Wednesday, December 2, 2009

خلیل اللہ علیہ السلام

از مولانا عزیز زبیدی
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلما ں ہونا
دین حق کے جتنے احکام ، مظاہر ، اصول اور قوانین ہیں ، وہ جہاں اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتے ہیں وہاں ان کی ایک اجتماعی حیثیت بھی ہے ۔ انفرادی حیثیت تو ان کی بالکل ظاہر ہے کہ وہ سب بجائے خود سچائی ہیں ۔ اس لئے تنہا بھی وہ حسین اور سرتاپا خیر ہیں اس لئے وہ مفید بھی ہیں اور واجب العمل بھی۔ سچ بولنا ، غریبوں کو کھانا کھلانا، نماز پڑ ھنا، ملک وملت کی خدمت کرنا ، سب اپنی اپنی جگہ نیکیاں ہیں اور ساری دنیا ان کو اچھا کہتی ہے اور ان کی اجتماعی حیثیت کے یہ معنی ہیں حق تعالیٰ جس بندئہ حنیف -موحد بندہ- اور انسان مطلوب -حاملِ قرآن خلیفۃ اللہ- کو پیدا کرنا چاہتا ہے ان کیلئے یہ منفرد نیکیاں تنہا کافی نہیں ہیں بلکہ اس عظیم الشان مقصد کیلئے انسان کی مجموعی زندگی میں وہ اپنی جگہ پرساری نیکیاں یکساں فِٹ اور متحرک رہیں اور ان احکام اور دستور العمل کی یکسانیت کی وجہ سے زندگی کے کسی گوشے میں کوئی تضاد ، خلا اور کوئی کمزوری باقی نہ رہنے پائے اور ان کی مثال بالکل مشینری کے ان پُرزوں جیسی ہے جو اپنی اپنی جگہ تو سب اہم اور قیمتی ہیں لیکن مشینری کارتھ کھینچنے اور اس کو کارآمد بنانے کیلئے تنہا بالکل غیر فانی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ منفرد نیکیاں اور سچائیاں -عبادات، اخلاق اور معاملات - زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں ، کیونکہ ان سچائیوں کی انفرادی حیثیت ہماری پوری زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ ہماری مجموعی زندگی کے ماحول میں یہ منفرد -اکادکا- اعمال صالح ، نیکیاں اور سچائیاں بالکل اجنبی اور اوپری اوپری سی لگتی ہیں اس کے علاوہ سچ کے ساتھ جھوٹ اور نیکی کے ساتھ بدی کا سلسلہ ’’کسر وانکسار‘‘ کا ایک ایسا طویل سلسلہ ہے جس کی کش مکش میں یہ ساری غیر مربوط اور منفرد سچائیاں عموماً ضائع ہوجاتی ہیں ۔ تعمیر کیلئے ضروری ہے کہ انسان تخریبی حرکات سے مجتنب رہے ورنہ جتنی دیوار کھڑ ی کی جائے گی۔ دوسرے وقت میں اتنی اس کی تخریبی حرکات کے نتیجہ میں وہ اُکھڑ بھی جائے گی اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ حج اور قربانی۔ انسان کے اسی فریب نفس کی اصلاح کیلئے آیا ہے کہ وہ اسلام میں پورا پورا دخل ہونے کی بجائے اس کی کچھ سچائیوں کی تعمیل پر قناعت کر لیتا ہے اور پھر اسی فریب میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ بس فرض ادا ہو گیا کہ یہ بھی کوئی فرض کفایہ ہے کہ اب باقی اعمالِ حیات کی ذمہ داری اس کے سر سے ساقط ہوگئی یا اس سلسلہ میں اس کی دوسری کوتاہیاں بے اثر ہوجائیں گی۔
آئیے !اس فرصت میں ہم سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں اندازہ ہوجائے کہ وہ تعلق باللہ کے سلسلہ میں کس قدر یکسوتھے ۔ اور ان کی پوری زندگی اور منفرد اعمال میں کس قدر ہم آہنگی اور یکسانیت تھی۔ یا حج اور قربانی آپ کی مجموعی زندگی کا ایک پہلو تھا یا اس سے جدا اور اجنبی کوئی اور شئ تھی۔یہ فریضہ ایک بول اور کلمہ ہے یا کردار اور عمل کانام ہے ۔ میرے نزدیک اس زندگی کے سفر میں آپ کا ہر قدم اللہ کی رضا اور عشق کی سرشاری میں اٹھا اور اسی رواروی میں یہ -حج اور قربانی - بھی حسبِ معمول ایک قدم اٹھا اور اسی عالم میں جو قدم اٹھا وہ رکنِ حج اور دینِ حنیف بن گیا۔ قرآن نے آپ کی زندگی کی جو تصویر پیش کی ہے وہ اسی کی صفاتِ حسنہ کے آئینے میں یہ ہے ۔ اس کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا منفی۔ اور ان دونوں کے امتزاج سے جو مبارک ہستی ظہور میں آئی ، وہ حنیف اور خلیل کہلائی۔ اس وقت ہمیں آپ علیہ السلام کا صرف مثبت پہلو پیش کرنا ہے ۔
موقن
﴿وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ﴾-الأنعام:۷۵-
’’ یعنی آپ صاحب یقین تھے ، اس میں آپ کو پوری طمانیت حاصل تھی۔‘‘
مہاجر إلی اللہ
﴿فَآَمَنَ لَہُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّی مُہَاجِرٌ إِلَی رَبِّی إِنَّہُ ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ وَآَتَیْنَاہُ أَجْرَہُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِی الْآَخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ﴾ -العنکبوت:۲۶۔۲۷-
پوری زندگی کے اس سفر میں آپ کا سارا سفر حق تعالیٰ کیلئے رہا ہے اور کبھی کوئی قدم آپ کا اس کی مخالف سمت میں نہیں اٹھا اور جس چیز سے آپ نے گریز کیا ہے وہ صرف ہجرت الی اللہ کی نوعیت اور جذبہ کے تحت کیا اسی کو دوسری جگہ ’’ذَاہِبٌاِلَی رَبِّی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔‘‘
قاَنِتٌ
﴿وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ ﴾-البقرۃ:۲۳۸-
’’ انتہائی تذلل کے ساتھ عبودیت اور فرمانبرداری بجالانے والا ۔‘‘
حلیم
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ ﴾-التوبۃ:۱۱۴-
’’ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ حق کی راہ میں تلخیوں اور شدائد کا سامنا کرنے والا ۔‘‘
مُنیب
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَحَلِیمٌ أَوَّاہٌ مُنِیبٌ ﴾-ہود:۷۵-
’’ ہر حال میں اپنے مولی کی طرف رجوع ہوکر رہنے والا ۔‘‘
صاحبِ رُشد
﴿وَلَقَدْ آَتَیْنَا إِبْرَاہِیمَ رُشْدَہُ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہِ عَالِمِینَ﴾-الأنبیاء:۵۱-
’’ راستی اور راہِ راست پر مضبوطی سے قائم رہنے والا۔ صاحبِ فہم وفراست۔‘‘
مسلم
’’ سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘‘ کا سچا نمونہ ۔‘‘
حنیف
﴿إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلَّہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ﴾-النحل:۱۲۰-
’’ وہ موحد اور پاکباز ہستی جو ہر طرف سے ہٹ کر صرف اللہ کی ہورہی ۔ اس کے بارے میں اس کی توجہ بالکل غیر منقسم رہی اور پوری توجہ کے ساتھ اس کی طرف یکسوئی رہی۔‘‘
قلبٍِ سلیم
﴿إِذْ جَاءَ رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ﴾-الصافات:۸۴-
’’ وہ بندئہ حنیف جو غیراللہ کے اس جذب وکشش کے داغ دھبوں سے پاک رہا ہو جو تعلق باللہ پر اثر انداز ہو سکیں یا ان کی موجودگی اس کی غیرت یکتائی کے منافی ہو اس کومخلص بھی کہا گیا ہے ۔‘‘
معمارِ حرم
﴿وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ﴾-البقرۃ:۱۲۷-
’’اس بیت اللہ اور حرم کے معمارِ جو وحدتِ ملی کا سرچشمہ ، توحید الٰہی کا مظہر اور سنگِ میل اور شعائر اللہ کا مرکز ہے ۔‘‘
محسن
﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ﴾-الصافات:۱۰۵-
’’ احسان، قلبی مشاہدہ جذبِ دروں اور پوری طمانیت کے ساتھ حق تعالیٰ کی عبادت بجالانے کانام ہے ۔‘‘
مؤذن
کعبہ کی تعمیر کے بعد سب سے پہلی اذان دینے والے جو حاضر اور آنے والی تمام سعادت مند نسلوں کے دلوں میں اُتر گئی اور ہمیشہ کیلئے ایک عالمگیر تحریک اور اجتماع کی داغ بیل ڈالی گئی۔
صدیق
ایسا سچا اور سچ بولنے والا جو اپنی بات کو اپنے کردار سے سچ کر دکھائے ۔ اس میں سچائی قبول کرنے کی کامل استعداد ہو اور جب حق تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم پہنچے تو اس کو بلا توقف مان لے ۔
اَوَّاہُ
وہ ہستی جس کے سینہ میں ایسا درد منددل ہو جو اس کو سدا آہ وفغاں سے ہمکنار رکھے اور اپنے محبوب کے احکام کی تعمیل صرف آئینی اور قانونی احساس کا نتیجہ نہ ہو بلکہ جذبِ دروں اور دل کی ہوک اور سچی پیاس پر مبنی ہو۔
امت
وہ شخص جس کی حیاتِ طیبہ میں پوری استعداد ، صالح اعمال اور صدق مقال کے تمام محاسن یکجا جمع ہوں جیسے چھوٹے سے بیج میں ایک تناور درخت۔
توصیہ
انسان اپنی اولاد کی تربیت سے بھی پہچانا جاتا ہے کیونکہ وہاں وہ بالکل اصلی روپ میں ہوتا ہے ۔ تکلف اور تصنع نہیں ہوتا چنانچہ آپ نے اپنی اولاد کو جو توصیہ حق فرمایا تھا وہ اس امر پر شاہد ہے کہ آپ کی جلوت اور خلوت میں بالکل یکسانیت تھی۔
ان صفات والے بزرگ کو ’’حنیف‘‘ کہتے ہیں اور جو شخصیت پہلے انہی صفات کی حامل تھی یہ حج اور قربانی اسی کا اسوئہ حسنہ ہے اور محض انہی صفات اور محاسن کی تجدید کیلئے ہے تاکہ ہر زمانہ میں ’’حنفاء للہ ‘‘ -اللہ کے حنیف بندے - پیدا ہوں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟