Monday, January 4, 2010

مساجد میں دہشت گردی۔۔۔؟

از مقبول احمد مکی

قال اللہ تعالی ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّہِ أَن یُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ وَسَعَی فِی خَرَابِہَا أُوْلَئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ أَن یَدْخُلُوہَا إِلاَّ خَآئِفِینَ لہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِی الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیمٌ﴾(البقرہ ؛۱۱۴)
اور اس سے زیا دہ ظالم کون ہو سکتا ہے جس نے لوگوں کو اس بات سے روکا کہ اللہ کی مسجد وں میں اللہ کا نام لیا جائے اور انہیں اجاڑ ے کی کوشش کی۔ ان (روکنے والوں )کے لائق تو یہ تھا ان (مسجدوں )میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں ۔ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑ ا عذاب ہے ۔یعنی کہ جو مسجدوں سے منع کر ے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے وہ سب سے بڑ ا ظالم ہے ۔(تفسیر ابن کثیر )
اللہ تعالی کی نظر میں روئے زمین کا سب سے زیادہ بہتر اور افضل حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے اللہ تعالی سے پیار رکھنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسجد سے بھی پیار رکھتے ہیں قیامت کے ہولناک دن میں جب کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا اللہ تعالی اس دن اپنے اس بندے کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو ۔جیسا کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے : ’’سَبعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَومَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ (مِنہُم) رَجُلٌ قَلبُہُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ۔‘‘ (البخا ری ؛کتاب الاذان)
’’سات (اللہ کے خوش نصیب بندے) روز قیامت اللہ کے سائے کے نیچے ہوں گے جس دن اس(اللہ) کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا(ان میں سے ایک) جس شخص کا دل مسجدوں سے چمٹا (جڑ ا)رہے ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پاک سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی مسجدوں کی دیکھ بھال ، خدمت کرنے والے اور ان کو آباد کرنے والوں کو قیامت والے دن سے ہی خوشحال زندگی عطا فرما دیں گے ۔مساجد کی تعمیرو ترقی کا خیال رکھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنی پاک مقدس کتاب میں یوں ارشاد فرمایا ہے ۔
﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلَئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِینَ﴾(التوبہ :۱۸)
اللہ کی مسجدوں کو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالی پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑ ھتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے یہی لوگ یقینا ھدایت یافتہ ہیں ۔
اس ارشاد ربانی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تعمیر مسجد علامات ایمان میں سے ہے جس کے بارے میں رسول عربی انے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’من بنی للہ مسجداً قدارا مفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتاً فی الجنۃ ۔ (البزار ، ابن حبان )
ترجمہ ۔سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چیل کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائے گا۔
اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرتے ہیں ۔اور دوسری حدیث میں مسجد کو بہترین جگہ قرار دیتے ہوئے اعلان فرمایا : ’’ان احسن البقاع إلی اللہ المساجد وأبغض البقاع إلی اللہ الأسواق ۔ ‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، ج/۱، ص:۱۷۹، رقم الحدیث :۴۷۰)
ترجمہ ۔ مسجد یں اللہ کی پسندیدہ جگہیں ہیں جبکہ بازار اللہ تعالی کو انتہائی ناپسند ہیں صحیح روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مذکو رہ بالا بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبر ائیل امین کے بتلانے کے بعد ارشاد فرمائی یعنی مسجدوں کی عظمت ورفعت اتنی زیا دہ ہے کہ اس کو بیان کرنے کے لئے اللہ رب العزت جبرائیل امین کو خصوصی طور پر نازل ہونے کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص وضو کر کے مسجد میں آتا ہے اس کی خوش نصیبی کا تذکرہ کرتے ہوئے رسول رحمت ا فرماتے ہیں ۔’’من خرج من بیتہ متطہراً إلی صلاۃ مکتوبۃ فأجرہ کأجر الحاج المحرم ۔ ‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، ج:۱، ص:۱۷۸، رقم الحدیث:۴۶۵)
ترجمہ ۔ فرض نماز کے لئے گھر سے وضو کر کے مسجد آنے والا خوش نصیب حج کے ثواب کا مستحق بن جاتا ہے دوسری جگہ دربار الہی میں حاضر ہونے والے خوش بخت انسان کے بارے میں یوں گویاہیں ۔
’’ من غدا إلی المسجد أو راح أعدّ اللہ لہ نزلۃ من الجنۃ کلما غدا أو راح ۔ (متفق علیہ )
جب کوئی شخص صبح و شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اتنی ہی مرتبہ اس کے لئے جنت کی مہمانی کا سامان مہیا کرتا ہے جتنی مرتبہ وہ مسجد کو جاتا ہے مسجد کے مسافر کو قیا مت کے دن مکمل نور سے نوازا جائے گا ارشاد رحمت للعالمین ہے ۔
’’بشر المشائین فی الظلم إلی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ ۔‘‘ (سنن الترمذی)
ترجمہ ۔اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والے لو گوں کو خوشخبری دے دو کہ اللہ انہیں روز قیامت مکمل نور عطا فرمائے گا۔ محبانِ مساجد کیلئے فرشتے دعا کرتے ہیں ۔ مسند احمد کی صحیح روایت ہے کہ نبی ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :مسلمانوں میں بعض لوگ وہ ہیں جو مسجدوں میں جمے رہتے ہیں اور وہاں سے ہٹتے نہیں ہیں ، فرشتے ایسے لوگوں کے ہمنشین ہوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ غائب ہوجائیں تو فرشتے ان کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو فرشتے ان کی بیمار پُرسی کرتے ہیں اور اگر کسی کام میں لگے ہوں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں ۔ مسجد میں بیٹھنے والا اللہ کی رحمت کا منتظر ہوتا ہے ۔(مسند احمد)
مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ مسجد کو اسلامی معاشرہ کی تعمیر وترقی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے مسجد دیکھنے میں تو چھوٹی سی عمارت ہے مگر حقیقت میں یہ ایک انقلابی ادارہ ہے جو کہ مسلمانان عالم کیلئے معاشرتی ، معاشی ، فلاحی، دعوتی ، تربیتی، سیاسی سرگرمیوں کیلئے بھرپور مرکز فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میں قرآن وحدیث وسیرت کے دروس بھی دیے جاتے ہیں اور خاندانی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کیلئے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کی جاتی ہے گویا کہ مسجد کا ایک مسلم معاشرہ میں وہی مقام ومرتبہ ہے جو انسانی جسم میں دل کا ہے جب تک دل متحرک ہے تو جسم میں جان ہوتی ہے اور جب دل ڈھیلا پڑ جائے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے ۔ اگر مسجد کے اس انقلابی تصور کو اس کی صحیح روح کے ساتھ اختیار کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ اور قیادت کو دوبارہ حاصل نہ کرسکیں اس درس گاہ اول کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو ایک غیر محسوس انقلاب کے ذریعہ امت مسلمہ کے جسم میں نئی زندگی کی لہر دوڑ سکتی ہے ۔ مگر وائے ناکامی آج ہمارے ادارے اجتماعیت کو کھو رہے ہیں ہماری زندگی ’’میں ‘‘’’ میرا ‘‘’’میری‘‘ کی تثلیث کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
اجتماعیت افسانہ بن چکی ہے جوکہ اس ملت اسلامیہ کیلئے بہت بڑ ا سانحہ اور موجب الم ہے ملت اسلامیہ آج ملت واحدہ نہیں بلکہ مختلف فرقوں ، مسلکوں گروہوں اور قوموں میں تقسیم ہو گی ہے مسلمان معاشرتی لحاظ سے اونچ نیچ ذات بات اور برادری جیسے ’’بتوں ‘‘ کی فرسودہ روایات کے آگے تسلیم خم کئے
ہوئے ہے پھر انہی بنیادوں پر ایک دوسرے کو حقیر گردانتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ منفی انداز سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں نیز اسی طرح یہ علاقائیت ، لسانیت ، نسلیت ، فرقہ واریت اور صوبائیت کے چکروں میں پڑ ے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے حسد ، کینہ ، بغض اور نفرت رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ جھوٹے گھمنڈ، دھن دولت کے نشے اور اسٹیٹس کے زعم میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے ، بات کرنے ، دکھ درد معلوم کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔الغرض امت اجتماعیت سے دور ہوکر گروہوں میں بٹتی جا رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن سے ہر مسلمان پریشان ہے اور یہ خواہش رکھتا ہے کہ ان بیماریوں سے کسی طرح نجات حاصل کرے تاکہ پھر سے قرنِ اول کے عدل وانصاف اخوت ومساوات ، ہمدردی وغمخواری ، یک جہتی ویک رنگی والا معاشرہ قائم ہو، نفرتوں کدورتوں ، جھوٹی نخوتوں اور قومیتوں کے بادل چھٹ جائیں ۔ پھر وہی مبارک دور آئے جو چشم فلک نے اسلام کے قرن اول میں دیکھا تھا۔ جسے دنیا آج تک یاد کرتی ہے ، اپنے لئے مشعلِ راہ گردانتی ہے اور سنہری دور شمار کرتی ہے ۔ جس میں اپنی نجات سمجھتی ہے اور جسے امن وسلامتی کا گہوارہ تصور کرتی ہے ۔ جس کی آمد کیلئے لاکھوں ہاتھ دعائیں مانگنے کیلئے اٹھتے ہیں جسے کمزور اپنے لئے سہارا سمجھتے ہیں جسے غریب اپنے لئے عظیم نعمت خیال کرتے ہیں ۔
آئیے اس دور کو اپنے معاشرے میں لانے کیلئے پھر سے مسجد کو مرکز بنائیں اور وہی سنہرا دَور واپس لائیں جو مسجد سے شروع ہوا تھا اور مسجد سے تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے اوجھل ہو گیا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم پھر دوبارہ مسجد سے اسی طرح کا تعلق پیدا کریں ، جس طرح کا تعلق صحابہ کرام وتابعین عظام اور سلف صالحین کا تھا۔
قارئین کرا م اس طویل ترین تہمید ی کلمات کا محرک گزشتہ دنوں پیش آنے والا افسوناک واقعہ ہے ۔ جس میں چند شر پسندوں نے اللہ کی محبوب ترین جگہ کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا مسجد کی بے حرمتی تاریخ پا کستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے اس سے پہلے بھی حکومتی اہل کاروں نے مسجدوں کو ویران کرنے کے لئے ایڑ ی چوٹی کا زور لگایا تھا اک آمر نے تو لال مسجد کو حقیقتا خون مسلم سے رنگین کیامگر وہ بد بخت یہ نہ جان سکا اس کا نامہ اعما ل اس واقعہ کی وجہ سے سیا ہ تر ہو گیا ہے اور دنیا میں ہی اس کو اپنے کیے کی سزا ملنا شروع ہو گی جائے ۔حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ملک میں جاری پُرتشدد کا روائیوں کی سنجیدگی کیساتھ تحقیقات کرے اور اس میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دے ۔یہی مسجد کے تقدس کا تقاضہ اور ایک مؤمن کا حق بھی ہے ۔ دہشت گردی کی حالیہ کاروائیاں متاثر ین لال مسجد کا رد عمل بھی ہو سکتی ہیں مگر کیا یہ رد عمل خود بخود وقوع پزیر ہوا ہے یا سابقہ حکومت کی انتقامی کاروائیو ں کا نتیجہ ہے اہل حل وعقد کو غورو فکر کر کے ایسی دورس پا لیسیاں مرتب کرنی چاہییں جس میں ان کے دکھوں کا مداوا بھی ہو اور اسلام کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ بھی ۔ تفتیشی ٹیموں کوبلیک واٹر ، انڈیا اور اسرا ئیل کی سرگرمیوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہیں انہوں نے مسلمانانِ پاکستان کو مساجد سے بد ظن کرنے کے لئے تویہ کھیل نہیں کھیلا ہے ۔یادرہے کہ پاکستان میں وہی کچھ ہورہا ہے جو اغیار نے بیس سال پہلے اسلامی ملک الجزئر میں کروایا تھا کہ عوام کو فورسز کے ساتھ لڑ وایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج اور عوام دونوں کمزور ہوگئے آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی وہاں حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ۔ اور وہی اغیار پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال کر قبائلی علاقوں میں اپریشن کروا رہے ہیں تاکہ قبائل اور فوج کو آپس میں لڑ وایا جا سکے اور شہروں میں دہشت گردی بھی اسی کی چال ہے تاکہ ایک تیرسے کئی شکار کیے جا سکیں اور وہی طالبان کو پاکستان سے بدگمان کر کے مزید آگ بھڑ کانا چاہتے ہیں اور یہ آگ اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو گی جب تک اس خطہ سے دشمانانِ اسلام کا انخلا ممکن نہیں ہوجاتا۔ پاکستان کی خود مختیا ری اور اسلا می طرز حیا ت کی حفاظت کے لئے کام کرنے والے اشخاص ہی تا ریخ میں تعریف پا سکتے ہیں وگر نہ بقول شاعر : داستان تک نہ ہو گی تمہا ری داستا نوں میں
وما علینا إلا البلاغ
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تفسیر سورۂ نور

از شاہ فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر ۲

آیت کا مفہوم
یوں تو مکمل قرآن مجید ہی رب العالمین کا نازل کردہ ہے لیکن اس سورت کی ابتداء میں بطور خاص جو کہا گیا کہ ’’سُورَۃٌ أَنْزَلْنَاہَا‘‘ کہ یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اس سے اس سورت میں بیان کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ چونکہ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے لہذا اس کے احکام سے پہلو تہی کرنا بہت وبال کی بات ہے ۔ اور ا سکے احکام کے بار ے میں مزید تاکید آئندہ لفظ سے کر دی گئی کہ ’’فَرَضْنَاہَا‘‘ کہ نہ صرف ہم نے اس کو نازل کیا ہے بلکہ اس کے احکام بھی تم پر فرض قرار دے دیے ہیں تاکہ تم اس پر عمل کرو اور یہی بات اس کے بیان کردہ مسائل کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے اور اے نبی آپ ایمان والوں کے سامنے یہ اعلان کر دیجئے کہ ہم نے یہ سورت ( ثواب کیلئے )مجرد تلاوت کیلئے نازل نہیں کی بلکہ اس میں جو کھلی کھلی نشانیاں بیان کیں ہیں ان سے مقصود اس سے عبرت اور موعظہ حاصل کرنا ہے ۔ ’’أَنْزَلْنَاہَا‘‘ میں ایک اور لطیف نکتہ پوشیدہ ہے کہ لفظ نزول سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن اوپر سے اتارا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا علو بھی ثابت ہوتا ہے اور اس بات کا رد بھی ہو گا کہ یہ قرآن مجید محمد کی تالیف ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔ لفظ آیت قرآن مجید میں بعض مقامات پر علامت اور نشانی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جیسے کہ جس کو ہم آیات کونیہ بھی کہتے ہیں ۔
وَآَیَۃٌ لَہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ (یس:۳۷)
’’اور ان لوگوں کیلئے رات میں نشانی ہے جس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں ۔‘‘
اور یہ لفظ کبھی مطلقاً قرآن مجید کی آیات پر بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جس کو ہم آیات قرآنیہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ اگر اس سے مراد آیات کونیہ ہے تو اس کا مطلب توحید کے دلائل ہیں جوکہ سورۃ کی وسطی آیات میں بیان کیے گئے ہیں اور اگر اس سے مراد آیات قرآنیہ ہے اس کا مطلب وہ احکام اور مسائل ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں ۔
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللَّہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآَخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ٭ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ
لاَ یَنکِح : نکاح سے یہاں عقد مراد ہے یعنی زانی سوائے زانیہ کے عقد نہ کرے ۔
مُشرِکَۃ : وہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے جیسے مجوسی ، یہودی، نصرانی ، ہنود وغیرہ
حُرِّمَ ذَلِکَ : یعنی یہ زنا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مفاسد اور نقصانات زیادہ ہیں ۔
زانیات اور مشرکات سے نکاح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حرام قرار دے دیا ہے ۔
آیات کا مفہوم
ترجمہ:’’زنا کار عورت مرد میں سے ہر ایک کو سوکوڑ ے لگاؤ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے اگر تمیںک اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ۔ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور کسی سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام قرار دیا گیا۔‘‘
کہا گیا کہ بدکاری کی ابتدائی سزا جو عارضی طور پر بتائی گئی تھی، کہ ان بدکارعورتوں کو گھروں میں بند رکھو۔یہاں تک کہ ان کو موت نہ آجائے یا اللہ تعالیٰ ان کیلئے مستقل سزا مقرر نہ کر دے ، پھر جب سورۃ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم نے فرمایا کہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کے مطابق بدکار عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے جو اپنے مقام پر آئے گی۔
اور وہ سزا جو اللہ تعالیٰ نے بدکار عورت ومرد کیلئے مقرر کی ہے وہ سوکوڑ ے مارنا ہے اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تفصیل بھی موجود ہے ۔
اور اس سزا کو سنانے میں کسی بھی قسم کی نرمی یا شفقت کا خیال دل ودماغ میں نہ آئے کہ اس قسم کے کسی بھی خیالات سے اور تصورات سے شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں رکاوٹ پیش آتی ہے جو کہ دینِ اسلام اور اس کی حدود کا مقصد نہیں ہے اور سزا میں ترس کھانے کی ممانعت ہے ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ وہ انسانی خواں میں سے ہے ۔اور ان کی سزاکے وقت مؤمنین اور مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے اور بدقسمتی سے ان سزاؤں کو آج کل ظالمانہ اور سنگدلانہ سزائیں کہہ کر اور ان کو نام نہاد انسانی حقوق کے خلاف گردان کر ان کے خلاف آوازیں اٹھائیں جا رہی ہیں جبکہ یہ جہالت اور بغاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ انہیں محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے زنا کے بعد کے أحکام بتائے کہ بدکار مرد وعورت کا عقد صرف بدکار عورت ومرد سے ہی ہو سکتا ہے یعنی زانی مرد مشرکہ عورت سے یا زانیہ سے ہی عقد کرسکتا ہے اسی طرح دوسری کیفیت ہے ۔ زناکار اور بدکار مرد وعورت اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر اہل اسلام پر حرام قرار دیے ہیں کیونکہ اس میں بہت عظیم مفاسد اور فتنے ہیں جس سے کسی بھی آدمی کا نسب محفوظ نہیں رہ سکتا اور اس کی عزت وعصمت وعفت بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔
سبب نزول
الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ کے کئی اسباب نزول ہیں جوکہ مفسرین نے اپنی کتب میں نقل کیے ہیں ہم ان سے اہم اور اشمل نقل کر رہے ہیں ۔
روایت ہے کہ ایک آدمی جس کا نام مرثد الغنوی بتایا جاتا ہے اسلام لانے سے قبل مرثد کی ایک عورت سے آشنائی تھی جس کا نام عناق تھا مرثد کے اسلام لانے کے بعد عناق نے مرثد سے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور مرثد نے اللہ کے رسول سے اس نکاح کی اجازت طلب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن ’’ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ‘‘ کہ عبرت الفاظ کے عموم سے لی جائے گی نہ کہ سبب کے خاص سے ۔
آیت کے متعلقات / مستثنیات
اس آیت میں زانی سے مراد تمام زانی ہیں کیونکہ اس کے شروع میں أل موصولہ ہے اور ال موصولہ عموم کے صیغوں میں سے ہے لیکن اس عموم میں متعدد استثنائی کیفیات داخل ہوگئیں ہیں جو کہ خودقرآن مجید اور احادیث سے ثابت ہیں ۔
۱۔ زانیہ أمۃ یعنی لونڈی اس بارے میں سورۃ النساء کی آیت کے مطابق اس کی سزا آزاد اور حر لوگوں سے نصف ہو گی۔ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ (النساء:۲۵)
اور اگر یہ لونڈیاں بے حیائی کاکام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے ۔
یعنی ان کو پچاس کوڑ ے مارے جائیں گے اور ان کیلئے رجم کی سزا بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ رجم کی سزا کو آدھا نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔ غلام : غلام کے بارے میں بھی ائمہ کرام کی وہی رائے ہے جو لونڈی کیلئے ہے ۔
۳۔ آیت کے عموم میں شادی شدہ اور کنوارا دونوں شامل ہیں لیکن اس عموم کو شادی شدہ کو رجم کی سزا سے مخصوص کر دیا ہے یعنی شادی شدہ مرد وعورت کو رجم کی سزا ہو گی جبکہ کنواروں کیلئے وہی سزا اپنے اصل پر قائم رہے گی۔ اور شادی شدہ لوگوں کو زنا کرنے پر رجم کی سزا ثابت ہے لیکن شادی شدہ کیلئے اختلاف ہے کہ آیا اس کو صرف رجم کیا جائے گا یا کوڑ ے بھی مارے جائیں گے اور راجح یہی ہے کہ صرف رجم کیا جائے گا ۔ (حوالہ بخاری ۸/۲۱۔۲۹، مسلم ۳/۱۳۱۷۔۱۳۲۸)
اس استثناء میں حاملہ عورت بھی شامل ہے جب تک کہ ولادت نہ ہو اور بچے کیلئے دودھ پلانے والی کا بندوبست نہ ہوجائے اس طرح وہ مریض جس کو کوڑ ے مارنے سے موت کا خدشہ ہو جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائے ۔(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

ماہِ محرم الحرام کی فضیلت و اہمیت

پروفیسر حافظ محمد فاروق

روز ازل ہی کو جب زمین کا سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیار ہوئی تھی اور اس میں سورج کا روشن چراغ اور چاند کی خوشنما قندیل جلائی گئی تھی یہ بات نوشتہ الٰہی میں لکھ دی گئی کہ صبح وشام کی تبدیلیوں اور شب وروز کے الٹ پھیر سے ہفتہ اور پھر جو مہینہ وجود میں آتا ہے وہ بارہ ہیں جن میں چار مہینے بڑ ے ہی مبارک ومحترم ہیں ۔ چنانچہ خلاق عالم اپنی آخری کتاب کی سورت برأت میں یوں گویا ہوتا ہے کہ إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (التوبۃ:۳۶)
’’بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اللہ کے حکم میں بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں ۔‘‘
کسی شاعر نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے
سورۃ توبہ میں فرماتا ہے رب
سال اندر چار ہیں ماہ ادب
وہ مہینے ہیں بہت با احترام
قتل وجنگ وظلم ان میں ہے حرام
ان میں سے محرم کا مہینہ بڑ ا ہی قابل احترام ہے اس کا احترام جاہلیت کے تاریک ترین زمانے میں بھی باقی تھا ریگزار عرب کے بدو جو علم سے دور اور عقل سے بیگانہ، وحشت سے قریب اور جنگ وجدال کے رسیا ودلدادہ تھے وہ بھی ان مہینوں کے احترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، کشت وخون، لوٹ مار اور غارت گری ورہزنی سے باز رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا جاتا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا اور انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنا حرام ہے ۔
اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ تو گویا خوبیوں اور فضیلتوں کا گلدستہ ہے کہ اسی دن پیغمبر جلیل موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت آمیزقید وسلاسل سے آزاد کرایا۔
اس دن کی فضیلت کیلئے اس سے بڑ ھ کر اور کیا شہادت ہو سکتی ہے کہ رمضان کے بعد اسی دن کے روزہ کو افضلیت حاصل ہے چنانچہ ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب اور مستور ازل کے چیرہ زیر نقاب پہلا بند کشا ، پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔
’’اَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرَ المُحَرَّمِ۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’رمضان کے مہینہ کے بعد محرم کے مہینہ کا روزہ افضل ترین روزہ ہے ۔‘‘
لہذا یہ دن تو وہ دن ہے کہ اللہ کا بندہ کمال بندگی کے ساتھ اپنے رب کی محبت میں سرشار ہوکر اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہمہ تن مشغول ہوجائے انتہائی عجز ونیاز کے ساتھ اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا نذرانہ اس کے دربار عالی میں پیش کرے اور روزہ ونماز ذکر وتسبیح کے ذریعے اس کی خوشنودی ورضا مندی کا جویا وطلبگار ہو۔ رسول ا کرم نے حج کے خطبہ میں فرمایا۔
زمانہ گھوم کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں تین تو پے درپے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ (بخاری ومسلم)
اسلام سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کرتے تھے ۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تب عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی جس کا دل چاہے رکھے جی نہ چاہے تو نہ رکھے ۔
جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہودیوں کو محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ تم اس روزکیوں روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں ۔ اس لئے نبی ا کرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)
لیکن یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئے آپ نے فرمایا کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا۔ ‘‘
مگر آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جاملے لیکن یہ حکم باقی رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا لہذا محرم کی نویں دسویں یا دسویں گیارہویں یعنی دو دن کا روزہ رکھنا چاہیے ۔رسول ا کرم نے فرمایا: ’’صوموا یوم عاشوراء وخالفوا فیہ الیہود صوصوا قبلہ یوما أو بعدہ یوماً ۔ (أحمد)
’’عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک دن اور روزہ رکھو چاہے ایک دن پہلے ہو یا ایک دن بعد کا۔‘‘
ماہ محرم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد سرور کائنات کے واقعہ ہجرت پر ہے لیکن اس کا تقرر اور آغاز استعمال ۱۷ ہجری میں عہد فاروقی سے ہوا۔ یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے احکامات آتے تھے جن پر تاریخ کا اندراج نہیں ہوتا تھا چنانچہ ۱۷ ہجری میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر خسر مصطفیٰ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ طے یہ پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوی کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔
مسلمانوں کا سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔ دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یا تو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں ۔ نسل انسانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جیسا کہ سن عیسوی کی ابتداء سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہے ۔ یہودی سن حضرت سلیمان علیہ السلام کی فلسطین پر تخت نشینی کے ایک پر شکوہ واقعہ سے وابستہ ہے روی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے ۔ بکرمی سن راجہ بکر ماجیت کی پیدائش کی یاد دلاتا ہے ۔
لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوی کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان پر اعلائے کلمہ الحق کے بدلے میں مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑ یں ۔ سب لوگ دشمن ہوجائیں ، اعزہ واقربا بھی اس کو ختم کرنے پر تل جائیں اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا عزم کر لیں ، اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اس کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟
اسلام یہ نہیں کہتا کہ کفر وباطل سے مصالحت کر لی جائے یا حق کی تبلیغ میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقیدے اور نظرئیے میں نرمی پیدا کر کے ان کے اندر گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور کم ہو جائے ۔ نہیں ، بلکہ اسلام ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے ہجرت کا حکم دیتا ہے ۔
اسی واقعہ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد ہے جو نہ تو کسی انسانی فوقیت وبرتری کو یاد دلاتی ہے اور نہ ہی کسی پر شکوہ واقعہ کو ... بلکہ مظلومی وبے بسی کی ایسی یادگار ہے جو ثابت قدمی ، عزم واستقلال ، صبر واستقامت اور رضائے الٰہی پر راضی ہونے کی زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔
یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم ، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح وہ خارستان میں گئے ، بیابان اور جنگل میں گئے اپنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی ، صرصر کو دیکھاو سموم کو دیکھا، لو اور دھوپ کو دیکھا ، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا ، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکہا اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بام عروج پر پہنچ گئے ۔لیکن سوائے ناکامی آج ہم نے ہجرت کے حقیقی درس کو فراموش کر دیا اور خودساختہ بدعات وخرافات سے نئے سال کی ابتداء کرتے ہیں ۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس ماہ محرم الحرام کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سانحہ تو رسول ا کرم کی وفات سے پچاس برس بعد پیش آیا۔ اور دین رسول کی حیات طیبہ میں مکمل ہو گیا تھا اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعی حیثیت ہوتی تو خسر مصطفی ، مراد مصطفی اور شہید محراب سیدنا عمر فاروق کی شہادت اور سیدنا عثمان کامل الحیاء والایمان کی مظلوم شہادت اس لائق تھیں کہ مسلمان ان کی یادگار مناتے اور اگر ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تو اسلامی تاریخ میں یہ شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے کم ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فضائل صحابہ رضی اللہ عنہ

از سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ

صحا بہ کرا م کے سینوں پر انوار رسالت براہ راست پڑ ے تھے انہوں نے اپنا گھر بار اپنا مال و منال اپنا سب کچھ نبی محترم کی خاطر لٹا دیا ۔
سیدناصدیق اکبر ص کو دیکھئے ابھی اسلام کا آغاز تھا ۔ مکے کی بستی کافروں سے بھری ہوئی تھی حضرت ابو بکر ص ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے سرشار تھے ۔ آپ ا۔سے التجا کی کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں لوگون کو علانیہ آپ ا کی رسالت کی اطلاع دوں اور آپ سے فیضیاب ہونے کی دعوت دوں آپ نے فرمایا اے ابوبکر ص ! ذرا صبر سے کام لو ابھی ہم تعداد میں کم ہیں حضرت ابو بکرصپر غلبہ حال طاری تھا انہوں نے پھر اصرار کیا حتیٰ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اجازت دے دی حضرت ابو بکر نے بے خوف و خطر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی ۔ البدایہ والنہایہ میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔
فَکَانَ اَوَّلُ خَطِیبٍ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَالِیَ رَسُولِہ ۔
(حضورا کی بعثت کے بعد حضرت ابو بکر ص پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ا کی طرف بلایا۔)
مشرکین مکہ آپ ص پر ٹوٹ پڑ ے آپ کو سخت پیٹا اور روندا ، عتبہ بن ربیعہ نے آپ صکے چہرے پر بے تحاشا تھپڑ مارے ۔ آپ ص قبیلہ بنو تمیم سے تھے آپ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑ ے ہوئے آئے مشرکین سے انہیں چھڑ ا کر ان کے گھر چھوڑ آئے حضرت ابو بکرصبے ہوش تھے اور لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے وہ دن بھر بے ہوش رہے جب شام ہوئی تو آپ کو ہوش آیا آپ کے والد ابو قحافہ اور آپ کے قبیلے کے لوگ آپ کے پاس کھڑ ے تھے ہوش آتے ہی پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ رسول اللہا کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں انکے قبیلے کے لوگ سخت برہم ہوئے اور انہیں ملامت کی کہ جس کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی اٹھانی پڑ ی اور یہ مار پیٹ تمہیں برداشت کرنی پڑ ی ہوش میں آتے ہی تم پھر اسی کا حال پوچھتے ہو ان اندھوں کو کیا خبر تھی کہ ان کی خاطر سختیاں جھیلنے میں جو لذت ہے وہ دنیا داروں کو پھولوں کی سیج پر اور بستر سنجاب پر بھی حاصل نہیں ہوتی ہے ۔
اے جفا ہائے تو خوشتر زوفائے دیگراں
ان کے قبیلے کے لوگ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور ان کی ماں ام الخیر سے کہہ گئے کہ جب تک محمد( ) کی محبت سے یہ باز نہ آجائے اس کا بائیکاٹ کرو اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دو ماں کی مامتا تھی جی بھر آیا کھانا لا کر سامنے رکھ دیا اور کہا کہ دن بھرکے بھوکے ہو کچھ کھا لو ، سیدنا ابو بکر صدیق ص نے کہا: ماں ! اللہ کی قسم میں کھانا نہیں چکھوں گا اور پانی کا گھونٹ تک نہ پیوں گا جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نہ کر لوں ۔
حضرت عمرص کی بہن ام جمیل آ گئیں اور بتایا کہ حضورا بخیریت ہیں اور دار ارقم میں تشریف فرما ہیں ۔ سیدنا ابو بکرص زخموں سے چور تھے چلنے کے قابل نہ تھے اپنی ماں کے سہارے سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے حضور ان پر جھک پڑ ے اور انہیں چوما حضور اپر سخت گریہ طاری تھا۔ آپ انے دیکھا کہ صدیق اکبرص حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں اپنے جسم اور اپنی جان کی سب کلفتیں بھول گئے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کو ترستے تھے آپ نے مرض الموت میں جب پردہ اٹھا کر دیکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز کی حالت میں دیکھ کر مسکرائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت انس ص فرماتے ہیں : ہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکھڑ ے سے زیادہ حسین منظر نہیں دیکھا ہے ۔ کچھ محبانِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے بھی تھے جن کو اپنی آنکھیں محض اس لیے عزیز تھیں کہ ان سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہو تی ہے ۔
نازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است
ایک صحابی کی آنکھیں جاتی رہی لوگ عیادت کو آئے تو کہنے لگے یہ آنکھیں تو مجھے اس لیے عزیز تھیں ان سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوتی تھی جب وہی نہ رہے تو اب ان آنکھوں کے جانے کا غم کیا ہے ۔
کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے جنہوں نے روز روز کا جھگڑ ا ہی چکا دیا تھا ۔ زندگی کا سب کاروبار چھوڑ کر آپ ا کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے تھے ۔
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی آپ ا کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا آپ کے گھر کا سب کام کا ج حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کیا کرتے تھے دنیا کے سب دھندوں کو خیر آباد کہ چکے تھے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ ا سفر کے لیے تشریف لے جاتے آپ ا کے ساتھ ہو لیتے ، آپ کو جوتیاں پہناتے آپ اکی جوتیاں اتارتے سفر میں آپ کو بچھونا، مسواک، جوتا اور وضو کا پانی ان کے ہی پاس ہوتا تھا ۔ اسی لیے آپ کو صحابہ کرام سواد رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے تھے یعنی حضورا کے میر ساماں تھے ۔
سیدناربیعہ ص اسلمی سارا دن آپ ہی کی خدمت میں رہتے تھے جب آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کرکاشانہ نبوت میں تشریف لے جاتے تو آپ باہر دروازے پر بیٹھے رہتے کہ شاید آپ کو کوئی کام پڑ جائے اور میرے بھاگ جاگ اٹھیں اور حضور ا کی خدمت کی سعادت نصیب ہوجائے ۔ ایک دن حضور انے ربیعہ ص سے فرمایا: ربیعہ تم شادی کیوں نہیں کرتے ۔ کہنے لگے ، شادی کی تو یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ! آپ کا آستانہ مجھ سے چھوٹ جائے گا ، مگر حضور نے بار بار اصرار سے کہا اور وہ مجبور ہو گئے ۔
سیدناعقبہ بن عامر ص آپ کے مسلسل خدمت گزار تھے آپ سفر پر جاتے تو پید ل آپ کے ساتھ چلتے اور آپ کی اونٹنی ہانکتے تھے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ حضور اقدس کی خدمت کے لیے بچپن ہی میں وقف کر گئی تھیں ۔ حضرت ابو ہریرہ ص بھی بارگاہِ رسالت میں ہمیشہ حاضر رہتے ۔
محبت و شیفتگی کی یہی کیفیت تھی جس کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول ا کی خاطر سخت سے سخت مصیبت جھیلتے رہے وہ صرف مصیبت جھیلتے ہی نہ تھے بلکہ ان مصیبتوں میں ایک لذت اور سرور حاصل کرتے تھے محبت کا یہ جذ بہ ان میں ایسی سرشاری پیدا کرتا تھاکہ جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت انہیں محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ۔صحابہ رضی اللہ عنہم میں بڑ ی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کی عمر اتنی نہ ہوئی کہ وہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کے عروج و اقبال کا زمانہ بھی دیکھتے اور عدی صبن حاتم کی طرح کہہ سکتے ۔ کنت فی من فتح کنوز کسری۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسریٰ کے خزانوں کو کھول تاہم جب دنیا سے گئے تو اس عالم میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش و خوشحالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑ ی ہو۔
بدر واحد کے شہیدوں کا حال پڑ ھو۔ ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ دن رات کی کاوشوں اور مصیبتوں کے سوا کیا تھا۔ ؟ وہ اسلام کی فتح یابیوں اور کامرانیوں سے پہلے ہی دشمنوں کی تیغ و سناں سے چور میدان جنگ میں دم توڑ رہے تھے مگر دیکھو کہ پھر بھی ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا۔
جنگ احد میں سیدناسعدبن ربیع رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے دیکھا کہ زخمیوں میں پڑ ے دم توڑ رہے ہیں ۔ پوچھا : کوئی وصیت اگر کرنی چاہتے ہو تو کر دو۔ کہا ، اللہ کے رسول اکو میر اسلام پہنچا دینا اور میری قوم سے کہہ دینا کہ راہ خدا میں اپنی جانیں نثار کرتے رہیں ۔ عمارہ صبن زیاد زخموں سے چور جانکنی کی حالت میں تھے کہ خود حضورا سرہانے پہنچ گئے اور عمارہ صکے بھاگ جاگ اٹھے ۔ فرمایا: عمارہ کوئی آرزو ہو تو کہو ، عمارہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر آپ کے قدموں کے قریب کر دیا اور درد بھر ی آواز میں بولے میری یہ آرزو ہے کہ جان نکلتے وقت آپ ا کے چہرے پر میری نظریں جمی ہوئی ہوں اور میری نظروں میں آپ کے سوا کچھ نہ ہو عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہو جانے کی خبر سنائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں یہ تو ہوا ، مگر بتلاو اللہ کے رسول کا کیا حال ہے ۔
مسند امام احمد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اصحاب رسول کی اقتداء کرے ۔ اس لیے کہ ان کے دل ساری امت سے زیادہ نیک اور پاک تھے ان کے علم میں سب سے زیادہ گہرائی تھی ۔ وہ سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ وہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر تھے ۔ ان کے حالا ت سب سے بہتر تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی صحبت کے لیے چن لیا تھا، پس تم ان کی قدر و منزلت کو پہنچانواور ان کے نقش قدم پر چلو اس لیے کہ سیدھی راہ پر گامزن یہی لوگ تھے ۔
صحابہ کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سید الاولین والآخرین کی صحبت کے لیے چن لیا تھا اور جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور حضور ا خود ان کا روحانی تزکیہ کریں ، اور خود کتاب و حکمت کی انہیں تعلیم دیں ۔ ان کی شان میں گستاخی سراسر موجب حرمان ہے ۔ ان کے بارے میں دل میں بغض رکھنا سراسر باعث خسراں ہے ، آخر میں اختصار کے ساتھ عرض یہ ہے کہ صحابہ کرام ثکا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
1۔ اس لیے کہ آفتاب نبوت کی شعاعیں براہ راست ان کے سینوں پر پڑ ی تھیں اور اس سعادت عظمے ٰ میں کوئی طبقہ امت ان کا سہیم و شریک نہیں ہے ۔
2۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خاطر اپنا مال اپنا گھر بار اپنی جانیں ، اپنی اولاد سب کچھ نچھاور کر دیا۔
3۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور امت کے درمیان صحابہ کرام ہی وہ واسطہ اور رابطہ ہیں جن کے ذریعے اطراف عالم میں کتاب و سنت کی تمام تعلیمات کا ابلاغ ہو اگر ان کی ثقاہت بے داغ نہ ہوتی تو دین کی حفاظت کا کوئی امکان نہ تھا۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

کرب و بلا کے صحیح واقعات

ترجمہ و ترتیب از مولانا محمد عطاءاللہ حنیف رحمہ اللہ

ہر سال محرم جب بھی آتا ہے غالباً خاص سیاسی مقاصد کیلئے واقعاتِ کربلا کی رونے رُلانے والی بہت سی ایسی کہانیوں سے جلسوں تقریروں اور محافل کا رنگ جمایا جاتا ہے ۔ اوراقِ تاریخ پر جن کا ثبوت سخت مخدوش اور مشکوک ہے کیونکہ جس راوی کے ذریعے ہماری تاریخ میں یہ رواج پا گئی ہیں ۔ وہ ایک داستان گوابو مخنف لوط بن یحییٰ (متوفی ۱۷۵ھ) تھاجو ایک کٹر قسم کا دروغ گوغالی شیعہ بتایا جاتا ہے جیسا کہ رجالِ حدیث اور بعض تاریخ کی کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے ۔
(میزان الاعتدال ص:۱۹، ج:۴طبع جدید ، لسان المیزان ، نیز دیکھئے الاصابہ ص:۱۷، ج:۲، والبدایہ والنہایہ ص:۲۰۲، ج:۸ وغیرہ )
اولاً تو اس موسم میں اس حادثے کا تذکرہ کوئی مفید نہیں ۔ ثانیاً اگر ناگزیر ہوتو اتنا ہی کافی ہے جتنا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت ابو جعفر محمد باقررحمہ اللہ جو حضرت زین العابدین علی بن حسین کے فرزندِ ارجمند اور اثناعشری شیعہ حضرات کے ایک ’’امام معصوم‘‘ ہیں کی زبانی تہذیب التہذیب آٹھویں صدی ہجری کے محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تالیف میں مذکور ہے ۔اگرچہ حضرت باقررحمہ اللہ خود اس حادثے کے وقت موجود نہ تھے ۔ مگر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے والد محترم سے سنا ہو گا جو اول سے آخر تک اس میں موجود رہے اور تمام صورتِ حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
بڑ ی خصوصیت اس روایت کی یہ ہے کہ بہت حد تک جذباتی رنگ آمیزی سے پاک اور مؤرخا نہ طرزِ بیان کی حامل ہے پھر یہ کہ ایسے شخص(جو خود اس کا راوی بھی ہے ) کے اس سوال کے جواب میں ہے جو اہلِ بیت کی پارٹی کا ہے ۔ آپ مجھ سے واقعہ کربلا کو اس انداز سے بیان فرمائیے گویا کہ میں خود وہاں موجود ہوں ۔
بنا بریں یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت موصوف نے کوئی ضروری بات چھوڑ دی ہو یا عقیدت کیش راوی نے اس میں کتر بیونت کی ہو غالباً یہی بات ہے کہ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اس روایت کا انتخاب کیا گیا اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے اس حادثہ کے خدوخال نمایاں طور پر واضح ہوجاتے ہیں ۔
روایت حضرت ابو جعفر باقررحمہ اللہ
روایت کے راوی عمار دہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسین سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعہ قتلِ حسین رضی اللہ عنہ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہورہا ہے اس پر حضرت محمد باقررحمہ اللہ نے فرمایا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی ) مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ ولید نے حسب دستور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجاتاکہ ان سے نئے امیر یزید کیلئے بیعت لیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ سرِدست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں ولید نے ان کو مہلت دے دی ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مہلت پا کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ۔
دریں اثنا جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرت تو مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے اپنے قاصد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم اب آپ ہی کے ہوگئے ہیں ۔ ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں ۔ ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑ ھنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ اس وقت نعمان بن بشیر انصاری صیزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے جب اہلِ کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ علیہ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہ کوفہ جائیں اور وہاں جا کر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں اگر اہلِ کوفہ کے بیانات صحیح ہوں تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے ۔
حضرت مسلم رحمہ اللہ کی کوفہ کو روانگی
قرار داد کے مطابق حضرت مسلم رحمہ اللہ مکہ مکرمہ سے پہلے مدینہ منورہ پہنچے وہاں راستہ کی راہنمائی کیلئے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفے کی طرف روانہ ہوگئے جس راستے سے وہ لے گئے اس میں ایک ایسا لق ودق میدان آ گیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے دو چار ہوگئے چنانچہ اسی جگہ ایک راہنما انتقال کرگیا۔ اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح نے معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں ۔ بنابریں حضرت مسلم رحمہ اللہ کوفہ کی طرف چل دیے ۔ وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا۔ جب اہل کوفہ میں حضرت مسلم رحمہ اللہ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں پہنچے اور ان کے ہاتھ پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کیلئے بیعت کرنے لگے چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کر لی۔دریں اثناء یزید کے ایک کارندے عبد اللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کاروائی کی اطلاع جناب نعمان بن بشیرص گورنر کوفہ کودے دی اور ساتھ ہی کہا یا تو آپ واقعۃً کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے ۔دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورت حال مخدوش ہورہی ہے ؟ اس پر حضرت نعمان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعتِ الٰہی ہو وہ مجھے اس قوت وطاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے ۔ خواہ مخواہ اس پردے کو فاش کروں اس پرعبد اللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کر بھیج دیا۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی کے اس بارے میں مشورہ لیا اس نے کہا اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے ، یزید نے کہا ضرور سرحون نے کہا تو پھر مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کر دیں ۔ ادھر صورتحال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبید اللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اس کو معزول کرنا چاہتا تھا مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفے کی گورنری پر بھی عبید اللہ بن زیاد کو نامزد کر دیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اس کو قتل کر دو۔
ابنِ زیاد کوفے میں اور افشائے راز
اس حکم کی بنا پر عبید اللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اس پر سلام کہتا اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللہ (اے رسول اللہ کے بیٹے آپ پر بھی سلام) سے جواب دیتے اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا تم جا کر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفے والوں سے بیعت لیتا ہے لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کیلئے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہوگئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنے آنے کی اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہورہا ہے کہ ہماری سکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلم رحمہ اللہ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلادیا۔ادھر حضرت مسلم رحمہ اللہ عبید اللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش ہوئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ بارہ (۱۲) ہزار کی تعداد میں ہماری لوگوں نے بیعت کر لی ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیں ۔
اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبید اللہ کو پتہ چل گیا کہ مسلم رحمہ اللہ ہانی کے مکان پر ہیں ، تو اس نے کوفے کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے ؟ اس پر حاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعث چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے ۔ اشعث نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں لہذا آپ کو چلنا چاہیے چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہولیے اور وہ عبید اللہ کے پاس پہنچے اور اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیادہ کے پاس موجود تھے ۔ ان سے مخاطب ہوکر اس نے کہا دیکھو ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا ہانی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں اس پر عبید اللہ نے تین ہزار روپے والے غلام کو اس کے سامنے کر دیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہوگئے البتہ اتنا کہا میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں وہ خودبخود میرے گھر آ کر ٹھہر گئے ہیں ۔ ابن زیاد نے کہا اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس پر پس وپیش کیا تو ابن زیاد نے اپنے قریب بلوا کر اس کے زور سے چھڑ ی ماری جس سے ان کی بھویں پھٹ گئیں اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبید اللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر اب تمہارا خون حلال ہے ۔ قصرِ امارت کے ایک حصے میں اس کوقید میں ڈال دیا۔
اس واقعے کی اطلاع ہانی کے قبیلے مذحج کو ہوئی تو انہوں نے قصرِ امارت پر یلغار بول دی ۔ عبید اللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑ انے کیلئے چڑ ھ آیا ہے اس نے قاضی شریح کے ذریعے ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے ۔ خطرے کی کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا یہ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ۔
حضرت مسلم رحمہ اللہ کو جب ہنگامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کرادیا۔ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے جس کو انہوں نے باقاعدہ ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم رحمہ اللہ اس کے قلب میں ہوگئے اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصرِ امارت کی طرف روانہ ہو گیا۔ عبید اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اعیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے اپنے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا اب تو مسلم رحمہ اللہ کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی اوجھل ہوگئے ۔ جب مسلم رحمہ اللہ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑ ے راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی تو آپ نے اس کو پانی پلانے کیلئے کہا تو اس نے پانی تو پلادیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑ ی دیر کے بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا اے اللہ کے بندے ! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے یہاں سے چلے جائیں ۔ آپ نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا ہاں آجائیے آپ اندر چلے گئے ۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کا لڑ کا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ مسلم بن عقیل ہیں تو اس نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبید اللہ تک خبر پہنچائی جس نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی اور ان کو مسلم رحمہ اللہ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جبکہ مسلم کو خبر تک نہ ہو سکی تھی۔ اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس سے مقابلہ کی ٹھان لی۔ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کرکہا کہ میں ذمہ دارہوں آپ محفوظ رہیں گے ۔ پس وہ مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے ۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصرِ امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم رحمہ اللہ کو قتل کر دیا گیا۔ (إنا للہ وإنا إلیہ راجعون)
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑ ے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کوفہ
ادھر مسلم رحمہ اللہ چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جلد از جلد تشریف لے آئیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاآنکہ آپ قادسیہ سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُربن یزید تمیمی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کو ملا اس نے کہا کہاں تشریف لے جا رہے ہو آپ نے فرمایا کوفہ اس نے کہا وہاں توکسی خیر کی توقع نہیں ۔ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہوجانا چاہیے پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری رُو داد آپ کو سنائی۔
سارا قصہ سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کر لیا لیکن مسلم رحمہ اللہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ ہم مسلم رحمہ اللہ کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مارے جائیں گے اس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر میں جی کرکیا کروں گا۔ اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے جب آپ کو ابنِ زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ’’کربلا‘‘ کا رخ کر لیا اور وہاں جا کر ایسی جگہ پڑ اؤ ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی چنانچہ خیمے نصب کر لیے ۔ اس وقت آپ کے ساتھ پنتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے ۔
دریں اثنا عبید اللہ نے عمر بن سعد کو جو کوفے کا گورنر تھا بلایا اور اس سے کہا اس شخص حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے میں میری مدد کریں اس نے کہا مجھے تو معاف ہی رکھیے ۔ ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمربن سعد نے کہا پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے ۔اس نے کہا ٹھیک ہے ، سوچ لو۔ ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد صبح کو آمادگی کی اطلاع دے دی۔
اب عمر بن سعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرا ہوا۔ حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظورکر لو یا تو مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو یا مجھے موقع دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں اور یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں ۔
ابنِ سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیج دی۔ اس نے لکھا ہمیں یہ منظور نہیں ۔ بس ایک ہی بات ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ (یزید کیلئے ) میری بیعت کریں ۔ ابن سعد نے یہی بات سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا، اس پر آپس میں لڑ ائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہوگئے جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے ۔ اسی اثنا میں ایک تیر آیا جو حضرت کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا آپ رضی اللہ عنہ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے ۔ اے اللہ ہمارے اور ایسے لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے پھر اب ہمیں قتل کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑ تے لڑ تے شہید ہوگئے ۔رضی اللہ عنہ اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی متعلقہ تاریخوں میں مذکور ہیں ۔
مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امارت پر چڑ ھائی کر دی یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کر کے ابنِ زیاد کے پاس لے گیا اس نے اس شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا جہاں جا کر یزید کے سامنے رکھ دیا گیا ادھر ابن سعد بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لیکر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا اور ان کا صرف ایک لڑ کا بچارہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ تھے اور روایت کے راوی ابو جعفر الباقر کے والد تھے یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمارتھے ابن زیاد نے حکم دیا اس بچے کو بھی قتل کر دیا جائے اس پر ان کی پھوپھی زینب بنت علی اس کے اوپر گرپڑ یں اور فرمایا کہ جب تک میں قتل نہ ہو جاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعدہ اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔
جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بچے کھچے یہ افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسبِ دستور یزید کو تہنیتِ فتح پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑ کی کی طرف اشارہ کر کے کہا امیر المؤمنین ! یہ مجھے دے دیجئے ۔ یہ سن کر حضرت زینب بنت علی نے کہا بخدا ! یہ نہیں ہو سکتا۔ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اسے ڈانٹ دیا۔ اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا پھر ان کو تیار کراکے مدینہ روانہ کروادیا۔ جب یہ لوگ مدینے پہنچے تو خاندان عبد المطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ان سے ملنے آئی اور اس
کی زبان پر یہ اشعار تھے ۔

ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وأنتم آخر الأمم
بعترتی وبأہلی بعد مفتقدی
منہم أُساریٰ وقتلی ضرجوا بدم
ماکان ہذا جزائی إذا نصحت لکم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی

جناب ابو جعفر باقررحمہ اللہ کا بیان ختم ہو گیا ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ ص/۱۷، ج/۲۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس روایت کے بعد لکھتے ہیں ۔ وقد صنّف جماعۃ من القدماء فی مقتل الحسین تصانیف فیہا الغث والسمین والصحیح والسقیم وفی ہذہ القصۃ التی سقتہا غنی
یعنی چند تاریخ نویسوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بار ے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں رطب ویابس، غلط صحیح سب کچھ بھر دیا گیا ہے لیکن جس قدریہ قصہ میں نے ذکر کیا ہے یہی کافی ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ

از عبدالرشید عراقی
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کا شمار برصغیر (پاک وہند) کی جماعت اہلحدیث کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناگوں صفات سے متصف فرمایا تھا وہ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے اور محدث بھی وہ مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی ، مورخ بھی تھے اور محقق بھی ، خطیب بھی تھے اور مقرر بھی، معلم بھی تھے اور متکلم بھی دانشور بھی تھے اور ادیب بھی، مبصر بھی تھے اور نقاد بھی ، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی مناظر بھی تھے اور مبلغ بھی۔
ایک وقت تھا جب برصغیر میں اہلحدیث جماعت کا کوئی جلسہ ہوتا تھا تو اس میں تین علمائے کرام ضرور شرکت کرتے تھے اور ان کی شرکت اس لئے ضروری سمجھی جاتی تھی کہ وہ ملت اسلامیہ کے ایسے نامور علماء تھے کہ باطل فرقوں کے علماء ان کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرتے تھے ان کی یلغار اور للکار سے ان کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان تین علمائے کرام کے علم وفضل کا ڈنکا چار سو عالم میں بجتا تھا اور پورے برصغیر کی فضا پر چھائے ہوئے تھے اوروہ یہ تھے ۔
۱۔شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ
۲۔فاضل اجل مولانا ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ
۳۔امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ
مولانا ابراہیم میر۱۲۹۱ھ؁ بمطابق ۱۸۷۴ء؁ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے مولانا سیالکوٹی نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن سیالکوٹی المتوفی( ۱۳۳۶ھ؁ ) سے حاصل کی اس کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی المتوفی (۱۳۳۴ھ؁) اور شیخ الکل حضرت میاں سید محمد نذیر صاحب محدث دہلوی المتوفی (۱۳۲۰ھ؁)سے کی ۔ ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۶ء؁ میں آپ نے تعلیم سے فراغت پائی اس کے بعد واپس اپنے وطن سیالکوٹ تشریف لائے ۔ اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جب دہلی کے شیخ عبد الرحمان اور شیخ عطاء الرحمان (دونوں بھائیوں ) نے دار الحدیث رحمانیہ کے نام سے دہلی میں ایک دینی درسگاہ قائم کی تو اُن کے اولین مدرسین میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ بھی شامل تھے ۔
علم وفضل کے اعتبار سے مولانا سیالکوٹی ایک متبحر عالم دین تھے ۔ تفسیر قرآن میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔
’’قرآن مجید کے لطائف ومعارف سمجھنے میں جتنی یہ تفسیر مفید ہے اور کوئی تفسیر نہیں اور میں نے اس تفسیر سے بہت کچھ حاصل کیا ہے ۔‘‘
حدیث نبوی سے بھی بہت زیادہ شغف تھا آپ کی ساری زندگی حدیث کی نشر واشاعت اور اس کی حمایت ومدافعت اور نصرت میں بسر ہوئی حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔
قادیانیت کی تردید میں بھی آپ کی خدمات قدرکے قابل ہیں آپ نے قادیانیوں سے بے شمار مناظرے کئے ۔ ان کے خلاف کئی ایک کتابیں لکھیں ۔ قادیانیت کی تردید میں آپ کی کتاب ’’شہادۃ القرآن‘‘ ایک لاجواب کتاب ہے جو آیت ’’إنی متوفیک ورافعک إلیّ‘‘ کی ایسی بے مثال تفسیر اور حیات عیسیٰ ں پر ایسی گواہی ہے کہ حضرت مسیح ں کو مردہ بتانے والے بھی ’’کَذَلِکَ یُحْیِی اللَّہُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آَیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ۔‘‘ پکار اٹھے ۔
اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم ایک کریم النفس اور شریف انسان تھے بہت زیادہ خوددار ، حق گو اور کھرے آدمی تھے ۔
مؤرخ اسلام واہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ :’’ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم، منقول ومعقول کے ماہر ۔ بہت بڑ ے مناظر، کثیر التصانیف مصنف، دین کے بارے میں نہایت غیور، عزت نفس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی جری ، بارعب اور صاحب جلال بزرگ تھے ۔ اللہ نے ان کو دین اور دنیا دونوں سے نوازا تھا۔ جس بات کو غلط سمجھتے اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے غلطی پر ٹوکنا، برائی سے روکنا اور صحیح راہ کی تلقین کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔ اس ضمن میں وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے کوئی مانے یا نہ مانے وہ ہر حال میں کلمہِ حق بلند کرتے تھے ۔‘‘
سیاسی اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم میر مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور آپ نے ۱۹۳۸ء؁ میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مارچ ۱۹۴۰ء؁ کے اجلاس مسلم لیگ لا ہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔جب جمیعۃ علماء ہند نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور دو قومی نظریہ کی بجائے متحدہ قومیت کا نعرہ لگایا تو مولانا محمد ابراہیم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے ساتھ مل کر جمیعۃ علماء اسلام کے نام سے ایک جماعت بنائی۔ اس کا سیاسی اجلاس اکتوبر ۱۹۴۵ء؁ میں کلکتہ میں ہوا اس کی صدارت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے کی تھی۔ مولانا شبیراحمد عثمانی علالت کی وجہ سے شریک اجلاس نہ ہو سکے ۔ اس اجلاس میں قیام پاکستان کے حامی علماء نے شرکت کی تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے ’’تمدن ومعاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا ۔ پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : ’’ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے ’’تمدن ومعاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ دیا۔ جس میں کتاب وسنت کی روشنی میں آزاد وخود مختار مملکت کے قیام کیلئے پاکستان کو اسلامیان ہند کی سیاسی، اقتصادی ، معاشرتی، دینی اور ملی ضرورت قرار دیا۔مولانا نے اپنے خطبہ میں ہندوذہنیت کاپوسٹ مارٹم کیا اور کانگریسی وزارتوں کے قیام کے بعد ہندوازم کے قیام اور مسلمانوں پر مظالم کی تصویر کشی کرتے ہوئے گاندھی کے کردار کو بے نقاب کیا۔ یہ خطبہ کلکتہ کے ’’عصر جدید‘‘ کی اشاعت نومبر ۱۹۴۵ء؁میں شائع ہوا جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر پنجاب مسلم فیڈریشن جو مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم تھی نے کتابی صورت میں شائع کر کے وسیع پیمانے پر تقسیم کیا۔
مولانا ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ جو ممتاز اہلحدیث عالم، مناظراور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے خاص دوستوں میں سے تھے ۔ سیاسی اعتبار سے کانگرس سے وابستہ تھے ۔ اور متحدہ قومیت کے حامی تھے انہوں نے متحدہ قومیت کی تائید اور قیام پاکستان کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا۔ مولانا سیالکوٹی نے فوراً اس مضمون کا جواب دیا جو روزنامہ احسان لا ہور کی دسمبر ۱۹۴۵ء؁ میں شائع ہوا۔ مولانا سیالکوٹی نے مولانا بنارسی کے اعتراضات کا جامع جواب دیا۔ اور قیام پاکستان کے خلاف اعتراضات کو غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ وغیر عادلانہ قرار دیا۔ اور ثابت کیا کہ اہل اسلام کی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے تحریک پاکستان کی حمایت میں کئی ایک مضامین’’پیغام ہدایت اور تائید پاکستان ومسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے لکھے جو روزنامہ نوائے وقت لا ہور میں شائع ہوئے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا شمار کثیر التصانیف علماء میں ہوتا ہے آپ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور ہر موضوع کا حق ادا کیا۔
آپ نے تفسیر قرآن ، سیرۃ النبوی ، تاریخ، تائید احادیث، تردید عیسائیت وقادیانیت، اور منکرین حدیث تردید شیعیت اور مقلدین احناف اور سیاست پر کتابیں لکھیں ۔
آپ کی چھوٹی بڑ ی تصانیف کی تعداد ایک سو کے قریب ہے ۔
ان کے علم وفضل اور تبحر علمی کے بارے میں مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کثیر المطالعہ عالم تھے ۔ تفسیر وحدیث ، فقہ واصول ، تاریخ وتذکرہ، فلسفہ ومنطق اور تقابل ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کادائرہ بہت وسیع تھا۔ اسلام اور احکام اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑ ی شہرت تھی۔ عیسائیوں ، آریوں اور قادیانیوں کے ساتھ انہوں نے متعدد مناظرے کئے اور کامیاب رہے بعض مسائل میں علمائے احناف سے بھی ان کے مباحثے ہوئے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۶ء؁ (۲۶ جمادی الاولی۱۳۷۵ھ؁ ) سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔
مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑ ی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑ ھائی ۔ راقم کو آپ کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے ۔ اللہم اغفر ہ وارحمہ وأدخلہ فی جنات الفردوس۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

سیّد احمد شہیداور ان کی تحریک کا اندازِ فکر

از محمد تنزیل صدیقی

سیّد احمد شہید رائے بریلوی کو فقہی مسلک کے اعتبارسے حنفی ثابت کرنے والے ان کے ایک مکتوبِ گرامی کا بطورِ خاص حوالہ دیتے ہیں ، جس کے درج ذیل الفاظ ان حضرات کے نزدیک سیّداحمد شہیدرحمہ اللہ علیہ کی ’پکی‘اور’ ’خالص‘‘حنفیت کی بہت بڑ ی دلیل ہے :’’میرے اور میرے باپ دادا کا مذہب حنفی ہے اور آج کل بھی میرے تمام اقوال و افعال احناف کے قوانین و اصول اور آئین و قواعد کے مطابق ہیں اور میرا کوئی ایک قول و فعل بھی احناف کے اصول سے خارج نہیں ہے ۔‘‘
یہ مکتوب گرامی کس پسِ منظر میں لکھا گیا ، اس کا مقصدِ تحریر کیا تھا اس سے ان حضرات نے کامل اعراض کیا۔یہ مکتوبِ گرامی علمائے پشاور کی اس بدظنی کے جواب میں لکھا گیا تھا جو انہیں مجاہدین سے متعلق ہوگئیں تھیں کہ یہ مجاہدین لامذہب ، نفسانی خواہشات کے پیرو اور سرحد میں قیام حکومت کے خواہشمند ہیں ۔ان غلط فہمیوں کی وجہ سے تحریکِ جہاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔ چنانچہ سیّد صاحب کا اصل زور تحریکِ جہاد اور مجاہدین سے متعلق بدظنی کا خاتمہ تھا ۔ان کا مذکورہ خط بہت طویل ہے جسے ملاحظہ کرنے سے سیّد صاحب کا مقصدِ تحریر واضح ہوتا ہے ۔ سیّد صاحب نے اپنے مکتوبِ گرامی میں مذکورہ عبارت کے بعد اجتہاد اور تقلید سے متعلق جو وضاحت کی ہے وہ درحقیقت اصحاب الحدیث کے دفاع ہی کی کوشش ہے جسے اس وقت کے حالات کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے ۔یہاں صرف متعلقہ حصے کو مکمل نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس سے سیّد صاحب کا مقصدِ تحریر واضح ہو سکے گا۔و ھو ھذا: ’’ان مفتریوں کے جملہ افترا میں سے یہ بھی ہے کہ اس فقیر بلکہ تمام مجاہدین کو ملحد و زندیق طبقہ سے نسبت دیتے ہیں ۔ یعنی ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسافروں کی جماعت کوئی مذہب نہیں رکھتی اور کسی طریقے پرکاربند نہیں بلکہ محض نقسبات پرست ہیں اور ہر طرح مزے اڑ انے جانتے ہیں خواہ موافق کتاب ہو خواہ مخالف۔ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ پس جاننا چاہیے کہ ہم لوگوں کی نسبت اس امرِ شنیع سے محض قبیح افترا ہے اور صریح بہتان ہے ۔ یہ فقیر اور اس کا خاندان بلادِ ہندوستان میں گمنام نہیں ۔ ہزاروں افرادِ خاص و عام اس فقیر اور اس کے اسلاف کو جانتے ہیں کہ باپ دادوں سے اس فقیر کا مذہب حنفی ہے اور بالفعل کل قول و فعل اس حنیف کے قوانین اور اصولِ حنفیہ اور ان کے قواعد و آئین کے مطابق ہیں ۔ ایک بات بھی اصول سے خارج نہیں ( الّا ما شاء اللہ ) اور سبھی آدمیوں سے بھول اور غفلت ہوجاتی ہے جو اپنی خطاء کا اقرار کرتے ہیں اور آگاہی کے بعد توبہ کرتے ہیں ۔ البتہ ہرمذہب کے محققوں کا طریقہ علیحدہ ہوتا ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کا علیحدہ طریق۔ بعض راویوں پر بعض کو ترجیع دی جاتی ہے البتہ دلیل کی طاقت سے اور بعض منقول عبارتوں کی توجیہ سلف کے مطابق اور مختلف مسائل کی تطبیق کتابوں کی بنا پر اور اسی طرح کے مسائل ہمیشہ اہلِ تحقیق کاکام ہے ، اس لیے وہ مذہب سے خارج نہیں ہو سکتے بلکہ ان کو اہلِ مذہب کا خلاصہ سمجھنا چاہیے اور اس بارے میں جو شُبہ رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اس فقیر کے پاس آ کر بالمشافہ اپنی مشکلات حل کرے یا خود سمجھے یا اس فقیر کو سمجھا دے ۔ تحریکِ مجاہدین
۸۲۸۱۶سیّد صاحب کے ملفوظات کے مجموعے ’’صراطِ مستقیم‘‘پر ان حضراتِ گرامی کی نظریں قصداً نہیں جاتی ہیں ۔فکرِ سیّداحمد شہیدرحمہ اللہ علیہؒ کا ایک ورق ملاحظہ ہو:’’اعمال میں ان چاروں مذہب کی متابعت جو تمام اہل اسلام میں مروج ہیں بہت عمدہ ہے لیکن پیغمبر خدا کے علم کو ایک شخص کے علم میں منحصر نہ جاننا چاہیئے بلکہ آپ کا علم تمام جہاں میں پھیلا ہوا ہے اور مقتضائے وقت کے موافق ہر کسی کو پہنچاہے اور جس وقت سے یہ کتابیں تصنیف ہوکر ان علموں ] علوم[کی جمعیت ظاہر ہوگئی ہے پس جس مسئلہ میں کہ صحیح صریح غیر منسوخ حدیث مل جائے اس میں کسی مجتہد کی متابعت نہ کرے اور اہل حدیث کو اپنا پیشوا جان کر دل سے ان کی محبت کرے اور ان کی تعظیم کو اپنے ذمے لازم سمجھے کیونکہ وہ بزرگوار پیغمبر خدا کے علم کے اٹھانے والے ہیں اور ایک طرح سے آپ کی مصاحبت حاصل کر کے آپ کے مقبول ہوگئے ہیں اور مقلد لوگ تو مجتہدوں کی تعظیم اور توقیر سے پورے واقف ہیں وہ اس بات کی آگاہی کے محتاج نہیں ۔‘‘]صراطِ مستقیم:[
۱۲۶خانوادئہ سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ کے ایک رکن اور دیارِ ہند کے مایۂ ناز مؤرخ مولانا حکیم عبد الحئی حسنی کی شہادت بھی ملاحظہ فرمایے :
’’ و شدّ المئزر بنصرۃ السنۃ المحضۃ و الطریقۃ السلفیۃ ، و احتج ببراھین و مقدمات و أمور لم یسبق الیھا ۔‘‘]نزہۃ الخواطر :/[
۳۴۷ترجمہ:’’ آپ نے سنتِ نبویہ اور طریقۂ سلفیہ کی تائید میں کمر کسی تھی اور اس پر ایسے براہین و مقدمات اور امور سے استدلال کرتے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔‘‘
سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ برصغیر پاک وہند کی سب سے بڑ ی تحریکِ اسلامی کے بانی تھے ، جس کے اثرات ہمارے معاشرے میں آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔چنانچہ اس حوالے سے ایک اہم اصولی کلیے کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا عبد الحلیم چشتی لکھتے ہیں :’’جن لوگوں نے اسلامی تحریکوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا اور ان کے عروج و زوال کے اسباب پر غور کیا ہے ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ عجم کی سرزمین پر کوئی اسلامی تحریک بھی تصوف اور مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مسلک کی پابندی کے بغیر کبھی پروان نہیں چڑ ھ سکی۔‘‘]ماہنامہ ’’الرحیم ‘‘(حیدر آباد):اگست ۱۹۶۵ء[
مولانا موصوف کے زبانِ قلم کو ’’غرورِ عجم‘‘پر جو ناز ہے وہ شاید کسی حد وپیمانے میں درست ہو۔لیکن ان کی نگۂ نازِ تحقیق نے اس امر پر توجہ نہیں دی کہ دنیائے اسلام میں غلبۂ دین کی جس قدر تحریکیں اٹھیں اور جنہیں واقعتا معاشرتی اصلاح وانقلاب کے اعتبار سے کامیاب بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ان سبھوں میں ’’ توحیدِ خالص‘‘کو بنیادی حیثیت اور ’’سلفیت/غیر مقلدیّت‘‘کی گہری آمیزش ضرور رہی ہے ۔برسہابرس کے معاشرتی روّیوں کی مخالفت کرنا اور سماج کی روشِ عام سے انحراف ، یہ کسی مقلدّانہ ذہنیت سے ممکن ہی نہیں ۔چنانچہ امرِ واقعہ یہی ہے کہ اسلام میں جب جب تجدیدی تحریکیں برپا ہوئیں تو ان میں فطری اور قدرتی طور پر ’’غیرمقلدیّت‘‘کا نمایاں حصہ رہا۔مولاناسیّد مناظر احسن گیلانی جو اہلِ حدیث کو ’’فتنۂ حادثہ‘‘(۱) سمجھتے ہیں ۔اسلام میں تجدیدی فکر و انقلاب کے اضطرابی روّیوں کی نشاندہی ان الفاظ میں فرماتے ہیں :’’دنیا کے عام مذاہب میں یہ حادثہ جو پیش آیا یعنی مذہب کی بنیادی کتابوں سے دور ہوتے ہوئے آخر میں ایسی کتابوں پر ان کا دارو مدار رہ گیا۔جن کی حیثیت بنیادی کتابوں کے مقابل چنداں قابل لحاظ نہ تھی مثالاًہندوستان ہی میں دیکھئے ویدک دھرم کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ویدہے ، ویدسے کچھ علمی نتائج و کلیات نکالے گئے کہ جو اپنشداکے نام سے مشہور ہوئے ویدسے زیادہ اہمیت اپنشدوں کو حاصل ہوگئی ۔پھر شاستروں کا دور آیا اور اپنشدوں سے بھی توجہ ہٹ گئی ، شاستروں کے بعد پرانوں کا دور شروع ہوا اور ان ہی پرانوں میں ویدک دھرم کے ماننے والے مختلف فرقے ڈوب گئے ، آخر زمانہ میں تو صورت حال یہ ہوگئی کہ سنسکرت زبان کی دو رزمیہ نظمیں رامائن اور مہابھارت، یہی لوگوں کا اوڑ ھنا بچھونا بن گئیں ۔وہ تو خیر یورپ میں سنسکرت زبان اور ہندوستانی علوم وفنون کے مطالعہ کا ذوق جب سے بیدار ہوا ہے تو ایک ’’نئی نشاء ت‘‘کا ویدک دھر م میں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دنوں سے آغاز ہوا ہے اور وید ، اپنشدا، شاستر کا ذکر اور تھوڑ ا بہت مطالعہ کا رواج ہندوستان میں شروع ہوا ہے ۔تفصیل کا تو موقعہ نہیں ہے مختصر یہ ہے کہ اسلام میں بھی زیادہ دنوں کے بعد نہیں بلکہ دوسری صدی ہجری کا درمیانی عہد تھا، اس زمانہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جوانی کے زمانہ میں بغداد پہنچ کر دیکھا کہ جامع بغداد میں چالیس درس کے حلقے قائم ہیں جس حلقہ میں بھی پہنچے ان ہی کا بیان ہے کہ استاذوں اور شاگردوں کی زبانوں پر نہ قال اللہ تھا اور نہ قال الرسول یعنی کوئی نہ قرآن ہی کا حوالہ دیتا تھا اور نہ رسول اللہ کی کوئی حدیث پیش کرتا تھا۔بلکہ جوبھی تھا صرف اپنے استادوں کے اجتہادی نتائج ہی کا ذکر کر رہا تھا اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انجام اس طریقہ کار کا آخر میں کیا ہونے والا ہے اس پر امام شافعی کی توجہ مبذول ہوئی اس کے بعد پورے عزم اور پختہ ارادہ کے ساتھ وہ کھڑ ے ہوگئے ، فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے میں مسلمانوں کو اپنے دین کے بنیادی سرچشموں (قرآن و حدیث)سے بچھڑ نے اور دور ہونے نہ دوں گا، اسی مہم کے سر کرنے میں اپنی ساری عمر امام شافعی رحمہ اللہ نے صرف فرمادی ، ان کے زمانہ تک قرآن وحدیث سے جو کچھ اجتہادی نتائج نکالے گئے ۔ سب ہی کی بے دردی کے ساتھ امام نے تنقید کی، اس باب میں اپنے استاذِ اعظم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی بھی پروا نہ کی ، جس کی داستان طویل ہے ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ قائم کی ہوئی سنت وقفہ وقفہ سے مسلمانوں میں زندہ ہوتی رہی۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں جیسے مذہبی کاروبار کرنے والی اور دینی را ہوں سے آمدنی پیدا کرنے والی کوئی خاص نسل اس لیے پیدا نہ ہو سکی کہ شروع ہی میں اس کا انسداد کر دیا گیا تھا، رسول اللہ کی اولاد ہی کے متعلق اس کا خطرہ ہو سکتا تھا لیکن آنحضرت نے خیر وخیرات ، دان پن، بھکشا، وغیرہ آمدنیوں کو اپنی اولاد اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے خاندانوں میں پیدا ہونے والوں پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا تھا، اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی تاریخ میں مذہبی طبقہ کو ’’کلیسا‘‘ جیسی کوئی چیز پیدا کرنے کا موقعہ اگر نہ ملا تو میرا خیال ہے کہ اس میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے طریقۂ عمل کو دخل ہے ، دوسری صدی ہجری ہی سے امام شافعی کے بعد احتجاجی ذہنیت رکھنے والے لوگ وقتاً فوقتاً مسلمانوں میں اٹھتے رہے اور مذہبی طبقہ سے مطالبہ کرتے رہے کہ مسلمانوں میں جس دین کو تم لوگ پھیلا رہے ہو ، اسلام کی بنیادی کتابیں قرآن و حدیث کے تعلیمی معیار پر اس کو جانچ کر دکھاؤایک رواج تھا جس کی بنیاد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں ڈال دی ، حسبِ ضرورت رواج زندہ ہوتا رہا۔‘‘]ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی):اگست ۱۹۵۸ء[
پھر ارضِ ہند میں ’’اہلِ حدیثیت‘‘کی جو تحریکِ انقلاب برپا ہوئی اس کے اثرات و نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اس کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ اپنے دین کے اساسی سرچشموں (قرآن و حدیث) کی طرف توجہ ہندوستان کے حنفی مسلمانوں کی جو پلٹی اس میں اہلِ حدیث اور غیر مقلدیّت کی اس تحریک کو بھی دخل ہے ۔عمومیت غیر مقلد تو نہیں ہوئی ، لیکن تقلیدِ جامد اور کورانہ اعتماد کا طلسم ضرور ٹوٹا۔‘‘]ماہنامہ ’’برہان‘‘(دہلی):اگست ۱۹۵۸ء[
اب ہمارے اصولِ فکر پر تاریخ کی تائید بھی ملاحظہ فرمائیے ۔ساتویں صدی ہجری میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی سلفی تحریک ’’غیر مقلدیّت‘‘یا اگر کہنا چاہیں تو ’’فتنۂ عدمِ تقلید‘‘کہہ لیجئے ، کا پُرزور اظہار تھا۔ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، نجد میں شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ علیہ ، افریقہ میں امام محمد بن علی السنوسی اور یمن میں امام محمدبن علی الشوکانی رحمہ اللہ علیہم یہ سب ائمہ تجدید جس علمی ، فکری وعملی تحریک کے ساعی رہے ، اس میں ’’مقلدیت‘‘سے کہیں زیادہ’’غیر مقلدیت‘‘کی اثر پذیری رہی گو ظاہر مقال اس کا کچھ ہی ہو، لیکن ایک حقیقت ہے جو اپنی جگہ برقرار ہے ۔اورکیا بنگال کی فرائضی تحریک اور سماٹرا کی تحریک اسلامی کی تہہ میں ’’غیر مقلدیت‘‘کی آمیزش نہ تھی؟۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی شروحاتِ موطاء میں ۱۶۹ مسائل میں اپنے رجحان فکر کا اظہار کیا ہے ۔چنانچہ ان ۱۶۹ مسائل میں سے انہوں نے صرف ۲۱ مسائل میں امام ابو حنیفہ سے موافقت کی ہے (۱)۔کیا ’’پکی‘‘اور ’’خالص حنفیت‘‘یہی ہے ؟اور اگر یہی ہے تو ہماری دعا ہے کہ دنیائے اسلام میں ایسی حنفیت عام ہوجائے ۔مولانا حکیم محمود احمد برکاتی شاہ ولی اللہ کے مسلک سے متعلق فرماتے ہیں :’’ان کے نقطۂ نظر میں جو انقلاب آیا تھا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ’’خالص حنفی‘‘نہیں رہے تھے ۔حجاز سے مراجعت کے بعد ان کی زیادہ توجہ فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں تطبیق و توافق پر صرف ہوتی رہی اور نتیجۃً ان کا رجحان فقہ شافعی کی طرف زیادہ ہو گیا تھا اور ان کی علمی اور قلمی کاوشوں کے نتیجہ میں برعظیم میں عدم تقلید کے رجحان کو فروغ ہوا اور اس علاقہ میں عدم تقلید کی جو تحریک برپا ہوئی وہ ان کی فکر کا تقاضا تھی اور یہاں کے اہلِ حدیث کی اکثریت ان ہی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ تلامذہ پر مشتمل تھی اور اہلِ حدیث حضرات شاہ صاحب کو بھی اہلِ حدیث ہی شمار کرتے ہیں ۔‘‘ ]حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی:[
۴۱افریقہ کی سنوسی تحریک کے بانی امام محمد بن علی السنوسی رحمہ اللہ علیہ سے متعلق حافظ عباد اللہ فاروقی لکھتے ہیں :’’شیخ سنوسی کی تعلیم اور تبلیغ کے اصول خالص اسلامی تھے وہ قرآن وحدیث کے براہِ راست مطالعہ پر زور دیتے تھے ۔نیز اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام]نے [ جس سیدھے اور صاف انداز میں اسلام پیش کیا اور شروع زمانہ کے مسلمانوں نے جس طرح اس کو سمجھا اور اس پر عمل کیا وہی طریقِ کار امت کو اختیار کرنا چاہیئے ۔وہ آزادی کو اسلام کی بنیادی تعلیم قرار دیتے تھے اسی وجہ سے فکری اور سیاسی آزادی کے علمبردار تھے ۔فکری آزادی سے ان کی یہ مراد تھی کہ مسلمان کا ذہن آزاد رہ کر خدا اور رسول کے احکام کی پیروی کرے ۔اس کے بعد کسی مذہبی پیشوا یا بزرگ کی تقلید اس پر فرض نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ گو شیخ سنوسی اپنے آپ کو مالکی فقہ کے پیرو کہتے تھے لیکن اس کی پیروی وہ سختی اور باقاعدگی کے ساتھ نہ کرتے تھے ۔علاوہ ازیں وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے مفسروں کی رائے کو ضروری نہ بتاتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے علم حدیث کافی ہے ۔جب تک لوگ علماء کی تقلید میں مقید رہیں گے ان کے ذہن پر قرآن کی حقیقت روشن نہ ہو سکے گی۔اس طرح وہ ابتدائی دور کے اسلام کو عقائد اور عمل کا نمونہ قرار دیتے تھے اور اپنے رفقاء کو اسی نمونہ پر چلنے کی تبلیغ کرتے تھے ۔‘‘
]ماہنامہ’’الرحیم‘‘(حیدر آباد):اکتوبر۱۹۶۷ء [
بنگال کی فرائضی تحریک کے بانی مولانا حاجی شریعت اللہ سے متعلق مولانا حکیم عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں :’’ الشیخ العالم شریعۃ اللّٰہ البدوی البنگالی أحد العلماء المشہورین فی رفض التقلید و العمل بالنصوص الظاہرۃ ۔‘‘]نزہۃ الخواطر : /[
۲۳۱۷ہندوستان میں سیّد احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہاد میں غالب حصہ مسلک سلف محدثین سے تعلق رکھنے والوں ہی کا تھا۔سید احمد شہید کے بعد ان کے جن خلفاء کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور باگِ تحریک جن ہاتھوں میں آئی وہ عظیم آبادپٹنہ کا ایک ’’رسوائے زمانہ وہابی‘‘خاندان ہی تھا۔جنہیں انگریزوں نے ’’جرمِ ایمانی‘‘پر تعزیر دی اور اپنوں نے ’’خلوصِ حق‘‘کی پاداش میں مورد الزام ٹھہرایا لیکن جنہوں نے ان سب سے بالاتر ہوکر ع ’’بازی اگرچہ لے نہ سکا سر تودے گیا ‘‘کی مثال قائم کر دی۔
مولانا عبد الحلیم چشتی نے سیّد احمد شہیدؒکی حنفیت کے لیے سید صاحب کے جن دو خلفاء ]مولانا کرامت علی اور مولوی عبد الحکیم[ کا بیان نقل فرمایا ہے وہ مسلکاً حنفی تھے ۔
اول الذکر مولانا کرامت علی وہی بزرگ ہیں جنہوں نے فاجعۂ بالاکوٹ کے بعد اپنی راہ مجاہدین سے الگ کر لی تھی اور انگریزی حکومت کی حمایت میں ارض ہند کو دارالسلام قرار دیا تھا۔مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں : ’’مجاہدین اور اتباع سید احمد شہید کے سب سے بڑ ے واقف کار مسٹر جیمس اوکنلیJames Okinleyنے شہادت دی ہے کہ مولوی کرامت علی صاحب برطانوی حکومت کے مؤید اور وہابیوں کے پکے مخالف تھے ۔ Persistant Oppaonant of Wahabis یہ تصدیق نامہ راج محل (بہار ) میں ۳۱ ، اکتوبر ۱۸۷۰ء کو دیا گیا تھا ۔ جسے خود ان کے پوتوں نے فخریہ ۱۹۱۴ء کو طبع کرایا تھا ۔ ( وہ خوبصورت اور نظر فریب پمفلٹ راقم کی نظر سے گزر چکا ہے ) اس میں ان کے صاحبزادے مشہور ادیب مولوی عبدالاول صاحب جون پوری اور حافظ احمد صاحب کی وفاداری کی بھی تصدیق ہے ۔ ان کے علاوہ راقم بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عقایدوا عمال میں وہ سید صاحب کے اصحاب خاص کی روش سے بالکل الگ تھے ۔‘‘ ]ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ( حا شیہ ): ۴۵ [
ثانی الذکر مولانا عبد الحکیم کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ۔
مولانا کرامت علی کا ایک بیان جسے مولانا چشتی نے نقل فرمایا ہے ، وہ تحریک کی تاریخ میں ایک عجائب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ملاحظہ فرمایے : ’’مرشدِ برحق آپ مقلد تھے اور تقلید کے خلاف جو کوئی شخص کرتا تو اپنے قافلہ سے نکلوادیتے اور جو تعلیم پذیر ہوتا تو حضرت مرشدِ برحق اس کو نصیحت کر کے راہ پر لاتے اور یہ بات تمام ہندوستان اور بنگالے میں مشہور ہے ۔‘‘]ماہنامہ ’’الرحیم ‘‘ (حیدر آباد) :اگست ۱۹۶۵ء[
اللہ رے سخن فہمی!
میرے دل کا خون کریں گی میرے خوں کا ہو گا پانی
یہ نوازشیں بظاہر ، یہ عنائتیں زبانی
سید احمد شہید نے تصوف کے عام مروجہ سلسلوں کے برعکس ’’طریقہ محمدیہ‘‘کے نشر وشیوع میں دلچسپی لی جس کا مقصد مبتدعانہ تصوف کی تردید اور اتباع سنت کی تشہیر تھا۔درحقیقت ’’طریقہ محمدیہ‘‘ان کے مجتہدانہ دل ودماغ ہی کی ایک سعی تھی۔ سیّد احمد شہید کو عام معنوں میں مقلّدِ محض اور کٹّر حنفی بآور کرانا واقعات پر ظلم کے مترادف ہے ۔ھذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

از محمد طیب معاذ
بعد از نمازِ عصر
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول مکرم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے چنانچہ نمازِ عصر سے فراغت کے بعد آپ اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ایک ایک کا حال معلوم فرماتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت میں شہد پیش کرتی ۔ آپ شہد کو رغبت سے نوش فرماتے تھے ۔ (مختصر از صحیح البخاری، حدیث نمبر :۵۲۶۸)
شہد ایک بیش قیمت عطیہ خداوندی ہے قدیم وجدید طب میں اس کی اہمیت وافادیت ایک مسلمہ امر ہے آئیے ذرا شہد کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں جانتے ہیں ۔

قرآن اور شہد
رب تعالیٰ کا فرمان ہے یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاء ٌ لِلنَّاسِ النحل :۶۹
’’ ان (مکھیوں ) کے پیٹ سے ایک مشروب نکلتا ہے جوکئی رنگوں والا ہونے کیساتھ ساتھ لوگوں کیلئے شفا کے عناصر سے لبریز ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں کہ کائنات کی بڑ ی بڑ ی چیزیں اپنے جمال وجلال اور نفع رسان کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں لیکن عام طور پر چھوٹی چیزوں کو حقیر سمجھ کر لائق التفات خیال نہیں کیا جاتا اور پھر مکھی جیسی چھوٹی سی چیز کیلئے کسے فرصت ہے کہ اس میں سوچ وبچار کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری حکمت اور قدرت کے جلوے صرف پہاڑ وں ، سمندروں ، مویشیوں اور بلند وبالا درختوں میں ہی نظر نہیں آتے بلکہ ایک چھوٹی سی شہد کی مکھی بھی میری حکمتوں کی تجلی گاہ ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ اہل جنت کیلئے نعمت خداوندی( شہد) کا تذکرہ کیا اور فرمایا وَاَنہَارٌ مِّن عَسَلٍ مُّصَفَّی (محمد :۱۵)
’’(آخرت میں اہل جنت کیلئے ) پاکیزہ شہد کی نہریں ضیافت کیلئے (تیار کی گئی) ہیں ۔‘‘
شہد کی مکھی کو رسول اللہا نے مارنے سے منع کیا ہے ۔ (ابو داؤد ، کتاب السلام باب فی قتل الزراع )
قرآن مجید میں شہد کی مکھی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔
رسول معظم نے ارشاد فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں ہے سینگی کے نشتر میں ، شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغنے میں اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں ۔ (صحیح البخاری ، الطب ، باب الشفا فی ثلاث ، حدیث نمبر :۵۶۸۱)
اسی طرح صحیح بخاری میں ہی سیدنا ابو سعید الخدری ص سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ میرے بھائی کو اسہال(دست ، پیچس) ہو گیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا ’’اسقِہِ عَسَلاً‘‘ اسے شہد پلاؤ اس نے اسے شہد دیا لیکن اس کا مرض بڑ ھ گیا وہ گھبرا کر واپس رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حقیقت حال بیان کی تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’ صَدَقَ اللّٰہُ وَکَذَبَ بَطنُ أَخِیکَ اِسقِہِ عَسَلاً ‘‘(اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے جاؤ ! اسے شہد پلاؤ) اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا اور وہ تندرست ہو گیا۔
محدثین نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ اسے اسہال کی بیماری تھی اب اگر اسے کوئی مُمسِک چیز دی جاتی تو اس کی جان کو خطرہ تھا جبکہ شہد مُسہل ہوتا ہے اور مواد فاسدہ کو پیٹ سے خارج کرتا ہے ۔ دو تین دفعہ شہد کھانے سے اس کا پیٹ فاسد مادے سے صاف ہو گیا تو وہ شفا یاب ہو گیا ۔
حکیم محمد ا کرم صاحب فرماتے ہیں کہ شہد
۱۔ طاقت کیلئے قیمتی سے قیمتی ٹانک
۲۔ پیٹ کیلئے چورن اور امرت دھار
۳۔ کم خون کیلئے شربت فولاد
۴۔ امراض دل اور حرارت خون کیلئے کیپسول
۵۔ حسن اور چہرے کی خوبصورتی کیلئے میکس فیکٹر پوڈر اور سنو کریم ہے ۔مزید فرماتے ہیں طوالت عمر کا راز محنت، دودھ، شہد اور روغن زیتون میں ہے ۔
شہد کے استعمال کرنے کے چند مخصوص طریقے
۱۔ صبح سویرے نہارمنہ اور عصر کے وقت موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس میں پاکیزہ شہد حسبِ منشا حل کر کے پی لیں ۔
۲۔ ناشتہ میں ڈبل روٹی پر مکھن اور شہد لگا کر کھائیں ۔
۳۔ ہر دستر خوان پر بطور سویٹ ڈش پیش کیا جائے ۔
۴۔ رات کو سوتے وقت گرم دودھ میں چینی کی بجائے شہد استعمال کریں ۔
۵۔ گرمیوں میں لیموں ڈال کر شربت بنایا جاتا ہے ۔
۶۔ وید اور حکیم معجونوں اور جوارشوں میں استعمال کرتے ہیں ۔
۷۔ شہد ، دودھ اور پھلوں کا رس ملانے سے بہترین مرکب تیار ہوتا ہے ۔
۸۔ شہد کو شفا اور بارش کے پانی کو بارانِ رحمت اور مبارک پانی سے موسوم کیا گیا ہے دونوں کو ملا کر پینا کتنا اچھا ہو گا؟
۹۔آبِ زمزم اور شہد ملا کر پینا کئی امراض میں مفید ہے ۔
۱۰۔ رات کو سوتے وقت ایک دو قطرے سلائی سے لگا کر آنکھوں میں لگائیں ۔ آنکھوں کی صفائی اور نظر کو تیز کرتا ہے اور آنکھوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔(ملخصاً پاکیزہ شہد پاکیزہ زندگی ملک بشیر احمد)
شہد کے فوائد
مصنف شہیر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی تصنیف لطیف الطب النبوی میں رقمطراز ہیں ۔
شہد میں بہت سے فوائد ہیں یہ لیکوریا میں مفید ہے اور انتڑ یوں میں سے میل کوکاٹ دیتا ہے ۔ بوڑ ھوں اور بلغمی مزاج لوگوں کو فائدہ دیتا ہے اور جس کا مزاج سردتر ہوتو اس کے لئے معتدل اور ملین ہے ۔معجونوں کی قوت قائم رکھنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور جب اس میں دواؤں کی آمیزش کی جاتی ہے تو یہ ان کی مکروہ کیفیات کو زائل کر دیتا ہے ، جگر اور سینے کو صاف کرتا ہے ۔ پیشاب آور اور بلغم کے سبب ہونے والی کھانسی سے فائدہ دیتا ہے ۔ اور جب اسے عرقِ گلاب کے ساتھ گرم پیا جائے تو موذی جانوروں کے کاٹے اور افیون خوری میں نفع دیتا ہے اور اگر اسے سادہ پانی میں ملا کر پیا جائے تو کتے کے کاٹے اور زہر خورانی میں فائدہ بخش ہے ۔ اس میں تازہ گوشت رکھ دیا جائے تو تین ماہ تک اس کی تازگی برقرار رہتی ہے ۔ اس طرح اس میں تربوز، ککڑ ی ، کدو، باذنجان ، بیگن وغیرہ رکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، یہ چھ ماہ تک عام پھلوں کو بھی خراب ہونے سے بچالیتا ہے اور مردے کے جسم کی حفاظت کرتا ہے ۔ اسے حافظ امین کانام دیا جاتا ہے ۔ اور جب اسے بدن اور بالوں پر لگایا جائے تو جوؤں کو مارتا اور بالوں کو لمبا کرتا ہے اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جائے تو آنکھوں کے سامنے سے اندھیرے کو دور کرتا ہے اور مسوڑ ھوں اور دانتوں کو قوی کرتا ہے ۔ اور ان کے حفظِ صحت کا ضامن ہے ۔ رگوں کو کشادہ کرتا ہے اور حیض جاری کرتا ہے ۔ اس کا چاٹنا بلغم کو مفید ہے اور معدے کی ردی کیفیات کو زائل کرتا ہے اور اسے گرم کر کے اعتدال پر لاتا ہے اور سدے کھولتا ہے ۔ جگر ، گردے اور مثانہ پر بھی اس کے یہی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔( طب نبوی مترجم حکیم عزیز الرحمن الاعظمی بتصرف یسیر)
نمازِ مغرب
نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں سنت ادا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ’’بعض الناس ‘‘ اس عظیم سنت اور عمل کو بدعت کہتے ہیں ۔ آئیے ذرا صحیح احادیث اور اقوالِ علماء کی روشنی میں ان دو رکعتوں کی مشروعیت ومسنونیت کو ثابت کرتے ہیں ۔
حدثنی یزید بن أبی حبیب قال سمعت مرثد بن عبد اللہ الیزنی قال أتیت عقبۃ بن عامر الجہنی فقلت الا اعجبک عن أبی تمیم یرکع رکعتین قبل صلاۃ المغرب فقال عقبۃ انا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہ قلت فما یمنعک الآن قال الشغل ۔ (بخاری شریف ۱/۱۵۸)
یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبد اللہ سے سنا کہ انہوں نے کہا میں سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے کہا کہ آپ کو ابو تمیم پر تعجب نہیں ہوتا وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑ ھتا ہے تو سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے رسول کے زمانہ میں ایسا کیا کرتے تھے ۔ میں نے کہا اب آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا :’’مصروفیت‘‘۔
عن عبد اللہ المزنی عن النبی قال صلوا قبل صلاۃ المغرب قال فی الثالثۃ لمن شاء کراہیۃ أن یتخذہا الناس سنۃ ۔ (بخاری شریف ص:۱/۱۵۸، ابن خزیمہ ص:۲/۲۶۷)
حضرت عبد اللہ المزنی ص نبی ا کرم ا سے روایت کرتے ہیں آپ انے فرمایا نماز مغرب سے پہلے نماز پڑ ھو آپ ا نے تیسری مرتبہ کہا جو ان دو رکعت کو پڑ ھنا چاہے اس خوف سے کہ لوگ اس کو سنت موکدہ نہ سمجھ لیں ۔
عن عبد اللہ بن بریدۃ عن عبد اللہ بن مغفل المزنی قال قال رسول الہ بین کل اذانین صلاۃ قالہا ثلاثا قال فی الثالثۃ لمن شاء۔ (مسلم شریف ص:۱/۲۷۸)
عبد اللہ بن بریدہ عبد اللہ بن مغفل المزنی صسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:ہردو اذانوں (مراداذالن واقامت ہے )کے درمیان نماز ہے آپ ا نے تیسری مرتبہ فرمایا جو یہ نماز پڑ ھنا چاہے ۔
ان أبا خیر حدثہ ان ابا تمیم الجیشانی قام یرکع رکعتین قبل المغرب فقلت لِعقبۃ بن عامر انظر إلی ہذہ الصلوات یصلی فالتفت إلیہ فراہ فقال ہذہ الصلوات کنا نصلیہما علی عہد رسول اللہ ۔(سنن نسائی ص:۱/۶۷)
ابو خیر نے یزید بن ابو حبیب سے بیان کیا ہے کہ ابو تمیم الجیشانی رحمہم اللہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑ ھتے تھے ۔ میں نے سیدنا عقبہ بن عامرص کو کہا کہ دیکھئے یہ کونسی نماز پڑ ھتا ہے پس اس نے کہا ہم اللہ کے رسول کے زمانہ میں دو رکعت قبل المغرب پڑ ھا کرتے تھے ۔
مذکورہ بالا حدیث کے تحت التعلیقات السلفیہ میں یوں درج ہے ۔ والظاہران الرکعتین قبل صلوات المغرب جائز تان بل مندوبان ولم أری للمانعین جواباً شافیاً ۔ (۱/۱۷) یعنی نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کرنا جائز ہے اور مندوب ہے ان رکعت کے منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہے ۔
انس بن مالک یقول إن کان المؤذن لیؤذن علی عہد رسول اللہ فیری أنہا الإقامۃ من کثرۃ من یقوم فیصلی رکعتین قبل المغرب ۔ (سنن ابن ماجہ ص۱:۱۹۱) علامہ ناصر الدین البانی نے مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
سیدنا انس بن مالک صسے مروی ہے کہ جب رسول مکرم کے زمانہ مبارک میں مؤذن اذان کہتا تو یہ گمان کیا جاتا کہ شاید یہ اقامت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہتمام کے ساتھ نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑ ھتے تھے ۔
عن أنس قال کنا نصلی علی عہد رسول اللہ رکعتین بعد غروب الشمس وکان رسول اللہ یرانا فلم یأمرنا ولم ینہنا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۳۶ بحوالہ سبل السلام )
سیدنا انس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کے زمانہ میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعات پڑ ھا کرتے تھے ۔ آپ ہمیں پڑ ھتے ہوئے دیکھتے تو تھے لیکن نہ تو ہمیں حکم دیتے اور نہ ہی اس نماز سے منع فرماتے ۔
اصحاب رسول : وقد روی عن غیر واحد من اصحاب النبی أنہم کانوا یصلون قبل صلاۃ المغرب رکعتین بین الآذان والإقامۃ وقال أحمد ، إسحاق ان صلاہما فحسن وہذا عندہما علی الاستحباب۔ (جامع ترمذی ص:۲۶، معارف السنن ص:۲/۱۴۳)
اکثر صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ ان دو رکعات کا ادا کرنا مغرب کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے ہوتا۔ امام احمد اورامام اسحاق رحمہما اللہ اس کو حسن اور مستحب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
بذل الجہود۔ کے حاشیہ میں درج ہے کہ حکی الترمذی عن أحمد استحبابہ وفی الروض المربع مباح وفی المغنی جائز ۔یعنی امام ترمذی نے امام احمد سے اس کے مستحب ہونے کی حکایت بیان کی ہے ۔ اور روض المربع میں مباح قرار دیا گیا ہے ۔ مغنی میں ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے ۔
(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

خطبۂ حج

حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ سے قبل خطبہ حج دیتے ہوئے سماحۃ شیخ عبدالعزیز حفظہ اللہ نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا امت مسلمہ کو دہشت گردی کا سب سے بڑ ا چیلنج درپیش ہے جس سے امت کو ٹکڑ وں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے .اسلام امن کاضامن اور اس کا درس دیتا ہے اوردہشت گردی کا مخالف ہے ۔
شیخ عبدالعزیزحفظہ اللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیا اور اس میں انہوں نے امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داریوں کی جانب مسلمانوں کی توجہ دلائی.انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑ ے وسائل سے نواز رکھا ہے اور اسے ان وسائل کو اپنے بہتر انداز میں استعمال کرنا چاہئے ۔انہوں نے طاقت کے استعمال کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کو منوانے کے طرزعمل کی مذمت کی۔
انہوں نے اپنے خطبہ میں نوجوانوں کو خاص طور مخاطب کیا اورکہا کہ مغربی چینلز مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے میڈیا کواس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اسلام کا دفاع اور تحفظ کرنا چاہئے .انہوں نے کہا کہ مسلمان نوجوانوں کواغیار کی اقدار سے مرعوب ہونے کے بجائے ان سے محتاط رہیں اور وہ دین کا علم حاصل کر کے آگے بڑ ھیں .انہوں نے مسلمانوں پر تقابلی مطالعہ کے حصول پر زوردیا۔
شیخ عبدالعزیز حفظہ اللہ نے مسلمان علماء اور مفتیان کرام کو مخاطب کرتے ہوئے ان پر زوردیا کہ وہ اسلام کے تحفظ کے لئے اپنا کردارادا کریں .ان تک جو نسل درنسل علم پہنچاہے اسے وہ دوسرے لوگوں تک پہنچائیں اور دعوت دین کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیں ۔
انہوں نے مفتیان کرام کوان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ مکمل علم کے بعد فتاویٰ جاری کریں ، وہ فتوے اور اس کے تقاضوں سے آگاہ ہوں .اگر کچے پکے علم کے حامل لوگ فتوے جاری کریں گے تواس سے انتشارپھیلے گا اور لوگ بھی گمراہ ہوں گے ۔
انہوں نے ماہرین تعلیم اور مفکرین تعلیم پر زوردیا کہ وہ اپنے دین کی روشنی میں اپنے اپنے ملک کی ضروریات کے مطابق اپنا نظام تعلیم وضع کریں ۔شیخ عبدالعزیزحفظہ اللہ کا کہنا تھا کہ آج ہم ماضی کے مقابلے میں انحطاط کا شکار ہیں لیکن ہم اپنی پستی اورقعرمذلت کا شکار ہونے کے اسباب تلاش کر کے اور اپنی اصلاح کے بعد اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بہتر تجربات کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کریں اور دوسروں کو بھی بہترعلم اور ہدایت سے آگاہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں اوراس میں حقیقت ہے کہ اس وقت بہت سے تنظیمیں اور ادارے اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے بیگانہ کر دیا جائے اور انہیں راہ راست سے ہٹا دیا جائے لیکن اس صورت حال میں دشمن کی دسیسہ کاریوں کا مقابلہ کیا جائے ۔
شیخ عبدالعزیز حفظہ اللہ نے مسلمانوں پر زوردیا کہ وہ اپنے معاشرے میں اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں .اگر صالح اوردیانت دار لوگ آگے آئیں گے تو اس سے ہم آگے بڑ ھ سکیں گے ۔
انہوں نے مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر زوردیا ہے کہ اس وقت مسلم معاشروں میں نا انصافی بڑ ھ چکی ہے ، ظلم اورجبر کا دوردورہ ہے .ایسے میں حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاملات کو بہتر بنائیں اورلوگوں کو انصاف فراہم کریں ۔
انہوں نے اپنے خطبہ حج میں مسلمانوں پر خاص طور پر اپنا کردار بہتربنانے کی ضرورت پرزوردیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اس دنیا میں اپنے تمام اعمال اخلاص نیت کے ساتھ انجام دینے چاہئیں اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہونا چاہیے کیونکہ اسی سے وہ اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں گے ۔
مفتی اعظم نے اپنے خطبہ حج میں مزید کہا ہے کہ دہشتگردی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ۔ بعض طاقتیں دہشتگردی کے نام پر اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں ۔ دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتوں نے مسلمان ممالک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ مفتی اعظم نے تلقین کی کہ امت مسلمہ توحید کی طرف لوٹ آئے ۔میدان عرفات میں دنیا بھر سے آئے عازمین حج کو خطبہ دیتے ہوئے مفتی اعظم نے کہا کہ تقویٰ ہر مسلمان پر فرض ہے ۔حضور ا کرم انے انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا، سچ بولنے اور رواداری کی ہدایت کی۔مفتی اعظم نے کہا کہ تمام مخالفتوں کے باوجود اللہ نے اپنے پیغمبر اسلام کو کامیابی عطاکی۔ آج جو دین کے مخالف ہیں وہ کل بھی تھے ، لیکن آج ان مخالفین کے رنگ ڈھنگ اور اسلوب بدل گئے ہیں ۔ درپیش چیلنجز میں ایک امت میں بڑ ھتی ہوئی برائیاں ہیں ، برائیوں کو نیکی کا لبادہ اوڑ ھایا جا رہا ہے ۔مسلمانوں کو اس سے چوکنا اور چوکس رہنا چاہیے ۔ دہشت گردی بین الاقوامی سطح پر پھیل چکی ہے کچھ طاقتیں دہشتگردی کے نام پر اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں ۔دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتوں نے مسلمان ممالک کو تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے مفتی اعظم نے تلقین کی کہ اللہ کے بندوں اس پر غور کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس تباہی میں حصہ دار بن جاؤ۔بعض طاقتیں قرآن و سنت کا پیغام تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔مغربی اور لادینی تہذیب کو اسلام کا لبادہ اوڑ ھایا جا رہا ہے ۔اپنی مشکلات اور مسائل امت مسلمہ اپنے طور پر حل کرے ۔ مسلمانوں کا تحفظ مسلمان افواج کی ذمہ داری ہے ۔مفتی اعظم نے کہا کہ چیلنجز جو بھی ہوں لیکن مستقبل اسلام کاہی ہے امت میں ضعف ضرور آ گیا ہے لیکن امت مری نہیں ہے ۔ آج انسانی نظام آزمائے جا چکے ہیں دنیا نجات دہندہ کی متلاشی ہے جو صرف اور صرف اسلام ہے ۔ مفتی اعظم نے کہا کہ میڈیا کا فرض ہے کہ امت جن چیلنجز کا شکار ہے ان پر صحیح رہنمائی کرے ۔آج جو چینلز چل رہے ہیں ان پر فسق اور فجور اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا کو امت کی خدمت اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے ۔قرآن و سنت سے ملنے والے کلچر کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
روزنامہ جنگ سے ماخوذ خبر
نیک اور امین قیادت آنے سے ہی حالات بدلیں گے ، خطبۂ حج
میدان عرفات (شاہد نعیم!نمائندہ جنگ) سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے خطبۂ حج کے دوران کہا کہ اسلام کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور مسلمان خود کش دھماکوں کے خلاف متحدہو جائیں ، انہوں نے امت کے سربراہان مملکت پر زور دیا ہے کہ وہ محروم طبقات کی فکر کریں اور مظلومین کو ان کے حقوق دلانے کیلئے اقدامات کریں ، انہوں نے واضح کیا کہ نیک اور امین قیادت آنے سے ہی حالات بدلیں گے ، انہوں نے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ مسلمان نوجوانوں کو دین اور ثقافت سے دور کر رہے ہیں مسجد نمرہ سے خطبۂ حج دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طرح طرح کی بدعات اور شرک کو عام کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان توحید حقیقی سے ہٹ جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے ضعیف احادیث اور روایات کو عام اور اسلام کے حقیقی پیغام کو دھندلا کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ اللہ کے رسول اکی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے میں ہے ۔ مفتی اعظم نے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ مسلمان نوجوانوں کو ان کے دین اور ثقافت سے دور کر رہے ہیں تاکہ ہمارے نوجوان دین کی دولت سے محروم ہو جائیں ۔ اسلام امن و محبت کا دین ہے ، لہٰذا دہشت گردی کی اس وباء اور مسئلہ سے ہمیں نمٹنا ہے ۔ ہمیں اس سے کسی بھی قسم کی مصالحت نہیں کرنی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ہر امیر اور غریب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ دین کی امانت پوری کریں مگر خاص طور پر امت کے ارباب اقتدار اور اہل ثروت افراد جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ان پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نازک دور میں اپنے فرائض پہچانیں اور امت کی بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو نکالنے کیلئے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں استعمال کریں ۔
میدان عرفات میں تیس لاکھ سے زیادہ حجاج کرام خطبہ سننے کے لئے جمع تھے اور انہوں نے خطبہ حج کے بعد ظہر اور عصر کی قصرنمازیں دو، دورکعت اکٹھے اداکی جس کے بعد حجاج نے میدان عرفات میں وقوف کیا جس کے دوران وہ یکسوئی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت وریاضت میں مصروف رہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

حقوقِ نسواں اسلام کی روشنی میں

قسط نمبر۲
از محترمہ طاہرہ کوکب

مستشرقین کا اعتراف
اسلام کی اس خوبی کا اپنوں کے ساتھ غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے پروفیسر سانتی لانا لکھتے ہیں : اسلامی قانون کا نظم ماہرین قانون کی نظر میں ہر قدر وستائش کا مستحق ہے اور اس کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے بے ڈول اور وحشیانہ رسوم ورواج کے مقابلہ میں وہ بہت بلند ہے اور عربی قانون کے اہم اجزاء نے مغربی تصورات کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے ۔ جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہے ۔
جنیو ایونیورسٹی کے پروفیسر سپریل لکھتے ہیں : پوری نسل انسانی کو اسلام کے پیغمبر پر فخر کرنا چاہیے کیونکہ آپ نے انسانیت کیلئے وہ پیغام چھوڑ ا ہے جس کے اعلیٰ معیار پر انسانیت اگر دو ہزار سال میں بھی آجائے تو بڑ ی باعث مسرت کامیابی ہو گی۔
ممتاز انگریز مفکر موسیولیون راس لکھتا ہے ۔
اسلام ایک جامع کمالات دستور ہے جس کو انسانی ، فطری ، طبعی ، اقتصادی اور اخلاقی قانون کہنا بالکل بجا اور درست ہے ۔

خواتین کے حقوق وفرائض
حقوق میں بہت سے حقوق وہ ہیں جن کا مرد وعورت دونوں سے تعلق ہے ، لیکن کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق خواتین سے ہے پھر خواتین کی بھی چار بنیادی حیثیتیں ہیں ۔ بیٹی ، بہن ، بیوی اور ماں ۔ کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق چاروں سے ہے کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق کسی خاص حیثیت سے ہے ۔ اسی وجہ سے میں جس حق کا تعلق غالب درجہ میں عورت کی جس حیثیت سے ہے اس کے ضمن میں تحریر کروں گی پھر آخر میں مشترکہ حقوق پر روشنی ڈالوں گی۔
خواتین کے حقوق وفرائض بحیثیت بیٹی کے سیرت طیبہ کی روشنی میں
بچے اور بچیاں اللہ کی نعمت ہیں ، قرآن نے انہیں ’’زِینَۃُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا‘‘ دنیا کی زینت کہا ہے رسول مکرم کے توسط سے مسلمانوں کو نیک اولاد کی دعا مانگے کا طریقہ سکھایا گیا ہے ۔ بچیوں کے کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہے ۔ کچھ وہ ہیں جن کا تعلق معاشرت سے ، کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مال سے ہے ۔
۱۔ بچیوں کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کی پیدائش حلال تعلق کے نتیجہ میں ہو۔
۲۔ پیدائش کے بعد شرعی رسومات کی ذمہ داریاں حسب استطاعت ادا کی جائیں جس میں اذان واقامت ، تحنیک ، عقیقہ ، ختنہ وغیرہ بحیثیت مجموعی بچی کا حق ہے ۔
۳۔ تعلیم دلوانا بچی کا حق اور والدین کا فریضہ ہے ۔ ابو ذرقلمونی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فرائض کا علم عورت کو اپنے شوہر یا والد سے حاصل کرنا چاہیے ۔ بچیاں عہد اسلامی میں بہت اہتمام سے علم حاصل کرتی تھیں ۔ سیدہ زینب جو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے لکھا ہے وہ اپنے زمانہ کی فقیہہ تھیں ۔ عیسیٰ بن مسکین کے بارے میں لکھا ہے صبح وہ خود لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ، شام کو ان کی بیٹیاں اور بھائی کی بیٹیاں لوگوں کو تعلیم دیتی تھیں ۔ خطیب بغدادی نے صحیح البخاری کریمہ بنت احمد المروزی سے پڑ ھی ہے ۔ بقول علی میاں ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ انہی سے منقول نسخہ آج برصغیر میں رائج ہے ۔ تعلیم بچی کا حق اور والدین کا فریضہ ہے ارشاد نبوی ہے علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ عبد الحئی کتانی نے اس حق پر بہت مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔
۴۔ تربیت انسانیت کا جھومر اور اسلامی تعلیمات کا محور ہے خود نبی کریم نے اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ تربیت فرمائی۔ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے ۔ قُوا أَنفُسَکُم وَأَہلِیکُم نَاراً (تحریم)
خود بھی نیک کام کر کے جہنم سے بچو اور اولاد کو بھی بچاؤ اور یہ صرف اچھی تعلیم کے ساتھ تربیت سے ہی ممکن ہے ۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے آپ نے فرمایا : ’’من کن لہ ثلاث بنات یؤدبہن ویرحمہن ویکفلہن وجبت لہ الجنۃ البَتّۃ قیل یا رسول اللہ فان کانتا اثنتین قال وإن کانتا اثنتین قال فرأی بعض القوم أن لو قالوا واحدۃ لقال واحدۃ .‘‘(مسند احمد وفیہ ضعف)
’’جس کی تین بچیاں ہوں اور وہ انہیں (اعلیٰ تربیت کے ذریعہ ) مؤدب ومہذب بنائے اور ان کے ساتھ رحمدلی کا معاملہ کرے ان کی کفالت کرے تو اللہ نے اس کیلئے ہر حال میں جنت واجب کر دی ہے ، نبی کریم سے سوال کیا گیا اگر اس کی دو بچیاں ہوں ، آپ نے فرمایا: دو ہوں پھر بھی یہی حکم ہے ، بعض افراد نے کہا اگر صرف ایک بچی ہوتو آپ نے فرمایا : پھر بھی یہی حکم ہے ۔‘‘
یہاں خصوصی طور سے بچیوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے کہ عرب بچوں کی تو اعلیٰ تربیت کرتے بچیوں پر توجہ نہیں دیتے تھے ۔ اعلیٰ تربیت اسی وقت ممکن ہے کہ پہلے والدین خود عمل کریں ، پھربچے بھی عمل کریں گے ۔ آپ نہ خود صدقہ کھاتے نہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو کھانے دیتے تھے ۔نہ خود جھوٹ بولتے نہ بچوں کو بولنے دیتے تھے ، بچوں کو کھانا کھاتے ہوئے ادب سکھاتے تھے ۔
۵۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ مساوات کا سلوک بھی بچی کا حق ہے ایک شخص نے اپنے ایک بچے کو جائیداددی اور اس پر آپ کو گواہ بنانا چاہا آپ نے فرمایا تم نے دوسروں کو کیا دیا اس نے کہا کچھ نہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ تم مجھے ظلم پر گواہ بنانا چاہتے ہو، یعنی اگر کچھ دیا جائے تو سب کو برابر دیا جائے ۔ اسی طرح جو یتیم بچی زیر پرورش ہو اس کے بھی یہی پانچوں حقوق ہیں ، جیسا کہ سورۃ النساء میں حکم دیا گیا ہے ۔اور اس کی فضیلت واضح کرتے ہوئے فرمایا :’’أنا وکافل الیتیم ہکذا۔‘‘
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے قیامت کے دن اس طرح ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں لہذا بیوی کے پچھلے شوہر کی اولاد کے بھی یہی حقوق ہوں گے ۔
۶۔ ماں کے پاس پرورش کا حق : بچیاں چونکہ ماں سے زیادہ مانوس ہوتی ہیں اس لئے بلوغت تک ماں کے پاس رہنے کا حق ہے ، جیسا کہ آپ نے ایک عدالتی فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’ أنت احق بہ ما لم تنکحی .‘‘
جامع ترمذی کی روایت ہے جس نے ماں کو اس کے بچے یا بچی سے جدا کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اس کے پسندیدہ لوگوں سے جدا کر دے گا۔
۷۔ نفقہ (اخراجات) وکفالت کا حق : بچیوں کا حق ہے کہ والدین وسرپرست ان کی مالی کفالت کریں اور ان کے جملہ اخراجات اپنی وسعت کے مطابق اٹھائیں اگر بچے معذور ہوں تو ساری زندگی ان کی کفالت والدین کے ذمہ رہتی ہے ۔
۸۔ محبت کا حق :بچیوں سے محبت ان کا حق ہے ۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے آپ بچوں سے پیار کرتے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کرنے پر جب ایک دیہاتی نے تعجب کیا تو آپ نے فرمایا میرے بس میں نہیں ہے کہ بچوں کی محبت تیرے دل میں ڈالوں جب اللہ نے کھینچ لی ہے ۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کوجواب دیا ’’من لا یرحم لا یرحم ‘‘ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ فرمایا جو بچوں سے رحمت ومحبت کا سلوک نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
۹۔ عزت کا حق :رحمت کا تقاضا ہے بچوں کی عزت کی جائے ان کے ساتھ اہانت کا رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : سن لو تمہارا مال، جان آبرو قیامت تک کیلئے ایک دوسرے پر حرام ہیں ۔ اگر ہم بچوں کے ساتھ بدسلوکی کریں ذلت آمیز رویہ اختیار کریں تو کل بڑ ے ہوکر وہ بھی ایسا ہی کریں گے ۔ سورۃ الحجرات میں مذاق اڑ انے ، طعنہ زنی کرنے اور برے نام رکھنے سے باز رہنے کا حکم بچیوں کیلئے بھی ہے ۔ بچیوں کا اچھا نام رکھنا اسی نام سے بلانا یہ ان کا حق ہے ۔ جیسا کہ آپ نے حکم دیا ہے ۔ ارشاد نبوی :’’ اَکرِمُوا اَولاَدَکُم وَاَحسِنُوا اَدَبَہُم ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث :۳۶۶۱)
’’اپنے بچوں کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ ‘‘
۱۰۔ تجہیز وتکفین کا حق :اگر بچے کا انتقال ہوجائے تو پورے اعزاز وا کرام اور اسلامی طریقے سے غسل ، کفن اور جنازہ کے ساتھ اسے دفنایا جائے گا، جیسا کہ آپ نے عبد اللہ بن عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ (مردہ بچے کے بارے میں جنازہ کے مسئلہ میں اختلاف ہے ) بچیوں کے ان دس اہم حقوق کی وضاحت کے بعد اب ہم ان کے فرائض کا بھی سیرت طیبہ سے مطالعہ کرتے ہیں ۔(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تبصرۂ کتب

از ڈکٹر تاج الدین الازہری

نام کتب : تقدیر ۔۔کتا ب سنت کی روشنی میں
مصنف : محمد فتح اللہ گولن
متر جم : محمد خالد سیف
شائع کردہ : ھار مونی پبلیکیشنز، اسلا م آباد
سا ل اشاعت : ۲۰۰۹ء
صفحا ت : ۱۶۲
قیمت : درج نہیں
تقدیر پر ایمان لانا ہما رے ایما ن کا حصہ ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی ، اس کے فرشتے ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے ، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے ۔دیگر ارکان کے بغیر تقدیر پر ایمان کا تصور ممکن نہیں اور تقدیر کے بغیر باقی چیزوں پر ایمان کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ۔
مسئلہ تقدیر کو اسلام کے ابتد ائی ایام ہی سے مشکل مسائل میں شمار کیا جاتا ہے ، جن میں قدم پھسلنے کا اندیشہ رہتا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے اس کے بنیادی اصولوں کو آیا ت کریمہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور اس کے متفرق اور عمیق پہلوؤں سے بحث نہیں کی تا کہ عوام الناس کو اس مسئلہ کی دقیق تفا صیل کے بارے میں بحث کے وقت ان راستوں میں ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ، جن سے وہ آشناہی نہیں ہیں ۔تقدیر کے مسائل کی اسی نزاکت کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ اپنے شاگرد وں کو ان میں بحث ومباحثہ سے منع فرماتے تھے اور آپ سے پوچھا جاتا کہ آپ اس مسئلہ میں کیوں گفتگو فرماتے ہیں تو جواب دیتے کہ ۔۔۔’’میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو۔۔۔‘‘
اما م صاحب کے قول کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ تقدیر میں ہر شخص کے لئے گفتگو جائز نہیں ، اس مسئلہ میں گفتگو صرف اس حاذق اور ماہر شخص کو کرنی چاہیئے جو زرگر کی طرح حاذق ہو ۔
موجودہ دور میں مادی فلسفہ پوری دنیا میں بڑ ی تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ عقائد میں شکوک و شبہات پید ا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تنقید کو پروان چڑ ھانے میں بھی مصروف عمل ہے ، تو ایسے میں مادہ پرستوں نے محسوس کیا کہ تقدیر لوگوں کو خوش کرنے والے مسائل میں سے ہے ، اس لیے انہوں نے پوری قوت کے ساتھ ان مسائل کو بیان کرنا شروع کر دیا ، جب کہ مسلمان ان مسائل میں غور وخوض کرنے میں حرج محسوس کرتے تھے ۔
زیر نظر کتاب ’’تقدیر کتاب وسنت کی روشنی میں ‘‘ایسے ہی مادہ پرست افراد کے لیے ایک تحفہ ہے ، جس میں جناب فتح اللہ گولن نے مسئلہ تقدیر کو کتاب وسنت کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بڑ ی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔
جناب فتح اللہ گولن نے ۱۹۹۰؁ ء کے بعد مختلف جماعتوں ، صحافیوں ، تعلیم یافتہ طبقوں اور مذاہب وافکارکے درمیان باہمی افہام وتفہیم اور مکالمے کی تحریک کا آغاز کیا ، اس تحریک کے اثرات نہ صرف ترکی میں بلکہ ترکی سے باہر بھی محسوس کیے گئے اس تحریک کے اثرات کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوپ کی دعوت پر جناب فتح اللہ نے ویٹی گن سٹی میں پوپ سے ملاقات کی۔
ان کے خطبا ت، مواعظ ، لیکچرز اور مجالس پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں کیسٹیں لوگوں کی راہنمائی کیلئے موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی مطبوعہ کتب کی تعداد ۲۲ ہے جن میں کئی کتابیں ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہیں کئی کتابوں کا ترجمہ انگریزی ، جرمن ، بلغاری ، البانوی ، انڈونیشی ، روسی اور کوریائی زبانوں میں ہو چکا ہے ، ارودو زبان میں ان کی ۸ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ایک زیر نظر کتاب بھی ہے ۔
ان کی یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے ، ہر فصل کے تحت ذیلی عنوانا ت ہیں ، فصل اول میں تقدیر کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانا ت یہ ہیں ۔
تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی ، مسئلہ تقدیر وجدانی ہے ، تقدیر اور جزوی ارادہ میں تضاد نہیں ، اللہ تعالیٰ کی مشیت اور انسان کا ارادہ تقدیر آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں ۔
فصل دوم قضا کا تقدیر کے تعلق بیان کیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانا ت یہ ہیں ۔ قضاو قدر علم الٰہی کی حیثیت سے ، قضاء وقدر تحریر کی حیثیت سے ، قضاء وقدر مشیت الٰہی کی حیثیت سے اور قضاء وقدر بحیثیت مخلوق۔
فصل سوممیں تقدیر ، ارادہ اور ہدایت کا آپس میں تعلق بیان کیا ہے ۔ چوتھی فصل میں تقدیر سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے گئے ہیں ، جن میں اہم یہ ہیں ۔ ارادہ کے جزئیات وکلیات، مشیت الٰہی اور انسان کی آزادی ، کلی اور جزوی ارادے کی ماہیت۔
٭ تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں جناب فتح اللہ گولن ص ۱۹ پر یوں رقمطراز ہیں : ’’قدر کے لغوی معنی اندازے کے ہیں اور کسی کام کی تدبیر کرنے ، اس کا فیصلہ کرنے اور اس کے بارے میں حکم صادر کرنے کے بھی ہیں ۔ ان تمام معانی سے ہم یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ قدر کے اصلاحی معنی یہ ہیں کہ وہ فیصلہ جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اندازہ مقرر فر ما دیا اور اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا ۔اس مذکورہ بالا تعریف کی آیا ت کریمہ سے تایید ہوتی ہے ۔
تقدیر کی اہمیت کو مصنف ص۲۱ پر یوں بیان کرتے ہیں : ’’تقدیر کو فقط علم کا عنوان قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ تقدیر کے معنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اپنے علم کے ساتھ اشیاء کی تعیین و تقدیر سے بڑ ھ کر اس کے سمع وبصر ، ارادہ اور مشیت تک کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں ، جب تقدیر کے معنی یہ ہیں تو تقدیر کا انکار گویا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تمام صفات کا انکار ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’تقدیر کا تعلق قدرت سے ہے لہٰذا جو شخص تقدیر کا انکار کرتا ہے وہ ان بہت سے امور کا منکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ خاص ہیں یعنی اس سے الوہیت کا عقیدہ متزلزل ہو جاتا ہے ، فکر کے نظام ٹوٹ جاتے ہیں اور مفاہیم کی بنیادیں منہدم ہو جاتی ہیں ۔‘‘
تقدیر پر ایمان کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ص۲۷ پر ہو یوں گویا ہیں : ’’ہمار ا کھانا پینا ، سونا جاگنا اور بات کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کا تعلق خلق سے ہے وہ قطعی طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صاحب ایمان کہیں ’’جبریت‘‘ میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ انسان جب ہر فعل کو اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دیتا ہے تو نتیجہ کے طور پر اس کے سامنے (جزئی) ارادہ بھی آتا ہے اور اسے ذمہ داری یاد دلاتا ہے تاکہ ا سکی ذمہ داری ختم نہ ہو جائے اور اس لیے کہ انسان اپنی نیکیوں کی وجہ سے مبتلائے فریب نہ ہو جائے ۔ تقدیر اپنا کام دکھاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ مبتلائے فریب نہ ہوتو وہ فاعل نہیں ہے اس طرح وہ اسے غرور سے بچا لیتی ہے اور اس طرح انسان اعتدال تک پہنچ جاتا ہے اور اس اعتدال کی حفاظت سے اس کی زندگی اور کردار میں بھی ایک نظم وضبط پیدا ہو جاتا ہے ۔ تمام نیکیاں اللہ تعالی ہی کے فعل وتقدیر کی وجہ سے ہیں انسان از خود انہیں سر انجام نہیں دے سکتا ورنہ وہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائے گا البتہ نفس شریرہ اپنے شر کی وجہ سے جمیل اور جمال کو پسند نہیں کرتا بلکہ ان سے دشمنی رکھتا ہے ۔نفس امارہ برائیوں کی طرف راغب ہوتا ہے ، اس لئے برائیوں کی ذمہ داری اس پر واقع ہوتی ہے ۔ درج ذیل آیت کریمہ میں ان دونوں قاعدوں کو یکجا کر دیا گیا ہے : مَا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللَّہِ وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ (النساء:۷۹) ’’(اے ابن آدم زاد ) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال کی)وجہ سے ہے ۔‘‘
انسانی ارادے کی حقیقت کو ص۳۳ پر یوں بیان کرتے ہیں : ’’یہ صحیح ہے کہ ہم میں ارادہ موجود ہے لیکن اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے لہٰذا یہ اس وقت مخلوق نہیں ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے ارادہ کی طرف اس طرح دیکھ سکیں کہ یہ موجود ہے پس جو اشیاء موجود نہ ہوں وہ مخلوق نہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں یعنی ان کا علمی وجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ وقدرت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر معاملہ اس نظریہ کے برعکس ہوتا یعنی اگر ہمارا ارادہ بھی ہمارے اعضاء کی طرح مخلوق ہوتا اور ہمیں اس کے بارے میں اختیار تو نہ دیا جاتا لیکن اس کے بارے میں سوال ضرور کیا جاتا تو ہمارے افعال میں سے کسی فعل کی بھی ہم پر کوئی ذمہ داری نہ ہوتی ۔ کسی کو بھی اپنی نیکیوں پر ثواب طلب کرنے کا حق حاصل نہ ہوتا ، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے پس انسان کا ارادہ بذات خو دمخلوق نہیں ہے ، موجود بھی نہیں ہے ، بلکہ اسے ایک اعتباری وجود عطا کیا گیا ہے ‘‘ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق اور بندے کے کسب کو ص۱۴۱ پر یوں بیان کیا گیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے بجلی کا جو نظام وضع فرمایا ہے ، وہ تمہارے سوئچ آن کرنے سے سب ماحول کو روشن کر دیتا ہے لیکن بجلی کے نظا م سے روشنی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی ذات کے ساتھ خاص ہے ، جس نے اسے بنایا ہے اور انسان کے اس سے جزوی طور پر کام لینے کو ہم انسان کے کسب یا جزئی ارادے سے تعبیرکرتے ہیں ، جب کہ خلق اور ایجاد کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ‘‘ ہدایت اور گمراہی کے بارے میں مشیت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے ص۱۰۲ پر لکھتے ہیں : ہدایت وضلالت کے مشیت الٰہی کے ساتھ ربط کو قرآن کریم کی بہت سی آیات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے مثلاً: فَمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُرِدْ أَنْ یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقًا حَرَجًا کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللَّہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ (الانعام:۱۲۵)
’’تو جس شخص کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہداتی بخشے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا کہ وہ آسمان پر چڑ ھ رہا ہے اسی طرح اللہ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے ‘‘ اس آیت کی تشریح میں ص ۱۰۳ پر لکھتے ہیں :
’’جس طرح اس نے ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، اسی طرح اسنے ہمیں اس کام کیلئے اپنے ارادے کو استعمال کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی ہے ، جو ہم کرنا چاہیں ، ہمیں ارادہ عطا فرمانے کے باوجود مشیت وارادہ اس کی ذات پاک کے لیے مخصوص ہے ۔
مترجم کتاب جناب محمد خالد سیف نے ایسا رواں اور شگفتہ ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو کتاب کے سمجھنے میں کہیں بھی دقت پیش نہیں آتی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کتاب اردو زبان میں ہی لکھی گئی ہے ۔ کتاب کی طباعت بھی بہت عمدہ ہے ، کاغذ بہت اچھا استعمال کیا گیا ہے جس نے طباعت کو مزید چار چاند لگا دیے ہیں ۔ املائی اغلاط کا نہ ہونا نظر ثانی کرنے والے کی محنت کی دلیل ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مترجم ، ناشر اور اس میں حصہ لینے والے تمام افراد کو اجر دارین عطا فرمائے ۔ آمین

’’خبر نامہ‘‘
صفحات : ۳۰
ناشر : عبد الرحمن اسلامک لائبریری
گلشن فیض کالونی بالمقابل گورنمنٹ پولٹری فارم قاسم بورڈ ڈاکخانہ ممتاز آباد ملتان
مبصر : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
محترم محمد یٰسین شاد صاحب بلدۃ ملتان سے تعلق رکھنے والے مشہور صاحبِ علم وقلم ہیں ۔ بحیثیت استاد ان کی شناخت ہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو موصوف نے خدمتِ علم دین کیلئے وقف کر دیا ہے ۔ اپنے ذاتی پلاٹ کو مسجد کیلئے وقف کر دیا ونیز اپنے ذاتی ذخیرئہ کتب کو بھی عوام الناس کے لیے وقف کر دیا اور ہر دم اس ذخیرئہ کتب میں اضافے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔ اپنی لائبریری کی جانب سے ان کے دماغ میں مختلف نشریاتی ارادے بھی منصہ شہود پر آنے کیلئے مچل رہے ہیں ۔ اللہ رب العزت ان کا معاون وکارساز ہو۔
سردست ان کے طبع کردہ ’’خبر نامہ‘ کا تعارف مقصود ہے جس میں چند ایک مضامین اور مسجد لائبریری کا تعارف مرقوم ہے ۔ ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ لا ہور (فروری ۱۹۷۱ے ) سے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کا مضمون ’’رسول کریم کی چند وصیتیں ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے ۔ یہ مضمون طلبائے دین کیلئے انتہائی مفید ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں وسائل مہیا فرمائے تاکہ آئندہ ’’خبر نامہ‘‘ سے بڑ ھ کر یٰسین شاد ایسے علمی کارنامے انجام دیں جو خود ’’خبر‘‘ بن جائیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟