Monday, January 4, 2010

معمولات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

از محمد طیب معاذ
بعد از نمازِ عصر
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول مکرم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے چنانچہ نمازِ عصر سے فراغت کے بعد آپ اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ایک ایک کا حال معلوم فرماتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت میں شہد پیش کرتی ۔ آپ شہد کو رغبت سے نوش فرماتے تھے ۔ (مختصر از صحیح البخاری، حدیث نمبر :۵۲۶۸)
شہد ایک بیش قیمت عطیہ خداوندی ہے قدیم وجدید طب میں اس کی اہمیت وافادیت ایک مسلمہ امر ہے آئیے ذرا شہد کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں جانتے ہیں ۔

قرآن اور شہد
رب تعالیٰ کا فرمان ہے یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاء ٌ لِلنَّاسِ النحل :۶۹
’’ ان (مکھیوں ) کے پیٹ سے ایک مشروب نکلتا ہے جوکئی رنگوں والا ہونے کیساتھ ساتھ لوگوں کیلئے شفا کے عناصر سے لبریز ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں کہ کائنات کی بڑ ی بڑ ی چیزیں اپنے جمال وجلال اور نفع رسان کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں لیکن عام طور پر چھوٹی چیزوں کو حقیر سمجھ کر لائق التفات خیال نہیں کیا جاتا اور پھر مکھی جیسی چھوٹی سی چیز کیلئے کسے فرصت ہے کہ اس میں سوچ وبچار کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری حکمت اور قدرت کے جلوے صرف پہاڑ وں ، سمندروں ، مویشیوں اور بلند وبالا درختوں میں ہی نظر نہیں آتے بلکہ ایک چھوٹی سی شہد کی مکھی بھی میری حکمتوں کی تجلی گاہ ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ اہل جنت کیلئے نعمت خداوندی( شہد) کا تذکرہ کیا اور فرمایا وَاَنہَارٌ مِّن عَسَلٍ مُّصَفَّی (محمد :۱۵)
’’(آخرت میں اہل جنت کیلئے ) پاکیزہ شہد کی نہریں ضیافت کیلئے (تیار کی گئی) ہیں ۔‘‘
شہد کی مکھی کو رسول اللہا نے مارنے سے منع کیا ہے ۔ (ابو داؤد ، کتاب السلام باب فی قتل الزراع )
قرآن مجید میں شہد کی مکھی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔
رسول معظم نے ارشاد فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں ہے سینگی کے نشتر میں ، شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغنے میں اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں ۔ (صحیح البخاری ، الطب ، باب الشفا فی ثلاث ، حدیث نمبر :۵۶۸۱)
اسی طرح صحیح بخاری میں ہی سیدنا ابو سعید الخدری ص سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ میرے بھائی کو اسہال(دست ، پیچس) ہو گیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا ’’اسقِہِ عَسَلاً‘‘ اسے شہد پلاؤ اس نے اسے شہد دیا لیکن اس کا مرض بڑ ھ گیا وہ گھبرا کر واپس رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حقیقت حال بیان کی تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’ صَدَقَ اللّٰہُ وَکَذَبَ بَطنُ أَخِیکَ اِسقِہِ عَسَلاً ‘‘(اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے جاؤ ! اسے شہد پلاؤ) اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا اور وہ تندرست ہو گیا۔
محدثین نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ اسے اسہال کی بیماری تھی اب اگر اسے کوئی مُمسِک چیز دی جاتی تو اس کی جان کو خطرہ تھا جبکہ شہد مُسہل ہوتا ہے اور مواد فاسدہ کو پیٹ سے خارج کرتا ہے ۔ دو تین دفعہ شہد کھانے سے اس کا پیٹ فاسد مادے سے صاف ہو گیا تو وہ شفا یاب ہو گیا ۔
حکیم محمد ا کرم صاحب فرماتے ہیں کہ شہد
۱۔ طاقت کیلئے قیمتی سے قیمتی ٹانک
۲۔ پیٹ کیلئے چورن اور امرت دھار
۳۔ کم خون کیلئے شربت فولاد
۴۔ امراض دل اور حرارت خون کیلئے کیپسول
۵۔ حسن اور چہرے کی خوبصورتی کیلئے میکس فیکٹر پوڈر اور سنو کریم ہے ۔مزید فرماتے ہیں طوالت عمر کا راز محنت، دودھ، شہد اور روغن زیتون میں ہے ۔
شہد کے استعمال کرنے کے چند مخصوص طریقے
۱۔ صبح سویرے نہارمنہ اور عصر کے وقت موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس میں پاکیزہ شہد حسبِ منشا حل کر کے پی لیں ۔
۲۔ ناشتہ میں ڈبل روٹی پر مکھن اور شہد لگا کر کھائیں ۔
۳۔ ہر دستر خوان پر بطور سویٹ ڈش پیش کیا جائے ۔
۴۔ رات کو سوتے وقت گرم دودھ میں چینی کی بجائے شہد استعمال کریں ۔
۵۔ گرمیوں میں لیموں ڈال کر شربت بنایا جاتا ہے ۔
۶۔ وید اور حکیم معجونوں اور جوارشوں میں استعمال کرتے ہیں ۔
۷۔ شہد ، دودھ اور پھلوں کا رس ملانے سے بہترین مرکب تیار ہوتا ہے ۔
۸۔ شہد کو شفا اور بارش کے پانی کو بارانِ رحمت اور مبارک پانی سے موسوم کیا گیا ہے دونوں کو ملا کر پینا کتنا اچھا ہو گا؟
۹۔آبِ زمزم اور شہد ملا کر پینا کئی امراض میں مفید ہے ۔
۱۰۔ رات کو سوتے وقت ایک دو قطرے سلائی سے لگا کر آنکھوں میں لگائیں ۔ آنکھوں کی صفائی اور نظر کو تیز کرتا ہے اور آنکھوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔(ملخصاً پاکیزہ شہد پاکیزہ زندگی ملک بشیر احمد)
شہد کے فوائد
مصنف شہیر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی تصنیف لطیف الطب النبوی میں رقمطراز ہیں ۔
شہد میں بہت سے فوائد ہیں یہ لیکوریا میں مفید ہے اور انتڑ یوں میں سے میل کوکاٹ دیتا ہے ۔ بوڑ ھوں اور بلغمی مزاج لوگوں کو فائدہ دیتا ہے اور جس کا مزاج سردتر ہوتو اس کے لئے معتدل اور ملین ہے ۔معجونوں کی قوت قائم رکھنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور جب اس میں دواؤں کی آمیزش کی جاتی ہے تو یہ ان کی مکروہ کیفیات کو زائل کر دیتا ہے ، جگر اور سینے کو صاف کرتا ہے ۔ پیشاب آور اور بلغم کے سبب ہونے والی کھانسی سے فائدہ دیتا ہے ۔ اور جب اسے عرقِ گلاب کے ساتھ گرم پیا جائے تو موذی جانوروں کے کاٹے اور افیون خوری میں نفع دیتا ہے اور اگر اسے سادہ پانی میں ملا کر پیا جائے تو کتے کے کاٹے اور زہر خورانی میں فائدہ بخش ہے ۔ اس میں تازہ گوشت رکھ دیا جائے تو تین ماہ تک اس کی تازگی برقرار رہتی ہے ۔ اس طرح اس میں تربوز، ککڑ ی ، کدو، باذنجان ، بیگن وغیرہ رکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، یہ چھ ماہ تک عام پھلوں کو بھی خراب ہونے سے بچالیتا ہے اور مردے کے جسم کی حفاظت کرتا ہے ۔ اسے حافظ امین کانام دیا جاتا ہے ۔ اور جب اسے بدن اور بالوں پر لگایا جائے تو جوؤں کو مارتا اور بالوں کو لمبا کرتا ہے اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جائے تو آنکھوں کے سامنے سے اندھیرے کو دور کرتا ہے اور مسوڑ ھوں اور دانتوں کو قوی کرتا ہے ۔ اور ان کے حفظِ صحت کا ضامن ہے ۔ رگوں کو کشادہ کرتا ہے اور حیض جاری کرتا ہے ۔ اس کا چاٹنا بلغم کو مفید ہے اور معدے کی ردی کیفیات کو زائل کرتا ہے اور اسے گرم کر کے اعتدال پر لاتا ہے اور سدے کھولتا ہے ۔ جگر ، گردے اور مثانہ پر بھی اس کے یہی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔( طب نبوی مترجم حکیم عزیز الرحمن الاعظمی بتصرف یسیر)
نمازِ مغرب
نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں سنت ادا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ’’بعض الناس ‘‘ اس عظیم سنت اور عمل کو بدعت کہتے ہیں ۔ آئیے ذرا صحیح احادیث اور اقوالِ علماء کی روشنی میں ان دو رکعتوں کی مشروعیت ومسنونیت کو ثابت کرتے ہیں ۔
حدثنی یزید بن أبی حبیب قال سمعت مرثد بن عبد اللہ الیزنی قال أتیت عقبۃ بن عامر الجہنی فقلت الا اعجبک عن أبی تمیم یرکع رکعتین قبل صلاۃ المغرب فقال عقبۃ انا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہ قلت فما یمنعک الآن قال الشغل ۔ (بخاری شریف ۱/۱۵۸)
یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبد اللہ سے سنا کہ انہوں نے کہا میں سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے کہا کہ آپ کو ابو تمیم پر تعجب نہیں ہوتا وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑ ھتا ہے تو سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے رسول کے زمانہ میں ایسا کیا کرتے تھے ۔ میں نے کہا اب آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا :’’مصروفیت‘‘۔
عن عبد اللہ المزنی عن النبی قال صلوا قبل صلاۃ المغرب قال فی الثالثۃ لمن شاء کراہیۃ أن یتخذہا الناس سنۃ ۔ (بخاری شریف ص:۱/۱۵۸، ابن خزیمہ ص:۲/۲۶۷)
حضرت عبد اللہ المزنی ص نبی ا کرم ا سے روایت کرتے ہیں آپ انے فرمایا نماز مغرب سے پہلے نماز پڑ ھو آپ ا نے تیسری مرتبہ کہا جو ان دو رکعت کو پڑ ھنا چاہے اس خوف سے کہ لوگ اس کو سنت موکدہ نہ سمجھ لیں ۔
عن عبد اللہ بن بریدۃ عن عبد اللہ بن مغفل المزنی قال قال رسول الہ بین کل اذانین صلاۃ قالہا ثلاثا قال فی الثالثۃ لمن شاء۔ (مسلم شریف ص:۱/۲۷۸)
عبد اللہ بن بریدہ عبد اللہ بن مغفل المزنی صسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:ہردو اذانوں (مراداذالن واقامت ہے )کے درمیان نماز ہے آپ ا نے تیسری مرتبہ فرمایا جو یہ نماز پڑ ھنا چاہے ۔
ان أبا خیر حدثہ ان ابا تمیم الجیشانی قام یرکع رکعتین قبل المغرب فقلت لِعقبۃ بن عامر انظر إلی ہذہ الصلوات یصلی فالتفت إلیہ فراہ فقال ہذہ الصلوات کنا نصلیہما علی عہد رسول اللہ ۔(سنن نسائی ص:۱/۶۷)
ابو خیر نے یزید بن ابو حبیب سے بیان کیا ہے کہ ابو تمیم الجیشانی رحمہم اللہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑ ھتے تھے ۔ میں نے سیدنا عقبہ بن عامرص کو کہا کہ دیکھئے یہ کونسی نماز پڑ ھتا ہے پس اس نے کہا ہم اللہ کے رسول کے زمانہ میں دو رکعت قبل المغرب پڑ ھا کرتے تھے ۔
مذکورہ بالا حدیث کے تحت التعلیقات السلفیہ میں یوں درج ہے ۔ والظاہران الرکعتین قبل صلوات المغرب جائز تان بل مندوبان ولم أری للمانعین جواباً شافیاً ۔ (۱/۱۷) یعنی نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کرنا جائز ہے اور مندوب ہے ان رکعت کے منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہے ۔
انس بن مالک یقول إن کان المؤذن لیؤذن علی عہد رسول اللہ فیری أنہا الإقامۃ من کثرۃ من یقوم فیصلی رکعتین قبل المغرب ۔ (سنن ابن ماجہ ص۱:۱۹۱) علامہ ناصر الدین البانی نے مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
سیدنا انس بن مالک صسے مروی ہے کہ جب رسول مکرم کے زمانہ مبارک میں مؤذن اذان کہتا تو یہ گمان کیا جاتا کہ شاید یہ اقامت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہتمام کے ساتھ نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑ ھتے تھے ۔
عن أنس قال کنا نصلی علی عہد رسول اللہ رکعتین بعد غروب الشمس وکان رسول اللہ یرانا فلم یأمرنا ولم ینہنا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۳۶ بحوالہ سبل السلام )
سیدنا انس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کے زمانہ میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعات پڑ ھا کرتے تھے ۔ آپ ہمیں پڑ ھتے ہوئے دیکھتے تو تھے لیکن نہ تو ہمیں حکم دیتے اور نہ ہی اس نماز سے منع فرماتے ۔
اصحاب رسول : وقد روی عن غیر واحد من اصحاب النبی أنہم کانوا یصلون قبل صلاۃ المغرب رکعتین بین الآذان والإقامۃ وقال أحمد ، إسحاق ان صلاہما فحسن وہذا عندہما علی الاستحباب۔ (جامع ترمذی ص:۲۶، معارف السنن ص:۲/۱۴۳)
اکثر صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ ان دو رکعات کا ادا کرنا مغرب کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے ہوتا۔ امام احمد اورامام اسحاق رحمہما اللہ اس کو حسن اور مستحب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
بذل الجہود۔ کے حاشیہ میں درج ہے کہ حکی الترمذی عن أحمد استحبابہ وفی الروض المربع مباح وفی المغنی جائز ۔یعنی امام ترمذی نے امام احمد سے اس کے مستحب ہونے کی حکایت بیان کی ہے ۔ اور روض المربع میں مباح قرار دیا گیا ہے ۔ مغنی میں ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے ۔
(جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟