Wednesday, December 2, 2009

سیرتِ امام المؤحدین علیہ السلام

از حمزہ طارق برکی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم أما بعد
قولہ تعالیٰ : ﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج :۳۷-
وقولہ تعالیٰ :﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ لِأَبِیہِ آَزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آَلِہَۃً إِنِّی أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ﴾-الأنعام :۷۳-
وہ اللہ کا بندہ جس نے تاریخ بنی نوع انسانی میں ہجرت الی اللہ کے بانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا ، وہ جس نے ہر آزمائش ہر امتحان ، ہر ابتلاء ، ہر اختبار پر خوشی خوشی ’’لبیک’’ کہا ، جس کی زندگی جب سے ان پر حق منکشف ہوا اس وقت سے لیکر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی ہر دم قربانی ہی قربانی رہی۔ دنیا میں جس چیزبھی انسان محبت کرتا ہے کوئی ایسی ۔۔۔چیز نہ تھی جس کو انہوں نے اللہ کی راہ میں قربان نہ کیا ہو جن خطرات کو انسان محسوس کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، اسے انہوں نے ہردم جھیلا، جس نے بیت اللہ الکعبۃ المشرفۃ کی بنیاد رکھی اور عرب کی سرزمین پر ایک شہر مکہ مکرمہ آبادکیا ، اس عظیم شخصیت کانام ابو الأنبیاء ابراہم خلیل اللہ علیہ السلام ہے ۔ جن کی پوری زندگی سوائے قربانی اور آزمائش کے اور کچھ نہ رہی، جنہوں نے اپنے آباء واجداد، اپنے وطن ، تمام تر آسائشیں اللہ کی راہ میں قربان کر دیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہم پر یہ ظاہر اور واضح ہوتا ہے کہ یہ جوہماری زندگی ہے یہ حیات کی مانند ہے ۔ بڑ ی عارضی ، بڑ ی فانی اس حیات دنیوی کی پائیداری پر کوئی اعتمادنہیں ہو سکتا یہ کب تک رہے گی لیکن جتنی بھی دیر یہ حیات قائم ہے اس کی بھی ایک غرض وغایت اور مقصد ہے وہ بھی عبث اور بیکار نہیں ۔پس یہ زندگی ایک آزمائش اور امتحان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔
یہ گھڑ ی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
قارئین کرام! ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات سعیدہ کن کن مراحلوں سے گزری اب تفصیلاً بیان کر رہا ہوں ۔
ابراہیم علیہ السلام کی فکرونظر کا امتحان
ابراہیم علیہ السلام کاپہلا امتحان تو ان کی فکر ونظر اور عقل وشعور کا تھا اس امتحان میں انہوں نے عظیم الشان کامیابی حاصل کی اس کاذکر سورۃالأنعام میں ہے ۔
انہوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں ہر نوع کے شرک چھائے ہوئے تھے توحید کی کوئی روشنی موجودنہ تھی ۔شرک کی تمام تر اقسام وہاں موجود تھی۔غیر اللہ کی حاکمیت کاشرک وہاں موجود تھا۔وہاں کابادشاہ نمرود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ نعوذ باللہ
اور اسی دعوے کے ساتھ وہ تخت پر متمکن تھامذہبی شرک وہاں ستارہ پرستی رائج تھی مختلف ستاروں کو وہ لوگ پوجا کرتے تھے ۔
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جہاں پیدا ہوئے وہ گھر بھی ایک بت فروش آزرنامی آدمی کا تھا جو مشرکوں کے درمیان صاحب منصب بھی تھا شرک کے ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں ابراہیم علیہ السلام اپنی فطرت وعقل سلیم کی رہنمائی میں نظری ، فکری اور عقلی سفر کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی دل کی گہرائیوں سے یہ نعرہ بلند ہوتا ہے کہ ﴿إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ ﴾-الأنعام:۷۹-
’’اور یک سو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
یہ نعرہ ان مشرکوں کے درمیان بغاوت تھی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے بڑ ے ہی مؤثر انداز میں اپنے والد اور اپنی قوم کو سمجھایا جیسا کہ سورۃ الأنعام میں مذکور ہے ۔ ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ لِأَبِیہِ آَزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آَلِہَۃً إِنِّی أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ﴾
-الأنعام :۷۴-
’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تو بتوں کو الہ بناتا ہے میں تو تجھے کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔‘‘
سورۃ الأنبیاء میں ارشادہے ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ وَقَوْمِہِ مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُونَ﴾
-الأنبیاء :۵۲-
’’یادکرو وہ موقع جبکہ اس -ابراہیم علیہ السلام - نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہورہے ہو۔‘‘
الغرض مختلف مواقع پر ، مختلف اسالیب مختلف انداز میں باربار اپنے والد اور قوم کو توحید کی طرف بلاتے رہے ۔
﴿قَالَ اَتَعبُدُونَ مَا تَنحِتُونَ﴾-الصافات:۹۵-
’’ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی مورتیاں پوجتے ہو؟۔‘‘
پھر آخری چوٹ لگاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ﴿أُفٍّ لَکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾-الأنبیاء :۶۷-
’’ اف ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پرجن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہو کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔‘‘
یہ ابراہیم علیہ السلام کی عقل سلیم اور بیداری کی مثالیں تھی جو اس شرک کے اندھیروں میں روشنی اور ہدایت بنی۔ اس امتحان میں انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔
قوت ارادی کی آزمائش
اب دوسرا امتحان ’’عمل‘‘ کا شروع ہوا۔قوت ارادی کی آزمائش کی ابتداء ہوئی سیرت وعمل کے کردار کی پختگی کا امتحان شروع ہوا۔ سب سے پہلی کشمکش تو اپنے والد آزر سے ہوئی ، بڑ ی ہی لجاجت اور خوش اخلاقی اور بڑ ے ہی نرم انداز میں اپنی دعوت پیش کی کہ اباجان! آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ﴿یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِیًّا﴾-مریم :۴۴-
’’اے میرے ابا جان! شیطان کی بندگی نہ کیجئے بلاشبہ شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے ۔‘‘
﴿یَا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَمَسَّکَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَکُونَ لِلشَّیْطَانِ وَلِیًّا﴾-مریم:۴۵-
’’ اے میرے اباجان! مجھے اندیشہ ہے کہ رحمن کی طرف سے عذاب آے گا اور آپ شیطان کے ساتھیوں میں سے ہوجائیں ۔‘‘
ان تمام لجاجتوں اور ادب واحترام کے نتیجے میں مخالفت اور طعنہ زنی کے علاوہ اور کچھ نہ پایا آزر ابراہیم علیہ السلام کو مخالفت کے انداز میں کہتا ہے ﴿قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آَلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا ﴾-مریم:۴۶-
’’اس نے کہا اے ابراہیم علیہ السلام ! تم میرے معبودوں سے روگردانی کر رہے ہو ، اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا ، اس وقت میری نظر سے دور ہوجاؤ۔‘‘
اس بداخلاقی اور سخت کلامی کے باوجود ابراہیم علیہ السلام نرمی اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ﴿قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا ﴾-مریم:۴۷-
’’کہا آپ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو معاف کر دے یقینا میرا رب مجھ پر بڑ ا مہربان ہے ۔
یہاں ابراہیم علیہ السلام ارادے کی پختگی اور عزم اور سیرت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ، جہاں انہیں سنگسار کی دھمکی دی جاتی ہے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آیا جاتا ہے وہاں یہ اللہ کا بندہ کہتا ہے ۔ ﴿سَلاَمٌ عَلَیکَ﴾ اپنے کردار میں اور اعلیٰ سیرت کی اس آزمائش میں ابراہیم علیہ السلام پورے اترتے ہیں ۔
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند احباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی
ابراہیم علیہ السلام کی عملی دعوت اور بُت شکنی
اب آیا معاملہ عوام کا جو ستارہ پرست تھے ، یا بت فروش یا حاکمیت کہ ہر مدعی ہونے والے کو اپنا سب کچھ مانتے تھے ۔بہرحال اب آپ ابراہیم علیہ السلام کے جذبات واحساسات اور ان عقائد وعمل کا اندازہ لگائیے ۔ اور جرأت کے اس پیکر کو دیکھئے کہ کس قدر عظیم کام انہوں نے سرانجام دیا ان کے سب سے بڑ ے صنم خانے میں داخل ہوئے اور ان کے تمام تر بت توڑ دیے سب سے بڑ ے بت کو چھوڑ کرپھر جب قوم والے واپس آئے تو اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر حیران رہ گئے ، حیرانی کے اس عالم میں کہتے ہیں کس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کو طلب کیا گیاکہتے ہیں ﴿قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآَلِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیمُ﴾-الأنبیاء:۶۲-
’’ وہ کہتے ہیں اے ابراہیم ! ہمارے آلہۃ کا یہ حال تم نے کیا ہے ۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام نے بطور حجت ان سے کہا ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوہُمْ إِنْ کَانُوا یَنْطِقُونَ ﴾-الأنبیاء:۶۳-
’’ اس بڑ ے بت نے یہ کام کیا ہو گا اسی سے پوچھو اگر یہ -بت- بولتے ہیں ۔‘‘
گویا عام واقعاتی شہادتیں تو اس بڑ ے بت کے خلاف ہیں ۔ اس حجت سے انہوں نے اپنے دلوں میں یہ محسوس کر لیا کہ غلط تو ہم ہی ہیں یہ ہمارے بت بول کب سکتے ہیں ۔
نمرود سے مباحثہ
عوام کے ساتھ اس مقابلے میں کامیاب ہونے کے بعد اب حکومت واقتدار وقت سے مقابلہ کی نوبت آتی ہے ۔ یہ بادشاہ وقت جو نمرود نامی سرکش اور اپنے وقت کا فرعون تھا۔ اس کی سرکشی کا معلوم ہونے کے بعد اس کے اقتدار اور منصب کے باوجود ابراہیم علیہ السلام توحید کا پرچم لیئے دربار میں پوری دلیری اور پامردی سے کھڑ ے ہیں اور اس سرکش انسان سے مباحثہ اور مناظرے میں مصروف ہیں اس مباحثہ کے عالم میں ابراہیم علیہ السلام دلیل پیش کرتے ہیں کہ ﴿قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّیَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ ﴾-البقرۃ:۲۵۸- ’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے ۔‘‘اس بیوقوف بادشاہ نے بحث میں الجھنے کی خاطر کہا کہ ﴿قَالَ أَنَا أُحْیِی وَأُمِیتُ ﴾-البقرۃ:۲۵۸- میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔‘‘
بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ کہنے کے بعد اس نے دو آدمیوں کو بلایا اور ایک کو قتل کر دیا اور ایک کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا بطور حجت کے دیکھو میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
اس کی اس کج بحثی کا رویہ دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام نے آخری دلیل پیش کی ﴿قَالَ إِبْرَاہِیمُ فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ﴾-البقرۃ:۲۵۸-’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرارب تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا اس حجت قطعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ﴿فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ﴾’’ یہ سن کر وہ منکر حق ششدر ہوکر رہ گیا۔‘‘
اس امتحان میں بھی ابراہیم علیہ السلام کامیاب ہوگئے ۔
ابراہیم علیہ السلام آتش کی لپیٹ میں
اب ایک اور بڑ ا امتحان آیا، نمرود جب اس مباحثہ میں آ گیا اور کہنے لگا اب آخری فیصلہ کر لو۔ زندگی عزیز ہے تو اپنی یہ دعوت دینا چھوڑ دو ، اور اگر اسی پر ڈٹے رہے تو موت ہی تمہارا مقدر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام کا موقف وہی رہا جس پر وہ ڈٹے رہے بادشاہ نے اپنی شکست کی شرمساری سے بچنے کیلئے اور اپنے عمائدین اور عوام کے مطالبے پر حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤمیں جلا ڈالو اور اس طور پر اپنے معبودوں کی مدد کرو چنانچہ انہوں نے آگ کا بہت بڑ ا الاؤ دھکایا اور ابراہیم علیہ السلام کو اس میں کود پڑ نے کو کہا اور وہ کود گئے ، اس عمل کو شاعر نے اپنے انداز میں کیا خوب کہا ہے کہ
بے خطر کود پڑ ا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے تماشائے لب بام ابھی
ابراہیم علیہ السلام اپنی آزمائش میں پورے اترے اور آگ میں کود پڑ ے لیکن اللہ عزوجل نے آگ کو حکم دیا ﴿قُلْنَا یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی إِبْرَاہِیمَ ﴾-الأنبیاء : ۶۹-
’’ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم علیہ السلام کیلئے سلامتی والی بن جا۔‘‘
آگ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کیلئے گل وگلزار بن گئی اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ اپنے امتحان میں کامیاب ہوکر معجزانہ طریقے سے بچا لیا گیا۔
ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت الی اللہ
آگ کی لپیٹ سے بچنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔﴿وَقَالَ إِنِّی ذَاہِبٌ إِلَی رَبِّی سَیَہْدِینِ ﴾-الصافات:۹۹-
’’اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا۔‘‘
یعنی میں اپنے رب کی خاطر اپنا وطن اپنا گھر سب کچھ چھوڑ رہا ہوں اور رہا یہ معاملہ کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا تو یہ میں اللہ عزوجل کے حوالے کرتا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا یہ ہوا ایک اور امتحان وطن کو خیر آباد کہنا اور صرف اللہ کے بھروسے پروہاں نکل جانا۔کوئی منزل پیش نظر نہیں کوئی رائے مشورہ نہیں ۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی یہ ہجرت الی اللہ کی کامل ترین مثال ہے اس ہجرت میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ’’سارہ ‘‘ اور ان کے بھتیجے ’’لوط‘‘ علیہ السلام تھے یہ دونوں آپ پر ایمان لا چکے تھے ۔
اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کی ولادت
ہجرت کے بعد کی زندگی میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃوالسلام کو یہ احساس ہوا کہ کچھ اعوان انصاد ہوں کوئی دست وبازو ہو، تو زبان پر دعا آ گئی ﴿رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ﴾-الصافات:۱۰۰-
’’ اے میرے رب! مجھے صالح اولاد عطا فرما۔‘‘
اللہ عزوجل نے دعا قبول فرمائی اور ابراہیم علیہ السلام کو ستاسی -۸۷- سال کی عمر میں اسماعیل ں جیسا فرمانبرداربیٹاعطا فرمایا۔ جن کی والدہ ’’ہاجرہ‘ تھی۔ آپ کی پہلی اہلیہ’’ سارہ‘‘ جو آپ ہی کے خاندان سے تھی اور انہوں نے ہجرت میں آپ کا ساتھ دیا وہ بانجھ تھی طویل عمر تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی ۔ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے بعد فرشتوں کے ذریعے اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی تو انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔
﴿قَالَتْ یَا وَیْلَتَی أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَہَذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ ہَذَا لَشَیْء ٌ عَجِیبٌ ﴾-ہود:۷۲-
’’وہ کہنے لگی: ہائے میرے بدبختی میں بوڑ ھی عورت اور بانجھ کیا اس عمر میں میرے یہاں اولاد ہو گی؟ جبکہ میرے شوہر بھی بوڑ ھے ہو چکے ہیں یہ تو بڑ ی انوکھی بات ہے ۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا جواب ملا ﴿فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیمٍ﴾-الصافات:۱۰۱-
’’پس ہم نے اسے ایک بردبار بیٹا عطا فرمایا۔‘‘
جسے چاہتادیتا ہے جو چاہتا ہے دیتا ہے یہاں اسماعیل کی بشارت ملتی ہے اور بعد میں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خبر ملی تو اللہ کا یہ بندہ اس فضل وکرم کا شکر کن الفاظ میں عطا فرماتا ہے ۔
﴿اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ﴾-إبراہیم :۳۹-
’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑ ھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام جیسے وارث عطا فرمائے ۔‘‘
ذبح عظیم
اب ابراہیم علیہ السلام کی ایک عظیم قربانی جو آنے والی تمام نسلوں کیلئے ایک نشانی وعلامت ہے کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں کہ ابراہیم علیہ السلام کو -۸۷- سال کی عمر میں بیٹے کی نعمت عطا ہوئی اب ایک اور امتحان شروع ہوا اب ادھر بوڑ ھا باپ اپنے بیٹے کو بڑ ا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے ۔ ادھر محبت ، وجذبات اور امیدوں اور تمناؤں کا امتحان تھا۔ جب اسماعیل علیہ اسلام بوڑ ھے باپ کے تیسرا ہاتھ اور لاٹھی کے مترادف ہو گیا اور محنت ، مشقت میں ہاتھ بٹانے والا بن گیا اب ان کی عمر تیرا سال ہوگئی تو ابراہیم علیہ السلام ان سے کہتے ہیں ﴿یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی ﴾-الصافات:۱۰۲-
’’ اے میرے بچے ! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔‘‘
روایت میں آتا ہے ’’یہ خواب مسلسل تین دن تک آتا رہا۔‘‘ اب غور کریں اور بتائیں کہ تمہاری کیا رائے ہے ۔‘‘؟
قارئین کرام! یاد رکھیے کے نبی کا خواب وحی ہوتا ہے ۔
اب بیٹے کی اطاعت گزاری کا اظہار ہورہا ہے ﴿قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ ﴾-الصافات:۱۰۲-
’’ اس بیٹے نے کہا ابا جان! کر گزرئیے جو حکم آپ کو مل رہا ہے آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔‘‘
﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ ﴾-الصافات-
’’پھر جب دونوں -باپ بیٹا- نے اسلام -فرمانبرداری-کا مظاہرہ کیا اور اس کو -اسماعیل علیہ السلام- پیشانی کے بل لیٹادیا۔‘‘
جب دونوں نے اللہ کے حکم کو بسروچشم قبول کر لیا اور ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل گرا دیا تاکہ چہرہ سامنے نہ آئے اور جذبات فطری عین وقت ذبح جوش نہ ماریں ، بوڑ ھے ہاتھوں میں کہیں لرزش نہ آجائے ۔ اب جب ۱۳ سال کے بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے کی تیاری کر رہا تھا۔
﴿وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیمُ﴾-الصافات-
’’اور ہم نے اس کو پکارا اے ابراہیم علیہ السلام بس کر۔‘‘
﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات-
’’بلاشبہ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔‘‘اس سے زائد ہمیں درکار نہیں ۔
قارئین کرام! ابراہیم علیہ السلام کی وسیع ہمت اور ایمان دیکھئے کہ ممتحن روک رہا ہے لیکن امتحان دینے والا ابھی بھی تیار ہے ۔ امتحان پورا ہو گیا ، اپنی محبوب ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے چنانچہ فرمایا:﴿وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآَخِرِینَ ٭ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیمَ ٭کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات:۱۰۸تا۱۱۰-
’’اور ہم نے بعد کی نسلوں کیلئے اس-قربانی- کو-بطور یادگار- چھوڑ دیا سلامتی ہو ابراہیم پر ، اور اسی طرح ہم محسنوں کی قدر دانی کرتے ہیں ۔‘‘
قارئین کرام! ابراہیم علیہ السلام کی یہ سنت قیامت تک آنے والی تمام دنیا کے لوگوں کیلئے یادگار ہو گی۔
ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم قربانیاں اور آزمائشیں ایسی ہی نہیں تھی اس کا انعام قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کو بتادیا کہ ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبرَاہِیمَ خَلِیلاً﴾-النساء:۱۲۵-
’’کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست اختیار کیا۔‘‘
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی تمام زندگی ابتلاء ، آزمائش اور امتحان پر ہی مبنی رہی ان کی زندگی کو شاعر اپنے اندازمیں یوں کہتے ہیں ۔
چوں می گو تم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ دا
عید الاضحی اور قربانی
ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا اور ایک باطن ’’نماز‘‘ کا ایک ظاہر ہے یعنی قیام ، رکوع، سجودوغیرہ ۔یہ ایک خول ہے اس کا ایک باطن ہے یعنی توجہ اور رجوع الی اللہ ’’خشوع وخضوع‘‘
اسی طرح جانور ذبح کرنا ، اور قربانی دینا یہ ایک ظاہری عمل ہے لیکن اس کا باطن ’’تقوی‘‘ ہے ۔
﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج :۳۷-
’’اللہ تک تمہاری قربانی کا گوشت اور ان کا خون نہیں پہنچتا ہاں اس تک رسائی ہے تمہارے تقوی کی۔‘‘
اگر تقوی اور روحِ تقوی موجود نہیں اگر یہ عزم وارادہ موجود نہیں کہ ہم اللہ کیلئے جانی ومالی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی بدلہ یا جزاء نہیں ۔
قارئین کرام!ہمارئے لیئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سوچیں غور کریں کہ واقعتاً ہم اللہ کی راہ میں اپنے جذبات واحساسات کی قربانی دے رہے ہیں ؟ کیا واقعی ہم اپنی محبوب ترین ’’اشیائ‘‘ اللہ کی راہ میں قربان کر کے کیا ہم اپنے تمام رشتے اور اپنی محبتیں اللہ کے دین کیلئے قربان کرسکتے ہیں ؟
اگر ہم یہ تمام چیزیں کرسکتے ہیں تو عید الاضحی کے موقع پر ہماری یہ قربانی ’’نور علی نور‘‘ ہے ۔ اور اگر نہیں تو یہ قربانی صرف ایک رسم اور اپنا نام مسلمانوں میں شمار کرنے کیلئے ادا کی جا رہی ہے ۔
رگوں میں وہ لہو باقی ہے وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز وہ روزہ وقربانی وحج یہ سب باقی ہے توباقی نہیں ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تقوی ، پرہیزگاری اور ہر مصائب وابتلاء میں ثابت قدم رکھے ۔ آمین
تقبل اللہ منا ومنکم صالح الأعمال ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟