Monday, June 29, 2009

تقریبِ بخاری و سالانہ جلسۂ تقسیمِ انعامات

جامعہ ابی بکرالاسلامیہ ،کراچی میں تعلیمی سال 09-2008 کے اختتام پر ایک عظیم و شان دعوتی اور تعلیمی پروگرام مرتب کیا گیا ہے۔ اس پرگرام میں آپ حضرات کی شرکت طلباء کرام کے لئے حوصلہ افزا اور ادارۂ جامعہ کے لئے باعث مسرت ہوگی۔

پروگرام
مورخہ 12 رجب المرجب 1430ھ بمطابق 5 جولائی 2009؁ ء بروز اتوار
نشست اول
بعد نمازِ عصر تا مغرب
1- تلاوتِ قرآن کریم و نظم
2- تقاریر طلباء جامعہ (بزبان اردو، عربی ، انگریزی)
3- خطاب : مولانا محمد یونس صدیقی حفظہ اللہ
4- خطاب : مولانا عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
5- کلمۃ الطالب
نشست دوم
بعد نمازِ مغرب تا بعد نمازِ عشاء
زیرِسرپرستی : جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب(مدیرالجامعہ)
مہمانِ خصوصی : جناب مصباح الدین صاحب
درس صحیح بخاری : فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ
کلمۃ الاساتذہ : تقسیم اسناد و انعامات
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فیوض القرآن

از فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر 14

أم : الأم
أَمَّ ، یَؤُمُّ ، أَماًّ باب نَصَرَ سے ہے جس کا معنی ارادہ یا قصد کرناہے جس سے اسم فاعل ’’آمٌّ‘‘ بنتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"یعنی بیت اللہ کا قصد کرنے والے(حج یا عمرہ کی نیت سے )‘‘۔ (المائدۃ:۲)
ابن الفارس کہتے ہیں کہ اس کے چار بنیادی معنی ہیں:
۱۔ بنیاد اور اصل
۲۔ مرجع
۳۔ جماعت
۴۔ دین
پطرس بستانی اپنی کتاب محیط المحیط میں لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جامد ہے اور بچہ کی آواز سے ماخوذ ہے جب وہ بولنا سیکھنے سے پہلے أم ، أم وغیرہ سے شروع کرتاہے۔ (محیط المحیط)
اس سے اس کے اولین معانی ماں کے قرار پائے۔ لہذا ماں کی آغوش کے اعتبار سے انسان کا مسکن اولین بھی أمّ کے نام سے معروف ہوا۔
اس کے بنیادی معانی میں سے ایک معنی جماعت کے بھی ہیں یعنی قوم جسے أمت بھی کہتے ہیں : بالخصوص ایک نظریہ رکھنے والے افراد لہذا سورۃ البقرۃ میں ہے : ’’یہ ایک امت تھی جو گزر چکی ۔‘‘
اس کے بنیادی معانی میں سے دوسرا مطلب اصل اور بنیاد کے ہیں : أمّ القوم ۔ قوم کا سردار ، أم الرأس:دماغ، أم الخبائث : سب سے بڑی برائی ۔ بلکہ وہ مقام جہاں بہت سے أمر یا اشیاء آکر مرتکز ہوجاتی ہیں أم کہلاتاہے جیسے :أمّ القری : مکہ مکرمہ کو کہتے ہیں ، أمّ الکتاب: کتابوں کی اصل یا مرکز ۔ (تاج العروس ، الصحاح، القاموس)
الأُمَّۃُ: جس سے مراد وقت ، سنت ، زمانہ ، شریعت اور دین کے ہیں اور بعض مقامات پر اس سے مراد امام اور ھادی کے بھی بیان کیی گئے ہیں جیسے :
’’بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔‘‘(النحل:۱۲۰)
ابن قتیبہ نے بھی أمّۃ کے معنی دین امام اور جماعت کے تحریر کیی ہیں۔ (القرطین ۲/۱۳۲)
اور لطائف اللغۃ میں مصطفی اللبابیدی نے اس کے معنی بیان کیی ہیںکہ ایسا آدمی جس میں تمام خوبیاں جمع ہوں۔ (لطائف اللغۃ)
اس سے لفظ أمّی بھی نکلاہے جس کا لفظی مطلب ایسا شخص جو لکھنا پڑھنا نہ سیکھے ۔(لطائف اللغۃ)
آپ ﷺ کو اسی اعتبار سے امّی کہا جاتاہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ لیکن قرائن اور شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کیفیت قبل از نبوت کی تھی نبوت کے بعد آپ ﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا اس کی واضح شہادت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔
’’آپ اس سے قبل (قرآن کے نزول) نہ کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتے تھے۔‘‘(العنکبوت:۴۸)
’’مِن قَبلِہِ‘‘ کے کلمات اس أمر پر دلالت کررہے ہیں کہ بعد ازنبوت آپ نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔
أُمّی کا لفظ بعض اوقات عربوں کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن ایسے مقامات پر یہ لفظ اہل کتاب کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے۔ (تفصیل ۳/۱۹ ، ۳/۷۴)
اور یہی لفظ ماں اور والدہ کیلئے بھی استعمال ہوا جس کی جمع ’’امّہات‘‘ بیان کی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوئے ہیں:
آمّین ، إمام ، لإمام ، إماماً ، بإمامہم ، أئمۃ ، أم موسیٰ، ابن أم ، أم الکتاب ، أم القری ، أمک ، أمہ ، أمہا، أمی ، أمہات، أمہاتکم ، أمہاتہم ، أمۃ ، أمتکم ، أمم ، الأمم ، أمما ، أمامۃ، الأمّی ، أمیون ، الأمیین ۔
قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :
۱۔ ماں
’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے حمل میں رکھا۔‘‘(لقمان:۱۴)
۲۔ أصل ، بنیاد ، أساس
’’جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں۔‘‘(آل عمران:۷)
’’لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔‘‘(الرعد:۳۹)
۳۔ مرجع : پناہ کا ٹھکانہ
’’اور جس کی تول ہلکی ہوگی اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔‘‘ (القارعۃ:۸۔۹)
۴۔ مجمع : بڑی بستی
’’جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے۔‘‘(القصص:۵۹)
۵۔ ایک نبی کا پیروکار یا مذہب کے ماننے والے
’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے۔‘‘(البقرۃ:۲۱۳)
’’ہر امت کیلئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے ، جسے وہ بجالانے والے ہیں۔‘‘(الحج:۶۷)
۶۔ گروہ ، جماعت
’’جس وقت بھی کوئی جماعت ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔‘‘(الأعراف:۳۸)
’’اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا۔‘‘(الأعراف:۱۶۴)
’’بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔‘‘(النحل:۱۲۰)
۷۔ راہ ، طریقہ
’’کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک راہ پر اور ایک دین پر پایا ۔‘‘(الزخرف:۲۳)
’’یہ تمہاری امت ہے جوحقیقت میں ایک ہی امت ہے۔‘‘ (الأنبیاء:۹۲)
۸۔مدت ، وقت ، زمانہ
’’اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چُنی مدت تک کیلئے پیچھے ڈال دیں۔‘‘(ہود:۷)
’’اسے مدت کے بعد یاد آگیا۔‘‘ (یوسف:۴۵)
اس لفظ کا دوسرا حصہ أمّۃ اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔ إن شاء اللہ تعالیٰ
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

جب تصویر کی آفت نہ تھی

علمِ قیافہ و فراست کا عجیب واقعہ
از فضیلۃ الشیخ عمر فاروق السعیدی

ہادی ٔ برحق جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے بنی نوع انسان کی دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیی جو شرعی ، اخلاقی اور معاشرتی اصول وضوابط پیش فرمائے ہیں ۔ انہیں ’’عقل عیّار‘‘ پر پرکھ کر بے قیمت بنادینا بہت بڑی ضلالت اور گھاٹے کاسوداہے۔ لوگ اس راہ اور اس ضابطہ سے اعراض کرکے کسی صورت بھی امن وسکون نہیں پاسکتے ، خواہ مادی اعتبار سے کتنا ہی مال کیوں نہ جمع کرلیں، یا اسلحہ کے زور پر قوموں کو فتح کرلیں یا فکری اعتبار سے کیسے ہی فلسفے کیوں نہ بھگالیں۔

ان تعلیمات میں سے ایک ارشاد آپ ﷺ کا تصویر کے بارے میں ہے کہ ذی روح شے کی تصویر سے آپ انے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ جس جگہ یہ ہو رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ یہ کسب اور کاروبار لعنت کاکام ہے۔ یہ احکام ومسائل ان بندوں کیلئے بے حد آسان ہیں جنہیں اپنے اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے نبی اور رسول ہونے اور اسلام کے دین حق ہونے کا یقین ہو۔ اور یہ کہ فرشتے بھی کوئی چیز ہیں۔ ان کی اپنی ایک اہمیت ہے اور ہمیںضرورت ہے کہ وہ ہم پر ، ہمارے گھروں اور دکانوں میں نازل ہوں۔ اوراگر خدانخواستہ ایمان کی یہ بنیاد کمزور ہوتو پھر حیلے بہانے سے ان تعلیمات کو ’’روشن خیال‘‘ سے منور کرنے کی سوراہیں نکل آتی ہیں۔ ونسأل اللہ العافیۃ
اور پھر منفی نتائج کی ذمہ داری سوفیصد ہم حیلہ باز لوگوں ہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کسی طرح بھی ظالم نہیں۔
تصویر کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللباس میں پورے دس باب ذکر کیی ہیں ۔
(کتاب اللباس ، باب التصاویر ، باب عذاب المصورین ، باب نقض الصُور ، باب ما وطئ من التصاویر ، باب من کرہ القعود علی الصُور ، باب کراہیۃ الصلاۃ فی التصاویر ، باب لا تدخل الملائکۃ بیتاً فیہ صورۃ ، باب من لم یدخل بیتاً فیہ صورۃ ، باب من لعن المصور ، باب من صور صورۃ ۔ ۔ ۔ احادیث نمبر ۵۹۴۹ تا ۵۹۶۳ )
معلوم کیاجانا چاہیی کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ یا کردیے گئے ہیں کیا کل ماضی میں نہ تھے؟ قانونی اور معاشرتی ضروریاتی یقیناً پہلے بھی ایسی ہی تھی تو لوگ اپنی یہ ضرورت کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’’علم قیافہ اور علم فراست‘‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور سے پوری کرتے تھے۔
جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی ۔أہونُ البلیتین ۔ کے طور پر ھنیئاً مریئاً بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے علمِ فراست کو ان سے اٹھا لیا ہے۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر :۴۰۷۲ ) (نیز البدایۃ والنہایۃ جز،۴۔ ص/۱۷)
میں آیا ہے ۔ بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک ، دانا اور صاحب فراست ہوتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کا عبید اللہ بن عدی عروئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں۔ وہ یہیں کہیں رہتاہے۔ اور اس سے شہادت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہ راست معلوم کریں گے۔ محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جوبات انہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنی اور معلوم کی جائے جو صاحب واقعہ ہو۔
ہم پوچھتے پوچھتے آگے بڑھے تو ہمیں ایک آدمی نے کہا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے اور دیکھنے سے ایسے لگتاہے جیسے کہ کوئی پانی کا سیاہ مشک ہو۔ (البدایۃ والنہایۃ میں ہے ’’گدھ‘‘ کے مشابہ بیان کیا گیاہے )
ہم جلدہی اس کے پاس جاپہنچے ۔ہم نے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا۔ عبید اللہ نے کہا : وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ جبکہ وہ ڈھاٹے سے اپنا سر اور منہ لپیٹے ہوا تھا۔ اور وحشی اس کی صرف آنکھیں یا پاؤں ہی دیکھ سکتاتھا۔
تو اس نے اس کی طرف دیکھااورکہا : نہیں، البتہ اتنا یاد پڑتاہے کہ مکہ میں عدی بن خیار نے ابوالعیص کی بیٹی امّ قتال نامی ایک عورت سے شادی کی تھی۔
عورت نے ایک بچے کو جنم دیا تو مجھے کوئی دایہ ڈھونڈنے کا کہا گیا چنانچہ جب دایہ آئی تو میں نے اس کا بچہ اٹھا کر اس دایہ کے حوالے کیا تھا۔ مجھے لگتاہے کہ تیرے یہ پاؤں اسی جیسے ہیں۔ [اور اس نے بخوبی پہچان لیا اور ٹھیک پہچانا] اور یہ بچہ اس نے تقریباً پچاس سال پہلے دیکھا تھا۔ (فتح الباری)
پھر عبید اللہ نے اپنے سراور منہ سے اپنی پگڑی ہٹالی اور پوچھا کہ کیا تم ہمیں حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی تفصیل بیان کرسکتے ہو؟ اس نے کہا : کیوں نہیں؟
اس نے تفصیل بتائی کہ مکہ کے طعیمہ بن عدی کوجناب حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر میں قتل کیا تھا۔ میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا : اگر تو میرے چچا کے بدلے حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کردے تو تو آزاد ہوگا۔ چنانچہ عینین یعنی أحد کے سال جب قریشی جنگ کیلئے نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ میدان میں جب صفیں آمنے سامنے ہوئیں تو قریش کی طرف سے سباع بن عبد العزی خزاعی نے مسلمانوں کو مقابلے کیلئے للکارا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے میں نکلے ، اور بولے : اے سباع ! اوئے ابن امّ انمار کے بیٹے، جو عورتوں کی فرجیں کاٹتی ہے۔ یعنی وہ لڑکیوں کے ختنے کرتی ہے۔ اور یہ عمل عرب میں ہوتاہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔ تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتاہے۔ چنانچہ حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایسا وار کیاکہ وہ کل گزشتہ کی طرح ہوگیا (یعنی قتل ہوگیا) اور میں حمزہ رضی اللہ عنہ کی گھات میں ایک چٹان کے نیچے چھپا ہوا تھا جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس کی ناف کے نیچے کانشانہ لے کر اپنا بھالا دے مارا۔ جو اس کی رانوں کے درمیان میں سے آرپار ہوگیا ، اور یہ اس کی زندگی کے آخری لمحات تھے۔ [ اور پھر میں لشکر گاہ میں اطمینان سے جا بیٹھا، کیونکہ میرا مقصد پورا ہو گیا تھا ] پھر قریشی مکہ واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ آگیا ۔ [اور مجھے آزادی مل گئی] پھر میں مکہ ہی میں رہنے لگا حتی کہ (فتح مکہ کے موقعہ پر) یہاں اسلام کی اشاعت ہوگئی ۔تو میں طائف چلا گیا۔بہت پریشان تھا ، سوچتا تھا کہ شام یا یمن وغیرہ کی طرف چلا جاؤں میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھے کہا : تیرا افسوس ! وہ محمد ﷺ اللہ کی قسم ! جوکوئی اس کے دین میں داخل ہوجائے اورحق کی شہادت کا اقرار کر لے ، وہ اسے کسی طرح قتل نہیں کرتے۔چنانچہ اہل طائف نے اپنا وفد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا اور مجھے بتلایا گیا کہ محمد ﷺ وفود کے درپے آزاد نہیں ہوتے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ چلا آیا اور آپ ﷺ کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ جب آپ نے مجھے دیکھا تو بولے : وحشی ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ پوچھا : کیا تو نے ہی حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا : بات ایسے ہی ہے جیسے آپ کو پہنچی ہے۔ آپ ا نے فرمایا: کیا تو اپنا چہرہ مجھ سے چھپا نہیں سکتا ؟
پھر میں وہاں سے نکل آیا اور جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو میں نے اپنے دل میں کہا : کیوں نہ ہوکہ میں اس طرف نکلوں ، اور ہوسکے تو اسے قتل کردوں شاید اس طرح میرے جرم قتلِ حمزہ رضی اللہ عنہ کی کوئی تلافی ہوجائے۔
چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک ٹوٹی ہوئی دیوار پر کھڑا ہے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی سیاہی مائل اونٹ ہو ، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، تو میں نے اس کی چھاتی کا نشانہ لے کر اپنا بھالا مارا جو اس کے کندھوں کے آر پار ہوگیا۔ اور پھر قریب سے ایک انصاری اچھلا اور اس نے تلوار سے اس کی کھوپڑی گردن سے جدا کردی (اور یہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ تھے)پھر ساتھ کے گھر پر سے ایک لونڈی نے پکار لگائی ، ہائے افسوس امیر المؤمنین! ایک کالے غلام نے اسے قتل کرڈالا۔ وحشی نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ایک بہترین بندے کو قتل کیا تھاتو پھر سب سے بدترین آدمی کاکام بھی میں نے ہی تما م کیا۔
ہمارا استدلال اس واقعہ سے یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام اور نا جائز ٹھہرایا ہے اس کا بدلہ بلکہ نعم البدل حلال اور پاکیزہ صورت میں یقیناً مہیا فرمایا ہے۔ اب لوگوں کا انتخاب ہے کہ وہ حلال کی طرف راغب ہوتے ہیں یا حرام کی طرف۔
صحابہ میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق آتاہے کہ بہت بڑے صاحب فراست اور صاحب قیافہ تھے۔ اور یہودیوں میں مجزز مدلجی کا واقعہ تو مشہور ومعروف ہے کہ اس نے سیدنا زید اور اسامہ رضی اللہ عنہما کے پاؤں دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ : ’’إنَّ ہٰذِہِ الأَقدَامَ بَعضُہَا مِن بَعضٍ ‘‘ یہ قدم ایک دوسرے میں سے ہیں۔ حالانکہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ گورے رنگ کے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کالے کلوٹے تھے۔
فنگر پرنٹس (نشانِ انگوٹھا) تو اب تک لازمی اور ضروری کاغذات میں مستعمل ہیں بلکہ شناختی علامات میں سے سب سے بڑھ کر قابل اعتماد یہی علامت ہے۔ اگر اس علم اور فن کا احیاء کیا جائے تو مسلمان مرد اور خواتین تصویر کی قباحت سے یقینا بچ سکتے ہیں ۔
وصلی اللہ علی النبی محمد وعلی آلہ وصحبہ أجعین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ

از عبدالرشیدعراقی

کائنات نے اپنی بقا کیلئے کبھی اشخاص کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے مگریہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اس عالم رنگ وبو میں جو زندگی بھی نظر آتی ہے وہ چند باہمت اشخاص کی جدوجہد کا نتیجہ ہے یہ شخصیتیں اگرچہ دنیا سے اٹھ جاتی ہیں مگر ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ موت ان کے جسموں کو فنا کردینے پر قدرت رکھتی ہے مگر ان کی عظمت اس کی دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہتی ہے ۔یہ لوگ اپنے پیراہن خاکی میں زندہ نہ سہی مگر اپنے اعمال وافعال ، خیالات وتصورات میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جیتے ہیں۔ اپنے رفیق اعلیٰ کی قربت انہیں اس دنیا سے دور نہیں کرتی۔ انسانیت کے قافلے ان کے نقش پا کو دیکھ کر فوراً پکار اٹھتے ہیں ۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
مرحوم شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کاشمار بھی انہی چند خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتاہے وہ ایک فرد نہیں تھے ، بلکہ اپنی ذات میں ایک تحریک ، ایک انجمن تھے اس لئے ان کی موت ایک فرد کی موت نہیں ، بلکہ ایک ادارہ کی موت ہے۔ ایسی باکمال شخصیتیں صدیوں بعد پیداہوتی ہیں۔ اور ایسی شخصیتوں کے بارے میں شاعر مشرق نے فرمایا تھا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا سلفی مرحوم بیک وقت ایک جید عالم دین بھی تھے اور مجتہد بھی ، مفسر قرآن بھی اور محدث بھی ، مؤرخ بھی اور محقق بھی ، خطیب بھی اور مقرر بھی ، معلم بھی اور متکلم بھی ، ادیب بھی اور نقاد بھی ، دانشور بھی اور مبصر بھی مصنف بھی اور سیاستدان بھی ۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی : تفسیر قرآن ، حدیث ، اسماء الرجال ، تاریخ وسیر اور فقہ پر ان کو عبور کامل حاصل تھا ۔ حدیث اور تعلیقات حدیث پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ :
’’برصغیر (پاک وہند) میں علمائے اہلحدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ایسی دوشخصیتیں گزری ہیں جنہوں نے حدیث کی مدافعت ، نصرت اور حمایت میں اپنی زندگیاں وقف کررکھی تھیں۔ جب بھی کسی طرف سے حدیث پر ناروا قسم کی تنقید کی گئی تو مولانا امر تسری اور مولانا سلفی رحمہما اللہ تعالیٰ فوراً اس کا نوٹس لیتے تھے اور معترضین کا دلائل سے جواب دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اوران کی قبروں کو روشن رکھے۔ اب یہ ڈیوٹی محترم حافظ عبد القادر روپڑی اور خاکسار( عطاء اللہ حنیف) انجام دے رہا ہے۔ جب بھی حدیث کے خلاف کوئی مضمون یا رسالہ ، کتاب وغیرہ شائع ہوتی ہے۔ تو حافظ روپڑی صاحب اور خاکساراس کا فوراً نوٹس لیتے ہیں۔
اور دلائل سے معترض کے اعتراضات کا جواب شائع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محنت کو قبول فرمائے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے نیزغیر معمولی حافظہ سے قدرت نے نوازا تھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے۔ ملکی سیاسیات سے نہ صرف یہ کہ باخبر تھے بلکہ اس پر اپنی ناقدانہ رائے بھی رکھتے تھے ۔ برصغیر کی سیاسی وغیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے۔ عالم اسلام کی تحریکات سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے۔
ان کی علمی ودینی خدمات کے علاوہ سیاسی تحریکات میں بھی ان کی خدمات قدرکے قابل ہیں۔ تحریک استخلاص وطن کے سلسلہ میں کئی بار اسیر زندان بھی رہے۔
علم وفضل اور اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم جامع الکمالات تھے بہت زیادہ کریم النفس اور شریف الطبع انسان تھے ۔اپنے پہلو میں ایک درد مند دل رکھتے تھے ۔کریمانہ اخلاق اور صفات کے حامل تھے یہ طبیعت میں قناعت تھی۔ جاہ وریاست کے طالب نہ تھے۔ مردم شناس تھے خودپسندی اور نخوت سے نفرت تھی بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے ۔سادہ لباس پہنتے تھے اور سادہ لباس میں جمعیت اہلحدیث کے اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے ۔ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے ۔ایک دفعہ ایک اجلاس میں تہمد پہنے شریک اجلاس ہوئے تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ امیر جمعیت اہلحدیث جو اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے نے فرمایا کہ
’’میں بحیثیت امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان ناظم اعلیٰ صاحب کو حکم دیتاہوں کہ آئندہ اس لباس میں اجلاس میں شرکت نہ کیا کریں بلکہ شلوار اور شیروانی پہن کر آیا کریں۔‘‘
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ایک کامیاب مصنف بھی تھے ۔ان کی اکثر تصانیف حدیث کی تائید وحمایت اور نصرت ومدافعت میں ہیں۔ آپ کی تصانیف کی اجمالی فہرست درج ذیل ہے:
۱۔مشکوۃ المصابیح مترجم
۲۔امام بخاری کا مسلک
۳۔واقعہ افک
۴۔مسئلہ حیات النبی ﷺ
۵۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز
۶۔زیارۃ القبور
۷۔ سنت قرآن کے آئینہ میں
۸۔مقام حدیث ۹۔حدیث کی تشریعی اہمیت
۱۰۔حجیت حدیث آنحضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں ۱۱۔جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث
۱۲۔شرح المعلقات السبع
۱۳۔اسلام کی حکومت صالحہ اور اس کی ذمہ داریاں
۱۴۔اسلامی نظام حکومت کے ضروری اجزاء
۱۵۔اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ
۱۶۔تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تجدیدی مساعی ۱۷۔خطبات سلفیہ
۱۸۔مقالات مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم
مولانا سلفی رحمہ اللہ کی تصانیف کے عربی تراجم
۱۔موقف الجماعۃ الاسلامیہ من الحدیث النبوی ، دراسۃ نقدیۃ ومسلک الاعتدال للشیخ المودودی،(جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اور مسلک اعتدال)
۲۔رسالہ فی مسألۃ حیات النبی ﷺ (مسئلہ حیات النبی ﷺ )
۳۔مسألۃ زیارۃ القبور فی ضوء الکتاب و السنۃ (زیارۃ القبور )
۴۔حرکۃ الانطلاق الفکری وجہود الشاہ ولی اللہ دہلوی فی التجدید (تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تجدیدی مساعی )
۵۔السنۃ فی ضوء القرآن (سنت قرآن کے آئینہ میں)
۶۔مکانۃ السنۃ فی التشریع الاسلامی (حدیث کی تشریعی اہمیت)
۷۔صفۃ صلوۃ النبی ﷺ (رسول اکرم ﷺ کی نماز )
۸۔تخطیط وجیز للحکومۃ الاسلامیہ (اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ )
۹۔مذہب الامام البخاری (امام بخاری کا مسلک)
جماعتی خدمات
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم قیام پاکستان سے پہلے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی مجلس عامہ کے رکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے مغربی پاکستان جمعیت اہلحدیث کی بنیاد رکھی۔ تو مولانا سلفی کو ناظم اعلیٰ بنایا گیا۔ ۱۹۶۳ئ؁ میں مولانا غزنوی نے انتقال کیا تو مولانا سلفی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر منتخب ہوئے ۔جامعہ سلفیہ کے قیام میں بھی مولانا سلفی کی خدمات قابل قدر ہیں۔
ولادت
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ۱۸۹۵ء؁ مطابق ۱۳۱۴ھ؁ میں قصبہ ڈہونیکی تحصیل وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام مولوی کلیم محمد ابراہیم تھا جو حازق طبیب ہونے کے علاوہ بہترین کاتب بھی تھے ۔ مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع ترمذی (عربی) اور مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ کا مترجم قرآن مجید (طبع لاہور) آپ ہی کے فن خوشنویسی کے شاہکار ہیں۔
تعلیم
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم نے مختلف علوم اسلامیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی ۔ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
۱۔والد محترم مولوی کلیم محمد ابراہیم
۲۔مولانا عبدالستار بن استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی
۳۔مولانا عمر الدین وزیر آبادی
۴۔مولانا عبد الجبار عمر پوری
۵۔مولانا مفتی محمد حسن امرتسری
۶۔مولانا سید عبد الغفور غزنوی
۷۔مولوی حکیم محمد عالم امر تسری
۸۔مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ اجمعین
دہلی میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کے درس قرآن میں بھی شریک ہوتے رہے۔
وفات
تاریخ وفات ۲۰ فروری ۱۹۶۸؁ءبمطابق ذی قعدہ ۱۳۸۷ ھ؁گوجرانوالہ میں انتقال کیا عمر (۷۳) سال تھی۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبیﷺ

ازمحمد طیب معاذ
قسط نمبر : 5

قارئین کرام !ویسے تو سیدالعابدین محمد رسول اللہ ا ہمیشہ ہی دعا ومناجات میں مصروف رہتے تھے مگر نمازِ فجر کے بعد تو رسول اللہ ا اذکار کا خصوصی اہتمام کرتے تھے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صبح کے وقت برکت اور رحمتِ الٰہی کیلئے خاص اہمیت رکھتاہے درج ذیل سطور میں معمولات محمدیہ اور مأمورات نبویہ میں وارد شدہ صبح وشام کے مسنون اذکار رقم کیا ہے۔
یادرہے !کہ یہاں پر صرف وہی دعائیں اور احادیث ذکر کی ہیں جن کسی مشہور محدثین نے صحیح قرار دیا ہے یقینا ان دعاؤں میں ایک خاص قسم کی تاثیر ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ’’اسوۂ حسنہ ‘‘کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
۱۔ اَللّٰهمَّ بِکَ أَصبَحنَا ، وَبِکَ أَمسَينَا، وَبِکَ نَحيا ، وَبِکَ نَمُوتُ ، وَإِلَيکَ النُّشُورُ ۔(ابن ماجه :۳۸۶۸، اسناده قوی)
۲۔أَصبَحنَا وَأَصبَحَ المُلکُ لِلّٰهِ ، وَالحَمدُ لِلّّهِ۔ ولاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحدَهُ لاَ شَرِيکَ لَهُ لَهُ المُلکُ وَلَهُ الحَمدُ وَهُوَ عَلَي کُلِّ شَئٍ قَدِيرٌ، رَبِّ أَسأَلُکَ خَيرَ مَا فِي هَذَا اليومِ (خَيرَ مَا فِي هَذَهِ اللَّيلَةِ) وَخَيرَ مَا بَعدَه(وَخَيرَ مَا بَعدَهَا)۔ وَأَعُوذُ بِکَ مِن شَرِّ هَذَا اليومِ (مِن شَرِّ هَذِهِ اللَّيلَةِ) وَشَرِّ مَا بَعدَهُ ، (وَشَرِّ مَا بَعدَهَا) ۔ رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ وَسُوئِ الکِبَرِ ، رَبِّ أَعُوذُبِکَ مِن عَذَابٍ فِي النَّارِ ، وَعَذَابٍ فِي القَبرِ۔(عبد الله بن مسعود ، مسلم:۲۷۲۳)
( أَمسَينَاوَاَمسَي المُلکُ لِلّٰهِ ۔ ۔ ۔ )
ملحوظہ : رات کے وقت بریکٹ میں دے گئے الفاظ ادا کریں۔
۳۔ اَللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰاتِ وَالأَرضِ عَالِمَ الغَيبِ وَالشَّهَادَةِ ، رَبَّ کُلَّ شَيئٍ وَمَلِيکَهُ و َمَالِکَهُ ، أَشهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ ، أَعُوذُ بِکَ مِن شَرِّ نَفسِي وَمِن شَرِّ الشَّيطَانِ وَشِرکِهِ ِوَأَنِ اقتَرِفَ عَلَي نَفسِي سُوء اً أَو أَجُرَّهُ إِلَي مُسلِمٍ:(عن أبی بکر ، ترمذی :۳۳۸۹، ابوداؤد :۵۰۶۷ إسناده صحيح )
۴۔بِسمِ اللّٰهِ الَّذِي لَا يضُرُّ مَعَ اسمِهِ شَيئٌ فِي الأَرضِ وَلَا فِي السَّمَائِ وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ ۔ ( تین مرتبہ صبح اور تین مرتبہ شام ) (عثمان بن عفان ، ابن ماجہ:۳۸۶۹ وإسنادہ صحیح )
جو شخص یہ دعا تین تین دفعہ صبح وشام پڑھتا ہے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔
۵۔ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسأَلُکَ العَافِيةَ فِي الدُّنيا وَالآخِرَةِ ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسأَلُکَ العَفوَ وَالعَافِيةَ فِي دِينِي وَدُنياي وَأَهلِي وَمَالِي ، اَللّٰهُمَّ استُر عَورَاتِي ، وَآمِن رَوعَاتِي ، اللّٰهُمَّ احفَظنِي مِن بَينَ يدَي ، وَمِن خَلفِي ، وَعَن يمِينِي وَعَن شِمَالِي ، وَمِن فَوقِي ، وَأَعُوذُبِکَ وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَن أُغتَالَ مِن تَحتِي ۔( ابوداؤد: ۵۰۷۳ حسنه الحافظ فی أمالی الأذکار )
۶۔ أَصبَحنَا وَأَصبَحَ المُلکُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِينَ ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسأَلُکَ خَيرَ هَذَا اليومِ فَتحَهُ وَنَصرَهُ وَنُورَهُ وَبَرَکَتَهُ وَهِدَايتَهُ وَأَعُوذُبِکَ مِن شَرِّ مَا فِيهِ وَشَرِّ مَا بَعدَهُ ۔(ابوداؤد ۵۰۸۴، وسنده حسن)
۷۔ أَصبَحنَا عَلَي فِطرَةِ الإِسلاَمِ ، وَکَلِمَةِ الإِخلاَصِ ، وَدِينِ نَبِينَا مُحَمَّدٍ ﷺ وَمِلَّةِ أَبِينَا إِبرَاهِيمَ حَنِيفاً مُسلِماً ، وَمَا کَانَ مِنَ المُشرِکِينَ۔ (أحمد۳/۴۰۶و۴۰۷ وإسناده صحيح)
۸۔ يا حَي ، يا قَيومُ بِکَ أَستَغِيثُ : فَاصلِح لِي شَأنِي وَلاَ تَکِلنِي إِلَي نَفسِي طَرَفَةَ عَينٍ۔ (الحاکم ۱/۵۴۵حسن)
یہ دعا رسول اللہ ا نے اپنی چہیتی بیٹی سیدتنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بطور وصیت پڑھنے کا حکم دیا۔
۹۔اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسأَلُکَ عِلماً نَافِعاً ، وَرِزقاً طَيباً ، وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً ۔(ابن ماجه/۹۲۵وله شاهد عند الطبرانی فی معجم الصغير بسند صحيح)
۱۰۔ حَسبِي اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيهِ تَوَکَّلتُ وَهُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِيمِ ۔(ابن السنی عمل اليوم والليلة (۷۰) سنده صحيح)
یہ دعا صبح وشام سات سات مرتبہ پڑھنے والے کیلئے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت کے ان تمام کاموں سے کافی ہوجاتاہے جو اسے فکر مند کرتے ہیں ۔
۱۱۔ اَللّٰهُمًّ أَنتَ رَبِّي لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنتَ خَلَقتَنِي وَأَنَا عَبدُکَ وَأَنَا عَلَي عَهدِکَ وَوَعدِکَ مَا استَطَعتُ أَعُوذُبِکَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ ، أَبُؤُ لَکَ بِنِعمَتِکَ عَلَي ، وَأُبُوئُ بِذَنبِي فَاغفِرلِي إِنَّهُ لَا يغفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنتَ ۔ (بخاری ،۱۱/۸۳۔۸۴ الدعوات)
اس دعا کو رسول اللہ ﷺ نے سید الإستغفار کہا اور فرمایا کہ جو شخص یقین کی حالت میں اسے شام کے وقت پڑھ لے اور اسی طرح رات فوت ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا اسی جو صبح کے وقت پڑھے اور شام تک فوت ہوجائے وہ بھی جنت میں داخل ہوگا۔
۱۲۔ سُبحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمدِهِ۔( سو مرتبه صبح سو مرتبه شام) (بخاری ، ۱۱/ ۱۷۳ ومسلم: ۲۶۹۲)
جو شخص اسے صبح شام پڑھے گا قیامت کے دن کوئی آدمی اس سے افضل چیز لیکر نہیں آئے گاجو یہ لیکر آیا ہے۔سوائے اس شخص کے جو اس کی مثل کہے یا اس سے زیادہعمل کرے گا۔
۱۳۔ لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لاَ شَرِيکَ لَهُ ، لَهُ المُلکُ وَلَهُ الحَمدُ وَهُوَ عَلَي کُلِّ شَئ قَدِيرٌ۔ (صبح ، شام دس دس مرتبہ) (ابوداؤد :۵۰۷۷ ، أحمد :۴/۶۰ وإسناده صحيح)
جو شخص ان کلمات کو ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دس گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کی دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب دیا جاتاہے اور وہ شام تک شیطان کے شر سے محفوظ رہتاہے۔اور اگر شام کویہ کلمات کہے تو صبح تک یہ فضیلت حاصل رہتی ہے۔
لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّهُ وَحدَهُ لاَ شَرِيکَ لَهُ ، لَهُ المُلکُ وَلَهُ الحَمدُ وَهُوَ عَلَي کُلِّ شَئٍ قَدِيرٌ۔ (سو مرتبہ)( بخاری : ۱۱/۱۶۸و ۱۶۹ الدعوات)
جو شخص اسے دن میں سو مرتبہ پڑھ لے اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ہوگا اور اس کیلئے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور اس دن شام تک شیطان سے اس کیلئے بچاؤ رہے گا اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لیکر نہیں آئے گا مگر جس نے اس سے زیادہ عمل کیا ہوگا۔
۱۴۔ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ۔ (صحيح الترمذی :۳۶۰۴)
جوشخص شام کے وقت درج بالا دعا تین دفعہ پڑھ لے تو اسے اس رات زہریلے جانور کا ڈنگ نقصان نہیں پہنچائے گا ۔
۱۵۔’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلَي نَبِينَا مُحَمَّدٍ۔ (صحيح الترغيب والترهيب :۱/۲۷۳)
نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص صبح شام دس دس مرتبہ مجھ پر درود پڑھے اسے قیامت کے دن میری شفاعت حاصل ہوگی۔
۱۶۔ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَصبَحتُ أُشهِدُکَ وَأُشهِدُ حَمَلَةَ عَرشِکَ وَمَلاَئِکَتَکَ وَجَمِيعَ خَلقِکَ أَنَّکَ أَنتَ اللّٰهُ لآَاِلٰهَ إِلاَّ أَنتَ وَحدَکَ لاَ شَرِيکَ لَکَ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبدُکَ وَرَسُولُکَ۔ (ابوداؤد:۴/۳۱۷)
۱۷۔ رَضِيتُ بِاللّٰهِِ رَبًّا وَّبِالإِسلاَمِ دِيناً وَّبِمُحَمَّدٍ نَّبِياًّ۔ (صحيح الترمذی ۳/۱۴۱ . للألبانی رحمه الله )
جو شخص یہ دعا تین تین مرتبہ صبح وشام پڑھے تو اللہ تعالیٰ پرحق ہوجاتاہے کہ اسے راضی کرے ۔
۱۸۔آیت الکرسی۔ (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر: ۲۵۵)
۱۹۔ آخری تین سورتیں (سورت الإخلاص، الفلق ، والناس )
۲۰۔ سُبحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمدِهِ عَدَدَ خَلقِهِ وَرِضَا نَفسِهِ ، وَزِنَةَ عَرشِهِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِهِ۔ (تین مرتبہ صبح) (مسلم :۲۷۲۶)
۲۱۔ اَللّٰهُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی ، اَللّٰهُمَّ عَافِنِی فِی سَمعِی ، اَللّٰهُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی ، لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنتَ اَللّٰهُمَّ إِنَّی أَعُوذُبِکَ مِنَ الکُفرِ وَالفَقرِ وَأَعُوذُبِکَ مِن عَذَابِ القَبرِ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنتَ ۔( تین تین مرتبہ صبح وشام) ( أبوداؤد ۴/۳۲۴)
قارئین کرام! اس مضمون کی تیاری درج ذیل کتب میں سے کی گئی ہے ۔اور ہر دعا صحیح سند کیساتھ ثابت ہے۔
۱۔ زاد المعاد فی ھدی خیر العبادلابن القیم تحقیق الشیخ شعیب الارنؤوط۔
۲۔حصن المسلم فضیلۃ الشیخ سعید بن علی القحطانی مترجم الشیخ عبد السلام بن محمد
۳۔24 گھنٹوں میں 1000 سنتیں مترجم ڈاکٹر اسحاق زاہد جزاہم اللہ جمیعاً
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

Sunday, June 28, 2009

بسم اللہ کی فضیلت اور پڑھنے کے مواقع

از محمد شعیب مغل
آخری قسط

عبد الحق رحمہ اللہ نے ’’احکام الکبری‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع عبد الحمید بن جعفر نے کیا ہے ، اور وہ ثقہ ہے اور احمد وابن معین رحمہما اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے اور سفیان الثوری رحمہ اللہ اسے ضعیف بیان کرتے ہیں مگر وہ اس سے روایت بھی کرتے ہیں اور نوح مشہور ثقہ راوی ہے۔(نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ۱/۳۴۳)
بطریق محفوظ یہ حدیث ثابت ہے سعید المقبری سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں کرتے ۔ جیسے اسے روایت کیا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’من حدیث ابن ابی ذئب عن سعید المقبری عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’الحمد للہ ،ھی : ام القرآن ، وہی السبع المثانی والقرآن العظیم۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’الحمد للہ‘‘ یہ ام القرآن اور سبع المثانی اور قرآن عظیم ہے۔ اور اسے روایت کیا ہے ابوداؤد اور ترمذی نے اور ’’حسن صحیح ‘‘ کہاہے۔(نصب الرایۃ ۱/۳۴۴)
امام الزیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو اسے پڑھتے سنا ہو اور گمان کیا ہو کہ یہ فاتحہ کی آیت ہے اور کہا : بیشک یہ فاتحہ کی آیت ہے ۔ مگر ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے کہ یہ قرآن میں سے ہے ، لیکن دو مسئلوں میں تنازعہ پڑجاتاہے۔
۱۔یہ فاتحہ کی آیت ہے۔
۲۔ اس کا حکم سراً اور جہراً فاتحہ کی تمام آیتوں کی طرح ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یقینا یہ مستقل آیت ہے قبل السورۃ الفاتحہ اور نہ کہ فاتحہ کی آیت ہے۔(نصب الرایۃ ۱/۳۴۳)
امام الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد موقوف اور مرفوع دونوں طریقوں سے صحیح ہے۔
یقینا نوح ثقہ ہے اور دوسرے روات بھی اور موقوف مرفوع کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتی کیونکہ راوی بعض اوقات حدیث کو موقوف بیان کرتا مگر جبکہ اس نے اسے مرفوع روایت کیا ہوتاہے اور وہ ثقہ ہو تو یہ زیادتی (یعنی مرفوع) قبول کرنے کی زیادہ مستحق ہوتی ہے۔ (سلسلہ الصحیحہ ۳/۱۱۸۳)
قارئین کرام ! یہ وہ روایت ِ اساسی ہے جس کی بنیاد پر شافعیہ کا مسلک ہے پرجیسے ترددات العلماء اوپر بیان ہوئے اگر ہم انہیں یک طرفہ کریں اور اس روایت کو صحیح موقوفاً ومرفوعا تسلیم کریں تو پھر بھی اس سے مسلکِ شافعیہ کی مضبوطی قائم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن حکیم کا یہ امتیاز واعجاز ہے کہ اس میں خبر احاد واختلاف قابل قبول نہیں ہے ۔امام القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’ لأن القرآن لا یثبت بأخبار الأحاد ، وإنما طریقۃ التواتر القطعی الذی لا یختلف فیہ‘‘ (القرطبی ۱/۸۱)
کیونکہ قرآن خبر آحاد سے ثابت نہیں ہوتا اور بیشک اس کا طریقہ تواتر قطعی ہے جو اختلافات سے پاک ہو ۔ واللہ أعلم
المذہب الثانی :امام مالک اور ان کے متبعین کے استدلالات پر نظر
۱۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ أن النبی ﷺ وابا بکر وعمر کانوا یفتتحون الصلاۃ ب:الحمد للہ رب العالمین ‘‘ وفی روایۃ ’’عثمان‘‘ أیضاً۔ ( متفق علیہ)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک نبی کریم ﷺ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہمانماز کی ابتداء الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اور دوسری روایت میں ’’عثمان ‘‘ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔‘‘
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: إن سورۃ من القرآن ثلاثون آیۃ شفعت لرجل حتی غفر لہ وہی :’’تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ‘‘ (صحیح الترمذی ، حدیث نمبر :۲۳۱۵ حسن ، التعلیق الرغیب : ۳/۲۲۳ ، المشکاۃ :۲۱۵۳)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک قرآن کی ایک سورت جس کی تیس آیات ہیں اور وہ شخص کی شفاعت کرتی ہے یہاںتک کہ اسے معاف کروادے اور وہ ہے ۔تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ۔
۳۔ سورت العلق کی ابتداء بدون بسم اللہ ہوئی ہے اور یہ دلائل دلالت کرتے ہیں اس بات پر کہ ترک تسمیہ جائز ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
المذہب الثالث : ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بعض روایات میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل المدینہ ، اہل البصرہ اور جمہور کے مسلک کے استدلالات پر نظر
۱۔عن ابی ہریرۃ عن ابی بن کعب قال قال رسول اللہ ﷺ :’’مافی التوراۃ ولا فی الإنجیل مثل ام القرآن ، وہی السبع المثانی وہی مقسومۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ماسأل۔‘‘(ابن حبان ، جلد/۳ ، حدیث نمبر/۷۷۵۔ اسنادہ صحیح علی شرط مسلم و صححہ ابن خزیمۃ ، حدیث نمبر: ۵۰۰، ۵۰۱ ، وصححہ الحاکم ۱/۵۵۷) علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی واخرجہ الترمذی (۳۱۲۵) فی تفسیر القرآن و النسائی (۲/۱۳۹) فی الانکاح وأخرجہ الترمذی إیضاص (۳۱۲۵) صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان حققہ وخرج احادیثہ وعلق علیہ شعیب الأرنؤوط)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نہ تورات میں اور نہ ہی انجیل میں اس ام القرآن جیسی (سورت) ہے ، اور یہ سبع المثانی ہے ، اور یہ تقسیم ہوئی ہے رب اور اس کے بندے کے درمیان میں اور بندے کیلئے جو وہ سوال کرتاہے۔
۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس کسی نے نماز پڑھی اور ام القرآن اس میں نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین بار کہا مکمل نہیں ہوگی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا : اس کو تم اپنے نفس میں پڑھو میں نے بیشک رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تقسیم کردی صلاۃ( فاتحہ) اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی ، اور اب میرے بندے کیلئے وہ ہے جومانگتاہے ، پس جب بندہ کہتاہے ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، اور جب بندہ ’’الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ‘‘ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری ثنا بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے ’’مَالِکِ یَومِ الدِّینِ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور بعض بار کہا : میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کردیا ہے اور جب بندہ کہتاہے ’’إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتاہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندہ مجھ سے جو مانگے گا میں دوںگا۔ اور جب بندہ کہتاہے :’’اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم - غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’ہو لعبدی ولعبدی ما سأل‘‘ یہ میرے بندے کیلئے ہے اور بندہ جودعا مانگے میں دوں گا۔ اور بعض روایات میں ’’ہؤلاء لعبدی ولعبدی ما سأل‘‘ ہے۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحہ : ۳۹۵ ، نسائی :۹۱۰، ابوداؤد:۸۲۱، ترمذی :۲۹۵۳، ابن ماجہ :۷۳۷)
۳۔عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ فی سفر فنزل ، فمشی رجل من اصحابہ إلی جانبہ ، فالتفت إلیہ فقال: ألا أخبرک بأفضل القرآن ؟ قال : فتلأ علیہ ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر :۷۷۴ ، جلد ، ۳۔ اسنادہ صحیح ، وأخرجہ النسائی فی ’’عمل الیوم اللیلۃ ‘‘ حدیث نمبر (۷۳۳) وصححہ الحاکم ۱/۵۶۰ ووافقہ الذہبی)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے پس رکے تو وہاں سے ایک صحابی گزرے ، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ’’کیا میں تمہیں افضل قرآن کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس آپ نے تلاوت فرمائی :’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘
۴۔ عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ وابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما یستفتحون القرأۃ ب’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘(صحیح سنن النسائی ، حدیث نمبر :۸۶۷۔۸۶۸ ، جلد /۱)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما قراء ت کی ابتداء ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ سے کیا کرتے تھے۔
۵۔عن نعیم المجمر قال : صلیت وراء ابی ہریرۃ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم ثم قرأ بأم القرآن حتی بلغ ولا الضالین قال آمین وقال الناس آمین ویقول کلما سجد اللہ اکبر وإذا قام من الجلوس قال اللہ اکبر ویقول إذا سلم : والذی نفسی بیدہ إنی لاشبہکم صلاۃ برسول اللہ ۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
’’نعیم المجمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے میںنے نماز پڑھی پس انہوں نے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھی اور پھر أُمّ القرآن (فاتحہ) پڑھی یہاںتک کہ ’’ولا الضالین‘‘ پر پہنچے اور ’’آمین‘‘ کہا اور لوگوں نے بھی ’’آمین‘‘ کہا اور جب بھی وہ سجدہ کرتے تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب بیٹھ کر کھڑے ہوتے ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب انہوںنے سلام پھیر لیاتوکہاجس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک میں نے تمہیں رسول اللہ ﷺکی طرح نماز پڑھائی ہے۔‘‘
قارئین کرام! ان تمام احادیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ فاتحہ کی آیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل آیت ہے اور بعض روایتوں میں مذکور ہے بسم اللہ دو سورتوں کے درمیان تفریق کیلئے نازل ہواکرتی تھی۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : کان النبی ﷺ : لا یعرف فصل السورۃ حتی تنزل علیہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ (صحیح ابوداؤد ، حدیث نمبر :۷۰۷ ، جلد/۱)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ سورتوں کے درمیان تفریق نہ جانتے تھے یہاں تک کہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نازل ہوجاتی۔‘‘
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک یہ فاتحہ میں سے نہیں ہے پھر انہوں نے استدلال کیا جس سے امام القرطبی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے اور دوسروں نے بھی حدیث ’’ابو ہریرۃ: قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ما سأل۔ ‘‘ پھر فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں تو پھر کیا جواب ہے اس کا کہ ہم آپ کے ہاں کے قرآن میں بسم اللہ کو فاتحہ کی پہلی آیت دیکھتے ہیں؟ ہم کہیں گے: یہ ترقیم بعض اہل العلم کے قول کی بنا پرہے اس لئے آپ دیکھیں گے کہ باقی تمام سورتوں میں نہ تو ’’بسم اللہ ‘‘ کی ترقیم کی جاتی ہے اور نہ ہی اسے آیت گِناجاتاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسری سورت کی بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے۔‘‘ (الشرح الممتع، جلد/۳، صفحہ نمبر :۵۷، تفسیر القرطبی :۱/۹۳، اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء : صفحہ نمبر :۳۷۵ ، جلد/۶، فتوی عبد اللہ غدیان ، غبد الرزاق عفیفی نائب رئیس اللجنۃ ، عبد اللہ بن منیع / فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جلد/۲۲، صفحہ:۳۵۱، نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ۱/۳۴۳۔ میں یہ فتاوےٰ ملاحظہ فرمائیں۔

آیات فاتحہ کی تقسیم

الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ: اگر بسم اللہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے تو جیسے ہر شخص جانتا ہے کہ فاتحہ کی سات آیات ہیں پس ہم کیسے فاتحہ کی سات آیات کو تقسیم کریں گے جبکہ بسم اللہ کو ہم نے خارج کردیا ہے ؟
جواب : فاتحہ کو تقسیم اسطرح کیا جاسکتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ-پہلی آیت-الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ- دوسری آیت-مَالِکِ یَومِ الدِّینِ-تیسری آیت -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت -اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ-پانچویں آیت -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم-چھٹی آیت- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں آیت۔ اور یہ تقسیم معنوی اور لفظی اعتبار سے مطابقت رکھتی ہے ۔
لفظی مطابقت : اگر ہم فاتحہ کو اسطرح تقسیم کریں گے تو آیات میں مناسبت اور مقاربت پیدا ہوجائے گی، لیکن جب ہم کہتے ہیں :اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ - یہ چھٹی آیت ہے اور -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں تو اس کی طوالت سابقہ آیت سے مناسبت نہیں رکھتی ۔
معنوی مطابقت:اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے الصلاۃ کواپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا ۔ جب بندہ کہتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِین- تو اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : حمدنی عبدی ۔۔الخ (پیچھے حدیث دیکھئے ) آگے فرماتے ہیں : جب بندہ-إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے درمیان ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا۔ (اور درحقیقت یہ آیت درمیانی آیت ہے ) -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت ہے ۔ اور پانچویں ،چھٹی اور ساتویں آیت -اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ-ہے ۔ پس ابتدائی تین آیات اللہ رب العالمین کیلئے اور آخرکی تین آیات بندے کیلئے اوردرمیانی آیت اس کے اور اسکے رب کیلئے ہے۔ ( الشرح الممتع علی زاد المستقنع ۳! ۵۸۔۵۹، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر! ۱ !۱۰ ، مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ /۲۲!۳۵۰ )

بسم اللہ کیا جہراً پڑھیں؟

یہ مسئلہ بھی طوالت اور بحث سے خالی نہیں ہے مگر دو اقوال پر اکتفا کروںگا۔
۱۔کیونکہ اکثر احادیث جو نبی کریم ﷺ سے وارد ہیں سری ( منہ میں پڑھنا)قرأت پر دلالت کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تمام احادیث جو بسم اللہ کے جہراً (اونچی آواز سے پڑھنا) کے باب میں وارد ہوئی ہیں ضعیف ہیں۔ (الشرح الممتع ۳/۵۷، المغنی لابن قدامہ ۲/۱۴۹، مجموع الفتاوی شیخ الإسلام ۲۳/۲۷۵)
۲۔اور یہ جمہور علماء کا قول ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ قرآن کی مفرد آیت ہے نہ کسی سورت کی اور نماز میں اسے سراً پڑھاجائے۔ (مجموع الفتاویٰ شیخ الاسلام ۲۲/۳۵۱)
مگر ایک صحیح حدیث جہراً پر دلالت کرتی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے نعیم مجمر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی پس انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر فاتحہ پڑھی۔ ۔ ۔ ۔‘‘ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
اس بناء پر علماء کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ : بسم اللہ سراً پڑھنا افضل ہے اور جہراً جائز ہے پر مستقل مزاجی جہراً پر خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور سائر الصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا طرز دوران نماز سرا بسم اللہ کی قرات تھی۔ واللہ أعلم
محترم قارئین کرام! یہ ایک ادنی سے طالبعلم کی طرف سے ایک مختصرسی تحقیق اور کاوش ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں حق بتانے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اختتام: آخر میں ابن العربی رحمہ اللہ کے قول پر اختتام الکلام کرتاہوں ۔ فرماتے ہیں :
’’اور تیرے لئے یہ کافی ہے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے اختلاف اس میں ہیں اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں کرتا اور صحیح اخبار جو طعن سے پاک ہیں دال ہیں کہ بسم اللہ نہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی دوسری سورت کی سوائے صرف سورت النمل کی۔‘‘(التفسیر القرطبی ۱/۹۴)
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأزواجہ وذریاتہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین۔

مراجع الکتب

۱۔ تفسیر ابن کثیر /(اردو) تالیف : امام المفسرین حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی المتوفی ۷۷۴ ھ ، ترجمہ : امام العصر مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ
تخریج : کامران طاہر / تحقیق ونظر ثانی : حافظ زبیر علی زئی / مکتبہ اسلامیہ
۲۔ القرطبی الجامع لاحکام القرآن مؤلف : لأبی عبد اللہ محمد بن احمد الأنصاری القرطبی / اعاد طبعہ دار الأحیاء التراث العربی بیروت لبنان ۔
۳۔تفسیر القرآن العظیم / مؤلف : الإمام الجلیل الحافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر القرشی الدمشقی المتوفی ۷۷۴ ، قدّم : عبد القادر الأرناؤؤط ادارۃالمساجد المشاریع الخیریۃ الریاض
۴۔ الشرح الممتع علی زاد المستقنع / مؤلف : فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین / دار ابن الجوزی السعودیہ العربیہ
۵۔مختصر استدراک الحافظ الذہبی علی المستدرک ابی عبد اللہ الحاکم / مؤلف : العلامہ سراج الدین عمر بن علی بن احمد المعروف بابن الملقن توفی عام ۷۰۴ھ / تحقیق ودراسۃ : سعد بن عبد اللہ بن عبد العزیز آل حمید / دار العاصمۃ الریاض
۶۔صحیح ابن حبان ، بترتیب ابن بلبان / تالیف : الأمیر علاؤ الدین علی بن بلبان الفارسی المتوفی ۷۳۹ھ / حققه وخرّج احادیثہ وعلق علیہ : شعیب الأرنؤوط / مؤسسۃ الرسالۃ
۷۔نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ / مؤلف : الامام الحافظ البارع العلامہ جمال الدین ابی محمد عبد اللہ بن یوسف الحنفی الزیلعی المتوفی ۷۶۳ھ / ومع حاشیۃ التفسیۃ المہمۃ ’’بقیۃ الالمقی فی تخریج الزیلعی ‘‘ وتصحیح الصل نسخۃ بعنایۃ بالغۃ من ’’ادارۃ المجلس العلمی / دار نشر الکتب الإسلامیہ ، ۲شارع شیش محل لاہور پاکستان۔
۸۔صحیح سنن ابی داؤد باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الالبانی بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی الدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرس : زہیر الشاؤش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج ۔
۹۔صحیح سنن الترمذی باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الألبانی / بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرسہ / زہیرالشاوش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج۔
۱۰۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری / مؤلف : الامام الحافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی ۔ دار السلام الریاض
۱۱۔مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ /جمع ورتب : الفقیر الی اللہ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاہمی النجدی الحنبلی رحمہ اللہ وساعدہ ابنہ : محمد وفقہ اللہ : طبع بأمر صاحب الستمو الملکی ولی العہد المعظم فہد بن عبد العزیز آل سعود
۱۲۔فتاوی الجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والنتصار : جمع مترتیب : احمد بن عبد الرزاق الدویش : طبع ونشر مؤسۃالأمیرۃ العنودبنت عبد العزیز بن مساعد بن جلوی آل سعود الخیریۃ۔
۱۳۔حصن المسلم مسنون اذکار اور محققق دعائیں: ترتیب وتحقیق : فضیلۃ الشیخ سعید بن علی القحطانی : ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمن یوسف / دار السلام۔
۱۴۔التبیان فی تفسیر ام القرآن : الفہ : ابو زکریا عبد السلام بن عبدالرؤف الرستمی : جمعیۃ الاشاعۃ التوحید والسنۃ علی منہاج السلف الصالحین ، بشاور باکستان ۔
۱۵۔ صحیح سنن النسائی باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الالبانی بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی الدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرس زہیر الشاؤش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج ۔
۱۶۔ صحیح مسلم تصنیف للامام الحافظ ابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری النیسابوری ۲۰۶۔۲۶۱ مکتبہ بیت الافکار الدولیۃ ۔
۱۷۔ ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، تالیف: فضیلۃالشیخ ابو بکر جابر الجزائری الواعظ بالمسجد النبوی الشریف الناشر مکتبۃ العلوم و الحکم المدینۃ المنورۃ ! توزیع دار الفکر ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

وید میں رسالت محمدی ﷺ کی صداقت

از عبدالقدیر کانجو
ایک ہندو پروفیسر پنڈت ویر پرکاش کی تحقیق

حال ہی میں ہندی زبان میں ایک تحقیقی کتاب شائع ہونے پر پورے ہندوستان میں ایک تہلکہ مچ گیاہے اور اس سے سارے ہندوستان میں ایک شور بپاہوچکاہے۔ اس ہندی زبان میں شائع ہونے والی کتاب’’کالکی اوتار‘‘ (یعنی اس ساری کائنات کا رہبر یا پیغمبر کا لکھنے والا اگر کوئی مسلمان ہوتا تو نہ صرف اسے جیل بھیجا جاتا بلکہ اس کتاب کے شائع کرنے اور اسے تقسیم کرنے پر بھی سخت قسم کی پابندی عائد کی جاتی۔ اس اہم اور تحقیقی کتاب کے مصنف کا تعلق بنگالی نسل سے ہے اور وہ الہ آباد یونیورسٹی میں ایک اہم شعبے کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں جوکہ سنسکرت کے اسکالر اور بہت بڑے محقق پنڈت ویر پرکاش اپادپھ ’’برھمن ہندو‘‘ ہے۔
بڑی محنت اور تحقیق کے بعد اپنی اس علمی کاوش کو پنڈت ویرپرکاش نے آ۔ٹھ بہت بڑے پنڈتوں کے سامنے پیش کیا جو خود بھی تحقیق کے میدان میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں جن کا شمار اپنے وقت کے بڑے مذہبی دانشوروں اور مذہبی اسکالروں میں کیا جاتاہے ۔ ان پنڈتوں نے کتاب کو اول سے آخر تک پڑھنے کے بعد اس تحقیقی کتاب کو صحیح اور مسلمہ تحقیقی کام کو تسلیم کیاہے۔
ہندومت اور ہندؤوں کی جن اہم اور بڑی مذہبی کتابوں میں جس رہبر اور راہنما کا ذکر ’’کلکی اوتار‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے وہ در حقیقت عربستان کے باشندے جناب محمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر ہی صادق آناہے ۔ اس لئے ساری دنیا کے ہندؤوں کو چاہیی کہ وہ مزید کسی انتظار کی تکلیف نہ کریں بلکہ اس ہستی ’’کلکی اوتار‘‘یعنی پیغمبر اسلام ﷺ پر ایمان لے آئیں ۔ اسی کتاب کے مصنف جناب ویر پرکاش اور ان آٹھ پنڈتوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’ہندومت کے سمدھنے اور ماننے والے ابھی تک ’’کلکی اوتار‘‘ کے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ان کا یہ انتظار ایسا ہے جوکہ قیامت تک ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ یہ جس اعلیٰ ہستی کا انتظار کر رہے ہیں اس مقدس ہستی کا ظہور اس دنیا میں ہوچکاہے (یعنی وہ تشریف لاچکے ہیں) اور وہ اپنا کام مکمل کرکے اور اپنی مفوضہ ذمہ داری ادا کرکے چودہ سو سال قبل اس دنیا سے رحلت فرماگئے ہیں۔ پنڈت ویر پرکاش صاحب اپنی اس تحریر کے ثبوت کیلئے ہندؤوں کی مقدس کتاب ’’وید‘‘ سے دلیل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
۱۔ ’’وید‘‘ (ہندؤوں کی اہم اور مذہبی کتاب) میں مذکور ہے کہ ’’کلکی اوتار‘‘ اس دنیا میں بھگوان (اللہ تعالیٰ) کے آخری پیغمبر ہونگے جو ساری دنیا کی راہنمائی کرنے کیلئے بھیجے جائیں گے۔ اس حوالہ کو نقل کرنے کے بعد پنڈت صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بات صرف نبی علیہ السلام پر ہی صادق آتی ہے۔
۲۔ ہندومت کی ایک پیش گوئی کے مطابق ’’کلکی اوتار‘‘ (پیغمبر عالم) ایک دیپ یعنی جزیرہ میں پیدا ہونگے۔ ہندومت کے کہنے کے مطابق یہ عرب کا علاقہ ہے جو کہ ’’جزیرۃ العرب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
۳۔ ہندؤوں کی مقدس مذہبی اور دھرمی کتابوں میں ’’کلکی اوتار‘‘کے والد کا نام ’’وشنو بھگت‘‘ اور والدہ کا نام ’’سوماتب‘‘ بتایا گیاہے سنسکرت میں ’’وشنو‘‘ کے لفظی معنی ’’اللہ‘‘ اور ’’بھگت‘‘ کے معنی ’’بندہ‘‘ہے۔ اس لئے عربی میں ’’وشنو بھگت‘‘ کے معنی عبد اللہ ہوگا اور اسی طرح سنسکرت میں ’’سومانی‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا ’’امن وسلامتی‘‘ جس کو عربی میں ’’آمنہ‘‘ کہا جاتاہے جب کہ آپ ﷺ کے والد کانام بھی عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کا نام بھی آمنہ ہے۔
۴۔ہندؤوں کی بڑی بڑی مذہبی اور دھرمی کتابوں میں مذکور ہے کہ ’’کلکی اوتار‘‘کا معاش زندگی کھجور اور زیتون پر ہوگا نیز یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر قول وقرار کے سچے ہونگے اور سب سے زیادہ ایماندار ہونگے نیز وہ امن وسکون کی زندگی گزاریں گے۔ اس حوالے سے جناب پنڈت پرکاش صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ یہ بات بھی جناب محمد کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور پر ثابت نہیں ہوتی۔‘‘
۵۔’’وید‘‘ میں لکھا ہواہے کہ ’’کلکی اوتار‘‘ اپنے علاقہ کے معزز اور شریف خاندان میں پیدا ہوگا جب کہ یہ بات بھی عیاں ہے کہ جناب محمد ﷺ قریش کے معزز اور شریف خاندان میں پیدا ہوئے اور اسی قبیلہ کو مکہ میں انتہائی عزت واحترام کا مقام حاصل تھا۔
۶۔ ’’کلکی اوتار‘‘کو ’’بھگوان‘‘ (اللہ تعالیٰ) اپنے خاص قاصد (فرشتہ) کے ذریعہ ایک غار میں تعلیم دینگے۔ اس معاملہ میں یہ بھی انتہائی سچی بات ہے کہ جناب محمد ﷺ ہی وہ واحد شخصیت تھے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل امین علیہ السلام نے غار حراء میں تعلیم دی۔
۷۔ ہندؤوں کی ان کتابوں میں لکھا ہوا ہے ’’بھگوان‘‘ ’’کلکی اوتار‘‘کو ایک تیز گھوڑادینگے جس پر سوار ہوکر وہ ساری دنیا اور ساتوں آسمانوں کا چکر لگائیں گے ۔ نبی اکرم ﷺ کا براق پر سوار ہونا اور معراج والے واقعہ کی اس سے صداقت ہوتی ہے۔
۸۔ہندؤوں کی ان مذہبی ودھرمی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا ہے ’’کلکی اوتار‘‘ ( نبی ﷺ) کو بھگوان (اللہ تعالیٰ)آسمانی تائید اور زبردست نصرت پہنچاتے رہیں گے۔ جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی خاص مدد ونصرت اپنے فرشتوں کے ذریعہ کی تھی۔
۹۔ مزید لکھا ہوا ہے کہ ’’کلکی اوتار‘‘ گھڑ سواری ، تیر اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہونگے۔
اس کے متعلق جناب پنڈت ویر پرکاش صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ بڑا ہی اہم اور غو ر کرنے کے لائق ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’نیزوں ، تلواروں اور گھوڑوں کا زمانہ کب کا ہی ختم ہوچکاہے جب کہ اب جدید ترین ہتھیاروں یعنی ٹینک ، بندوقوں ، میزائلوں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے اب کسی تیر یا تلوار والے ’’کلکی اوتار‘‘ کا انتظار کرنا بڑی بے وقوفی اور حماقت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمانی کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ والے محمد ﷺ ہی اصل ’’کلکی اوتار‘‘ (پیغمبر عالم ﷺ ) ہیں۔ جن کا تذکرہ ہماری مقدس اور اہم مذہبی ودھرمی کتابوں میں موجود ہے مزید کسی اور ’’اوتار‘‘ کا انتظار غیر دانش مندانہ ہوگا۔
بے جانہ ہوگا اگر میں (مترجم) یہاں اسی سلسلہ میں وہ تحقیق بھی درج کردوں جوکہ عالمی ریسرچ اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ نے کی ہے ۔ بہاولپور یونیورسٹی میں ۱۹۸۱ء کو اپنے ایک لیکچر میں ہندؤوں کے دس مذہبی پرانوں میں سے ایک پران( مذہبی کتاب) کے حوالے سے کہا کہ ’’آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقہ میں پیدا ہوگا اس کی ماں کا نام ’’قابل اعتماد‘‘ اور باپ کا نام ’’ اللہ کا بندہ اور غلام‘‘ ہوگا۔ وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جاکر بسنے پر مجبور ہوگا اور پھر وہ اپنے وطن کو دس ہزار آدمیوں کی مددسے فتح کرے گا۔ جنگ میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہونگے کہ آسمان تک پہنچ جائیں گے۔ خطبات بہاولپور
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

قلعۂ اسلام اور نظریاتی محافظ

از عرفان قدیر

اسلام اور کفر کی کشمکش ازل سے ہے اور تا ابد جاری رہے گی ۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی روزِ اوّل سے ستیزہ کار رہا ہے۔
Coming events cast their shadows.
غلبہء اسلام نوشتہء دیوار ہے۔ اور قلعہء اسلام قلبِ کفر میں کھٹکتا مثلِ خار ہے۔ پاکستان کو اسلام سے جدا کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کے بے روح لاشے کو ممی بنا کر شیشے کے تابوت میں رکھ دیا جائے۔ روحِ اسلامی سے خالی پاکستان عہدِ جدید کی لبرل تہذیب کا غلاظت خانہ بن کر رہ جائے گا اور دشمنانانِ پاکستان اِسے ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
’’سرخ خطرے ‘‘ کے بعد اِنہوں نے ’’سبز خطرے‘‘ کا واویلا مچا رکھاہے۔ ’’اینٹی کمیونزم موومنٹ ‘‘ کے بعد اِنہوں نے ’’اینٹی اسلامو فاشزم موومنٹ‘‘ شروع کررکھی ہے۔ طبلِ جنگ تو سوویت یونین کی شکست وریخت کے ساتھ ہی بج گیا تھا۔ اب جنگ اپنے عروج پر ہے۔ یہ جنگ اپنے اندر وسعت پذیری لیی ہوئے ہے۔ یعنی عسکری محاذ کے علاوہ نظریاتی وثقافتی یلغار۔ عصرِ حاضر میں عسکری یلغار سے قبل دل ودماغ جیتے جاتے ہیں یاپھر اُنہیں شکست خوردہ بنا دیا جاتاہے۔شیطانی تکون پاکستانی سلامتی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ سامری کے بچھڑے کو پوجنے والے اور گائے کا پیشاب پینے والے ملکی سلامتی کیلئے چیلنج بن رہے ہیں۔
’’تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے۔‘‘--المائدۃ:۸۲--
ہندوبنیا پاکستان کے خلاف ’’آبی جارحیت ‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔یہودونصاریٰ نے پاکستان کے خلاف ’’ میڈیا وار‘‘ شروع کر رکھی ہے۔ یہ دشمنانِ پاکستان کی سازشوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ملک ’’ اقتصادی بحران‘‘ سے دوچار ہے۔یہ اعداء پاکستان کی چالوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ’’ ملکی امن وامان‘‘ تہہ وبالا ہے۔لیکن فرمانِ قرآن اہلِ پاکستان کے سامنے حل پیش کرتاہے اور کہتاہے : کہ غم نہ کرو یہ سازشیں تارِ عنکبوت ثابت ہوں گی اگر تم صاحبِ ایمان ہو۔
’’دل شکستہ نہ ہو ، غم نہ کرو ،تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔‘‘--آل عمران:۱۳۹--
اگر اہلیانِ پاکستان صاحبانِ ایمان وتقوی ہوں تودریاؤں کی سرزمین پانی کی بوند بوند کو نہ ترسے ۔دنیا کو غذائی اجناس مہیا کرنے والے دانے دانے کے محتاج نہ ہوں۔زرعی ملک غذائی قلت کا شکار نہ ہو۔
’’اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔‘‘--الأعراف:۹۶--
لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کو شاہراہِ ایمان پر گامزن کون کرے گا ؟؟؟
اے نظریاتی مملکت کے نظریاتی محافظو !!! یہ اہم ذمہ داری آپ کی ہے۔ اے وارثانِ انبیاء !!! اپنے مقام کا ا حساس کیجئے۔اے اسلام کے قلعوںمیں زیرِ تربیت سپاہِ اسلام !!! خود کو دفاعِ اسلام اور تحفظِ پاکستان کیلئے تیار کیجئے۔ بقولِ اقبال
گرصاحبِ ہنگامہ نہ ہوں، منبر ومحراب
دین بندئہ مومن کیلئے، موت ہے یا خواب
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فضائل سورتِ یسین

از حمزہ طارق

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔ أما بعد:
سورت یٰس مکی سورت ہے اس کی ۸۳ آیات ہیں اور پانچ رکوع ہیں ۔ ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس کا نمبر ۴۱ ہے اور قرآنی ترتیب میں ۳۶ نمبر پر ہے ۔
سورت کا بنیادی موضوع

یہ چونکہ مکی سورت ہے لہذا اس کے موضوعات وہی ہیں جو مکی سورتوں کے ہوا کرتے ہیں اور اس کا اولین مقصد عقیدے کی بنیاد کو استوار کرنا ہے ، بالکل شروع سے ہی یہ سورت وحی کی طبعیت اور صدق رسالت جیسے موضوع شروع کردیتی ہے۔
بِسمِ اللّہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ
یس- وَالقُرآنِ الحَکِیمِ- إِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ- عَلَی صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ- تَنزِیلَ العَزِیزِ الرَّحِیمِ- یٰس:۱۔۵

اور پھر یہ سورت ایک بستی والوں کا قصہ بیان کرتی ہے جیسا کہ ان کے پاس رسول آتے تھے مقصد یہ ہے کہ وحی ورسالت کی تکذیب سے ڈرائے اور اس کے انجام کو قرآن کے عام طریقے کے مطابق قصے کے ضمن میں اور اس کے واقعات کے ماتحت بیان کرے او رسورت کے اختتام کے قریب سورت اسی مضمون کی طرف لوٹتی ہے۔
’’اور ہم نے پیغمبر کو شعر نہیں سکھایا، اور نہ وہ اس کیلئے مناسب ہے ، وہ تو ایک نصیحت ہے اور روشن قرآن ہے تاکہ اس کو خبردار کرے جو زندہ ہو اور کافروں پر عذاب کی بات ثابت ہوجائے۔‘‘
اسی طرح یہ سورت الوہیت اور وحدانیت کے موضوع کو بھی بیان کرتی ہے شرک کا ردّ اُس مرد مومن کے بیان میں آیا ہے ، جو شہر کے دوسرے کونے سے دوڑ کر آیا تھا تاکہ رسولوں کی شان میں اپنی قوم کے ساتھ مدلل گفتگو کرے اور وہ کہتاہے : ’’ میں کیوں نہ اس اللہ کی عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا ، اور تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جاؤگے، کیا میں اس کے سوا ایسے معبود اختیار کروں کہ اگر رحمان مجھے کوئی نقصان دینا چاہے تو ان کی سفارش میرے کچھ کام نہ آئے گی۔
اس سورت میں بعث ونشوز کا قضیہ باربار بیان کیا گیاہے۔ سورت کے اول حصہ میں ’’ بلاشبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا ہے اور ان کے آثار کو بھی ، اور ہم نے ہر چیز کو روشن کتاب میں محفوظ کیاہے۔‘‘
اور پھر سورت کے وسط میں آتا ہے ’’اوروہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ، اگر تم صادق القول ہو؟ نہیں انتظار کرتے وہ مگر ایک ہی چیخ جو انہیں پکڑے گی اور وہ جھگڑتے ہوں گے، پھر نہ وہ وصیت کرنے کی طاقت رکھیں گے ، اور نہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں گے۔‘‘
اور پھر سورت کے آخری حصہ میں قیامت کا پورا ایک منظر پیش کیا گیا ہے ’’اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ، اس نے کہا کون ہے ، جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ تو کہہ دیجئے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں پیدا کیا تھا اور وہ ہر پیدائش کوخوب جانتاہے۔‘‘
پھر سورت کے اختتام پر اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی قدرت اور اپنے خالق ہونے کا احساس دلایاہے ۔ فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ کرتاہے، تو وہ اسے’’ کُن‘‘ کہہ دے تو وہ ہوجاتی ہے ، اور پاک ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے۔ اور تمہیں اسی کے پاس لوٹ کرجاناہے۔‘‘
قرآن کو ’’حکیم‘‘ کیوں کہا گیا؟

حکمت تو عاقل کی صفت ہے لہذا سوال یہ ہے کہ ’’قرآن‘‘ کو ’’حکیم‘‘ کیوں کہا گیاہے؟ اسی طرح کی تعبیر قرآن کو حیات اور مقصد ارادہ کی خلعت پہناتی ہے ، کیونکہ حکیم ہونے کے یہ تقاضے ہیں اور باوجود یہ کہ یہ تعبیر ایک مجاز ہے ، مگر وہ حقیقت کی تصویر کھینچتاہے۔
قرآن کا حکیم ہونا اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ ہر ایک کے ساتھ خطاب میں اس کی عقل وفہم اور قوت کو مدّ نظر رکھتاہے ایسے احکام دیتاہے جولوگوں کی طاقت ووسعت کے اندر ہیں ان کے قلوب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی صلاحیت واہلیت کو پیش نظر رکھتاہے۔
سورت یس کے فضائل میں احادیث نبویہ ﷺ

۱۔ معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ کی رضا مندی کیلئے سورت یٰس پڑھے گا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
۲۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’جس نے سورت یٰس صبح کے وقت پڑھی تو اس کو دن بھر آسانی دی جائے گی یہاں تک کے شام ہوجائے ، اور جس نے رات کے وقت پڑھی اس کو رات بھر آسانی دی جائے گی یہاں تک کہ صبح ہوجائے۔ (مسند الدارمی)
قارئین کرام! یہ قرآن اس رب ذوالجلال کا کلام ہے ، جو زمین وآسمان کا خالق ومالک اور ہمارا رب ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قدر احسانات ہیں کہ ہم زندگی بھر اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے ؟ کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان کون سا ہے ؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کائنات میں انسانوں پر اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنا کلام یعنی قرآن مجید عطا فرمایا ہے اس لئے کہ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے ہیں تو ہماری دنیا وآخرت دونوں سنور جاتی ہے۔
قارئین کرام! غور کیجئے کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آجائے جس سے اس کو دنیا میں بھی عزت وکامرانی حاصل ہو، اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائے۔ تو کیا ایسے شخص کیلئے وہ نسخہ عظیم ترین دولت نہ ہوگا؟ لیکن ہم مسلمانوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے پاس وہ نسخہ ہدایت موجودہے ، جو ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابی کی بھر پور ضمانت دیتاہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں۔ ہماری مثال اس فقیر جیسی ہے جس کی کشکول میں ہیرا(Diamond) موجودہے۔ لیکن وہ اپنی نادانی اور بیوقوفی میں اسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو۔لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن کی قدروقیمت کا شعور حاصل کریں، قرآن کی عظمت کی شان تویہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہوگا وہ رسول اکرم ﷺ کے قول کے مطابق دنیا میں سب سے بہترین قرار پائے گا۔ گویا قرآن کریم تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتاہے بقول مولانا الطاف حسین حالی :
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

قارئین کرام! اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیاہے، کہ قرآن جیسی دولت ہمیں عطا فرمائی ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتاہے کہ ہم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا بھر پور انداز میں شکر اداکریں یعنی ہمارا فرض ہے کہ ہم
۱۔قرآن مجید پر ایمان لائیں۔
۲۔اس کی تلاوت کریں
۳۔ اس کو سمجھیں اور اس پر غوروفکر کریں۔
۴۔ اس پر عمل کریں۔
۵۔ اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔
اگر ہم قرآن مجید کے ان حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا وآخرت میں ہمارے لئے کامیابی ہیں لیکن اگر ہم قرآن سے منہ موڑیں گے اور اس پر تدبر نہیں کریں گے تو یہی قرآن اللہ رب العزت کی عدالت میں ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہوگا لہذا قرآن کریم کے حقوق وفرائض کو پورا کیجئے۔
قارئین کرام!اللہ کی کتاب سے رشتہ جو ڑئیی ، اسے پڑھیں اور سمجھئے ۔ قرآن کریم سے وابستہ لوگوں کی فضیلتوں کو مندرجہ ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
قرآن پڑھنے والے کی فضیلت

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ا نے فرمایا : ’’ جوشخص قرآن پڑھے اور پڑھنے میں ماہر بھی ہووہ مقربین میں سے ہوگا، اور جو اس حال میں پڑھے کہ اس کیلئے پڑھنا دشوار ہواس کیلئے دوگنا ثواب ہے۔ (رواہ ترمذی فی کتاب فضائل القرآن)
قرآن پڑھنے اور عمل کرنے والے کااعزاز

سیدنامعاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جس شخص نے قرآن پڑھا اور پھر اس پر عمل کیا قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی ایسی ہوگی کہ اگر سورج بھی تمہارے گھر میں آجائے تو اس کی روشنی بھی اس تاج سے زیادہ نہیں ہوگی۔ (مسند احمد ، وسنن ابوداؤد)
غور فرمائیی کہ قاری قرآن اور عامل قرآن کے والدین کا یہ اعزاز ہے تو خود قرآن کے قاری اور عامل قرآن کا کیا مقام ہوگا۔
حافظ قرآن کامقام

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کہ قرآن پڑھنے والے (حافظ ، قاری) سے کہا جائے گا ’’تم قرآن پڑھتے جاؤ اور اونچے اونچے درجات پر چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں درجہ وہ ہوگا جہاں تم آخری آیت پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاؤگے۔‘‘ (ترمذی ، نسائی ، ابوداؤدو مسند احمد)
قارئین کرام! لہذا اس قرآن کو پڑھےئے اور اس پر غور وفکر تدبرکرتے ہوئے اس پر عمل کیجئے اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور صحیح معنوں میں ہمیں اسلام پر گامزن کردے۔آمین

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمدٍ وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

خوداختیاری موت اور خودکشی

از شاہ فیض الابرار
چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔اس میں اسکی موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقتِ معینہ پر آکر رہے گی . اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی ، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیا گیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کراس دنیا سے رخصت ہوجائے گا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :اللہ کے بندو ! علاج کراؤ اس لیے اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺنے فرمایا کہ :ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔

کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے؟

باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطباء ڈھونڈنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غو رکیوں نہیں کرتے ، تم اشیاء کے رموز وحقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، تم میں اتنا شعورکیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرسکودنیانے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتارہا اسے ان میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کی جاتی تھی آج اس کا علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کر لیاگیا ہے . سینکڑوںمریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں اگرچہ ان کو جان کا خطرہ لگارہتاہے یہ کیا کم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔اگر بیماری پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہو اور بر وقت اس اسکا علاج شروع کر دیا گیا تو یہ بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے۔خود اللہ کے رسول ا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوںکا علاج بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے ، لہذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی . چنانچہ آپ انے فرمایا ۔۔:
اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے ، جاننے والا اسے جانتا ہے ، نہ جاننے والا نہیں جانتا ۔
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہے ، پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زما نے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہو لہتیں فراہم ہو ں گی (انشاء اللہ ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہونگی چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ۔:رسول ا کا ارشاد ہے’’لکل داء دواء ‘‘ مریض اور طبیب دونوں کے لیی تقویت کا با عث ہے۔اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے ،اگر مریض کو یہ محسوس ہو کہ اس کا مرض لا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھر جائے گا اور مایوسی ختم ہوجائے گی اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیی ممکن ہوگی ۔

عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے

یہیں سے عیا دت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اور بیماری میں مبتلاہوتو دوسرے بھائی کو چاہیی کہ وہ اس کی عیادت کے لیی پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سنا کر لوٹے اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ خیر خواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ کوئی دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمار باتو ں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کرچلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیا دت کے لیی جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ :’’جو مسلما ن کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں ، اگروہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیی پھل ہوں گے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:’’بیشک مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہا ں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلو ں میں رہتا ہے۔‘‘ عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں ۔ بچہ، بوڑھا ، جوان ، عورت ، مرد ،پڑوسی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بھی کی جانی چاہیی۔اللہ کے رسول ﷺکا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تا کید کے ساتھ فرمایا : ’’بھوکے کو کھا نا کھلاؤ ،مریض کی عیادت کرو ، اور قیدی کو چھڑاؤ ۔‘‘

بیما ری سے گناہ کم ہوتے ہیں

تندرستی کے برقرار رہنے کے لیی ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیر ضروری اجزاء اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے ۔ اس کا دوسرا فا ئدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں .کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیا ہے اس کی مدافعت ہو جائے . چنا نچہ اللہ کے رسول ا نے فر ما یا :
’’مسلما نوں کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کا نٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اگر کسی مؤمن بندے کو یہ اندازہ ہو جائے کہ بیما ری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑا فائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے . جیسا کہ رسول ا نے فرما یا : جو لوگ عافیت میں ہیں ، قیا مت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا ، یہ چاہیں گے کاش ! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھا لوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا تے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں بیماری کومسلما نوں کے لیی ایک نعمت اور اس کے گنا ہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرما یا گیا :’’ جس مسلمان کو کا نٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتاہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطرنہیں ہو نا چا ہیی بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چا ہیی اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کر نے کے لیی نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے .نیز اس کا علاج یہ بھی کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب و محن نہ ہو تے تو بندے عجب وفرعونیت ،شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے،جن سے آدمی دنیا میں اور آخرت میں ہر جگہ تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ۔اس لیی یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے .نیز کفر و عدوان اورشرک وغیرہ کے فاسق مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔بس پاک ہے وہ جو ابتلاء کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اور انعاما ت کے ذریعہ ابتلاء میں ڈال دیتی ہے ۔

بیماری میں صبر کی اہمیت

اللہ تبارک وتعالی اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلاء وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندے کامصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا :اللہ تعالیٰ جس کے سا تھ خیر کا ارادہ کر تا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے ۔ اسی طرح کی اور دوسری احادیث بھی ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے .ایسی صورت میں مومن کا رویہ یہ ہو نا چاہیی کہ وہ ہر حال میں صبرکرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع و فزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتاہے۔ کیونکہ صبرسے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:اے ایمان والو! مددطلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیںانہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے ۔ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں ،جانوں ِاورپھلوں میں کمی کر کے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو! جن کواگر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ،ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔(البقرۃ) بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلاء ہوتے تودوا علاج ترک کردیتے اور صبر وشکر کو ہی اس کا مداواسمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول ا نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیی دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے ،کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پردورہ پڑتاتو اسے اپنے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی اس نے اللہ کے رسول اسے دعا کی درخواست کی ،آپ انے فرمایاتم چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو صبر کرو ، اللہ تعا لی اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا ،اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کرونگی البتہ آپ دعا فرمائیی !کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو ،آپ انے اس کے لیی دعا فرمائی۔ اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کر تا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ،جیساکہ باری تعالی کا فرمان ہے:’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اورتکلیف میں اور جنگ کے وقت ،یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں۔‘‘صبر وشکر کو مؤمن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول ا نے فرمایا:’’ مؤمن کا معاملہ کتنا اچھا ہے ،کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے ،وہ اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے یہ بات مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ،اگر وہ مسرت سے ہمکنار ہوتو شکر کرتا ہے یہ اس کے لیی بہتر ہوتا ہے اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتاہے یہ بھی اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں نبیوں اور نیک بندو ںکو بڑی مشکلات ، سخت سے سخت بیماری اور آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے ،مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے ،جس کے صلہ میں اللہ نے ان کے مرتبے کو بلند فرمایا صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے ، حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصے تک مبتلارہے لیکن پھربھی انہوں نے صبرکے علاوہ کوئی لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیااس بیماری میں انکے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑگئے مگر انکی بیوی اٹھارہ سال تک خدمت کرتی رہیںانکی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات انکی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھی ایک باربجذبہ ہمدردی انکی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایو ب کے منافی تھے اور خداکی جناب میں شکوہ کا پہلو لیی ہوئے تھے اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اسکی سزا میں تم کو ضرور دونگا اس صبر کے صلہ میں اللہ نے انکے درجات بلندکئے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے تو ارحم الرا حمین ہے،ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی ۔ہم نے اسے اس کو اہل وعیال دئیی اور اس کے صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی و اخروی درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ جو آڈمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجہ ہلکا معلوم ہوگا اور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی چنانچہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لا علاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے ۔جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا ، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع ، فزع اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حولے کردے ، اس سے انسان کی قوت ارادی (will power) مضبوط ہوتی ہے اور آدمی کے اندر خود اعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابکہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں ۔

موت کی دعا نہیں کرنی چاہیئے

ہر انسان کسی نہ کسی طرح بیماری میں مبتلاہے بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لا علاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، ایسی حالت میں وہ چا ہتا ہے کہ اس لا علاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیی وہ بعض وقت دعا کرتا ہے کہ اللہ مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے ، جو درست نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پربیماری اسی لیی طاری کرتا ہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو ، اللہ کے رسول ا نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔:تم میں سے کسی شخص کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنا نہ کرے ،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تو اس طرح کہے: اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہترہے تو موت دے دے،مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے ،یہ کبھی جلد رفع ہو جاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکا مقابلہ نہ کرے ،اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عیادت کے لیی پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف اور کفر ان نعمت ہے۔ اندازہ لگائیی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سےداغےجانے کا تھا ۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمر ا جاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے ، اس سے انہیں سخت تکلیف ہو ئی با وجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعا کرتا ۔
یہ تو صحابہ کا عمل تھا ،خود اللہ کے رسول ﷺ کو لوہے سے داغےجانے کی تکلیف کا اندازہ تھا ۔باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اسکی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ ،جیساکہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا :
شفا تین چیزوں میں ہے ، شہد کا گھونٹ پینے ، پچھنے کا نشان اور آگ سے داغ لگانے میں ۔میںاپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں۔کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کوہے ،انسان کے بس میں اگر یہ چیزہوتی تو دنیا کا نظام درھم برھم ہوکر رہ جاتا ،انسان کادنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے ، اسی لیی اللہ کے رسول انے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیی اس لیی کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کاایک خوبصورت عطیہ ہے جسے اس کی رضا کے حصول اورمرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے تاکہ اس کی نافرمانی میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے کیونکہ مایوسی کفر ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اخبار الجامعہ

از طیب معاذ
امیر محترم مدیر الجامعہ جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ تعالیٰ کی جامعہ میں آمد۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا شمارملک عزیز کی ان جامعات میں ہوتاہے جوکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی بیخ کنی کیلئے رجال کار کی تیاری میں مصروف عمل ہیں الحمد للہ جامعہ کے جملہ رفاعی ،دعوتی ،تبلیغی اور تعلیمی امور کی نگرانی کیلئے محترم جناب ڈاکٹر راشد رندھاوا حفظہ اللہ تعالیٰ (سابق چیئرمین وفاقی بیت المال پاکستان) جیسی بیدار مغزقیادت میسر ہے ڈاکٹر صاحب کی زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی ادارے اپنی مثال آپ ہیں جوکہ مدیر جامعہ کے خلوص کا مظہر ہیں ۔ تقبل اللہ سعیہ
جامعہ کی تعلیمی ودعوتی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے اور مزید بہتری کیلئے مدیر جامعہ گاہے بگاہے تشریف لاتے رہتے ہیں اسی سلسلے گزشتہ دنوں14 مئی 2009ء جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے مدیر لاہور سے یہاں پر تشریف لائے۔ بروز جمعرات بعد از نمازِ فجر انہوں نے جامعہ کی عظیم الشان مسجد میں جاری حلقات قرآنیہ کا معائنہ کیا اور اس میں مزید بہتری لانے کیلئے مفید تجاویز بھی دیں۔ ناشتہ کے بعد انہوں نے اسمبلی میں طلباکرام کو نصیحت کی اور کہا کہ کسی بھی ادارے کا نظم ونسق اس وقت حقیقی کامیابی حاصل کرتاہے جب اس کے متعلقین آپس میں تعاون اور ہمدردی کا مظاہرہ کریں انہوں نے طلبہ کو تعلیمی میدان میں محنت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ کامیاب زندگی کیلئے بھرپور اور مسلسل محنت اولین شرط ہے اس لئے آپ محنت کادامن مضبوطی سے تھامیں۔
اسمبلی کے بعد گیارہ بجے تک جامعہ کی گورننگ باڈی کا اجلاس ڈاکٹرصاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جامعہ کی فروعات کے بارے میں متعدد اقدامات کا فیصلہ کیا گیا اور جامعہ میںجاری تعلیمی وتصنیفی امور میں جاری سرگرمیوں کے متعلق بھی متعدد فیصلے کئے گئے ۔ تقریباً گیارہ بجے مدیرمحترم نے اساتذہ جامعہ کیساتھ خصوصی نشست میں شرکت کی اور ہر استاذ کو جامعہ کی تعمیر وترقی کیلئے کام کرنے کی ہدایت کی نمازِ عصر کے بعد امیر محترم نے طلبہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے ساتھ ایک مجلس کی جس میں سب سے پہلے انہوں نے انتہائی معلوماتی اور تحقیقی درس بعنوان’’ اسلام اور جدید میڈیکل‘‘ ارشاد فرمایا انہوں نے اسلام میں صحت کی حفاظت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قوی اور طاقتور مؤمن کو ضعیف اور کمزورمؤمن سے افضل قرار دیا ہے اور طاقت کا حصول اگر اطاعت الٰہی کی نیت سے ہوتو یہ بھی عبادت ہے۔ جدید میڈیکل نے برسوں تحقیق کے بعد جو نتائج بیان کئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے وہی حقائق چندارشاروں میں آج سے چودہ صدیوں پہلے دنیا کو بتلا دئیی تھے اسی لئے رسول عربی ا کالا ئف سٹائل اور سلیقہ حیات دنیا کا کامیاب ترین سلیقہ حیات تھا۔انہوں نے طلبہ کو کھانے پینے میں احتیاط برتنے کی تلقین کی اور کہا کہ آپ بازار سے صرف دودھ اور دہی خریدیں مشروبات میں عرف عامہ میں مشہور پیپسی ، کوکاکولا وغیرہ معدے کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ مختصر سے درس کے بعد طلبا کو جامعہ کے نظام پر تعمیری تنقیداوربہتری کیلئے تجاویز بیان کرنے کی عام اجازت دی گئی تقریباً ہر طالب علم نے اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق تنقید اور تجویز دونوں چیزیں پیش کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے مثبت اور تعمیری تجاویز پر عمل درآمد کرنے کیلئے فوری طور پر احکاما ت جاری کئے۔
اگلے دن جمعہ کا خطبہ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ الاحسان الاسلامیہ (جوکہ بطلِ حریت فخرِ اہلحدیث علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے نام پر منسوب ) میں ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی کی اور ان کی بیخ کنی کیلئے قرآن وحدیث میں مذکور اقدامات کا تذکرہ بھی کیا انہوں نے کہا کہ ہر انسان بے سکون اور بے چین ہے جس کا واحد سبب دین اسلام کے احکامات سے دوری ہے دنیا اور آخرت میں چین اور سکون صرف اور صرف احکامات الٰہیہ کی بجاآوری میں ہے ارکان اسلام کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نمازفجر اور عشاء میں سستی اور کاہلی نفاق کی علامت ہے جس میں آج ہم سب ہی مبتلا ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کیلئے مقدور بھر کوشش کریں ۔ محترم مدیر الجامعہ ہفتہ کی صبح 8 بجے واپس لاہور تشریف لے گئے ۔ اللہ سے دعاہے کہ محترم ڈاکٹرصاحب کی مساعی جمیلہ کو قبول ومنظور فرمائے ۔ آمین
الشیخ ضیاء الرحمن بھی داغ مفارقت دے گئے
گزشتہ دنوں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی عظیم الشان لائبریری کے امین محترم ضیاء الرحمن صاحب طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
مرحوم تقریباً بیس سال سے زیادہ عرصہ تک لائبریری کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے تھے۔ اللہ نے ان کو قوت حفظ کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا آپ کو لائبریری کی تقریباً تمام کتب کے نام زبانی یاد تھے ۔ انہوں نے ایک قابل رشک زندگی گزاری ، جب بھی کسی طالب علم یا استاد کو کسی بھی کتاب کی ضرورت ہوتی تو وہ بلا تردد اس کی اجازت مرحمت فرماتے تھے ۔ آپ ایک انتہائی صالح ،تقویٰ شعار اور شب زندہ دار شخصیت کے مالک تھے ۔ انکی نماز جنازہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے وسیع وعریض صحن میں نماز عصر کے بعد ادا کی گئی نما زجنازہ کی امامت کے فرائض بقیۃ السلف عالم باعمل پروفیسر محمد سلفی مدیر جامعۃ الستاریۃ الاسلامیۃ کراچی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں جامعہ کے شیوخ عظام اور طلبہ کرام کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ان کا چہرہ انتہائی تروتازہ اور نو رکا ہالانظر آ رہا تھا۔ جوکہ ان کے خاتمہ بالخیر کی دلیل بھی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی جامعہ کیلئے خدمات کو ان کیلئے حسنات بنائے اور بشری لغزشوں پر قلمِ رحمت پھیر کر جنت الفردوس کا مستحق بنائے۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بھیک مانگنا عادت یا ضرورت

ازمحمد حسان

کچھ دن پہلےمیں مسجد میں نما ز عشاء کی ادائیگی کیلئے داخل ہو ا ، نما زکے اختتام پرمسنون ذکر اذکا ر میں مصروف تھا کہ غم میں ڈوبی ہوئی ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا ، جہاں ایک آدمی غم والم کی تصویر بنا تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور لوگوں کی نظریں اس کے لاغر اور کمزور حلیے اور میلے کچیلے لبا س پر مرکوز تھیںجس نے اپنے پاؤں پر پٹیاں بھی باندھی ہوئی تھیں اور اس نے کچھ ان الفاظ میں لوگوں کو مخاطب کیا: ’’میرے اسلامی بھائیو ! میرا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے ہے اور ہم لوگ بہت مفلسی کی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں جبکہ ان حالات کے ساتھ ساتھ میری ماں گردے کی مریضہ ہیں جن کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں جنہیں ہر ماہ میں تین چار دفعہ ڈائیلاسز کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے

جو کہ بیش قیمت علاج ہے اس کے علاوہ میں خود بھی مریض ہوں میرے پاؤں پر چھالے پڑے ہوئے ہیں او رانفیکشن کی وجہ سے چلنا بھی مشکل ہو رہا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابھی بھی میرے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں لہذا میں آپ تمام بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے ساتھ حسب توفیق تعاون کردیں تاکہ میں آپکے پیسوں سے اپنااور اپنی امی کا علاج کروا سکوں ۔
دوسرا واقعہ:
ایک نوجوان عو رت بغیر پردہ کیے گاڑی میں سوار ہوتے ہی لوگوں کے سامنے رونا دھونا شروع ہوگئی کہ میرے شوہر فوت ہوچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے گھرمیں بہت بھوکے ہیں میں آپ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر التجا کر رہی ہوں کہ آپ میرے بچوں کو کھانا دلا کر ان کو بھوکوں مرنے سے بچا لیں۔
قارئین کرام ! یہ باتیں کوئی نئی نہیں ہیں جب آپ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کی کثیر تعداد سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح فٹ پاتھوں پر ، مسجدوں، اور بازاروںمیں بھی یہ لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن آئیی دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات کی حقیقت کیا تھی؟
جہاں تک پہلے واقعے کا تعلق ہے تو جب لوگوںنے اس کو پیسے دے دیئے تو ان نمازیوں میں سے ایک آدمی اس مانگنے والے کو جانتا تھا کہ یہ عادی بھکاری ہے ضرورت مند نہیں ہے اور مزید تحقیق کیلئے جب اس کے پاؤں سے پٹیاں کھولی گئیں تو لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اس کے پاؤں صحیح سلامت تھے جبکہ اس کے پاس اس وقت تقریبا 3500روپے جمع ہو چکے تھے جو اس نے حیلے بہانے کر کے لوگوں سے بٹور لیے تھے ۔اور یہ بھی معلو م ہو اکہ اس کی والدہ کے ڈائیلاسز وغیر ہ کی کہا نی بھی جھوٹ پر مبنی تھی۔
اور جہاں تک دوسرے واقعے کا تعلق ہے تو وہاں کچھ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ عورت پیشہ ور بھکارن ہے جس کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی۔
معزز قارئین ! اگر اس طرح کے واقعا ت پر غور کیاجائے تو مختلف پہلو زیر بحث آتے ہیں مثلاً:۔
1۔سب سے پہلے تو یہ بات کہ بھیک مانگنا کسی بھی طرح سے اسلام کا پسندیدہ عمل نہیں ہے ، کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کسی بھی آدمی کیلئے بھیک مانگنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ جنگل سے لکڑیاںکاٹ کر اپنی کمر پر لادے او ربیچ کر اپنے گھر کا گزارہ کرے۔(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسألۃ)
اس کے ساتھ سوال نہ کرنے والوں کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے وہ تین حا لات بھی بیان فرما دئیی کہ جن میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر سوال کیا جا سکتا ہے، ایک وہ آدمی جس کے مال کو کسی ناگہانی آفت نے آلیا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے قرض لیا ہو لیکن وہ مفلسی کی وجہ سے اس کو ادا کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو ،اور تیسرا وہ آدمی جس کی غربت کے بارے میں اس کی قوم قبیلے کے تین معتبر آدمی شہادت دے دیں کہ واقعتًہ یہ آدمی حاجت مند ہے ۔ (نسائی ،کتاب الزکاۃ)
2۔ موجودہ دور میں آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کافی بہتر حالت والے لوگوں کی بھی کمر توڑکے رکھ دی ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ اس ناگہانی آ فت میں اپنا اوراپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کام کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن اپنی حالت زار سے تنگ آکر مانگنا شروع کر دیتے ہیں ، لیکن صد افسوس کہ لوگوں کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ اس عمل کو پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں اور وہ لوگوں سے بھیک مانگتے ہوئے ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں کرتے حالانکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں اس عمل کو پسندیدہ نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ ناجائز طریقے سے مانگنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
3۔ صاحب ثروت لوگوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے مستحقین کو اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور دیں ،اس میں دینے والے کیلئے دو اجر ہیں ایک اپنے رشتے داروں کی مدد اور دوسرا زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔
4۔ اگر مالدارلوگ اپنے مالوں میں سے شریعت اسلامیہ کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کریں تو اس طریقے سے بھی اس مرض کا علاج ممکن ہے ، کیونکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا مقصد ادا کرنے والے کے مال کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ غریب اور نادار لوگوں کی مالی اعانت کرنا بھی ہوتا ہے ، جیسا کہ صدقۃ الفطر کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺہے کہ تم لوگ غریب لوگوں کی مدد کرکے ان کو اس خوشی(عید ) کے دن لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچائو۔
5۔ جو آدمی بھی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت رکھتا ہو اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اس کا دیا ہوا مال مستحق لوگوں تک ہی پہنچے اور اگر کسی عادی بھکاری کے بارے میں معلوم ہو جائے تو اسے ہرگز اپنا مال نہ دیں ، کیونکہ اگر اسے آپ کی طرف سے مدد ملتی رہی تو وہ اپنی اس عادت سے باز نہیں آئے گا۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی عزت نفس کی توہین سمجھتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے کہ:
’’یہ لوگ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ‘‘(البقرۃ: ۲۷۳)
ان کی حاجت مندی کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصا ان لوگوں کی مدد کرنا ضروری ہے تاکہ یہ لوگ بھی دوسروں کے ساتھ شامل ہو کر اپنی خوشیاں منا سکیں۔
6۔ اسلامی حکومت پر خصوصاً یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہنے والے بے کس ، لاچار اور مظلوم لوگوں کی مالی معاونت اس ملک کے بیت المال سے کرے کیونکہ ان کی کفالت حکومت کے ذمے ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شاہانہ اخراجات والے لوگ اپنے سے نیچے طبقے کو بغور دیکھیں تو ان کو زندگی کے اس پہلو کا اندازہ بھی بخوبی ہو سکتا ہے ۔
7۔ اہل ثروت لوگوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی شاہانہ تقاریب میں غریب اور مستحق لوگوں کو بھی شریک کریں جن کو گھروں میں دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے لیکن صد افسوس کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ رواج عام ہوچکا ہے کہ اگر افطاری بھی کروائیں تو اس میں بڑے بڑے امراء ووزراء کو مدعو کیا جاتا ہے اور وہی لوگ عامۃ الناس کی توجہ کا مرکزبھی ہوتے ہیں، جبکہ افطاری جیسی دعوت کا اصل مقصد ان لوگوں کو شریک کرناہوتا ہے جن کے پاس گھر میں افطاری کرنے کا سامان موجود نہ ہو۔اس طرح سے ایسی دعوتوں کاحقیقی مقصد معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ 8۔ جو لوگ عادتاً اس مذموم فعل کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کے خلاف حکومت وقت کو مناسب کاروائی کرنی چاہئے کیونکہ کچھ لوگ اس شش وپنج میں مستحق لوگوں کی مدد بھی نہیں کرتے کہ آیا یہ آدمی ضرورت مند ہے بھی یا نہیں؟حتی کہ کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھ کر نہایت حیرانی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ شہر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں کچھ لوگ اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں کہ وہ دور دراز کے علاقوں میں سے معذور لوگوں کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں ان کو شہر کی مصروف شاہراہوں اور چوکوں پر بٹھا دیتے ہیں اور شام کو اپنے ساتھ واپس لے کر چلے جاتے ہیں اس طرح ان معذور لوگوں کی کمائی ہوئی رقم سے وہ ان کو کچھ مخصوص حصہ دیتے ہیں اس طرح ان کا یہ کاروبار عروج پر ہے جو لوگوں کو دھوکہ دیکر اور معذور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اگر ان کے خلاف مناسب کاروائی کی جائے تو اس برائی کا سدباب بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی کی محتاجی کے بارے میں معلوم ہوجائے تو حتی المقدور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
جولوگ اس عمل کو محض عادت کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس چہرے پر گوشت نہیں ہوگا بلکہ صرف خراشوں کے واضح نشانات ہوں گے‘‘(نسائی ۔کتاب الزکاۃ)
اس لیے ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیںاور اس عمل کو فورا ترک کردینا چاہئے تاکہ یہ کام روز آخر ت ان کی ذلت ورسوائی کا سبب نہ بنے۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بے بسی ، بے حسی اور طاقت کا امتزاج

از خاکسار

مئی کے مہینے کی گرمی ۔ ۔ ۔ توبہ توبہ اللہ رحم فرمائے ۔ اگر کسی سے ملنے کہیں جانا پڑجائے تو دس دفعہ سوچنا پڑتاہے ۔ اللہ اللہ کرکے خاکسار اپنے عزیز دوست کے آفس پہنچا تو آفس میں داخل ہوتے ہی ہر دلعزیز نے جھٹ سے مجھے پکڑ لیا اور یوں گویا ہوا : بھائی آج ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے اور پھر وہ سنانا شروع ہوگیا:
نیپا چورنگی سے صفورا گوٹھ جانے والے روڈ پر ایک خاتوں رکشے میں سوار تھیں۔ رکشے والا رکشہ بھی بالکل درست چلا رہا تھا جیسے ہی رکشہ ثمامہ شاپنگ سینٹر کے سامنے پہنچا اچانک ایک تیز رفتار مزدانے جو کہ ڈرائیور کے بس سے باہر ہوگئی تھی ، رکشے کو زوردار ٹکر ماری اوررکشہ دوتین قلابازیاں کھا کر فٹ پاتھ کے ساتھ جالگا۔
رکشہ ڈرائیور ایک جانب اوندھا گرا ہوا تھا تو دوسری طرف وہ خاتون بے حس وحرکت پڑی ہوئی تھی ۔ بے حس مزدا والے نے جب یہ دیکھا تو فوراً مزدا سے اتر کر ایک جانب گلیوں سے فرار ہوگیا۔ اتنے میں لوگ دونوں زخمیوں کی جانب دوڑے جواب کچھ حواس سنبھال کر اپنے زخموں کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔

ایک نوجوان نے فوراًایمرجنسی نمبر 15 پر فون ملا کر پولیس کو اطلاع دی ، کچھ لوگ پانی لے آئے ، کسی نے ایدھی اور چھی پا ایمبولینس کو فون کیا تو جواب ملا کہ ابھی کوئی ایمبولینس موجود نہیں جیسے ہی آئے گی آپ کی طرف بھیج دیں گے۔
رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ خاتون اس کی بیوی ہے اور دونوں شاپنگ کرکے گھر جارہے تھے ڈرائیور بے چارے کے کندھے کی ہڈی شاید ٹوٹ چکی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف محسوس کررہا تھا جبکہ خاتون کے دو دانت ٹوٹ کرگرگئے اور گھٹنے اور کمر سے بھی خون رس رہا تھا۔ اتنی دیر میں پولیس آگئی اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے لگے ، میں اور کچھ نوجوان مزدا میں گھسے اور کاغذات ٹٹولنے لگے جوکہ ڈیش بورڈ سے برآمد ہوئے۔
میں وہ کاغذات لے کر اے ایس آئی کے پاس آیا جس نے کاغذات ہاتھ میں لیتے ہی اپنے ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ دیا اور موبائل میں بیٹھ کر جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا ، لوگوں نے اسے بہت لعنت ملامت کی مگر وہ بھی بے حس نکلا۔
اسی اثناء میں سیاہ رنگ کے ایک نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا جائے حادثہ کے قریب سے گزری اور پھرلوٹ آئی کار میں سے 30۔32 سال کا ایک خوش لباس نوجوان نمودار ہوا اور لوگوں کے مجمعے کو ہٹاتے ہوئے زخمیوں کے پاس جا پہنچا۔ لوگوں نے اسے معزز جان کر ساری صورت حال اس کو بتائی تو وہ طیش میں آگیا اور غصے سے پولیس موبائل جوکہ کچھ فاصلے پر ہی کھڑی تھی کی جانب بڑھا۔ موبائل کے قریب پہنچتے ہی اس نے موبائل کا دروازہ جھٹکے سے کھولا اور ای ایس آئی کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور زور سے چلاّیا : ۔نظر آرہے ہیں وہ زخمی تجھے ، موبائل میں کیوں نہیں ڈالتا ان کو ؟ یا ایمبولینس کیوں نہیں بلاتا تو ؟
اے ایس آئی ادب سے بولا بھائی میرے پاس موبائل نہیں ہے تو نوجوان طیش میں آگیا اور اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرلیا پھر بولا اللہ کی قسم اگر تیرے چہرے پر یہ داڑھی اور اس میں یہ سفید بال نہ ہوتے تو میں تیرا منہ توڑدیتا۔ یہ سب باتیں سارے پولیس اہلکاروں نے سنیں مگر کوئی بھی آگے نہ آیا۔
نوجوان نے جیب سے موبائل نکالا اور چھیپا کے نیپا والے دفتر فون کیا اور چند ہی لمحوں میں ایمبولینس زخمیوں کو لے گئی۔
جائے حادثہ پر موجودسب لوگ بے بسی ، بے حسی اور طاقت کے اس منظر کو دیکھ کر یقینا حیران ہوئے ہوں گے مگر میں اسی سوچ میں پڑا رہا کہ اگر وہ لڑکانہ آتا اور وہ زخمی خدانخواستہ مرجاتے تو ان کے قتل کا ذمہ دار کون تھا۔ ۔ ۔ مزدا والا ؟ پولیس والے ؟ یا ایمبولینس والے ؟؟
بے حسی ہمارا قومی وملی المیہ بن گئی ہے اللہ کے قرآن اور رسول اکے فرمان سے روگردانی کا یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ امت میں آج یگانگت اور معاشرتی اقدار کا فقدان ہے۔ جاہ وجلال اور ظاہری اشیاء کے حصول نے معاشرے کو روحانی تازگی اور تسکین سے بہرہ ور ہونے کا موقع ہی فراہم نہ کیا ، ہے کوئی جو قرآن اور حدیث میں موجود معاشرتی اور اخلاقی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرسکے ؟؟؟ کاش کہ کوئی تو ہو ۔ ۔ ۔ اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بزم اطفال

از محمد حسان دانش
ایک باپ کی بیٹے کیلئے نصیحتیں

بیٹا زیادہ تر عالموں کی محفلوں میں بیٹھا کرو اور دانائوں کی باتوں کو غور سے سنا کرو۔
بیٹا ہمیشہ سچ کو اپنا پیشہ بنا لو ،جو شخص جھوٹ بولتا ہے اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے ۔
جنازے کی نماز میں شرکت کیا کرو اور دعوتوں اور عیش عشرت کی محفلوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچا کر رکھو۔
بیٹا کوئی چیز پیٹ بھر کر مت کھائو ، کیونکہ اس سے عبادت میں سستی پیدا ہوتی ہے۔


بیٹا کسی جاہل کو اپنا دوست مت بنائو اور کسی دانا کو اپنا دشمن مت بنائو۔
بیٹا اپنے کاموں میں ہمیشہ علمائے کرام سے ضرور مشورہ کر لیا کرو۔
بیٹا باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اولاد کیلئے اس طرح ہے جس طرح کھیتوںکیلئے پانی۔
بیٹا قرض لینے سے اپنے آپ کو بچائو، کیونکہ قرض دن کی رسوائی ہے اور رات کا غم۔
بیٹا اگر کوئی شخص تمہارے سامنے کسی کی شکایت کرے کہ فلاں نے میری آنکھ اندھی کر دی ہے تو جب تک تم دوسرے کی بات نہ سن لو اس وقت تک یقین نہ کرنا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص نے اس کی دونوں آنکھیں پہلے ہی نکال دی ہوں ۔

رات کو سونے کی چند سنتیں

جن برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں ہوں ان کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھ دیں۔
اگر آگ جل رہی ہویا سلگ رہی ہو تو اس کو بجھا دیں۔
جب بچے تقریباً نو، دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ الگ کردیں۔
سرمہ دانی اپنے پاس رکھیں اور سوتے وقت سرمہ استعما ل کریں۔
بستر پر لیٹنے سے پہلے اس کو اچھی طرح جھاڑ لیں کیونکہ اگر کوئی نقصان دہ چیز ہوگی تو گر جائے گی۔
سونے سے پہلے مسواک کرنا بھی سنت ہے ۔
جب بستر پر جائیں تو سونے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر قل ہوا للہ احد پڑھیں ، پھر قل اعوذ برب الفلق اور اس کے بعد سورۃ الناس پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونکیں اور جسم کے جس جس حصہ تک ہاتھ جائے وہاں پھیریں ، یہ عمل تین دفعہ کرنا سنت مبارکہ سے ثابت ہے ۔
بستر اتنانرم استعمال نہ کریں کہ صبح کی نماز کیلئے اٹھنے میں دقت پیش آئے ۔
داہنی کروٹ پر لیٹ کر دایاں ہاتھ گال کے نیچے رکھ کر سوئیں۔
لیٹ کر یہ دعا پڑھیں:’’ اَللَّھُمَّ بِاِسمِکَ اَمُوتُ وَاَحیَا ‘‘
باوضو ہو کر سونا بھی سنت سے ثابت ہے ۔
سوتے وقت تہجد کی نماز کی نیت کر کے سوئیں تو بہت بہتر عمل ہے۔
رات کو اگر کوئی برا خواب آئے تو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھ کر کروٹ بدل کر سو جائیں۔

پانچ وقت نما ز کی فرضیت کیوں۔۔؟

1۔ رات کو سو کر صبح سویرے اٹھنا یہ موت کے بعد زندگی کی مانندہے ، اس کے شکر کیلئے یہ نماز فرض کی گئی ہے ۔
2۔ پھر طلوع فجرکے بعد دن شروع ہوتے ہی انسان کی روزی کے اسباب حاصل ہوئے اوران کی کھانے پینے کی ضروریات پوری ہوئیں تو اس کے شکر کیلئے نماز ظہر فرض ہوئی۔
3۔ ظہر کی نما زکے بعد لوگ کھانے پینے اور نیندکرنے میں مصروف ہوتے ہیں ان حالتوں میں اللہ کی عبادت میں غفلت ہوتی ہے اس کی تلافی کیلئے یہ نمازِ عصر فرض ہے۔
4۔ جب سورج غروب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں پوری ہو گئیں ان کے شکر کیلئے نما ز مغرب فرض کی گئی۔
5۔شکر پورا کرنے کیلئے اور اچھے خاتمے کیلئے نما ز عشاء فرض ہوئی اور یہ تمام اعمال کر کے عشاء کے بعد سونا ایسا ہے جیسا کہ ایمان اور اسلام کی حالت میں موت ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس کی ان گنت نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور اس کی رضا کیلئے پانچ وقت کی فرض کردہ نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

Saturday, June 27, 2009

فونٹ ڈاؤن لوڈ کریں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم اسوۂ حسنہ کی اس جدید اور خوب صورت سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اس سائٹ کی خصوصیت ہے کہ اسے مکمل یونی کوڈ نستعلیق فونٹ میں تشکیل دیا گیا ہے تاکہ قارئین کرام کو اس کا مطالعہ غیر مانوس نہ لگےاورتمام مضامین عام استعمال ہونے والے اردو فونٹ ہی میں دکھائی دیں۔



جب ڈاؤن لوڈ مکمل ہوجائے توآپ کے پاس
nastaleeq.zip
نام سے ایک فائل موجود ہوگی جس پرماؤس کا دایاں بٹن دباکر
Extract here
کا بٹن دبائیں ، اب آپ کے سامنے
Alvi Nastaleeq_1_0_0_shipped.ttf
نامی فائل آجائے گی دراصل یہی فونٹ کی فائل ہے۔
اب اسٹارٹ کے بٹن پر کلک کریں۔ اور کنٹرول پینل میں جاکر فونٹس کا فولڈر کھول لیں اور حاصل شدہ فونٹ کو اس فولڈر میں کاپی کرکے پیسٹ کردیں۔
اب آپ اسوۂ حسنہ کو بہترین نستعلیق فونٹ میں ملاحظہ کرسکیں گے۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟