Sunday, June 28, 2009

بسم اللہ کی فضیلت اور پڑھنے کے مواقع

از محمد شعیب مغل
آخری قسط

عبد الحق رحمہ اللہ نے ’’احکام الکبری‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع عبد الحمید بن جعفر نے کیا ہے ، اور وہ ثقہ ہے اور احمد وابن معین رحمہما اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے اور سفیان الثوری رحمہ اللہ اسے ضعیف بیان کرتے ہیں مگر وہ اس سے روایت بھی کرتے ہیں اور نوح مشہور ثقہ راوی ہے۔(نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ۱/۳۴۳)
بطریق محفوظ یہ حدیث ثابت ہے سعید المقبری سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں کرتے ۔ جیسے اسے روایت کیا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’من حدیث ابن ابی ذئب عن سعید المقبری عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’الحمد للہ ،ھی : ام القرآن ، وہی السبع المثانی والقرآن العظیم۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’الحمد للہ‘‘ یہ ام القرآن اور سبع المثانی اور قرآن عظیم ہے۔ اور اسے روایت کیا ہے ابوداؤد اور ترمذی نے اور ’’حسن صحیح ‘‘ کہاہے۔(نصب الرایۃ ۱/۳۴۴)
امام الزیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو اسے پڑھتے سنا ہو اور گمان کیا ہو کہ یہ فاتحہ کی آیت ہے اور کہا : بیشک یہ فاتحہ کی آیت ہے ۔ مگر ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے کہ یہ قرآن میں سے ہے ، لیکن دو مسئلوں میں تنازعہ پڑجاتاہے۔
۱۔یہ فاتحہ کی آیت ہے۔
۲۔ اس کا حکم سراً اور جہراً فاتحہ کی تمام آیتوں کی طرح ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یقینا یہ مستقل آیت ہے قبل السورۃ الفاتحہ اور نہ کہ فاتحہ کی آیت ہے۔(نصب الرایۃ ۱/۳۴۳)
امام الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد موقوف اور مرفوع دونوں طریقوں سے صحیح ہے۔
یقینا نوح ثقہ ہے اور دوسرے روات بھی اور موقوف مرفوع کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتی کیونکہ راوی بعض اوقات حدیث کو موقوف بیان کرتا مگر جبکہ اس نے اسے مرفوع روایت کیا ہوتاہے اور وہ ثقہ ہو تو یہ زیادتی (یعنی مرفوع) قبول کرنے کی زیادہ مستحق ہوتی ہے۔ (سلسلہ الصحیحہ ۳/۱۱۸۳)
قارئین کرام ! یہ وہ روایت ِ اساسی ہے جس کی بنیاد پر شافعیہ کا مسلک ہے پرجیسے ترددات العلماء اوپر بیان ہوئے اگر ہم انہیں یک طرفہ کریں اور اس روایت کو صحیح موقوفاً ومرفوعا تسلیم کریں تو پھر بھی اس سے مسلکِ شافعیہ کی مضبوطی قائم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن حکیم کا یہ امتیاز واعجاز ہے کہ اس میں خبر احاد واختلاف قابل قبول نہیں ہے ۔امام القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’ لأن القرآن لا یثبت بأخبار الأحاد ، وإنما طریقۃ التواتر القطعی الذی لا یختلف فیہ‘‘ (القرطبی ۱/۸۱)
کیونکہ قرآن خبر آحاد سے ثابت نہیں ہوتا اور بیشک اس کا طریقہ تواتر قطعی ہے جو اختلافات سے پاک ہو ۔ واللہ أعلم
المذہب الثانی :امام مالک اور ان کے متبعین کے استدلالات پر نظر
۱۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ أن النبی ﷺ وابا بکر وعمر کانوا یفتتحون الصلاۃ ب:الحمد للہ رب العالمین ‘‘ وفی روایۃ ’’عثمان‘‘ أیضاً۔ ( متفق علیہ)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک نبی کریم ﷺ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہمانماز کی ابتداء الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اور دوسری روایت میں ’’عثمان ‘‘ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔‘‘
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: إن سورۃ من القرآن ثلاثون آیۃ شفعت لرجل حتی غفر لہ وہی :’’تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ‘‘ (صحیح الترمذی ، حدیث نمبر :۲۳۱۵ حسن ، التعلیق الرغیب : ۳/۲۲۳ ، المشکاۃ :۲۱۵۳)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک قرآن کی ایک سورت جس کی تیس آیات ہیں اور وہ شخص کی شفاعت کرتی ہے یہاںتک کہ اسے معاف کروادے اور وہ ہے ۔تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ۔
۳۔ سورت العلق کی ابتداء بدون بسم اللہ ہوئی ہے اور یہ دلائل دلالت کرتے ہیں اس بات پر کہ ترک تسمیہ جائز ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
المذہب الثالث : ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بعض روایات میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل المدینہ ، اہل البصرہ اور جمہور کے مسلک کے استدلالات پر نظر
۱۔عن ابی ہریرۃ عن ابی بن کعب قال قال رسول اللہ ﷺ :’’مافی التوراۃ ولا فی الإنجیل مثل ام القرآن ، وہی السبع المثانی وہی مقسومۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ماسأل۔‘‘(ابن حبان ، جلد/۳ ، حدیث نمبر/۷۷۵۔ اسنادہ صحیح علی شرط مسلم و صححہ ابن خزیمۃ ، حدیث نمبر: ۵۰۰، ۵۰۱ ، وصححہ الحاکم ۱/۵۵۷) علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی واخرجہ الترمذی (۳۱۲۵) فی تفسیر القرآن و النسائی (۲/۱۳۹) فی الانکاح وأخرجہ الترمذی إیضاص (۳۱۲۵) صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان حققہ وخرج احادیثہ وعلق علیہ شعیب الأرنؤوط)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نہ تورات میں اور نہ ہی انجیل میں اس ام القرآن جیسی (سورت) ہے ، اور یہ سبع المثانی ہے ، اور یہ تقسیم ہوئی ہے رب اور اس کے بندے کے درمیان میں اور بندے کیلئے جو وہ سوال کرتاہے۔
۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس کسی نے نماز پڑھی اور ام القرآن اس میں نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین بار کہا مکمل نہیں ہوگی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا : اس کو تم اپنے نفس میں پڑھو میں نے بیشک رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تقسیم کردی صلاۃ( فاتحہ) اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی ، اور اب میرے بندے کیلئے وہ ہے جومانگتاہے ، پس جب بندہ کہتاہے ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، اور جب بندہ ’’الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ‘‘ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری ثنا بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے ’’مَالِکِ یَومِ الدِّینِ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور بعض بار کہا : میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کردیا ہے اور جب بندہ کہتاہے ’’إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتاہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندہ مجھ سے جو مانگے گا میں دوںگا۔ اور جب بندہ کہتاہے :’’اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم - غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’ہو لعبدی ولعبدی ما سأل‘‘ یہ میرے بندے کیلئے ہے اور بندہ جودعا مانگے میں دوں گا۔ اور بعض روایات میں ’’ہؤلاء لعبدی ولعبدی ما سأل‘‘ ہے۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحہ : ۳۹۵ ، نسائی :۹۱۰، ابوداؤد:۸۲۱، ترمذی :۲۹۵۳، ابن ماجہ :۷۳۷)
۳۔عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ فی سفر فنزل ، فمشی رجل من اصحابہ إلی جانبہ ، فالتفت إلیہ فقال: ألا أخبرک بأفضل القرآن ؟ قال : فتلأ علیہ ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر :۷۷۴ ، جلد ، ۳۔ اسنادہ صحیح ، وأخرجہ النسائی فی ’’عمل الیوم اللیلۃ ‘‘ حدیث نمبر (۷۳۳) وصححہ الحاکم ۱/۵۶۰ ووافقہ الذہبی)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے پس رکے تو وہاں سے ایک صحابی گزرے ، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ’’کیا میں تمہیں افضل قرآن کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس آپ نے تلاوت فرمائی :’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘
۴۔ عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ وابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما یستفتحون القرأۃ ب’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘(صحیح سنن النسائی ، حدیث نمبر :۸۶۷۔۸۶۸ ، جلد /۱)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما قراء ت کی ابتداء ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ سے کیا کرتے تھے۔
۵۔عن نعیم المجمر قال : صلیت وراء ابی ہریرۃ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم ثم قرأ بأم القرآن حتی بلغ ولا الضالین قال آمین وقال الناس آمین ویقول کلما سجد اللہ اکبر وإذا قام من الجلوس قال اللہ اکبر ویقول إذا سلم : والذی نفسی بیدہ إنی لاشبہکم صلاۃ برسول اللہ ۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
’’نعیم المجمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے میںنے نماز پڑھی پس انہوں نے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھی اور پھر أُمّ القرآن (فاتحہ) پڑھی یہاںتک کہ ’’ولا الضالین‘‘ پر پہنچے اور ’’آمین‘‘ کہا اور لوگوں نے بھی ’’آمین‘‘ کہا اور جب بھی وہ سجدہ کرتے تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب بیٹھ کر کھڑے ہوتے ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب انہوںنے سلام پھیر لیاتوکہاجس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک میں نے تمہیں رسول اللہ ﷺکی طرح نماز پڑھائی ہے۔‘‘
قارئین کرام! ان تمام احادیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ فاتحہ کی آیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل آیت ہے اور بعض روایتوں میں مذکور ہے بسم اللہ دو سورتوں کے درمیان تفریق کیلئے نازل ہواکرتی تھی۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : کان النبی ﷺ : لا یعرف فصل السورۃ حتی تنزل علیہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ (صحیح ابوداؤد ، حدیث نمبر :۷۰۷ ، جلد/۱)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ سورتوں کے درمیان تفریق نہ جانتے تھے یہاں تک کہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نازل ہوجاتی۔‘‘
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک یہ فاتحہ میں سے نہیں ہے پھر انہوں نے استدلال کیا جس سے امام القرطبی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے اور دوسروں نے بھی حدیث ’’ابو ہریرۃ: قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ما سأل۔ ‘‘ پھر فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں تو پھر کیا جواب ہے اس کا کہ ہم آپ کے ہاں کے قرآن میں بسم اللہ کو فاتحہ کی پہلی آیت دیکھتے ہیں؟ ہم کہیں گے: یہ ترقیم بعض اہل العلم کے قول کی بنا پرہے اس لئے آپ دیکھیں گے کہ باقی تمام سورتوں میں نہ تو ’’بسم اللہ ‘‘ کی ترقیم کی جاتی ہے اور نہ ہی اسے آیت گِناجاتاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسری سورت کی بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے۔‘‘ (الشرح الممتع، جلد/۳، صفحہ نمبر :۵۷، تفسیر القرطبی :۱/۹۳، اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء : صفحہ نمبر :۳۷۵ ، جلد/۶، فتوی عبد اللہ غدیان ، غبد الرزاق عفیفی نائب رئیس اللجنۃ ، عبد اللہ بن منیع / فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جلد/۲۲، صفحہ:۳۵۱، نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ۱/۳۴۳۔ میں یہ فتاوےٰ ملاحظہ فرمائیں۔

آیات فاتحہ کی تقسیم

الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ: اگر بسم اللہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے تو جیسے ہر شخص جانتا ہے کہ فاتحہ کی سات آیات ہیں پس ہم کیسے فاتحہ کی سات آیات کو تقسیم کریں گے جبکہ بسم اللہ کو ہم نے خارج کردیا ہے ؟
جواب : فاتحہ کو تقسیم اسطرح کیا جاسکتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ-پہلی آیت-الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ- دوسری آیت-مَالِکِ یَومِ الدِّینِ-تیسری آیت -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت -اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ-پانچویں آیت -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم-چھٹی آیت- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں آیت۔ اور یہ تقسیم معنوی اور لفظی اعتبار سے مطابقت رکھتی ہے ۔
لفظی مطابقت : اگر ہم فاتحہ کو اسطرح تقسیم کریں گے تو آیات میں مناسبت اور مقاربت پیدا ہوجائے گی، لیکن جب ہم کہتے ہیں :اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ - یہ چھٹی آیت ہے اور -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں تو اس کی طوالت سابقہ آیت سے مناسبت نہیں رکھتی ۔
معنوی مطابقت:اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے الصلاۃ کواپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا ۔ جب بندہ کہتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِین- تو اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : حمدنی عبدی ۔۔الخ (پیچھے حدیث دیکھئے ) آگے فرماتے ہیں : جب بندہ-إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے درمیان ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا۔ (اور درحقیقت یہ آیت درمیانی آیت ہے ) -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت ہے ۔ اور پانچویں ،چھٹی اور ساتویں آیت -اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ-ہے ۔ پس ابتدائی تین آیات اللہ رب العالمین کیلئے اور آخرکی تین آیات بندے کیلئے اوردرمیانی آیت اس کے اور اسکے رب کیلئے ہے۔ ( الشرح الممتع علی زاد المستقنع ۳! ۵۸۔۵۹، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر! ۱ !۱۰ ، مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ /۲۲!۳۵۰ )

بسم اللہ کیا جہراً پڑھیں؟

یہ مسئلہ بھی طوالت اور بحث سے خالی نہیں ہے مگر دو اقوال پر اکتفا کروںگا۔
۱۔کیونکہ اکثر احادیث جو نبی کریم ﷺ سے وارد ہیں سری ( منہ میں پڑھنا)قرأت پر دلالت کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تمام احادیث جو بسم اللہ کے جہراً (اونچی آواز سے پڑھنا) کے باب میں وارد ہوئی ہیں ضعیف ہیں۔ (الشرح الممتع ۳/۵۷، المغنی لابن قدامہ ۲/۱۴۹، مجموع الفتاوی شیخ الإسلام ۲۳/۲۷۵)
۲۔اور یہ جمہور علماء کا قول ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ قرآن کی مفرد آیت ہے نہ کسی سورت کی اور نماز میں اسے سراً پڑھاجائے۔ (مجموع الفتاویٰ شیخ الاسلام ۲۲/۳۵۱)
مگر ایک صحیح حدیث جہراً پر دلالت کرتی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے نعیم مجمر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی پس انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر فاتحہ پڑھی۔ ۔ ۔ ۔‘‘ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
اس بناء پر علماء کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ : بسم اللہ سراً پڑھنا افضل ہے اور جہراً جائز ہے پر مستقل مزاجی جہراً پر خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور سائر الصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا طرز دوران نماز سرا بسم اللہ کی قرات تھی۔ واللہ أعلم
محترم قارئین کرام! یہ ایک ادنی سے طالبعلم کی طرف سے ایک مختصرسی تحقیق اور کاوش ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں حق بتانے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اختتام: آخر میں ابن العربی رحمہ اللہ کے قول پر اختتام الکلام کرتاہوں ۔ فرماتے ہیں :
’’اور تیرے لئے یہ کافی ہے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے اختلاف اس میں ہیں اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں کرتا اور صحیح اخبار جو طعن سے پاک ہیں دال ہیں کہ بسم اللہ نہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی دوسری سورت کی سوائے صرف سورت النمل کی۔‘‘(التفسیر القرطبی ۱/۹۴)
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأزواجہ وذریاتہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین۔

مراجع الکتب

۱۔ تفسیر ابن کثیر /(اردو) تالیف : امام المفسرین حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی المتوفی ۷۷۴ ھ ، ترجمہ : امام العصر مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ
تخریج : کامران طاہر / تحقیق ونظر ثانی : حافظ زبیر علی زئی / مکتبہ اسلامیہ
۲۔ القرطبی الجامع لاحکام القرآن مؤلف : لأبی عبد اللہ محمد بن احمد الأنصاری القرطبی / اعاد طبعہ دار الأحیاء التراث العربی بیروت لبنان ۔
۳۔تفسیر القرآن العظیم / مؤلف : الإمام الجلیل الحافظ عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر القرشی الدمشقی المتوفی ۷۷۴ ، قدّم : عبد القادر الأرناؤؤط ادارۃالمساجد المشاریع الخیریۃ الریاض
۴۔ الشرح الممتع علی زاد المستقنع / مؤلف : فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین / دار ابن الجوزی السعودیہ العربیہ
۵۔مختصر استدراک الحافظ الذہبی علی المستدرک ابی عبد اللہ الحاکم / مؤلف : العلامہ سراج الدین عمر بن علی بن احمد المعروف بابن الملقن توفی عام ۷۰۴ھ / تحقیق ودراسۃ : سعد بن عبد اللہ بن عبد العزیز آل حمید / دار العاصمۃ الریاض
۶۔صحیح ابن حبان ، بترتیب ابن بلبان / تالیف : الأمیر علاؤ الدین علی بن بلبان الفارسی المتوفی ۷۳۹ھ / حققه وخرّج احادیثہ وعلق علیہ : شعیب الأرنؤوط / مؤسسۃ الرسالۃ
۷۔نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ / مؤلف : الامام الحافظ البارع العلامہ جمال الدین ابی محمد عبد اللہ بن یوسف الحنفی الزیلعی المتوفی ۷۶۳ھ / ومع حاشیۃ التفسیۃ المہمۃ ’’بقیۃ الالمقی فی تخریج الزیلعی ‘‘ وتصحیح الصل نسخۃ بعنایۃ بالغۃ من ’’ادارۃ المجلس العلمی / دار نشر الکتب الإسلامیہ ، ۲شارع شیش محل لاہور پاکستان۔
۸۔صحیح سنن ابی داؤد باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الالبانی بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی الدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرس : زہیر الشاؤش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج ۔
۹۔صحیح سنن الترمذی باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الألبانی / بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرسہ / زہیرالشاوش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج۔
۱۰۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری / مؤلف : الامام الحافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی ۔ دار السلام الریاض
۱۱۔مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ /جمع ورتب : الفقیر الی اللہ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاہمی النجدی الحنبلی رحمہ اللہ وساعدہ ابنہ : محمد وفقہ اللہ : طبع بأمر صاحب الستمو الملکی ولی العہد المعظم فہد بن عبد العزیز آل سعود
۱۲۔فتاوی الجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والنتصار : جمع مترتیب : احمد بن عبد الرزاق الدویش : طبع ونشر مؤسۃالأمیرۃ العنودبنت عبد العزیز بن مساعد بن جلوی آل سعود الخیریۃ۔
۱۳۔حصن المسلم مسنون اذکار اور محققق دعائیں: ترتیب وتحقیق : فضیلۃ الشیخ سعید بن علی القحطانی : ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمن یوسف / دار السلام۔
۱۴۔التبیان فی تفسیر ام القرآن : الفہ : ابو زکریا عبد السلام بن عبدالرؤف الرستمی : جمعیۃ الاشاعۃ التوحید والسنۃ علی منہاج السلف الصالحین ، بشاور باکستان ۔
۱۵۔ صحیح سنن النسائی باختصار السند صحیح احادیثہ / مؤلف : فضیلۃالشیخ محمد ناصر الدین الالبانی بتکلیف من مکتب التربیۃ العربی الدول الخلیج الریاض / اختصر اسانیدہ وعلق علیہ وفہرس زہیر الشاؤش / الناشر الکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج ۔
۱۶۔ صحیح مسلم تصنیف للامام الحافظ ابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری النیسابوری ۲۰۶۔۲۶۱ مکتبہ بیت الافکار الدولیۃ ۔
۱۷۔ ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، تالیف: فضیلۃالشیخ ابو بکر جابر الجزائری الواعظ بالمسجد النبوی الشریف الناشر مکتبۃ العلوم و الحکم المدینۃ المنورۃ ! توزیع دار الفکر ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟