Wednesday, December 2, 2009

میری زندگی کا مقصد ازابو عبداللہ مقبول احمد

حج وقربانی کا شمار دین اسلام کے انتہائی اہم اور دور رس نتائج کے حامل شعائر میں سے ہوتا ہے ۔شعائر اللہ کی تعظیم وتوقیر اور ان سے حیات مستعار میں رہنمائی حاصل کرنا متقی دِلوں کا طرز عمل ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے ﴿وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ ﴾ الحج :۳۲
’’اور جو شخص شعائر اللہ کی تعظیم وتوقیر کرے تو بلاشبہ یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے ۔‘‘
شعائر اللہ کی تعظیم اسی وقت اوج کمال کو پہنچتی ہے جب یہ خالصۃً اللہ رب العزت کی رضا وخوشنودی کیلئے ہو۔ اسی لئے تو قربانی جیسی عظیم الشان عبادت کی روح تقویٰ قرار دی اور فرمایا ﴿ لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾الحج :۳۷
’’اللہ تک تمہاری قربانی کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا ہاں اُس تک تو رسائی ہے تمہارئے تقوی کی۔‘‘
اور ایسے ہی حج میں خلوص الٰہی کے بارے میں تلقین کی ﴿وَاَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَۃَ لِلّٰہِ﴾ ’’ حج وعمرہ خالص اللہ کیلئے پورا کرو۔‘‘
آئیے ذرا حج وقربانی کی فرضیت کے اصل مقصد کو سمجھیں ۔ قربانی وحج دراصل امام المؤحدین والمخلصین سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے خالص عقیدہ توحید اپ۔نانے کے طرز عمل کو اجاگر کرنے کی سعی وکوشش ہے کہ لوگوں ! قربانی کرتے وقت اپنے اندر ابراہیمی نظر، توکل، صبر، عقید توحید کی مسلسل دعوت پیش نظر رکھو۔ حج کرتے وقت امام غزالی رحمہ اللہ کے اس فرمودہ کو مت بھولیں کہ اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے ، جتنی شوق کی آگ تیز ہو گی اُتنی ہی مقصد تک رسائی آسان ہو گی، اپنے دل کا علاقہ ماسوائے اللہ کے سب سے منقطع کر لو اور جس طرح اپ۔نے سفر کا رخ اس کے گھر کی طرف کر لیا ہے ، اپنے دل کا رخ بھی اسی طرف کر لو۔ وطن سے تعلق اس طرح کر لو کہ جیسے پھر لوٹ کر نہ آؤگے ۔ اہل وعیال کیلئے وصیت لکھ کرجاؤ ! سفر کا سامان کرتے ہوتو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہوکہ کسی جگہ کمی نہ پڑ ے ۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمال حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد ہمارا ساتھ نہ دیں اور اس سفر سے تم سفر آخرت کیلئے تقویٰ کا زاد راہ زیادہ سے زیادہ جمع کر لو۔‘‘
میرے بھائی ! رب مہربان نے حاجیوں کو لبیک اللہم لبیک کی شکل میں ایک ترانہ بھی عطا کیا ہوا ہے جس کی اپنی لذت ہے ۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَا مِن مُلَبٍّ یُلَبَّی اِ لّا لَبِّی مَا عَن یَمِینِہِ وَشِمَالِہِ مِن شَجَرٍ أو حَجَرٍ أو مَدَدٍ حَتّیٰ تَنقَطِعَ الأرضُ مِن ھَا ھُنَا وَہَاہُنَا عَن یَمِینِہِ وَشِمَالِہِ۔‘‘ (رواہ الترمذی (۸۲۸) ابن ماجہ(۲۹۲۱) وابن خزیمۃ(۱۶۳۴) والحاکم وقال صحیح علی شرط البخاری ومسلم ۱/۴۵۱) صححہ الشیخ الألبانی)’’جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ دائیں اور بائیں جوپتھر ، درخت ، ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اس طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اور کعبہ اللہ المشرفہ پر پہلی نظر ڈالتے وقت ایسا نہ ہوکہ خانہ کعبہ پر نظر تو پڑ ے مگر ’’ نگائہ دل ‘‘ عظمت کعبہ پر نہ ہو۔ جو ’’البیت‘‘ کو دیکھے تو وہ یہ جانے کہ گویا اس میں ’’رب البیت‘‘ کو دیکھا ہے اسی خانہ کعبہ کے اوپر آسمانوں میں ’’بیت المعمور‘‘ موجود ہے جس کا ایک وقت میں 70 ہزار فرشتے طواف کر رہے ہیں اور ایک دفعہ طواف کرنے والے فرشتے کو رہتی قیامت تک دوسری دفعہ طواف کرنے کا موقع میسر نہیں آتا۔ بس سمجھ لو عرش پر وہ طواف کر رہے ہیں اور فرش پر تم ، سمجھ لو کہ یہ دربار الٰہی کا نمونہ ہے یہاں اطاعت وفرمانبرداری کا مجسم اقرار ہے ، یہ عجب جگہ ہے اس کی عظمت ذہن نشین رہنی چاہیے ۔
کعبہ پر پڑ ی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش وخرد مفلوج ہوئے ، دل ذوق تماشا بھول گیا
احساس کے پردے لہرائے ، ایمان کی حرارت تیز ہوئی
سجدوں کی تڑ پ اللہ اللہ ، سر اپنا سودا بھول گیا
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے ، یاد آنہ سکا جو سوچا تھا
اظہار عقیدت کی دھن میں ، اظہار تمنا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اک ابرِ کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے کیا مانگ لیا کیا بھول گیا۔
اوریاد رکھئے ! قربانی ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے قربانی دیکر ہی اخلاص کی نعمت حاصل ہوتی ہے کندن بننے کیلئے بھٹی میں جلنا پڑ تاے ۔ قربانی دراصل ایک تربیتی عمل اور درسگاہ ہے کہ اے امت مسلمہ کے جانثاروں ! اللہ کے دین کی شہادت یا اقامت میں اگر جان ومال آل واولاد کے پیش کرنے کا مرحلہ آجائے تو کامل خودسپرد گی کے ساتھ زبان حال سے کہو ’’سَمِعنَا وَاَطَعنَا‘‘ قربانی کے جانور کے گلے پر چھری چلانے سے قبل اپنے نفس امارہ کے گلے پر چھری چلانے کا جذبہ پیدا کریں ۔ خوش نصیب آدمی اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہر گوشہ اور ہر چیز رضائے الٰہی کی خاطر قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے حقیقت میں قربانی کا فلسفہ صرف یہی خوش نصیب ہی سمجھتا ہے ۔
میرے بھائی ! جب حج سے واپسی ہوتو یہ جذبہ لیکر آؤ کہ اب جب رب کعبہ کا گھر دیکھ آئے ہو ، حج کرآئے ہو تو سوچ لو کہ کیا اب معرکے کیلئے تیار ہو۔ وہی معرکہ جو فرعون وموسی علیہ السلام میں ہوا تھا ، وہی معرکہ جو نمرود و ابراہیم علیہ السلام میں ہوا ، وہی معرکہ جو کفر واسلام میں ہوا۔ کہیں تم داؤد علیہ السلام کی طرح فاتح ہو گے اور سلیمان علیہ السلام کی طرح ملکیت ملے گیا اور کہیں تم اصحاب الاخدود کی طرح آگ میں جلائے جاؤ گے ۔ ذرا پلٹ کے سوچو گے تو جانو گے کہ تم کو حج میں دراصل ایک فوجی تربیت دی گئی تھی ، کیمپنگ کروائی گئی تھی۔ ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی بھیجا گیا تھا تاکہ معرکے کیلئے تیار ہو جاؤ یعنی معرکہ خیر وشر۔ اب معرکہ اس مملکت خداداد پاکستان میں اقامت دین کا ہے ۔ ملکی نظام کے ہر کونے او رہر حصے میں اللہ کے دین کا نافذ ، اس کے قیام کی جدوجہد ہی مقصودِ زندگی ہونا چاہیے ۔ یہ بڑ ا ظلم ہو گا کہ ملک کی اعشاریہ ایک فیصد آبادی حج کی سعادت حاصل کرے مگر معاشرے میں تبدیلی نہ آئے ۔
امت مسلمہ ایک عرصے سے ملت کفر کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہی ہے اس کے وجود سے رستا ہوا خون ایک ایمانی تڑ پ پیدا کرتا ہے ۔ پیغامِ اسلام عصر حاضر کے سلگتے مسائل میں رحمت کی امید پیدا کرتا ہے ۔ امت مسلمہ کیلئے اس عالمگیر قربانی کے موقع پر عید الاضحی کا پیغام یہی ہے کہ ہم اسلام کے شعائر کو بطور رسم نہیں بلکہ بطور دین قبول کریں ۔ اسلام کے مَن مانے احکامات نہیں بلکہ جملہ پیغامات پر عمل کریں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾(الأنعام : ۱۶۲) ’’ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، قربانی ، میرا جینا اور مرنا (سب کچھ)اللہ رب العزت کیلئے ہے ۔ ‘‘کی روح پیدا کریں اسی وقت ہی ہماری قربانیاں ثمر مند ہو سکتی ہیں اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے ۔ع
میری زندگی کا مقصدتیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اس لئے نمازی
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
افغانستان سب کو نگل جائے گا نکلنے میں عافیت ہے : امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی جانب سے ۴۰ ہزار مزید امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کی درخواست کی ہے ، مگر امریکی صدر بارک اوباما کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل جیمز جونز نے افغان مشن کیلئے مزید فوجی بھجوانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ۔ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑ ھانے کے بجائے وہاں سے فوج نکالنے میں ہی ہماری عافیت ہے اگر افغانستان میں ۲ لا کھ فوجی بھی تعینات کر دئیے جائیں تو یہ افغانستان تمام فوجیوں کو نگل جائے گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
ادھر میخائل گوربا چوف سابق سو ویت صدر بھی دو ہاہی دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی غلطی نہ کرے امریکہ روس سے عبرت حاصل کرے اور مذا کرات کا راستہ اختیار کر لے ہم نے بھی افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کے اضافے پر غور کیا تھا لیکن آخر کار نقصان کے باعث فوجی انخلا کا فیصلہ کرنا پڑ ا۔ اخباری رپورٹ ۱۰ نومبر ۲۰۰۹ء روزنامہ امت
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تفسیر سورۃ النور

از الشیخ فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر : ۱
قرآن مجید کی تعلیمات جو کہ زمان ومکان کی قیود سے ماوراء اور تمام شعبہ حیات کے جملہ مسائل کی رہنمائی پر محیط ہیں ۔
قرآن مجید کی فضیلت سے وہی شخض آگاہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس میں غور کرتا ہے اور جس کا جتنا علم وسیع ہوتا ہے اسے قرآن کے اسالیب بیان سے اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے ۔ قرآن مجید اپنے اسلوب بیان کے حوالے عدیم المثال ہے کہ اس میں جمال صوتی کا حسن موجود ہے تو دوسری جانب تشبیہات بھر پور منظر کش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ان کا مقصد معنوی امور کی وضاحت مرئی ومحسوس چیزوں کے ساتھ کرنا ہوتا ہے تو تیسری جانب قرآنی استعارات اتنے فصیح وبلیغ ہیں کہ اس کی تعبیر بیانی کی عالی منزلت کی نظیر ناممکن ہے تو چوتھی جانب ایجاز کا پہلو جابجا نظر آتا ہے جس کے پس منظر میں جامعیت اور اختصار پنہاں ہیں تو پانچویں جانب امثال باعث نصیحت اور موعظت اور مضمون کو صراحت کے ساتھ سمجھانے کیلئے اور مقصود کو عقل سے قریب کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیں جن کا خاکہ اس محسوس صورت میں کھینچا گیا ہے کہ اطمئنان قلب کے ساتھ رسوخ فی قلب کا ذریعہ بھی بن جائیں ۔
قرآن مجید کے اسالیب بیان پر گفتگو ایک طویل موضوع ہے ۔آمدم برسر مطلب
قرآن مجید ایک مسلمان کی زندگی کے تمام مسائل میں ہادی کا مقام رکھتا ہے ۔ قرآن مجید میں جملہ موضوعاتِ حیات کا تذکرہ انتہائی مؤثر پیرائے میں موجود ہے ان مقامات کی تشریح وتوضیح کیلئے علماء کے ایک گروہ نے فقہی احکام کو مد نظر رکھا تو دوسرے گروہ نے اس کی فصاحت وبلاغت کو سامنے رکھا تو تیسرے گروہ نے سیرت طیبہ کی مدد سے اس کی تفسیر بیان کی تو کچھ علماء نے علم کلام وفلسفہ ومنطق کے اصولوں کی مدد سے اس کی توضیح کی۔
اللہ کے کلام میں تکرار موضوعات کے باوجود ناقض اور خطاء سے ثابت وسالم ہونا اور اس کے ساتھ اس کے معانی کا عمق وغیبی خبروں پر مشتمل ہونا وغیرہا۔ ان تمام اسالیب اور تفاسیر کا مقصد صرف اور صرف حضرت انسان کو اس کے ہدف حقیقی کی طرف راغب کرنا ہے اور اسے اس کا بھولا ہوا عہد اولین یاد کروانا ہے اس مقصد کیلئے مسلمان کو سب سے پہلے اپنے زندگی کے شب وروز کو اسلامی تعلیمات کے تابع لانا بہت ضروری ہے ۔ لہذا زیرِ نظر درس قرآن میں معروف طریقہ تو یہ تھا کہ باقاعدہ سورۃ الفاتحہ سے آغاز کیا جاتا لیکن احباب واساتذہ کرام کی مشاروت سے بہتراور انسب یہ محسوس ہوا کہ قرآن مجید میں سے ان موضوعات کا ایک تسلسل کے ساتھ احاطہ کیا جائے جس کی ہمیں موجودہ زندگی میں سب سے زیادہ ضرورت ہے اس حوالہ سے ایک مسلمان کو حسن دنیا وحسن آخرت کی دعا کے نتیجے میں اپنے کردار کو ان تعلیمات کے نور سے ضرور مزین کرنا چاہیے جو سورۃ النور اور سورۃ الحجرات میں بیان کیے گئے ہیں ۔ سورۃ النور سے ابتداء کرنے کی ایک توجیہہ یہ بھی ہے کہ انسانی کردار کی عصمت وعفت جس طرح آج داغدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کیلئے اللہ سے دعا گو ہوں کہ سورۃ النور وحجرات ہمارئے لئے حصن حصین ثابت ہوں ۔ اس حوالے کسی مقام پر کسی تسامع وسہوکا واقع ہونا ممکن ہے راقم ایسی کسی بھی مثبت تنقید کا خیر مقدم کرے گا۔
تمہید
﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآَنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ أَقْوَمُ ﴾ بنی إسرائیل:۹ -’’یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سب سے بڑ ی خوبی یہ بیان کی ہے کہ قرآن مجید مکمل اور کامل ہدایت ہے اور ایسی حالت اور طریقہ کی طرف اس سے ہدایت ملتی ہے اس کی تعلیم کے مرکزی نقاط اسلام اور وحدانیت الٰہی اور رسالت پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین شامل ہے ۔
نام-سبب تسمیہ- : سورۃ نور بھی اسی قرآن مجید کا ایک متبرک اور مقدس جزء ہے اس کا نام اس سورت کے پانچویں رکوع کی پہلی آیت ’’نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ‘‘ سے مأخوذ ہے ۔
اس سورت کی وجہ تسمیہ اس کے احکام وآداب اسلامی- جوکہ کسی بھی انسان کی عزت، عفت اور عصمت کے محافظ ہیں - کی شعاعیں جابجا نظر آتی ہیں اور یہ سب اللہ کے نور میں سے ہے جس نے دین اسلام کی تعلیمات سے کائنات کو منور کیا اور اسی بات کو قرآن مجید میں یوں بیان کرتا ہے ۔
﴿وَاَنزَلنَا إِلَیکُم نُوراً مُّبِیناً﴾ النساء:۱۷۴’’ کہ ہم نے تمہارے طرف ایک واضح اور روشن نور نازل کیا۔‘‘
پس منظر : اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں پر محیط رہنمائی مسلمانوں کو مہیا کر دی ہے ۔ خواہ اس شعبہ کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا أخلاقیات اور کوئی بھی شخص استاد ہو یا شاگرد قاضی ہو یا حاکم ، تاجر ہو یا مجاہد ، مرد ہو یا عورت وغیرہم غرض کہ ہر شعبہ اور ہر صنف کیلئے مکمل ہدایت اور رہنمائی موجود ہے ۔
اس ضمن میں باقی مذاہب سے قطع نظر دین اسلام نے عورتوں کے مسائل پر جس طرح توجہ دی ہے اور ان کو معاشرہ میں ان کا حقیقی مقام دلانے میں جو کاوش وسعی کی ۔کسی اورمذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس قسم کی أخلاقی تعلیمات جابجا بکھری ہوئی نظر آتی ہیں جوکہ ستاروں کی مانند ہیں اور اس حوالے سورۃ نور جو ہمارے مدنظر ہے اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس سورت میں جو آداب سکھلائے گئے ہیں وہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی بھی معاشرے کے حسن اور خوبصورتی کیلئے ابدی معیار بن سکتے ہیں ۔
اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر وحجاب سے متعلق ہیں اس لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آتیں ہیں ۔ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے نام اپنے ایک فرمان میں فرمایا تھا کہ ’’علموا نسائکم سورۃ النور‘‘ ’’یعنی اپنی عورتوں کو سورۃ نور کی تعلیم دو۔‘‘
اس کے علاوہ کبھی کبھی ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہا جس کے ذریعے ایمان والوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ابدی فلاح وکامیابی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو نمازوں میں خشوع وخضوع اور لغویات سے اجتناب کرتے ، زکوۃ کو ادا کرنے والے شرمگا ہوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے شہوانی جذبات پر مکمل قابو رکھنے والے ہیں اور ان تعلیمات کی روشنی میں جب ہم مسلمانوں کی زندگیاں دیکھتے ہیں تو ایمان کے اثرات اور تقاضے ان کی انفرادی زندگیوں میں نظر آتے ہیں اور مدینہ میں آنے کے بعد جب اجتماعی تنظیم وسیاسی ریاست وجود میں آئی تو ضرورت محسوس ہوئی ایسے أحکام و آداب کی جو معاشرہ میں اصلاح وتطہیر کی فضا قائم ودائم رکھے ۔ سورۃ نور میں اہل ایمان کو ان أحکام اور آداب اور ہدایات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ جو کسی معاشرے کی تشکیل کے دوران معاشرے کو ایمان کے تقاضوں سے منور کرنے اور ایمان کے منافی مفسد امور سے محفوظ رکھنے کیلئے ضرور ی ہیں ۔
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور افراد معاشرے کی اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح گھر اور مکان معاشرے کی خشت اوّل ہے جب تک ایک گھر کا ماحول پاکیزہ ، طاہر اورصحت مند نہ ہو گا اس وقت اس معاشرے میں صحت مندانہ ماحول بہت مشکل ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے ۔
اور اسلام کا مقصد ہی انسان کو اشرف مخلوقات کے حقیقی مقام پر فائز کرانا ہے اور اس ضمن میں اس پر عائد ذمہ داری اور فرائض کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔
لہذا ارشادات اورہدایات کے اس گل دستہ کے ساتھ اوامر ونواہی کا ایک ایسا مکمل نظام پیش فرمایا جس نے اس معاشرے کو اس کے حقیقی مقصد کی طرف گامزن کرنے میں مدد فرمائی۔
اس سورت کے بنیادی اور اہم مضامین حدِزنا، پردہ آداب استئذان واقعہ افک آیۃ استخلاف وغیرہ شامل ہیں ۔ ہم نے اس سورت کی درج ذیل مضامین میں تقسیم کیا ہے اور یہ تقسیم موضوعاتی اعتبار سے کی گئی ہے تاکہ قاری اس کے اصل مفہوم تک بآسانی پہنچ سکے ۔
موضوع نمبر ۱:عمومی ہدف جوکہ سورت کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جوکہ آیت نمبر ۱ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر ۲: زنا اور اس کے احکام جوکہ آیت نمبر ۲ اور ۳ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۳: احکام قذف جوکہ آیت نمبر ۴ اور ۵ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۴: احکام لعان جوکہ آیت نمبر ۶تا ۱۰ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۵: حادثہ افک جوکہ آیت نمبر ۱۱ تا ۲۱ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۶: حادثہ افک کے نتیجے میں نازل ہونے والے آداب واخلاقیات جوکہ آیت نمبر ۲۲ تا ۲۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۷: آداب استئذان وزیارت جوکہ آیت نمبر ۲۷ تا ۲۹ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۸: آیات حجاب ونظر جوکہ آیت نمبر ۳۰ اور ۳۱ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۹:نکاح پر ترغیب اور برائیوں سے تحذیر کابیان جوکہ آیت نمبر ۳۲ تا ۳۴ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۱۰ : نور الٰہی کی وضاحت اور اس سے محروم لوگ جو کہ آیت نمبر ۳۵ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر ۱۱: آداب مسجد جوکہ آیت نمبر ۳۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۱۲: صفات مؤمنین جوکہ آیت نمبر ۳۷ اور ۳۸ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۳: کفار کے اعمال کی مثال جوکہ آیت نمبر ۳۹ /۴۰ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۱۴: توحید ربوبیت کا بیان جوکہ آیت نمبر ۴۱ تا آیت نمبر ۴۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۵: منافقین کا بیان جوکہ آیت نمبر ۴۷ تا ۵۴ پر مشتمل ہہیں ۔
موضوع نمبر۱۶:آیت استخلاف جوکہ آیت نمبر ۵۵ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۱۷: رحمت الٰہی کے حصول کا طریقہ جوکہ آیت نمبر ۵۷ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۸: اوقات خلوت میں آداب استئذان جوکہ آیت نمبر ۵۸ تا ۶۰ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۹: اقرباء کے گھروں سے احکام طعام جوکہ آیت نمبر ۶۱ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۲۰: صفات مؤمنین اور آداب رسالت جوکہ آیت نمبر ۶۲ اور ۶۳ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۲۱: سورت کا اختتام توحید الٰہی پر جوکہ آیت نمبر ۶۴ پر مشتمل ہیں ۔
اس مختصر تعارف کے بعد قاری کے ذوق و شوق کو دعوت ہے کہ آگے بڑ ھے اور نور الٰہی کے اس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو طہارت وپاکیزگی کے موتی چن لے اور اپنی ذات کو اس سے منور کر لے ۔
سورت النور مدنی ہے اور اس کی چونسٹھ آیات ہیں اور نو رکوع ہیں ۔
موضوع نمبر ۱: عمومی ہدف
﴿سُورَۃٌ أَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضْنَاہَا وَأَنْزَلْنَا فِیہَا آَیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾ النور:۱
’’یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کر دی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں -أحکام- اتارے ہیں تاکہ تم یادرکھو۔‘‘
معانی کلمات
سورۃ : لغوی مفہوم کے مطابق اونچا اور بلند مقام
اصطلاحی مفہوم کے مطابق : قرآن مجید کی آیات مبارکہ کا مجموعہ جس کی ابتداء اور انتہا ہو۔
اور اس کو سورت اس کے شرف اور بلند مقام کی وجہ سے کہا گیا ۔ قرآن کریم کی سورۃ کو سورۃ کہنے کی بہت سی توجیہات بیان کی گئی ہیں بعض کا خیال ہے کہ ان کی بلند مرتبی کی وجہ سے انہیں سورۃ کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چونکہ پہلی سورت بعد میں آنے والی سورت کیلئے سیڑ ھی کاکام دیتی ہے اس لئے اس کو سورت کہتے ہیں ۔ بعض نے کہا :کہ یہ منزل بمنزل آتی ہیں اور ان سب کے مجموعہ سے قرآن مجید کی عمارت کی تکمیل ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ ان میں قرآن مجید کے احکام محفوظ ہوتے ہیں جس طرح شہر پناہ سے شہر کی حفاظت کی جاتی ہے اسی طرح علامت کو بھی سورت کہا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں یہ لفظ دیوار، سرداری وغیرہ کے مفاہیم میں آیا ہے ۔
أَنزلنہا : اے محمد اہم نے اس کو آپ کی طرف وحی کیا ہے ۔
فرضناہا : یعنی جو احکام ہم نے اس میں نازل کیے وہ قطعی طور پر واجب قرار دئیے گئے ہیں ۔
آیات : جمع آیۃ کبھی یہ لفظ علامت اور نشانی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی قرآن مجید کے جملوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
بینات : یعنی واضح کھلی ہوئی دلالت کے ساتھ مکمل دلائل کے ساتھ ۔
تذکرون : تاکہ تم اس کو یادر کھو اور اس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرو۔
-جاری ہے-
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں

از ڈاکٹر عبدالحئی المدنی
خواتین اور مرد حضرات کی خوشبو - حدیث نمبر ۴۷
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ا : طِیبُ الرِّجَالِ مَا ظَہَرَ رِیحُہُ وَخَفِیَ لَونُہُ وَطِیبُ النِّسَائِ مَا ظَہَرَ لَونُہُ وَخَفِیَ رِیحُہُ ‘‘
تخریج : سنن الترمذی ، حدیث نمبر :۲۷۸۷، سنن النسائی ، حدیث نمبر :۵۱۲۱
راوی کا تعارف :حدیث نمبر ۱۵ کی تشریح میں ملاحظہ کریں ۔

طِیبُ: خوشبو Perfume
الرِّجَالِ : مرد Men
مَا ظَہَرَ: جو ظاہر ہو Which is aparent
رِیحُہُ : اس کی بُو Its smell
خَفِیَ: پوشیدہ Hidden
لَونُہُ : اس کا رنگ Its colour
النِّسَائِ: عورتیں Women

ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مرد حضرات کی خوشبو وہ (ہونی چاہیے ) جس کی خوشبو ظاہر ہو اور اس کا رنگ ظاہر نہ ہو (جبکہ) عورتوں کی خوشبو وہ (ہونی چاہیے ) جس کا رنگ ظاہر ہو اور خوشبو پوشیدہ ہو۔
تشریح : دین اسلام طہارت، اچھی وضع قطع ، تہذیب اور شائستگی پر بہت زور دیتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نہ صرف کہ ذاتی طور ان چیزوں کو پسند اور اپنا معمول بناتے تھے بلکہ امت کو بھی یہ معاشرتی تعلیمات دیتے تھے ۔
ہمہ وقت صاف ستھرا اور معطر رہنا پسندیدہ معمول تھا۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کی تعلیمات درج ذیل ہیں :
۱۔ مرد اور خاتون دونوں حلال خوشبو استعمال کریں ، اپنے جسم ولباس کی صفائی اور بہتر وضع قطع کا اہتمام کریں ۔
۲۔ مرد حضرات ایسی خوشبو استعمال کریں جسکا رنگ نمایاں نہ ہو صرف خوشبو محسوس ہو جبکہ خواتین اپنے بناؤ سنگھار میں صرف ایسی چیزیں استعمال کریں جنکی خوشبو نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں البتہ رنگ زیادہ ظاہر ہو۔
۳۔ خاتون گھرسے باہر نکلتے وقت(جہاں غیر محرم مردوں کے پاس سے گزرنا اور آنا جانا متوقع ہو) اپنی زیب وزینت اور رنگ وغیرہ بھی چھپالیں تاکہ کوئی مرد ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔
۴۔ غیر محرم مرد حضرات کے درمیان گھومنا ، تیز خوشبو لگا کر ان کے آمنے سامنے آنا شدید مذموم فعل ہے ۔
واضح رہے کہ عورت اپنے شوہر کیلئے زیب وزینت کی جملہ اشیاء جن کی خوشبو بھی بہت تیز ہو استعمال کرسکتی ہے مگر باہر نکلتے وقت مذکورہ بالا آداب کی پابندی ضروری ہے ۔ موجودہ معاشرے میں معمول بن گیا ہے کہ خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت میک اپ اور پرفیوم لگاتی ہیں ۔ یہ بہت بڑ ا جرم اور فتنہ ہے ، یہ سارا اہتمام صرف اپنے شوہر کیلئے کرنا ہی جائز ہے ۔ واللہ اعلم
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

از پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی
اللہ رب العزت ہر چیز کا تنہا خالق اور منفرد مالک ہے ، اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے دوسروں پر فضیلت عطا فرماتا ہے ۔ بعض انسانوں کو دوسروں سے اعلیٰ ٹھہرایا، بعض مقامات کو دوسری جگہوں سے افضل قرار دیا اور بعض زمانوں اور اوقات کو دوسرے زمانوں اور اوقات پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی۔
اسی سنت الٰہیہ کا ایک مظہر یہ ہے کہ اللہ مالک الملک نے ماہ ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سارے سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں اعلیٰ ، افضل ، بالا اور برتر قرار دیا۔ ذیل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان دنوں کے متعلق تین پہلوؤں سے گفتگو کی جا رہی ہے ۔
-۱- عشرہ ذو الحجہ کے فضائل
-۲- عشرہ ذو الحجہ کے اعمال
-۳- عشرہ ذو الحجہ میں اعمال حج
-۱- عشرہ ذو الحجہ کے فضائل
قرآن وسنت میں ان دس دنوں کی شان وعظمت کے متعدد دلائل وشواہد ہیں ۔ مولائے کریم کی توفیق سے ان میں سے چھ دلیلیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں :
۱۔﴿وَالفَجرِ ٭ وَلَیَالٍ عَشرٍ﴾-الفجر:الآیتان -
’’ قسم ہے فجر اور دس راتوں کی ۔‘‘
امام بغوی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ﴿ وَلَیَالٍ عَشرٍ﴾سے مراد ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں اور یہی قول امام مجاہد ، قتادہ، ضحاک ، سدی اور کلبی رحمہم اللہ کا ہے ۔ -ملاحظہ ہو : تفسیر البغوی ۴/۴۸۱-
اور بلاشک وشبہ اللہ تعالیٰ کا ان دنوں کی قسم کھانا ان کی شان وعظمت پر دلالت کرتا ہے ۔
۲۔ ان دس دنوں کے ساتھ حج کے مہینوں کا اختتام ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَلحَجَّ أَشہُرٌ مَعلُومَاتٍ﴾-البقرۃ:۱۹۷-
’’ حج کے مہینے معلوم ہیں ۔‘‘
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے لکھا ہے :’’ ذوالحجہ کے دس دنوں کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ معلوم مہینوں کا آخری حصہ ہیں اور وہ مہینے حج کے ہیں ، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿اَلحَجَّ أَشہُرٌ مَعلُومَاتٍ﴾-البقرۃ:۱۹۷-
’’اور وہ شوال ، ذوالقعدہ اور ذو الحجہ کے دس دن ہیں ۔‘‘ -لطائف المعارف ص:۴۷۱-
۳۔ اللہ تعالیٰ نے ان دس دنوں میں اپنے ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِی أَیَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ﴾-الحج :۲۸-
’’ اور معلوم دنوں میں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کریں ۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ، کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا ، کہ ان معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذو الحجہ کے دس دن ہیں ۔
-ملاحظہ ہو : صحیح البخاری:۲/۴۵۷-
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرات ائمہ حسن ، عطاء ، عکرمہ، مجاہد ، قتادہ اور شافعی رحمہم اللہ نے بھی اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر بیان کی ہے ۔
-ملاحظہ ہو : زاد المسیر:۵/۴۲۵-
ذکر الٰہی تو ہر روز بندوں پر لازم ہے ، لیکن مولائے کریم کا اپنی یاد کیلئے کچھ دنوں کا خصوصی طور پرذکر فرمانا، یقینا ان دنوں کی رفعت وعظمت کو اجاگر کرتا ہے ۔
۴۔ان دس دنوں میں کیا جانے والا اچھا کام اللہ تعالیٰ کو سال کے باقی دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ پیارا ہے ۔ حضرات ائمہ ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے ، کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ما مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیہِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّہِ مِنْ ہَذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَیْءٍ۔‘‘-ملاحظہ ہو : صحیح سنن أبی داؤد۲/۴۶۲، وصحیح سنن الترمذی ۱/۲۲۹، وصحیح سنن ابن ماجہ ۱/۲۸۹-
’’کسی بھی دن میں [کیا ہوا] اچھا کام اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں میں [کیے جانے والے نیک] عمل سے زیادہ پیارا نہیں ۔ انہوں نے [صحابہث] نے عرض کیا :’’ یا رسول اللہا ! -دوسرے دنوں میں کیا ہوا- جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟‘‘
آپ نے فرمایا :’’ -دوسرے دنوں میں کیا ہوا- جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔ ہاں ، مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ[راہ جہاد میں ] نکلے اور کچھ واپس لیکر نہ آئے ۔ -یعنی اپنی جان ومال اسی راہ میں قربان کر دے -۔‘‘
حافظ ابن رجب نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے :’’ جب ان دس دنوں میں کیا ہوا اچھا کام، بارگاہ الٰہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے ، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی، دوسرے دنوں کی بلند درجہ والی نیکی سے افضل ہو گی، اسی لئے جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا، کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربار رب العالمین میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا :’’ نہیں ‘‘ ۔-لطائف المعارف :۴۵۸۔۴۵۹-
حافظ ابن حجر نے عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ عشرہ ذوالحجہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج ہیں وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور وہ ان کے علاوہ کسی اور دنوں میں جمع نہیں ہوتیں ۔ -فتح الباری ۲/۴۶۰-
۵۔ عشرہ ذوالحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے نواں دن یوم عرفہ ہے اور یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا :’’یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ آیَۃٌ فِی کِتَابِکُمْ تَقْرَء ُونَہَا لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیدًا ‘‘ ’’اے امیر المؤمنین ! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑ ھتے ہو ، اگر ہم یہودیوں پر وہ نازل ہوتی ، تو ہم اس کے یوم نزول کو عید بنالیتے ۔‘‘
انہوں نے دریافت کیا :’’اَیُّ آیَۃٍ‘‘ کون سی آیت ؟‘‘
اس نے کہا ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِینًا ﴾-المائدہ:۳-
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قَدْ عَرَفْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ وَالْمَکَانَ الَّذِی نَزَلَتْ فِیہِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَۃَ یَوْمَ جُمُعَۃٍ‘‘ -صحیح البخاری ۱/۱۰۵-
’’ جس دن اور جس جگہ نبی کریم پر وہ [آیت] نازل ہوئی ، ہم اس سے آگاہ ہیں ۔ جمعہ کا دن تھا اور آپ ا عرفات میں کھڑ ے تھے ۔‘‘
اور یہ وہ عظیم دن ہے ، کہ اس میں اللہ تعالیٰ سال کے سارے دنوں میں سے ہر دن کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا کہ ’’یقینا رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:’’مَا مِنْ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُعْتِقَ اللَّہُ فِیہِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ‘‘ -صحیح مسلم۲/۹۸۳-
’’کوئی دن ایسا نہیں ، کہ اس میں اللہ تعالیٰ عرفات کے دن سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہو۔‘‘
۶۔ عشرہ ذوالحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کاآخری اور دسواں دن ’’یوم النحر‘‘ [قربانی کا دن] ہے جس کے بار ے میں رسول کریم نے فرمایا :’’أفضل الأیام عند اللہ یوم النحر ویوم القر‘‘ -المسند۴/۳۵۰، والاحسان إلی تقریب صحیح ابن حبان ۷/۵۱ ، والمستدرک ۴/۲۲۱-
’’بارگاہ الٰہی میں سب سے فضیلت والا دن یوم النحر اور یوم القر ہے ۔‘‘
گیارہ ذوالحجہ کو ’’یوم القر‘‘ کہتے ہیں کہ حجاج اس دن منیٰ میں ٹھہرتے ہیں ۔ -ملاحظہ ہو : النہایہ فی غریب الحدیث والأثر ۴/۳۷-
-۲- عشرہ ذو الحجہ کے اعمال
رب رحمن ورحیم کی طرف سے عشرہ ذوالحجہ اہل ایمان کیلئے اجر وثواب حاصل کرنے کا عظیم الشان اور سنہری موقع ہے کہ ان دنوں کی معمولی درجہ کی نیکی بھی دوسرے دنوں کے اعلیٰ درجہ کی نیکیوں سے افضل ہے ۔ اس لئے اللہ والے ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے زاد آخرت جمع کرنے کی شدید جدوجہد کرتے تھے ۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کیا ہے :جب عشرہ [ذوالحجہ] داخل ہوجاتا تو سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ تاحد استطاعت شدید عبادت کرتے ۔
-سنن دارمی ۱/۳۵۷-
ان ایام میں درج ذیل اعمال کرنے کا احادیث شریفہ میں خصوصی طور پر ذکر آیا ہے ۔
۱۔کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہنا
امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :’’مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ وَلَا أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ الْعَمَلِ فِیہِنَّ مِنْ ہَذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ فَأَکْثِرُوا فِیہِنَّ مِنْ التَّہْلِیلِ وَالتَّکْبِیرِ وَالتَّحْمِیدِ‘‘ -المسند ، حدیث نمبر :۵۴۴۶، ۷/۲۲۴ ط : دار المعارف مصر-
’’کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا [اچھا] عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے ۔ پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے [ لا الہ إلا اللہ ] ، [ اللہ اکبر] اور [الحمد للہ] کہو۔‘‘
سلف صالحین اس بات کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے :’’ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ یَخْرُجَانِ إِلَی السُّوقِ فِی أَیَّامِ الْعَشْرِ یُکَبِّرَانِ وَیُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِیرِہِمَا وَکَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ خَلْفَ النَّافِلَۃِ‘‘ -صحیح البخاری ۲/۴۵۷-
’’ان دس دنوں میں ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم تکبیر پکارتے ہوئے بازار نکلتے ، اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے ۔ محمد بن علی رحمہما اللہ تعالیٰ نفلی نماز کے بعد تکبیر کہتے ۔‘‘
محمد بن علی سے مراد حضرت ابو جعفر باقررحمہ اللہ ہیں ۔ -ملاحظہ ہو : فتح الباری ۲/۴۵۸-
۲۔ نوذوالحجہ کا روزہ رکھنا
امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ’’وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ فَقَالَ یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ وَالْبَاقِیَۃَ‘‘
-صحیح مسلم۲/۸۱۹-
’’رسول اللہ سے یوم عرفہ [نوذوالحجہ] کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہ دور کر دیتا ہے ۔‘‘
رسول کریم خود بھی اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ امام ابوداؤد اور امام نسائی رحمہما اللہ نے نبی کریم کی ایک زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا:’’ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّۃِ وَیَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ‘ ‘ -ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داؤد۲/۴۶۲، وصحیح سنن النسائی ۲/۵۰۸-
’’رسول اللہ نو ذوالحجہ ، یوم عاشوراء -دس محرم- اور ہر ماہ میں سے تین دن روزہ رکھتے تھے ۔‘‘
نبی کریم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں اس دن کا روزہ نہیں رکھا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدتنا ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ ’’ أَنَّ نَاسًا اخْتَلَفُوا عِنْدَہَا یَوْمَ عَرَفَۃَ فِی صَوْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ ہُوَ صَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُہُمْ لَیْسَ بِصَائِمٍ فَأَرْسَلْتُ إِلَیْہِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَہُوَ وَاقِفٌ عَلَی بَعِیرِہِ فَشَرِبَہُ‘‘
-صحیح البخاری ۳/۵۱۳-
’’یقینا کچھ لوگوں نے ان کے سامنے عرفہ کے دن نبی کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا :کچھ نے کہا کہ ’’وہ روزے سے ہیں ، اور کچھ نے کہا کہ ’’ ان کا روزہ نہیں ہے ۔‘‘
پس میں نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا اور تب آپ اونٹ پر تھے ، آپ نے اسے پی لیا۔
حضرات خلفائے ثلاثہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی حج کے موقع پر اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے ابی نجیح رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ عرفہ کے روزے کے متعلق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :’’ حَجَجْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَصُمْہُ وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ فَلَمْ یَصُمْہُ وَمَعَ عُمَرَ فَلَمْ یَصُمْہُ وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ یَصُمْہُ وَأَنَا لا أَصُومُہُ وَلَا آمُرُ بِہِ وَلَا أَنْہَی عَنْہُ‘‘ -جامع الترمذی ۲/۵۶ ، ط: دار الکتاب العربی بیروت ، والمصنف : کتاب الصیام ۴/۲۸۵، الفاظ حدیث جامع الترمذی کے ہیں -
’’ میں نے نبی کریم کے ساتھ حج کیا ، آپ نے [ اس دن کا] روزہ نہ رکھا ، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی - میں نے حج کیا- ، انہوں نے یہ روزہ نہ رکھا ، عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی -حج کیا- انہوں نے بھی یہ روزہ نہ رکھا ، عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی -حج کیا- ، انہوں نے بھی یہ روزہ نہ رکھا ، اور میں بھی -حج کے موقع پر - یہ روزہ نہیں رکھتا ، اور -حج کے دوران- اس کے رکھنے کا حکم بھی نہیں دیتا اور روکتا بھی نہیں ۔‘‘
نوٹ: ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ’’ نبی کریم نے عرفات کے مقام پر یوم عرفہ[نوذوالحجہ] کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا لیکن یہ حدیث ضعیف ہونے کی بنا پر دلیل نہیں بن سکتی ۔ -تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ ، حدیث نمبر :۴۰۴، ۱/۳۹۷-
۳۔ دس ذوالحجہ کو قربانی کرنا
عشرہ ذوالحجہ کے آخری دن کانام [یوم النحر] قربانی کا دن ہے اور اس دن قربانی کرنا بہت بڑ ے اجر وثواب والاعمل ہے ۔ -قربانی کی اہمیت کے بارے میں تفصیلی گفتگو راقم السطور کی کتاب [مسائل قربانی، ص۱۹۔۲۵] میں ملاحظہ فرمائیے -
تنبیہ: قربانی کرنے والے ہلال ذوالحجہ کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑ یں ۔ -اس بارے میں تفصیل اسی کتاب کے ص۲۵ تا ۲۸ میں دیکھئے -
-۳- عشرہ ذو الحجہ میں اعمال حج
ان دس دنوں میں کچھ اعمال صرف حجاج کے کرنے کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ذیل میں ان اعمال کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے ۔
۱۔ آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ روانہ ہونا
حج کے اعمال پانچ یا چھ دنوں میں ادا کیے جاتے ہیں ۔ ان اعمال کی ابتداء آٹھ ذوالحجہ ہی سے ہوتی ہے ۔ اس دن کو -یوم الترویہ- اونٹوں کو پانی پلانے کا دن کہتے ہیں ، کہ اس دن سفر حج کی تیاری کیلئے اونٹوں کو پانی پلایا جاتا تھا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کے حجۃ الوداع کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا :’’ فَلَمَّا کَانَ یَومُ التَّروِیَۃِ تَوَجَّہُوا إِلَی مِنٰی ۔‘‘ -صحیح مسلم ۲/۸۸۹-
’’جب یوم الترویہ [۸ ذوالحجہ] آیا ، تو وہ منی کی طرف روانہ ہوئے ۔‘‘
۲۔ نو ذوالحجہ کو وقوف عرفات کرنا
نو ذوالحجہ کو میدان عرفات میں نماز ظہر سے غروب آفتاب تک ٹھہرنا حج کا رکن اعظم ہے ۔ نبی کریم نے فرمایا :’’ اَلحَجُّ عَرَفَۃٌ‘‘ -ملاحظہ ہو : صحیح سنن ابی داؤد ۱/۳۶۷، وصحیح سنن الترمذی ۱/۲۶۵ ، وصحیح سنن النسائی ۲/۶۳۳ ، وصحیح سنن ابن ماجہ ۲/۱۷۳- ’’ حج تو [وقوف]عرفات ہے ۔‘‘
اس موقع پر کی ہوئی دعاؤں کے بار ے میں رسول اللہ نے فرمایا ’’خَیرُ الدُّعَائِ دُعَائُ یَومِ عَرَفَۃ‘‘ -ملاحظہ ہو : صحیح سنن الترمذی ۳/۱۸۴- ’’بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے ۔‘‘
۳۔ دس ذوالحجہ کے اعمال حج
حضرات حجاج نو ذوالحجہ کا دن عرفات میں گزار کر اور اس کے بعد رات مزدلفہ میں بسر کر کے دس ذوالحجہ کو منیٰ میں پہنچتے ہیں اور درج ذیل چار کام کرتے ہیں
۱۔ جمرۃ عقبہ کو سات کنکریاں مارتے ہیں ۔
۲۔ حج تمتع اور حج قران والے قربانی کرتے ہیں ۔
۳۔ حجامت کرواتے ہیں ۔
۴۔ طواف زیارت کرتے ہیں ۔
حج تمتع والے صفا اور مروہ کی سعی بھی کرتے ہیں ۔ حج قران کرنے والے جن لوگوں نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو وہ سعی بھی کرتے ہیں ۔
اللہ مالک العلام سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

قربانی کے احکام و مسائل

از فضیلۃ الشیخ محمد عمران المدنی
قربانی خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، ہمارے نبی مکرم بھی اس سنت کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے ، جس کا پتہ ہمیں اس حدیث سے چلتا ہے ۔ جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’مَن کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا‘‘ -رواہ ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۲۳، وحسنہ الشیخ الألبانی رحمہ اللہ-
’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔‘‘
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی مکرم نے فرمایا:’’اے لوگوں ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی کرنا لازم ہے ۔‘‘ -رواہ ابن ماجہ ۲/۲۰۰- اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔
بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھی قربانی کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ’’کُنَّا نُسمِّن الأضحیۃ بالمدینۃ وکان المسلمون یسمِّنون‘‘-رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۵۵۵۳-
’’ہم مدینہ طیبہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کر کے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کرتے تھے ۔‘‘شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی شخص کو قربانی کیلئے قرض بھی لینا پڑ ے تو لے لے ۔ واللہ أعلم
1۔قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑ ے ۔
جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کا۔ٹنے سے باز رہے ۔ کیونکہ نبی ا کرم کا ارشاد گرامی ہے :’’اذا رأیتم ہلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحِّی فلیمسک عن شعر ہ وأظفارہ۔‘‘ -رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۴۱-
’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں -کو کاٹنے اور تراشنے - سے بچو۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ :’’فَلاَ یَأخُذَنَّ مِن شَعرِہِ وَلاَ مِن أَظفَارِہِ شَیئاً حَتَّی یُضَحِّی۔‘‘ -ابوداؤد رقم الحدیث:۲۷۸۸، صححہ الشیخ الالبانی -
’’ہرگز اپنے بالوں اور ناخنوں کو نا کاٹے یہاں تک کہ قربانی ذبح نہ کر لے ۔
[وضاحت] ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑ ے اور بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بال مونڈھے ، نہ ہلکے کرے ، اور نہ ہی نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے ، اور وہ بال جسم کے کسی بھی حصے ، سر مونچھوں ، بغلوں ، زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوانہیں چھیڑ نا نہیں ہے ۔ -دیکھئے شرح صحیح مسلم [۱۳/ص:۱۳۸-
وضاحت : ناخنوں اور بالوں سے قربانی کرنے تک بچنا ہے اسی طرح صحابہ کرام کاعمل تھا ، جیساکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ذکر کیا ہے ۔
-رقم المسألۃ :۹۸۶-
مسألہ :اگر قربانی کرنے والا شخص ان دس دنوں میں اپنے بالوں یا ناخنوں کو کاٹ لے تو اس پر فدیہ یاکفارہ نہیں ہے ۔ ہاں اگر یہ عمل عمداً سرزد ہوا ہے تو اس نے نبی معظم کی نافرمانی کر کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ۔ تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار اور توبہ کرے ۔
-دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ-
2 ۔سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے ۔
سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا :’’ذبح رسول اللہ ضحیَّتہ ثم قال : یا ثوبان !اصلح لحم ہذہ فلم أزل أطعمہ منہا حتی قدم المدینۃ ۔‘‘-رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۷۵-
’’رسول اللہ نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا ، پھر فرمایا: اے ثوبان ! اس کاگوشت بنادو۔ میں آپ کے مدینہ تشریف لانے تک اس -گوشت- سے آپ کو کھلاتا رہا۔‘‘
اور دوسری روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’ کنّا مع رسولِ اللہ فی سفرٍ فحضر الأضحی ، فاشرکنا فی البقر سبعۃ وفی البعیرِ عشرۃ ۔‘‘-ترمذی، رقم الحدیث : ۱۵۳۷، اور شیخ الالبانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
’’ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید الأضحی آ گئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے ۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں اس طرح باب قائم کرتے ہیں :[باب الأضحیۃ للمسافر والنسائ]’’مسافر اور عورت کیلئے قربانی کے متعلق باب ۔
پھر اس باب کے تحت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لے کر آتے ہیں کہ جس میں نبی رحمت نے اپنی بیویوں کی طرف سے منی میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔امام ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ آنحضرت کا گائے کو ذبح کرنا عید الأضحی کی قربانی کیلئے تھا۔ -دیکھئے : فتح الباری ، ۱۰/۵-
3۔ قربانی کے جانور کی عمر:
مستحب یہ ہے کہ جانو ردو دانت کا ہونا چاہیے لیکن اگر بھیڑ ، دونبہ مینڈھا کھیرا ہو اور اس کی عمر کم از کم ایک سال کی ہوتوبھی جائز ہے ۔ نبی مکرم نے فرمایا:’’صرف دودانت جانور کی ہی قربانی دو ۔ہاں ! اگر دشواری پیش آجائے تودودانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کر لو۔‘‘ -رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۶۳-
کھیرا دنبہ بھیڑ یا مینڈھا کی قربانی عام حالات میں بھی جائز ہے یعنی اگرچہ دشواری نہ بھی ہو تب بھی کھیرا دنبہ کی قربانی جائز ہے ۔ ام بلال رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : بھیڑ کے دودانت سے کم عمر والے بچے کی قربانی کرو کیونکہ وہ -یعنی اس کی قربانی- جائز ہے ۔ -رواہ الامام أحمد [۶/۳۶۸] ، رقم الحدیث : ۲۷۰۷۲-
امام مناوی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر کی شرح میں اس حدیث کی سندکو صحیح قرار دیا ہے ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ا کرم نے فرمایا:’’جہاں دودانت والا جانور کافی ہے وہاں دودانت سے کم عمر والا بھیڑ کا بچہ بھی کافی ہے ۔‘‘ -رواہ ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۷۹۶ ، شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے ۔
وضاحت: قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ -یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ- اس بات پر تو پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا کھیرابچہ قربانی کرنا جائز نہیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو دانت ہو۔ -دیکھئے سوئے حرم محمد منیر قمر کی ، ص/۴۲۱-
۴۔سب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کاکافی ہونا۔
جلیل القدر عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے میزبان رسول اللہ ا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا نبی ا کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ نبی مکرم ا کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی دیا کرتا تھا۔ ‘‘ -رواہ الترمذی ، رقم الحدیث :۱۵۰۵، شیخ الالبانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے :’’علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ۔‘‘
’’ہر گھر والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی ہے ۔‘‘ -ابوداؤد ، رقم الحدیث :۲۷۸۸، ترمذی ، رقم الحدیث:۱۵۱۸، شیخ الالبانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے - [دیکھئے : فتح الباری :۱۰/۴-
۵۔ گائے اور اونٹ میں شراکت داری :
اگر کسی میں قربانی کیلئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو توایک گائے کو سات آدمی مل کر خرید لیں ، وہ ان سات آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ ہاں اونٹ کی قربانی میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں ۔ جس کی دلیل سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۹۰۵، ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۳۱، ابن خزیمۃ :۲۹۰۸ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید الأضحی آ گئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے ۔‘‘
۶۔ بہتر ومستحب یہ ہے کہ آدمی قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرے :
کیونکہ نبی رحمتا اپنا جانور اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے ۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ا کرم ا نے مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا پھر ذبح کیا۔
۷۔ عورت کا اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا:
یہ حکم صرف مردوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی اس میں شامل ہیں ۔جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً اور امام حاکم رحمہ اللہ نے موصولاً ذکرکیا ہے کہ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کریں ۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت نے پتھر کے ساتھ بکر ی ذبح کی ، یہ واقعہ نبی ا کے سامنے ذکرکیا گیا ، آپ ا نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے رقم الحدیث -۳۱۸۲- میں روایت کیا ہے اور یہی حدیث بخاری میں کچھ الفاظ کی زیادتی کے ساتھ موجود ہے ۔
-رقم الحدیث ، ۵۵۰۱-
۸۔ قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت قصاب -قصائی - کو کچھ نہ دیا جائے :
نبی کریم ا نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصائی کو دینے سے منع فرمایا ہے ۔ہاں اگر پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظردیگر مسکینوں کی طرح کچھ دے دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس بنا پر قصائی اپنی اجرت میں کمی نہ کرے ، اگر ایسا خدشہ ہو تو سلامتی اسی بات میں ہے کہ اس کو قربانی میں سے کچھ بھی نہ دیں ۔ جیسا کہ نبی ا کرم انے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں کے ذبح کرنے اور ان کے گوشت کی تقسیم کی نگرانی کریں ، اور ان کاگوشت ، کھالیں اور جھولوں -پالان- سب کچھ تقسیم کر دیں اور ذبح کرنے کے عوض اس میں سے کچھ نہ دیں ۔اس حدیث کو روایت کرنے کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیا کرتے تھے ۔ -رواہ البخاری ۔ ۱۶۱۶-
۹۔ قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچ کر ا سکی اجرت کھانا جائز نہیں :
ہاں البتہ خود استعمال کرسکتے ہیں ، مسند امام احمد میں ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا : حج کے موقع پر منیٰ میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچوبلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کرو ، اور قربانی کے جانوروں کی کھالیں بھی مت بیچو۔ -بلکہ وہ بھی صدقہ کر دیا کرو یا پھر - اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔ -مسند احمد ۔۴/ ۱۵-
بلکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیتہ لہ ۔‘‘ -رواہ الحاکم وحسنہ الشیخ الألبانی فی الترغیب والترہیب ، رقم الحدیث :۱۶۶۵-
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چمڑ ے یا کھال کو بیچ کر اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا تو منع ہے البتہ اس چمڑ ے کو دباغت دیکر -رنگ کر- پکا لے اور اپنے بیٹھنے یا کسی دوسرے استعمال میں لائے تو اس کی اجازت ہے ۔
۱۰۔ نماز عید کے بعد قربانی کرنا
نماز عید سے پہلے جانور کو ذبح نہیں کرنا چاہئے اور اگر کسی نے جانور نماز عید سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ کھانے کا گوشت تو بن جائے گا لیکن قربانی کے طور پر قبول نہیں ہو گا۔کیونکہ نبی محترم ا نے فرمایا: جس نے نماز عید پڑ ھنے ۔ یا ہمارے عید پڑ ھنے سے پہلے ہی قربانی کا جانور ذبح کر دیا اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے ۔ -بخاری، ۹۸۵-
۱۱۔ ذبح کرنے کا مسنون طریقہ
جانور کو ذبح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروں سے دور جہاں وہ دیکھ نہ سکے اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لے ، اس لئے کہ وہ چھری کو تیز ہوتا دیکھ کرتکلیف محسوس نہ کرے ، اور چھری کو تیز اس لئے کر ے تاکہ جلد ذبح ہو جانے کی صورت میں جانو ر کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے ۔ اس سلسلہ میں امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر -۱۱/۳۳۳- میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکرکی ہے کہ نبی ا کرم ا کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹا کر ، اس کی گردن پر پاؤں رکھے اپنی چھری تیز کر رہا تھا اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی ، اس پر نبی رحمت ا نے فرمایا:’’ افلا قبل ھذا؟ اترید ان تمیتھا مرّتین‘‘
’’ کیا یہ کا م اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھاَ ؟ کیا تو اس بیچاری کی دو مرتبہ جان لینا چاہتا ہے ۔‘‘- اس حدیث کی سند صحیح ہے -
اور مستدرک حاکم میں ہے -۴/۲۳۱- کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان لینا چاہتا ہے ؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کر لی؟ -امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اورعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے - بلکہ نبی آخرزمان ا کا طریقہ بھی یہی تھا ۔ -دیکھئے ابو داؤد ۲۷۹۲-
۱۲۔ اونٹ کو نحر کرنیکا طریقہ
اونٹ کو نحر کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ کھڑ ا کر کے اس کی اگلی بائیں ٹانگ ٹیڑ ھی کر کے باندھ دی جائے او ر اسے تین ٹانگوں پر کھڑ ا ہونے کی حالت میں تکبیر پڑ ھ کر اس کے سینے اور گردن کی جڑ کے درمیان والی گڑ ھا نما جگہ میں نیزہ یا کوئی تیز دھار آلہ مار ا جائے جس سے اس کی رگ کٹ جائے ، ا سکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے : ﴿فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہَا صَوَافَّ ﴾ -الحج :۳۶-’’ تم ان پر کھڑ ے ہونے کی حالت میں ہی اللہ کا نام لو۔ ‘‘
-صواف - کی تفسیر ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کھڑ ا کرنے سے کی ہے ۔اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے ۔
اور ابو داؤد کی حدیث میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کو اس حالت میں ذبح کرتے تھے کہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑ ا ہوتا۔ -دیکھئے : سنن أبی داؤد ، رقم الحدیث :۱۷۶۴، اس حدیث کو امام نو وی اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔-
اونٹ بٹھا کر نحر کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اونٹ کو ذبح کرنے کیلئے بٹھا دیا تھا تو آپ صنے اس کو ایسے کرنے سے منع فرمایا اور سنت کے مطابق ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا ’’ ابعثہا قیاماً مقیّدۃ سنۃ محمد ا ۔‘‘ -اے کھڑ ا کر کے باندھ لو یہی نبی کی سنت ہے -۔ -رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۱۷۱۳، حافظ بن حجر فرماتے ہیں :اس حدیث میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ذبح کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے ۔ -دیکھئے فتح الباری ۳/۶۹۸-
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑ ھنے کی اہمیت
علماء کرام میں اس بات میں اختلاف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑ ھنا سنت واجب یا شرط ہے چونکہ اگر بسم اللہ پڑ ھنا سنت یا واجب مان لیا جائے تو اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑ ھنا بھول جائے تو وہ جانور کھایا جا سکتا ہے اور اگر بسم اللہ پڑ ھنا شرط مان لیا جائے تو اس جانور کا کھانا ناجائز ہوجائے گا۔ اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہی لگتی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام بن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں ذکر کیا ہے اورالشیخ محمد بن صالح العثیمین نے شرح الممتع میں تفصیل سے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ ﴾-الأنعام:۱۲۱-
’’اورنہ کھاؤ جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔‘‘
اور نبی کریم کا یہ فرمانا:’’جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیا گیا ہوتو وہ کھالو۔‘‘
-متفق علیہ .بخاری، رقم الحدیث:۲۴۸۸، مسلم، رقم الحدیث:۱۹۶۸ - یہ آیت اور حدیث بسم اللہ کے شرط ہونے کی دلیل ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلمبالصواب
۱۳۔ جانور ذبح کرنے کی کیفیت
جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جانور کو قبلہ رخ کھڑ ا کر کے ذبح یا نحر کرنے کو مستحب سمجھتے تھے بلکہ اگر کسی جانور کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے ذبح کیا گیا ہوتا تو وہ اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے ۔-اسے امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں بسند صحیح ذکر کیا ہے -
جانور کو قبلہ رخ لٹا کر اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر اپنا دایاں پاؤں رکھ لیں ، اور بسم اللہ اور دعا پڑ ھ کر ذبح کریں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر پاؤں رکھا جائے تاکہ ذبح کرنے والے کیلئے دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ میں جانور کا سر پکڑ نے میں آسانی رہے ۔
-فتح الباری، ۱۰ ص ۱۸ -
۱۴۔ قربانی کے جانوروں میں مطلوبہ اوصاف
نبی ا کرم نے ایسا مینڈھا خرید کر لانیکا حکم فرمایا جو سینگوں والا ہو جس کی ٹانگیں ، پیٹ اور آنکھیں سیا ہ ہوں ۔- صحیح مسلم ، ۱۳/۱۲۱-
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ا کرم ا ایسا مینڈھا قربانی کیا کرتے تھے جو فربہ اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ جس کی آنکھوں ، منہ اور -پاؤں کے قریب سے - ٹانگیں سیاہ اون والی ہوتی تھیں ۔ -ابو داؤد ، ۲۷۹۶ ۔ اس حدیث کو ترمذی ، حاکم ، بغوی اورامام ذہبی نے صحیح کہا ہے -
۱۵۔ قربانی والے جانوروں کے عیوب ونقائص:
وہ عیوب و نقائص جو قربانی والے جانوروں میں نہیں ہونے چاہئیں ان میں سے کانوں اور آنکھوں میں پائے جانے والے عیوب کو بطور خاص دیکھ لینے کا حکم ہے ، چنانچہ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ا کرم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم -قربانی کا جانور خریدتے وقت- اس کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑ تال کر لیا کریں - کہ ان میں کوئی عیب نہ ہو- اسی حدیث کو ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، مسند احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے ، اور یہ حدیث صحیح ہے ۔
۱۶۔جانور کا اندھا ، کانا ، بیمار یا لاغر ہونا:
نبی ا کرم سے پوچھا گیا کہ قربانی والے جانوروں میں کن عیوب سے بچنا ضرور ی ہے ؟ تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاچار عیوب سے
۱ ۔ لنگڑ اپن ظاہر ہو،
۲۔ کانا کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو،
۳۔ بیمار کہ جسکی بیماری نمایاں ہو،
۴۔ اور لاغر کمزور کہ جس کے جسم میں چربی اور ہڈی میں گودا نہ رہا ہو۔ -اس حدیث کو اہل سنن الاربعۃ نے روایت کیا اور شیخ الالبانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے - دیکھئے ارواء الغلیل ، ۱۱۴۸۔
۱۷۔ کٹے ہوئے کان ، ٹوٹے ہوئے سینگ اور اندھے جانور :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺنے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم آنکھو ں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور کوئی ایسا جانور قربانی کیلئے نہ لیں جس کا کان سامنے یا پیچھے کی جانب سے کٹا ہو ا ہو، -اور اسے لٹکتا ہی چھوڑ دیا گیا ہو- اور نہ ایسا جانور جس کے کان لمبائی میں چیرے ہوئے ہوں ، یا جس کے کان میں گول سوراخ ہوں ۔ اور دوسری روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا نے ہمیں ایسے جانور کی قربانی دینے سے منع فرمایا جس کا آدھا یا آدھے سے زیاد ہ سینگ ٹوٹا ہو ا ہو، اور کا ن کٹا ہوا ہو۔ -ان دونوں حدیثوں کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے -
۱۸۔ خصی او ر غیر خصی جانور کی قربانی:
خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی سنت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم کے پا س دو سینگوں والے ، چت کبرے ، بڑ ے بڑ ے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ نے ان دونوں میں ایک کو پچھاڑ ا ا ور فرمایا: بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ ، محمد اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے تیری توحید کی اورتیرے پیغام -الٰہی- کو پہنچانے کی شہادت دی ۔
-رواہ ابو یعلی ، امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، اسی طرح شیخ الالبانی نے بھی حسن قراردیا ہے - دیکھئے ارواء الغلیل -۴/۲۵۱-، مجمع الزوائد -۴/۲۷- ۔
دوسری حدیث میں سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی جب قربانی کرنا چاہتے تو دو ایسے مینڈھے خریدتے جو بڑ ے قد آور ، موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ کے اورخصی ہوتے تھے ۔ -اس حدیث کو امام احمد نے ۶/۳۹۱، بیہقی نے ۹/۳۱۸ اپنی سنن میں اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے ، حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۴/۲۴ میں اور علامہ شوکانی نے الدراری المضیہ ۲/۱۲۴ میں اس کو حسن کہا ہے -
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا خصی ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔
غیر خصی جانور قربانی کرنے کی دلیل : ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسینگوں والے غیر خصی جانور کی قربانی کیا کرتے تھے اور اس کی آنکھیں ، منہ اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے تھے ۔ -ابو داؤد ، ۲۷۹۳، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
۱۹۔حاملہ جانورکا ذبح اور ا سکے بچے کا کھانا:
سیدنا ابو سعید الخدر ی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ا! ہم اونٹنی ، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس کو پھینک دیں یا کھا لیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر پسند کرو تو اس کو کھا لو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے ۔ -ابو داؤد ۔ ۲۸۴۲، اس حدیث کو شیخ الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے -
وضاحت: اس حدیث میں ماں کے ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کو ذبح کئے بغیرکھانے کے جواز کا بیان ہے ۔ ۲۔ مذکورہ بالا حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی کریم نے فرمایا: -کلوہ ان شئتم- اگر تم چا ہو تو اس کو کھا لو ۔
۳۔ اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے ، یہی اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے ۔
-المغنی ، ۱۳/۳۱۰-
۲۰۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم
قرآن و سنت سے قربانی کا گوشت کھانا، کھلانا ، غریبوں کو دینا اور ذخیرہ کرنا سب ثابت ہے ۔
علماء کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق گوشت کی تقسیم میں کوئی پابندی نہیں چاہے تو تین حصوں میں تقسیم کرے یا دو حصوں میں تقسیم کرے اور اگر پورا گوشت ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تو پورا گوشت بھی ذخیرہ کرسکتا ہے -اگرچہ یہ اچھا عمل نہیں ہے -۔
اس کی دلیل نبی کا یہ قول ہے : -نہیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلاث ، فأمسکو ما بدا لکم - -صحیح مسلم رقم الحدیث ۔ ۱۹۷۷-
میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانیوں کے گوشت جمع کرنے سے روکا تھا ، پس اب تم جتنا چا ہو -اس میں سے اپنے -کھانے کیلئے روک -یعنی ذخیرہ کر- لو۔
میت کی طرف سے قربانی کرنا
اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں ۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ۔ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں یہ ہے کہ نبی نے دو مینڈھے قربانی کیلئے ذبح کیے ایک اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے ۔ -دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۴۹-
تو اس حدیث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ فوت ہو چکے ہیں لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی کے خصائص میں سے ہے لہذا آپ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔ -دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۵۴-
دوسری دلیل :سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ ہے کہ وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ایک نبی کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ہمیشہ آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ -اس روایت کو امام ابوداؤد ، رقم الحدیث ۲۷۸۷، امام ترمذی ، رقم الحدیث :۱۴۹۵-نے روایت کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ذکر کیا ہے ۔ واللہ أعلم
اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی نہیں ہوتی ہاں اگر میت نے وصیت کی ہو یا زندوں کی قربانی میں میت کی طرف سے بھی نیت کر لی جائے تو صحیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے زیادہ خیر کے کاموں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لینے والوں میں سے تھے ان سے یہ چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنی میتوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہوں اسی رائے کو الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے ۔ -دیکھئے : فتاوی الدین الخالص، شیخ امین اللہ البشاوری ۶/۴۲۷-
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

از سابق مدیر تعلیم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی، فضیلۃ الشیخ عمرفاروق السعیدی
معاصر مؤقر مجلہ ہفت روزہ الاعتصام لا ہور کی ایک قریبی اشاعت-۹۔۱۵ اکتور ۲۰۰۹؁ء شمارہ نمبر ۶۱/۴۰- میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں جامعات اسلامیہ کے اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کو بہتر بنانے کیلئے چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جو یقینا ان لوگوں کیلئے قابل توجہ ہیں ۔جو حضرات علماء کو مساجد ومدارس میں عام قسم کے ملازم یا مزدور سمجھتے ہیں ۔ مگر سوئِ اتفاق سے اس مضمون کے پہلے حصے میں حضرات علماء کرام اور ان کے مدارس کے متعلق کچھ ناروا ، خلافِ حقیقت تلخ جملے درآئے ہیں ۔ جو راقم الحروف کی نظر میں انتہائی محلِ نظر ہیں ۔ ان سے بہت سے بزرگوں اور خدّام مساجد ومدارس کی عزت افزائی نہیں ہوئی۔
اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ معاشرے کے تمام ہی طبقات میں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ ’’کالی بھیڑ یں ‘‘ بھی ہوتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے دیگر مخلصین کو طعن وتشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے ۔ ہمارے علماء ومدرسین اور خطباء و واعظین کے طبقہ میں بحمد اللہ ایک کثیر تعداد اخلاص وللّہٰیت کی علامت اور اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں تو کمزور اکائیوں کی وجہ سے اس طبقہ کو بغیر کسی استثناء کے طعن کا نشانہ بنانا کسی طرح قرینِ انصاف نہیں ہے ۔ درج ذیل تحریر اس مضمون کی روشنی میں پڑ ھی جانی چاہیے ۔
٭ مجھے یہ باور کرنے میں انتہائی تأمل ہے کہ اس ترقی یافتہ ۔، روشن اور روشن خیالی کے دور میں بعض احباب کو اپنے تعلیمی ، تربیتی اور اب عملی میدان میں ’’خودساختہ خشونت‘‘ ۔بے محل سادہ لوحی۔ مصنوع زہد وتقشف-زدہ- ۔ اسلامی ذوق جمال -سے عاری- اور عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے غافل یا عدمِ ادراک‘‘کے کو تاہ نظر اساتذہ ، منتظمین اور ساتھیوں سے سابقہ پڑ تا رہا یا اب بھی ہے ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مجلہ کے قارئین و مستفیدین میں بڑ ے بڑ ے وسیع المطالعہ اور بابصیرت شخصیات موجود ہیں ۔ میں راقم تو ٹھہرا ایک مُلاّئے مکتبی!۔ میرے نظر میں ہمارے دینی ادارے ، دینی شخصیات ، طلبہ علوم شرعیہ اور ان کے خدام ومنتظمین کے ’زمینی حقائق‘‘ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی پیش از پیش حوصلہ افزائی کی جائے انہیں اخلاص ، ثبات، استقامت اور زہد وقناعت، رغبت الی اللہ اور خودداری کا سبق بار بار یاد کراتے رہنا چاہیے کہ وہ مزید محنت واخلاص کے ساتھ اپنے ذمّے لیا کام کرتے جائیں ۔ اور لوگوں کی جیبوں کی طرف نہ جھانکیں ۔
اللہ کریم یقینا اس دنیائے دوں کی ضروریات میں ان کی کفالت اور کفایت کے اسباب پیدا فرماتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا ۔ ’’من کان للہ کان اللہ لہ ‘‘ -جو اللہ کا ہوا ، اللہ اس کا ہوا-
انہیں یہ آیات باربار اپنے مطالعہ اور نگاہ میں رکھنی چاہییں ﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَی ﴾-طہ:۱۳۱-
’’ اپنی نگاہیں ہرگزان چیزوں کی طرف نہ دوڑ انا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں ۔ تیرے رب کا دیا ہوا رزق ہی -بہت- بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے ۔‘‘
﴿لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی الْبِلَادِ ٭مَتَاعٌ قَلِیلٌ ﴾-آل عمران : ۱۹۶۔۱۹۷-
’’تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا-اور آنا جانا- کسی دھوکے میں نہ ڈال دے یہ بہت ہی تھوڑ ا فائدہ ہے ۔‘‘
اور وہ لوگ جن کی پہلی اور آخری نظر مساجد ومدارس کی عمارات ، دفاتر، فرنیچروہاں کی فنی ترتیبات اور ان میں مشغول لوگوں کے رنگ وروپ اور لباس وروغن پر رہتی ہے انہیں قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور تاریخ اسلام کی روشنی میں اپنے ذوق کا خود جائزہ لینا چاہیے ۔ ۔ ۔ اور اپنی پسند کی جگہ کہیں اور ہی ڈھونڈنی چاہیے ، یقینا کسی آکسفورڈ، پرسٹن اور ہاورڈ یونیورسٹی میں انہیں ’’اسلامی شعبہ‘‘ بھی مل ہی جائے گا۔
یہاں تو نمو ہی ’’ضعفاء اور غُربائ‘‘ سے اٹھتی اور ’’طوبیٰ للغُربٰی‘‘ پر انتہا ہوتی ہے ۔
فی الواقع یہ لوگ ’’مترَفِین‘‘ -کھاتے پیتے خوشحال لوگوں - کی نظروں میں کسی طور جچتے نہیں ہیں نہ جچ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے آئندہ کوئی ایسی امید ہے یہ لوگ شروع ہی سے کہتے رہے ہیں ۔
﴿وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلَّا الَّذِینَ ہُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ وَمَا نَرَی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ﴾
-ہود:۲۷-
’’تیرے پیروکار لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جوسطحی سوچ والے ہیں ، اور تمہاری ہم پر کوئی فضیلت بھی نظر نہیں آتی۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان اساتذہ کا معیار زندگی ’’ان اصحاب ذوق‘‘ کے لیے ہمیشہ سے ’’ناقابل اپیل‘‘ ہی رہا ہے نہ طلبہ کا ’’طرزِ بود وباش‘‘ اور نہ ان کے کلاس رومز پُرکشش رہے ہیں ۔
یہاں تو کسی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو’’صدیق‘‘ بننے کیلئے اپنا مال ومنال اور جاہ منصب قربان کرنا پڑ ے گا۔ کسی بھی کھاتے پیتے ’’مُصعب رضی اللہ عنہ‘‘ کو اپنی زیب وزینت اپنے پچھلے ہی گھر میں اپنی اماں کے ہاں چھوڑ کے آنا پڑ ے گی۔ عمر وعثمان رضی اللہ عنہما جیسے اغنیاء اور اصحاب ثروت کو اپنا ’’ذوقِ لطیف‘‘ دارِ ارقم اور صُفہ کی چٹائیوں کیلئے تج دینا ہو گا ان حضرات کو اپنا اسٹیٹس Status بلال ، صہیب ، عمار اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سطح تک نیچے لانا ہو گا۔
یہاں تو مادی سوچ رکھنے والے بعض انصار کو بھی اپنا مزاج تبدیل کرنا پڑ ا تھا ۔ زاد المعاد -ج/۳، ص:۴۱۵۔۴۱۶- میں رسول اللہ کا وہ خطبہ پڑ ھنے کے لائق ہے اور بڑ ا دلگداز ہے جو غزوئہ حنین کے موقعہ پر تقسیم غنائم کے بعد دیا گیا تھا ۔ آپ نے فرمایا : ’’یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ مَا قَالَۃٌ بَلَغَتْنِی عَنْکُمْ وَجِدَۃٌ وَجَدْتُمُوہَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَلَمْ آتِکُمْ ضُلّالًا فَہَدَاکُمْ اللّہُ بِی ، وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمْ اللّہُ بِی ، وَأَعْدَاء ً فَأَلّفَ اللّہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ ؟ قَالُوا اللّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنّ وَأَفْضَلُ ثُمّ قَالَ أَلَا تُجِیبُونِی یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ؟ قَالُوا بِمَاذَا نُجِیبُک یَا رَسُولَ اللّہِ لِلّہِ وَلِرَسُولِہِ الْمَنّ وَالْفَضْلُ قَالَ أَمَا وَاَللّہِ لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَلَصَدَقْتُمْ وَلَصُدّقْتُمْ أَتَیْتَنَا مُکَذّبًا فَصَدّقْنَاکَ وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاکَ وَطَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ وَعَائِلًا فَآسَیْنَاکَ أَوَجَدْتُمْ عَلَیّ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِی أَنْفُسِکُمْ فِی لُعَاعَۃٍ مِنْ الدّنْیَا تَأَلّفْتُ بِہَا قَوْمًا لِیُسْلِمُوا ، وَوَکَلْتُکُمْ إلَی إسْلَامِکُمْ أَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَنْ یَذْہَبَ النّاسُ بِالشّاءِ وَالْبَعِیرِ وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّہِ إلَی رِحَالِکُمْ فَوَاَلّذِی نَفْسُ مُحَمّدٍ بِیَدِہِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِہِ خَیْرٌ مِمّا یَنْقَلِبُونَ بِہِ وَلَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَء ًا مِنْ الْأَنْصَارِ ، وَلَوْ سَلَکَ النّاسُ شِعْبًا وَوَادِیًا ، وَسَلَکَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا وَوَادِیًا لَسَلَکْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ وَوَادِیَہَا ، الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنّاسُ دِثَارٌ اللّہُمّ ارْحَمْ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ ، وَأَبْنَاءَ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ ، قَالَ فَبَکَی الْقَوْمُ حَتّی أَخْضَلُوا لِحَاہُمْ وَقَالُوا:رَضِینَا بِرَسُولِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ قَسْمًا وَحَظّا‘‘
’’ اے جماعتِ انصار! یہ کیا باتیں ہیں جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچ رہی ہیں کہ تم اپنے دلوں میں کچھ گھٹن سی محسوس کرنے لگے ہو کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعے ہدایت دی کیا تم فقروفاقہ میں نہ تھے کہ اس نے میرے ذریعے تمہیں غنی بنادیا کیا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن نہ تھے کہ اس نے میرے ذریعے تمہاے دل شیروشکر کر دئیے ؟ ان سب نے جواب دیا: یقینا یہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت بڑ ا احسان اور فضل ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے جماعتِ انصار! کیا تم جواب نہیں دو گے ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم کیا جواب دے سکتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت بڑ ا احسان اور فضل ہے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! تم چا ہو تو کہہ سکتے ہو اور سچ ہی کہو گے اور تمہاری تصدیق بھی کی جائے گی۔ تم کہہ سکتے ہو کہ آپ اس حال میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا ، ہم نے آپ کی تصدیق کی ، آپ کو بے سہارا کر دیا گیا تو ہم آپ کیلئے سہارا بنے آپ دھتکارے گئے تھے ہم نے آپ کو جگہ دی ، آپ فقیر ومحتاج تھے ، ہم نے آپ کی مدد کی ۔ تو کیا اے انصار کے لوگو! تم دنیا کے ان چند نرم ونازک کاسنی کے سبز پتوں کی وجہ سے ناراض ہورہے ہو ، اس -مال- کے ذریعے سے تو میں نے ان لوگوں کی تالیف قلبی کی ہے تاکہ یہ اسلام پر ثابت قدم ہوجائیں اور تم کو میں نے تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے کیا تم اس پر راضی نہیں کہ لوگ تو اپنے گھروں کو بھیڑ بکریاں اور اونٹنیاں لے کر جائیں ، اور تم اپنے گھر میں اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ ۔ اللہ کی قسم! جو چیز تم لیکر جاؤ گے وہ ان چیزوں کے مقابلے جو وہ لے کر جائیں گے بہت ہی بہترین ہے ۔
اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اگر لوگ اس گھاٹی اور وادی اختیار کریں اور انصار کوئی دوسری گھاٹی اور وادی اختیار کریں تو میں وہی گھاٹی اور وادی اختیار کروں گا جو انصار کی ہو گی۔ انصار تو میرے جسم کے ساتھ چمٹے لباس کی مانند اور دوسرے لوگ اوپر کی ظاہری چادر ہیں ۔ اے اللہ انصار پر ان کی اولاد پر رحم فرما۔
چنانچہ انصار رونے لگے حتی کہ ان کی داڑ ھیاں تر ہوگئیں اور کہنے لگے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم اور آپ کے اپنے حصے میں آجانے پر بہت ہی راضی اور خوش ہیں ۔‘‘
٭ الغرض اگر یہ مُترَفین مساجد ومدارس میں محض ظاہری زیب وزینت کی چیزیں نہ ہونے کی وجہ سے حصول علم کے ’’نیک ارادوں سے باز رہتے ہیں ‘‘ تو اسے ان کی اپنی حرماں نصیبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے جن لوگوں کی سوچ صرف ’’جیب اور معدہ‘‘ ہی کے گرد گھومتی ہو ، انہیں یہ کام چھوڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہیے ۔ع
وہ یہیں سے لوٹ جائیں جنہیں زندگی ہو پیاری
٭ دینی اداروں کا اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو بڑ ی خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے اچھے بھلے کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانوں کے ذہین وفطین، خوبصورت اور محنتی بچے حفظ القرآن ، تجوید اور علوم اسلامیہ کے شعبوں میں ایک ولولہ کے ساتھ داخلہ لیتے ہیں اور یہ ادارے اور ان کے انتظامات اپنے طلبہ کیلئے اپنی تنگ دامانی کے شاکی ہوتے ہیں ۔
ان نیک نفس نونہالوں اور ان کے والدین کو یقین ہوتا ہے کہ یہ میدان کسی طور بھی آمدنی اور کمائی کا میدان نہیں ہے یہ ادارے ملکی آبادی کی نسبت سے انتہائی کم ، ان کی سہولیات بڑ ی محدود اور داخلہ لینے والوں کی تعداد دنیاوی اداروں کے مقابلے میں اقل قلیل ہوتی ہے مگر حکومتوں کے لادینی عناصر اور جن کے یہ لوگ زلّہ خوار ہیں انہیں اپنے دین اسلام سے محبت کرنے والی یہ قلیل ترین تعداد بھی کسی طرح گوارا اور ہضم نہیں ہورہی ۔ واللہ ولی الأمر
٭ رسول اللہ نے اپنے ایک صحابی کو جو سوالی بن کر آیا تھا اور آپ سے تعاون طلب کیا تھا تو آپ نے اسے لکڑ یاں کاٹ کر اور بیچ کر اپنی معیشت درست کرنے کی تعلیم دی اور اسے کم ازکم دو ہفتوں کے لیے اپنی صحبت وغیرہ کی حاضری سے روک دیا مگر پاس ہی ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس سے زیادہ فقیر اور محتاج تھے ، آپ نے انہیں تعلیم وتلقین نہیں فرمائی کہ میاں ! تم اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کاتوسوچو؟
٭ اور نہ یہی آپ نے کسی عثمان، ابن عوف یا ابن معاذ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے اپیل کی کہ اس فقیر طالب علم کا معیار زندگی بہتر کر دو ۔ البتہ آپ علیہ السلام اہل یُسر اور اہل خیر کو عمومی انداز میں ضرور دعوت دیتے رہے کہ کون ہے جو فقراء ومساکین پر خرچ کر کے اپنی دنیا وآخرت باسعادت بنالے ؟
٭ ’’العلماء ورثۃ الأنبیائ‘‘ -علماء انبیاء کے وارث ہیں - اور نبی کی وراثت بالعموم فقر وفاقہ اور اِعراض عَن زِیناتِ الدنیا کا میدان ہے ۔
ازواج نبی علیہ الصلاۃ والسلام کیلئے وارد تعلیمات میں طلبہ واساتذہ مدارس اور ائمہ ودعاۃ کیلئے بہت بڑ ا درس ہے ۔
﴿إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ﴾-الاحزاب : ۲۸-
’’ اگر تمہاری خواہش دنیا کی زندگی اور یہاں کی زیب وزینت ہی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے انداز میں چھوڑ دوں ۔‘‘
اور کہا جا سکتا ہے کہ جامع ترمذی کی یہ روایت اسی معنیٰ ومفہوم کی مؤید ہے ۔
’’إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِی فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ یُحِبُّنِی مِنْ السَّیْلِ إِلَی مُنْتَہَاہُ‘‘ -جامع ترمذی ، حدیث :۲۳۵ وروایۃ ضعیفۃ-
اگر تجھے مجھ سے محبت ہے تو پھر فقیری کیلئے سامان تیار رکھ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہو اس کی طرف فقیری سیلاب کی سی تیزی سے آتی ہے ۔‘‘
محوّلہ بالا مضمون کا یہ تجزیہ ’’زمینی حقائق‘‘ کے یقینا خلاف ہے کہ ان مدارس کا ماحول ’غیر معیاری‘‘ ہوتا ہے بلکہ بحمد اللہ ترقی یافتہ شہروں کے جامعات ترقی یافتہ ، قصبوں اور دیہاتوں کے مدارس وہاں کے ماحول کے عین مطابق بلکہ عمدہ ہی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جاہل لوگوں کی ایک تعداد دنیا کے مشاغل سے فارغ البال علماء اور مساجد ومدارس کے پُرسکون ماحول اور آرام دہ مشغلہ کی وجہ سے ان سے حسد کرتی ہے ۔ ان کے بس میں نہیں ہوتا کہ ان کی یہ راحتیں ان سے چھین لیں اور نہ ہی وہ اپنی محرومئی قسمت سے ان صفوں میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں ۔
٭ اور ایک حد تک غلط ہے یہ دعویٰ کہ مدارس کی پسماندگی اور مسکنت کے باعث بعض مشائخ عظام اور علماء کرام اپنے نونہالوں کو مدارس کا رخ نہیں کرنے دیتے بلکہ یہ ان نوخیزوں کی اپنی محرومی ہوتی ہے جو اپنی ذاتی پسندناپسند کی وجہ سے یہ میدان اختیار نہیں کرتے یا ماں کی وجہ سے یا ان کے چچے تائے ہوتے ہیں جنہیں اپنے بھائی بند علماء کا ماحول مرغوب نہیں ہوتا تو وہ ان کے نونہالوں کو ان سے جھپٹ لے جاتے ہیں ۔ یاکہیں یہ بعض علماء کرام کا اپنا اجتہاد ہوتا ہے کہ ان کے فرزند گریجویٹ ہونے کے بعد ان اداروں اور محراب ومنبر پر زیادہ سجیں گے مگر فی الواقع اس فریب سے محفوظ -یا اس میں کام یاب- ہونے والوں کی تعداد اگر آٹے میں نمک کے برابر بھی ثابت ہوجائے تو بڑ ی بات ہو گی۔
دراصل دنیا کے نقدِ حاضر کی لذت اور چکا چوند آخرت کے ادھار کو بالعموم مات دے جاتی ہے اور اس میں علماء اور غیر علماء کی تخصیص نہیں کی جا سکتی اس سے معصوم ومحفوظ وہی ہے جسے اللہ محفوظ رکھے ۔ میرے جیسے رجعت پسند سمجھتے ہیں کہ یہ میدان اللہ کی حکمت کے تحت غرباء وفقراء ہی نے سنبھالا ہے ۔ اغنیاء اور مترفین کو یہاں کم ہی لذت آتی ہے ۔
٭ اس مضمون میں ایک عجیب پُر لطف تضاد ہے کہ ابتداء میں ان لوگوں کیلئے خشونت ، بے محل سادہ لوحی مصنوعی زہد وتقشف وغیرہ کی ایک قاموس کا ذکر ہے تو دوسرے حصے میں ان کی آسودہ حالی ، یکسوئی اور فکر معاش سے آزادی کیلئے معقول سفارشات ہیں ۔
٭ اللہ کرے اس مضمون کا یہ دوسرا حصہ متعلقہ حضرات دلجمعی سے مطالعہ فرمالیں ۔
ویسے اللہ کا شکر ہے کہ امت کے صالح اغنیاء نے کہیں بھی علماء کی تحقیر کی حماقت نہیں کی ، اور نہ وہ کرتے ہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو تعاون کرتے ہیں او ر کر رہے ہیں ۔ مساجد ومدارس کی ظاہری وباطنی رونقوں میں ان کا وافر حصہ ہے ۔ -اللہ انہیں مزید توفیق دے اور قبول فرمائے -
اور جو لوگ علماء کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ صرف علماء ہی کو نہیں بلکہ اپنی طبعی خسِّت کی وجہ سے اپنی برادری اور اپنے میل جول والے سبھی لوگوں میں اس طرز عمل پر مجبور ہوتے ہیں ۔ عام معاشرے میں تو مقابلے کی چوٹ ہوتی ہے اور وہاں انہیں اس کا جواب بھی مل جاتا ہے لیکن علماء کرام چونکہ اپنا ایک عظیم ترین مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں کوئی کلمہِ حق کہنے کا موقعہ مل جائے تو وہ ایسے نامعقول لوگوں کے ساتھ جیسے تیسے کر کے برداشت کرتے رہتے ہیں اور اپنے حال اور مآل کو اللہ پر چھوڑ ے رہتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان لوگوں پر پیش کردہ تجویزات کوئی اثر بھی کرتی ہیں یا نہیں ؟
٭ اور یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ استاذ کی عزت اس کے مال اور لباس وغیرہ سے ہوتی ہے یا مغربی ممالک میں استاذ کو بڑ ی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مسلمہ اور بین الاقوامی اور دائمی حقیقت یہ ہے کہ استاذ ہمیشہ ہر معاشرے میں معزز اور محترم ہی ہوتا ہے ۔بشرطیکہ وہ استاذ ہونے کے اوصاف محمودہ سے موصوف ہو ۔ حرص وطمع اور دیگر خصائل مذمومہ کا مریض نہ ہو کسی شریف باوقار انسان نے کبھی بھی استاذ کو حقیر نہیں جانا اور جو انہیں کمی کمین سمجھتے ہیں وہ اپنے علاوہ سب ہی کو یہی سمجھتے ہیں ۔
اور ہمیں اپنے ملک میں اور عوام سے بھی قطعاً کوئی بدگمانی نہیں ہے یہ لوگ بھی اپنے ربانی ، حقانی ، مخلص اور محنتی اساتذہ کی انتہائی قدر ومنزلت جانتے پہچانتے اور کرتے ہیں ۔ وللہ الحمد ۔ونعوذ باللہ من الفتن
٭ اس تحریر نے ہمارے ملک کے ان نام نہاد دانشوروں کو ایک مواد اور دلیل دے دی جو ایک طویل مدت سے ان کی نجی محافل کا موضوع ہوتی تھی اب علَنَّا اخباری کالموں سے بڑ ھ کر یہود ومجوس کی سازشوں سے علماء ومدارس کے خلاف مسلح کاروائیاں کرنے لگے ہیں ۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ
مگر اہل اللہ اور اہل خیر کی آزمائش اور ان کا امتحان تو اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے ۔
﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آَمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ﴾-العنکبوت : ۲-
’’ کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انہیں محض اس بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ انہوں نے اس قدر کہہ دیا کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کی آزمائش نہ ہو گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء ، اساتذہ ، طلبہ اور ائمہ ودعاۃ کا حامی وناصر ہو ۔ یہی ان شاء اللہ طائفہ منصورہ ہے انہیں مزید در مزید توفیق دے کہ وہ اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے اپنی کارکر دگی کو اور زیادہ توانا بنا سکیں ۔
اللہم اہدہم فیمن ہدیت۔ وعافہم فیمن عافیت و والہم فیمن تولیت ، وبارک لہم فیما أعطیت ، وقہم شرّ ما قضیت
وصلی اللہ علی النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

میری قربانی

از محمد طیب معاذ
قال اللہ تعالی: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ﴾-الذریات:۵۶-
’’میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔‘‘
اللہ رب العالمین نے انسان کی تخلیق کا مقصد وحید اپنی عبادت قراردیا ہے تعلیمات قرآنیہ اور ہدایات محمدیہ سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ کوئی عبادت اس وقت تک قبولیت کے درجے تک نہیں پہنچتی جب تک اس میں تین بنیادی شرائط نہ پائی جائیں ۔
۱۔ ایمان صادق
۲۔ خلوص نیت
۳۔ موافقت سنت صحیحہ
درج ذیل سطور میں ہم صرف اخلاص اور قربانی کے بارے میں کچھ گزارشات سپرد قلم کرتے ہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ’’اخلاص ‘‘کی نعمت سے نوازے ۔ آمین
اخلاص کیا ہے ؟
اخلاص کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت -مالی، بدنی۔، قولی ، فعلی- صرف اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ادا کی جائے اخلاص کی نعمت سے ہی عمل کا اجر ملتا ہے اخلاص کا فقدان اور عدم موجودگی عمل صالح کو بے کار اور ختم کر دیتی ہے جیسا کہ ارشاد حقانی ہے ۔﴿وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ٭ عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ ٭ تَصلَی نَاراً حَامِیَۃً﴾-الغاشیۃ:۲۔۳-
’’اس دن -مراد روز قیامت- کئی چہرے ذلیل ہوں گے ، سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ہونگے دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔‘‘
رسول معظم کا ارشاد گرامی ہے ’’إِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘-صحیح بخاری--اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیتوں پر ہے -
قربانی اور اخلاص
چونکہ قربانی بھی ایک عظیم مالی عبادت ہے اس لئے اس کی قبولیت کا دارومدار بھی نیک نیت پر ہے قربانی میں ریاکاری ، نمودونمائش اور دنیاوی اغراض ومقاصد سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے ۔
قرآن کریم اور حدیث حبیب میں ان لوگوں کی قربانی کو عند اللہ غیر مقبول قرار دیا گیا ہے جوقربانی جیسی عظیم عبادت صرف دنیاوی جاہ وجلال اور ریاکاری کیلئے کرتے ہیں ۔
ارشاد رب العالمین ہے ﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لَا یُبْخَسُونَ ٭أُولَئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْآَخِرَۃِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴾-ہود:۱۵۔۱۶-
’’جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ اسی -دنیا- میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی یہی لوگ ہیں جن کیلئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہو گیا جو کچھ انہوں نے اس -دنیا- میں کیا اور جو عمل وہ کرتے رہے ضائع ہوگئے ۔‘‘
اس آیت عظیمہ میں اللہ رب العزت نے دنیاوی جاہ وجلال کیلئے نیک اعمال کرنے والے لوگوں کے اعمال باطل قراردئیے ہیں ۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ریاکاروں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جائے گا اس لئے کہ ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت خصوصی طور پر ریاکاروں کیلئے نازل ہوئی ہے ۔ مفسر شہیر امام قتادۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا ارادہ ونیت طلبِ دنیا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا اسے دنیا میں ہی بدلہ عطا فرمادیتا ہے اور آخرت میں ایسے شخص کے پاس کوئی نیکی نہیں بچے گی جس کا اسے بدلہ دیا جائے جبکہ مومن -خالص- کو اس کی نیکیوں کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور وہ آخرت میں بھی ضرور اجر وثواب سے نوازا جائے گا جس طرح کہ سورۃ شوریٰ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ارشاد ایزدی ہے ﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآَخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآَخِرَۃِ مِنْ نَصِیبٍ﴾-الشوریٰ :۲۰-
’’جوشخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کیلئے اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جوشخص دنیا کی کھیتی چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔‘‘
قربانی میں اخلاص کیلئے اللہ رب العزت نے تاکیداً حکم فرمایا اور کہا ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾
-الأنعام : ۱۶۲-
’’ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، قربانی ، میرا جینا اور مرنا -سب کچھ-اللہ رب العزت کیلئے ہے ۔ ‘‘
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ان مشرکوں کو یہ بتادیں جو غیر اللہ کی عبادت کرتے اور غیر اللہ کے نام پر اپنے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں کہ آپ ان کاموں میں ان کے مخالف ہیں آپ کی نماز محض اللہ ہی کیلئے ہے اور آپ کی قربانی -دیگر عبادات- صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہے جیسا کہ فرمایا ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ﴾-الکوثر:۲-
’’اپنے پروردگار ہی کیلئے نماز پڑ ھیں اور قربانی کریں ۔ ‘‘
یادرکھیے ! اگر قربانی میں غیر اللہ کی نیت اور ارادہ شامل ہو گیا تو یہ قربانی آپ کیلئے وبال جان بن سکتی ہے ۔
یعنی اپنی نماز اور قربانی کو اسی کی ذات گرامی کیلئے خالص کریں مشرکین بتوں کی عبادت کرتے اور انہی کیلئے جانور ذبح کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان مشرکوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے طریقے سے انحراف کریں اور اللہ ہی کیلئے اخلاص کی نیت اور قصد وارادہ کر لیں ۔ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی‘‘ میں نسک سے مراد حج وعمرہ میں جانوروں کا ذبح کرنا ہے ۔-ملخصاً از المصباح المنیر فی تہذیب ابن کثیر-
قرآن اور اخلاص
uسورۃ زمر میں اللہ رب العزت نے رسول معظم اکو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ﴿قُلِ اللَّہَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہُ دِینِی ﴾-زمر :۱۴-
’’کہہ دیجئے میں اللہ کیلئے اپنی بندگی کو خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتا ہوں ۔‘‘
v﴿وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنْفِقُونَ ﴾
-التوبۃ:۹۲-
’’اور نہ ان لوگوں پر -کوئی گناہ ہے - جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں -سفر جہاد کیلئے -سواری دیں -اور- آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں تو وہ اس حال میں لوٹ گئے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں جسے وہ -اللہ کی راہ میں - خرچ کریں ۔ نیت صالحہ کی وجہ سے ہی اللہ نے ان کے نام مجاہدین کی فہرست میں رقم فرما دئیے ۔
w﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج:۳۷-
’’ اللہ تک ان -قربانی کے جانوروں - کا گوشت ہرگز نہیں پہنچتا اورنہ ہی ان کا خون لیکن اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی قربانی سے مقصود اخلاص وتقوی ہے ۔
الشیخ ابن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلوص سے خالی عبادت بے روح جسم کی مانند ہے ۔
اور اللہ رب العزت نے حج اور اس کے متعلقات قربانی وغیرہ میں خلوص نیت کی طرف خصوصی توجہ مبذول کروائی ہے ۔
x﴿أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ ﴾
-الأحقاف:۱۵-
’’اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے ۔‘‘
یعنی صالحین اپنے نیک اعمال میں نیت صالحہ اور رضائے الٰہی کو مد نظر رکھتے ہیں ۔
y﴿وَأَنَّ إِلَی رَبِّکَ الْمُنْتَہَی ﴾ -النجم:۴۲-
’’اور بیشک -کا- آپ کے رب کے پاس ٹھکانا ہے ۔‘‘
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب ہرچیز کا ٹھکانا اس کی طرف ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادات میں اس کے علاوہ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ۔
z﴿الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ ﴾
-الملک:۲-
’’وہ -اللہ- جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ بڑ ا زبردست ہے خوب بخشنے والا۔‘‘
اللہ رب العزت نے کثرت عمل کو نہیں بلکہ احسن عمل کو ذکر فرمایا ہے کیونکہ کثیر عمل اخلاص سے خالی ہوتو بے فائدہ ہے جبکہ قلیل عمل پر اخلاص کے ساتھ مداومت ایک محبوب اور پسندیدہ فعل ہے ۔
{﴿وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا ﴾ -التوبۃ:۱۰۷-
’’اور وہ لوگ جنہو ں نے ایک مسجد بنائی تاکہ -مسلمانوں کو- ضر ر پہنچائیں اور کفر پھیلائیں ۔‘‘
مسجد بنانا ایک نیک عمل ہے مگر خرابی نیت اور فساد کی وجہ سے یہ نیک عمل بھی ان منافقوں کیلئے وبال جان اور آخرت میں باعث عذاب ہو گا۔
﴿کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ﴾
-یوسف:۲۴-
’’اسی طرح -ہوا- تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ -یوسف علیہ السلام- ہمارے خالص کئے ہوئے بندوں میں سے تھا۔‘‘
یعنی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو برائی اور بے حیائی سے ان کے خلوص کی وجہ سے محفوظ ومامون قرار دیا گیا ہے ۔
}﴿لَا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاء ً وَلَا شُکُورًا ﴾
-الدہر:۹-
’’ہم تم سے جزا اور شکر گزاری نہیں چاہتے ۔‘‘
امام مجاہد اور سیدناسعید بن جبیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم انہوں نے ریاکاری کے ڈر سے یہ بات بھی اپنی زبانوں سے نہیں کہی بلکہ حق تعالیٰ شأنہ نے یہ بات ان کے دلوں سے معلوم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اخلاص کیساتھ اچھے اعمال کرنے میں رغبت ہو۔ -ملخصاً از لیدّبروا آیاتہ-
اخلاص اور فرامین نبویہ ا
رسول ا کرم کی صحیح حدیث ہے آپ نے ارشاد فرمایا :
’’مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ‘‘
-مسند أحمد /سندہ حسن-
’’جس نے نماز پڑ ھی ریاکاری کیلئے روزہ اور صدقہ ریاکاری اور دکھلاوے کیلئے کیا اس نے شرک کیا۔‘‘
اور حدیث قدسی میں اللہ احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا :’’أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنْ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیہِ مَعِی غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ۔‘‘-صحیح مسلم، رقم الحدیث :۲۹۸۵-
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :میں اپنے تمام شریکوں سے زیادہ غنی وبے پر واہ ہوں جو شخص کوئی ایسا کام کرے جس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک گردانتا ہے تو میں اس شخص کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق میں سے کسی کی رضا اور خوشنودی کیلئے نیک عمل کرتا ہے تو اللہ اس شخص سے اور اس کے عمل بد سے بیزار ہیں ۔
دوسری حدیث میں رسول ا کرم نے ’’ غیر اللہ کیلئے جانور ذبح کرنے والے پر لعنت کی اور فرمایا :’’لَعَنَ اللّٰہُ مَن ذَبَحَ لِغَیرِ اللّٰہِ ‘‘ -صحیح مسلم-۱۹۷۸- ’’جوشخص غیر اللہ کیلئے ذبح کرتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔‘‘
اور جس پر اللہ کی لعنت واجب ہوجائے وہ دنیا جہاں کی خیرات سے محروم ہوجاتا ہے ۔ -اعاذنا اللہ منہا-
’’قَالَ أَبُو ذَرٍّإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَہُ لِلْإِیمَانِ ۔‘‘
’’سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اپنے دل کو ایمان کیلئے خالص کرنے والا شخص ہی کامیاب ہے ۔‘‘
اسی طرح قربانی چاہیے حقیر سے حقیر سی چیز کی بھی کیوں نہ اس میں شرک کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ’’ دخل رجل الجنۃ فی ذباب ودخل آخر النار فی ذباب ، قالوا : وکیف ذاک؟ قال: مر رجلان ممن کان قبلکم علی ناس معہم صنمٌ لا یمر بہم أحد إلا قرّب لصنمہم ، فقالوا لأحدہما : قرِّب شیئاً قال: ما عندی شیئ قالوا: قرب ولو ذباباً فقرب ذبابا ومضی فدخل النار، وقالوا للآخر : قرب ، قال : ما کنتُ لأُقرِّب لأحدٍ شیئاً دون اللہ عزوجل فضربوا عنقہ فدخل الجنۃ ‘‘ -روی الإمام أحمد فی ’’ الزہد‘‘ ، وأبو نعیم فی ’’ الحلیۃ‘‘ وغیرہما عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ موقوفاً علیہ بإسناد صحیح أنہ قال الزہد: ص:۳۲، ۳۳- و ’’ الحلیۃ‘‘ ۱/۲۰۳-
ایک شخص صرف ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں جاپہنچا اور ایک جہنم میں چلا گیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب کیساتھ عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دو شخص دوران سفر ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے اس قبیلہ کا بہت بڑ ا بت تھا وہاں سے کوئی آدمی چڑ ھاوا چڑ ھائے بغیر گزر نہیں سکتا تھا چنا۔نچہ ان میں سے ایک کو کہا گیا کہ یہاں ہمارے بت پر چڑ ھاوا چڑ ھاؤ -ذبح وغیرہ کرو- اس نے معذرت کی کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے بستی والوں نے کہا کہ تمہیں یہ عمل ضرور کرنا ہو گا اگرچہ ایک مکھی پکڑ کر ہی قربان کر دو اس مسافر نے مکھی کو پکڑ ا اور اس بت کے نام پر قربان کر دیا اور انہوں نے اس آدمی کو آگے جانے کی اجازت دے دی رسول اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص حقیر سی مکھی کی وجہ سے جہنم کا مستحق ٹھہرا پھر بستی والوں نے دوسرے آدمی سے بھی بت کیلئے قربانی کا مطالبہ کیا تو اس موحد نے جواب دیا کہ میں غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز قربان نہیں کرسکتا ۔ یہ جواب سنتے ہی اس بستی کے باشندوں نے مرد موحد کو شہید کر دیا اور یہ مرد موحد سیدھا جنت پہنچ گیا۔ -کتاب التوحید وہو صحیح موقوفاً -
آخری بات
محترم قارئین درج بالا سطور کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم اس حیات میں اخلاص کیساتھ نیک اعمال بجا لائیں ۔ یادرکھیں قیامت کے دن دلوں کی نیتوں کو بھی ظاہر کر دیا جائے گا اگر ہماری نیت درست ہوئی تو ہم اس دن کی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں آئیے عہد کریں کہ ہم ہر نیک کام اخلاص کیساتھ کریں ۔
اور ’’اذ جاء ربک بقلب سلیم‘‘ کی صفات اپنے اندر پیدا کریں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

خلیل اللہ علیہ السلام

از مولانا عزیز زبیدی
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلما ں ہونا
دین حق کے جتنے احکام ، مظاہر ، اصول اور قوانین ہیں ، وہ جہاں اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتے ہیں وہاں ان کی ایک اجتماعی حیثیت بھی ہے ۔ انفرادی حیثیت تو ان کی بالکل ظاہر ہے کہ وہ سب بجائے خود سچائی ہیں ۔ اس لئے تنہا بھی وہ حسین اور سرتاپا خیر ہیں اس لئے وہ مفید بھی ہیں اور واجب العمل بھی۔ سچ بولنا ، غریبوں کو کھانا کھلانا، نماز پڑ ھنا، ملک وملت کی خدمت کرنا ، سب اپنی اپنی جگہ نیکیاں ہیں اور ساری دنیا ان کو اچھا کہتی ہے اور ان کی اجتماعی حیثیت کے یہ معنی ہیں حق تعالیٰ جس بندئہ حنیف -موحد بندہ- اور انسان مطلوب -حاملِ قرآن خلیفۃ اللہ- کو پیدا کرنا چاہتا ہے ان کیلئے یہ منفرد نیکیاں تنہا کافی نہیں ہیں بلکہ اس عظیم الشان مقصد کیلئے انسان کی مجموعی زندگی میں وہ اپنی جگہ پرساری نیکیاں یکساں فِٹ اور متحرک رہیں اور ان احکام اور دستور العمل کی یکسانیت کی وجہ سے زندگی کے کسی گوشے میں کوئی تضاد ، خلا اور کوئی کمزوری باقی نہ رہنے پائے اور ان کی مثال بالکل مشینری کے ان پُرزوں جیسی ہے جو اپنی اپنی جگہ تو سب اہم اور قیمتی ہیں لیکن مشینری کارتھ کھینچنے اور اس کو کارآمد بنانے کیلئے تنہا بالکل غیر فانی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ منفرد نیکیاں اور سچائیاں -عبادات، اخلاق اور معاملات - زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں ، کیونکہ ان سچائیوں کی انفرادی حیثیت ہماری پوری زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ ہماری مجموعی زندگی کے ماحول میں یہ منفرد -اکادکا- اعمال صالح ، نیکیاں اور سچائیاں بالکل اجنبی اور اوپری اوپری سی لگتی ہیں اس کے علاوہ سچ کے ساتھ جھوٹ اور نیکی کے ساتھ بدی کا سلسلہ ’’کسر وانکسار‘‘ کا ایک ایسا طویل سلسلہ ہے جس کی کش مکش میں یہ ساری غیر مربوط اور منفرد سچائیاں عموماً ضائع ہوجاتی ہیں ۔ تعمیر کیلئے ضروری ہے کہ انسان تخریبی حرکات سے مجتنب رہے ورنہ جتنی دیوار کھڑ ی کی جائے گی۔ دوسرے وقت میں اتنی اس کی تخریبی حرکات کے نتیجہ میں وہ اُکھڑ بھی جائے گی اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ حج اور قربانی۔ انسان کے اسی فریب نفس کی اصلاح کیلئے آیا ہے کہ وہ اسلام میں پورا پورا دخل ہونے کی بجائے اس کی کچھ سچائیوں کی تعمیل پر قناعت کر لیتا ہے اور پھر اسی فریب میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ بس فرض ادا ہو گیا کہ یہ بھی کوئی فرض کفایہ ہے کہ اب باقی اعمالِ حیات کی ذمہ داری اس کے سر سے ساقط ہوگئی یا اس سلسلہ میں اس کی دوسری کوتاہیاں بے اثر ہوجائیں گی۔
آئیے !اس فرصت میں ہم سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں اندازہ ہوجائے کہ وہ تعلق باللہ کے سلسلہ میں کس قدر یکسوتھے ۔ اور ان کی پوری زندگی اور منفرد اعمال میں کس قدر ہم آہنگی اور یکسانیت تھی۔ یا حج اور قربانی آپ کی مجموعی زندگی کا ایک پہلو تھا یا اس سے جدا اور اجنبی کوئی اور شئ تھی۔یہ فریضہ ایک بول اور کلمہ ہے یا کردار اور عمل کانام ہے ۔ میرے نزدیک اس زندگی کے سفر میں آپ کا ہر قدم اللہ کی رضا اور عشق کی سرشاری میں اٹھا اور اسی رواروی میں یہ -حج اور قربانی - بھی حسبِ معمول ایک قدم اٹھا اور اسی عالم میں جو قدم اٹھا وہ رکنِ حج اور دینِ حنیف بن گیا۔ قرآن نے آپ کی زندگی کی جو تصویر پیش کی ہے وہ اسی کی صفاتِ حسنہ کے آئینے میں یہ ہے ۔ اس کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا منفی۔ اور ان دونوں کے امتزاج سے جو مبارک ہستی ظہور میں آئی ، وہ حنیف اور خلیل کہلائی۔ اس وقت ہمیں آپ علیہ السلام کا صرف مثبت پہلو پیش کرنا ہے ۔
موقن
﴿وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ﴾-الأنعام:۷۵-
’’ یعنی آپ صاحب یقین تھے ، اس میں آپ کو پوری طمانیت حاصل تھی۔‘‘
مہاجر إلی اللہ
﴿فَآَمَنَ لَہُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّی مُہَاجِرٌ إِلَی رَبِّی إِنَّہُ ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ وَآَتَیْنَاہُ أَجْرَہُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِی الْآَخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ﴾ -العنکبوت:۲۶۔۲۷-
پوری زندگی کے اس سفر میں آپ کا سارا سفر حق تعالیٰ کیلئے رہا ہے اور کبھی کوئی قدم آپ کا اس کی مخالف سمت میں نہیں اٹھا اور جس چیز سے آپ نے گریز کیا ہے وہ صرف ہجرت الی اللہ کی نوعیت اور جذبہ کے تحت کیا اسی کو دوسری جگہ ’’ذَاہِبٌاِلَی رَبِّی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔‘‘
قاَنِتٌ
﴿وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ ﴾-البقرۃ:۲۳۸-
’’ انتہائی تذلل کے ساتھ عبودیت اور فرمانبرداری بجالانے والا ۔‘‘
حلیم
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ ﴾-التوبۃ:۱۱۴-
’’ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ حق کی راہ میں تلخیوں اور شدائد کا سامنا کرنے والا ۔‘‘
مُنیب
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَحَلِیمٌ أَوَّاہٌ مُنِیبٌ ﴾-ہود:۷۵-
’’ ہر حال میں اپنے مولی کی طرف رجوع ہوکر رہنے والا ۔‘‘
صاحبِ رُشد
﴿وَلَقَدْ آَتَیْنَا إِبْرَاہِیمَ رُشْدَہُ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہِ عَالِمِینَ﴾-الأنبیاء:۵۱-
’’ راستی اور راہِ راست پر مضبوطی سے قائم رہنے والا۔ صاحبِ فہم وفراست۔‘‘
مسلم
’’ سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘‘ کا سچا نمونہ ۔‘‘
حنیف
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلَّہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ﴾-النحل:۱۲۰-
’’ وہ موحد اور پاکباز ہستی جو ہر طرف سے ہٹ کر صرف اللہ کی ہورہی ۔ اس کے بارے میں اس کی توجہ بالکل غیر منقسم رہی اور پوری توجہ کے ساتھ اس کی طرف یکسوئی رہی۔‘‘
قلبٍِ سلیم
﴿إِذْ جَاءَ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ﴾-الصافات:۸۴-
’’ وہ بندئہ حنیف جو غیراللہ کے اس جذب وکشش کے داغ دھبوں سے پاک رہا ہو جو تعلق باللہ پر اثر انداز ہو سکیں یا ان کی موجودگی اس کی غیرت یکتائی کے منافی ہو اس کومخلص بھی کہا گیا ہے ۔‘‘
معمارِ حرم
﴿وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ﴾-البقرۃ:۱۲۷-
’’اس بیت اللہ اور حرم کے معمارِ جو وحدتِ ملی کا سرچشمہ ، توحید الٰہی کا مظہر اور سنگِ میل اور شعائر اللہ کا مرکز ہے ۔‘‘
محسن
﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات:۱۰۵-
’’ احسان، قلبی مشاہدہ جذبِ دروں اور پوری طمانیت کے ساتھ حق تعالیٰ کی عبادت بجالانے کانام ہے ۔‘‘
مؤذن
کعبہ کی تعمیر کے بعد سب سے پہلی اذان دینے والے جو حاضر اور آنے والی تمام سعادت مند نسلوں کے دلوں میں اُتر گئی اور ہمیشہ کیلئے ایک عالمگیر تحریک اور اجتماع کی داغ بیل ڈالی گئی۔
صدیق
ایسا سچا اور سچ بولنے والا جو اپنی بات کو اپنے کردار سے سچ کر دکھائے ۔ اس میں سچائی قبول کرنے کی کامل استعداد ہو اور جب حق تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم پہنچے تو اس کو بلا توقف مان لے ۔
اَوَّاہُ
وہ ہستی جس کے سینہ میں ایسا درد منددل ہو جو اس کو سدا آہ وفغاں سے ہمکنار رکھے اور اپنے محبوب کے احکام کی تعمیل صرف آئینی اور قانونی احساس کا نتیجہ نہ ہو بلکہ جذبِ دروں اور دل کی ہوک اور سچی پیاس پر مبنی ہو۔
امت
وہ شخص جس کی حیاتِ طیبہ میں پوری استعداد ، صالح اعمال اور صدق مقال کے تمام محاسن یکجا جمع ہوں جیسے چھوٹے سے بیج میں ایک تناور درخت۔
توصیہ
انسان اپنی اولاد کی تربیت سے بھی پہچانا جاتا ہے کیونکہ وہاں وہ بالکل اصلی روپ میں ہوتا ہے ۔ تکلف اور تصنع نہیں ہوتا چنانچہ آپ نے اپنی اولاد کو جو توصیہ حق فرمایا تھا وہ اس امر پر شاہد ہے کہ آپ کی جلوت اور خلوت میں بالکل یکسانیت تھی۔
ان صفات والے بزرگ کو ’’حنیف‘‘ کہتے ہیں اور جو شخصیت پہلے انہی صفات کی حامل تھی یہ حج اور قربانی اسی کا اسوئہ حسنہ ہے اور محض انہی صفات اور محاسن کی تجدید کیلئے ہے تاکہ ہر زمانہ میں ’’حنفاء للہ ‘‘ -اللہ کے حنیف بندے - پیدا ہوں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

سیرتِ امام المؤحدین علیہ السلام

از حمزہ طارق برکی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم أما بعد
قولہ تعالیٰ : ﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج :۳۷-
وقولہ تعالیٰ :﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ لِأَبِیہِ آَزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آَلِہَۃً إِنِّی أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ﴾-الأنعام :۷۳-
وہ اللہ کا بندہ جس نے تاریخ بنی نوع انسانی میں ہجرت الی اللہ کے بانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا ، وہ جس نے ہر آزمائش ہر امتحان ، ہر ابتلاء ، ہر اختبار پر خوشی خوشی ’’لبیک’’ کہا ، جس کی زندگی جب سے ان پر حق منکشف ہوا اس وقت سے لیکر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی ہر دم قربانی ہی قربانی رہی۔ دنیا میں جس چیزبھی انسان محبت کرتا ہے کوئی ایسی ۔۔۔چیز نہ تھی جس کو انہوں نے اللہ کی راہ میں قربان نہ کیا ہو جن خطرات کو انسان محسوس کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، اسے انہوں نے ہردم جھیلا، جس نے بیت اللہ الکعبۃ المشرفۃ کی بنیاد رکھی اور عرب کی سرزمین پر ایک شہر مکہ مکرمہ آبادکیا ، اس عظیم شخصیت کانام ابو الأنبیاء ابراہم خلیل اللہ علیہ السلام ہے ۔ جن کی پوری زندگی سوائے قربانی اور آزمائش کے اور کچھ نہ رہی، جنہوں نے اپنے آباء واجداد، اپنے وطن ، تمام تر آسائشیں اللہ کی راہ میں قربان کر دیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہم پر یہ ظاہر اور واضح ہوتا ہے کہ یہ جوہماری زندگی ہے یہ حیات کی مانند ہے ۔ بڑ ی عارضی ، بڑ ی فانی اس حیات دنیوی کی پائیداری پر کوئی اعتمادنہیں ہو سکتا یہ کب تک رہے گی لیکن جتنی بھی دیر یہ حیات قائم ہے اس کی بھی ایک غرض وغایت اور مقصد ہے وہ بھی عبث اور بیکار نہیں ۔پس یہ زندگی ایک آزمائش اور امتحان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔
یہ گھڑ ی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
قارئین کرام! ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات سعیدہ کن کن مراحلوں سے گزری اب تفصیلاً بیان کر رہا ہوں ۔
ابراہیم علیہ السلام کی فکرونظر کا امتحان
ابراہیم علیہ السلام کاپہلا امتحان تو ان کی فکر ونظر اور عقل وشعور کا تھا اس امتحان میں انہوں نے عظیم الشان کامیابی حاصل کی اس کاذکر سورۃالأنعام میں ہے ۔
انہوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں ہر نوع کے شرک چھائے ہوئے تھے توحید کی کوئی روشنی موجودنہ تھی ۔شرک کی تمام تر اقسام وہاں موجود تھی۔غیر اللہ کی حاکمیت کاشرک وہاں موجود تھا۔وہاں کابادشاہ نمرود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ نعوذ باللہ
اور اسی دعوے کے ساتھ وہ تخت پر متمکن تھامذہبی شرک وہاں ستارہ پرستی رائج تھی مختلف ستاروں کو وہ لوگ پوجا کرتے تھے ۔
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جہاں پیدا ہوئے وہ گھر بھی ایک بت فروش آزرنامی آدمی کا تھا جو مشرکوں کے درمیان صاحب منصب بھی تھا شرک کے ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں ابراہیم علیہ السلام اپنی فطرت وعقل سلیم کی رہنمائی میں نظری ، فکری اور عقلی سفر کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی دل کی گہرائیوں سے یہ نعرہ بلند ہوتا ہے کہ ﴿إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ ﴾-الأنعام:۷۹-
’’اور یک سو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
یہ نعرہ ان مشرکوں کے درمیان بغاوت تھی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے بڑ ے ہی مؤثر انداز میں اپنے والد اور اپنی قوم کو سمجھایا جیسا کہ سورۃ الأنعام میں مذکور ہے ۔ ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ لِأَبِیہِ آَزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آَلِہَۃً إِنِّی أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ﴾
-الأنعام :۷۴-
’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تو بتوں کو الہ بناتا ہے میں تو تجھے کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔‘‘
سورۃ الأنبیاء میں ارشادہے ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ وَقَوْمِہِ مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُونَ﴾
-الأنبیاء :۵۲-
’’یادکرو وہ موقع جبکہ اس -ابراہیم علیہ السلام - نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہورہے ہو۔‘‘
الغرض مختلف مواقع پر ، مختلف اسالیب مختلف انداز میں باربار اپنے والد اور قوم کو توحید کی طرف بلاتے رہے ۔
﴿قَالَ اَتَعبُدُونَ مَا تَنحِتُونَ﴾-الصافات:۹۵-
’’ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی مورتیاں پوجتے ہو؟۔‘‘
پھر آخری چوٹ لگاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ﴿أُفٍّ لَکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾-الأنبیاء :۶۷-
’’ اف ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پرجن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہو کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔‘‘
یہ ابراہیم علیہ السلام کی عقل سلیم اور بیداری کی مثالیں تھی جو اس شرک کے اندھیروں میں روشنی اور ہدایت بنی۔ اس امتحان میں انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔
قوت ارادی کی آزمائش
اب دوسرا امتحان ’’عمل‘‘ کا شروع ہوا۔قوت ارادی کی آزمائش کی ابتداء ہوئی سیرت وعمل کے کردار کی پختگی کا امتحان شروع ہوا۔ سب سے پہلی کشمکش تو اپنے والد آزر سے ہوئی ، بڑ ی ہی لجاجت اور خوش اخلاقی اور بڑ ے ہی نرم انداز میں اپنی دعوت پیش کی کہ اباجان! آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ﴿یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِیًّا﴾-مریم :۴۴-
’’اے میرے ابا جان! شیطان کی بندگی نہ کیجئے بلاشبہ شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے ۔‘‘
﴿یَا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَمَسَّکَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَکُونَ لِلشَّیْطَانِ وَلِیًّا﴾-مریم:۴۵-
’’ اے میرے اباجان! مجھے اندیشہ ہے کہ رحمن کی طرف سے عذاب آے گا اور آپ شیطان کے ساتھیوں میں سے ہوجائیں ۔‘‘
ان تمام لجاجتوں اور ادب واحترام کے نتیجے میں مخالفت اور طعنہ زنی کے علاوہ اور کچھ نہ پایا آزر ابراہیم علیہ السلام کو مخالفت کے انداز میں کہتا ہے ﴿قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آَلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا ﴾-مریم:۴۶-
’’اس نے کہا اے ابراہیم علیہ السلام ! تم میرے معبودوں سے روگردانی کر رہے ہو ، اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا ، اس وقت میری نظر سے دور ہوجاؤ۔‘‘
اس بداخلاقی اور سخت کلامی کے باوجود ابراہیم علیہ السلام نرمی اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ﴿قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا ﴾-مریم:۴۷-
’’کہا آپ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو معاف کر دے یقینا میرا رب مجھ پر بڑ ا مہربان ہے ۔
یہاں ابراہیم علیہ السلام ارادے کی پختگی اور عزم اور سیرت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ، جہاں انہیں سنگسار کی دھمکی دی جاتی ہے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آیا جاتا ہے وہاں یہ اللہ کا بندہ کہتا ہے ۔ ﴿سَلاَمٌ عَلَیکَ﴾ اپنے کردار میں اور اعلیٰ سیرت کی اس آزمائش میں ابراہیم علیہ السلام پورے اترتے ہیں ۔
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند احباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی
ابراہیم علیہ السلام کی عملی دعوت اور بُت شکنی
اب آیا معاملہ عوام کا جو ستارہ پرست تھے ، یا بت فروش یا حاکمیت کہ ہر مدعی ہونے والے کو اپنا سب کچھ مانتے تھے ۔بہرحال اب آپ ابراہیم علیہ السلام کے جذبات واحساسات اور ان عقائد وعمل کا اندازہ لگائیے ۔ اور جرأت کے اس پیکر کو دیکھئے کہ کس قدر عظیم کام انہوں نے سرانجام دیا ان کے سب سے بڑ ے صنم خانے میں داخل ہوئے اور ان کے تمام تر بت توڑ دیے سب سے بڑ ے بت کو چھوڑ کرپھر جب قوم والے واپس آئے تو اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر حیران رہ گئے ، حیرانی کے اس عالم میں کہتے ہیں کس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کو طلب کیا گیاکہتے ہیں ﴿قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآَلِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیمُ﴾-الأنبیاء:۶۲-
’’ وہ کہتے ہیں اے ابراہیم ! ہمارے آلہۃ کا یہ حال تم نے کیا ہے ۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام نے بطور حجت ان سے کہا ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوہُمْ إِنْ کَانُوا یَنْطِقُونَ ﴾-الأنبیاء:۶۳-
’’ اس بڑ ے بت نے یہ کام کیا ہو گا اسی سے پوچھو اگر یہ -بت- بولتے ہیں ۔‘‘
گویا عام واقعاتی شہادتیں تو اس بڑ ے بت کے خلاف ہیں ۔ اس حجت سے انہوں نے اپنے دلوں میں یہ محسوس کر لیا کہ غلط تو ہم ہی ہیں یہ ہمارے بت بول کب سکتے ہیں ۔
نمرود سے مباحثہ
عوام کے ساتھ اس مقابلے میں کامیاب ہونے کے بعد اب حکومت واقتدار وقت سے مقابلہ کی نوبت آتی ہے ۔ یہ بادشاہ وقت جو نمرود نامی سرکش اور اپنے وقت کا فرعون تھا۔ اس کی سرکشی کا معلوم ہونے کے بعد اس کے اقتدار اور منصب کے باوجود ابراہیم علیہ السلام توحید کا پرچم لیئے دربار میں پوری دلیری اور پامردی سے کھڑ ے ہیں اور اس سرکش انسان سے مباحثہ اور مناظرے میں مصروف ہیں اس مباحثہ کے عالم میں ابراہیم علیہ السلام دلیل پیش کرتے ہیں کہ ﴿قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّیَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ ﴾-البقرۃ:۲۵۸- ’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے ۔‘‘اس بیوقوف بادشاہ نے بحث میں الجھنے کی خاطر کہا کہ ﴿قَالَ أَنَا أُحْیِی وَأُمِیتُ ﴾-البقرۃ:۲۵۸- میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔‘‘
بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ کہنے کے بعد اس نے دو آدمیوں کو بلایا اور ایک کو قتل کر دیا اور ایک کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا بطور حجت کے دیکھو میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
اس کی اس کج بحثی کا رویہ دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام نے آخری دلیل پیش کی ﴿قَالَ إِبْرَاہِیمُ فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ﴾-البقرۃ:۲۵۸-’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرارب تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا اس حجت قطعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ﴿فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ﴾’’ یہ سن کر وہ منکر حق ششدر ہوکر رہ گیا۔‘‘
اس امتحان میں بھی ابراہیم علیہ السلام کامیاب ہوگئے ۔
ابراہیم علیہ السلام آتش کی لپیٹ میں
اب ایک اور بڑ ا امتحان آیا، نمرود جب اس مباحثہ میں آ گیا اور کہنے لگا اب آخری فیصلہ کر لو۔ زندگی عزیز ہے تو اپنی یہ دعوت دینا چھوڑ دو ، اور اگر اسی پر ڈٹے رہے تو موت ہی تمہارا مقدر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کا موقف وہی رہا جس پر وہ ڈٹے رہے بادشاہ نے اپنی شکست کی شرمساری سے بچنے کیلئے اور اپنے عمائدین اور عوام کے مطالبے پر حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤمیں جلا ڈالو اور اس طور پر اپنے معبودوں کی مدد کرو چنانچہ انہوں نے آگ کا بہت بڑ ا الاؤ دھکایا اور ابراہیم علیہ السلام کو اس میں کود پڑ نے کو کہا اور وہ کود گئے ، اس عمل کو شاعر نے اپنے انداز میں کیا خوب کہا ہے کہ
بے خطر کود پڑ ا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے تماشائے لب بام ابھی
ابراہیم علیہ السلام اپنی آزمائش میں پورے اترے اور آگ میں کود پڑ ے لیکن اللہ عزوجل نے آگ کو حکم دیا ﴿قُلْنَا یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی إِبْرَاہِیمَ ﴾-الأنبیاء : ۶۹-
’’ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم علیہ السلام کیلئے سلامتی والی بن جا۔‘‘
آگ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کیلئے گل وگلزار بن گئی اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ اپنے امتحان میں کامیاب ہوکر معجزانہ طریقے سے بچا لیا گیا۔
ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت الی اللہ
آگ کی لپیٹ سے بچنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔﴿وَقَالَ إِنِّی ذَاہِبٌ إِلَی رَبِّی سَیَہْدِینِ ﴾-الصافات:۹۹-
’’اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا۔‘‘
یعنی میں اپنے رب کی خاطر اپنا وطن اپنا گھر سب کچھ چھوڑ رہا ہوں اور رہا یہ معاملہ کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا تو یہ میں اللہ عزوجل کے حوالے کرتا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا یہ ہوا ایک اور امتحان وطن کو خیر آباد کہنا اور صرف اللہ کے بھروسے پروہاں نکل جانا۔کوئی منزل پیش نظر نہیں کوئی رائے مشورہ نہیں ۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی یہ ہجرت الی اللہ کی کامل ترین مثال ہے اس ہجرت میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ’’سارہ ‘‘ اور ان کے بھتیجے ’’لوط‘‘ علیہ السلام تھے یہ دونوں آپ پر ایمان لا چکے تھے ۔
اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کی ولادت
ہجرت کے بعد کی زندگی میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃوالسلام کو یہ احساس ہوا کہ کچھ اعوان انصاد ہوں کوئی دست وبازو ہو، تو زبان پر دعا آ گئی ﴿رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ﴾-الصافات:۱۰۰-
’’ اے میرے رب! مجھے صالح اولاد عطا فرما۔‘‘
اللہ عزوجل نے دعا قبول فرمائی اور ابراہیم علیہ السلام کو ستاسی -۸۷- سال کی عمر میں اسماعیل ں جیسا فرمانبرداربیٹاعطا فرمایا۔ جن کی والدہ ’’ہاجرہ‘ تھی۔ آپ کی پہلی اہلیہ’’ سارہ‘‘ جو آپ ہی کے خاندان سے تھی اور انہوں نے ہجرت میں آپ کا ساتھ دیا وہ بانجھ تھی طویل عمر تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی ۔ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے بعد فرشتوں کے ذریعے اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی تو انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔
﴿قَالَتْ یَا وَیْلَتَی أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَہَذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ ہَذَا لَشَیْء ٌ عَجِیبٌ ﴾-ہود:۷۲-
’’وہ کہنے لگی: ہائے میرے بدبختی میں بوڑ ھی عورت اور بانجھ کیا اس عمر میں میرے یہاں اولاد ہو گی؟ جبکہ میرے شوہر بھی بوڑ ھے ہو چکے ہیں یہ تو بڑ ی انوکھی بات ہے ۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا جواب ملا ﴿فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیمٍ﴾-الصافات:۱۰۱-
’’پس ہم نے اسے ایک بردبار بیٹا عطا فرمایا۔‘‘
جسے چاہتادیتا ہے جو چاہتا ہے دیتا ہے یہاں اسماعیل کی بشارت ملتی ہے اور بعد میں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خبر ملی تو اللہ کا یہ بندہ اس فضل وکرم کا شکر کن الفاظ میں عطا فرماتا ہے ۔
﴿اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ﴾-إبراہیم :۳۹-
’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑ ھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام جیسے وارث عطا فرمائے ۔‘‘
ذبح عظیم
اب ابراہیم علیہ السلام کی ایک عظیم قربانی جو آنے والی تمام نسلوں کیلئے ایک نشانی وعلامت ہے کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں کہ ابراہیم علیہ السلام کو -۸۷- سال کی عمر میں بیٹے کی نعمت عطا ہوئی اب ایک اور امتحان شروع ہوا اب ادھر بوڑ ھا باپ اپنے بیٹے کو بڑ ا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے ۔ ادھر محبت ، وجذبات اور امیدوں اور تمناؤں کا امتحان تھا۔ جب اسماعیل علیہ اسلام بوڑ ھے باپ کے تیسرا ہاتھ اور لاٹھی کے مترادف ہو گیا اور محنت ، مشقت میں ہاتھ بٹانے والا بن گیا اب ان کی عمر تیرا سال ہوگئی تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہتے ہیں ﴿یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی ﴾-الصافات:۱۰۲-
’’ اے میرے بچے ! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔‘‘
روایت میں آتا ہے ’’یہ خواب مسلسل تین دن تک آتا رہا۔‘‘ اب غور کریں اور بتائیں کہ تمہاری کیا رائے ہے ۔‘‘؟
قارئین کرام! یاد رکھیے کے نبی کا خواب وحی ہوتا ہے ۔
اب بیٹے کی اطاعت گزاری کا اظہار ہورہا ہے ﴿قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ ﴾-الصافات:۱۰۲-
’’ اس بیٹے نے کہا ابا جان! کر گزرئیے جو حکم آپ کو مل رہا ہے آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔‘‘
﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ ﴾-الصافات-
’’پھر جب دونوں -باپ بیٹا- نے اسلام -فرمانبرداری-کا مظاہرہ کیا اور اس کو -اسماعیل علیہ السلام- پیشانی کے بل لیٹادیا۔‘‘
جب دونوں نے اللہ کے حکم کو بسروچشم قبول کر لیا اور ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل گرا دیا تاکہ چہرہ سامنے نہ آئے اور جذبات فطری عین وقت ذبح جوش نہ ماریں ، بوڑ ھے ہاتھوں میں کہیں لرزش نہ آجائے ۔ اب جب ۱۳ سال کے بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے کی تیاری کر رہا تھا۔
﴿وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیمُ﴾-الصافات-
’’اور ہم نے اس کو پکارا اے ابراہیم علیہ السلام بس کر۔‘‘
﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات-
’’بلاشبہ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔‘‘اس سے زائد ہمیں درکار نہیں ۔
قارئین کرام! ابراہیم علیہ السلام کی وسیع ہمت اور ایمان دیکھئے کہ ممتحن روک رہا ہے لیکن امتحان دینے والا ابھی بھی تیار ہے ۔ امتحان پورا ہو گیا ، اپنی محبوب ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے چنانچہ فرمایا:﴿وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآَخِرِینَ ٭ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیمَ ٭کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات:۱۰۸تا۱۱۰-
’’اور ہم نے بعد کی نسلوں کیلئے اس-قربانی- کو-بطور یادگار- چھوڑ دیا سلامتی ہو ابراہیم پر ، اور اسی طرح ہم محسنوں کی قدر دانی کرتے ہیں ۔‘‘
قارئین کرام! ابراہیم علیہ السلام کی یہ سنت قیامت تک آنے والی تمام دنیا کے لوگوں کیلئے یادگار ہو گی۔
ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم قربانیاں اور آزمائشیں ایسی ہی نہیں تھی اس کا انعام قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کو بتادیا کہ ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبرَاہِیمَ خَلِیلاً﴾-النساء:۱۲۵-
’’کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست اختیار کیا۔‘‘
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی تمام زندگی ابتلاء ، آزمائش اور امتحان پر ہی مبنی رہی ان کی زندگی کو شاعر اپنے اندازمیں یوں کہتے ہیں ۔
چوں می گو تم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ دا
عید الاضحی اور قربانی
ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا اور ایک باطن ’’نماز‘‘ کا ایک ظاہر ہے یعنی قیام ، رکوع، سجودوغیرہ ۔یہ ایک خول ہے اس کا ایک باطن ہے یعنی توجہ اور رجوع الی اللہ ’’خشوع وخضوع‘‘
اسی طرح جانور ذبح کرنا ، اور قربانی دینا یہ ایک ظاہری عمل ہے لیکن اس کا باطن ’’تقوی‘‘ ہے ۔
﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج :۳۷-
’’اللہ تک تمہاری قربانی کا گوشت اور ان کا خون نہیں پہنچتا ہاں اس تک رسائی ہے تمہارے تقوی کی۔‘‘
اگر تقوی اور روحِ تقوی موجود نہیں اگر یہ عزم وارادہ موجود نہیں کہ ہم اللہ کیلئے جانی ومالی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی بدلہ یا جزاء نہیں ۔
قارئین کرام!ہمارئے لیئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سوچیں غور کریں کہ واقعتاً ہم اللہ کی راہ میں اپنے جذبات واحساسات کی قربانی دے رہے ہیں ؟ کیا واقعی ہم اپنی محبوب ترین ’’اشیائ‘‘ اللہ کی راہ میں قربان کر کے کیا ہم اپنے تمام رشتے اور اپنی محبتیں اللہ کے دین کیلئے قربان کرسکتے ہیں ؟
اگر ہم یہ تمام چیزیں کرسکتے ہیں تو عید الاضحی کے موقع پر ہماری یہ قربانی ’’نور علی نور‘‘ ہے ۔ اور اگر نہیں تو یہ قربانی صرف ایک رسم اور اپنا نام مسلمانوں میں شمار کرنے کیلئے ادا کی جا رہی ہے ۔
رگوں میں وہ لہو باقی ہے وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز وہ روزہ وقربانی وحج یہ سب باقی ہے توباقی نہیں ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تقوی ، پرہیزگاری اور ہر مصائب وابتلاء میں ثابت قدم رکھے ۔ آمین
تقبل اللہ منا ومنکم صالح الأعمال ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟