Wednesday, December 2, 2009

میری قربانی

از محمد طیب معاذ
قال اللہ تعالی: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ﴾-الذریات:۵۶-
’’میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔‘‘
اللہ رب العالمین نے انسان کی تخلیق کا مقصد وحید اپنی عبادت قراردیا ہے تعلیمات قرآنیہ اور ہدایات محمدیہ سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ کوئی عبادت اس وقت تک قبولیت کے درجے تک نہیں پہنچتی جب تک اس میں تین بنیادی شرائط نہ پائی جائیں ۔
۱۔ ایمان صادق
۲۔ خلوص نیت
۳۔ موافقت سنت صحیحہ
درج ذیل سطور میں ہم صرف اخلاص اور قربانی کے بارے میں کچھ گزارشات سپرد قلم کرتے ہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ’’اخلاص ‘‘کی نعمت سے نوازے ۔ آمین
اخلاص کیا ہے ؟
اخلاص کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت -مالی، بدنی۔، قولی ، فعلی- صرف اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ادا کی جائے اخلاص کی نعمت سے ہی عمل کا اجر ملتا ہے اخلاص کا فقدان اور عدم موجودگی عمل صالح کو بے کار اور ختم کر دیتی ہے جیسا کہ ارشاد حقانی ہے ۔﴿وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ٭ عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ ٭ تَصلَی نَاراً حَامِیَۃً﴾-الغاشیۃ:۲۔۳-
’’اس دن -مراد روز قیامت- کئی چہرے ذلیل ہوں گے ، سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ہونگے دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔‘‘
رسول معظم کا ارشاد گرامی ہے ’’إِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘-صحیح بخاری--اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیتوں پر ہے -
قربانی اور اخلاص
چونکہ قربانی بھی ایک عظیم مالی عبادت ہے اس لئے اس کی قبولیت کا دارومدار بھی نیک نیت پر ہے قربانی میں ریاکاری ، نمودونمائش اور دنیاوی اغراض ومقاصد سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے ۔
قرآن کریم اور حدیث حبیب میں ان لوگوں کی قربانی کو عند اللہ غیر مقبول قرار دیا گیا ہے جوقربانی جیسی عظیم عبادت صرف دنیاوی جاہ وجلال اور ریاکاری کیلئے کرتے ہیں ۔
ارشاد رب العالمین ہے ﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لَا یُبْخَسُونَ ٭أُولَئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْآَخِرَۃِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴾-ہود:۱۵۔۱۶-
’’جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ اسی -دنیا- میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی یہی لوگ ہیں جن کیلئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہو گیا جو کچھ انہوں نے اس -دنیا- میں کیا اور جو عمل وہ کرتے رہے ضائع ہوگئے ۔‘‘
اس آیت عظیمہ میں اللہ رب العزت نے دنیاوی جاہ وجلال کیلئے نیک اعمال کرنے والے لوگوں کے اعمال باطل قراردئیے ہیں ۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ریاکاروں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جائے گا اس لئے کہ ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت خصوصی طور پر ریاکاروں کیلئے نازل ہوئی ہے ۔ مفسر شہیر امام قتادۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا ارادہ ونیت طلبِ دنیا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا اسے دنیا میں ہی بدلہ عطا فرمادیتا ہے اور آخرت میں ایسے شخص کے پاس کوئی نیکی نہیں بچے گی جس کا اسے بدلہ دیا جائے جبکہ مومن -خالص- کو اس کی نیکیوں کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور وہ آخرت میں بھی ضرور اجر وثواب سے نوازا جائے گا جس طرح کہ سورۃ شوریٰ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ارشاد ایزدی ہے ﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآَخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآَخِرَۃِ مِنْ نَصِیبٍ﴾-الشوریٰ :۲۰-
’’جوشخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کیلئے اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جوشخص دنیا کی کھیتی چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔‘‘
قربانی میں اخلاص کیلئے اللہ رب العزت نے تاکیداً حکم فرمایا اور کہا ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾
-الأنعام : ۱۶۲-
’’ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، قربانی ، میرا جینا اور مرنا -سب کچھ-اللہ رب العزت کیلئے ہے ۔ ‘‘
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ان مشرکوں کو یہ بتادیں جو غیر اللہ کی عبادت کرتے اور غیر اللہ کے نام پر اپنے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں کہ آپ ان کاموں میں ان کے مخالف ہیں آپ کی نماز محض اللہ ہی کیلئے ہے اور آپ کی قربانی -دیگر عبادات- صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہے جیسا کہ فرمایا ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ﴾-الکوثر:۲-
’’اپنے پروردگار ہی کیلئے نماز پڑ ھیں اور قربانی کریں ۔ ‘‘
یادرکھیے ! اگر قربانی میں غیر اللہ کی نیت اور ارادہ شامل ہو گیا تو یہ قربانی آپ کیلئے وبال جان بن سکتی ہے ۔
یعنی اپنی نماز اور قربانی کو اسی کی ذات گرامی کیلئے خالص کریں مشرکین بتوں کی عبادت کرتے اور انہی کیلئے جانور ذبح کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان مشرکوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے طریقے سے انحراف کریں اور اللہ ہی کیلئے اخلاص کی نیت اور قصد وارادہ کر لیں ۔ امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی‘‘ میں نسک سے مراد حج وعمرہ میں جانوروں کا ذبح کرنا ہے ۔-ملخصاً از المصباح المنیر فی تہذیب ابن کثیر-
قرآن اور اخلاص
uسورۃ زمر میں اللہ رب العزت نے رسول معظم اکو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ﴿قُلِ اللَّہَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہُ دِینِی ﴾-زمر :۱۴-
’’کہہ دیجئے میں اللہ کیلئے اپنی بندگی کو خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتا ہوں ۔‘‘
v﴿وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنْفِقُونَ ﴾
-التوبۃ:۹۲-
’’اور نہ ان لوگوں پر -کوئی گناہ ہے - جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں -سفر جہاد کیلئے -سواری دیں -اور- آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں تو وہ اس حال میں لوٹ گئے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں جسے وہ -اللہ کی راہ میں - خرچ کریں ۔ نیت صالحہ کی وجہ سے ہی اللہ نے ان کے نام مجاہدین کی فہرست میں رقم فرما دئیے ۔
w﴿لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾-الحج:۳۷-
’’ اللہ تک ان -قربانی کے جانوروں - کا گوشت ہرگز نہیں پہنچتا اورنہ ہی ان کا خون لیکن اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی قربانی سے مقصود اخلاص وتقوی ہے ۔
الشیخ ابن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلوص سے خالی عبادت بے روح جسم کی مانند ہے ۔
اور اللہ رب العزت نے حج اور اس کے متعلقات قربانی وغیرہ میں خلوص نیت کی طرف خصوصی توجہ مبذول کروائی ہے ۔
x﴿أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ ﴾
-الأحقاف:۱۵-
’’اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے ۔‘‘
یعنی صالحین اپنے نیک اعمال میں نیت صالحہ اور رضائے الٰہی کو مد نظر رکھتے ہیں ۔
y﴿وَأَنَّ إِلَی رَبِّکَ الْمُنْتَہَی ﴾ -النجم:۴۲-
’’اور بیشک -کا- آپ کے رب کے پاس ٹھکانا ہے ۔‘‘
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب ہرچیز کا ٹھکانا اس کی طرف ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادات میں اس کے علاوہ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ۔
z﴿الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ ﴾
-الملک:۲-
’’وہ -اللہ- جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ بڑ ا زبردست ہے خوب بخشنے والا۔‘‘
اللہ رب العزت نے کثرت عمل کو نہیں بلکہ احسن عمل کو ذکر فرمایا ہے کیونکہ کثیر عمل اخلاص سے خالی ہوتو بے فائدہ ہے جبکہ قلیل عمل پر اخلاص کے ساتھ مداومت ایک محبوب اور پسندیدہ فعل ہے ۔
{﴿وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا ﴾ -التوبۃ:۱۰۷-
’’اور وہ لوگ جنہو ں نے ایک مسجد بنائی تاکہ -مسلمانوں کو- ضر ر پہنچائیں اور کفر پھیلائیں ۔‘‘
مسجد بنانا ایک نیک عمل ہے مگر خرابی نیت اور فساد کی وجہ سے یہ نیک عمل بھی ان منافقوں کیلئے وبال جان اور آخرت میں باعث عذاب ہو گا۔
﴿کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ﴾
-یوسف:۲۴-
’’اسی طرح -ہوا- تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ -یوسف علیہ السلام- ہمارے خالص کئے ہوئے بندوں میں سے تھا۔‘‘
یعنی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو برائی اور بے حیائی سے ان کے خلوص کی وجہ سے محفوظ ومامون قرار دیا گیا ہے ۔
}﴿لَا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاء ً وَلَا شُکُورًا ﴾
-الدہر:۹-
’’ہم تم سے جزا اور شکر گزاری نہیں چاہتے ۔‘‘
امام مجاہد اور سیدناسعید بن جبیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم انہوں نے ریاکاری کے ڈر سے یہ بات بھی اپنی زبانوں سے نہیں کہی بلکہ حق تعالیٰ شأنہ نے یہ بات ان کے دلوں سے معلوم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اخلاص کیساتھ اچھے اعمال کرنے میں رغبت ہو۔ -ملخصاً از لیدّبروا آیاتہ-
اخلاص اور فرامین نبویہ ا
رسول ا کرم کی صحیح حدیث ہے آپ نے ارشاد فرمایا :
’’مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ‘‘
-مسند أحمد /سندہ حسن-
’’جس نے نماز پڑ ھی ریاکاری کیلئے روزہ اور صدقہ ریاکاری اور دکھلاوے کیلئے کیا اس نے شرک کیا۔‘‘
اور حدیث قدسی میں اللہ احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا :’’أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنْ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیہِ مَعِی غَیْرِی تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ۔‘‘-صحیح مسلم، رقم الحدیث :۲۹۸۵-
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :میں اپنے تمام شریکوں سے زیادہ غنی وبے پر واہ ہوں جو شخص کوئی ایسا کام کرے جس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک گردانتا ہے تو میں اس شخص کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق میں سے کسی کی رضا اور خوشنودی کیلئے نیک عمل کرتا ہے تو اللہ اس شخص سے اور اس کے عمل بد سے بیزار ہیں ۔
دوسری حدیث میں رسول ا کرم نے ’’ غیر اللہ کیلئے جانور ذبح کرنے والے پر لعنت کی اور فرمایا :’’لَعَنَ اللّٰہُ مَن ذَبَحَ لِغَیرِ اللّٰہِ ‘‘ -صحیح مسلم-۱۹۷۸- ’’جوشخص غیر اللہ کیلئے ذبح کرتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔‘‘
اور جس پر اللہ کی لعنت واجب ہوجائے وہ دنیا جہاں کی خیرات سے محروم ہوجاتا ہے ۔ -اعاذنا اللہ منہا-
’’قَالَ أَبُو ذَرٍّإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَہُ لِلْإِیمَانِ ۔‘‘
’’سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اپنے دل کو ایمان کیلئے خالص کرنے والا شخص ہی کامیاب ہے ۔‘‘
اسی طرح قربانی چاہیے حقیر سے حقیر سی چیز کی بھی کیوں نہ اس میں شرک کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ’’ دخل رجل الجنۃ فی ذباب ودخل آخر النار فی ذباب ، قالوا : وکیف ذاک؟ قال: مر رجلان ممن کان قبلکم علی ناس معہم صنمٌ لا یمر بہم أحد إلا قرّب لصنمہم ، فقالوا لأحدہما : قرِّب شیئاً قال: ما عندی شیئ قالوا: قرب ولو ذباباً فقرب ذبابا ومضی فدخل النار، وقالوا للآخر : قرب ، قال : ما کنتُ لأُقرِّب لأحدٍ شیئاً دون اللہ عزوجل فضربوا عنقہ فدخل الجنۃ ‘‘ -روی الإمام أحمد فی ’’ الزہد‘‘ ، وأبو نعیم فی ’’ الحلیۃ‘‘ وغیرہما عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ موقوفاً علیہ بإسناد صحیح أنہ قال الزہد: ص:۳۲، ۳۳- و ’’ الحلیۃ‘‘ ۱/۲۰۳-
ایک شخص صرف ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں جاپہنچا اور ایک جہنم میں چلا گیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب کیساتھ عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دو شخص دوران سفر ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے اس قبیلہ کا بہت بڑ ا بت تھا وہاں سے کوئی آدمی چڑ ھاوا چڑ ھائے بغیر گزر نہیں سکتا تھا چنا۔نچہ ان میں سے ایک کو کہا گیا کہ یہاں ہمارے بت پر چڑ ھاوا چڑ ھاؤ -ذبح وغیرہ کرو- اس نے معذرت کی کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے بستی والوں نے کہا کہ تمہیں یہ عمل ضرور کرنا ہو گا اگرچہ ایک مکھی پکڑ کر ہی قربان کر دو اس مسافر نے مکھی کو پکڑ ا اور اس بت کے نام پر قربان کر دیا اور انہوں نے اس آدمی کو آگے جانے کی اجازت دے دی رسول اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص حقیر سی مکھی کی وجہ سے جہنم کا مستحق ٹھہرا پھر بستی والوں نے دوسرے آدمی سے بھی بت کیلئے قربانی کا مطالبہ کیا تو اس موحد نے جواب دیا کہ میں غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز قربان نہیں کرسکتا ۔ یہ جواب سنتے ہی اس بستی کے باشندوں نے مرد موحد کو شہید کر دیا اور یہ مرد موحد سیدھا جنت پہنچ گیا۔ -کتاب التوحید وہو صحیح موقوفاً -
آخری بات
محترم قارئین درج بالا سطور کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم اس حیات میں اخلاص کیساتھ نیک اعمال بجا لائیں ۔ یادرکھیں قیامت کے دن دلوں کی نیتوں کو بھی ظاہر کر دیا جائے گا اگر ہماری نیت درست ہوئی تو ہم اس دن کی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں آئیے عہد کریں کہ ہم ہر نیک کام اخلاص کیساتھ کریں ۔
اور ’’اذ جاء ربک بقلب سلیم‘‘ کی صفات اپنے اندر پیدا کریں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟