Wednesday, December 2, 2009

حقوقِ نسواں اسلام کی روشنی میں

از محترمہ طاہرہ کوکب
خاندان ، برادری ، محلے ، شہر ، ملک اور بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی تک پھیلے ہوئے تعلقات کے یہ چھوٹے بڑ ے دائرے اس کے حقوق وفرائض کا تعین کرتے ہیں ۔ ماں ، باپ ، بیٹے ، بیٹی ، شاگرد، استاد ، مالک ، ملازم ، تاجر ، خریدار ، شہری اور حکمران کی بے شمار مختلف حیثیتوں میں اس پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور ان فرائض کے مقابلہ میں وہ کچھ متعین حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ان حقوق میں بعض کی حیثیت محض اخلاقی ہوتی ہے ، مثلاً بڑ وں کا حق ادب، چھوٹوں کا حق شفقت، ضرورت مند کا حق امداد، مہمان کا حق تواضع وغیرہ۔ اور بعض کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے مثلاً حق ملکیت ، حق اجرت، حق مہر اور حق معاوضہ وغیرہ۔ یہ ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق کسی مفاد سے ہوتا ہے اور ملک کا قانون اس مفاد کو تسلیم کر کے اسے عدلیہ کے ذریعہ قابل حصول بنا دیتا ہے ۔ قانونی حقوق -Legal Rights-یامثبت حقوق -Positive Rights- کہلاتے ہیں ۔
فرد کے حقوق کا ایک اور دائرہ ریاست سے تعلقات کا ہے اس دائرہ میں ایک وسیع الاختیار اور کثیر الوسائل ریاست کے مقابلہ میں فرد کو جو حقوق دئیے جاتے ہیں انہیں ہم بنیادی حقوق -Fundamental Rights- کہتے ہیں ۔ ان حقوق کیلئے بنیادی انسانی حقوق -Basic Human Rights- اور انسان کے پیدائشی حقوق -Birth Rights of Man- کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ اسلام نے انسان کو بالخصوص خواتین کوجو حقوق عطا فرمائے ہیں وہ دنیا کے کسی بھی قدیم یا جدید مذہب وتہذیب نے نہیں دئیے ہیں ۔ لیکن یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالہ سے اسلام ہی کو سب سے زیادہ بدنام کیا گیا ہے اور یہ پروپیگنڈا اتنی شدت وتکرار کے ساتھ کیا گیا ہے کہ غیروں کے ساتھ اپنے بھی متاثر ہو چکے ہیں ۔ بالخصوص ہمارے ملک کی کچھ اباحیت پسند خواتین بھی مغربی انداز میں سوچنے اور اسلام کو ترقی کی راہ میں دیوار سمجھنے لگی ہیں ۔ اگر یہ خواتین کے حقوق کا مطالعہ برصغیر میں رائج ہندوانہ کلچر کے بجائے اسلامی تعلیمات اور سیرت طیبہ کی روشنی میں کرتیں تو نہ تو احساس کمتری کا شکار ہوتیں اور نہ انحرافی راستوں پر گامزن ہوتیں ۔ اقبال نے کہا ہے ۔
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
خود مغرب نے خواتین کو کیا حقوق دئیے ہیں اس کی ایک جھلک ریسرچ آرٹیکل کے اس پیراگراف میں ملاحظہ فرمائے ۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء ، لاطینی امریکا اور مشرقی یورپ سے ہر سال جنسی مقاصد کے استعمال اور ارزاں لیبر کی فراہمی کی غرض سے پچاس ہزار کے لگ بھگ خواتین ، لڑ کیاں اور بچے امریکہ اسمگل کئے جاتے ہیں ۔ اسمگل شدہ انسانوں کی باقاعدہ منڈی لگتی ہے اور ان کی خرید وفروخت ہوتی ہے یہ تجارت اربوں ڈالر سالانہ کی ہے ۔-روز نامہ جنگ کراچی یکم اکتوبر ۲۰۰۰؁ئ-اب خود امریکی بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ جسم فروشی غیر رسمی معیشت کا ایک سیکٹربن چکی ہے ۔
جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بہت عمدہ بات لکھی ہے فرماتے ہیں :’’ آج جا کر دیکھیں مغربی ممالک میں دنیا کی سب سے نیچ اور ذلیل قوم عورت کی ذات ہے ، بازاروں اور ہوٹلوں میں جتنے کام ہیں عورت کرے گی جتنے گھٹیا سے گھٹیا کام ہیں وہ سب عورت کرتی ہے ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ یہ عجیب تماشا ہے کہ ایک عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے خاوند کا اور اپنے بچوں کا انتظام کرتی ہے ، ان کیلئے کھانا پکاتی رہائش کا بہتر بندوبست کرتی ہے تو وہ دقیانوسی ایئر ہوسٹس بن کر چارسومردوں کو کھانا سپلائی کرے اور ان کے سامنے ٹرے سجا کر لے جائے اور ان کی ہوسناک نگا ہوں کا نشانہ بنے تو یہ عزت اور اعزاز ہے ۔ -اصلاحی مواعظ از تقی عثمانی-
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا نام جنون
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
مغربی تہذیب سے مرعوبانہ ذہنیت کی حامل اپنی بہنوں سے عرض کروں گی خداراسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیجئے ، دشمن کی آلہ کارنہ بنئے ، اقبال نے ایسے ہی آلہ کاروں کے بارے میں کہا ہے ۔
یا رب تری حریف ہے سیاست افرنگ
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
حقوق کا مفہوم
بحث کو آگے بڑ ھانے سے پہلے ضروری ہے حقوق کا تعیین کیا جائے کہ حق کا مفہوم یہ ہے ۔ حق کی جمع حقوق ہے اس کے معنی ہیں وہ بات جو ثابت ہو اور اس سے انکار ممکن نہ ہو حق کیلئے انگلش میں Truth, Justice , Right کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں حق حقیقت اور صدق کے معنی میں بھی کچھ فرق کے ساتھ مستعمل ہے ۔ اردو میں مطابقت اور موافقت کے معنی میں مستعمل ہے عبرانی میں لکڑ ی یا پتھر میں نقش کرنے کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں حق کا لفظ دوسوستائیس مرتبہ آیا ہے اور تین معانی میں مستعمل ہوا ہے ثابت کرے ، حصہ اور سچ کے معنی میں اسی طرح حق کا لفظ اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ مزید ملاحظہ کریں ۔ گائس ایزیجیوفاربنیادی حقوق کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے ۔انسانی یا بنیادی حقوق جدید نام ہے ان حقوق کا جنہیں روایتی طور پر فطری حقوق کہا جاتا ہے اور ان کی تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ وہ اخلاقی حقوق جو ہر انسان کو ہر جگہ اور ہمہ وقت اس بنیاد پر حاصل رہتے ہیں کہ وہ دوسری تمام مخلوقات کے مقابلہ میں اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ ذی شعور ذی اخلاق ہے ۔ انصاف کو بری طرح پامال کئے بغیر کسی بھی شخص کو ان حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے حق کی تعریف کرتے ہوئے کہا : ’’الحق ما یستحقہ الرجل ‘‘
-رد المختار علی در المختارج/۴، ص/۱۸۸-
’’حق وہ ہے انسان جس کا مستحق ہو۔
شیخ شبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ فالحق فی الشریعۃ لا یکون حقاً الا اذا أقرہ الشرع وحکم بوجودہ واعترف لہ بالحمایۃ ولہذا فان مصادر الحقوق فی الشریعۃ ہو الشریعۃ نفسہا ولا یوجد حق شرعی الا ولہ۔‘‘
-المدخل ص/۱۶۵-
شریعت کی نگاہ میں حق وہی امر کہلائے گا جس کا شریعت اقرار واعتراف کرتی ہو اس لئے شرعی مأخذ کے ذریعہ ہی کسی شرعی حق کو پہچانا جا سکتا ہے ۔اصول قانون کے مطابق جب ہم حق کا لفظ اصطلاحی زبان میں استعمال کرتے ہیں تو اس کا متبادل فرض ہوتا ہے لیکن کسی فرد، سوسائٹی یا طبقہ کے مفاد کو تسلیم کرتے وقت ہم عموماً آزادی اختیار اور مراعات کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ، ایسے موقع پر ہم فقط کسی کے فرض کی طرف توجہ نہیں دلاتے بلکہ قانون نے جوحق دے رکھا ہے ہم اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ۔
حقوق کی اقسام
حقوق کی بنیادی طور سے کتنی قسمیں ہیں اس میں مختلف آراء ہیں پہلی رائے یہ ہے کہ تمام حقوق فی الحقیقت حقوق اللہ ہی ہیں ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ حقوق کی بنیادی طور سے دو قسمیں ہیں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حقوق اللہ کی بھی دو قسمیں ہیں منہیات اور مأمورات اور پہلی رائے کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں حقوق العباد درحقیقت حقوق اللہ ہی ہیں ۔ پھر حقوق العباد کی تین قسمیں بیان کی ہیں :
۱۔ بدنیہ ۲۔ مالیہ ۳۔ عرضیہ۔
فقہ اسلامی کی رو سے حقوق کی چار اقسام ہیں ۔
۱۔ حقوق اللہ
۲۔ حقوق العباد
۳۔ الجمع بین الحقین مع غلبۃ الاول
۴۔ الجمع بین الحقین مع غلبۃ الثانی
یہی چار قسمیں دکتور عبدالناصر موسی نے بیان کی ہیں ۔ جدیدفقہی مباحث کے مقالہ نگارنے ۴۹ قسمیں بیان کی ہیں ۔ لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ حقوق کی بنیادی طور سے تین قسمیں ہیں جیسا کہ ڈاکٹر وھبۃ زحیلی نے لکھا ہے ، حقوق اللہ ، حقوق العباداور حقوق مشترکہ۔
اسلام میں خواتین کا مقام اور ان کے حقوق
انسان کے بنیادی حقوق کا مسئلہ درحقیقت اس کائنات میں انسان کی حیثیت ، اس کے مقصد وجود ، معاشرے اور ریاست کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت اور خود اس کائنات کی تخلیق اور اس کے آغازوانجام کی حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کا مسئلہ ہے ۔ انسان کے حقوق کیا ہیں ؟ اس سوال کا جواب ممکن ہی نہیں ہے ۔ جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ آخر اس دنیا میں انسان کا منصب ومقام کیا ہے ؟ گویا حق کا سوال حیثیت کے سوال سے مربوط ہے ۔ انسان کی حیثیت کو جانے بغیر یا اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کئے بغیر ہم اس کے حقوق کا تعین نہیں کرسکتے ۔ انسانی زندگی سے متعلق ان بنیادی سوالات کا حل کرنے کیلئے ہمیں صرف الہامی مذاہب ہی سے رہنمائی حاصل ہو سکتی تھی ، کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا قابل اعتماد ذریعہ علم موجود نہیں تھا ، لیکن انسان نے جب وحی کے ذریعہ علم کو نظر انداز کر کے محض عقل کے بل پر ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو یہیں سے ظن وگمان کی بھول بھلیوں اور جہل کی وادیوں میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھانے کا آغاز ہوا ، یہ حقائق حواس پر مبنی تجربہ اور مشاہدہ کی گرفت سے ماوراء تھے ، بدون تاریخ جو اس کائنات میں انسانی زندگی کے آغاز سے لاکھوں سال بعد وجود میں آئی۔ ان حقائق تک رسائی کیلئے اپنے ریکارڈ میں کوئی مواد پیش کرنے سے قاصر تھی۔
تاریخی اعتبار سے دیکھاجائے تو اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان کا وجود۔ خالق کائنات نے جس طرح طبعی زندگی کے اسباب ہوا، پانی ’’خوراک ‘‘پیدائش سے پہلے عطا کر دئیے تھے ۔ اسی طرح ضابطہِ حیات سے بھی آدم علیہ السلام اور نسل آدم کو بذریعہ وحی آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے شروع ہوکر رسول معظم محمد پر ختم ہوا۔
قرآن کی روشنی میں
قرآن میں واضح حکم دیا گیا ہے :﴿فَآَتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ ذَلِکَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یُرِیدُونَ وَجْہَ اللَّہِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾-الروم :۳۸-
’’ اے مسلمانو! رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو ، مسکین اور مسافرکے حقوق ادا کرو یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور ایسے ہی لوگ دنیا وآخرت میں کامیاب ہیں ۔ یعنی جو حقوق ادا نہیں کرتے وہ دونوں جگہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے ۔‘‘
سورئہ بقرہ میں بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑ ھ لینے سے انسان اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوجاتا ہے بلکہ رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور جن جن کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی ادائیگی کے بعد ہی اس کا شمار سچے اور متقی مسلمانوں میں ہو گا۔ سورئہ النحل میں فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾-آیت نمبر :۹۰-
’’ اللہ حکم دیتا ہے عدل واحسان اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا ۔ سورئہ بنی اسرائیل میں بھی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ۔
سیرت طیبہ ا کی روشنی میں
حقوق کی ادائیگی اور اس کی تاکید سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والے پرواضح ہے صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا جس کسی پر کسی مسلمان بھائی کے مال یا آبرو کی حق تلفی کا ذمہ ہوا سے چاہئے معاف کرالے اس وقت کے آنے سے پہلے جب اس کے پاس درہم ودینار میں سے کچھ نہیں ہو گا کہ بطور تاوان ادا کرسکے بلکہ اس وقت اگر کچھ عمل صالح ہو گا تو بقدر حق کے صاحب حق کو دلوادیا جائے گا ، اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو حقوق کی ادائیگی میں صاحب حق کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے ۔
صحیح مسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم ہے ۔ آپ ا نے فرمایا مفلس وہ شخص ہے جس کی نماز، روزہ قیامت کے دن ان لوگوں کو دے دی جائے گی جن کے ساتھ اس نے زیادتی وحق تلفی کا معاملہ کیا ہو گاپھر اس شخص کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
صحیح مسلم کی روایت ہے فرمایا :’’ لتؤدن الحقو ق الی أہلہا یوم القیامۃ۔‘‘
قیامت کے دن اہل حقوق کے حقوق دلوائے جائیں گے ۔‘‘
حقوق کی ادائیگی کی اہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے سامنے ایک عورت کا ذکر آیا کہ وہ قرآن پڑ ھتی ہے نماز روزے کی پابند ہے لیکن پڑ وسی کو تکلیف پہنچاکر اس کے حقوق ضائع کرتی ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ ہی فی النار‘‘ وہ دوزخی ہے ۔‘‘دوسری عورت جو اپنے پڑ وسی کے حقوق ادا کرتی تھی اس کے بار ے میں فرمایا وہ جنتی ہے ۔-جاری ہے -
٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟