Wednesday, December 2, 2009

تفسیر سورۃ النور

از الشیخ فیض الابرار صدیقی
قسط نمبر : ۱
قرآن مجید کی تعلیمات جو کہ زمان ومکان کی قیود سے ماوراء اور تمام شعبہ حیات کے جملہ مسائل کی رہنمائی پر محیط ہیں ۔
قرآن مجید کی فضیلت سے وہی شخض آگاہ ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس میں غور کرتا ہے اور جس کا جتنا علم وسیع ہوتا ہے اسے قرآن کے اسالیب بیان سے اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے ۔ قرآن مجید اپنے اسلوب بیان کے حوالے عدیم المثال ہے کہ اس میں جمال صوتی کا حسن موجود ہے تو دوسری جانب تشبیہات بھر پور منظر کش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ان کا مقصد معنوی امور کی وضاحت مرئی ومحسوس چیزوں کے ساتھ کرنا ہوتا ہے تو تیسری جانب قرآنی استعارات اتنے فصیح وبلیغ ہیں کہ اس کی تعبیر بیانی کی عالی منزلت کی نظیر ناممکن ہے تو چوتھی جانب ایجاز کا پہلو جابجا نظر آتا ہے جس کے پس منظر میں جامعیت اور اختصار پنہاں ہیں تو پانچویں جانب امثال باعث نصیحت اور موعظت اور مضمون کو صراحت کے ساتھ سمجھانے کیلئے اور مقصود کو عقل سے قریب کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیں جن کا خاکہ اس محسوس صورت میں کھینچا گیا ہے کہ اطمئنان قلب کے ساتھ رسوخ فی قلب کا ذریعہ بھی بن جائیں ۔
قرآن مجید کے اسالیب بیان پر گفتگو ایک طویل موضوع ہے ۔آمدم برسر مطلب
قرآن مجید ایک مسلمان کی زندگی کے تمام مسائل میں ہادی کا مقام رکھتا ہے ۔ قرآن مجید میں جملہ موضوعاتِ حیات کا تذکرہ انتہائی مؤثر پیرائے میں موجود ہے ان مقامات کی تشریح وتوضیح کیلئے علماء کے ایک گروہ نے فقہی احکام کو مد نظر رکھا تو دوسرے گروہ نے اس کی فصاحت وبلاغت کو سامنے رکھا تو تیسرے گروہ نے سیرت طیبہ کی مدد سے اس کی تفسیر بیان کی تو کچھ علماء نے علم کلام وفلسفہ ومنطق کے اصولوں کی مدد سے اس کی توضیح کی۔
اللہ کے کلام میں تکرار موضوعات کے باوجود ناقض اور خطاء سے ثابت وسالم ہونا اور اس کے ساتھ اس کے معانی کا عمق وغیبی خبروں پر مشتمل ہونا وغیرہا۔ ان تمام اسالیب اور تفاسیر کا مقصد صرف اور صرف حضرت انسان کو اس کے ہدف حقیقی کی طرف راغب کرنا ہے اور اسے اس کا بھولا ہوا عہد اولین یاد کروانا ہے اس مقصد کیلئے مسلمان کو سب سے پہلے اپنے زندگی کے شب وروز کو اسلامی تعلیمات کے تابع لانا بہت ضروری ہے ۔ لہذا زیرِ نظر درس قرآن میں معروف طریقہ تو یہ تھا کہ باقاعدہ سورۃ الفاتحہ سے آغاز کیا جاتا لیکن احباب واساتذہ کرام کی مشاروت سے بہتراور انسب یہ محسوس ہوا کہ قرآن مجید میں سے ان موضوعات کا ایک تسلسل کے ساتھ احاطہ کیا جائے جس کی ہمیں موجودہ زندگی میں سب سے زیادہ ضرورت ہے اس حوالہ سے ایک مسلمان کو حسن دنیا وحسن آخرت کی دعا کے نتیجے میں اپنے کردار کو ان تعلیمات کے نور سے ضرور مزین کرنا چاہیے جو سورۃ النور اور سورۃ الحجرات میں بیان کیے گئے ہیں ۔ سورۃ النور سے ابتداء کرنے کی ایک توجیہہ یہ بھی ہے کہ انسانی کردار کی عصمت وعفت جس طرح آج داغدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کیلئے اللہ سے دعا گو ہوں کہ سورۃ النور وحجرات ہمارئے لئے حصن حصین ثابت ہوں ۔ اس حوالے کسی مقام پر کسی تسامع وسہوکا واقع ہونا ممکن ہے راقم ایسی کسی بھی مثبت تنقید کا خیر مقدم کرے گا۔
تمہید
﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآَنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ أَقْوَمُ ﴾ بنی إسرائیل:۹ -’’یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سب سے بڑ ی خوبی یہ بیان کی ہے کہ قرآن مجید مکمل اور کامل ہدایت ہے اور ایسی حالت اور طریقہ کی طرف اس سے ہدایت ملتی ہے اس کی تعلیم کے مرکزی نقاط اسلام اور وحدانیت الٰہی اور رسالت پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین شامل ہے ۔
نام-سبب تسمیہ- : سورۃ نور بھی اسی قرآن مجید کا ایک متبرک اور مقدس جزء ہے اس کا نام اس سورت کے پانچویں رکوع کی پہلی آیت ’’نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ‘‘ سے مأخوذ ہے ۔
اس سورت کی وجہ تسمیہ اس کے احکام وآداب اسلامی- جوکہ کسی بھی انسان کی عزت، عفت اور عصمت کے محافظ ہیں - کی شعاعیں جابجا نظر آتی ہیں اور یہ سب اللہ کے نور میں سے ہے جس نے دین اسلام کی تعلیمات سے کائنات کو منور کیا اور اسی بات کو قرآن مجید میں یوں بیان کرتا ہے ۔
﴿وَاَنزَلنَا إِلَیکُم نُوراً مُّبِیناً﴾ النساء:۱۷۴’’ کہ ہم نے تمہارے طرف ایک واضح اور روشن نور نازل کیا۔‘‘
پس منظر : اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں پر محیط رہنمائی مسلمانوں کو مہیا کر دی ہے ۔ خواہ اس شعبہ کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا أخلاقیات اور کوئی بھی شخص استاد ہو یا شاگرد قاضی ہو یا حاکم ، تاجر ہو یا مجاہد ، مرد ہو یا عورت وغیرہم غرض کہ ہر شعبہ اور ہر صنف کیلئے مکمل ہدایت اور رہنمائی موجود ہے ۔
اس ضمن میں باقی مذاہب سے قطع نظر دین اسلام نے عورتوں کے مسائل پر جس طرح توجہ دی ہے اور ان کو معاشرہ میں ان کا حقیقی مقام دلانے میں جو کاوش وسعی کی ۔کسی اورمذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس قسم کی أخلاقی تعلیمات جابجا بکھری ہوئی نظر آتی ہیں جوکہ ستاروں کی مانند ہیں اور اس حوالے سورۃ نور جو ہمارے مدنظر ہے اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس سورت میں جو آداب سکھلائے گئے ہیں وہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی بھی معاشرے کے حسن اور خوبصورتی کیلئے ابدی معیار بن سکتے ہیں ۔
اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر وحجاب سے متعلق ہیں اس لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آتیں ہیں ۔ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے نام اپنے ایک فرمان میں فرمایا تھا کہ ’’علموا نسائکم سورۃ النور‘‘ ’’یعنی اپنی عورتوں کو سورۃ نور کی تعلیم دو۔‘‘
اس کے علاوہ کبھی کبھی ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہا جس کے ذریعے ایمان والوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ابدی فلاح وکامیابی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو نمازوں میں خشوع وخضوع اور لغویات سے اجتناب کرتے ، زکوۃ کو ادا کرنے والے شرمگا ہوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے شہوانی جذبات پر مکمل قابو رکھنے والے ہیں اور ان تعلیمات کی روشنی میں جب ہم مسلمانوں کی زندگیاں دیکھتے ہیں تو ایمان کے اثرات اور تقاضے ان کی انفرادی زندگیوں میں نظر آتے ہیں اور مدینہ میں آنے کے بعد جب اجتماعی تنظیم وسیاسی ریاست وجود میں آئی تو ضرورت محسوس ہوئی ایسے أحکام و آداب کی جو معاشرہ میں اصلاح وتطہیر کی فضا قائم ودائم رکھے ۔ سورۃ نور میں اہل ایمان کو ان أحکام اور آداب اور ہدایات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ جو کسی معاشرے کی تشکیل کے دوران معاشرے کو ایمان کے تقاضوں سے منور کرنے اور ایمان کے منافی مفسد امور سے محفوظ رکھنے کیلئے ضرور ی ہیں ۔
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور افراد معاشرے کی اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح گھر اور مکان معاشرے کی خشت اوّل ہے جب تک ایک گھر کا ماحول پاکیزہ ، طاہر اورصحت مند نہ ہو گا اس وقت اس معاشرے میں صحت مندانہ ماحول بہت مشکل ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے ۔
اور اسلام کا مقصد ہی انسان کو اشرف مخلوقات کے حقیقی مقام پر فائز کرانا ہے اور اس ضمن میں اس پر عائد ذمہ داری اور فرائض کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔
لہذا ارشادات اورہدایات کے اس گل دستہ کے ساتھ اوامر ونواہی کا ایک ایسا مکمل نظام پیش فرمایا جس نے اس معاشرے کو اس کے حقیقی مقصد کی طرف گامزن کرنے میں مدد فرمائی۔
اس سورت کے بنیادی اور اہم مضامین حدِزنا، پردہ آداب استئذان واقعہ افک آیۃ استخلاف وغیرہ شامل ہیں ۔ ہم نے اس سورت کی درج ذیل مضامین میں تقسیم کیا ہے اور یہ تقسیم موضوعاتی اعتبار سے کی گئی ہے تاکہ قاری اس کے اصل مفہوم تک بآسانی پہنچ سکے ۔
موضوع نمبر ۱:عمومی ہدف جوکہ سورت کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جوکہ آیت نمبر ۱ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر ۲: زنا اور اس کے احکام جوکہ آیت نمبر ۲ اور ۳ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۳: احکام قذف جوکہ آیت نمبر ۴ اور ۵ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۴: احکام لعان جوکہ آیت نمبر ۶تا ۱۰ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۵: حادثہ افک جوکہ آیت نمبر ۱۱ تا ۲۱ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۶: حادثہ افک کے نتیجے میں نازل ہونے والے آداب واخلاقیات جوکہ آیت نمبر ۲۲ تا ۲۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۷: آداب استئذان وزیارت جوکہ آیت نمبر ۲۷ تا ۲۹ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۸: آیات حجاب ونظر جوکہ آیت نمبر ۳۰ اور ۳۱ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۹:نکاح پر ترغیب اور برائیوں سے تحذیر کابیان جوکہ آیت نمبر ۳۲ تا ۳۴ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۱۰ : نور الٰہی کی وضاحت اور اس سے محروم لوگ جو کہ آیت نمبر ۳۵ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر ۱۱: آداب مسجد جوکہ آیت نمبر ۳۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۱۲: صفات مؤمنین جوکہ آیت نمبر ۳۷ اور ۳۸ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۳: کفار کے اعمال کی مثال جوکہ آیت نمبر ۳۹ /۴۰ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۱۴: توحید ربوبیت کا بیان جوکہ آیت نمبر ۴۱ تا آیت نمبر ۴۶ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۵: منافقین کا بیان جوکہ آیت نمبر ۴۷ تا ۵۴ پر مشتمل ہہیں ۔
موضوع نمبر۱۶:آیت استخلاف جوکہ آیت نمبر ۵۵ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۱۷: رحمت الٰہی کے حصول کا طریقہ جوکہ آیت نمبر ۵۷ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۸: اوقات خلوت میں آداب استئذان جوکہ آیت نمبر ۵۸ تا ۶۰ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۱۹: اقرباء کے گھروں سے احکام طعام جوکہ آیت نمبر ۶۱ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر۲۰: صفات مؤمنین اور آداب رسالت جوکہ آیت نمبر ۶۲ اور ۶۳ پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر۲۱: سورت کا اختتام توحید الٰہی پر جوکہ آیت نمبر ۶۴ پر مشتمل ہیں ۔
اس مختصر تعارف کے بعد قاری کے ذوق و شوق کو دعوت ہے کہ آگے بڑ ھے اور نور الٰہی کے اس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو طہارت وپاکیزگی کے موتی چن لے اور اپنی ذات کو اس سے منور کر لے ۔
سورت النور مدنی ہے اور اس کی چونسٹھ آیات ہیں اور نو رکوع ہیں ۔
موضوع نمبر ۱: عمومی ہدف
﴿سُورَۃٌ أَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضْنَاہَا وَأَنْزَلْنَا فِیہَا آَیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾ النور:۱
’’یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کر دی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں -أحکام- اتارے ہیں تاکہ تم یادرکھو۔‘‘
معانی کلمات
سورۃ : لغوی مفہوم کے مطابق اونچا اور بلند مقام
اصطلاحی مفہوم کے مطابق : قرآن مجید کی آیات مبارکہ کا مجموعہ جس کی ابتداء اور انتہا ہو۔
اور اس کو سورت اس کے شرف اور بلند مقام کی وجہ سے کہا گیا ۔ قرآن کریم کی سورۃ کو سورۃ کہنے کی بہت سی توجیہات بیان کی گئی ہیں بعض کا خیال ہے کہ ان کی بلند مرتبی کی وجہ سے انہیں سورۃ کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چونکہ پہلی سورت بعد میں آنے والی سورت کیلئے سیڑ ھی کاکام دیتی ہے اس لئے اس کو سورت کہتے ہیں ۔ بعض نے کہا :کہ یہ منزل بمنزل آتی ہیں اور ان سب کے مجموعہ سے قرآن مجید کی عمارت کی تکمیل ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ ان میں قرآن مجید کے احکام محفوظ ہوتے ہیں جس طرح شہر پناہ سے شہر کی حفاظت کی جاتی ہے اسی طرح علامت کو بھی سورت کہا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں یہ لفظ دیوار، سرداری وغیرہ کے مفاہیم میں آیا ہے ۔
أَنزلنہا : اے محمد اہم نے اس کو آپ کی طرف وحی کیا ہے ۔
فرضناہا : یعنی جو احکام ہم نے اس میں نازل کیے وہ قطعی طور پر واجب قرار دئیے گئے ہیں ۔
آیات : جمع آیۃ کبھی یہ لفظ علامت اور نشانی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی قرآن مجید کے جملوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
بینات : یعنی واضح کھلی ہوئی دلالت کے ساتھ مکمل دلائل کے ساتھ ۔
تذکرون : تاکہ تم اس کو یادر کھو اور اس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرو۔
-جاری ہے-
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟