاشباہ والنظائر‘‘ کے نام سے مشہورہے میں
ص:۶۰ پر ذکر کیا ہے ۔ جب عبادات میں بدون اذن شرع اضافہ خواہ اصلی شکل میں یعنی مشروع عبادت کی شکل میں تبدیل حرام ہے اور آپ کے مباح پر جو فعلاً وترکاً برابر ہے ۔ حرام کا فتویٰ علی رضی اللہ عنہ نے لگایا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اصل تحریم کا
مورد بھی ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر بدعت کا حکم لگایا ہے ۔
ہمارے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ آئینہ ہیں اگر کوئی ہمیں دکھائے تو سعادت مندی ہے ان سے ہماری غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔
جملہ عبادات میں اصل ممانعت ہے الّا یہ کہ شرع اجازت دے ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرسکتے اس لیے ائمہ محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو جہاں فرض قرار دیا ہے وہاں کسی کام کے آپ سے عدم ثبوت کی بناپر ترک کرنے کو بھی ضروری قرار
دیا ہے ۔ چنانچہ اس کی تفصیل علامہ ملّا علی القاری اور الشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور بالصراحت یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے افعال مبارکہ کی فعلا وترکا اتباع ضروری ہے ، چنانچہ آپ ﷺ سے کسی عمل کے منقول نہ ہونے یعنی
عدم ثبوت اور عدم نقل پر اس کے مکروہ اوربدعت ہونے کا حکم لگایا گیا ہے جیسا کہ فجر کی سنتوں کے بعد مزید نوافل ادا کرنے کے بارے میں مذکور ہے ۔
قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں کہ جس فعل کا سبب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور باوجود اس کی اقتضیٰ کے رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ کیا ہو تو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا ہے کیونکہ اس کام میں کوئی مصلحت ہوتی
تو رسول اللہ ﷺ اس کام کو ضرور کرتے یا ترغیب فرماتے اور جب آپ ﷺ نے نہ خود کیا اور نہ کسی کو ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ وہ بدعت قبیحہ سیئہ ہے ۔
(نقائص الاظہار ، ترجمہ مجالس الابرار ص:۱۲۷)
مسکوت عنہ کے ترک پر صاحب ھدایہ کی رائے ملاحظہ کریں فرماتے ہیں ’’ لا یتنفل فی المصلی قبل صلوۃ العید لان النبی ﷺ لم یفعل ذالک مع حرصہ علی الصلوۃ‘‘
(ھدایۃ ۔ج:۱، ص:۱۵۳)
ترجمہ:’’ اور عید گاہ میں نماز سے پہلے نوافل نہ پڑ ھے کیونکہ نبی ﷺ نے باوجود نمازکی حرص کے ایسا نہیں کیا ‘‘
’’لایتنفّل‘‘ نہی اور ممانعت کا صیغہ ہے یہ کونسی نہی ہے آپ فیصلہ کریں تحریمی ہے ، تنزیہی ہے یا ارشادی کہ جس میں ترک ہر صور ت ہے اگر نفی کا صیغہ ہو تو یہ اس سے بھی ابلغ ہے اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑ ھنے والے کو سیدنا علی رضی اللہ
عنہ نے نہ صرف روکا بلکہ اس فعل کو جو بظاہر نیکی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی ممانعت کا ذکر بھی نہیں آیا، اسے عبث اور حرام ٹھہرایا اور اس کو رسول اللہ ﷺ کے عدم فعل اور عدم ثبوت کی وجہ سے اسے آپ ﷺ کی مخالفت تعبیر فرما کر اس کو
عذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔
مگر بعض لوگ مسکوت عنہ یعنی وہ مسائل جن میں خاموشی اختیار کی گئی ہے اس پر خاموش رہنے کی تلقین کے باوجود خود اس پر کاربند ہونے کا اظہار واعلان ہی نہیں بلکہ اس پر سنت کے حوالہ کے طلبگاروں کو فروعی مسائل میں الجھانے کا الزام بھی دیتے ہیں ۔
مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سنت کی موافقت کے مطالبہ کی سوچ درست بھی ہے اور مفید بھی ، اور اس سے بڑ ھ کر پیارے پیغمبر ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت سے بچنے کا ذریعہ بھی۔ اس لیے اگر آپ ﷺ کی اتباع میں ساری دنیا
سے اختلافات ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے ۔
انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس کے باہمی معاملات کے درجہ سے رب تعالیٰ کا حق مقدم ہے اس کی ادائیگی میں اصل اور وصف کے لحاظ سے بدون اذن شرع کے ہم عبادت کا ایجاد واختراع نہیں کر سکتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو
روایت حدیث ، درایت اور ہدایت میں کامل تھے انہوں نے تو عبادات میں رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک ادا اور نوا اپنائی اور اس کی مخالفت تو کُجا اس سے سرِمُو انحراف بھی برداشت نہیں کیا جیسے کہ آدابِ دعا میں بعض صحابہ نے آپ ﷺ کے لیے ہاتھ اٹھانے
کی بلندی کے موافق ہاتھ نہ اٹھانے کو بدعت قرار دیا ہے ۔
بقول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ :’’تمہارا دعا کے لیے اوپر ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے سینے سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات)اب اس حدیث سے صحابہ کرام کی سوچ متعین ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت
کی عدم موافقت کو بدعت شرعی سے تعبیر کرتے تھے ، حالانکہ بعض لوگوں کے خیال میں شریعت میں مباح کے ضمن میں کھلا میدان ہے او ر دعا کیلئے جتنے ہاتھ اٹھائیں بلکہ جب چاہیں اٹھائیں سنت کی موافقت ہو نہ ہو۔
لہذا مباح کی اسا س پر عبادات کی عمارت تعمیر کرنے کو گمراہی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے ، جب عبادات اصل مقصد زندگی ہیں تو ان کی اساس بھی کتاب وسنت ہے اور اختلافات کے وقت انہی دونوں سرچشموں سے ہی رفع اختلاف ہو سکتا ہے ۔ اس لئے
مسکوت عنہ مسائل جن کا تعلق عبادات سے ہے انہیں عبادا ت میں کھلی چھوٹ دینے کی بجائے اس پر کراہت ، حرام ہونے اور اس کے بدعت ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہونے کے سبب انہیں عذاب الہی کا مستوجب قرار دیا گیا ہے ۔ اس میں نہ شیخ
عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اس مباح کے ہم نوا ہیں نہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ہم نوا ہیں بلکہ انہوں نے ہر طرح سے اپنی بے زاری کا اعلان فرمایا ہے اور ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ’’اطلبوا الاستقامۃ ولا تطلبوا الکرامۃ‘‘ کتاب وسنت پر استقامت مانگو اور کرامتوں کے
طلبگار نہ بنو ۔کیونکہ کرامت تو استقامت میں ہی ہے ۔ کتاب وسنت پر قناعت میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا البتہ خود ساختہ عبادات میں کوئی بضد واصرار کرے اور ان پر کتاب وسنت سے ثبوت مانگنے والے کو دین میں افتراق ڈالنے والے کہے تو یہ محل کو گرا جھونپڑ
ی میں ڈالنے والی بات ہے نبوت کا محل تو مکمل ہے مگر اس متعصب کے تقاضے پورے نہ ہوئے اور آپ ﷺ سے بڑ ھ کر متقی یا اللہ سے زیادہ ڈرنے کا اعتقاد لے کر عبادت میں مسابقہ درازی کرے تو اس کو قرآن وحدیث میں تکلف سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی
تصنع اور بناوٹ فرمایا گیا ہے ، آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ فرمادیں (وما انا من المتکلفین ) ’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جبن ، سمن اور فراء کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا
اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ اس کی طرف سے رحمت اور عفوہے ‘‘
اور حدیث کے اور بھی طُرق ہیں جن میں ہے کہ عفو سے خاموشی اختیار فرمائی ۔ حدیث پاک میں سوال کھانے پینے کی اشیاء سے ہے اور ’’فرا‘‘ حمار وحشی ہے ۔ نہ کہ عبادت سے اگر دونوں سے تعلق سمجھا جائے تو ہر ایک اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی یعنی
عبادات میں اصل تحریم وممانعت ہو گی جب تک شرع اجازت نامہ جاری نہ کرے اور عادات ومعاملات وماکولات میں اصل اباحت ہو گی جب تک شرع منع نہ کرے جنگلی گدھے کے شکار کا تعلق بھی عبادات سے نہیں ہے ، ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ سے روایت
ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر فرمائے انہیں ضائع نہ کرو اور بعض چیزوں سے نہی فرمائی ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اور بعض چیزوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان سے بحث نہ کرو ‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ بہت سی باتوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ان میں تکلف اختیا رنہ کرو جو تم پر رحمت فرمائی ہے اسے قبول کرو ۔
تکلف کے معنی میں امام راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن ‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ کوئی کام کرتے وقت خوش دلی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں مشقت پیش آ رہی ہو اس لیے عرف عام میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو
مشقت بتصنّع یا اوپرے جی سے دکھاوے کے لیے کیا جائے اس لیے تکلیف دوقسم پر ہے ، محمود اور مذموم ، اگر کسی کام کو اس لیے محنت سے سرانجام دیا جائے کہ وہ کام اس پر سہل اور آسان ہو جائے اور اسے اس کام کے ساتھ خوش دلی اور محبت ہو جائے تو ایسا
تکلف محمود ہے چنانچہ اس معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہو ا ہے اور اگر وہ کام تکلف محض اور ریاکاری کیلئے ہو تو مذموم ہے اور آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ کہیے میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں اورحدیث پاک
میں ہے :
’’میں اور میری امت کے پرہیزگار لوگ تکلف سے اور بناوٹ سے بری ہیں ‘‘ اور فرمان الہی ہے : اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (۲۔ ۲۸۶)
احادیث مبارکہ میں جہاں خاموشی کا ذکر ہو ا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شرع جس کسی چیز پر حکم میں اثبات اور ممانعت سے خاموش ہے وہ مسکوت عنہ میں شامل ہے اور وہ عفو کے قبیل سے ہے جس کا کرنا جائز اور مباح ہونا چاہئے لہذا ان کی مرضی سے اعمال
خواہ عبادات قولی ، فعلی یا مالی سے ہو یامعاملات دنیا سے وہ سب مسکوت عنہ کے تحت آتے ہیں ۔
لیکن جبکہ یہ محقق امر ہے کہ جو کام شرع کی اجازت کے بغیر حادث اور نو ایجاد ہو وہ بدعت اور ضلالت وگمراہی ہے اور بدعت ممنوع اور حرام ہے تو وہ چیزیں اور اعتقاد واعمال مسکوت عنہ نہ ہوئے ۔
مسکوت عنہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا حکم کسی خاص یا عام دلیل سے معلوم نہ ہو بلکہ عفو کی احادیث سے بدعت کی تردید ہوئی ہے اور تحدیدوتعیین وتخصیص کی وجہ سے بدعت عفو کی احادیث کے خلاف ہوئی اور اس کے معنی کے خلاف ہوئی جو آپ نے لیے ہیں
۔شیخ ملاعلی القاری شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع جس طرح آپ کے اعمال مبارکہ میں واجب ہے اسی طرح آپ ﷺ کے چھوڑ ے ہوئے کاموں میں بھی ضروری ہے سو جو شخص ایسے کام پر ہمیشگی اختیار کرے جسے شارع علیہ السلام
نے کیا ہی نہیں تو وہ مبتدع اور بدعتی ہے اور بدعت کے مرد ود اور ضلالت وگمراہی ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ وہ فعلاً رسول اللہ ﷺ کی مخالف ہوتی ہے ۔
تنبیہ: بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بدعات کو روکنے والے ہر نئے کام کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں خواہ دین کا ہو یا دنیا کا ، یہ سراسر بہتان وافتراء ہے ۔ مانعین صرف اس بات کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں جو دین میں بدون اذن شرع کے ایجاد کیا گیا ہو حالانکہ اس
کا تقاضا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بدون معارض موجود ہو اور نیا متقاضی بدون معصیت عباد پیدا نہ ہوا ہو۔ مثال: جیسے عیدین کی اذان نہیں کہی جاتی تقاضا بلانے اور جمع کرنے کا موجود تھا کوئی مانع بھی نہ تھا اس کے باوجود اس کو دعوت الی اللہ کے دلائل
سے ثابت کر کے جاری کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہ کرنا آپ ﷺ کی سنت ترکیہ کی اتباع ہے اور اب اگر کوئی اس کے لیے علت ومصلحت بیان کرے تو وہ معتبر نہ ہو گی کیونکہ شارع علیہ السلام نے اس علت کو نظرا نداز کر دیا ہے ۔ لہذا یہاں ممانعت کی دلیل نہ
ہونے کے باوجود اذان نہ کہی جائیگی۔ اور عام ادلّہ سے استدلال درست نہ ہو گا اگر مباح کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے اور ممانعت کی شریعت پاک سے دلیل طلب کی جائے تو اس سے شریعت محمدی ﷺ بازیچہ اطفال بن جائیگی ۔ حالانکہ اس کی حدود
وقیود ہیں جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ کی من مرضی کی تفسیر پر حدیث وسنت نے قدغن لگائی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور بیان عرف نبوی او ر اسوئہ نبوی ﷺ کے پابندہیں اور (کان خُلُقُہ القُرآن ) کا یہی مقصد ہے کہ قرآن کا مطلوب اسوئہ
رسول ﷺ ، ا سوئہ کامل اور مجسم قرآن ہے ۔ اور آپ ﷺ کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور اس کی بارگاہ میں نجات کا ذریعہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محمد رسول اللہ ﷺ کی تابعداری کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ (آمین)
ایسے بھی لوگ تھے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو ا کہ فلاں مسئلہ تو مجھے معلوم ہے لیکن جو الفاظ رسول اللہ ﷺ کی زبا ن سے نکلے تھے وہ بھول گیا ہوں تو وہی الفاظ سیدنا عبدا للہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی زبان سے سننے کیلئے شام کے دارالحکومت دمشق پہنچے ۔ اس کے لیے
منڈی سے جا کر سواری خریدی اور سفر کیا وہاں پہنچ کر ان کے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ میں جابر (رضی اللہ عنہ)ہوں ، آپ سے ملاقات کیلئے مدینہ منورہ سے آیا ہوں ، انہوں نے کہا : جابر بن عبد اللہ ؟ کہا : جی ہاں تو جلدی سے باہر تشریف لائے ، معانقہ
کیا اور بہت خوش ہوئے پھر دریافت کیا کہ آپ نے اتنا لمبا سفر کیوں کیا؟ فرمایا: مجھے پتہ چلا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کے بارے میں وہ الفاظ یاد ہیں جو اس وقت آپ نے بیان کیے تو مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں میں وہ الفاظ سننے سے پہلے مرنہ جاؤں
انہوں نے جب وہ الفاظ سنائے وہ کہنے لگے اجازت دیجئے میں واپس چلتا ہوں عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کوکھانے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد واپس جاناہی ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں کھانے پینے اور آرام کرنے کی غرض سے رک
جاؤں تو یہ میرے مشن اور اخلاص کے منافی ہے جس کے لیے میں نے اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔(ماخوذ از ’’مقالات تربیت‘‘)
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

خطبۂ حجۃ الوداع

از ڈاکٹر ممتاز عمر
عالم انسانیت گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی تھی طاقت کی حکمرانی تھی ایک طرف قیصر وکسریٰ جنگوں کے ذریعے غالب ومغلوب ہوتے تو دوسری طرف انسانوں کو غلام بنا کر انسانیت کی توہین کی جا رہی تھی۔ عرب کا معاشرہ قبائلی روایات کے مطابق ایک
دوسرے پر بالادستی کے حصول میں کوشاں تھا۔ قبائلی جنگیں محض چھوٹی چھوٹی بات پر طوالت پکڑ تیں اور انسانیت کا خون کرتیں عورت کو معاشرے کا پست ترین حصہ بنادیا گیا تھابلکہ دوسرے لفظوں میں لڑ کی کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا مگر اسے جہالت کا
وہ پہلو نہیں کہا جا سکتا جسے آج کے زمانے میں لکھنے پڑ ھنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ یہ عرب لکھنا پڑ ھنا جانتے تھے کیوں کہ جنگِ بدر کے موقع پر کفار مکہ کے چند قیدیوں کو لکھنا پڑ ھنا سکھانے کے عوض مشروط رہائی دی
گئی تھی۔ یہ جہالت کا وہ پہلو ہے جہاں مہذب معاشروں کی گردن جھک جایا کرتی ہے روایات واقدار پامال ہوجایا کرتی ہیں ۔ محض وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اصول وضوابط ترتیب دئیے جاتے ہیں عربوں کی جنگیں اور ان کی بنیاد ہمارا موضوع نہیں لیکن ان کی
تہذیب ومعاشرت اور اس میں آنے والی تبدیلیاں جن کی بدولت یہی صحرانشین محض ۲۵۔۳۰ سالوں میں عرب کے ریگستانوں سے اٹھتے ہیں اور قیصر وکسریٰ کی سلطنت سکڑ تے سکڑ تے ختم ہوجاتی ہے تو افریقہ کی جانب سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں یہ سب
کچھ قوتِ ایمانی ، مصمم ارادوں اور یقین محکم کی بدولت حاصل ہوتا ہے ۔ وسط ایشیا اور چین کی سرحدوں تک قتیبہ بن مسلم رحمہ اللہ کی فتوحات، ۱۷ سالہ سپّہ سالار محمد بن قاسم ہندوستان کے قلب تک جا پہنچتا ہے ۔ ادھر طارق بن زیاد فتح وشکست سے بے پرواہ
کشتیوں کو جلا کر آگے بڑ ھنے کے ارادے سے پیش قدمی کرتا ہے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ وہ سبق کیا تھا؟ تربیت کیسی تھی؟ اور ارادے کہاں تک بلند؟
عرب کے اسی معاشرے میں جبسیدہ آمنہ کے یہاں نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو جہالت کے ان ہی اندھیروں میں نور کی وہ کرن منور ہوتی ہے جو اندھیروں میں روشنی کا سبب بنی۔ آپ ﷺ نے تہذیب سے عاری اس
معاشرے میں اپنی موجودگی کے وہ معجزے پیش کئے کہ اپنے تو اپنے ، غیر بھی آپ ﷺ کی امانت ودیانت وسچائی کے قائل نظر آتے ہیں ۔زندگی کے ۴۰ برس اس حسن وخوبی سے گزارے کہ لوگ ایک ندا پر لبیک کہتے اور پھر کوہِ فاراں کی بلندی پر کھڑ ے
ہوکر اللہ کے اس حکم کی تعمیل میں کے ’’ اے اوڑ ھ لپیٹ کر لیٹنے والے ! اٹھ‘‘ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں ۔ یہ لوگ جو آپ ﷺ کی سچائی کے اس قدر قائل ہیں کہ اگر آپ ﷺ یہ کہہ دیں کہ پہاڑ کی دوسری جانب دشمن کی فوج ہے تو یقین کر لیں مگر اللہ
کا وہ پیغام جو بتوں کی پوجا سے رکنے اور وحدانیت کا درس دیتا ہے ساتھ ہی نبوت پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو یہ لوگ تتّر بتّر ہوجاتے ہیں ۔ یہیں تک نہیں مخالفت پر کمر باندھ لیتے ہیں ۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو ایذائیں دی جاتی ہیں خاندان
کے افراد کو گھاٹی میں محصور کر دیا جاتا ہے اور پھر جب نبی ا کرم ﷺ طائف کے شمول خاندان کے سامنے اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں تو وہاں کا دن تو اور سخت گزرتا ہے نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر سیدہعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا تھا کہ ’’
میری زندگی کا سخت ترین دن طائف کے لوگوں کے ساتھ وہ دن تھا کہ جب وہاں کے لڑ کے مجھ پر تاک تاک کر پتھر مارتے اور اگر میں ان زخموں کی وجہ سے بیٹھ جاتا تو مجھے اٹھا کر کھڑ ا کر دیتے ۔‘‘ تکالیف ومصائب ایک طرف مگر نبی محترم ﷺ کی یہ دعا کہ
’’یہ لوگ آج میری بات نہیں سمجھتے ، ان کے بعد والے میری بات سمجھیں گے ۔‘‘ کتنی درست ثابت ہوئی۔ بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کیلئے کہ انہیں دائرہ اسلام اور نور ہدایت سے روشناس کرانے کا سہرا حجاز کے جس سپّہ سالار محمد بن قاسم کے سر ہے اس
کے آباء واجداد کا تعلق طائف ہی سے تھا۔ طائف میں ناکامی کے بعد نبی محترم ﷺ ہجرت مدینہ کرتے ہیں کہ یہاں انصار کا ایک قبیلہ آپ ﷺ پر مرمٹنے کیلئے تیار ہے مگر منکرینِ حق کو یہ بھی گوارا نہ تھا۔ وہ تو اس چراغ کو بجھانے پر تُلے ہوئے تھے کہ معرکہ
بدر پیش آیا جس میں تعداد اور جنگی ہتھیاروں کا کوئی موازنہ نہیں مگر غالب تو وہی رہے کہ جن کیلئے نبی محترم ﷺ رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ ’’دورِ نبوت کی تمام کمائی لے آیا ہوں اگر آج یہ مٹ گئے تو پھر توحید کا نام لیوا کوئی نہ ہو گا۔‘‘دعا قبول ہوئی
تعداد اور جشن وجلوس ناکام ہوا مگر یہ کفار بھی کہاں ماننے والے تھے پھر آئے اور زیادہ تیاری سے آئے ۔ اُحد کے مقام پر پھر معرکہ درپیش تھا کہ بظاہر فتح یقینی ہے مگر نبی محترم ﷺ کے فرمان سے ذرا سی لاپرواہی برتنے والے چند صحابہ کی لغزش پانے سے
شکست میں بدل دیا۔ یہاں بھی درس ہے اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی اور پھر یہ سلسلہ غزوات جاری رہا۔ جنگِ خندق ہوکہ صلح حدیبیہ ، حنین کا معرکہ ہوکہ غزوئہ تبوک ۔ آپ ﷺ کی قیادت اور اطاعت کے پیش نظر مسلمانوں کی قوت
وطاقت میں اضافہ نظر آتا ہے ۔ اور پھر فتح مکہ کا وہ تاریخی انقلاب کہ ایک سلطنت فتح ہوگئی خون کا ایک قطرہ تک زمین پرنہیں گرا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ نبی مکرم ﷺ نے وہی سلوک کیا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا۔ محض
سولہ یا تیرہ افراد کو سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا جن میں سے صرف تین پر عمل کیا گیا ۔ ابو لہب کی بیٹی بھی معافی کیلئے اس طرح پیش ہوئی کہ نقاب اس کے چہرے پر تھا۔ یہ وہی ہندہ ہے جس نے آپ ﷺ کے پیارے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا
کلیجہ چبایا تھا اور ان کے جسم کے اعضاء کاٹ کر ہار میں پرو کر پہنے تھے مگر میرے نبی محترم ﷺ نے اسے بھی معاف کر دیا۔
دورِ نبوی ﷺ کا اہم ترین واقعہ حجۃ الوداع ہے کہ نبی محترم ﷺ نے اللہ کے حکم سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک بڑ ی جماعت کے ہمراہ حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تمام علاقوں میں جہاں جہاں مسلمان رہتے تھے ، پیغام بھیجا تاکہ لوگ حج میں شرکت کیلئے
آئیں اور لوگ جوق درجوق لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے آنے لگے ۔ اس اعلان کا مقصدیہ تھاکہ لوگ کثیر تعداد میں آئیں تاکہ جزیرۃ العرب کے لوگوں کیلئے خصوصاً اور ساری دنیا کیلئے عموماً اسلام، اس کی شریعت اوراخلاق کے تمام اساسی اصولوں کا اعلان ہو سکے ۔
۲۶ذی القعدہ کو وسول ا کرم ﷺ تمام امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ہمراہ مکے کی طرف روانہ ہوئے ۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر احرام باندھا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے چاروں جانب تھا۔ جب آپ ﷺ لبیک کی صدا بلند کرتے تو جواباً دشت وجبل
گونج اٹھتے ۔مکے میں داخل ہوکر کعبے کا طواف کیا اسی موقع اور صفا ومروہ پر سعی کے مواقع پر بھی ارشاداتِ عالیہ میں توحید اور رب کعبہ کی عنایات اور اسلام کی سربلندی کا تذکرہ کیا۔ ۸ ذی الحجہ منیٰ میں تشریف لے گئے ۹ ذی الحجہ کو نمازِ فجر کے بعد عرفات
تشریف لائے اور اپنی مشہور اونٹنی قصواء پرسوار ہوکر خطبہ حجۃ الوداع دیا۔ جو بنی نوع انسان کیلئے سراسر ہدایت اور تزکیے کا باعث ہے ۔ یہ اسلامی شریعت اور اصولِ زندگی کیلئے کامیابی کی شاہراہ کی مانند ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں لوگو! ہاں بیشک تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ۔ ہاں عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔اللہ تعالیٰ نے تم سے
جاہلیت کی جہالت اور آباء واجداد پر فخر کو مٹادیا۔ انسان خدا سے ڈرنے والا مومن ہوتا ہے یا اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ اسلام کے رشتے نے مختلف رنگ ونسل کے انسانوں کو باہم بھائی بنا دیا۔ ہر مسلمان
دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔تمہارے غلام! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ جاہلیت کے تمام خون(انتقام) باطل کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں (اپنے خاندان کے ) ربیعہ بن حارث کے
بیٹے کا خون باطل کرتا ہوں ۔ جاہلیت کے تمام سود باطل کر دئیے گئے اور سب سے پہلے اپنے خاندان عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں ۔ عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے ۔تمہارا خون اور تمہارا مال
تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن یہ مہینہ اوریہ شہر حرام ہے ۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑ تا ہوں اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگئے وہ چیز کیا ہے ؟ کتاب اللہ۔ رب العزت نے ہر حقدار کو (ازروئے وراثت) اس کا حق دے دیا۔ اب
کسی وارث کیلئے وصیت جائز نہیں ہے ۔ لڑ کا اس شخص کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ زنا کار کیلئے پتھر ہے اور ان کا حساب خدا کے ذمے ہے ۔ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف
اپنی نسبت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ لینا جائز نہیں ہے قرض ادا کیا جائے عاریت واپس کی جائے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے ۔
یہ احکام بیان فرما کر مجمع سے سوال کیا ’’ تم سے اللہ میری نسبت پوچھے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور
فرمایا: ’’اے اللہ تو گواہ رہنا ، اے اللہ تو گواہ رہنا ، اے اللہ تو گواہ رہنا۔‘‘
عین اُس وقت جب آپ ا نبوت کے آخری فرائض ادا فرما رہے تھے ، یہ آیت نازل ہوئی ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ﴾ (المائدۃ:۳)
’’ آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے مذہبِ اسلام کا انتخاب کیا۔‘‘
خطبہ حجۃ الوداع تمام بنی نوع انسانیت کیلئے وہ رہنما اصول ہیں جو معاشروں کی تعمیر وتکمیل اور ترقی کیلئے ضروری ہیں کہ ان کے بغیر نہ تو بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور نہ کامیابی کی کوئی سبیل ہو گی۔ نبی مکرم ﷺ نے ہر عمل کا آغاز اپنی ذات وخاندان سے کیا خواہ وہ
دورِ جاہلیت میں خون کے بدلے کا ہو یا سود کے لین دین کا ، کہ ہر چیز کو باطل کر دیا۔ مالک وغلام کو ایک صف میں کھڑ ا کر دیا مگر کائنات کے شہنشاہ اور تمام جہانوں کیلئے رحمت بنائے جانے والے نبی محترم ﷺ کی یہ ہدایات ہم نے فراموش کر دی ہیں ۔
ارباب حل وعقد مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوکر ظلم کے ذریعے اپنے واجبات ضرورت سے زائد اور منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں تو رعایا کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک ان کا شیوہ ہے ۔ آج کے اس دور میں جب حکمران طبقہ بلٹ پروف Bullet
Proofکاروں اور جیکٹوں کے استعمال کے علاوہ حفاظتی حصار میں خود کو محفوظ نہیں جانتا۔ لاقانونیت اور عدم تحفظ نے عوام الناس کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔ رہزن موبائل جیسی چھوٹی چیز بھی آپ کی جان لیکر چھین لینے کے درپے ہیں ۔آپ کی رقوم ، گاڑ ی اور
دیگر قیمتی اشیاء محفوظ نہیں اور جب یہ سب کچھ لٹ جائے تو داد نہیں فریاد نہیں اور بات یہیں تک نہیں کسی واقعے کی رپورٹ تک درج کرانے کیلئے رشوت دیجئے ۔ نبی محترم ﷺ غلام کے ساتھ برابری کے سلوک کا حکم دیتے ہیں کاش خطبے کے یہ احکامات
ارباب اقتدار تک پہنچ جائیں کہ آج مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت سے نیچے کی لکیر پر زندگی گزار رہی ہے اور سفید پوشوں کا ایک بڑ ا طبقہ اپنے مسائل ناگفتہ بہ جان کرخاموش آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور جو یہ حوصلہ بھی نہیں
رکھتے وہ خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ہے نہ کہ اسے اس قدر مظلوم ومجبور بنادیا جائے کہ مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑ ی ہوکر ملازمت کرے ۔ یہ ملازمت شوقیہ نہیں کی جاتی۔ حالات اس قسم کے پیدا کر
دئیے گئے ہیں کہ گھر کا ہر فرد کمائے تو بھی گزارہ نہیں ہوتا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وہ خود ساختہ قوانین جو خطبہ حجۃ الوداع میں دئیے گئے خواتین کے حقوق پر زک لگاتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا شوہر سرکاری ملازمت کے دوران فوت ہوجائے تو پنشن اور
کموٹیشن کے ذریعے ملنے والی رقوم نصف ہوجاتی ہیں ۔ یہ ظلم کا نظام ہے کہ بیوہ تو شوہر سے محروم ہوئی ، خاندان کی ذمہ داریاں اس پر آن پڑ یں ، حکومت کو اس کی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہیے یہاں جو کچھ مل سکتا تھا وہ بھی نصف کر دیا جاتا ہے ۔ رہی رنگ ونسل
کی بات تو یہاں تو عہدوں اور اختیارات کی بنیاد پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے ۔ چہرے بدلے جاتے تھے مگر اب تو چہرے بدلنے کیلئے بھی تیار نہیں کہ اقتدار کی ہوس موت کی نیند سوکر ہی ختم ہوتو ہو۔ ہمارا معاشرہ تنزلی کا شکا رہے حکومت کے دعوے کچھ بھی
ہوں ، خزانے کتنے بھرجائیں ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کسی قدر بڑ ھ جائیں مگر عام آدمی تو آٹے دال کی سیاست میں الجھ گیا ہے ۔ کیا خطبہ حجۃ الوداع کی اہمیت ، افادیت اور مفہوم سے ہمارے حکمران واقف ہیں ؟ یا خود کو اس سے مبرا جانتے ہیں ؟؟؟۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

از رانا تنویر قاسم
اس کائنات رنگ وبو میں ہزاروں شخصیات ایسی گزری ہیں جن کی تب وتاب جاودانہ تاریخ کی نذر نہیں ہوئی بلکہ ان کی نورانی کرنوں سے تاریخ منور ہوتی چلی گئی ان کی جلائی ہوئی شمعیں اپنی ضوفشانیوں سے زندہ قوموں کو راستہ دکھاتی رہتی ہیں ۔ وہ آسودہ خاک
ہو کر بھی دلوں میں شوق شہادت کے ایسے بیج بو جاتے ہیں جو ان کی رحلتوں کے بعد تناور درخت بن جاتے ہیں ۔ تجدید احیائے دین کے اس کارواں کے ایک قائد علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ بھی ہیں جنہیں آج ہم سے جدا ہوئے 24 برس بیت چکے ہیں علامہ
احسان الہی ظہیر ایک ہمہ گیرشخصیت کے مالک تھے وہ پاک وہند کا قیمتی سرمایہ اور اسلامی دنیا کی متاع عزیز تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نواز ا تھا ، ایسی ہمہ صفت اور ہمہ جہت صلاحیتوں والے لوگ آج چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ہم افراد اور اشخاص کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس حقیقت کے اعتراف کے بغیر چارہ نہیں کہ احسان الہی ظہیر جیسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں ۔ ان کی خوبیوں کا باب بہت طویل ہے ۔ یہاں ان کے چند بہادرانہ پہلوؤں کا ذکر
کیا جا رہا ہے ۔ علامہ احسان الہی ظہیر نے مدینہ یونیورسٹی سے مراجعت فرمائی تو تحریکوں کے مرکز لا ہور کی تاریخی مسجد چینیانوالی ، جو کبھی مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی مسند تھی ، میں اپنی خطابت کے جوہردکھانے شروع کیے اس
وقت ایوبی آمریت کا دور تھا ، تحریک ختم نبوت زوروں پر تھی مسئلہ ختم نبوت بیان کرنے کی پاداش میں آغا شورش کاشمیری سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ملک کی مذہبی دنیا پر سناٹا چھایا ہوا تھا ، جلسہ باز علماء کرام پر سکوت مرگ طاری تھا ،
منبرومحراب کی زبانیں گم ہو چکی تھیں ۔ وہ علامہ احسان الہی ظہیر کا عنفوان شباب تھا ۔ چنانچہ اس وقت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ جانشین ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ وارث ، شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کا یہ روحانی فرزند پوری شجاعت اور عواقب ونتائج سے بے
پرواہ ہو کر میدان میں اترا۔ ایوب شاہی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا اور انہیں بتایا کہ اسلام کی راکھ میں ایسی چنگاریاں ابھی باقی ہیں جو تمہیں چشم زدن میں بھسم کر سکتی ہیں ، علامہ صاحب کی شجاعت اور استقامت نے حالات کے دھارے کو صحیح رخ پر موڑ دیا ۔
1973 میں پنجاب میں غلام مصطفی کھر کے اقتدار و اختیار کا طوطی بولتا تھا ۔ آپ نے صوبے میں روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ مصطفی کھر نے آپ پر ایک درجن کے قریب مقدمات دائر کر وائے ۔ ان میں ایک قتل کا مقدمہ بھی تھا لیکن کوئی
دھمکی آپ کو ڈرا سکی نہ ہی جھکا سکی اور نہ ہی کوئی پیشکش آپ کے قدموں کو ڈگمگا سکی ۔ علامہ صاحب اسلام اور دیندار طبقے کے خلاف کسی آواز کو سننا برداشت نہیں کرتے تھے ، انہیں بڑ ی جرأت سے روکتے اور ٹوکتے تھے ۔ ایسا ہی واقعہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ
پنجاب حنیف رامے ، جواب دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں ، کے دور میں پیش آیا انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں لا ہور اسمبلی میں شہر کے تمام مکاتب فکر کے نامور علماء وفضلاء ، خطباء اور مبلغین کا ایک اجلاس طلب کیا جس میں علامہ صاحب کو بھی مدعو
کیا گیا ۔ علامہ صاحب جب اس اجلاس میں تشریف لائے تو رامے مرحوم نے اپنے خطاب میں کہا کہ علماء میں راست بازی اور جرأت اظہار نہیں ہے ، وہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں سے دب جاتے ہیں ، علماء کی اکثریت ، ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کے ڈونگرے برسا
رہی ہے ۔ رامے مرحوم اپنا خطاب کر کے بیٹھ گئے تو علامہ صاحب ازخود اٹھے اور رامے صاحب کے پاس جا کر سٹیج پر خطاب شروع کر دیا ۔ علامہ صاحب نے اپنی روایتی گھن گرج میں فرمایا: میں قرآن کے طالب علم سے مخاطب ہوں اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ
آپ نے دنیا میں سب سے بڑ ا جھوٹ بولا ہے ۔ اگر قرآن میں اسلامی دستور نہیں تو بتاؤ پھر قرآن میں کیا ہے ؟ قرآن نے خدائی احکام کے بغیر باقی سب کو طاغوت قرار دیا ہے ، قرآن کے ایک ایک لفظ میں اسلام کا دستور مضمر ہے ، قرآن اسلامی دستور کی بنیادی
دفعات کے متن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ سرور کائنات ﷺ کے فرمودات اس کی تشریح ، توضیح اور تفسیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اطاعت رسول ﷺ ، ا سوہ رسول ﷺ دوسر ا ا ہم اسلامی دستور ہے ۔ علامہ صاحب نے اس حوالے سے قرآنی آیات پڑ ھ کر
سنائیں اور کہا کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ نہ کرنیوالوں کو وہ ’’ظالمون‘‘اور ’’فاسقون ‘‘قرار دیتا ہے ۔ علامہ صاحب کی اس جرأت اور دلیری پر علماء کا مجمع الحمد للہ کہتا جا رہا تھا ۔ علامہ صاحب نے کہا کہ ایک عالم برس ہا برس سے اوقاف کی مسجد میں خطیب ہے ۔
اس کے بچے بچیاں جوان ہیں ، وہ بالواسطہ آپ کا ملازم ہے اب اگر وہ جرأت اظہار سے کام لیتا ہے ، راست بازی اور صداقت کا ثبوت دیتا ہے تو اسے مسجد کی امامت وخطابت سے ہٹادیاجائیگا ۔ ثانیا: اس کو مسجد سے اٹھا کر سیکڑ وں میل دور کہیں دورافتادہ مقام پر
تبادلہ کر دیں گے ۔ اب آپ ہی بتائیں وہ جرأت کا اظہار کیسے کرے ؟ اور راست بازی کا ثبوت کیسے بہم پہنچا سکتا ہے ؟ میں آپ کا ملازم نہیں ، میں آپ کو روکتا بھی ہوں اور ٹوکتا بھی ہوں ، علامہ صاحب کے بعد کسی عالم نے تقریر نہیں کی ، مولانا سید ابوبکر
غزنوی رحمہ اللہ کو دعوت دی گئی تو سید صاحب نے فرمایا: میرے بھائی علامہ احسان الہی ظہیرکے خطاب کے بعد مزید گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ مولانا محمد بخش ، مولانا سید عبدالقادر آزاد سب نے سٹیج پر آ کر یہی بات کہی ۔ چائے کا بندوبست
دوسرے کمرے میں تھا علمائے کرام چائے پینے کیلئے تشریف لے گئے تو رامے صاحب نے ایک آدمی بھیج کر انہیں بلایا، رامے صاحب کے ساتھ ایک کرسی خالی تھی علامہ صاحب اس پر بیٹھ گئے ۔ علامہ صاحب نے رامے صاحب کی میز پر سے ایک بسکٹ اٹھا کر
کہا کہ آپ مساوات کے علمبردار ہیں ، بتائیں جو بسکٹ آپ کی میز پر ہیں کیا وہی بسکٹ علماء کرام کی میز پر ہیں ؟ ارے جو لوگ چائے کی ٹیبل پر مساوات نہیں کر سکتے ، ان سے کیسے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ رامے صاحب نے حکم دیا کہ علمائے کرام کو وہی
بسکٹ پیش کیے جائیں جو میری میز پر ہیں ۔
1977کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی دھاندلیوں کے ردّ عمل میں قومی اتحاد کے سٹیج پر ایک زبردست اور مثالی تحریک چلی ۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ میں سب سے قد آور علامہ صاحب ہی نظر آتے ہیں ۔ جب قومی اتحاد کے مرکزی قائدین گرفتا رکر لیے گئے
اور لا ہور صف ثانی اور صف ثالث کے لیڈروں سے خالی ہو گیا اور قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے صوبائی قائدین بھی حراست میں لے لیے گئے ، لا ہور اور کراچی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تو اس وقت پوری شجاعت اور حوصلے سے علامہ صاحب نے تحریک نظام
مصطفی کی قیادت سنبھالی ۔ وہ ہماری اسلامی تاریخ کا ایک سنہراباب ہے ۔ کرفیو کے نفاذ کے باوجود علامہ صاحب بھیس بدل کر مسجد شہداء میں خطاب فرماتے رہے اور پورے ملک کے کارکنوں کی رہنمائی فرماتے رہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی مارشل لاء کے خلاف سب سے پہلے زوردارآوازجو منٹو پارک میں عید کے زبردست اور عظیم مجمع میں اٹھی وہ احسان الہی ظہیر کی آواز تھی ۔ آپ نے بھٹو سے کہا کہ اگر تم عوامی مارشل لاء کے نام پر اپنی آمریت قائم کرنا چاہتے ہوتو
تمہیں قائد عوام کہلانے پر شرم آنی چاہیے ۔ بھٹو کا دور حکومت سیاسی جماعتوں ، سیاسی ورکروں اور دینی جماعتوں کے ابتلاء وآزمائش کادور تھا ۔ بھٹو حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کا جو قافلہ میدان میں اترا ، علامہ صاحب اس میں نمایاں تھے ۔ اس وقت بھٹو کے
خلاف تحریک استقلال شمشیر بے نیام کی حیثیت رکھتی تھی۔اس میں آپ نے شمولیت اختیار کی اس دور میں آپ نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ، چوہدری ظہور الہی اور ائیر مارشل اصغر علی خان کا پوری بہادری او ر استقامت سے حق رفاقت ادا کیا ۔ جنرل
ضیاء الحق 90دن میں انتخابات کے وعدہ پر اقتدار واختیار پر قابض ہوئے ۔ 5 شرعی حدود کا نفاذ کیا گیا لیکن جنرل صاحب نے عملا کسی کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ نام نہاد ریفرنڈم سوانگ بھی اسلام کے نام پر رچایا لیکن اسلام خودر بین لگا کر بھی ملک میں نظر نہیں آتا
تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کے عمل اور گفتار کے تضاد نے حساس اور ذہین طبقے کو دینی اقدار سے بیزار کر دیا ۔ جنرل ضیاء نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے ہر جماعت میں پھوٹ ڈال کر مفاد پرستوں اور خود فروشوں کا ایک حصہ اپنی تائید و حمایت پر آمادہ کر لیا ۔ چاروں
مکاتب فکر کے بعض نامور علماء کو اپنا حاشیہ بردار بنا لیا اور انہیں دینی مدارس سے تعاون کے نام پر سرمائے کا دانہ ڈال دیا ۔
علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ للہ برہنہ شمشیر بن کر جنرل ضیا ء الحق کی پالیسیوں کے خلاف گرجتے اور برستے رہے ۔ متعدد مواقع پر جنرل ضیاء الحق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تحریک نظام مصطفی میں قربانیاں چہرے بدلنے کیلئے نہیں بلکہ نظام بدلنے کیلئے
دی تھیں ۔ ہم نہ حریف اقتدار ہیں اور نہ حلیف اقتدار ہیں ، ہم اس ملک میں صدیوں سے حکومت الہیہ کے قیام کے لیے ماریں کھا رہے ہیں ۔ ہمارا مقصد حیات ایک ہی ہے کہ اس ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ ہو اگر آپ اسلام نافذ کر د یں گے تو آپ کی چاکری
ہمارے لیے باعث عزت وافتخار ہو گی ورنہ سن لو جو ہاتھ بھٹو کی گولیوں کا رخ موڑ سکتے ہیں وہ آپ کے ٹینکوں کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں ۔ جب دہشت پسندوں نے فرزندپنجاب چوہدری ظہور الہی کوقتل کیا تھاتو علامہ صاحب نے اپنے ایک بہادرانہ خطاب میں فرمایا
کہ دہشت پسندو !تم نے ہماری متاع عزیز ہم سے چھین لی ہے ، حکمرانو! تم بھی سن لو ، ہم زندہ رہیں گے تو چوہدری ظہورالہی کی طرح ، مریں گے تو چوہدری ظہور الہی کی طرح مریں گے ۔ علامہ صاحب کے یہ تاریخی الفاظ کس قدر صداقت پر مبنی تھے کہ اللہ تعالیٰ
نے انہیں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کیا۔
علامہ کے خطاب کا طنطنہ ، تقریر کا دبدبہ اور گفتگوکا ہمہمہ مسلمہ امرتھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ضمیر ایسی مٹی سے اٹھایا تھا کہ جس میں ذرا اندیشہ فکر نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ ہم نے اپنے اکابرین سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شجاعت ، استقامت ، جرأت وبہادری ،
بے باکی اور بلند حوصلوں کے بے شمارواقعات سنتے ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا ہمارے دل میں جو احترام اور عقیدت ہے اس کی بڑ ی وجہ ان کی جرأت وبے باکی ہے ان کی شجاعت اور بے باک تحریروں نے نوجوانوں میں ولولہ تازہ اور عزم راسخ
پیدا کیا ۔ ان کا خارا شگاف قلم تلوار سے بھی زیادہ کاٹتا تھا ان کی قلم کی معجز نمائیوں نے ممولوں کو شہبازوں سے لڑ ایا ۔ علامہ صاحب کے خطابات میں مولانا ابوالکلام آزاد کا وہی بانک پن ، وہی جرأت ، وہی پکار ، وہی للکار ، وہی یلغار وہی اقدام ، وہی سعی مسلسل ، وہی
عمل پیہم ، وہی انداز قلندرانہ ، حکمرانان وقت کو للکارتا اور کہتا کہ میں نہ تمہیں مانتا ہوں ، ملت کا یہ ترجمان جو حافظ قرآن بھی تھا ، فصاحت وبلاغت کا بحر بیکراں بھی تھا۔ یہ غیرمعمولی انسان جو خطیب عرب کے لقب سے موسوم ہوا ، جنہیں جنت البقیع کی ابدی
راحتوں کا وافر حصہ نصیب ہوا ، جس کی للکار ایوان میں زلزلہ برپا کرتی تھی وقت کے آمروں کیلئے جس کی حیات کانٹا بن کر کھٹکتی رہی ۔ یہی ان کی بصیرت تھی اور یہ حکایت مہرو وفا تھاجس پر وہ فدا ہو گئے اور اپنے الفاظ کی صداقت اپنے لہو سے رقم کر گئے ، مینار
پاکستان کے سائے تلے 23مارچ کی رات 1987کو جب آہوں سسکیوں اور کرا ہوں میں شہداء کے لاشوں میں انہیں میو ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں لایا گیا تو ان کی دلیری اور ان کی استقامت کی کیفیت یہ تھی کہ جزع فزع کے بجائے عیادت کنندہ سے دعا
کی درخواست کرتے ، ملنے والے روتے تو انہیں کہتے کہ تم خود روتے ہو اوروں کو کیسے چپ کراؤ گے ؟اور ساتھ کہہ رہے تھے کہ میرے ساتھیوں کو رونے دھونے سے روکو اور میرے کتاب وسنت کے جاری مشن کو ہر حال میں جاری رکھو ۔ آج امت مسلمہ
خصوصا پاکستان جس بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور جو افتاد آئی ہو ئی ہے کاش علامہ صاحب زندہ ہوتے اس ملک میں عوامی ردعمل کا نقشہ ہی اور ہوتا جس طرح وہ سقوط ڈھاکہ پر قوم کو رلا گئے آج بقیہ پاکستان سے ہونے والی اغیارکی سازشوں کو دیکھ کر ارباب اقتدار کو
ضرور جھنجھوڑ تے اورٹھوس اصولوں کی بنیاد پر سیاست کرتے ۔ قافلہ توحید وسنت کا یہ رہبر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 30 مارچ کو سعودی عرب ریاض کے ملٹری ہسپتال میں انتقال کر گیا جنہیں جنت البقیع کے قبرستان میں امام مالک رحمہ اللہ کے پہلو میں دفن
کیا گیا ۔
انّا للہ وانا الیہ راجعون
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟