Wednesday, December 2, 2009

قربانی کے احکام و مسائل

از فضیلۃ الشیخ محمد عمران المدنی
قربانی خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، ہمارے نبی مکرم بھی اس سنت کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے ، جس کا پتہ ہمیں اس حدیث سے چلتا ہے ۔ جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’مَن کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا‘‘ -رواہ ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۲۳، وحسنہ الشیخ الألبانی رحمہ اللہ-
’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔‘‘
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی مکرم نے فرمایا:’’اے لوگوں ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی کرنا لازم ہے ۔‘‘ -رواہ ابن ماجہ ۲/۲۰۰- اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔
بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھی قربانی کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ’’کُنَّا نُسمِّن الأضحیۃ بالمدینۃ وکان المسلمون یسمِّنون‘‘-رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۵۵۵۳-
’’ہم مدینہ طیبہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کر کے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کرتے تھے ۔‘‘شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی شخص کو قربانی کیلئے قرض بھی لینا پڑ ے تو لے لے ۔ واللہ أعلم
1۔قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑ ے ۔
جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کا۔ٹنے سے باز رہے ۔ کیونکہ نبی ا کرم کا ارشاد گرامی ہے :’’اذا رأیتم ہلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحِّی فلیمسک عن شعر ہ وأظفارہ۔‘‘ -رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۴۱-
’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں -کو کاٹنے اور تراشنے - سے بچو۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ :’’فَلاَ یَأخُذَنَّ مِن شَعرِہِ وَلاَ مِن أَظفَارِہِ شَیئاً حَتَّی یُضَحِّی۔‘‘ -ابوداؤد رقم الحدیث:۲۷۸۸، صححہ الشیخ الالبانی -
’’ہرگز اپنے بالوں اور ناخنوں کو نا کاٹے یہاں تک کہ قربانی ذبح نہ کر لے ۔
[وضاحت] ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑ ے اور بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بال مونڈھے ، نہ ہلکے کرے ، اور نہ ہی نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے ، اور وہ بال جسم کے کسی بھی حصے ، سر مونچھوں ، بغلوں ، زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوانہیں چھیڑ نا نہیں ہے ۔ -دیکھئے شرح صحیح مسلم [۱۳/ص:۱۳۸-
وضاحت : ناخنوں اور بالوں سے قربانی کرنے تک بچنا ہے اسی طرح صحابہ کرام کاعمل تھا ، جیساکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ذکر کیا ہے ۔
-رقم المسألۃ :۹۸۶-
مسألہ :اگر قربانی کرنے والا شخص ان دس دنوں میں اپنے بالوں یا ناخنوں کو کاٹ لے تو اس پر فدیہ یاکفارہ نہیں ہے ۔ ہاں اگر یہ عمل عمداً سرزد ہوا ہے تو اس نے نبی معظم کی نافرمانی کر کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ۔ تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار اور توبہ کرے ۔
-دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ-
2 ۔سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے ۔
سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا :’’ذبح رسول اللہ ضحیَّتہ ثم قال : یا ثوبان !اصلح لحم ہذہ فلم أزل أطعمہ منہا حتی قدم المدینۃ ۔‘‘-رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۷۵-
’’رسول اللہ نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا ، پھر فرمایا: اے ثوبان ! اس کاگوشت بنادو۔ میں آپ کے مدینہ تشریف لانے تک اس -گوشت- سے آپ کو کھلاتا رہا۔‘‘
اور دوسری روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’ کنّا مع رسولِ اللہ فی سفرٍ فحضر الأضحی ، فاشرکنا فی البقر سبعۃ وفی البعیرِ عشرۃ ۔‘‘-ترمذی، رقم الحدیث : ۱۵۳۷، اور شیخ الالبانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
’’ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید الأضحی آ گئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے ۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں اس طرح باب قائم کرتے ہیں :[باب الأضحیۃ للمسافر والنسائ]’’مسافر اور عورت کیلئے قربانی کے متعلق باب ۔
پھر اس باب کے تحت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لے کر آتے ہیں کہ جس میں نبی رحمت نے اپنی بیویوں کی طرف سے منی میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔امام ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ آنحضرت کا گائے کو ذبح کرنا عید الأضحی کی قربانی کیلئے تھا۔ -دیکھئے : فتح الباری ، ۱۰/۵-
3۔ قربانی کے جانور کی عمر:
مستحب یہ ہے کہ جانو ردو دانت کا ہونا چاہیے لیکن اگر بھیڑ ، دونبہ مینڈھا کھیرا ہو اور اس کی عمر کم از کم ایک سال کی ہوتوبھی جائز ہے ۔ نبی مکرم نے فرمایا:’’صرف دودانت جانور کی ہی قربانی دو ۔ہاں ! اگر دشواری پیش آجائے تودودانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کر لو۔‘‘ -رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۶۳-
کھیرا دنبہ بھیڑ یا مینڈھا کی قربانی عام حالات میں بھی جائز ہے یعنی اگرچہ دشواری نہ بھی ہو تب بھی کھیرا دنبہ کی قربانی جائز ہے ۔ ام بلال رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : بھیڑ کے دودانت سے کم عمر والے بچے کی قربانی کرو کیونکہ وہ -یعنی اس کی قربانی- جائز ہے ۔ -رواہ الامام أحمد [۶/۳۶۸] ، رقم الحدیث : ۲۷۰۷۲-
امام مناوی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر کی شرح میں اس حدیث کی سندکو صحیح قرار دیا ہے ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ا کرم نے فرمایا:’’جہاں دودانت والا جانور کافی ہے وہاں دودانت سے کم عمر والا بھیڑ کا بچہ بھی کافی ہے ۔‘‘ -رواہ ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۷۹۶ ، شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے ۔
وضاحت: قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ -یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ- اس بات پر تو پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا کھیرابچہ قربانی کرنا جائز نہیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو دانت ہو۔ -دیکھئے سوئے حرم محمد منیر قمر کی ، ص/۴۲۱-
۴۔سب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کاکافی ہونا۔
جلیل القدر عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے میزبان رسول اللہ ا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا نبی ا کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ نبی مکرم ا کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی دیا کرتا تھا۔ ‘‘ -رواہ الترمذی ، رقم الحدیث :۱۵۰۵، شیخ الالبانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے :’’علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ۔‘‘
’’ہر گھر والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی ہے ۔‘‘ -ابوداؤد ، رقم الحدیث :۲۷۸۸، ترمذی ، رقم الحدیث:۱۵۱۸، شیخ الالبانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے - [دیکھئے : فتح الباری :۱۰/۴-
۵۔ گائے اور اونٹ میں شراکت داری :
اگر کسی میں قربانی کیلئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو توایک گائے کو سات آدمی مل کر خرید لیں ، وہ ان سات آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ ہاں اونٹ کی قربانی میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں ۔ جس کی دلیل سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۹۰۵، ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۳۱، ابن خزیمۃ :۲۹۰۸ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید الأضحی آ گئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے ۔‘‘
۶۔ بہتر ومستحب یہ ہے کہ آدمی قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرے :
کیونکہ نبی رحمتا اپنا جانور اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے ۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ا کرم ا نے مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا پھر ذبح کیا۔
۷۔ عورت کا اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا:
یہ حکم صرف مردوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی اس میں شامل ہیں ۔جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً اور امام حاکم رحمہ اللہ نے موصولاً ذکرکیا ہے کہ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کریں ۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت نے پتھر کے ساتھ بکر ی ذبح کی ، یہ واقعہ نبی ا کے سامنے ذکرکیا گیا ، آپ ا نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے رقم الحدیث -۳۱۸۲- میں روایت کیا ہے اور یہی حدیث بخاری میں کچھ الفاظ کی زیادتی کے ساتھ موجود ہے ۔
-رقم الحدیث ، ۵۵۰۱-
۸۔ قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت قصاب -قصائی - کو کچھ نہ دیا جائے :
نبی کریم ا نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصائی کو دینے سے منع فرمایا ہے ۔ہاں اگر پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظردیگر مسکینوں کی طرح کچھ دے دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس بنا پر قصائی اپنی اجرت میں کمی نہ کرے ، اگر ایسا خدشہ ہو تو سلامتی اسی بات میں ہے کہ اس کو قربانی میں سے کچھ بھی نہ دیں ۔ جیسا کہ نبی ا کرم انے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں کے ذبح کرنے اور ان کے گوشت کی تقسیم کی نگرانی کریں ، اور ان کاگوشت ، کھالیں اور جھولوں -پالان- سب کچھ تقسیم کر دیں اور ذبح کرنے کے عوض اس میں سے کچھ نہ دیں ۔اس حدیث کو روایت کرنے کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیا کرتے تھے ۔ -رواہ البخاری ۔ ۱۶۱۶-
۹۔ قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچ کر ا سکی اجرت کھانا جائز نہیں :
ہاں البتہ خود استعمال کرسکتے ہیں ، مسند امام احمد میں ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا : حج کے موقع پر منیٰ میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچوبلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کرو ، اور قربانی کے جانوروں کی کھالیں بھی مت بیچو۔ -بلکہ وہ بھی صدقہ کر دیا کرو یا پھر - اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔ -مسند احمد ۔۴/ ۱۵-
بلکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیتہ لہ ۔‘‘ -رواہ الحاکم وحسنہ الشیخ الألبانی فی الترغیب والترہیب ، رقم الحدیث :۱۶۶۵-
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چمڑ ے یا کھال کو بیچ کر اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا تو منع ہے البتہ اس چمڑ ے کو دباغت دیکر -رنگ کر- پکا لے اور اپنے بیٹھنے یا کسی دوسرے استعمال میں لائے تو اس کی اجازت ہے ۔
۱۰۔ نماز عید کے بعد قربانی کرنا
نماز عید سے پہلے جانور کو ذبح نہیں کرنا چاہئے اور اگر کسی نے جانور نماز عید سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ کھانے کا گوشت تو بن جائے گا لیکن قربانی کے طور پر قبول نہیں ہو گا۔کیونکہ نبی محترم ا نے فرمایا: جس نے نماز عید پڑ ھنے ۔ یا ہمارے عید پڑ ھنے سے پہلے ہی قربانی کا جانور ذبح کر دیا اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے ۔ -بخاری، ۹۸۵-
۱۱۔ ذبح کرنے کا مسنون طریقہ
جانور کو ذبح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروں سے دور جہاں وہ دیکھ نہ سکے اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لے ، اس لئے کہ وہ چھری کو تیز ہوتا دیکھ کرتکلیف محسوس نہ کرے ، اور چھری کو تیز اس لئے کر ے تاکہ جلد ذبح ہو جانے کی صورت میں جانو ر کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے ۔ اس سلسلہ میں امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر -۱۱/۳۳۳- میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکرکی ہے کہ نبی ا کرم ا کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹا کر ، اس کی گردن پر پاؤں رکھے اپنی چھری تیز کر رہا تھا اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی ، اس پر نبی رحمت ا نے فرمایا:’’ افلا قبل ھذا؟ اترید ان تمیتھا مرّتین‘‘
’’ کیا یہ کا م اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھاَ ؟ کیا تو اس بیچاری کی دو مرتبہ جان لینا چاہتا ہے ۔‘‘- اس حدیث کی سند صحیح ہے -
اور مستدرک حاکم میں ہے -۴/۲۳۱- کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان لینا چاہتا ہے ؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کر لی؟ -امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اورعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے - بلکہ نبی آخرزمان ا کا طریقہ بھی یہی تھا ۔ -دیکھئے ابو داؤد ۲۷۹۲-
۱۲۔ اونٹ کو نحر کرنیکا طریقہ
اونٹ کو نحر کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ کھڑ ا کر کے اس کی اگلی بائیں ٹانگ ٹیڑ ھی کر کے باندھ دی جائے او ر اسے تین ٹانگوں پر کھڑ ا ہونے کی حالت میں تکبیر پڑ ھ کر اس کے سینے اور گردن کی جڑ کے درمیان والی گڑ ھا نما جگہ میں نیزہ یا کوئی تیز دھار آلہ مار ا جائے جس سے اس کی رگ کٹ جائے ، ا سکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے : ﴿فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہَا صَوَافَّ ﴾ -الحج :۳۶-’’ تم ان پر کھڑ ے ہونے کی حالت میں ہی اللہ کا نام لو۔ ‘‘
-صواف - کی تفسیر ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کھڑ ا کرنے سے کی ہے ۔اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے ۔
اور ابو داؤد کی حدیث میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کو اس حالت میں ذبح کرتے تھے کہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑ ا ہوتا۔ -دیکھئے : سنن أبی داؤد ، رقم الحدیث :۱۷۶۴، اس حدیث کو امام نو وی اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔-
اونٹ بٹھا کر نحر کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اونٹ کو ذبح کرنے کیلئے بٹھا دیا تھا تو آپ صنے اس کو ایسے کرنے سے منع فرمایا اور سنت کے مطابق ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا ’’ ابعثہا قیاماً مقیّدۃ سنۃ محمد ا ۔‘‘ -اے کھڑ ا کر کے باندھ لو یہی نبی کی سنت ہے -۔ -رواہ البخاری ، رقم الحدیث :۱۷۱۳، حافظ بن حجر فرماتے ہیں :اس حدیث میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ذبح کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے ۔ -دیکھئے فتح الباری ۳/۶۹۸-
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑ ھنے کی اہمیت
علماء کرام میں اس بات میں اختلاف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑ ھنا سنت واجب یا شرط ہے چونکہ اگر بسم اللہ پڑ ھنا سنت یا واجب مان لیا جائے تو اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑ ھنا بھول جائے تو وہ جانور کھایا جا سکتا ہے اور اگر بسم اللہ پڑ ھنا شرط مان لیا جائے تو اس جانور کا کھانا ناجائز ہوجائے گا۔ اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہی لگتی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام بن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں ذکر کیا ہے اورالشیخ محمد بن صالح العثیمین نے شرح الممتع میں تفصیل سے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ ﴾-الأنعام:۱۲۱-
’’اورنہ کھاؤ جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔‘‘
اور نبی کریم کا یہ فرمانا:’’جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیا گیا ہوتو وہ کھالو۔‘‘
-متفق علیہ .بخاری، رقم الحدیث:۲۴۸۸، مسلم، رقم الحدیث:۱۹۶۸ - یہ آیت اور حدیث بسم اللہ کے شرط ہونے کی دلیل ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلمبالصواب
۱۳۔ جانور ذبح کرنے کی کیفیت
جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جانور کو قبلہ رخ کھڑ ا کر کے ذبح یا نحر کرنے کو مستحب سمجھتے تھے بلکہ اگر کسی جانور کو غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے ذبح کیا گیا ہوتا تو وہ اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے ۔-اسے امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں بسند صحیح ذکر کیا ہے -
جانور کو قبلہ رخ لٹا کر اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر اپنا دایاں پاؤں رکھ لیں ، اور بسم اللہ اور دعا پڑ ھ کر ذبح کریں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر پاؤں رکھا جائے تاکہ ذبح کرنے والے کیلئے دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ میں جانور کا سر پکڑ نے میں آسانی رہے ۔
-فتح الباری، ۱۰ ص ۱۸ -
۱۴۔ قربانی کے جانوروں میں مطلوبہ اوصاف
نبی ا کرم نے ایسا مینڈھا خرید کر لانیکا حکم فرمایا جو سینگوں والا ہو جس کی ٹانگیں ، پیٹ اور آنکھیں سیا ہ ہوں ۔- صحیح مسلم ، ۱۳/۱۲۱-
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ا کرم ا ایسا مینڈھا قربانی کیا کرتے تھے جو فربہ اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ جس کی آنکھوں ، منہ اور -پاؤں کے قریب سے - ٹانگیں سیاہ اون والی ہوتی تھیں ۔ -ابو داؤد ، ۲۷۹۶ ۔ اس حدیث کو ترمذی ، حاکم ، بغوی اورامام ذہبی نے صحیح کہا ہے -
۱۵۔ قربانی والے جانوروں کے عیوب ونقائص:
وہ عیوب و نقائص جو قربانی والے جانوروں میں نہیں ہونے چاہئیں ان میں سے کانوں اور آنکھوں میں پائے جانے والے عیوب کو بطور خاص دیکھ لینے کا حکم ہے ، چنانچہ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ا کرم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم -قربانی کا جانور خریدتے وقت- اس کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑ تال کر لیا کریں - کہ ان میں کوئی عیب نہ ہو- اسی حدیث کو ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، مسند احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے ، اور یہ حدیث صحیح ہے ۔
۱۶۔جانور کا اندھا ، کانا ، بیمار یا لاغر ہونا:
نبی ا کرم سے پوچھا گیا کہ قربانی والے جانوروں میں کن عیوب سے بچنا ضرور ی ہے ؟ تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاچار عیوب سے
۱ ۔ لنگڑ اپن ظاہر ہو،
۲۔ کانا کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو،
۳۔ بیمار کہ جسکی بیماری نمایاں ہو،
۴۔ اور لاغر کمزور کہ جس کے جسم میں چربی اور ہڈی میں گودا نہ رہا ہو۔ -اس حدیث کو اہل سنن الاربعۃ نے روایت کیا اور شیخ الالبانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے - دیکھئے ارواء الغلیل ، ۱۱۴۸۔
۱۷۔ کٹے ہوئے کان ، ٹوٹے ہوئے سینگ اور اندھے جانور :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺنے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم آنکھو ں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور کوئی ایسا جانور قربانی کیلئے نہ لیں جس کا کان سامنے یا پیچھے کی جانب سے کٹا ہو ا ہو، -اور اسے لٹکتا ہی چھوڑ دیا گیا ہو- اور نہ ایسا جانور جس کے کان لمبائی میں چیرے ہوئے ہوں ، یا جس کے کان میں گول سوراخ ہوں ۔ اور دوسری روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا نے ہمیں ایسے جانور کی قربانی دینے سے منع فرمایا جس کا آدھا یا آدھے سے زیاد ہ سینگ ٹوٹا ہو ا ہو، اور کا ن کٹا ہوا ہو۔ -ان دونوں حدیثوں کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے -
۱۸۔ خصی او ر غیر خصی جانور کی قربانی:
خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی سنت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم کے پا س دو سینگوں والے ، چت کبرے ، بڑ ے بڑ ے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ نے ان دونوں میں ایک کو پچھاڑ ا ا ور فرمایا: بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ ، محمد اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے تیری توحید کی اورتیرے پیغام -الٰہی- کو پہنچانے کی شہادت دی ۔
-رواہ ابو یعلی ، امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، اسی طرح شیخ الالبانی نے بھی حسن قراردیا ہے - دیکھئے ارواء الغلیل -۴/۲۵۱-، مجمع الزوائد -۴/۲۷- ۔
دوسری حدیث میں سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی جب قربانی کرنا چاہتے تو دو ایسے مینڈھے خریدتے جو بڑ ے قد آور ، موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ کے اورخصی ہوتے تھے ۔ -اس حدیث کو امام احمد نے ۶/۳۹۱، بیہقی نے ۹/۳۱۸ اپنی سنن میں اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے ، حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۴/۲۴ میں اور علامہ شوکانی نے الدراری المضیہ ۲/۱۲۴ میں اس کو حسن کہا ہے -
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا خصی ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔
غیر خصی جانور قربانی کرنے کی دلیل : ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسینگوں والے غیر خصی جانور کی قربانی کیا کرتے تھے اور اس کی آنکھیں ، منہ اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے تھے ۔ -ابو داؤد ، ۲۷۹۳، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے -
۱۹۔حاملہ جانورکا ذبح اور ا سکے بچے کا کھانا:
سیدنا ابو سعید الخدر ی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ا! ہم اونٹنی ، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس کو پھینک دیں یا کھا لیں ؟ آپ نے فرمایا : اگر پسند کرو تو اس کو کھا لو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے ۔ -ابو داؤد ۔ ۲۸۴۲، اس حدیث کو شیخ الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے -
وضاحت: اس حدیث میں ماں کے ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کو ذبح کئے بغیرکھانے کے جواز کا بیان ہے ۔ ۲۔ مذکورہ بالا حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی کریم نے فرمایا: -کلوہ ان شئتم- اگر تم چا ہو تو اس کو کھا لو ۔
۳۔ اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے ، یہی اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے ۔
-المغنی ، ۱۳/۳۱۰-
۲۰۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم
قرآن و سنت سے قربانی کا گوشت کھانا، کھلانا ، غریبوں کو دینا اور ذخیرہ کرنا سب ثابت ہے ۔
علماء کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق گوشت کی تقسیم میں کوئی پابندی نہیں چاہے تو تین حصوں میں تقسیم کرے یا دو حصوں میں تقسیم کرے اور اگر پورا گوشت ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تو پورا گوشت بھی ذخیرہ کرسکتا ہے -اگرچہ یہ اچھا عمل نہیں ہے -۔
اس کی دلیل نبی کا یہ قول ہے : -نہیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلاث ، فأمسکو ما بدا لکم - -صحیح مسلم رقم الحدیث ۔ ۱۹۷۷-
میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانیوں کے گوشت جمع کرنے سے روکا تھا ، پس اب تم جتنا چا ہو -اس میں سے اپنے -کھانے کیلئے روک -یعنی ذخیرہ کر- لو۔
میت کی طرف سے قربانی کرنا
اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں ۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ۔ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں یہ ہے کہ نبی نے دو مینڈھے قربانی کیلئے ذبح کیے ایک اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے ۔ -دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۴۹-
تو اس حدیث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ فوت ہو چکے ہیں لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی کے خصائص میں سے ہے لہذا آپ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔ -دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۵۴-
دوسری دلیل :سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ ہے کہ وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ایک نبی کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ہمیشہ آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ -اس روایت کو امام ابوداؤد ، رقم الحدیث ۲۷۸۷، امام ترمذی ، رقم الحدیث :۱۴۹۵-نے روایت کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ذکر کیا ہے ۔ واللہ أعلم
اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی نہیں ہوتی ہاں اگر میت نے وصیت کی ہو یا زندوں کی قربانی میں میت کی طرف سے بھی نیت کر لی جائے تو صحیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے زیادہ خیر کے کاموں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لینے والوں میں سے تھے ان سے یہ چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنی میتوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہوں اسی رائے کو الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے ۔ -دیکھئے : فتاوی الدین الخالص، شیخ امین اللہ البشاوری ۶/۴۲۷-
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟