Monday, January 4, 2010

تفسیر سورۂ نور

از شاہ فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر ۲

آیت کا مفہوم
یوں تو مکمل قرآن مجید ہی رب العالمین کا نازل کردہ ہے لیکن اس سورت کی ابتداء میں بطور خاص جو کہا گیا کہ ’’سُورَۃٌ أَنْزَلْنَاہَا‘‘ کہ یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اس سے اس سورت میں بیان کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ چونکہ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے لہذا اس کے احکام سے پہلو تہی کرنا بہت وبال کی بات ہے ۔ اور ا سکے احکام کے بار ے میں مزید تاکید آئندہ لفظ سے کر دی گئی کہ ’’فَرَضْنَاہَا‘‘ کہ نہ صرف ہم نے اس کو نازل کیا ہے بلکہ اس کے احکام بھی تم پر فرض قرار دے دیے ہیں تاکہ تم اس پر عمل کرو اور یہی بات اس کے بیان کردہ مسائل کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے اور اے نبی آپ ایمان والوں کے سامنے یہ اعلان کر دیجئے کہ ہم نے یہ سورت ( ثواب کیلئے )مجرد تلاوت کیلئے نازل نہیں کی بلکہ اس میں جو کھلی کھلی نشانیاں بیان کیں ہیں ان سے مقصود اس سے عبرت اور موعظہ حاصل کرنا ہے ۔ ’’أَنْزَلْنَاہَا‘‘ میں ایک اور لطیف نکتہ پوشیدہ ہے کہ لفظ نزول سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن اوپر سے اتارا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا علو بھی ثابت ہوتا ہے اور اس بات کا رد بھی ہو گا کہ یہ قرآن مجید محمد کی تالیف ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔ لفظ آیت قرآن مجید میں بعض مقامات پر علامت اور نشانی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جیسے کہ جس کو ہم آیات کونیہ بھی کہتے ہیں ۔
وَآَیَۃٌ لَہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ (یس:۳۷)
’’اور ان لوگوں کیلئے رات میں نشانی ہے جس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں ۔‘‘
اور یہ لفظ کبھی مطلقاً قرآن مجید کی آیات پر بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جس کو ہم آیات قرآنیہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ اگر اس سے مراد آیات کونیہ ہے تو اس کا مطلب توحید کے دلائل ہیں جوکہ سورۃ کی وسطی آیات میں بیان کیے گئے ہیں اور اگر اس سے مراد آیات قرآنیہ ہے اس کا مطلب وہ احکام اور مسائل ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں ۔
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللَّہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآَخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ٭ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ
لاَ یَنکِح : نکاح سے یہاں عقد مراد ہے یعنی زانی سوائے زانیہ کے عقد نہ کرے ۔
مُشرِکَۃ : وہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے جیسے مجوسی ، یہودی، نصرانی ، ہنود وغیرہ
حُرِّمَ ذَلِکَ : یعنی یہ زنا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مفاسد اور نقصانات زیادہ ہیں ۔
زانیات اور مشرکات سے نکاح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حرام قرار دے دیا ہے ۔
آیات کا مفہوم
ترجمہ:’’زنا کار عورت مرد میں سے ہر ایک کو سوکوڑ ے لگاؤ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے اگر تمیںک اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ۔ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور کسی سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام قرار دیا گیا۔‘‘
کہا گیا کہ بدکاری کی ابتدائی سزا جو عارضی طور پر بتائی گئی تھی، کہ ان بدکارعورتوں کو گھروں میں بند رکھو۔یہاں تک کہ ان کو موت نہ آجائے یا اللہ تعالیٰ ان کیلئے مستقل سزا مقرر نہ کر دے ، پھر جب سورۃ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم نے فرمایا کہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کے مطابق بدکار عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے جو اپنے مقام پر آئے گی۔
اور وہ سزا جو اللہ تعالیٰ نے بدکار عورت ومرد کیلئے مقرر کی ہے وہ سوکوڑ ے مارنا ہے اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تفصیل بھی موجود ہے ۔
اور اس سزا کو سنانے میں کسی بھی قسم کی نرمی یا شفقت کا خیال دل ودماغ میں نہ آئے کہ اس قسم کے کسی بھی خیالات سے اور تصورات سے شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں رکاوٹ پیش آتی ہے جو کہ دینِ اسلام اور اس کی حدود کا مقصد نہیں ہے اور سزا میں ترس کھانے کی ممانعت ہے ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ وہ انسانی خواں میں سے ہے ۔اور ان کی سزاکے وقت مؤمنین اور مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے اور بدقسمتی سے ان سزاؤں کو آج کل ظالمانہ اور سنگدلانہ سزائیں کہہ کر اور ان کو نام نہاد انسانی حقوق کے خلاف گردان کر ان کے خلاف آوازیں اٹھائیں جا رہی ہیں جبکہ یہ جہالت اور بغاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ انہیں محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے زنا کے بعد کے أحکام بتائے کہ بدکار مرد وعورت کا عقد صرف بدکار عورت ومرد سے ہی ہو سکتا ہے یعنی زانی مرد مشرکہ عورت سے یا زانیہ سے ہی عقد کرسکتا ہے اسی طرح دوسری کیفیت ہے ۔ زناکار اور بدکار مرد وعورت اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر اہل اسلام پر حرام قرار دیے ہیں کیونکہ اس میں بہت عظیم مفاسد اور فتنے ہیں جس سے کسی بھی آدمی کا نسب محفوظ نہیں رہ سکتا اور اس کی عزت وعصمت وعفت بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔
سبب نزول
الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ کے کئی اسباب نزول ہیں جوکہ مفسرین نے اپنی کتب میں نقل کیے ہیں ہم ان سے اہم اور اشمل نقل کر رہے ہیں ۔
روایت ہے کہ ایک آدمی جس کا نام مرثد الغنوی بتایا جاتا ہے اسلام لانے سے قبل مرثد کی ایک عورت سے آشنائی تھی جس کا نام عناق تھا مرثد کے اسلام لانے کے بعد عناق نے مرثد سے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور مرثد نے اللہ کے رسول سے اس نکاح کی اجازت طلب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن ’’ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ‘‘ کہ عبرت الفاظ کے عموم سے لی جائے گی نہ کہ سبب کے خاص سے ۔
آیت کے متعلقات / مستثنیات
اس آیت میں زانی سے مراد تمام زانی ہیں کیونکہ اس کے شروع میں أل موصولہ ہے اور ال موصولہ عموم کے صیغوں میں سے ہے لیکن اس عموم میں متعدد استثنائی کیفیات داخل ہوگئیں ہیں جو کہ خودقرآن مجید اور احادیث سے ثابت ہیں ۔
۱۔ زانیہ أمۃ یعنی لونڈی اس بارے میں سورۃ النساء کی آیت کے مطابق اس کی سزا آزاد اور حر لوگوں سے نصف ہو گی۔ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ (النساء:۲۵)
اور اگر یہ لونڈیاں بے حیائی کاکام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے ۔
یعنی ان کو پچاس کوڑ ے مارے جائیں گے اور ان کیلئے رجم کی سزا بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ رجم کی سزا کو آدھا نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔ غلام : غلام کے بارے میں بھی ائمہ کرام کی وہی رائے ہے جو لونڈی کیلئے ہے ۔
۳۔ آیت کے عموم میں شادی شدہ اور کنوارا دونوں شامل ہیں لیکن اس عموم کو شادی شدہ کو رجم کی سزا سے مخصوص کر دیا ہے یعنی شادی شدہ مرد وعورت کو رجم کی سزا ہو گی جبکہ کنواروں کیلئے وہی سزا اپنے اصل پر قائم رہے گی۔ اور شادی شدہ لوگوں کو زنا کرنے پر رجم کی سزا ثابت ہے لیکن شادی شدہ کیلئے اختلاف ہے کہ آیا اس کو صرف رجم کیا جائے گا یا کوڑ ے بھی مارے جائیں گے اور راجح یہی ہے کہ صرف رجم کیا جائے گا ۔ (حوالہ بخاری ۸/۲۱۔۲۹، مسلم ۳/۱۳۱۷۔۱۳۲۸)
اس استثناء میں حاملہ عورت بھی شامل ہے جب تک کہ ولادت نہ ہو اور بچے کیلئے دودھ پلانے والی کا بندوبست نہ ہوجائے اس طرح وہ مریض جس کو کوڑ ے مارنے سے موت کا خدشہ ہو جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائے ۔(جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟