Friday, April 2, 2010

تبصرۂ کتب

نام کتاب:
ہدیة الاطفال:
تالیف: مولانا مفتی عبد الولی خان۔
ناشر: دارالسلام 36 لوئر مال لاہور۔
بچہ جب بڑا ہوتا ہے اور اس کا عقل وشعور بھی بڑھتا جاتا ہے تو ذہن میں طرح طرح کے سوالات جنم لینے لگتے ہیں مثلاً: ہم کون ہیں ؟ کس لیے پیدا کیے گئے ہیں ؟ ہمارا دین کیا ہے ؟ ایمان کسے کہتے ہیں ؟ توحید کے کیا معنی ہیں ؟ افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ اکثر والدین دین کی بنیادی باتوں اور زندگی کے اصل مقاصد سے خود بے خبر ہوتے ہیں ، اس لیے وہ اپنے بچوں کو صحیح جواب نہیں دے پاتے اور اکثر حالتوں میں غلط اور خلاف شریعت جواب دے دیتے ہیں ۔
اس صورتحال کے پیش نظر ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جوبچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے فطری سوالات کا صحیح اور تسلی بخش جواب دے کر ان کی اعلیٰ اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنے ۔ یہ کتاب اس مقصد کو بہ تمام وکمال پورا کرتی ہے اسی لیے اس کی تعلیم وتدریس نہایت ضروری ہے
زیر نظر ''ہدیة الاطفال'' سوال وجواب کے پیرائے میں مرتب کی گئی ہے جو کہ والدین ، اساتذہ اور بچوں کیلئے رہنما کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں اسلام ، ارکان اسلام ، ارکان ایمان ، جنت ، جہنم ، شرک ، وسیلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، مسلمانوں کے باہمی اختلافات ، اخلاقیات ، اسلامی آداب ، علم اور اس کی فضیلت جیسے موضوعات کو عام فہم اور آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب ہر گھر اور لائبریری کی ضرورت ہے اور اس قابل ہے کہ اسے دینی مدارس اور سکولوں کے نصاب میں داخل کیا جائے ۔
64 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے خوبصورت تحفہ ہے ۔کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ یہ کتاب دارالسلام 36 لوئر مال ، غزنی سڑیٹ اردو بازار لاہور، Y-260 بلاک ڈیفنس لاہور، دارالسلام F-8 مرکز اسلام آباد اور دارالسلام مین طارق روڈ کراچی سے دستیاب ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

النفس وحقیقتہ

أولاً : مفہوم النفس :
الروح ، یقال خرجت نفسہ أی روحہ ، والدم ، یقال ما لا نفس لہ سائلة أی لا دم ، وذات الشیء وعینہ ، یقال جاء ہو نفسہ أو بنفسہ ، والعین ، یقال نفستہ بنفس أی أصبتہ بعین .
والنفس بفتحتین نسیم الہواء والجمع أنفاس ، والنفس الریح الداخل والخارج فی البدن من الفم والأنف .
قال الخلیل بن أحمد رحمہ اللہ: "النَّفسُ وجمعہا النُّفُوس لہا معان:
النَّفْسُ: الروح الذی بہ حیاة الجسد، وکل نسانٍ نَفْس، حتی آدم علیہ السلام، الذکر والأنثی سواء , وکلُّ شیء ٍ بعینہ نَفْس, ورجل لہ نَفْس، أی: خُلُق وجَلادة وسَخاء " -کتاب العین، الخلیل بن أحمد مادة: نفس.
ویشیع استعمال ہذہ اللفظة فی جملة من المصطلحات منہا:
١۔ العقل الذی یکون التمییز بہ .
٢۔ الذات ،
٣۔ الروح ، ومنہ: خرجت نفسُہ، ذا مات -واللفظ بہذا الطلاق مؤنثة-،
٤۔ شخص النسان، ومنہ: أسرتُہ أحد عشر نَفْساً -واللفظ بہذا الطلاق مذکر- ،
٥۔ نفس الأمر،
٦۔ ذات الشیء وعینہ،
٧۔ النفس السائلة: الدَّم السائل -معجم لغة الفقہاء -ص484-، التعریفات -ص312-، القاموس الفقہی -ص:٣٧٥-
ثانیاً : مفہوم النفس فی العرف :
قال الجرجانی: النفس من الجوہر البخاری اللطیف الحامل لقوة الحیاة والحس والحرکة الرادیة ، وسماہا الحکیم الروح الحیوانیة فہو جوہر مشرق للبدن ، فعند الموت ینقطع ضوؤہ عن ظاہر البدن وباطنہ ، وأما فی وقت النوم فینقطع عن ظاہر البدن دون باطنہ فثبت أن النوم والموت من جنس واحد ، لأن الموت ہو الانقطاع الکلی ، والنوم ہو الانقطاع الناقص ، فثبت أن القادر الحکیم دبر تعلق جواہر النفس بالبدن علی ثلاثة أضرب
الأول: ن بلغ ضوء النفس لی جمیع أجزاء البدن ظاہرہ وباطنہ فہو الیقظة .
الثانی: ن انقطع ضوؤہا عن ظاہرہ دون باطنہ فہو النوم .
الثالث: ن انقطع ضوء النفس عن ظاہر البدن وباطنہ بالکلیة فہو الموت . .- تعریفات للجرجانی , ص 80 -
ولا یخرج استعمال الفقہاء لہذا اللفظ عن معانیہ اللغویة .
وقال بعض الحکماء : أنّ النسان لہ نفسان نفس حیوانیة ونفس روحانیة.
فالنفس الحیوانیة لا تفارقہ والنفس الروحانیة التی ہی من أمر اللہ فیما یفہم ویعقل فیتوجہ لہا الخطاب وہی التی تفارق النسان عند النوم ولیہا الشارة بقولہ تعالی: اللَّہُ یَتَوَفَّی الْأَنفُسَ حِینَ مَوْتِہَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِی مَنَامِہَا - الزمر39 -
ثم أنہ تعالی ذا أراد الحیاة للنائم رد علیہ روحہ فاستیقظ وذا قضی علیہ الموت أمسک عنہ روحہ فیموت وہو معنی قولہ تعالی: فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرَی ِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی -الزمر39 -
وقال المادیون: نّ النفس ہی الہیکل المحسوس والبنیة المشاہدة.
وقال بعضہم: النفس جزء لا یتجزأ من القلب ولیس ہی جسماً ولا جسمانیة.
وقال غیرہ: النفس أجزاء أصیلة من فضل البدن باقیة من أول العمر لی آخرہ مصونة عن التغییر والتبدیل والمتبدل فضل الہضم لیہ.
وقال غیرہم: النفس ہی الدم المعتدل ذ بکثرتہ واعتدالہ تبقی الحیاة وبقلتہ وعدم اعتدالہ تضعف الحیاة.
ومنہم من قال: النفس ہی العتدال المزاجی النوعی ذ تبقی الحیاة ما بقی ہذا العتدال وتزول ذا زال.
وتطلق النفوس عندہم علی الطبائع کالنفس الأمارة بالسوء والنفس اللوامة والنفس المطمئنة والنفس الناطقة وغیر ذلک من الأباطیل التی توہمت بہا الأطباء والفلاسفة والحکماء والمادیون وقد نزّہت القلم عن وضع ما سوّلت لہم أنفسہم من الخرافات والأوہام وکل ذلک رجم بالغیب ویا لہ من داء عقام.
ویعرفہا ابن سینا بحسب اقسامہا فیقول: "والنفس کجنس واحد ینقسم بضرب من القسمة لی ثلاثة اقسام:
أحدہا: النباتیة وہی کمال أول لجسم طبیعی من جہة ما یتولد ویربو ویتغذی.
والثانی: النفس الحیوانیة وہی کمال أول لجسم طبیعی آلی من جہة ما یدرک الجزئیات ویتحرک بالرادة.
الثالث: النفس النسانیة وہی کمال أول لجسم طبیعی آلی من جہة ما یفعل الأفعال الکائنة بالاختیار الفکری والاستنباط بالرأی ومن جہة ما یدرک الأمور الکلیة".- نظریة المعرفة بین القرآن والسنة، د. أحمد الکردی ص-110 -
وخلاصة القول فی تعریف النفس عند العلماء : أن النفس ہی الجوہر البسیط الذی قیل لأجلہ نما خلقتم للبقاء لا للفناء .
وقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أعرفکم بنفسہ أعرفکم لربہ ومن عرف نفسہ عرف ربہ.
ثالثاً :أہداف علم النفس عند المسلم:
معرفة آیات اللہ فی النفس النسانیة والسلوک البشری مما یؤکد فی وعی المسلم الیمان باللہ وعظمتہ وأنہ وحدہ المستحق لآن یفرد بالعبادة والطاعة. تعریف المسلم بسنناللہ فی علم النفس وتزویدہ بما یحتاج الیہ من الحقائق النفسیة لیترقی بالنسجام مع ہذہ السنن والحقائق وتبصیرہ بنعم اللہ.دراک الفروق بین الأفراد فی أنواع المواہب وألوان القدرات وأن کلا میسر لما خلق لہ.
تعزیز الشعوربالمسئولیة الفردیة بین یدی اللہ.تمکین المسلم من معرفة الأساسیات السلامیة فی علم النفس من الأفکار والنظریات وتوقی ماقد یکون فیہا من فساد.الطلاع علی ماترکہ أعلام السلام فی میدان الحقائق والدراسات النفسیة من الآثاروالأفکار.
الطلاع علی ما وصل الیہ الفکر البشری فی میدان علم النفس من الحقائق المقررة والمسلمات الثابتہ ماییغنی شخصیة المسلم ویقوی الکیان السلامی.تکوین المقدرة لدی المسلم علی فہم الروابط الطبیعیة بین الدوافع والتصرفات فی أعمال النسان.
عانة المسلم علی حل مشکلاتہ بحلول متفقة مع السلام مشتقة من حقائق علم النفسیة وذلک لتخلوحیاتہ من المتاعب النفسیةوالنحرافات التی تنغص عیشہ وتحد من نتائجہ.
مساعدة المسلمین علی التعلم الجید والدراسة المنتجة بتقدیم قواعد تطبیقیة مشتقة منا لسنن النفسیة وتولیدالرغبة لدیہم فی القراء ة النافعة وتقویمہا.تأکید ماجاء بہ السلام منوحدة الفطرة البشریة وستعدادہا للتجاہات المختلفة کساب المسلم روح البحث العالمی الذی یقتضیہ علم النفس ویساعد علیہ التأمل الذاتی وملاحظة تصرفات الآخرین وتقدیرہا بروح علمیة مساعدة المسلم علی فہم الظواہر النفسیة فی مرحلتی المراہقة والشباب لیجتازہا بسلام ونجاح.
تعریف المسلم قدرالمستطاع بالقدرات الخاصة والستعدادات التی وہبہا اللہ لہ لیساعدہ ذلک علی ختیار مایناسب قدراتہ وستعدداتہ من دراسة أو مہنة أوعمل براز خصائص الحیاة النفسیة المنضویة تحت لواء العقیدة السلامیة وبیان ماتضیفہ ہذہ العقیدةعلی الحیاہ النفسیة من الطمأنینہ والتساق والسمو والکمال والسعادة والبطولة.
حمایة السلام للنفس
أولاً :میزة السلام فی حمایة النفس
کانت البشریة قبل بعثة النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی ضلالة عمیاء وجاہلیة جہلاء ، لا تعرف معروفا ولا تنکر منکرا، أحسنُہم حالا من کان علی دین محرّفٍ مبدّل، التبس فیہ الحقّ بالباطل، واختلط فیہ الصدق بالکذب، فبعث اللہ سبحانہ نبیّہ ومصطفاہ محمّدا صلی اللہ علیہ وسلم بالہدی ودین الحقّ لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون، وکانت الرحمة المطلقة العامّة ہی المقصد من بعثتہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ تعالی: -وَمَا أَرْسَلْنَٰکَ ِلاَّ رَحْمَةً لّلْعَٰلَمِینَ- -الأنبیاء 7-، فحصر سبحانہ وتعالی المقصد من بعثة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی تحقیق الرحمة للعالمین، والعالمون جمیع الخلق. ولقد کان أسّ ہذہ الرحمة وقطبہا ہو الفرقان بین الحق والباطل وبین الضلالة والہدی.
فہو صلی اللہ علیہ وسلم الرحمة المہداة، عن أبی موسی الأشعری رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسمی لنا نفسہ أسماء فقال: --أنا محمد وأحمد والمقفّی والحاشر ونبی التوبة ونبی الرحمة- - أخرجہ مسلم فی الفضائل -2355-
وقد کان صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للناس فی أحلک الظروف وأقساہا وأشدّہا، عن عائشة رضی اللہ عنہا أنہا قالت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم: ہل أتی علیک یوم کان أشد من یوم أحد؟ قال: --لقد لقیت من قومک ما لقیت، وکان أشدّ ما لقیت منہم یوم العقبة، ذ عرضت نفسی علی ابن عبد یالیل بن عبد کلال، فلم یجبنی لی ما أردت، فانطلقت وأنا مہموم علی وجہی، فلم أستفق لا وأنا بقرن الثعالب، فرفعت رأسی فذا أنا بسحابة قد أظلتنی، فنظرت فذا فیہا جبریل، فنادانی فقال: ن اللہ قد سمع قول قومک لک وما ردّوا علیک وقد بعث لیک ملک الجبال لتأمرہ بما شئت فیہم، فنادانی ملک الجبال فسلم علی ثم قال: یا محمد، فقال: ذلک فیما شئت، ن شئت أن أطبق علیہم الأخشبین-، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: --بل أرجو أن یخرج اللہ من أصلابہم من یعبد اللہ وحدہ لا یشرک بہ شیئا- -أخرجہ البخاری فی بدء الخلق 3231- واللفظ لہ، ومسلم فی الجہاد -1795-
أرسل اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بدینٍ کلُّہ رحمة وخیر وسعادة لمن اعتنقہ وتمسّک بہ، قال اللہ تعالی: -یٰأَیُّہَا لنَّاسُ قَدْ جَاء تْکُمْ مَّوْعِظَة مّن رَّبّکُمْ وَشِفَاء لِمَا فِی لصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَة لّلْمُؤْمِنِینَ * قُلْ بِفَضْلِ للَّہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ ہُوَ خَیْر مّمَّا یَجْمَعُونَ- -یونس:57۔58-، وتتجلّی رحمة السلام فی مقاصدہ العظیمة وقواعدہ الجلیلة ونُظمہ الفریدة وأخلاقہ النبیلة، فہو رحمة فی السلم والحرب، ورحمة فی الشدة والرخاء ، ورحمة فی الوسع والضیق، ورحمة فی الثابة والعقوبة، ورحمة فی الحکم والتنفیذ، ورحمة فی کل الأحوال.
ولتحقیق ہذہ الرحمة جاء السلام بحفظ الضروریات الخمس التی لا بد منہا فی قیام مصالح الدین والدنیا، بحیث ذا فقدت لم تجر مصالح الدنیا علی استقامة، بل علی فساد وتہارج واضطراب وفوت حیاة، وفی الأخری فوت النجاة والنعیم والرجوع بالخسران المبین.
وہذہ الضروریات الخمس ہی الدین والنفس والعقل والعرض والمال، وأعظمہا بعد مقصد حفظ الدین مقصدُ حفظ النفس، فقد عُنیت الشریعة السلامیة بالنفس عنایة فائقة، فشرعت من الأحکام ما یحقّق لہا المصالح ویدرأ عنہا المفاسد، وذلک مبالغة فی حفظہا وصیانتہا ودرء الاعتداء علیہا.
والمقصود بالأنفس التی عنیت الشریعة بحفظہا الأنفس المعصومة بالسلام أو الجزیة أو العہد أو الأمان -روضة الطالبین -9/148-. وأما غیر ذلک کنفس المحارب فلیست مما عنیت الشریعة بحفظہ، لکون عدائہ للسلام ومحاربتہ لہ أعظم فی میزان الشریعة من زہاق نفسہ، بل وقد تکون النفس معصومة بالسلام أو الجزیة أو العہد أو الأمان ومع ذلک یجیز الشرع للحاکم زہاقہا بالقصاص أو الرجم أو التعزیر، ولا یقال: ہذا مناف لمقصد حفظ النفس؛ لکون مصلحة حفظہا والحالة ہذہ عورضت بمصلحة أعظم، فأخِذ بأعظم المصلحتین.
وقد وضعت الشریعة السلامیة تدابیر عدیدة کفیلة بذن اللہ بحفظ النفس من التلف والتعدی علیہا, بل سدّت الطرقَ المفضیة لی زہاقہا أو تلافہا أو الاعتداء علیہا, وذلک بسدّ الذرائع المؤدّیة لی القتل.
فممّا جاء ت بہ الشریعة لتحقیق ہذا المقصد:
١۔ تحریم الانتحار والوعید الشدید لمن قتل نفسہ:
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: --من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجّأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدا مخلّدا فیہا أبدا, ومن شرب سُمّا فقتل نفسہ فہو یتحسّاہ فی نار جہنم خالدا مخلّدا فیہا أبدا, ومن تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو یتردّی فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا- -أخرجہ البخاری فی الطب, باب: شرب السم والدواء -5333-, ومسلم فی الیمان 158- واللفظ لہ.
قال السندی: "--تردی- أی: سقط، -یتردی- أی: من جبال النار لی أودیتہا، -خالدا مخلدا- ظاہرہ یوافق قولہ تعالی: -وَمَن یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا- الآیة لعموم المؤمن نفسَ القاتل أیضا, لکن قال الترمذی: قد جاء ت الروایة بلا ذکر خالدا مخلّدا أبدا, وہی أصح؛ لما ثبت من خروج أہل التوحید من النار, قلت: ن صحّ فہو محمول علی من یستحلّ ذلک, أو علی أنہ یستحقّ ذلک الجزاء , وقیل: ہو محمول علی الامتداد وطول المکث, کما ذکروا فی الآیة واللہ تعالی أعلم. -ومن تحسی- آخرہ ألف, أی: شرب وتجرّع, والسمّ بفتح السین وضمّہا وقیل: مثلّثة السین: دواء قاتل یطرح فی طعام أو ماء , فینبغی أن یحمل -تحسی- علی معنی أدخل فی باطنہ لیعمّ الأکل والشرب جمیعا, -یجأ- بہمزة فی آخرہ, مضارع: وجأتہ بالسکین ذا ضربتہ بہا" -حاشیة السندی 4/67- باختصار.
٢۔ النہی عن القتال فی الفتنة:
عن الأحنف بن قیس قال: خرجت وأنا أرید ہذا الرجل, فلقینی أبو بکرة فقال: أین ترید یا أحنف؟ قال: قلت: أرید نصر ابنَ عمِّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی علیًّا قال: فقال لی: یا أحنف, ارجِع, فنی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: --ذا تواجہ المسلمان بسیفیہما فالقاتل والمقتول فی النار-، قال: فقلت أو قیل: یا رسول اللہ, ہذا القاتل فما بال المقتول؟ قال: --نہ قد أراد قتل صاحبہ- - أخرجہ البخاری فی الیمان, باب: -ون طائفتان من المؤمنین- 30-, ومسلم فی الفتن وأشراط الساعة 5139- واللفظ لہ.
قال النووی: "معنی تواجہا--: ضرب کلّ واحد وجہ صاحبہ, أی: ذاتہ وجملتہ, وأمّا کون القاتل والمقتول من أہل النار فمحمول علی من لا تأویل لہ, ویکون قتالہما عصبیة ونحوہا, ثم کونہ فی النار معناہ: مستحقّ لہا, وقد یجازی بذلک, وقد یعفو اللہ تعالی عنہ, ہذا مذہب أہل الحق. -شرح صحیح مسلم -18/11-
٣۔ النہی عن الشارة بالسلاح ونحوہ من حدیدة وغیرہا:
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال أبو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم: --من أشار لی أخیہ بحدیدة فن الملائکة تلعنہ حتی یدعہ, ون کان أخاہ لأبیہ وأمہ- -أخرجہ مسلم فی الیمان -158-
قال النووی: "فیہ تأکید حرمة المسلم, والنہی الشدید عن ترویعہ وتخویفہ والتعرض لہ بما قد یؤذیہ, وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: -ون کان أخاہ لأبیہ وأمہ- مبالغة فی یضاح عموم النہی فی کل أحد, سواء من یتّہم فیہ ومن لا یتّہم, وسواء کان ہذا ہزلا ولعبا أم لا؛ لأن ترویع المسلم حرام بکل حال؛ ولأنہ قد یسبقہ السلاح کما صرّح بہ فی الروایة الأخری, ولعن الملائکة لہ یدلّ علی أنہ حرام" -شرح صحیح مسلم -16/170-
٤۔ النہی عن السبّ والشتم المفضی للعداوة ثم التقاتل:
قال تعالی: -وَقُل لّعِبَادِی یَقُولُواْ لَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ِنَّ لشَّیْطَٰنَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ ِنَّ لشَّیْطَٰنَ کَانَ لِلِنْسَٰنِ عَدُوّا مُّبِینًا- -السراء 53-.
قال الطبری: "یقول تعالی ذکرہ لنبیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم: وقل یا محمد لعبادی یقل بعضہم لبعض التی ہی أحسن؛ من المحاورة والمخاطبة, وقولہ: -ِنَّ لشَّیْطَٰنَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ- یقول: ن الشیطان یسوء محاورة بعضہم بعضا -یَنزَغُ بَیْنَہُمْ- یقول: یفسد بینہم, یہیج بینہم الشر، -ِنَّ لشَّیْطَٰنَ کَانَ لِلِنْسَٰنِ عَدُوّا مُّبِینًا- یقول: ن الشیطان کان لآدم وذریتہ عدوّا قد أبان لہم عداوتہ بما أظہر لآدم من الحسد وغرورہ یاہ حتی أخرجہ من الجنة" -جامع البیان -15/102- باختصار.
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: -سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر- -أخرجہ البخاری فی الیمان, باب: خوف المؤمن من أن یحبط عملہ -46-, ومسلم فی الیمان -97-
قال المناوی: "--سِباب- بکسر السین والتخفیف -المسلم- أی: سبّہ وشتمہ, یعنی التکلّم فی عرضہ بما یعیبہ, --فسوق- أی: خروج عن طاعة اللہ ورسولہ, ولفظہ یقتضی کونہ من اثنین, قال النووی: فیحرم سبّ المسلم بغیر سبب شرعی, وقتالہ أی: محاربتہ لأجل السلام کفر حقیقة, أو ذکرہ للتہدید وتعظیم الوعید, أو المراد الکفر اللغوی وہو الجحد, أو ہضم أخوة الیمان" -فیض القدیر ، باختصار.
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟