Wednesday, December 2, 2009

معمولات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

از محمد طیب معاذ
نمازِ عصر
رسول مکرم قیلولہ سے بیدار ہوکر نماز عصر کی تیاری میں مشغول ہوجاتے ۔ آپ نے نمازِ عصر سے پہلے چار رکعتیں نفل ادا کرنے والے شخص کو دعا دیتے ہوئے فرمایا :’’رَحِمَ اللّٰہُ اِمرَأً صَلَّی قَبلَ العَصرِ أَربَعاً ‘‘ -سنن الترمذی ، مسند احمد صححہ ابن خزیمۃ-
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے نماز عصر سے پہلے چار رکعت پڑ ھیں ۔‘‘
’’عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِالتَّسْلِیمِ عَلَی الْمَلَائِکَۃِ الْمُقَرَّبِینَ وَمَنْ تَبِعَہُمْ مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُؤْمِنِینَ۔‘‘ -الترمذی ابواب الصلاۃ ، باب ما جاء فی الاربع قبل العصر-
خلیفہ چہارم سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ا کرم عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعات پڑ ھا کرتے تھے ان کے درمیان ملائکہ مقربین اور انکی تابیداری کرنے والے مسلمانوں اور مومنوں پر سلام پھیرنے کیساتھ مفصل-جدائی- کرتے ۔‘‘
فائدہ :سلام کیساتھ فصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دو دو رکعت کر کے چار سنتیں ادا فرماتے ۔ ایک سلام کیساتھ چار سنتیں بھی پڑ ھی جا سکتی ہیں تاہم بعض علماء کے نزدیک پہلا طریقہ افضل ہے ۔ واللہ أعلم بالصواب -شرح ریاض الصالحین از حافظ صلاح الدین یوسف ج/۲، ص/۸۰ دار السلام-
معروف سیرت نگار الشیخ صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام میں رقمطراز ہیں ۔ نمازِ عصر سے پہلے یہ چار رکعتیں سنن رواتب -مؤکدہ سنن- نہیں ہیں بلکہ نفل ہیں ۔ اس کی فضیلت رحم اللہ امرأ کی دعائیہ کلمات دلالت کرتے ہیں کہ جو یہ چار رکعتیں پڑ ھتا ہے اس پر اللہ کی رحمتیں سایہ فگن رہتی ہیں ۔
نمازِ عصر کی فضیلت
قرآن وحدیث میں اقامت صلاۃ کی بالعموم اور اقامت صلاۃ عصر کی بالخصوص تاکید وارد ہوئی ہے ۔ ذیل کی سطور میں ہم اختصار کیساتھ نماز عصر کی فضیلت رقمطراز کر رہے ہیں ۔
۱۔ خصوصی حکم
نماز عصر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے نمازِ عصر کی حفاظت کرنے کا خصوصی حکم دیا اور فرمایا :
﴿حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ ﴾-البقرۃ:۲۳۸-
’’اور تم سب نمازوں اور خاص طور پر درمیان والی نماز-مراد نمازِ عصر- کی حفاظت کرو اور اللہ کے سامنے عاجزی کرنے والے بن کر کھڑ ے ہو۔‘‘
صلاۃ وسطیٰ سے مراد
جمہور علماء صحابہ اور دیگر اہل علم کے نزدیک صلاۃ وسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے قاضی ماروردی فرماتے ہیں کہ جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے ۔
دلیل ۱:مسند احمد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے احزاب کے دن فرمایا تھا :’’شَغَلُونَا عَنِ الصَّلاَۃِ الوُسطَی صَلاَۃِ العَصرِ ملَأَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم وَبُیُوتَہُم ناَراً ‘‘ -صحیح ابن خزیمۃ حدیث ۱۳۳۶ جلد ۲/ص/۲۸۹-
انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطی یعنی نماز عصر سے مشغول کر دیا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور گھروں کو آگ سے بھر دے ۔
اسی طرح مسند احمد میں ہی سیدنا سمرہ صسے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : ’’صلاۃ الوسطی صلاۃ العصر‘‘ نمازِ وسطیٰ نماز عصر ہے ۔
اس موقف کی تائید میں کئی اصحاب مسانید وسنن وصحاح رحمہم اللہ نے روایتیں جمع کی ہیں ۔
۲۔ سیدنا بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :بکروا بالصلاۃ فی یوم الغیم ۔‘‘ -مسند احمد صحیح موقوفاً- فإنہ من ترک صلاۃ العصر فقد حبط عملہ ۔ -صحیح ابن حبان ج/۴، ص/۳۳۲-
’’ابر آلود موسم میں عصر کی نماز جلد ادا کر لیا کرو کیونکہ جس شخص کی نمازِ عصر چھوٹ جائے اس کے اعمال رائیگاں ہوگئے ۔ ‘‘
فائدہ:عمداً کسی ایک نماز کا ترک بھی اگرچہ سخت گناہ بلکہ بقول بعض علماء کرام کفر ہے لیکن بالخصوص نماز عصر کا ترک کرنا تو بہت ہی اشد گناہ ہے ۔ -شرح ریاض الصالحین-
۳۔ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی الْبَرْدَیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔‘‘-متفق علیہ-
’’سیدنا ابو موسی صسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں ادا کرتا ہے وہ جنت میں جائے گا یعنی فجر اور عصر ۔‘‘
فائدہ : دو ٹھنڈی نمازوں سے مراد نماز فجر وعصر ہے ان دونوں نمازوں کی ادائیگی بہ نسبت بقیہ نمازوں کے تھوڑ ی مشکل ہے کیونکہ فجر کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے جبکہ نماز عصر کے وقت کاروباری مصروفیات کا ہجوم ہوتا ہے اس لئے ان نمازوں میں باقاعدگی سے حاضری طبیعت انسانی پہ انتہائی گراں گزرتی ہے ۔ -ملخصاً از ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبیٰ ج:۶، ص:۱۴۴-
۴۔ عَن أَبِی زُبَیرٍعُمَارَۃَ بْنِ رُؤَیْبَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَنْ یَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّی قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا یَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ ۔‘‘-رواہ مسلم ، کتاب المساجد-
’’ ابو زبیر عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص سورج نکلنے سے قبل اور اس کے غروب ہونے سے پہلے یعنی فجر اور عصر کی نماز پڑ ھتا ہے وہ ہر گز جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
تنبیہ:صرف ان دو نمازوں کی پابندی کرنے والا جہنم سے محفوظ نہیں رہے گا بلکہ وہ مسلمان جہنم میں جانے سے بچے گا جو پانچوں نمازیں پابندی کیساتھ ادا کرے گا ۔ حدیث میں صرف دو نمازوں کا -فجر وعصر- ذکر ان کی خصوصی اہمیت کی وجہ سے ہے گویا ان دونمازوں کی حفاظت کرنے والا یقینا بقیہ نمازوں کی ادائیگی میں بھی کوتاہی نہیں کرتا اور اسی طرح دیگر فرائض وسنن کا بھی اہتمام کرتا ہے ۔
۶۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَتَعَاقَبُونَ فِیکُمْ مَلَائِکَۃٌ بِاللَّیْلِ وَمَلَائِکَۃٌ بِالنَّہَارِ وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فِیکُمْ فَیَسْأَلُہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِی فَیَقُولُونَ تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ۔‘‘ -رواہ البخاری کتاب الموقیت ، باب فضل صلاۃ العصر :۵۵۵-
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ نے فرمایا : ’’ تمہارے پاس رات اور دن کو باری باری فرشتے آتے جاتے ہیں اور صبح اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہوجاتے ہیں ، پھر وہ فرشتے جو تمہارے پاس رات گزارتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے ، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے تم نے میرے بندوں کو کسی حال میں چھوڑ ا؟ تو وہ کہتے ہیں : ہم انہیں نماز پڑ ھتے ہوئے چھوڑ کر آئے ہیں اور جب وہ ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز میں مصروف تھے ۔‘‘
صحیح ابن خزیمہ میں یہ اضافہ بھی ہے : ’’فاغفر لہم یوم الدین ‘‘ -صحیح ابن خزیمۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب ذکر اجتماع ملائکۃ اللیل و ملائکۃ النہار فی صلاۃ العصر ۔ ۔ ۔ الخ:۳۲۲-
فرشتے کہتے ہیں :’’ الٰہی انہیں قیامت کے دن معاف فرما دینا۔‘‘یعنی نماز عصر وفجر کی پابندی کرنے والوں کیلئے فرشتے رب تعالیٰ سے مغفرت کا سؤال کرتے ہیں ۔
۷۔عَنْ أَبِی بَصْرَۃَ الْغِفَارِیِّ قَالَ:صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْمُخَمَّصِ قَالَ إِنَّ ہَذِہِ الصَّلَاۃَ عُرِضَتْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَضَیَّعُوہَا وَمَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَانَ لَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ ۔‘‘ -النسائی ، تأخیر المغرب -
’’سیدنا ابو بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں مخمص نامی جگہ پر نماز عصر پڑ ھائی نماز کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا یہ نماز -مراد عصر کی نماز- تم سے پہلے لوگوں پر فرض کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس کی حفاظت نہ کی پس جو آدمی اس نماز-مراد نماز عصر- پر پابندی کرے گا اس کو دوہرے اجر سے نوازا جائے گا۔
شارح سنن النسائی فرماتے ہیں کہ دو اجر سے مراد
۱۔ سابقہ امم کے برعکس اس کی حفاظت کا اجر
۲۔ اقامت نماز عصر بنفسہا کا اجر ہے ۔-ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتسبی ج/۷، ص/۱۳- -جاری ہے -
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟