Monday, June 29, 2009

جب تصویر کی آفت نہ تھی

علمِ قیافہ و فراست کا عجیب واقعہ
از فضیلۃ الشیخ عمر فاروق السعیدی

ہادی ٔ برحق جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے بنی نوع انسان کی دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیی جو شرعی ، اخلاقی اور معاشرتی اصول وضوابط پیش فرمائے ہیں ۔ انہیں ’’عقل عیّار‘‘ پر پرکھ کر بے قیمت بنادینا بہت بڑی ضلالت اور گھاٹے کاسوداہے۔ لوگ اس راہ اور اس ضابطہ سے اعراض کرکے کسی صورت بھی امن وسکون نہیں پاسکتے ، خواہ مادی اعتبار سے کتنا ہی مال کیوں نہ جمع کرلیں، یا اسلحہ کے زور پر قوموں کو فتح کرلیں یا فکری اعتبار سے کیسے ہی فلسفے کیوں نہ بھگالیں۔

ان تعلیمات میں سے ایک ارشاد آپ ﷺ کا تصویر کے بارے میں ہے کہ ذی روح شے کی تصویر سے آپ انے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ جس جگہ یہ ہو رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ یہ کسب اور کاروبار لعنت کاکام ہے۔ یہ احکام ومسائل ان بندوں کیلئے بے حد آسان ہیں جنہیں اپنے اللہ کے رب ہونے ، محمد ﷺ کے نبی اور رسول ہونے اور اسلام کے دین حق ہونے کا یقین ہو۔ اور یہ کہ فرشتے بھی کوئی چیز ہیں۔ ان کی اپنی ایک اہمیت ہے اور ہمیںضرورت ہے کہ وہ ہم پر ، ہمارے گھروں اور دکانوں میں نازل ہوں۔ اوراگر خدانخواستہ ایمان کی یہ بنیاد کمزور ہوتو پھر حیلے بہانے سے ان تعلیمات کو ’’روشن خیال‘‘ سے منور کرنے کی سوراہیں نکل آتی ہیں۔ ونسأل اللہ العافیۃ
اور پھر منفی نتائج کی ذمہ داری سوفیصد ہم حیلہ باز لوگوں ہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کسی طرح بھی ظالم نہیں۔
تصویر کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللباس میں پورے دس باب ذکر کیی ہیں ۔
(کتاب اللباس ، باب التصاویر ، باب عذاب المصورین ، باب نقض الصُور ، باب ما وطئ من التصاویر ، باب من کرہ القعود علی الصُور ، باب کراہیۃ الصلاۃ فی التصاویر ، باب لا تدخل الملائکۃ بیتاً فیہ صورۃ ، باب من لم یدخل بیتاً فیہ صورۃ ، باب من لعن المصور ، باب من صور صورۃ ۔ ۔ ۔ احادیث نمبر ۵۹۴۹ تا ۵۹۶۳ )
معلوم کیاجانا چاہیی کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ یا کردیے گئے ہیں کیا کل ماضی میں نہ تھے؟ قانونی اور معاشرتی ضروریاتی یقیناً پہلے بھی ایسی ہی تھی تو لوگ اپنی یہ ضرورت کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’’علم قیافہ اور علم فراست‘‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور سے پوری کرتے تھے۔
جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی ۔أہونُ البلیتین ۔ کے طور پر ھنیئاً مریئاً بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے علمِ فراست کو ان سے اٹھا لیا ہے۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر :۴۰۷۲ ) (نیز البدایۃ والنہایۃ جز،۴۔ ص/۱۷)
میں آیا ہے ۔ بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک ، دانا اور صاحب فراست ہوتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کا عبید اللہ بن عدی عروئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں۔ وہ یہیں کہیں رہتاہے۔ اور اس سے شہادت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہ راست معلوم کریں گے۔ محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جوبات انہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنی اور معلوم کی جائے جو صاحب واقعہ ہو۔
ہم پوچھتے پوچھتے آگے بڑھے تو ہمیں ایک آدمی نے کہا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے اور دیکھنے سے ایسے لگتاہے جیسے کہ کوئی پانی کا سیاہ مشک ہو۔ (البدایۃ والنہایۃ میں ہے ’’گدھ‘‘ کے مشابہ بیان کیا گیاہے )
ہم جلدہی اس کے پاس جاپہنچے ۔ہم نے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا۔ عبید اللہ نے کہا : وحشی! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ جبکہ وہ ڈھاٹے سے اپنا سر اور منہ لپیٹے ہوا تھا۔ اور وحشی اس کی صرف آنکھیں یا پاؤں ہی دیکھ سکتاتھا۔
تو اس نے اس کی طرف دیکھااورکہا : نہیں، البتہ اتنا یاد پڑتاہے کہ مکہ میں عدی بن خیار نے ابوالعیص کی بیٹی امّ قتال نامی ایک عورت سے شادی کی تھی۔
عورت نے ایک بچے کو جنم دیا تو مجھے کوئی دایہ ڈھونڈنے کا کہا گیا چنانچہ جب دایہ آئی تو میں نے اس کا بچہ اٹھا کر اس دایہ کے حوالے کیا تھا۔ مجھے لگتاہے کہ تیرے یہ پاؤں اسی جیسے ہیں۔ [اور اس نے بخوبی پہچان لیا اور ٹھیک پہچانا] اور یہ بچہ اس نے تقریباً پچاس سال پہلے دیکھا تھا۔ (فتح الباری)
پھر عبید اللہ نے اپنے سراور منہ سے اپنی پگڑی ہٹالی اور پوچھا کہ کیا تم ہمیں حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی تفصیل بیان کرسکتے ہو؟ اس نے کہا : کیوں نہیں؟
اس نے تفصیل بتائی کہ مکہ کے طعیمہ بن عدی کوجناب حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر میں قتل کیا تھا۔ میرے مالک جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا : اگر تو میرے چچا کے بدلے حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کردے تو تو آزاد ہوگا۔ چنانچہ عینین یعنی أحد کے سال جب قریشی جنگ کیلئے نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ میدان میں جب صفیں آمنے سامنے ہوئیں تو قریش کی طرف سے سباع بن عبد العزی خزاعی نے مسلمانوں کو مقابلے کیلئے للکارا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے میں نکلے ، اور بولے : اے سباع ! اوئے ابن امّ انمار کے بیٹے، جو عورتوں کی فرجیں کاٹتی ہے۔ یعنی وہ لڑکیوں کے ختنے کرتی ہے۔ اور یہ عمل عرب میں ہوتاہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔ تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتاہے۔ چنانچہ حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایسا وار کیاکہ وہ کل گزشتہ کی طرح ہوگیا (یعنی قتل ہوگیا) اور میں حمزہ رضی اللہ عنہ کی گھات میں ایک چٹان کے نیچے چھپا ہوا تھا جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس کی ناف کے نیچے کانشانہ لے کر اپنا بھالا دے مارا۔ جو اس کی رانوں کے درمیان میں سے آرپار ہوگیا ، اور یہ اس کی زندگی کے آخری لمحات تھے۔ [ اور پھر میں لشکر گاہ میں اطمینان سے جا بیٹھا، کیونکہ میرا مقصد پورا ہو گیا تھا ] پھر قریشی مکہ واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ آگیا ۔ [اور مجھے آزادی مل گئی] پھر میں مکہ ہی میں رہنے لگا حتی کہ (فتح مکہ کے موقعہ پر) یہاں اسلام کی اشاعت ہوگئی ۔تو میں طائف چلا گیا۔بہت پریشان تھا ، سوچتا تھا کہ شام یا یمن وغیرہ کی طرف چلا جاؤں میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھے کہا : تیرا افسوس ! وہ محمد ﷺ اللہ کی قسم ! جوکوئی اس کے دین میں داخل ہوجائے اورحق کی شہادت کا اقرار کر لے ، وہ اسے کسی طرح قتل نہیں کرتے۔چنانچہ اہل طائف نے اپنا وفد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا اور مجھے بتلایا گیا کہ محمد ﷺ وفود کے درپے آزاد نہیں ہوتے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ چلا آیا اور آپ ﷺ کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ جب آپ نے مجھے دیکھا تو بولے : وحشی ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ پوچھا : کیا تو نے ہی حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا : بات ایسے ہی ہے جیسے آپ کو پہنچی ہے۔ آپ ا نے فرمایا: کیا تو اپنا چہرہ مجھ سے چھپا نہیں سکتا ؟
پھر میں وہاں سے نکل آیا اور جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو میں نے اپنے دل میں کہا : کیوں نہ ہوکہ میں اس طرف نکلوں ، اور ہوسکے تو اسے قتل کردوں شاید اس طرح میرے جرم قتلِ حمزہ رضی اللہ عنہ کی کوئی تلافی ہوجائے۔
چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک ٹوٹی ہوئی دیوار پر کھڑا ہے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی سیاہی مائل اونٹ ہو ، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، تو میں نے اس کی چھاتی کا نشانہ لے کر اپنا بھالا مارا جو اس کے کندھوں کے آر پار ہوگیا۔ اور پھر قریب سے ایک انصاری اچھلا اور اس نے تلوار سے اس کی کھوپڑی گردن سے جدا کردی (اور یہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ تھے)پھر ساتھ کے گھر پر سے ایک لونڈی نے پکار لگائی ، ہائے افسوس امیر المؤمنین! ایک کالے غلام نے اسے قتل کرڈالا۔ وحشی نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ایک بہترین بندے کو قتل کیا تھاتو پھر سب سے بدترین آدمی کاکام بھی میں نے ہی تما م کیا۔
ہمارا استدلال اس واقعہ سے یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام اور نا جائز ٹھہرایا ہے اس کا بدلہ بلکہ نعم البدل حلال اور پاکیزہ صورت میں یقیناً مہیا فرمایا ہے۔ اب لوگوں کا انتخاب ہے کہ وہ حلال کی طرف راغب ہوتے ہیں یا حرام کی طرف۔
صحابہ میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق آتاہے کہ بہت بڑے صاحب فراست اور صاحب قیافہ تھے۔ اور یہودیوں میں مجزز مدلجی کا واقعہ تو مشہور ومعروف ہے کہ اس نے سیدنا زید اور اسامہ رضی اللہ عنہما کے پاؤں دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ : ’’إنَّ ہٰذِہِ الأَقدَامَ بَعضُہَا مِن بَعضٍ ‘‘ یہ قدم ایک دوسرے میں سے ہیں۔ حالانکہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ گورے رنگ کے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کالے کلوٹے تھے۔
فنگر پرنٹس (نشانِ انگوٹھا) تو اب تک لازمی اور ضروری کاغذات میں مستعمل ہیں بلکہ شناختی علامات میں سے سب سے بڑھ کر قابل اعتماد یہی علامت ہے۔ اگر اس علم اور فن کا احیاء کیا جائے تو مسلمان مرد اور خواتین تصویر کی قباحت سے یقینا بچ سکتے ہیں ۔
وصلی اللہ علی النبی محمد وعلی آلہ وصحبہ أجعین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟