Monday, June 29, 2009

فیوض القرآن

از فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر 14

أم : الأم
أَمَّ ، یَؤُمُّ ، أَماًّ باب نَصَرَ سے ہے جس کا معنی ارادہ یا قصد کرناہے جس سے اسم فاعل ’’آمٌّ‘‘ بنتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"یعنی بیت اللہ کا قصد کرنے والے(حج یا عمرہ کی نیت سے )‘‘۔ (المائدۃ:۲)
ابن الفارس کہتے ہیں کہ اس کے چار بنیادی معنی ہیں:
۱۔ بنیاد اور اصل
۲۔ مرجع
۳۔ جماعت
۴۔ دین
پطرس بستانی اپنی کتاب محیط المحیط میں لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جامد ہے اور بچہ کی آواز سے ماخوذ ہے جب وہ بولنا سیکھنے سے پہلے أم ، أم وغیرہ سے شروع کرتاہے۔ (محیط المحیط)
اس سے اس کے اولین معانی ماں کے قرار پائے۔ لہذا ماں کی آغوش کے اعتبار سے انسان کا مسکن اولین بھی أمّ کے نام سے معروف ہوا۔
اس کے بنیادی معانی میں سے ایک معنی جماعت کے بھی ہیں یعنی قوم جسے أمت بھی کہتے ہیں : بالخصوص ایک نظریہ رکھنے والے افراد لہذا سورۃ البقرۃ میں ہے : ’’یہ ایک امت تھی جو گزر چکی ۔‘‘
اس کے بنیادی معانی میں سے دوسرا مطلب اصل اور بنیاد کے ہیں : أمّ القوم ۔ قوم کا سردار ، أم الرأس:دماغ، أم الخبائث : سب سے بڑی برائی ۔ بلکہ وہ مقام جہاں بہت سے أمر یا اشیاء آکر مرتکز ہوجاتی ہیں أم کہلاتاہے جیسے :أمّ القری : مکہ مکرمہ کو کہتے ہیں ، أمّ الکتاب: کتابوں کی اصل یا مرکز ۔ (تاج العروس ، الصحاح، القاموس)
الأُمَّۃُ: جس سے مراد وقت ، سنت ، زمانہ ، شریعت اور دین کے ہیں اور بعض مقامات پر اس سے مراد امام اور ھادی کے بھی بیان کیی گئے ہیں جیسے :
’’بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔‘‘(النحل:۱۲۰)
ابن قتیبہ نے بھی أمّۃ کے معنی دین امام اور جماعت کے تحریر کیی ہیں۔ (القرطین ۲/۱۳۲)
اور لطائف اللغۃ میں مصطفی اللبابیدی نے اس کے معنی بیان کیی ہیںکہ ایسا آدمی جس میں تمام خوبیاں جمع ہوں۔ (لطائف اللغۃ)
اس سے لفظ أمّی بھی نکلاہے جس کا لفظی مطلب ایسا شخص جو لکھنا پڑھنا نہ سیکھے ۔(لطائف اللغۃ)
آپ ﷺ کو اسی اعتبار سے امّی کہا جاتاہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ لیکن قرائن اور شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کیفیت قبل از نبوت کی تھی نبوت کے بعد آپ ﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا اس کی واضح شہادت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔
’’آپ اس سے قبل (قرآن کے نزول) نہ کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتے تھے۔‘‘(العنکبوت:۴۸)
’’مِن قَبلِہِ‘‘ کے کلمات اس أمر پر دلالت کررہے ہیں کہ بعد ازنبوت آپ نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔
أُمّی کا لفظ بعض اوقات عربوں کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن ایسے مقامات پر یہ لفظ اہل کتاب کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے۔ (تفصیل ۳/۱۹ ، ۳/۷۴)
اور یہی لفظ ماں اور والدہ کیلئے بھی استعمال ہوا جس کی جمع ’’امّہات‘‘ بیان کی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوئے ہیں:
آمّین ، إمام ، لإمام ، إماماً ، بإمامہم ، أئمۃ ، أم موسیٰ، ابن أم ، أم الکتاب ، أم القری ، أمک ، أمہ ، أمہا، أمی ، أمہات، أمہاتکم ، أمہاتہم ، أمۃ ، أمتکم ، أمم ، الأمم ، أمما ، أمامۃ، الأمّی ، أمیون ، الأمیین ۔
قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :
۱۔ ماں
’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے حمل میں رکھا۔‘‘(لقمان:۱۴)
۲۔ أصل ، بنیاد ، أساس
’’جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں۔‘‘(آل عمران:۷)
’’لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔‘‘(الرعد:۳۹)
۳۔ مرجع : پناہ کا ٹھکانہ
’’اور جس کی تول ہلکی ہوگی اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔‘‘ (القارعۃ:۸۔۹)
۴۔ مجمع : بڑی بستی
’’جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے۔‘‘(القصص:۵۹)
۵۔ ایک نبی کا پیروکار یا مذہب کے ماننے والے
’’دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے۔‘‘(البقرۃ:۲۱۳)
’’ہر امت کیلئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے ، جسے وہ بجالانے والے ہیں۔‘‘(الحج:۶۷)
۶۔ گروہ ، جماعت
’’جس وقت بھی کوئی جماعت ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔‘‘(الأعراف:۳۸)
’’اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا۔‘‘(الأعراف:۱۶۴)
’’بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔‘‘(النحل:۱۲۰)
۷۔ راہ ، طریقہ
’’کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک راہ پر اور ایک دین پر پایا ۔‘‘(الزخرف:۲۳)
’’یہ تمہاری امت ہے جوحقیقت میں ایک ہی امت ہے۔‘‘ (الأنبیاء:۹۲)
۸۔مدت ، وقت ، زمانہ
’’اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چُنی مدت تک کیلئے پیچھے ڈال دیں۔‘‘(ہود:۷)
’’اسے مدت کے بعد یاد آگیا۔‘‘ (یوسف:۴۵)
اس لفظ کا دوسرا حصہ أمّۃ اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔ إن شاء اللہ تعالیٰ
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟