Tuesday, February 2, 2010

تم مسلمان ہو یہ اندازِمسلمانی ۔۔۔؟

از محمد طیب معاذ
وحوش وطیور کو سدھارنا ، ان کو وقت اور کام کا پابند کرنا اتنا دشوار اور مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ کسی انسان کو اس کے نظریات وعقائدسے دستبردا رکروانا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے عقائد پر پختگی سے کا ربند ہو تا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر آمادہ اور راضی نہیں ہو تا۔ لیکن اس کائنات رنگ وبو اور جہان آب وگل میں اللہ رب العزت نے کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا کی ہیں کہ جن کے نظریات سے متاثر ہو کرمتعصب ترین انسان بھی اپنے نظریات سے پہلو تہی کرتا ہوا نظرآتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے سب سے نمایاں ہستی تاجدار مدینہ ، ختم المرتبت ، نبی الفت ومحبت جناب محمد ﷺ کی ہستی بھی ہے انہوں نے اس وقت کہ جب عرب کے باسی تہذیب وثقافت سے نابلد ، اخوت ومحبت سے ناواقف ، خالص عبادت وریاضت سے کوسوں دور ، عقیدہ وحدت الٰہ سے یکسر محروم تھے ، فاران کی چوٹیوں سے دعوت توحید دی ، اس دعوت پر لبیک کہنے والے خوش بخت انسان ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنے لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا اظہار کرنے والے بدبخت لوگ قعر مذلت میں ڈوب گئے ۔
کیا کبھی ہم نے غوروفکر کیا ہے کہ پیغام محمدی ﷺپر لبیک کہنے والوں پر آج بھی تاریخ رشک کر رہی ہے اور ہم اسی پیغام کو پس پشت ڈال کر اشک بہا رہے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم نے ختم الرسل ﷺ کے عطا کیے ہوئے سنہری اصول حیات کو بروئے کار لانے کیلئے کیا کیا ہے ؟ کیا ہم نے من حیث القوم دعوت محمدی ﷺ کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ یقینا ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے بلا شبہ ہم بھی دعوت محمدی ﷺ کا مختلف حیلوں سے انکار کرتے ہیں ، کیا رسول ا کرم ﷺ نے ہمیں وحدت الٰہ کا درس نہیں دیا ، مگر ہم ہر دور میں مختلف چیزوں کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کر تے ر ہے ، سیرت نے تو ہمیں ’’اَلا اِنَّ القُوَّۃَالرَّمَی‘‘ (قوت وطاقت تیر اندازی میں ہے )کا درس دیا لیکن ہم نے خواب خرگوش سے بیدار ہونا گوارا نہ کیا ، سیر ت طیبہ نے تو ہمیں ’’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کَافَّۃ ‘ ‘(اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ)کی تلقین کی مگر ہم نے ’’یُؤمِنُون بِبَعضِ الکِتَابِ وَیَکفُرُونَ بِبَعض‘‘ (شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض احکام کا انکار کرتے ہیں )کو ہی اپنا وطیرہ بنا لیا ، سیرت تو ہمیں ’’اِعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا‘ (تم سب اکٹھے ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی وصیت کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد کو استوار کرنے کے لیے تیار ہیں ، پیغام محمدی ﷺ تو ’’اَلحَیَائُ مِنَ الاِیمَان‘ ‘(حیاء ایمان کا حصہ ہے )ہے مگرہم نے زبان حال سے ’’اِذَا لَم تَستَحیِ فاَصنَع ما شِئتَ ‘‘(جب حیاء رخصت ہو جائے تو جو جی میں آئے کرو) کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے ، پیکر اخلاص ﷺ تو ہمیں ’’لا فَضلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍ ‘‘(کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے )کی کسوٹی فراہم کرے مگر ہم ہیں کہ دوستی اور دشمنی کیلئے لسانی ، علاقائی ، جماعتی اور قومی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہیں ، محسن انسانیت تو ’’یَضَعُ عَنہُم اِصرَھُم وَالاغلَالَ الَّتِی کَانَت عَلَیھِم ‘‘(رسول رحمت ﷺ ان بندشوں کو ختم کرتے ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں اور اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر لاد دیا گیا ہے )خودساختہ رسوم ورواج سے آزاد کروانے آئے مگر ہم ہیں کہ دوبارہ سے انہی جاہلیت کے رسم ورواج کو اپنی گردنوں کا طوق بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نبی رحمت ﷺ ’’مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم ‘‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے ) کی وعید سنائیں اور ہم ہیں کہ اغیار کی نقالی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ رسول معظم ﷺنے ’’یَا فَاطِمَۃَ بِنتَ مُحَمَّدٍ : اِعمَلِی فَاِنِّی لَا اَغنِی عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا‘‘(اے محمد ﷺ کی بیٹی : اعمال میں سبقت لے جاؤ میں قیامت کے دن تمہیں بچا نہیں سکتا ) کہہ کر طبقاتی کشمکش کا استحصال کیا مگر اسی پیغمبر کے ماننے والے اپنے عزیزواقارب کو بڑ ے بڑ ے مناصب سے نوازتے ہیں ۔ احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کیں اور فرمایا:’’ کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہ وَعِرضُہ‘‘ (ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت وآبروحرام ہے )لیکن ہم ہیں کہ خون مسلم کے پیاسے ، مال غیر کو ہڑ پ کرنے کے رسیا اور عزت وآبرو کو سربازار تار تار کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
سیرت طیبہ نے ہمیں اعتماد علی النفس اور خود داری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کا درس دیا تاکہ ایک طرف ہر ہر فرد بذات خود قوت کی چٹان بن جائے تو دوسری طرف پوری امت و ملت قوت وطاقت کا ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر غیروں کے در پر کاسہ گدائی کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نکلنے والی ہو ۔
منتظم اعظم ﷺ نے تو ہمیں دنیا پر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے نظام حکمرانی عطا کیا مگر ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی بہترین نظام سمجھا اور اختیار کیا رسول عربی ﷺتو ہمیں غریب پروری ، انسانی ہمدردی ، غم خواری کا درس دیں مگر نسبت محمدی پر فخر کرنے والے متمول افراد ہی غریبوں کو نان شبینہ سے محروم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔والی اللہ المشتکی۔
نام محمد اور پیغام محمد ﷺ کے ساتھ ہماری بے وفائی کا خمیازہ ہے کہ آج اغیار رحمت کائنات محمد رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں ایسے لمحے قوموں میں بیداری کا باعث بنتے ہیں ، بقول شاعر: ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح اعمال کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے اپنے دلوں میں داعی اسلام ﷺکی سنت وسیرت کے ساتھ وہ محبت وجذبہ پیدا کریں کہ ان کے بارے میں کسی کو بکواس کی جرأت پیدا نہ ہو ، یاد رہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کی محبت ایمان کا جزو لا ینفک ہے لیکن یہ محبت اسی وقت باعث نجات ہو گی جب احکام محمدی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے گا ۔اس موقع پر ہمیں مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً:
٭اقتصادایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ، معاشی بائیکاٹ خاکوں والوں کو خا ک میں ملا سکتا ہے ، مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات کو ختم کرنا ہی محبت رسول ﷺ کا عملی مظاہر ہ ہے ۔
٭عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔
٭ اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
٭علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو ناموس رسالت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کریں ۔ محض جذباتی نعرے اور دوچار ہزار افراد کا جلوس نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر ﷺ کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ: (لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا )
ترجمہ: ’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب اسوہ حسنہ کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تفسیر سورۃ النور

از شیخ فیض الابرار صدیقی
احکام شرعیہ مستنبطہ:
۱۔ ابتداء اسلام سے زنا کی عقوبت کی کیا کیفیت تھی؟
ابتداء اسلام میں یہ سزا خفیف اور عارضی طور پر تھی کیونکہ لوگوں نے تازہ اسلام قبول کیا تھا اور شریعت اسلامیہ کی حکمت تدریج بتدریج ہوتی ہے یعنی شرعی احکام مرحلہ وار اترے ہیں یعنی حسب حاجت اور ضرورت ، ان کی سزا یہ تھی کہ ان کو ان کے گھروں میں قید کر دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ان کوموت نہ آجائے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے ، پس عورت کو حبس کیا جاتا تھا اور مرد کو توبیخ اور تانیب کی جاتی تھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی حیثیت تعزیری تھی نہ کہ اس کا شمار حدود میں کیا جاتا تھا ۔
۲۔ کنوارے اور شادی شدہ کی سزا کیا ہو گی؟
شریعت اسلامیہ نے دونوں کی سزا میں فرق رکھا ہے ، کنوارے کے لیے سو کوڑ ے اور شادی شدہ کیلئے رجم۔ شادی شدہ کے لیے سزا میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے بعد یہ حرا م کافتنہ وفساد پہلے سے زیادہ شدید ہو تا ہے ۔
سیدنا عبادۃ بن صامت کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: البکر بالبکر جلد مائۃ وتغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم۔
(مسلم، ابو داؤد، ترمذی)
’’ کنورے زانی کو سو کوڑ ے اور ملک بدر کیا جائے جبکہ شادی شدہ زنا کار کو سو کوڑ ے اور رجم کیا جائے ‘‘
۳۔ کیا رجم اور جلد کو جمع کیاجا سکتا ہے ؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ ان دونوں کو جمع نہیں کیا جائے گا ۔
۴۔ کیازانی کو جلا وطن یاملک بدر بھی کیا جائے گا؟
اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کنوارے بدکار کو صرف کوڑ ے لگائے جائیں گے اور جلا وطنی کی سز ا قاضی پر منحصر ہے کہ وہ سنائے یا نہ سنائے ۔
جبکہ جمہور علماء ان دونوں سزاؤں کو جمع کرنے کے حق میں ہیں اور جمہور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تغریب یعنی ملک بدری کی سزا عورت کیلئے نہیں ہے ۔
۵۔ شادی شدہ اگر ذمی ہو تو اس کو کیا سزا دی جائے گی؟
احناف اس پر کوڑ وں کی سزا کے قائل ہیں جبکہ شوافع اور حنابلہ رجم کی طرف مائل ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جب وہ(ذمی لوگ) جزیہ دینا قبول کر لیں تو ان کیلئے وہ کچھ ہے جو مسلمانوں کے لئے ہے اور ان پر وہ کچھ ہے جو کچھ مسلمانوں پرہے ‘‘
۶۔ حدود کو قائم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟
آیت کے ظاہر سے تو یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس آیت کا مخاطب أولی الامر یعنی حاکم وقت ہے کیونکہ اس میں ہی مصلحت ہے اور اگر حاکم یا امام موجود نہیں ہو تو اس کا نائب سزا دے سکتا ہے ۔
۷۔کوڑ ے لگانے کی کیفیت اور صفت کیا ہو گی؟
علماء آیت کے اس جزء ’’ولا تأخذکم بہما رأفۃ‘‘ سے اخذ کرتے ہیں کہ زانی کی سز ا میں کوئی تخفیف نہ ہو گی نہ عدد میں اور نہ کیفیت میں ۔ لیکن امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لفظ ’’فاجلدوا‘‘ جلد سے ماخوذ ہے اور جلد کا معنی معروف ہے یعنی چمڑ ی ، کھال یا جلد اور یہ نہیں کہا گیا کہ ’’فاضربوا‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مار ایسی ہو گی جس کا اثر کھال تک رہے اور زانی کو زخمی نہ کرے ۔ (القرطبی: ۱۲/۱۶۳)
۸۔کیاتمام کوڑ وں کی سزا ایک جیسی ہو گی یا اس میں فرق ہو گا یعنی شراب کی سزا ، قذف کی سزا اور زنا کی سزاَ؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ تمام سزاؤں میں ضرب ایک جیسی ہو گی کیونکہ قرآن وسنت میں کہیں اس کی تفریق نہیں آتی ۔
۹۔ وہ کون سے اعضاء ہیں جن پر حد جاری کی جائے گی؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ کوڑ ے لگاتے وقت چہرے ، ستر پوش کے اعضاء اور جوڑ وں سے اجتناب کیا جائے گا ، جبکہ امام قرطبی رحمہ اللہ سر پر مارنے سے بھی منع کر تے ہیں ۔
۱۰۔ حدو د میں شفاعت یاسفارش کی حرمت۔
حدو د کے نفاذ میں شفاعت یا سفارش کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ کافرمان ہے :’’من حالت شفاعتہ دون حد من حدود اللہ تعالیٰ فقد ضاد اللہ عزوجل۔‘‘
’’جس کی سفارش یا شفاعت اللہ کی حدود کے نفاذ میں حائل ہو گی اس نے اللہ تعالیٰ سے محاربت اختیار کی ‘‘
۱۱۔ طائفہ سے کیا مراد ہے ؟
﴿ولیشھد عذا بہما طائفۃ من المومنین ﴾
میں طائفہ سے مراد مومنین کی ایک جماعت ہے جو کہ بغرض وصولِ عبرت کے حاضر ہو گی، اور طائفہ سے مراد :
بقول مجاہد رحمہ اللہ کے : ایک اور ایک سے زیادہ
عکرمہ اور عطاء رحمہم اللہ : دو اور دو سے زیادہ
زھری رحمہ اللہ : تین یا اس سے زیادہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما: چار یا اس سے زیادہ۔
اور چوتھی رائے سب سے زیادہ اصح ہے کہ لفظ طائفہ کا اطلاق تین سے زیادہ پر ہو تا ہے ۔
استفادات:
۱۔ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام سے عبرت کا حصول ۔
۲۔ شرم وحیا دین اسلام کا بنیادی جزو ہے ۔
۳۔ اسلام نہ صرف برائیوں سے روکتا ہے بلکہ برائیوں کی طرف جانے والے راستوں سے بھی روکتا ہے ۔
۴۔ اسلام میں طہارت کا تصور سب سے زیادہ مکمل ہے کہ ظاہری طہارت اور معنوی طہارت دونوں کا حصول اسلام کی تعلیمات کا بنیادی محور ہے اور کسی دین میں حیا وعفت کا مکمل تصور نہیں پایا جاتا نتیجہ غیر اسلامی تہذیبیں کس اخلاقی پستی پر پہنچ چکی ہیں ۔
۵۔ زنا کی قباحت اتنی شدید ہے کہ اس کو شرک جیسے جرم کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے جبکہ مشرک کی مغفرت نہیں ہو گی۔
۶۔ مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے جس کا تعلق اللہ سے ہے جبکہ زانی بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے ہے جس کا تعلق بندوں سے ہے ۔
۷۔حدود کی ایجاد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی عزت ، عفت وعصمت کے تحفظ کیلئے ہے تاکہ نسب محفوظ رہیں ۔
۸۔ شریعت اسلامیہ کے احکام مسلمانوں کے مصالح کیلئے ہیں ۔
۹۔ قرآن مجید اس امت کا دستور اور آئین ہے ۔
۱۰۔ کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ فاسقہ یا مشرکہ سے شادی کرے اور نہ ہی کسی مسلمان عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی فاسق ، زانی یا مشرک سے شادی کرے ۔
تلک عشرۃکاملۃ
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیثِ رسول ﷺ پڑھیں

از ڈاکٹر عبدالحئی مدنی
مسلمان بھائی کے چند حقوق – حدیث نمبر ۴۸
عَن عَلِیًَرضِیَ اللّٰہ عَنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ لِلمُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ سِتٌّ بِالمَعرُوفِ یُسَلِّمُ عَلَیہِ اِذَا لَقِیَہُ وَیُجِیبُ اِذَا دَعَاہُ وَیُشَمِّتہُ اِذ ا عَطِسَ وَیَعُودُہ اِذَا مَرِضَ وَیَتَّبِع جَنَا زَتَہُ اِذَا مَاتَ وَیُحِبُّ لَہُ مَا یُحِبُِّلنَفسِہِ ۔(:سنن الترمذی ۔کتاب الادب حدیث نمبر ۲۷۳۶)
راوی کا تعارف :
مکمل نام :علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ھاشم .ھاشمی ۔
ولادت:رسول اللہ ﷺ کی نبوت سے دس سال قبل .داماد رسول .عشرہ مبشرہ میں سے ہیں .چوتھے خلیفہ .
وفات:۲۰رمضان ۴۰ھ؁ ابن ملجم مرادی نے قاتلانہ حملہ کیا تھا ۶۳سال کی عمر میں شھادت پائی ۔
مرویات:۵۸۶احادیث.
معانی الکلمات
للمسلم :مسلمان کے /مسلمان کیلئے For muslim
علی المسلم :مسلمان پر (Upon muslim)
ست :چھ(Six)
بالمعروف:مشہور /اچھے طریقے سے (in good mannars)
یسلم علیہ :اسے سلام کہیے (Say salam to him)
اذا :جب (When)
لقیہ :اس سے ملاقات کرے (See him)
یجیبہ :قبول کرے (May accept)
دعاہ :اس کی دعوت کرے (Invite him)
یشمتہ :چھینکے والے کو دعا دے (Pray for sneezer)
عطس :چھینک مارے (Sneeze)
یعودہ :ا سکی عیادت کرے (To Regimen then sick)
مرض:بیمار ھو گیا (Fell ill)
یتبع :پیچھے چلے (Follow)
جنا زتہ :ا سکی جنازہ (His dead body)
اذا مات :جب وہ مر گیا (When he died)
یحب :پسند کرے /محبت کرے (like /Love)
لنفسہ :اپنی ذات کیلئے (for him self)
ترجمہ :سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ۔جب اس سے ملاقات کرے تو سلام کہے ، جب وہ اسے بلائے (دعوت کرے )تو لبیک کہے (قبول کرے )جب وہ چھینکے تو اسے دعا دے ، جب وہ بیمار ہو جائے تو ا سکی عیادت کرے ، جب وہ فوت ہو جائے تو ا سکے جنازے میں جائے ، اور جو کچھ اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرے ۔
تشریح:شریعت اسلامیہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو ابواب ہیں ۔ دوسرا باب (حقوق العباد )پہلے باب (حقوق اللہ )سے بہت وسیع ہے .اور ا سکی بہت زیادہ اہمیت بھی بیان کی گئی ہے .معاشرتی آداب اور اخلاقی تعلیمات کا لا متناہی سلسلہ انسانی معاشرے میں باہمی امن ، خیر سگالی اور اتفاق واتحاد کو از حد ضروری قرار دیتا ہے ۔
مذکورہ حدیث میں مسلمانوں کے باہمی حقوق میں سے چھ کا اجمالی تذکرہ ہے ۔
۱۔جب آمنا سامنا ہو (ملاقات ہو )تو گفتگو کا آغاز ۔۔’’السلام علیکم‘‘کے الفاظ سے ہونا چاہیئے سلام کرنے میں پہل کرنے اور کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے . چھوٹا بڑ ا ، اجنبی ہو یا معروف سب کیلئے یہ تحفہ اپنا شعار بنایا جائے ۔
۲۔مسلمان بھائی دعوت کرے تو بلاوجہ ا سکی دعوت رد نہ کی جائے ، مدد کیلئے پکارے تو ا سکی مدد کو پہنچے ۔
۳۔ چھینکے تو چھینکنے والا ’’الحمد للہ‘‘کہے جواب میں ’’یرحمک اللہ ‘‘کہہ کر دعا دے ۔
۴۔ مسلمان بھائی بیمار ہو جائے تو ا سکی تیمارداری /عیادت کرے ۔
۵۔ مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو ا سکی نماز جنازہ میں شریک ہو کر ا سکے لئے دعائے مغفر ت کرے تدفین کے لیے جنازے کے ساتھ جائے ۔ ۶۔ جو نیک خواہشات وجذبات اپنے لئے ہو ں وہی اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی رکھے ۔ یہ سب سے اہم اور جامع عمل ہے ہر معاملے میں اگر اپنے اوپر قیاس کرنے کی عادت بن جائے تو حق تلفی ، ظلم وزیادتی کا راستہ ہی بند ہو جائے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

ماہِ صفر بدعات کے نرغے میں

از عالمگیر تابش تیمی
ماہ صفر اسلامی سال اور ہجری کلینڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے متعلق برصغیر کے خرافی طبقہ نے مختلف قسم کی بد عقید گیاں ، غلط فہمیاں اور بد گمانیاں مسلم سماج میں پھیلارکھی ہیں ، اسے منحوس ونامبارک سمجھنا ، آفت و مصیبت کا گہوارہ تصور کرنا، شروفساد کا گنجینہ بتلانا ، اور نقصان وضر ر کا مہینہ باور کرانا کچھ نام نہاد مسلمانو ں کی عادت بن چکی ہے ، حالانکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اور تمام تصرفات کا مختار کل صرف اللہ تعالی ہے ، مخلوق میں سے کسی شخصیت کو کاروبار جہاں کے انتظام اور بنی آدم کے امور کی تدبیر میں کوئی عمل دخل نہیں ، بلکہ تمام نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ، یہ ملکیت مخلوق ارضی کو ہے نہ سماوی کو ، اور نہ کوئی مہینہ فی نفسہ نقصان دہ و ضر ر رساں ہے ، کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :’’اے میرے نبی لوگوں سے کہہ دے کہ آپ خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے جو اللہ تعالی چاہے ‘‘۔ (سورۃ یونس /۴۹)اور دوسری جگہ کچھ یوں ارشاد ہوا ’’ اگر اللہ تعالی تمہیں تکلیف پہنچادے تو اس کے سوا اس تکلیف کو دور کرنے والا کوئی نہیں ، اور اگر اللہ آپ کو کوئی بھلائی عطا کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل کو نہیں روک سکتی ‘‘ (سورۃ یونس /۱۰۷)مذکورہ آیتوں کی رو سے جب کوئی اللہ تعالی کے سوا نفع و نقصان کا مالک نہیں ، نہ ہی کوئی کسی کی قسمت سنوار سکتا ہے نہ بگاڑ سکتا ہے ، تو پھر اگر کوئی شخص کسی قسم کی بد شگونی لے یا بوقت سفر راستے سے بلی کے گذرنے یا چھینک آنے سے برا فال نکالے یا ماہ صفر کو منحوس سمجھ کر کوئی نیک یا مفید کام انجام نہ دے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر خیالات ونظریات اور باطل عقائد وافکار رچے بسے ہیں ، اس کا ایمان کمزور ہے ، عقیدہ توحید پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے ، وہ دانستہ یا جان بوجھ کر نہیں تو کم از کم نا دانستہ یا انجانے میں دوسری چیزوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھ بیٹھا ہے ، وہ اللہ تعالی کے انتظام کو ناقص اور اس کی تقسیم کو غلط سمجھ رہا ہے ، اور وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس چکا ہے ، جو اسے کھلے طور پر شرک میں ملوث کرنے کے بجائے شرک کے چور دروازے میں داخل ہونے کی ترغیب رہا ہے لیکن آج کل کے نام نہاد مسلمان شیطان کی اس فریبی چال کو سمجھنے کے بجائے انہی جاہلانہ رسوم و نظریات کی عمیق کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں ، بلکہ باطل عقیدوں نے کثیر افراد معاشرہ کے دلوں میں نرم گوشہ پالیا ہے ، حالانکہ یہی عقیدہ لوگ زمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے ، وہ یہ سمجھتے تھے کہ بعض لوگوں کے پیٹ میں ایک قسم کا جانور ہے جس کی وجہ سے آدمی کو بھوک لگتی ہے ۔ اور جب اسے کھانا نہیں ملتا تو وہ آدمی کو کھا جاتا ہے یا یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ماہ صفر فی نفسہ مذموم و منحوس ہے اور وہ اس سے بد شگونی لیتے تھے ، اسلام نے اس قسم کے عقائد کو باطل قرار دیا اور ایسے نظریات کی کھلے طور پر تردید کی ، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا کرم ﷺ نے فرمایا : بیماری چھوت چھات کو ماننا ، پرندہ اڑ ا کر فال نکالنا ، الو کی آواز سے بدشگونی لینا ، اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا فضول باتیں ہیں ، ایک اعرا بی نے کہا : اے اللہ کے رسول اچھے بھلے ہرنوں کی طرح اونٹ ریگستان میں ہوتے ہیں ، ایک خارش ذ دہ اونٹ ان میں آ کر مل جاتا ہے اور سب کو خارش ذ دہ کر دیتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر آپ کا یہ خیا ل ہے کہ بیماری متعدی ہوتی ہے تو یہ بتائیں کہ اس سے پہلے اونٹ کو بیماری کیسے اور کہاں سے لگ گئی ‘‘۔ (بخاری ۵/۲۱۶۱/۵۳۸۷، مسلم ۱/۲۲۲۰، مسند احمد ۲/۴۳۴/۹۶۱۰)
لیکن افسوس در افسوس کہ آج مسلم معاشرہ میں وہی جاہلانہ عقائد و رسوم عود آئی ہیں جن سے اسلام نے تقریبا چودہ سو سال پہلے منع فرمایا تھا ، آج بھی کچھ نام نہاد مسلمان ماہ صفر سے بد شگونی لیتے ہیں ، اس کو منحوس سمجھ کر اس مہینہ میں شادی بیاہ اور عقدو نکاح نہیں کرتے ، سر وروانبساط اور مسرت و شادمانی کی محفلیں نہیں سجتیں ، سفر نہیں کیا جاتا ، ہر قسم کی تقریبات کو منحوس تصور کیا جاتا ، حتی کہ نئی نویلی دلہن کو میکے روک لیا جاتا ، اس کو سسرال نہیں جانے دیا جاتا ، اور خاص طور سے اس مہینہ کے آخری بدھ کے لئے عجیب و غریب افعال ایجاد کر لئے گئے ہیں جن کی بنیاد ایک موضوع روایت پر ہے جس میں آیا ہے کہ اس مہینہ کا آخری بدھ دائمی منحوس ہے ۔(المعجم الاوسط ۶/۲۸۳، تذکرۃ الموضوعات ۷۹۷۱، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے ، ضعیف الجامع /۳)
قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف ماہ صفر کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف اس مہینہ کے بدھ کے دن کو بہت ساری بدعات وخرافات اجر و ثواب سمجھ کر انجام دی جاتی ہیں ، رنگ برنگ کی محفلیں سجتی ہیں ، قسم قسم کی دعوتیں ہوتی ہیں ، حلوہ خوری ہوتی ہے ، مسرت وشادمانی کاماحول قائم ہوتا ہے نوع بنوع کے مخصوص کھانے تیار ہوتے ہیں ، سیر و تفریح کے لئے مختلف جگہوں کا سفر اور اظہار فرح و سرور کے لئے یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس دن نبی کریم ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا، حالانکہ مذکورہ اعمال و افعال خود علمائے بریلویہ کی نگاہ میں قابل مذمت ہیں ، چہ جائیکہ قرآن و سنت میں ان کی مشروعیت کی کوئی دلیل یا ان کی کوئی اہمیت و فضیلت ہو ، چنانچہ احمد رضا خان فاضل بریلوی سے مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ)کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز رسول ا کرم ﷺ نے مرض سے صحت پائی تھی ، بنابریں اس روز کھانا وشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کو جاتے ہیں ، علی ہذا القیاس ۔ مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں ، کہیں اس روز کونحس و نا مبارک جان کر پرانے برتن گلی میں ڈال دیتے ہیں ، اور تعویذ و چھلئہ چاندی اس روز کی صحت بخشی جناب رسول اللہ ﷺ مریضوں کو استعمال کراتے ہیں وغیر ہ ، یہ جملہ امور (بربنائے صحت )لائے جاتے ہیں ، لہذا اس کی اصل شرع میں ثابت ہے یا نہیں ؟ اور فاعل و عامل اس کا بر بنائے ثبوت وعدم ثبوت ، مرتکب معصیت ہو گا یا قابل ملامت و تادیب
احمد رضا خان فاضل بریلوی اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : آخری شنبہ (بدھ)کی کوئی اصل نہیں ، نہ ہی آپ ﷺ نے اس دن صحت پائی ، بلکہ مرض اقدس میں وفات مبارک ہوئی ، اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ، اور مروی ہوا کہ ابتداء ابتلاء ایوب علیہ السلام اسی دن تھی ، اور اسے نجس سمجھ کر مٹی کے برتنوں کو توڑ دینا گناہ اور اضاعت مال ہے ، بہر حال یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور بے معنی ہیں ، (احکام شریعت ۲/۱۹۳، ۱۹۴، تعلیمات شاہ احمد حنیف یزدانی ۵۸۔۵۹، طبع مکتبہ نذیر یہ لا ہور پاکستان )۔ اب کیا بریلوی حضرات اس فتوی کا احترام کرتے ہوئے قوم کو رسومات و بد عات کی دلدل سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے ۔ سچ ہے ۔
ڈرو خدا سے ہوش کرو اور مکر و ریاء سے کام نہ لو فاضل ۔بریلوی احمد رضا خان کے مذکورہ فتوی کے علاوہ یہ عقیدہ تاریخی حیثیت سے بھی غلط اور بے بنیاد ہے ، کیوں کہ سیرت کی کتابیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ آپ کا آغاز مرض۲۹صفر۱۱ھ؁ بروز دو شنبہ ہوا اور ۱۲ ربیع الاول یوم شنبہ وقت چاشت کو آپ کا انتقال ہوا ۔ (رحمت للعالمین ۱/۲۴۱۔۲۴۲، الر حیق المختوم /۷۳۴)
یا بقول بعض ۹ربیع الاول ۱۱ھ؁ کو ہوئی ، (جو کہ صحیح نہیں ہے ) دونو ں تاریخوں میں بدھ کا دن آتا ہے نہ صحت یابی کا ثبوت ملتا ہے بلکہ کسی بھی سیرت نگار نے یہ نہیں لکھا ہے کہ آپ ماہ صفر کے آخری بدھ کو شفایاب ہوئے ، لہذا صحت یابی رسول کے نام پر اس دن خوشی منانا ، سیر و تفریح اور حلوہ خوری کرنا خود ساختہ دین اور شریعت سازی ہے ۔ اگر ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو کار ثواب سمجھ کر انجام دیئے جانے والے اعمال و رسوم کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی ، یا اس میں کسی قسم کا دنیاوی یا اخروی فائدہ ہوتا تو وہ صحابہ کرام ان اعمال کی انجام دہی سے نہ چکتے جو آپ کے ایک اشارہ پر اپنی جان و مال قربان کرنے کے لئے بے تاب رہتے تھے ، آپ ﷺ کے احکام و ارشادات پر عمل پیرا ہونا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے بلکہ آپ ﷺ کی ادنی سی ادنی سنت کے لئے مر مٹتے تھے لیکن تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کے قول و عمل سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان اعمال و رسوم کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ورنہ صحابہ کرام پر الزام لازم آئے گا کہ انہوں نے آپ کی صحت یابی کے حسین موقع پر خوشی کا اظہار نہیں کیا ، کیا ان کو آپ ﷺ سے محبت نہیں تھی ؟ یا ان کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت و عداوت تھی یا وہ آپ کی صحت یابی اور حیات نہیں چاہتے تھے ؟(العیاذ با اللہ)
ان تمام حقیقتوں سے قطع نظر ماہ صفر میں نبی ا کرم اکی صحت یابی کے نام پر تعویذ چھلہ پہنناسراسر اسلامی عقیدہ کے منافی اور شرک کے قبیل سے ہے ، چنانچہ سیدنا عقبہ بن عامرص بیان کرتے ہیں کہ رسول ا کرم ا نے فرمایا : جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا۔
(مسند احمد ۱۵۷۴/۱۷۴۵۸، مسند الحارث ۲/۶۰۰/۵۶۳، شیخ شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے ، اور علامہ البانی نے صحیح الجامع /۶۴۹۴پر صحیح قرار دیا ہے )
سیدۃ زینب رضی اللہ عنہازوجہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا ، تو مجھ سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ وہ دھاگہ ہے جس میں میرے لئے دم کیا گیا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس دھاگہ کو پکڑ کر کاٹ دیا پھر فرمایا: تم آل عبد اللہ شرک سے بے نیاز ہو ، میں نے رسول ا کرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (شرکیہ )جھاڑ پھو نک ، تعویذ اور میاں بیوی کے درمیان محبت قائم کرنے کے لئے جادو یا تعویذ کا استعمال شرک ہے ۔ (ابو داؤد۲/۳۸۸۳، صحیح ابن حبان ۱۳/۶۹۰شیخ شعیب ارنؤوط نے اس کے تمام رایوں کو ثقہ قرار کیا ہے ، اور علامہ البانی نے صحیح التر غیب (۳/۳۴۵۷)میں اور امام حاکم نے (۴/۴۱۸)میں اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے )
چونکہ کڑ ا چھلہ کا استعمال توکل علی اللہ اور قضاء و قدر کے منافی اور خلاف ہے اور غیر اللہ میں نفع و نقصان کی ملکیت کا عقیدہ اور تصور ہے اس لئے اس کی سخت قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے چاہے وہ کسی کے نام پر استعمال کیا جائے ، چنانچہ سیدنا عمران بن حصین ص فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک آدمی کے ہا تھ میں زرد رنگ کا کڑ ا چھلہ دیکھا ، آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب کیا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے باہر نکال پھینکو ورنہ تمہارے اندر مزید کمزوری پیدا کرے گی اور اگر تم اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے تو کبھی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہ ہو گے (مسند احمد ۴/۲۰۰۱۴، ابن ماجہ ۲/۳۵۳۱ابن حبان /۱۴۱۰، امام حاکم نے (۲۱۶۳ )پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے موافقت کی ہے ، شیخ
عبد القادر ارنؤوط نے حسن قرار دیا ہے جب کہ شیخ علامہ البانی نے السلسلۃ الضعیفہ ۳/۱۰۲۹میں اور شیخ شعیب ارنؤوط نے مسند احمد میں ضعیف کہا ہے ) لہذا تمام مسلمانو ں کو چاہئے کہ وہ ایسے عقیدوں سے اپنے آپ کو بچائیں جن سے ان کے دین و ایمان کے بربادہونے کا خطرہ ہے اور یہ عقیدہ رکھیں کہ کوئی بھی سال یا مہینے یا دن فی نفسہ منحوس ونامبارک نہیں ہوتابلکہ انسان خود اسے منحوس بنا دیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اصلی نحوست پروردگار عالم کی نافرمانی ومعصیت ہے جو دنیا کا طالب ہوتا ہے وہ اسباب دنیا مال ودولت ، سیر وتفریح اور نفسانی خواہشات کو ہی سعاد ت سمجھتا ہے اور طلب دنیا میں غلو کی وجہ سے کسی دن یا کسی شخص یا کسی وقت کو منحوس سمجھتا ہے او راسے ہی نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کی تردید کرتے ہوئے بیان فرمایا: آپ ان سے کہیے کہ اچھا یہ بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، اگر اللہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ، ’یا ‘اللہ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ مجھے کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ تما م مسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے پوری امت کو بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے اور اسلامی تشخص اور ثقافت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

رحمۃ للعالمین ﷺکے ایمان افروزحالات وواقعات

از حافظ محمد سفیان
نام و نسب : محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن مناف بن قصی ۔ آ پ ﷺ سیدنا اسماعیل بن ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے آپ ﷺ کے دادا نے آپ کا نام ’’محمد ‘‘ (ﷺ )رکھا ۔ جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا ہوا ‘‘یا ’’جس کی تعریف کی جائے ‘‘۔
تاریخ پیدائش : پیارے نبی ﷺ موسم بہار میں بروز پیر اور ۹ربیع الاول ۱ ؁ع (عام الفیل )بمطابق ۲۲، اپریل ۵۷۱ء؁ کو مکہ مکرمہ میں صبح کے وقت پیدا ہوئے ۔ (الرحیق المختوم :ص:۸۳/رحمۃٌللعالمین :ص:۴۰)
پیدائش کا واقعہ : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور خاتم النبیین ہوں جب میں پیدا ہوا تو میری والدہ نے خواب میں دیکھاکہ ان کے بطن سے ایسا نور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے ۔ (مسند احمد : ج:۴، ص:۱۲۷، ح:۱۷۱۹۱، /مستدرک الحاکم : ج:۲، ص:۴۵۳، ح:۳۵۶۶)
رضاعت کا دور : آپ ﷺ کو بنی سعد بن بکر کی رہنے والی ایک دائی سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے دو برس تک دودھ پلایا ۔ اور آپ ﷺ تقریبا پانچ برس تک سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے زیر تربیت رہے ۔
واقعہ شق صدر : آپ ﷺ کی ولادت کے پانچویں سال شق صدر (سینہ مبارک چاک کئے جانے ) کا واقعہ پیش آیا ۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس سیدنا جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے ، اس وقت آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺکو پکڑ کر لٹایا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا پھر دل سے ایک لوتھڑ ا نکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے ۔ پھر دل کو سونے کے ایک طشت میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی اصل جگہ رکھ دیا ۔(صحیح مسلم : کتاب الایمان ، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ الی السموات ، ح: ۱۶۲)
پیارے پیغمبر ﷺ بہت خوبصورت ، ذہین ، بردبار ، معاملہ فہم ، بہادر ، باوفا ، رحم دل اور دوسروں کی مدد کرنے والے تھے اور یہ سارے اوصاف آپ ﷺ کے اندر بچپن سے ہی مکمل موجود تھے ۔ آپ ﷺ لوگوں میں امانت دار ، ہمیشہ سچ بولنے والے ، پاکباز ، نیک سیرت ، باحیا اور شرمیلے مشہور تھے ۔ کبھی کسی نے ساری زندگی آپ ﷺ کی زبان مبارک سے گالی یا کوئی بھی بری بات نہیں سنی تھی ۔
تجارت کے میدان میں
جب نبی ا کرم ﷺجوان ہوئے تو پہلے آ پ ﷺ کا خیال تجارت کی طرف مائل ہوا ، مگر گھر میں روپیہ پیسہ نہیں تھا ۔ مکہ میں نہایت شریف خاندان کی ایک بیوہ عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں ، جو کہ بہت مالدار تھیں اور اپنا روپیہ تجارت میں لگائے رکھتی تھیں ۔ اس نے آپ ﷺکی خوبیوں اور اوصاف سن کر اور آپ ﷺ کی سچائی ، دیانت داری اور سلیقہ شعاری کا حال معلوم کر کے خود درخواست کی کہ آپ ﷺ ان کے مال سے تجارت کریں ۔ آپ ﷺ ان کا مال لے کر تجارت کے لئے نکلے ۔ اس تجارت میں آپ کو بہت نفع ہوا۔
نکاح: اس سفر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ اس نے آپ کی ان تمام خوبیوں کا ذکر خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا جو اس نے آپ ﷺ کے اندر دیکھی تھیں ۔ ان اوصاف کو سن کر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود درخواست کر کے آپ ﷺ سے نکاح کر لیا ۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے عرب کے بڑ ے بڑ ے سرداروں کی درخواست نکاح رد کر چکی تھیں ۔ اس نکاح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک پچیس (۲۵)برس اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس (۴۰)برس تھی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے مزید دس شادیاں کیں ۔ جن میں سے نو (۹)غریب بیواؤں ، جبکہ صرف ایک کنواری لڑ کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ۔
اولاد : پیارے پیغمبر ﷺ کے تین بیٹے : (۱)قاسم بن محمد ﷺ (۲)عبد اللہ بن محمد ﷺ (۳)ابراہیم بن محمد ﷺ
اور چار بیٹیاں
(۱)زینب بنت محمد ا (۲)رقیہ بنت محمد ا (۳)ام کلثوم بنت محمد ا (۴)فاطمہ بنت محمد ا تھیں رضی اللہ عنہن۔
تینوں بیٹے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے ، اسی طرح تین بیٹیاں آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں فوت ہوگئیں ، جبکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی وفات کے بعد فوت ہوئیں ۔
نبوت ورسالت : رسول اللہ ﷺ بچپن ہی سے توحید کے متوالے اور شرک و بدعت سے بیزار تھے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے تمام کائنات والوں میں سے آپ کے دل کی پاکیز گی کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ کو اپنی رسالت کیلئے منتخب فرمالیا ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیا ن کرتی ہیں کہ :رسول اللہ ا پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خوابوں سے ہوئی ، آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمو دار ہوتا تھا ، پھر آپ ﷺ کو تنہائی محبوب ہو گئی ، چنانچہ آپ ﷺغار حرا میں خلوت فرمانے لگے اور کئی کئی رات گھر میں تشریف لانے کے بجا ئے مصروف عبادت رہتے ۔ پھر (توشہ ختم ہونے پر )سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کیلئے پھر توشہ لے جاتے ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس حق (پیغام الہی )آ گیا اور آپ ﷺ غار حرا میں تھے ۔ یعنی آپ ﷺ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑ ھو آپ ﷺ نے فرمایا : میں پڑ ھا ہوا نہیں ہو ں ۔ اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر ا س زور سے دبایا کہ آپ ﷺ کی قوت نچوڑ دی ۔ پھر چھوڑ کر کہا : کہ پڑ ھو آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ میں پڑ ھنا نہیں جانتا ۔ اس نے تین مرتبہ ایسا ہی کیا اور تیسری مرتبہ چھوڑ کر کہا :’’پڑ ھو اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا ، انسان کو خون کے لوتھڑ ے سے ، پڑ ھو تمہارا رب نہایت کریم ہے ۔ ‘‘(صحیح البخاری : کتاب بدء الوحی ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ )
دعوت و تبلیغ: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو نبوت ورسالت سے سرفراز کرنے کیساتھ ہی دعوت و تبلیغ کا حکم صادر بھی فرمادیا ۔ (دیکھئے : سورۃ المدثر ، آیات ۱تا۷)آپ ﷺ کی مکی دعوت کا خلاصہ یہ تھا : (۱)توحید خالص، (۲)یوم آخرت پر ایمان ، (۳)تزکیہ نفس کا اہتمام ، (یعنی انجام بد تک لیجانے والے گندے اور فحش کاموں سے مکمل پرہیز اور اعمال خیر پر کار بند رہنے کی کوشش )(۴)اپنے تمام معاملات کی اللہ کو حوالگی و سپردگی (۵)اور جناب خاتم النبیین محمد ﷺ کی رسالت ونبوت پر ایمان اور ہر مسئلے میں آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع ۔
مصائب و آلام : جب آپ ﷺ نے دعوت کا آغاز کیا تو آپ کو بے شمار تکلیفوں ، رکاوٹوں اور مخالفوں کا سامنا کرنا پڑ ا، حتی کہ آپ کے اپنے سگے رشتہ دار بھی آپ کو اذیتیں دینے والوں کے ساتھ تھے ۔ نبوت کے پانچویں سال آپ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا ۔ پھر آپ ﷺکے قتل کی سازش کی گئی ، لیکن اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی حفاظت کی ۔ پھر نبوت کے ساتویں سال ابتدائے محرم میں مشرکین نے نبی ﷺ اور مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے انہیں تین سال کے لئے ’’شعب ابی طالب ‘‘(جیل )میں قید کر دیا ۔ جہاں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے درختوں کے پتے اور چمڑ ے چبا کر اپنی بھوک اور پیاس مٹائی ۔ نبوت کے دسویں سال نبی ا کرم ﷺمکہ سے باہر دعوت وتبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے ، مگر انہوں نے بجائے آپ ﷺکی دعوت کو قبول کرنے کے نبی معظم ﷺ پر پتھروں کی بارش کر دی اور آپ ﷺ کو لہو لہان کر کے اپنی بستی سے نکال دیا ۔
سفر معراج : جب مشرکین مکہ کاظلم و ستم حد سے بڑ ھ گیا اور آپ ﷺ ان کی تکلیفوں کی وجہ سے پریشان رہنے لگے تو اللہ تعالی نے آپ کی تسلی کے لیے آپ ﷺ کو وہ رتبہ عطا فرمایا جو آپ سے پہلے سے کسی نبی کو عطا نہیں فرمایا ۔ آپ ﷺ کو پہلے مکہ سے بیت المقدس لیجایا گیا ، جہاں آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کروائی ، یوں آپ ﷺ کو ’’امام الانبیاء ‘‘ ہونے کا بلند مرتبہ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا ۔ پھر آپ کو دیگر عظیم المرتبت انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرواتے ہوئے ساتویں آسمان سے اوپر ’’ سدرۃالمنتہی ‘‘ تک لیجایا گیا ۔ جہاں آپ ﷺ اپنے رب سے ہم کلام ہوئے اور جنت کی سیر کی ، جہاں آپ ﷺ نے اس کی بے شمار نعمتوں کا مشاہدہ کیا ، پھر آپ ﷺ نے جہنم دیکھی اور اس میں ہونے والے سخت ترین عذابات کا مشاہدہ کیا ۔ (خلاصہ حدیث ، صحیح البخاری : کتاب الایمان ، باب قولہ تعالی : وکلم اللہ موسی تکلیما )
ہجرت مدینہ : رحمۃ للعالمین ﷺ نے نبوت ملنے کے بعد تیرہ برس اپنے آبائی وطن مکہ میں دعوت و تبلیغ کا کام سر انجام دیا ۔ لیکن جب آپ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف مشرکین مکہ کی چیرہ دستیاں حد سے تجاوز کر گئیں اور انہوں نے آپ ﷺ کے قتل کا پختہ ارادہ کر لیا تو اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ وہاں کی سرزمین مکہ کی نسبت دین الہی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے قدرے ساز گار تھی ۔ آپ ﷺ نے اپنے دیرینہ رفیق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور کفار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مدینہ تک پہنچادیا نبی رحمت ﷺ کا قدم مبارک مدینہ کی سر زمین پر پڑ تے ہی اس کا نام ’’یثرب ‘‘ سے ’’مدینہ الرسول ﷺ ‘‘ رکھدیا گیا۔ مدینہ میں آپ ﷺ کا تاریخی استقبال کیا گیا اور وہاں کی بچیوں نے آپ ﷺ کی شان میں اشعار گنگنائے ۔ پھر آپ ﷺ نے سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام کیا ۔ خاتم النبیین ﷺ کی مدنی زندگی خالص اسلامی معاشرہ کی تکمیل ، مسلمانوں کی اخلاقی تربیت ، دیگر احکام و مسائل کا حل ، اسلامی فوج کی تشکیل اور کفار و مشرکین سے جہاد و قتال پر مشتمل تھی ۔
غزوات : نبی ا کرم ﷺ نے کل انیس (۱۹) غزوات میں شرکت فرمائی ۔ (صحیح البخاری : کتاب المغازی ، باب غزوۃ العشیرۃ ۔ ۔ ۔ )
امام المجاہدین ﷺ نہایت ہی بہادر اور باوفا تھے ۔ آپ ﷺ ہر غزوہ میں بذات خود شرکت فرما کر مسلمانوں کی قیادت فرمایا کرتے تھے ۔ حتی کہ سخت ترین معرکوں میں بھی آپ ﷺ نے کبھی پشت نہ دکھائی ۔ آپ ہمیشہ سب سے آگے رہتے ، تاکہ خود بڑ ھ کر سب سے پہلے دشمن پر حملہ آور ہوں ۔
وفات : ۲۹، صفر ۱۱ھجری بروز پیر کو آپ ﷺپر مرض کے آثارنمودار ہونا شروع ہو گئے ۔ مگر آپ ﷺ کی وفات سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل مرض نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی ، حتی کہ آپ ﷺ کے لئے بغیر سہارہ کے چلنا بھی دشوار ہو گیا ۔ اسی عالم میں آپ ﷺ نے اپنی امت کو اپنی آخری نصیحتیں اور بعض ہدایات جاری فرمائیں ۔ یہاں تک کہ وہ دن بھی آپہنچا کہ جب آپ ﷺ نے اس فانی و عارضی دنیا کی لذتوں کو الوداع کہتے ہوئے اپنے رفیق اعلی سے ہمیشہ کی ملاقات کو ترجیح دی اور ۱۲، ربیع الاول ۱۱ھ؁ بروز پیر بعد نماز فجر آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی اور رفیق اعلی سے جا ملے ۔
﴿إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ﴾
اس حادثہ دلفگار کی خبر فوراً ہی تمام مسلمانوں میں پھیل گئی ، اہل مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑ ا ، آفاق و اطراف تاریک ہو گئے ۔ مسلمانوں پر اس سے بڑ ا غم نہ پہلے کبھی آیا نہ اس کے بعد کبھی آ سکتا ہے ۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نہ ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جس میں کرب والم کے دریا موجزن نہ ہوں ۔ مدینے کی فضا آہ و بکا سے گونج اٹھی ، کسی کو اس بات کا ہوش نہ تھا کہ وہ کس حال میں ہے اور کیا کر رہا ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب پیغمبر جناب محمد مصطفی ﷺ سے محبت کا حق ادا کرنے اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے اور شرک و بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وما علینا الا البلاغ المبین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

شریعتِ محمدی اور میلاد نبوی ﷺ

از محمد حسان دانش
عید میلاد النبی ا تاریخ کے آئینہ میں :
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے انسانیت کی رہنمائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام نبی آخر الزماں محمد ﷺ اس دنیا فانی سے کوچ فرما کر گئے تو اس وقت باری تعالیٰ کی طرف سے دین کی تکمیل کا اعلان ہو چکا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ۔ (المائدۃ: ۳ )
’’ میں نے تم پر تمہارادین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔‘‘
رسول ا کرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں دین کو ناقص نہ چھوڑ ا بلکہ جو انہیں اللہ تعالی بزرگ وبرتر کی طرف سے پیغام ملا اسے مکمل طور پر لوگوں تک پہنچاکر اپنا فریضۂ نبوت ادا کر دیا کیونکہ ان کو اللہ کی طرف یہ حکم ملا تھا۔﴿یَا اَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ فَاِن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہ﴾(المائدۃ: ۶۷)
’’ اے (اللہ کے ) رسول ﷺ جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل ہو ا اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے ، اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔‘‘
اس گواہی کے بعد ہمیں یقین کامل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پیغام الہٰی لوگوں تک پہنچاکر رسالت کا حق ادا کر دیا ہے گویا کہ دین اسلام میں کوئی کمی نہیں چھوڑ ی اب اگر ہم دین سے کوئی چیز نکالتے ہیں تو اس میں نقص پیدا کرنے کا جرم ہم پر عائد ہوتا ہے ، اگر ہم مزید کوئی چیز اس میں داخل کرتے ہیں تو اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ رسول ا کرم ﷺ نے (نعوذ باللہ ) رسالت کا حق ادا نہیں کیا اس لیے اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :۔’’من ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم أن محمدا خان الرسالۃ لأن اللہ یقول:﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔﴾ (المائدۃ: ۳ )
’’ جس نے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا اسے اچھا سمجھاتو اس نے (نعوذ باللہ ) یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے : میں نے تمہارے لیے تمہارے لیے کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر کے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں پیارے پیغمبر ﷺ نے جتنا دین دیا ہے اسی پر عمل کافی ہے اور یہی جنت میں جانے کا ذریعہ ہے ، اور اگر کوئی محبت رسول ﷺ کا اظہار کرنا چاہے تو اسے بھی خالصتاً دین اسلام پر عمل کرنا ہو گا اس میں کمی کوتاہی کرنے والا تو مجرم ہوتا ہے اور اس میں زیادتی کرنے والے کو بھی مجرم قراردیا گیا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے :
’’مَن اَحدَثَ فِی اَمرِنا ھذا مَا لَیسَ مِنہُ فَھُو رَدّ‘‘(بخاری ومسلم)
’’ جس نے دین میں ایسا نیا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو اس کا کیا گیا یہ کام مردود ٹھہرے گا ‘‘
لیکن ہمارے بعض بھائی محض لاشعوری طور پر محبت رسول ﷺ میں ایسے کام کر بیٹھتے ہیں کہ جن کا دین اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ ایسے کاموں کا کرنا دین میں زیادتی کرنے کے مترادف ہے جن کو ثواب اور تقرب کیلئے کیا جاتا ہے حالانکہ ایسے کام بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور بدعت کے متعلق رسول ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٍ وکُلُّ بِدعَۃٍ ضَلَالَۃ وکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘
’’ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے ‘‘
ان کاموں میں ایک مروجہ عید میلاد النبی ﷺ بھی ہے جسے ربیع الاول کی 12 بارہ تاریخ کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہی بیان کی گئی ہیں ، اس کے منانے کا طریقہ یہ وضع کیا گیا ہے کہ ربیع الاول شروع ہوتے ہی مساجد اور مدارس کے طلباء الٹی ٹوپیاں پہن کر گلی کوچوں میں کھڑ ے ہو جاتے ہیں اور راہ گزرنے والوں سے عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلہ میں ایک ایک دو دو روپے اکھٹے کر رہے ہوتے ہیں ، پھر بارہ ربیع الاول کو اسی جمع شدہ رقم کو ختم دلانے اور جلسے جلوس نکالنے پر خرچ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اہالیان جلوس پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں ، سبیلیں لگتی ہیں منچلے جوان دن کے وقت پگڑ یاں باندھ کر نقلی داڑ ھی مونچھیں لگائے گلی محلوں میں باجے اور شہنایاں بجاتے پھر رہے ہوتے ہیں ، جب اندھیرا پھیلنے لگتا ہے تو سماع اور ناچ گانے کی محفلیں شروع ہو جاتی ہیں ، روضۂ رسول ﷺ اور پہاڑ یوں کی نمائش لگتی ہے جسے مرد تو کیا عورتیں بھی بلا امتیاز کار ثواب خیال کرتے ہوئے اس کی زیارت کرتی ہیں ، اس طرح کی محفل میں لوگ بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ جو ان فضولیات میں شرکت نہ کرے تو اسے گستاخ رسول ﷺ کا لقب دے کر کہا جاتا ہے کہ اسے پیدائش رسول ﷺ کی کوئی خوشی ہی نہیں ہوئی ۔حالانکہ یہ چیزیں اسلام نے سختی سے منع کر دی ہیں اور یہ لوگ کیسی عبادت کرتے ہیں جس میں شروع سے لیکر آخر تک محبت رسول ﷺ کا اظہار ان کے احکامات کو نہ مان کر کیا جاتا ہے اس سے صاحب عقل کس نتیجہ پر پہنچتا ہے ؟؟
محترم قارئین ! اسلام نے ایک مکمل دین ہونے کی حیثیت سے خوشی کے دن بھی متعین فرما دیے اور اس کے ساتھ غم کے دنوں کی بھی وضاحت کر دی ہے ، چنانچہ اسلام کے مقرر کردہ خوشی کے دنوں کے علاوہ زیادتی کا مرتکب ہوتے ہوئے اگرکوئی مزید دن مقرر کرتا ہے اور خوشی منانے کے لیے غیر شرعی طریقے اختیار کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہے اور لوگوں کوگمراہ کرنے کا جرم بھی اس پر عائد ہوتا ہے ، بالکل ایسے ہی عید میلادالنبی ﷺ کا دن بھی ایک طبقے نے اپنی طرف منسوب کیا ہوا ہے جس کا اسلام سے کیا تعلق ہے ؟ آئیے زمانۂ رسول ؑﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو دیکھتے ہیں ۔
عید میلا دالنبی ﷺ کی دور صحابہ میں حیثیت:
رسول اللہ ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا کی گئی نبوت ملنے کے بعد (23) تیئیس مرتبہ یہ دن آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آیا ، کسی جگہ کوئی ثبوت موجود نہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں یہ دن منایا ہو ،
اس کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہو ا جو رسول ا کرم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے 10؁ ھ کو سرور کائنات ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو 10 ؁ ھ سے لیکر 13؁ ھ تک ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رہے ان کی زندگی میں دومرتبہ یہ دن آیا ، 13؁ سے لیکر 24؁ تک سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ دن دس مرتبہ آیا ، 24 ؁ ھ سے لیکر 35؁ ھ تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ دن گیارہ مرتبہ آیا اور 35 ؁ھ سے لیکر 40 ؁ھ تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران یہ دن پانچ مرتبہ آیا ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے آخری صحابی 110؁ھ کو فوت ہوئے اس وقت تک نہ تو کسی صحابی نے یہ دن منایا نہ ہی خلفائے راشدین میں سے کسی کے بارے میں اس دن کو منانے کا ثبوت ملتا ہے ، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو وہ لوگ ہم سے زیادہ نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والے تھے آج ہم سب مل کر نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر واقعی اس دن کی حقیقت ہوتی یا یہ دن شریعت اسلامیہ میں موجود ہے تو صحابہ کرام اس موقع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔
صحابہ کرام کے دور کے بعد تابعین کے زمانہ کو بھی اگر دیکھا جائے آخری تابعی 180؁ھ کو فوت ہوئے اس وقت تک اس دن کے منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔
کچھ عید میلاد النبی ا کی ابتداء کے بارے میں
دین اسلام میں ایجاد کردہ اس تیسری عید کو متعارف کرنے کا سہرا ملک مظفر الدین کوکبوری نے اپنے سر لے کر قیامت تک آنے والے لوگوں میں سے اس بات پرعمل کرنیوالوں کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا۔
حدیث مبارکہ میں اسلام میں برا کام جاری کرنے والے کے بارے میں اس بات کی وضاحت موجود ہے ۔
’’ ومن سن سنۃ سیئۃ فلہ وزر مثل وزر فاعلہ ‘‘
ترجمہ:’’جس نے (اسلام میں ) کوئی براطریقہ جاری کیا تو اس پر اس کے اپنے گنا ہ کا بوجھ اور اس برے طریقے پر عمل پیرا لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی ہو گا۔‘‘
یہ شخص 586 ؁ ھ میں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا اور 604 ؁ھ میں اس نے عید میلاد النبی ﷺ کا آغاز کیا ، تاریخ ابن خلکان میں اس بات کا ذکر اس طرح موجود ہے ۔
شاہ اربل محفل میلاد کو ہر سال نہایت شان وشوکت سے مناتا تھا جب اربل شہر کے اردگرد والوں کو خبر ہوئی کہ شاہ اربل نے ایک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑ ی عقیدت اور شان وشوکت سے انجام دیتا ہے تو بغداد ، موصل ، جزیرہ سجاوند اور دیگر بلاد عجم سے شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کی غرض سے اربل آنا شروع کر دیتے قلعہ کے نزدیک ہی ایک ناچ گھر تعمیر کیا گیا تھا جس میں کثرت سے قبے اور خیمے بنے ہوئے تھے جو کہ ناچ گانے کیلیے مخصوص تھے اب اس بات کو علمائے کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں آئیے ان کے فتویٰ جات کو سامنے رکھ کر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عیدمیلاد کے بارے میں سابق مفتی اعظم عبد العزیز ابن باز کا فتویٰ :
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا سیرت رسول ﷺ کے ذکر واذکار کیلئے میلا د کی محفلیں آراستہ کرنا جائز ہے ، اس بارے میں کچھ لوگ بدعت حسنہ جبکہ کچھ بدعت سیئیہ کہتے ہیں ؟؟
انہوں نے جواب میں فرمایا:12 ربیع الاول یا کسی بھی مخصوص دن میں اس طرح کی محفلیں مسلمانوں کیلئے جائز نہیں ہیں اس لیے کی جشن ولادت دین میں ایک بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی اپنا یوم پیدائش نہیں منایا ، جبکہ آپ ﷺ دین کے مبلغ اور رب کی شریعت کے مرتب ومنتظم تھے آپ نے نہ تو اس کو منانے کا حکم دیا اور نہ ہی خلفائے راشدین نے کبھی س کو منانے کا اہتمام کیا اور نہ ہی عام صحابہ کرام اور نہ ہی یہ بات تابعین عظام سے ثابت ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ بدعت ہے اور بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے دین میں نئی بات داخل کی وہ مردودہے ‘‘ (متفق علیہ)
اور مسلم شریف میں ہے ’’ جو شخص ایسا عمل کرے گا جس پر ہمارا حکم نہ ہوتو وہ عمل مردود ہے ‘‘ اس کے علاوہ رسول ا کرم ﷺ خطبہ میں فرماتے تھے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ۔
جشن میلادالنبی ﷺ کی محفلیں سجانے کی بجائے اگر ہم آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ سے متعلق مساجد ومدارس میں آپ کی ولادت کے بارے میں دروس دیں تو جشن میلاد جیسی بدعت کی ضرورت پیش نہ آئے گی جو نہ تو شریعت الہٰیہ سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی شرعی دلیل قائم کی ۔
(بحوالہ: فتاویٰ عبد العزیز بن باز ، ص:۵۷۷، ۵۷۸)
جشن میلاد کے متعلق مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا فتویٰ:
نبی کریم ﷺ کا یوم پیدائش اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ:
دین اسلام اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اشخاص سے زیادہ ان کے کارناموں کی عزت کرتا ہے جو کسی بڑ ے شخص سے صادر ہوں اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ ، تبع تابعین اور ائمہ ھدی رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی بڑ ے آدمی کا پیدائش کادن یا موت کادن نہیں منایا ۔
یہ جو عوام نے پیدائش کے دن کو ’’میلاد‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور موت کے دن کو ’’عرس‘‘ سے موسوم کیا ہے یہ رسم صدیوں بعد بنائی گئی اور عموما ایسی رسوم کا اہتمام وہی لوگ کرتے ہیں جن کوان سے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے ، عوام بیچارے تو عقیدت کی وجہ سے خسارے میں رہ جاتے ہیں ۔
ابتدائے اسلام سے اکابر اسلام کی پیدائش اور موت کے دن منانے کا اہتمام کیا جاتا تو شاید سال کا کوئی بھی دب کسی میلاد یا عرس شریف سے خالی نہ ہوتا ۔ امت میں الحمدللہ پاک لوگوں کی کمی نہ تھی اگران واقعات اور حوادث کو بطور ایام منایا جاتا تو یقینا بہت سے ضروری اور اچھے کاموں کیلیے وقت نہ بچتا ، سارا وقت مرنے والوں کے احترام اوراہتمام میں گزرتا جبکہ زندوں کی اصلاح اور تعمیر کیلئے شاید ہی تھوڑ ا بہت وقت بچ پاتا۔
سیرت ، وفیات اور رجال کی کتابوں کو پڑ ھ کر ملاحظہ کریں کہ ان سب حضرات نے عرسار میلاد کے اہتمام کیے ہیں یانہیں ؟؟شاید گداگر اور ملّا حضرات تو اسی کاروبار کو کر گزریں کہ اس میں ان کیلئے مالی فائد ہ ہے لیکن عوام الناس کیلئے ضلالت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس بدعت کا آغاز ساتویں صدی کے شروع میں ہو ا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بیسیوں منکرات شامل ہوتے چلے گئے اس کے بعد برسوں تک یہ بدعت متروک رہی اور پھر انگریزکے دور میں ہندوؤں کے بزرگوں کے جنم دن کی تقلید میں اسے دوبارہ شروع کر دیا گیا ۔ حکومت کی لاعلمی کی بناء پر اسے دین کا مسئلہ سمجھ کر تھوڑ ا سا تعاون کیاکیا کہ ملّا حضرات نے اسے پیٹ کا دھندا سمجھ کر محفل کی رونق کا سامان مہیا کر دیا ہے ۔
میرے نزدیک یہ فعل بدعت ہے اس میں کتنی ہی تقدیس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے میں اسے گناہ سمجھتا ہوں اورہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں ان بدعات کو اسلام پسندی کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے پھر ان میں فواحش کا ارتکاب ہوتا ہے جس کوہم روکنے پر قادر نہیں ہیں ۔(بحوالہ: الاعتصام ، 4 ستمبر 1964)
محبت کامعیار:
محبت کا معیار نعرہ بازی نہیں اور نہ ہی محبت کا تقاضا ریا کاری اور دکھلاوا ہے ، محبت زمانی اور مکانی نہیں ہوتی ، الفت دائمی تعلق کا نام ہے جو محب کے دل اور زندگی پر غالب رہتی ہے ، محب رسول ﷺ بننا بہت مشکل ہے اور اگر بننا ہو تو صحابہ کرام ، مہاجرین عظام ، شہدائے احد، مجاہدین بدر اورخصوصا مکی زندگی میں اسلام قبول کرنے والے فرشتہ صفت لوگوں کی سراپا جانثاری اور والہانہ عقیدت سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے ، محبت صرف موسمی نہیں ہے کہ صرف ماہ ربیع الاول میں سیلاب بن کرآئے اورسال کے باقی دنوں میں اس بات کا احساس تک نہ ہوکہ آپ کاکوئی رسول ﷺ بھی ہے جسکی تعلیمات کو اسوہ حسنہ طورپر پیش کیا گیا ہے اور انہی میں دنیا اور آخرت کی بھلائی پوشیدہ رکھی گئی ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔حقیقت کیا ہے؟

از مقبول احمد مکی
اس دن کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں عیسائیت سے قبل کے دور میں ملتی ہے جب روم کے بت پرست مشرکین 15فروری کو ایک جشن مناتے جو کہ Feast Of Lupercaoius کے نام سے جا نا جاتا ہے ۔ یہ جشن وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے اعزاز میں انہیں خوش کرنے کے لئے مناتے تھے ۔ ان دیوتاؤں میں Pan (فطرت کا دیوتا)، Februata Juno (عورتوں اور شادی کی دیوی)، اورPastoraigol Lupercalius (رومی دیوتا جسکے کئی دیویوں کے ساتھ عشق ومحبت کے تعلقات تھے ) شامل ہیں ۔
اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑ کیوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے ہیں جس میں سے تمام لڑ کے باری باری ایک پرچی اٹھاتے ہیں اور اس طرح لاٹری کے ذریعے منتخب ہونے والی لڑ کی اس لڑ کے کی ایک دن ایک سال یا تمام عمر کی ساتھی قرار پاتی۔یہ دونوں محبت کے اظہار کے طور پر آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کر لیتے تھے ۔
اس طرح ویلنٹائن کارڈز پر دکھائے جانے والے نیم برہنہ اورتیر کمان اٹھائے ہوئے کیوپڈ (cupid) کی تصویر بھی ویلنٹائن کی خصوصی علامت ہے اور رومن عقیدے کی رو سے وینس (محبت اور خوبصورتی کی دیوی ) کا بیٹا ہے جو کہ لوگوں کو اپنے تیر سے نشانہ لگا کر انہیں محبت میں مبتلا کر دیتا ہے او رجب روم میں عیسائیت منظر عا م پر آئی تو عیسائیوں نے اس جشن کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اس مقصد کیلئے 14فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا ، جس دن رومیوں نے ایک عیسائی پادری ویلنٹائن کو سزائے موت دی تھی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ رومی بادشاہ Claudius-ll کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل کشت وخون کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہوا کہ ایک وقت میں Claudius کو اپنی فوج کیلئے مردوں کی تعداد بہت کم نظرآئی جس کی ایک بڑ ی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر پردیس میں لڑ نے کیلئے جاناناپسند کرتے تھے ۔بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جا سکے ۔ اس موقع پر ایک پادری سینٹ ویلنٹائن نے خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا جب اس کا یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ (Claudius)کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور سزائے موت کا حکم دیا گیا ۔ جیل میں یہ پادری صاحب جیلر کی بیٹی کو دل دے بیٹھے جوکہ ان سے ملنے آیا کرتی تھی لیکن یہ ایک راز تھا کیونکہ عیسائی قوانین کے مطابق پادریوں اور راہبوں کیلئے شادی کرنا یا محبت کرنا ممنوع تھا اس کے باوجود عیسائی ویلنٹائن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جب رومی بادشاہ نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومی خداؤں کی عبادت کرے تو اسے معاف کر دیا جائے گابادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی بیٹی سے اس کی شادی کر دیگا تو اس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس رومی جشن سے ایک دن پہلے 14 فروری 270 ء کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہ For your Valentine کے الفاظ سے کیا۔ بہت سے ویلنٹائن کارڈز پر لکھے جانے والے Greetings کے الفاظ For your Valentine اسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کیلئے ہیں ۔
ویلنٹائن کے نام سے کم از کم تین مختلف پادری ہیں اور تمام کی موت کا دن 14 فروری ہے ۔ 496ء میں پوپ Gelaslus نے سرکاری طور پر 15 فروری کے فیسٹول Lupercalla کو بدل کر 14فروری کوسینٹ ویلنٹائن ڈے منانے کا اعلان کیا اور لاٹری کے ذریعے لڑ کی کے انتخاب کی رومی رسم میں یہ ردوبدل کیاکہ پرچی میں نوجوان لڑ کی کے نام کی بجائے عیسائی پادریوں کے نام لکھے جاتے اور تمام مرد اور عورتیں ایک ایک پرچی اٹھاتے اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر مرد وعورت جس عیسائی پادری کے نام کی پرچی اٹھاتا اسے اگلے ایک سال تک پادری کے طور طریقوں کو اپنانا ہوتا تھا۔ (ماخوذ انسائیکلو پیڈیا بردٹانیکا ، کیتھولک انسائیکلو پیڈیا)
ویلنٹائن ڈے اور اسلامی تعلیمات
۱۔ ہمیں ایسے تمام تہواروں سے اجتناب کرنا چاہیے جس کا تعلق کسی مشرکانہ یا کافرانہ رسم سے ہو۔ ہرقوم کا اپ۔نا ایک علیحدہ خوشی کا تہوار ہوتا ہے اور اسلام میں مسلمانوں کے خوشی کے تہوار واضح طور پر متعین ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عید الفطر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ (اِنَّ لِکُلِّ قَومٍ عِیداً وَہَذَا عِیدُنَا ) (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین ، حدیث نمبر :۱۴۷۹)
’’ہر قوم کی اپنی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے ۔‘‘
۲۔ ویلنٹائن ڈے منانے کامطلب مشرک رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : (مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَہُوَ مِنہُم ) (سنن ابی داؤد کتاب اللباس ، حدیث نمبر :۳۵۱۲)
’’جوکسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے ۔‘‘
۳۔موجودہ دور میں ویلنٹائن ڈے منانے کا مقصد ایمان اور کفر کی تمیز کئے بغیر تمام لوگوں کے درمیان محبت قائم کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار سے دلی محبت ممنوع ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ﴾(سورۃ المجادلۃ :۲۲)
’’آپ ﷺ نہیں دیکھیں گے ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ہی ہوں ۔‘‘
۴۔اس موقع پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑ کے لڑ کیوں کا آزادانہ ملاپ تحائف اور کارڈز کا تبادلہ اور غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ زنا اور بد اخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں مرد اور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ﴾(سورۃ النور : ۱۹)
’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلائی جا سکے ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ‘‘
۵۔نبی ا کرم ﷺ نے جو معاشرہ قائم فرمایا اس کی بنیاد حیا پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم ہے مگر اب لگتا ہے کہ آپ ﷺ کے امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کیلئے تیار نہیں بلکہ اب وہ حیا کے بجائے وہی کریں گے جو انکا دل چاہے گا ۔
فرمان نبوی ﷺ ہے :۔
’’اِذَا لَم تَستَحیِ فَاصنَع مَا شِئتَ‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، رقم الحدیث :۵۶۵۵)
’’جب تم حیا نہ کرو تو جو تمہار ا جی چاہے کرو ‘‘ یعنی ایسے حالات میں ہمیں عفت و پاکدامنی کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا چاہئے اور اپنی تہذیب و تمدن ، ثقافت وروایات کو اپنا نا چاہیے ۔اغیار کی اندھی تقلید سے باز رہنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی ﷺ

از محمد طیب معاذ
قسط نمبر : ۱۱

نماز مغرب
نماز مغرب کو دن کا وتر کہا جاتا ہے ، نماز مغرب کا آغاز سورج کے غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے اور شفق کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے ۔
دلیل: عن عبد اللہ بن عمر قال قال النبی ﷺ : وقت صلا ۃ المغرب اذا غابت الشمس مالم یغب الشفق ۔(مسلم)
’’ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا: مغرب کی نماز کا وقت سورج کے غروب ہونے سے لیکر اس وقت تک ہے جب تک شفق کی سرخی غائب نہ ہو جائے ‘‘
شفق کیا ہے ؟
شفق کی تعریف میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، فقہاء حنفیہ نے شفق سے مراد وہ سفیدی لی ہے جو کہ مغرب کی طرف سرخی کے غائب ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے اس لیے احناف کے ہاں مغرب کا وقت سرخی غائب ہو جانے تک ہے جبکہ مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک شفق سرخی ہی ہے اور نماز مغرب کا وقت اس سرخی کے غائب ہونے تک رہتا ہے ۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
لیکن نماز مغرب کو اول وقت میں پڑ ھنا افضل ہے اور اس کو بلا وجہ مؤخر کرنا سخت مکروہ ہے ۔
دلیل: عن انس بن مالک قال : کنّا نصلی المغرب مع النبی ؑﷺ ثُم نرمی فیری احدنا موضع نبلہ ۔
(ابو داؤد ، ۴۱۶، ص:۱۶۵، ج: ۱، باب فی وقت المغرب)
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز مغرب نبی ا کرم ﷺ کے ساتھ پڑ ھتے پھر تیراندازی کرتے تو ہر ایک تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ لیتا تھا۔یعنی نماز مغرب کے بعد اتنی سفیدی (روشنی)باقی ہوتی کہ دور کی چیز نظر آ جاتی تھی ۔
۲۔ عن سلمۃ بن اکوع قال : کان النبی ﷺ یصلی المغرب ساعۃ تغرب فیہ الشمس اذا غاب حاجبہا۔ (ملخصا از سنن ابی داؤد )
ترجمہ: سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز مغرب غروب آفتاب کے ساتھ ہی پڑ ھ لیتے تھے یعنی سورج کا ایک کنارہ غروب ہوتا تو آپ ﷺ جلدی سے نماز مغرب ادا کرتے ۔
۳۔عن ابی ایوب قال قال النبی ﷺ : لا تزال امتی بخیر او قال علی الفطرۃ مالم یؤخروا المغرب الی ان تشتبک النجوم۔
(ملخصا از سنن ابو داؤد )
ترجمہ: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر یا فطرت پر رہے گی جب تک تارے نظر آنے تک مغرب میں تاخیر نہیں کریگی۔
تنبیہ: ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ قبل ازمغرب دو رکعت نہ پڑ ھی جائیں بلکہ ان دو رکعتوں کی ادائیگی کے بعد جلد از جلد نماز مغرب کاآغازکر دینا چاہئے
نماز مغرب میں قرا ء ت:
نماز مغرب میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت تلاوت کی جا سکتی ہے ۔
دلیل: ثم اقراء ما تیسّر معک من القرآن (اخرجہ السبعۃ واللفظ للبخاری بحوالہ : بلوغ المرام ، ص:۷۸)
ترجمہ: ’’ پھر تم (یعنی سورۃ فاتحہ کے بعد) قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑ ھ سکتے ہو پڑ ھو۔
رسول معظم ﷺ نماز مغرب میں درج ذیل سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے ۔
۱۔ الطور۔ (صحیح بخاری ، مسلم )
۲۔ الاعرا ف ۔ (سنن النسائی )
۳۔ المرسلات ۔ یہ سورت رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کی آخری نماز مغرب میں تلاوت کی ۔ (سنن الترمذی ، ۳۰۸)
۴۔ الانفال ۔ (الطبرانی الکبیر بسند صحیح )
۵۔ التین والزیتون ۔ (البراء بن عازب ، سنن الترمذی )
۶۔ کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ طوال مفصل ، قصار مفصل اور اوساط مفصل میں سے بھی تلاوت کرتے تھے ۔
(ملخصا از صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للشیخ الالبانی ، ص:۸۵)
اوساط مفصل؛ سورۃ بروج سے سورۃ بیّنہ تک
طوال مفصلسورۃ حجراتسے لیکر سورۃ بروج تک
قصار مفصل: سورۃ لم یکن الذین کفروا سے لیکر سورۃ الناس تک ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آپ نماز مغرب میں قصار مفصل سورتیں تلاوت کریں ۔ (سنن الترمذی ، صححہ الالبانی)
گزارش:
ہمارے ہاں جہری نمازوں میں قراء ت کے مسئلہ میں کچھ لوگ سخت موقف اختیار کرتے ہیں ، حقیقت میں اس مسئلہ میں اسلام نے وسعت رکھی ہے ، ائمہ حضرات نمازیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر قراء ت کریں یہی معتدل اور جمہور علماء کا مؤقف ہے ۔ واللہ اعلم بالصوا ب
نماز مغرب کے بعد دورکعت سنتیں رواتبہ (موکدہ) ادا کرنا بھی معمولات محمدیہ ﷺ میں شامل ہے ۔
دلیل : عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال : صلّیت مع رسول اللہ ﷺ رکعتین قبل الظہر ورکعتین بعدہا ورکعتین بعد الجمعۃ ورکعتین بعد المغرب (متفق علیہ )
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے اور دورکعت اس کے بعد ، دو رکعت جمعہ کے بعد، اور دورکعت نماز مغرب کے بعد پڑ ھیں ۔
سنت مغرب میں اکثر رسول ا کرم ﷺ سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص پڑ ھتے تھے ۔ (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للالبانی ، ص:۸۵)
دلیل ۲۔ عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت : کان النبی ﷺ یصلی بالناس المغرب ثم یدخل فیصلی رکعتین(مسلم)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول معظم ﷺ لوگوں کو نماز مغرب پڑ ھا کر پھر (میرے )گھر تشریف لاتے اور دور کعتیں پڑ ھتے تھے
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کوگھر میں اہتما م کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔ اکثر لوگ اس معمول محمدی ﷺکو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ سنن رواتبہ و دیگر نفل نمازیں گھر میں ادا کرنا قولی وفعلی احادیث سے ثابت ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
۱۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال : اجعلوا من صلاتکم فی بیوتکم ولا تتخذواھا قبوراً (صحیح الترغیب والترھیب ج: ۱، ص:۲۱۴)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ تم اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، یعنی قبرستان میں نماز ممنوع ہے اس لیے تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ بلکہ اس میں نفل نمازیں ادا کرو۔
۲۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا قضی احدکم الصلاۃ فی مسجد ہ فلیجعل لبیتہ نصیبا من صلاتہ فان اللہ جاعل فی بیتہ من صلاتہ خیرا۔(ایضا)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم مسجد میں (فرض )نماز سے فارغ ہو جاؤ تو( نفل [L:4 R:228] سنن الرواتبہ ) کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی خاص کر لو کیونکہ گھر میں نماز پڑ ھنے سے اللہ تعالیٰ خیر وبرکت نازل فرماتا ہے ۔
۳۔ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : مثل البیت الذی یذکر اللہ فیہ والبیت الذی لا یذکر اللہ فیہ ، مثل الحی والمیت ۔(ایضا)
ترجمہ: سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نبی ا کرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛ وہ گھر جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور جس میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے ، یعنی جس گھر میں اللہ رب العزت کا ذکر اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے اصل میں اسی گھر کے مکیں حیات سعیدہ گزار رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ مکاں جس کے باسی ذکراللہ کا اہتمام نہیں کرتے وہ زندگی کی حقیقی لذتوں سے ناآشنا ہیں ، ذکر اللہ سے مراد نمازبھی ہے ، کیونکہ قرآن حکیم نے نماز کو بھی ذکر قرار دیا ہے (اقم الصلاۃ لذکری)
بعد از نماز مغرب:
رسول اللہ ﷺ کبھی کبھار نماز مغرب سے لیکر نماز عشاء تک نفل نماز میں مشغول رہتے تھے ۔ (الترغیب والترہیب: ج: ۱، ص:۲۶۹)
اور کبھی اپنی ازواج مطہرات کے پاس اپنا وقت گزارا کرتے تھے ، پھر نماز عشاء پڑ ھ کر جس بیوی کی باری ہوتی اس کے حجرے میں تشریف لے جاتے ، یاد رہے کہ نماز مغرب سے لیکر نماز عشاء تک سونا منع ہے ۔
ضروری وضاحت :
بعض لوگ نماز مغرب کے بعد چھ رکعت سنت کو صلاۃ اوابین سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے ، صحیح احادیث کی روشنی میں قرین انصاف بات یہی ہے کہ صلاۃ الاوابین سے مراد چاشت کی نماز ہے نہ کہ بعد از مغرب چھ رکعتیں ۔ (تفصیل کیلئے فتح الباری لابن حجر ، الترغیب والترھیب للمنذری رحمہم اللہ دیکھیے )لیکن اگر کوئی شخص تقرب الی اللہ کی نیت سے بغیر تحدید اور صلاۃالاوابین کے اجر کی نیت کے بغیر نما زمغرب کے بعد کثرت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کیلیے کوئی امر مانع نہیں ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فضائل سورۃ الکافرون

از حمزہ طارق
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم ، اما بعد:
﴿ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ٭ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ ٭لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ٭وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ٭وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ ٭وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ٭لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ ﴾ (سورۃ الکافرون)
ترجمہ: اے میرے نبی آپ کہہ دیجیے اے کافرو! میں ان بتوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عباد ت کرتے ہو اور نہ تم اس اللہ کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس اللہ کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں کرتا ہوں ، تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔
سورۃ کافرون مکی دور کی سور ت ہے ، ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت ۱۸ نمبر پر ہے اور قرآنی ترتیب میں ۱۰۹ پر ہے ۔
سورۃ الکافرون کا سبب نزول اور مرکزی خیال:
اسلام کی ابتداء سے ہی کفار اس دین لافانی کو مٹانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے تھے ، کبھی مال ودولت کا لا لچ دیکر ، کبھی رشتہ داروں کے واسطے دیکر اور کبھی کمزور مسلمانوں پر ظلم ڈھا کر الغرض مختلف تدابیراسالیب کے ساتھ وہ اپنے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے تھے ، انہی تدبیروں میں سے ایک یہ تھی کہ ایک روز سرداران قریش اللہ کے رسول ﷺ سے ملاقات کیلئے آئے جن میں عاص بن وائل ، اسود بن المطلب ، ولید بن مغیرہ اور امیہ بن خلف شامل تھے ، انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ ہم اس بات پر صلح واتفاق کر لیتے ہیں کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کر لیجئے اور ایک سال ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کر لیتے ہیں ، یہ ان کار کی بہت بڑ ی چال اور فریب تھا ، اسی اثناء میں جبریل علیہ السلام وحی لیکر نازل ہوئے اور سورۃ الکافرون کا یہ پیغام اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچاد یا ، اورقیامت تک آنیوالے کفار کے ساتھ ہمار ا طرز عمل کیا ہونا چاہئے یہ ہم پر واضح کر دیا ، اور کفار سے مکمل براء ت کا اعلان کرنے کا حکم بھی دے دیا ۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک سے ؟؟
شرکت میانہ حق باطل نہ کر قبول۔
سورۃ کی اجمالی تفسیر:
کفار مکہ شرک وکفر کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق تھے جن کا اندازہ لگانا آسان نہ ہو گا ، بت پرستی ان کا شعار بن چکی تھی ، چوری بدکاری ، قتل وغارت یہ سب ان کے اندر عام تھا ، جس بیت اللہ کو ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے توحید کا مرکز بنایا تھا اس مقدس جگہ کو انہوں نے شرک وبدعت کا گڑ ھ بنا رکھا تھا ، کم وبیش تین سو ساٹھ بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جنہیں وہ اپنے مختلف امور میں معاون ومددگار اور مشکل کشا مانتے تھے ، اور ان کی تعظیم میں چڑ ھاوے پیش کرتے تھے ، کفار کے ان تمام عقائد باطلۃ کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کفر کی کس حد تک جاپہنچے تھے ، اپنے ان عقائد وافعال کی پیشکش انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کی جو اوپر ذکر کی جا چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ ان کفار سے صراحتا کہہ دیجئے کہ میں ان تمام شرک وبدعات ، کفراور بت پرستی سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو ، اور ان بتوں کواپنا مشکل کشا مانتے ہو اور تم بھی اس اللہ رب العزت کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں کیونکہ اللہ احکم الحاکمین کا تمہارے حق میں یہی فیصلہ ہے کہ تمہاری موت کفر پر ہو اور تماس کبھی نہ ختم ہونے والی آگ یعنی جہنم کا ایندھن بنو، اور میں مستقبل میں بھی تمہارے فاسد عقیدہ کی پیروی نہیں کروں گا اور تم بھی اس اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والوں میں سے نہیں ہو گے ، تمہاری موت اسی حالت میں تم سے آملے گی اور یہ بات حقیقت بن کر سامنے آئی اور وہ اکثر وبیشتر کفار ’’غزوہ بدر‘‘ میں مارے گئے ان کی موت ان فاسد عقائد واعمال کے ساتھ ہوئی ، پھر سورت کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے صراحتا نبی ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے تمام عقائد واعمال پر ڈٹے رہو جن کے تم پیروکار اور حامی ہو اور ہم اپنے اللہ عزوجل کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اپنے دین لافانی پر قائم رہیں گے ۔
لکم دینکم ولی دین
قوم اپنی جو زرو مال جہاں پر مرتی ہے
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی ہے
سورۃ الکافرون کے فضائل میں چند احادیث نبوی ﷺ:
سورۃ الکافرون کے فضائل میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں چند ایک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔
﴿۱﴾فروۃ بن نوفل الاشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہا آپ مجھے کچھ وصیت کیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’سونے سے قبل ’’قل یا ایھا الکا فرون ‘‘ پڑ ھ لیا کر و بیشک یہ سورت شرک سے برائت کا اعلان ہے ‘‘(رواہ امام احمد فی مسندی ۷ ۲۳۸، وابو داؤد ۵۵.۵، والترمذی )
امام المفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان ابلیس اس سورت کے پڑ ھنے سے اس قدر غصہ ہوتا ہے جتنا کسی اور سورت سے نہیں ، کیونکہ یہ سورت شرک سے برائت کا اعلان کرتی ہے ۔
﴿۲﴾سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’سورۃ الکا فرون ‘‘ اور سورۃ اخلاص کو طواف کی دونوں رکعتوں میں تلاوت فرمایا ۔ (رواہ مسلم ۲/۷۷۶، والتر مذی ۸۸۹)
﴿۳﴾ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سورۃ الکافرون ‘‘ اور سورۃ اخلاص کو فجر کی رکعتو ں میں تلاوت فرمایا ۔ (رواہ مسلم ۱/۲.۵)
قا رئین کرام : قرآن کریم و ہ عظیم کتاب ہے ۔ جو اپنی ابتدا ہی میں یہ اعلان کرتی ہے کہ (ذلک الکتاب لا ریب فیہ )یہ وہ کتاب ہے جس میں شک و شبھات کی کوئی گنجائش نہیں یہ اعزاز اور کسی کتاب کو حاصل نہیں ۔ لیکن آج ہم نے اس قرآن کریم کی قدر و منزلت کو بھلا دیا ہے ، اس لیئے آج ہم مشاکل و مصا ئب کے گھیرے میں ہیں ، فرمانے باری تعالی ہے کہ ﴿اِذْہَبْ إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی ٭قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی ٭وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی ﴾(طہ ۱۲۴، ۱۲۶)
’’اور جس نے ہمارے ذکر یعنی قرآن سے رو گردانی کی تو ہم اس کی زندگی تنگ کر دیں گے اور قیامت کے روز اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا اے میرے رب مجھے کیوں اندھا اٹھایا ہے دنیا میں تو میں سب دیکھتا تھا ، جواب ملے گا اسی طرح ہونا چاہیے تو میری آیتو ں کو بھول گیا تو تو بھی آج بھلا دیا گیا ۔‘‘
قارئین کرام : اس قرآن کریم کی عظمت و قدر ومنزلت کو پہچانئے اس نورانی کتاب سے رشتہ جوڑ یئے ، اس کے پڑ ھنے کا خاص اہتمام کریں ، اور صرف پڑ ھنا کافی نہیں بلکہ اسے سمجھنا اور عمل کرنا مقصود ہے ، قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مطالعہ کیجئے تا کہ ہمیں اس بات کی خبر ہو کہ ہمارا رب ہم سے کیا فرما رہا ہے ۔ اگر ہم اپنے چو بیس گھنٹو ں میں دو یا تین گھنٹے بھی قرآن کریم کو سیکھنے میں سرف کریں گے تو انشا ء اللہ تعالی العزیز قیامت کے روز اور قبر کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں مین یہ قرآن کریم ہمارے لیئے حجت ہو گا ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے ۔ اللھم اجعلنا قاری القرآن انا ء اللیل و آناء انھار ﴿آمین ﴾
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

موبائل فون رحمت یا زحمت؟

از حسان دانش
کچھ عرصہ پہلے ایک دینی محفل میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام تشریف لائے تھے ، جب مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو نمازِ مغرب کا وقت ہو چکا تھا سو سب لوگ وضو کر کے مسجدکی طرف چلے جا رہے تھے اورتھوڑ ی ہی دیر میں نماز باجماعت کا آغاز ہو گیا ، لیکن چونکہ لوگو ں کا اک جمِ غفیر مسجد میں جمع ہو چکا تھا لہٰذا مسجد کے لاؤڈ سپیکر بھی کھول دیئے گئے ، مگر نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ وہاں ایک ایسا شخص پہلی صف میں نماز کی ادائیگی میں مشغول تھا جس کے موبائل پر نہایت فحش گانا رِنگ ٹون(Ring Tone) کے طور پر لگا ہوا تھا اور دورانِ نماز اس کے موبائل سے گانا بجنا شروع ہو گیا ، وہ پہلی صف میں امام کے قریب ہی کھڑ ا تھا اور لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے گانے کی آواز دوسرے لوگوں تک پہنچنے لگی ، ا س نے موبائل کو آف بھی نہیں کیا اور اس طرح اس کم فہم نے اپنی نماز کے علاوہ دوسرے لوگوں کی نماز میں بھی خلل ڈال کران کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا۔اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا یہ ذکر کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن اس نے اس طرح کے شغل کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اورساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ یہ موبائل ایک رحمت ہے یا پھر باعث زحمت۔ ۔ ۔ ؟؟
نہ جانے لوگ اس قدر کیوں اس بات سے غافل ہو چکے ہیں کہ وہ برابھلا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیوں کہ اگر ہمیں کسی وزیر یا کسی دنیاوی بادشاہ سے ملاقات کرنے کا موقع ملے تو ہم سب سے پہلے اپنے موبائل کو آف کریں گے کہ کہیں دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذا ت تو ان لوگوں سے بہت ہی عظیم ہے مسجد اس کا گھر ہے جس میں ہر کسی کو جانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی اور نما زافضل ترین عبادت ہے ، اس کے باوجود کیوں لاپرواہی برتی جاتی ہے ؟؟؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر ہم کسی بھی چیز کا بغور مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے ، کیونکہ یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے کس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ، مثبت یا منفی؟؟بالکل اسی طرح موبائل بھی بذات خود برا نہیں ہے بلکہ اس کے طریقہ استعمال کو دیکھ کر ہی اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یہ ایک منظم پلاننگ کے تحت کام کیا گیا ہے کہ لوگ زیادہ تر گھروں میں ٹی وی ، کیبل یا گانوں میں وقت گزارتے تھے لہذا اس طرح کے شوقین افراد کیلئے موبائل فون بنانے والی کمپنیز نے ان لوگوں کی مشکل حل کر دی اور موبائل میں ہر وہ چیز ڈا ل دی جس سے وہ لوگ سستی گمراہی خرید سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم اپنی پڑ ھائی کے ٹائم میں ، دفاتر میں کام کرنے والے بعض حضرات ڈیوٹی کے اوقات میں اور کچھ لوگ تو مساجد میں بھی اس کے استعمال سے نہیں چوکتے ۔حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ موبائل کو صرف ضرورت کے وقت اور اسے ضرورت سمجھتے ہوئے ہی استعمال کیا جاتا لیکن اس کے اصل مقصد کے علاوہ اس سے بہت سے دوسرے مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں ۔
رہی سہی کسر موبائل کمپنیز نے پوری کر دی اور اس کو مزید تقویت دینے کیلئے ایسے پیکجز متعارف کروائے ہیں جو کہ خصوصا نوجوان نسل کیلئے قابل تشویش ہیں ۔
مثلاًکسی کمپنی کی طرف سے سستے ترین کال ریٹس پر ساری ساری رات بات کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے
جس سے سب سے پہلے تو سنت مطہرہ کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ رسول ا کرم ﷺعشاء کی نماز سے پہلے سونے اور نمازعشاء کے بعد فضول جاگ کر باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔
دوسرا بڑ ا نقصان وقت کا ضیاع ہے جو آدمی رات کو دیرتک جاگ کر باتیں کرتارہتا ہے تو اوّل تو اس کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے ، سارا دن تھکن میں گزرجاتا ہے اور کسی کام کو دلجمعی سے انجام نہیں دے سکتا۔
اسی طرح کچھ سیلولر کمپنیز نے فری ایس ایم ایس کا پیکج متعارف کروا دیا ہے اس لیے جس کو بھی دیکھو موبائل میں گم نظر آتا ہے او ر ہر جگہ ، ہر وقت نوجوان نسل اس کام کو اپنے فرائض منصبی کی طرح ادا کرتے ہوئے اس کے نتائج سے غافل ہوکر اپنے آپ کو تباہی کے دھانے کی طرف لے جا رہی ہے ۔
اگر اس کے نقصان دہ پہلو پر غور کیا جائے تو وہ باتیں سامنے آتی ہیں جن کا کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کو چھوڑ نے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔
1۔ اسلام کے احکام کی خلاف ورزی :
اسلام لوگوں کو نیکی طرف نہ صرف بلاتا ہے بلکہ اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکی کا حکم دیکر برائی سے بچنے کی تلقین کی جائے ۔ چنانچہ اگر دیکھا جائے تو ساری رات بات کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس سے غیبت ، چغلی اور دیگر برائیوں کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس میں موجود کیمرہ بھی اسلام کے احکامات کے منافی ہے ۔موجودہ دور میں فحش گانے بھی موبائل میموری کا حصہ ہیں ، اول تو گانے نماز کے علاوہ بھی منع ہیں لیکن اگر حالتِ نماز میں گانا بجنا شروع ہو جائے تو اس سے مسجد کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے اور نماز میں بھی خلل آ جاتا ہے ۔
کچھ لوگ اپنے موبائل پر تلاوت کلام پاک کو رِنگ ٹون کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ دوران آیت اگر کال ریسیو کر لی جائے تو آیت نامکمل رہ جاتی ہے اور بعض اوقات بیت الخلاء میں اگر فون آجائے تو قرآنی آیات کی بے ادبی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک نہایت پاکیزہ کلام ہے ۔
اسی طرح جو والدین بغیر ضرورت کے اپنی اولاد کو خاص طور پر اپنی نوجوان بیٹیوں کو کہ جن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی آواز کسی نامحرم کے کان میں نہ پڑ ے ان کو بھی اس ’’نعمت‘‘ سے نوازنا فرض عین سمجھتے ہیں تو ان کو یہ قدم اٹھانے سے پہلے اس کے فوائد ونقصانات کا جائزہ لے لینا چاہئے ۔کیونکہ وہ اس بات کی نگرانی کسی صورت میں نہیں کر سکتے کہ کس وقت کس کی کال آ رہی ہے اور کس کو کی جا رہی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
وقت کا ضیاع:
ہر آدمی کیلئے وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ کسی کا انتظار نہیں کر تا ، موبائل کے پیکجز میں گم ہو کر اس بات کا احساس ہی نہیں ہو تا کہ کتنا وقت ضائع ہو چکا ہے جو کہ اب واپس کسی صورت میں نہیں آ سکتا ۔اسی طرح طالب علم بھی اپنی پڑ ھائی کو دینے والا وقت بھی اس مصیبت میں ضائع کر دیتے ہیں جس سے ان کی تعلیم کا بہت زیادہ حرج ہوتا ہے اور ان کے والدین کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کے خرچ کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے ۔
صحت کا نقصان:
جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے تو اس کا زیادہ استعمال خود اپنے لیے گڑ ھا کھودنے کے مترادف ہے ۔
پیسوں کی فضول خرچی:
اگر موبائل کو جائز طریقے سے استعما ل کیاجائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم تو ضرورت کے طور پر استعمال کی گئی ہے لیکن اگر پیکجز کے مختلف قسم کے بچھائے جانے والے جالوں میں پھنس کر انسان اپنی دن رات کی محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی کمائی کو داؤ پر لگاتا رہتا ہے جو کہ بلا فائدہ فضول خرچی میں شامل ہے ۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر سدباب کے طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔
٭ موبائل میں موجود مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اس کا استعمال کیا جائے تو نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو گا ۔
٭ موبائل میں فحش گانے ، لسانی وقومی تعصب پھیلانے والی چیزیں اسلامی معاشرہ میں انتشار کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں لہٰذا ان سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
٭ موبائل فون پر کوئی سادہ سی رِنگ ٹون ہونی چاہیے جو کہ نہ تو قرآنی آیت ہو اور نہ ہی میوزک ۔
٭ مسجد میں داخل ہو تے وقت موبائل کو آف کر دیا جائے یا کم از کم سائیلنٹ (sielent) کر دیا جائے ، اگر نماز سے پہلے بند کر نا بھول جائے تو اگر نماز کے دوران کال آجائے تو اس کو بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کی نماز میں خلل پیدا ہو گا۔
٭ آج کل گانے کی ٹون کو اس بات سے قطع نظر کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے وقار کے منافی ہے اسے فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، اگر کسی کے موبائل پر ہو تو اسے پُرحکمت انداز میں نرمی سے اس کے نقصانات کے بارے میں بتائیں تاکہ وہ اس کو تبدیل کر دے یہ آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہو گا۔
٭ آئے دن سیلولر کمپنیز کی جانب سے دیئے جانے والے بظاہر دلکش پیکجز لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے پیکجز ایکٹیویٹ کروا کر ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں لیکن عقل مند وہ ہے جو اپنا فائدہ خود سمجھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے تاکہ بعد میں اسے نادم نہ ہونا پڑ ے ۔
موجودہ دور میں اس وائرس کا زیادہ تر شکار نوجوان لڑ کے اور لڑ کیا ں ہیں ، جو زندگی کے اس دورانیے پر ہیں جہاں ان کو اپنی ساری توجہ اپنی تعلیم وتربیت پر مرکوز کرنی ہوتی ہے جس کے بعد وہ عملی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں اگر ان کی جوانی اچھے کاموں میں گزری ہو تو یہ مرحلہ بھی بہت آسان ہوتا ہے وگرنہ ندامت و پشیمانی کے علاوہ کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی اور پھر رہ رہ کر اپنے فضول گزرے ہوئے وقت کا خیال آتا ہے اس وقت صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے :’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت‘‘
لہٰذاہمیں چاہئے کہ موبائل ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور اس طرح کی دیگر اشیاء کے فضول استعمال کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو تعلیم وتربیت کے شعبے میں بروئے کا ر لا کر اپنا اور اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کریں تاکہ ہم صحیح طور پر ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

حقوق نسواں اسلام کی روشنی میں

از محترمہ ڈاکٹر طاہرہ کوکب
قسط نمبر : ۳
خواتین کے حقوق و فرائض بحیثیت بہن سیرت طیبہ کی روشنی میں :
عورت کی دوسری حیثیت بہن ہونا ہے ۔ بہنوں کی یا بھائیوں کی بہن اسے بھی تقریبا وہی تمام حقوق حاصل ہیں جو میں اوپر بچیوں کے حقوق میں بیان کر چکی ہوں ۔
بڑ ی بہن بڑ ے بھائی کے حکم میں ہے اور بڑ ا بھائی باپ کی حیثیت رکھتا ہے ۔بقول حضرت تھانوی رحمہ اللہ اسی پر بڑ ی بہن اور چھوٹی بہن کو قیاس کر لینا چاہئے ۔جامع ترمذی کی روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:
من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او ابنتان او اختان فاحسن صحبتھن واتقی اللہ فیھن فلہ الجنہ (سنن الترمذی ، کتاب البر والصلۃ، رقم الحدیث:۱۸۳۹)
’’جس کی تین بچیاں یا تین بہنیں دو بچیاں یا دو بہنیں ہوں ، اس نے انہیں اچھی طرح تربیت دی اور اللہ سے ڈرتا رہا تو فرمایا اس کے لئے جنت ہے ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :’’جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اس میں سے سب سے زیادہ فضیلت اس خرچ پر ہے جو تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے ہو ‘‘ (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ باب فضل الصدقۃ علی العیال)
﴿۱۱﴾عبادت کا حق : اگر عورت بالغ ہو جائے تو اس پر شرعا تمام عبادات کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے ۔یہ اس کا فریضہ بھی ہے اور حق بھی لہذا اسے عبادت سے نہیں روکا جا سکتا جیسا کہ سورہ النحل(آیت :۹۷) ، النسائ(۲۴) اور الاحزاب(۳۷) میں حکم دیا گیا ہے ۔
﴿۱۲﴾نکاح کا حق : عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکا ح کرے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اسے کسی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں آپ ﷺ کے پاس جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :اب تک کئی افراد نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے نکاح کا پیغام دیا ہے ، میں نے ان کے لئے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بات کی مگر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چہرے سے ناگواری کا اظہار کیا ، اس لئے منع کر دیا گیا ، اب تمہاری بات بھی کر لیتے ہیں ۔ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی سے آپ ﷺ نے یہ رشتہ طے فرما دیا ۔ یہ آپ ﷺ کی سیرت تھی ، تعلیمات بھی ملاحظہ فرمائیں آپ ﷺ نے فرمایا : لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن ۔
شادی شدہ کی دوسری شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے اور غیر شادی شدہ کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کریں ۔
اسی طرح نکا ح شغار جس میں باپ اپنی بیٹی یا بھائی اپنی بہن دوسرے کے نکاح میں بلا مہر دے کر اس کے بدلہ اس کی بیٹی یا بہن کو اپنے نکا ح میں لیتا ہے یہ شرعا ممنوع ہے اس لئے کہ عورت مال نہیں ہے جس کا تبادلہ کوئی شخص اپنی مرضی سے کر لے ۔
فرائض :
ایک بہن کے بھی وہی فرائض ہیں جو اوپر میں بیٹی کے فرائض میں بیا ن کر چکی ہوں ، البتہ اس کو اپنے سے چھو ٹو ں پر وہی مقام حاصل ہے جو باپ کو اولاد پر ہوتا ہے ۔ اس حیثیت میں بڑ ی بہن کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو بڑ ے بھائی کی ہیں ۔ اسے چاہئے اپنے چھوٹوں کی تعلیم، تربیت ، ضروریات کی نگرانی کرے ۔
تو نے سیکھی ہی نہیں ہیں انجمن آرائیاں
جان عصمت ، شان عفت ہیں تری تنہائیاں
خواتین کے حقوق وفرائض بحیثیت بیوی سیرت طیبہ کی روشنی میں
عورت کی تیسری حیثیت اور شناخت ’’بیوی ‘‘کی ہے ۔
﴿۳۱﴾مہر کا حق : بیوی کی حیثیت قبول کرتے ہی عورت کو حق حاصل ہوجاتا ے کہ وہ اپنا مہر شوہر سے وصول کرے ۔ اسی طرح عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معقول مہر مقرر کروائے اورمہر میں ملنے والا مال عورت ہی کی ملکیت ہو گا۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ والدین مہر بچی کو دینے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں ۔ یا شوہر ساری زندگی مہر ہی ادا نہیں کرتے بلکہ عورت کو یونہی مجبور کرتے ہیں کہ مہر معاف کر دو اس کی شریعت میں قطعاً اجازت نہیں بلکہ قرآن میں مردوں کو واضح حکم دیا گیا ہے ۔
﴿وَاٰتُوا النِّسَائَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحلَۃً﴾ ’’عورتوں کو ان کا حق مہر پورا پورا ادا کرو۔
اس کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ ﴿فَمَا استَمتَعتُم بِہِ مِنہُنَّ فِاٰتُوہُنَّ اُجُورَہُنَّ فَرِیَضَۃً﴾ یعنی ’’ جن عورتوں سے استفادہ کرو تو ان کا مہر بھی لازماً پورا ادا کرو۔‘‘
ہاں البتہ اگر عورت مہر وصول کرنے کے بعد اپنی خوش دلی سے کچھ یا مکمل مہر شوہر کو واپس کر دے تو اس کیلئے اس مہر کو استعمال کرنا جائز ہے ۔ مہر کتنا ہو اس کی شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد مقرر کرنی چاہی تو ایک بڑ ھیا نے کھڑ ے ہوکر اعتراض کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کو قبول کیا۔ ہاں البتہ فقہاء کی رائے ہے کہ مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے ۔ اختلاف مہر کی صورت میں فیصلہ مہر مثل کی بنیاد پر ہو گا۔
۱۴۔ نفقہ(اخراجات) کا حق: عورت کا دوسرا حق یہ کہ شوہر اس کے کھانے پینے لباس اور رہائش کے اخراجات برداشت کرے عورت مرد سے زیادہ مالدار ہوپھر بھی بیوی کا نفقہ شوہر پر فرض ہے ۔ سورئہ طلاق میں حکم ہے ۔﴿اَسکِنُوہُنَّ مِن حَیثُ سَکَنتُم مِن وُّجدِکُم﴾
’’اپنی حیثیت کے مطابق ان کو رہنے کا مکان دو ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگرشوہر اس حق کو ادا کرنے میں ناکام رہے تو صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عورت کو حق ہے مطالبہ کرے ۔
اما ان تطعمنی واما ان تطلقنی
یا تو مجھے کھلاؤ ورنہ طلا ق دے دو ، سورہ طلاق کے مطابق مرد اپنی وسعت کے مطابق اور عرف کے مطابق خرچ کرنے کا پابند ہے ۔ آپ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا :تطعمھا اذا طعمت وتکسوھا اذا اکتسیت ۔
’’جو تم کھاؤ وہ اپنی بیوی کو کھلاؤ جو تم پہنو اسی درجہ کا لباس اسے پہناؤ ۔ ‘‘
ارشاد نبوی ﷺ ہے : اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جاتا ہے اسمیں بہترین صدقہ وہ ہے جو انسان اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہے ۔ ایک سائل کے جواب میں فرمایا:
انفقہ علی زوجتک ’’مال کو اپنی بیوی پر خرچ کرو ‘‘
فرمایا : ’’بیوی پر خرچ ہونے والے ایک لقمہ پر بھی ثواب ملتا ہے ۔‘‘
﴿۱۵﴾حقوق زوجیت قائم کرنے کا حق : اگر کوئی شوہر بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرنے میں ناکام رہے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے نکا ح فسخ (ختم ) کروالے ۔
ّ﴿۱۶﴾خلع کا حق : اگر شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا نا ممکن نظر آئے ، صلح کی کوئی صورت نہ بن سکے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے خلع حاصل کر کے آزاد ہو جائے ۔
﴿۱۷﴾مساوات کا حق : اگر کسی شخص کی اور بھی بیویا ں ہوں تو مرد پر لازم ہے کہ وہ مساوات کا معاملہ کرے یہ مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :
من کانت لہ امراتان فلم یعدل بینھما جا ء یوم القیامہ وشقہ ساقط ۔
’’جس کی دو بیویاں ہوں وہ ان کے درمیان عدل نہیں کرے گا تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا کاندھا جھکا ہوا ہو گا ۔‘‘
﴿۱۸﴾شوہر کی خدمت اور گھر یلو کام سے انکار کا حق :
فقہاء کرام نے اس بات کی ۔صراحت کی ہے کہ عورت پر گھریلو کام کھا نا پکانا ، کپڑ ے دھونا لا زم نہیں ، اگر شو ہر ملا زم رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس پر ملازم رکھنا لازم ہے ، بلکہ ان سب کاموں کی انجام دہی شوہر کی ذمہ داری ہے ۔ جیسا کہ علامہ کاسا نی نے صراحت فرمائی ہے ۔
﴿۱۹﴾بچے کو دودھ پلا نے سے انکار کا حق :
عورت کو حق ہے عام حالات میں دودھ پلانے سے انکار کر دے اور شوہر دودھ پلانے کے لئے کسی کو ملازم رکھے ، قرآن سے بھی اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے ۔
اگر دودھ پلانے کے مسئلہ پر اختلاف ہو جائے تو شوہر دودھ پلانے کے لئے کسی اور عورت سے معاوضہ پر دودھ پلوائے ۔
﴿۲۰﴾رشتہ دارں سے ملنے کا حق :
بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے محارم سے ملے جلے ، شوہر کو قطع رحمی کی ممانعت ہے ۔ بیوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر اس سے محبت کرے اس حق کا پہلے ذکر آ چکا ہے اسی طرح ایک حق یہ بھی ہے کہ بیوی کی عزت کرے ۔
٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آرمیگاڈون ۔۔۔دہشت گردوں کا عقیدہ

از ابو سلیم
دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی مذہب کو ضرور مانتا ہے کوئی عیسائی ہے تو کوئی یہودی ہے کوئی ہندو ہے تو کوئی بدھ مت اور کوئی اسلام کا پیروکار ہے اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی مذہب نہیں وہ بھی دراصل اپنے آپ کو کیمونیسٹ اور ایقییسٹ کہتے ہیں ۔
لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ’’چور مچائے شور‘‘ کی طرح جولوگ اسلام کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ یہ دہشت گروں کا مذہب ہے انہیں تھوڑ ا سا اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ان کے اندر کیا کیا عقائد پنپ رہے ہیں گنجا اگر ڈاکٹر ہوتو اسے سب سے پہلے اپنا علاج کرنا چاہیے ۔ یہی کچھ آج کل مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان ہورہا ہے اسلام کو دہشتگردی کا مذہب کہنے والے اگر یہ دیکھیں کہ ان کے عیسائی راہب اور پادری آج کل کیا تعلیم دے رہے ہیں تو اگر وہ مخلص ہوں تو شاید امریکہ پر بھی افغانستان جیسی کاروائی کریں ۔
دنیا نے اس بات کو بھلا دیا کہ جب بش نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو بش نے اسے ’’کروسیڈ‘‘ یعنی صلیبی جنگ کہہ کر مخاطب کیا اور پھر اپنے ان الفاظ کو بغیر معذرت کے واپس لے لیا۔
میرا ایک سوال ہے کہ کیا دنیا میں مسلمان ہی دہشت گرد ہیں ؟ جو فلسطین میں گولیوں اورمیزائلوں کا جواب پتھروں سے دیتے ہیں اگر ان کی حکومت صومالیہ پر مستحکم ہوجائے تو ان کیلئے لمحہ فکریہ ہوجاتا ہے ۔ تہذیبوں اور قوموں کو لڑ ا کر اپنا مقصد حاصل کرنے والا امریکہ دیکھے کہ ایک ایسا عقیدہ جو اس کے ایوانوں تک پہنچ چکا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ایسا عقیدہ کہ جس کی بنیاد ہی دہشت گردی ہے ۔
اس کا نام ہے :’’آرمیگاڈون‘‘
جدید عیسائیوں کا (Evengalists) کا ایسا دہشت ناک نظریہ ہے جس نے گذشتہ عشرے میں امریکہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے ۔
اس نظریے کے مطابق دنیا اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور اس کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک ایسی ہولناک جنگ ہو گی جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں ہوئی۔ عیسائی مبلغین کے مطابق یہ جنگ معرکہ حق وباطل ہو گی جس میں دنیا کی بہت بڑ ی آبادی ہلاک ہوجائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ فلسطین کی ایک آبادی میگڈو (جس کا حالیہ نام یروشلم ہے ) میں برپا ہو گی۔ جہاں دنیا بھر کی فوجیں اور ٹینک ایک دوسرے کے باہم مقابل ہوں گے ۔ اس جنگ کا حوالہ عیسائی مبلغین اپنی مقدس کتابوں ’’حزقیل‘‘ ’’جوشوا‘‘ اور ’’بک آف ریویلیشن "Book of Revelation" وغیرہ سے بھی دیتے ہیں ۔
اور پھر یہ قرآن کریم کو دہشت گردی کی کتاب بھی کہتے ہیں ۔
’’جیری فال ویل‘‘ اور ’’پال لنڈ‘‘ جو امریکہ کے بڑ ے مبلغ ہیں اور ان کے کئی ٹی وی چینل بھی چلتے ہیں ان کا اس جنگ کے بارے میں اظہار خیال پڑ ھئیے کہ ہم سب کیلئے اللہ کی ہدایت ہے کہ ہم ایک ہولناک جنگ لڑ یں ۔ ایک ایسی جنگ کہ جس کے بعد تاریخ انسانی ختم ہوجائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک درجن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں چنانچہ ہم دنیا کو یقینی طورسے ختم کرسکتے ہیں ۔
اور ’’جیری فال ویل‘‘ اعلانیہ کہتا ہے کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے جس میں کئی ارب افراد لقمہ اجل بن جائیں گے ۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اسلام کے مبلغین دنیا کو بچانے اور عیسائی مبلغین دنیا کو آگ میں جھونکنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اور امریکہ میں تقریباً پانچ کروڑ بنیاد پرست ہیں جو لا تعداد مذہبی تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جو آرمیگاڈون کے معرکہ خیروشر پر گہرا یقین رکھتے ہیں ۔ اور اس نظریے کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ وہ سرپھرے مذہبی افراد سے لے کر ارباب حکومت تک ، سب میں یکساں اہمیت رکھتا ہے ۔ایک سابق وزیر دفاع’’وائن برگز‘‘ نے 1984ء میں اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جی ہاں ! میں نے مقدس کتاب ’’بک آف ریویلیشن "Book of Revelation" پڑ ھی ہے اور میرا خیال ہے کہ دنیا تیزی سے ختم ہور ہی ہے ۔ سابق امریکی صدر’’ریگن‘‘ نے 1983ء میں ایک امریکی یہودی تنظیم AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قدیم صحیفوں میں آرمیگاڈون کے سلسلے میں پیشن گوئیاں اور ان کی نشانیاں موجود ہیں ۔ یقین کیجئے کہ یہ پیشن گوئیاں یقینی طور پر اس زمانے کو بیان کر رہی ہیں جس سے ہم گزر رہے ہیں ۔ صدر ’’ریگن‘‘ نے ایک اور موقع پر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ وہ گھوڑ وں کی باگ کے برابر اونچا ہو گا اور یہ ساری وادی ’’میگڈو‘‘ (یروشلم) جنگی سامان جانوروں اور انسانوں کے زندہ اجسام کے خون سے بھر جائے گی۔ ایک اہم امریکی شخصیت ’’کلائیڈ‘‘ کے بقول ’’میگڈو‘‘ میں ’’کنعان‘‘ کا قدیم شہر آباد تھا۔ ’’کلائیڈ‘‘ کے بقول جتنی جنگیں یہاں لڑ ی گئی تھیں دنیا میں شاید ہی کہیں اور لڑ ی گئیں ہوں گی۔ ’’کلائیڈ‘‘ نے ایک بار’’میگڈو‘‘ وادی کے پاس اپنے ہمرائیوں کو مخاطب کر کے بڑ ے ہی جذباتی انداز سے کہا تھا کہ میں اس آخری جنگ کے میدان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔
اور پھر اپنے ہمرائیوں سے کہا کہ ’’ہر‘‘ Hur کا لفظ عبرانی زبان میں پہاڑ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور ’’ہرمیگڈو‘‘ کا مطلب ہے ۔میگڈون کا پہاڑ۔ وہ کہتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں دنیا کی عظیم ترین جنگ ہو گی۔ لاکھوں لوگ ٹھیک اسی جگہ ہلاک ہوں گے ۔ اور پھر اس نے کہا کہ مقدس کتاب انجیل کے باب ’’حزقیل‘‘ (38-39 ) میں ایک ایٹمی جنگ بیان کی گئی ہے جس میں دھواں دار بارش ہو گی ، اولے پڑ یں گے ، آگ اور لاوارسے گا، اور زمین پر لرزہ طاری ہو گا جس سے پہاڑ ٹوٹنے لگیں گے ، چٹانیں گرنے لگیں گی اور ہر طرح کی دہشت ناک آوازوں سے دیواریں زمین بوس ہونے لگیں گی۔ پھر کلائیڈ نے کہا کہ اس موقع پر حضرت عیسیں آسمان سے نازل ہوں گے ۔ اور پہلا وار وہ خود کریں گے وہ پانچ ستارے والے جزل ہوں گے ۔ جو نیوٹرون بم کی مانند ایک جدید ہتھیار استعمال کریں گے جس کے استعمال سے لوگ اپنے قدموں پر کھڑ ے رہیں گے لیکن ان کے بدن کا سارا گوشت گل چکا ہو گا۔
مسیحی مبلغین کا کہنا ہے کہ یہی وہ دور ہو گا جب اینٹی کرائسٹ (دجال) بھی سامنے آئے گا جو اپنے وقت کا ذہین ترین اور فراست والا شخص ہو گا جس کی اہلیت سے پوری دنیا قریب میں آجائے گی۔
ایک نام ور ایونجلسٹ ہلٹن ہسٹن(امریکہ) کہتا ہے کہ دنیا کی تقدیر کے بارے میں مسیح دجال کا اعلان ایک عالمگیر پرلیس کانفرنس سے نشر کیا جائے گا جسے سیٹلائٹ کے ذریعے ساری دنیا میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جائے گا۔
’’جیری فال ویل‘‘ کے مطابق مقدس کتاب ’’جان‘‘ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انسان ہیں (تو خدا کا بیٹا کہاں گیا) اور عیسیٰ علیہ السلام ایک سفید گھوڑ ے پر سوار ہوں گے جو آخر کار اس جھوٹے نبی یعنی اینٹی کرائسٹ(دجال) کو آگ کے اس تالاب میں پھینک دیں گے جس میں لاوادہک رہا ہو گا۔
عیسائیوں کی ایک مشہور بائیبل ’’ا سکو فیلڈ‘‘ کے نام سے موسوم ہے جوان میں بہت زیادہ مقبول ہے ۔ اس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام ایک یہودی بادشاہت قائم کرنے آئیں گے ۔
اور یروشلم کی ایک عبادت گاہ (Tempel ) میں ایک تخت پر بیٹھیں گے ۔(یعنی قاتلوں کی نگہبانی) اور وہ ایک دائمی بادشاہ ہوں گے اوردائمی بادشاہت کے مالک ہیں ۔ عیسائی مبشراتی مبلغ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور اس عقیدے کا پرچار کر رہے ہیں کہ یہودی اپنا تیسراہیکل گنبد صخرا اور مسجد اقصیٰ کی جگہ پر بنائیں گے اور ان کا کہنا ہے کہ ہیکل کی تعمیر کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے ۔ اور ہر انسان تقریباً بہ بات جانتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں نکال کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے اور اس کے قریب ایک دوکان میں اس سرنگ کا دروازہ ہے ۔ اور کتنے ہی ایسے عیسائی پادری ہیں جو یہودیت کے طرف دار ہیں ایسے ہی ایک یہودی نظریات کے حامل پادری’’او ون‘‘نے کہا کہ مسلمانوں کی ان مقدس عمارتوں کو تباہ کر دیا جائے گا کیونکہ بائیبل وتورات میں آیا ہے کہ ہیکل کی تعمیر بہت ضروری ہے اور اس علاقے کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے ۔ کٹّر عیسائی پادریوں کا کہنا ہے کہ ہم آخری وقت کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔کٹّر یہودی کی خواہش ہے کہ مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑ ا دیا جائے جس سے مسلم دنیا میں اشتعال پھیل جائے گا پھر اسرائیل کے ساتھ ایک مقدس جنگ ہو گی اور یہ بات مسیح کو مجبور کر دے گی کہ وہ درمیان میں مداخلت کریں ایک بڑ ے امریکی پادری ’’ڈیلوک‘‘ نے کہا کہ اگر یہودی دہشت گرد مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرا (Dome of Rock) کو تباہ کر دینے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے نتیجے میں ایک تیسری عالم گیر جنگ آرمیگاڈون شروع ہو گی اور اگر یہ جنگ شروع ہو بھی گئی تب بھی وہ یہودی مورد الزام نہ ٹھہریں گے کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے ہوں گے وہی خدا کی مرضی ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ چاہے امریکہ افغانستان کی سرزمین پر عورتوں بچوں اور بوڑ ھوں کو بلا دریغ بموں کی چھاؤں میں سلا دے تب بھی قصوروار مرنے والے مسلمان۔ اگر صومالیہ پر حملہ کروائے تو ان میں مجرم بیچارہ مسلمان۔ اور عراق پر حملہ خود شروع کیا بم پہلے خود مارے اب جب دیکھا کہ میری دال تو نہیں گلتی کبھی زرقاوی کو مارا کبھی صدام کو لٹکادیا اگر غور کریں تو یہ سارے کے سارے مسلمان کیوں ہیں کہ جن پر حملہ کیا جاتا ہے ۔ ان کا جرم صرف ایک ہے کہ یہ مسلمان ہیں ۔ اور امریکہ دنیا میں امن پھیلا رہا ہے اس کے بدلے دنیا کی دس فیصد آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا چکا ہے ۔
امریکہ صلیبی جنگوں کا آغاز کر چکالیکن مسلمان اب بھی اپنے فرقوں میں بٹ کر طعن تشنیع ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دینے میں مشغول ہیں ۔ اجتماعی طور پر سب سے امیر ہونے کے باوجود مفلس و کنگال۔ تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے مہنگا تیل خریدنے پر مجبور۔
دنیا میں دہشت گردی کی چھاپ لگوا کر پھرنے والے اس مسلمان کی معیشت کو اس طرح سے تباہ کر دیا گیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے بیچارہ دال اور چینی خریدنے کیلئے چوبیس گھنٹے محنت کرے اور اس محنت کی وجہ سے اس کا جسم کمزور ولاغر ۔ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے سوچنے کی صلاحیات سے عاری۔
یہ ہے مسلمان !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا بنے گا اس کا ؟
نہ کوئی قیادت ہے نہ کوئی سیادت ہے اگر کوئی کرنے کے قابل ہے تو اسے مروادو یا لٹکادو۔
اللہ کیلئے سوچئے سمجھئے ہواؤں کارخ دیکھ کر چلیں مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے اور اگر وہ فراست سے عاری ہوتو وہ کیا ہے ؟
مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسا نہیں اور اگر ڈسا جائے تو اس کا کیا ایمان ہے ۔ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ رہے اور اگر محفوظ نہیں تو اس کی کیسی مسلمانی؟
کچھ بھی نہیں بھنور میں پھنسی ہوئی ایک ناؤ کی طرح۔ یا صحرا میں بھٹکے ہوئے کسی مسافر کی طرح جو کسی معجزے کے انتظار میں زندگی کی سرحد پار کرجائے ۔ یادرکھیے معجزات نبیوں کا خام تھا اور اس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہے جوکچھ کرنا ہے خود کرنا ہے مدد اللہ سے مانگنی ہے بس! یہ ہے حقیقت دنیا کی ۔
چلو ہم نے اسلام کی روح کو پہچانا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا یہودی اور عیسائی مبغلین مذہبی کتابوں کا سہارا لے کر اپنے ماننے والوں میں مسلسل جنگ کی آگ بھڑ کا رہے ہیں ۔
انہوں نے نہ صرف عوام میں بلکہ خود امریکی ایوان میں آرمیگاڈون ( یعنی دنیا کو برباد کرنے ) کا عقیدہ داخل کر دیا ہے ۔ اور دنیا میں مسلسل فساد پھیلا رہے ہیں ۔ اور مسلمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان تو بالکل دبا ہوا ہے ۔
پانی سر تک آ چکا گزرنے سے پہلے سوچنے والے کامیاب ہوں گے ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔
سوچئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھئے ۔ ۔ ۔ اور عمل کیجئے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

روداد تقریری مقابلہ

از طیب معاذ
مؤرخہ 21جنوری بروز جمعرات جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں تحریک دعوت توحید کے زیر اہتمام کراچی کے سلفی مدارس کے درمیان تقریری مقابلہ منعقد ہو اس مقابلہ میں طلبہ کو تقریر کے لیے درج ذیل عنوانات دیئے گئے تھے ۔
۱۔ توحید کی اہمیت و فضیلت ۔
۲۔ توحید کے انفرادی واجتماعی زندگی پر اثرات ۔
تقریبا 8 مدارس کے سولہ طلباء نے اس مقابلہ میں حصہ لیا ، جس میں ججز کے فرائض فضیلۃ الشیخ خلیل الرحمن لکھوی مدیر معھد القرآن کریم ، فضیلۃ الشیخ افضل ضیاء مدیر جامعہ الاحسان الاسلامیہ اور فضیلۃ الشیخ مقبول احمد مکی مدیر ماہنامہ اسوہ حسنہ نے سرانجام دیئے جبکہ تلاوت ونظم کی سعادت بالترتیب قاری تاج الدین اور قاری اظہر( متعلم جامعہ ھذا) کے حصے میں آئی ۔مذکورہ پروگرام کی نظامت محترم محمد کاشف آف لا ہور اور صدارت فضیلۃ الشیخ علامہ نور محمد حفظہ اللہ نائب مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نے فرمائی ۔مجاہد ملت الحاج میاں محمد جمیل حفظہ اللہ کنوینیر تحریک دعوت وتوحید خصوصی طورپر لا ہور سے تشریف لائے ۔
عرفان قدیر متعلم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نے توحید کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ عقیدہ توحید دین اسلام کی فلک بوس عمارت کی عمیق ترین بنیاد ہے ، بنیاد کی پختگی عمارت کی پائیداری کی ضمانت ہوتی ہے ۔ بنیاد جس قدر پختہ اور گہری ہو گی عمارت اسی قدر دیر پا ثابت ہو گی اس لیے دین اسلام میں عقیدہ توحید کو مرکزی مقام حاصل ہے اور قرآن مجید میں بھی اس عقیدہ توحید کو شجرہ طیبہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس کی جڑ یں گہری اور برگ وبار فلک بوس ہیں جبکہ اس کے برعکس شرک ایک بوسیدہ عمارت کی عارضی بنیاد ہے جو مرور زمانہ کے ساتھ مختلف حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے شرک کبھی بت پرستی کی شکل اختیار کرتا ہے تو کبھی اکابر پرستی کی صورت ۔
محترم ذبیح اللہ شا کر متعلم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نے توحید کے انفرادی واجتماعی زندگی کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توحید کی برکات سے بندہ مؤمن کو وہ قلب سلیم عطا ہوتا ہے کہ بندہ اِلَّا الَّذِی فَطَرَنِی فَاِنَّہُ سَیَہدِین کا اقرار کر کے اِنِّی بَرِیئٌ مِمَّا تَعبُُُدُون کہہ کرخود ساختہ معبودوں کا انکار کرتا ہے توحید میں ہی قوموں کی عصمت ، عظمت ، رفعت وآبرو مضمر ہے توحید ہی افراد معاشرہ کی جان ونفس اور مال ومنال کی محافظ ہوتی ہے توحید جس طرح معاشرے اور قوموں کی زندگی کے نشیب وفراز میں رہنمائی کرتے ہے بعینہ اس طرح حالت نزع میں بھی نجات کی ضامن ہے ۔
ججز کے فیصلے کے مطابق محمد عرفان قدیر ، ذبیح اللہ شا کر اور وسیم ا کرم بالترتیب اول ، و وم اور سوم انعام کے حقدار قرار پائے ۔ جن کو محترم خلیل الرحمن لکھوی صاحب ، فضیلۃ الشیخ علامہ نور محمد صاحب اور الحاج میاں محمد جمیل حفظہ اللہ نے اپنے دست مبارک سے انعامات تفویض فرمائے جبکہ انعامات کی تفصیل درج ذیل ہے :پہلا انعام 5000روپے ، دوسرا انعام 4000 اور تیسرا انعام 3000 ۔
اس کے علاوہ مقابلے میں شرکت کرنے والے ہر طالب علم کو محترم میاں محمد جمیل کی کتب کا سیٹ بھی دیا گیا۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بزم اطفال

ازمحمدعثمان

باپ کا احترا م
باپ کا احترام کرو ۔ ۔ ۔ تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے ۔
باپ کی عزت کرو۔ ۔ ۔ تاکہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔
با پ کا حکم مانو ۔ ۔ ۔ تاکہ خوشحال ہو سکو۔
باپ کی باتیں غور سے سنو ۔ ۔ ۔ تاکہ دوسروں کی نہ سننی پڑ یں ۔
باپ کی سختی برداشت کرو۔ ۔ ۔ تاکہ باکمال ہو سکو۔
باپ کے سامنے اونچا نہ بولو ۔ ۔ ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تم کو نیچاکر دے گا۔
باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند کر دے گا۔
باپ ایک کتاب ہے ۔ ۔ ۔ جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں ۔
باپ ایک ذمہ دار ڈرائیور ہے ۔ ۔ ۔ جو گھر کی گاڑ ی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے ۔
باپ ایک مقدس محافظ ہے۔ ۔ ۔ جو ساری زندگی خاندان کی حفاظت کرتا ہے ۔
باپ کے آنسو تمہارے دکھ دینے سے نہ گریں ۔ ۔ ۔ ورنہ خدشہ کہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو جنت سے گرا دے گا۔
باپ کی عزت کرنے والے کو ہی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے ۔
دعا کے رد ہونے کے اسباب
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول نہیں فرماتا؟ تو انہوں نے جواب دیا:
٭ تم اللہ تعالیٰ کو معبود حقیقی مانتے ہو پھر بھی اس کی اطاعت نہیں کرتے ۔
٭ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے کے باوجود فرمانبرداری نہیں کرتے ۔
٭ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے ۔
٭ رب العالمین کی بے شمار نعمتیں شب و روز استعمال کرتے ہو لیکن اس کا شکر ادا نہیں کرتے ۔
٭یہ یقین رکھتے ہو کہ جنت اطاعت کرنے والوں کیلئے ہے مگر اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتے ۔
٭ یہ جانتے ہوئے کہ دوزخ گناہگاروں کیلئے ہے مگر اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے ۔
٭ موت کو اٹل جانتے ہو مگر اس کی تیاری کا سامان نہیں کرتے ۔
٭مردوں کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں دفن کرتے ہو لیکن ان کی موت سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔
٭دوسروں کی عیب جوئی کرتے ہو مگر اپنی برائی ترک کرنے پر تیار نہیں ہو ۔
بھلا ایسے لوگوں کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں ؟؟؟
کس موقع پر کیا کہناچاہیے ؟؟
کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ۔ ۔ ۔ بسم اللہ پڑ ھیں ۔
کلمہ شکر ادا کرنے کیلئے ۔ ۔ ۔ الحمد للہ کہیں ۔
کسی کی تعریف کرنے کیلئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماشا ء اللہ کہیں ۔
اچھی خبر سن کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ کہیں ۔
مدد طلب کرنے کیلئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اللہ کہیں ۔
شکریہ ادا کرنا ہو تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جزاک اللہ کہیں ۔
غلطی ہو جانے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استغفر اللہ کہیں ۔
کسی کو رخصت کرنے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فی امان اللہ کہیں ۔
موت کی خبر یا نقصان ہو جانے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑ ھیں ۔
شیطان کو بھگانے کیلئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لا حول ولا قوۃالا باللہ پڑ ھیں ۔
ملاقات کے موقع پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں ۔
تحفہ ملنے پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارک اللہ کہیں ۔
حضور ا کر م صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر۔ ۔ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں ۔
صحابہ کرام کا نام سن کر ۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنہم
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

تبصرۂ کتب

از محمد طیب معاذ

نام کتاب: برصغیر پاک وہند کے چند تاریخی حقائق
تالیف :محمد احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی حفظہ اللہ ۔
ناشر: دارالفکر
حق مطالعہ: 150
حق کو قبول نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بنیادی وجہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید بھی ہے اہل حق کو باطل قرار دینے کیلئے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں ، کبھی اہل حق کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سعی مذموم کی گئی تو کبھی ان کے نظریات وعقائد پر کیچڑ اچھالا گیا ، مگر الحمد للہ علمائے اہل حدیث نے ہر اعتراض کا مدلل اور مبنی برانصاف جواب دیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی برصغیر پاک وہند میں قندیل محمدی کے پروانوں پر کیے گئے بے سروپا اعتراضات کا شافی جواب ہے ۔
اعتراضات کا اجمالی جائزہ : سید احمد شہید رحمہ اللہ کا رجحان واضح طور پر حنفیت کیطرف تھا ، شاہ اسماعیل شہید حنفی تھے ، سید احمد شہید کی امامت ڈکٹیٹر شپ کا اعلان تھی ، سید نذیر حسین محدث دہلوی انگریز سرکار کے وفادار تھے ، مرزا قادیانی مسلکاً غیر مقلد (اہل حدیث)تھا، علی ھذا القیاس۔بے بنیاد اعتراضا ت کی طویل فہرست ہے جس کا مدلل جواب دینا اہلحدیث جماعت کے ذمہ قرض تھا ، اللہ جزائے خیر دے معروف قلم کار محمد تنزیل الصدیقی حفظہ اللہ کو کہ جنہوں نے اپنے والد بزرگوار مولانا احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ کے شذرات الذہب کو جمع کیا اور ان کی تنقیح وتصویب حواشی لگانے کے بعداپنے گوہر قلم سے اس میں مزید اضافہ کیا ۔ محترم تنزیل الصدیقی حفظہ اللہ تحریر ونگارش کا عمدہ اور نفیس ذوق رکھتے ہیں جس کا مظہر ان کی کتب کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔
مؤلف انتہائی سنجیدہ ، مدبر اور مفکر شخصیت کا مالک ہے مگر حقائق کی تلخی کو بیان کرتے وقت بعض اوقات قلم سے متشدد الفاظ رقم ہو گئے ہیں مگر جن لوگوں نے کتب احناف کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کتابوں کا مقصد تحریر صرف یہ بات باور کرانا ہے کہ تحریک ترک تقلید برصغیر میں ایک فتنہ اور حادثہ فاجعہ ہے تو قلم میں در آئی تلخی در حقیقت احناف کے عمل کا مدلل ردعمل ہے ۔ کیونکہ فریق مخالف کو آئینہ دکھانے کے لیے ان کا اظہار ضروری ہے بقول شاعر:
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
نمایاں خصوصیات
۱۔ ہر بات باحوالہ اور مدلل۔
۲۔ ہر اعتراض کا شافی اور تسلی بخش جواب۔
۳۔مخالفین کا تذکرہ انتہائی ادب واحترام کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
۴۔کسی اہل حدیث عالم یا محقق کی تحریر کو بطور بنیادی دلیل پیش نہیں کیا۔
۵۔ مخالف طبقے کے اکابرین کی تحریریں ہی بطور دفاعی دلیل پیش کی ہیں ۔
۶۔ اقرب ترین اورغیر جانبدار مؤرخ کی تحریریں بھی بطور دلیل پیش کی ہیں ۔
۷۔محتاج بیان مقامات پر مبنی برانصاف حواشی کا التزام ۔
۸۔ رد وہابیت پر لکھی گئی کتابوں کی مفید اور جامع فہرست۔
۹۔ کل عنوانات ۱۰
۳۳۔ مؤرخ شہیر مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ اور محدث زماں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی علمی و فکری تقاریظ۔ (تلک عشرۃ کاملۃ)
کتاب کی ابتداء میں فاضل مصنف نے سخن ہائے گفتنی کے عنوان سے ایک پر مغز مقدمہ سپرد قلم کیا ہے جبکہ کتاب کے آخری باب میں مذکور گزارشات مؤلف کے اخلاص کا مظہر اور ختامہ مسک کامصداق ہے ۔
شیخ الکل سید نذیر حسین رحمہ اللہ پر کیے گئے اعتراضات کا مؤلف (محمد احسن اللہ ڈیانوی رحمہ اللہ) نے صرف الزامی جواب دینے پراکتفا کیا ہے امید ہے کہ محترم تنزیل الرحمن الصدیقی آئندہ ایڈیشن میں اس پر استدراکاً خامہ فرسائی فرمائیں گے ۔
الغرض دار الفکر نے اس کتاب کے ذریعے تاریخ اہل حدیث کا فکر رکھنے والے احباب کے لیے خاصا مواد فراہم کر دیا ہے ۔
۱۳۲کتابوں اورتقریباً ۱۸ رسائل کا خلاصہ اگر ۲۰۲ صفحات میں ۱۵۰روپے کے عوض مل جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہو؟

از خاکسار

"ہیلو !السلام علیکم ، کیا حال ہیں ؟"، دن کے کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور میں نے فون اٹھایاتو دوسری جانب سے بہن کی آواز سن کر حال چال پوچھنا شروع کر دیا۔پتا چلا کہ بھانجے صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور انہیں پٹیل ہسپتال میں داخل کر دیا ہے اور بہن وہیں جا رہی ہیں ۔"میں ابھی نہ آ سکوں گا، ان شاء اللہ رات کو فارغ ہوکر آپ کے پاس آتا ہوں "، دلاسہ دے کر میں نے لائن کاٹ دی چونکہ بہنوئی بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے جبکہ مجھے آفس کے لئے نکلنا تھا۔
"یارپٹیل ہسپتال تک جانا ہے "، رات کے تقریباً ساڑ ھے نو بجے کے قریب رکشے والے سے بھاؤ تاؤ طے کر کے ہسپتال پہنچ گیا اور سیکیورٹی گارڈز کے مضبوط جال کو پھلانگتا ہوا بچوں کے وارڈ تک جاپہنچا۔ننھے منے ہاتھوں میں کینولا لگا دیکھ کر ایک لمحے کو دل بھرآیامگر دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو سنبھال کر بہن سے گفتگو میں محو ہو گیا اتنے میں بہنوئی صاحب بھی آ گئے اور بولے کہ اب ایک اور وارڈ میں شفٹ ہونا ہے وہاں نسبتاً کم رش ہے ۔ دوسری جگہ شفٹ ہونے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو بہنوئی بھی ساتھ ہولئے کہ ساتھ ہی گھرتک چلتے ہیں میں بھی ذرا تازہ دم ہوکر آجاؤں گا، بہن نے مجھے ایک طرف کھینچ کر اپنی سونے کی چین، ہاتھ کے کڑ ے اور انگوٹھی اتار کر دے دی کہ انہیں گھر چھوڑ دینایہاں مناسب نہیں ۔
ہم دونوں گھر آنے کے لئے سیڑ ھیاں اتر کرنیچے آئے تو بہنوئی صاحب بولے یار ٹھیک نہیں لگ رہا ہے تم جاؤ میں صبح آتا ہوں ۔
ہسپتال کے دروازے سے ہی رکشہ میں سوارہوکر جب گھڑ ی پر نظر ڈالی تو پونے بارہ بج چکے تھے اور روشنیوں کے شہر کے باسی تھک ہار کر گھروں میں بیٹھ چکے تھے اور تقریباً سنسان سڑ ک پر رکشہ تیزی سے دوڑ تا چلا جا رہا تھا۔ابھی ہم یو بی ایل کمپلیکس کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ ایک اندھیرے موڑ پر اچانک پیچھے سے پولیس موبائل سامنے آ کر رک گئی۔خاکسار یہی گمان کر رہا تھا کہ رکشے والے سے سو پچاس کامطالبہ کیا جائے گا مگر ایک پولیس اہلکار کود کرموبائل سے اترا اور سیدھا خاکسار کی جانب آ کر بولا : نیچے آجاؤ۔خاکسار اس افتاد سے حیران ہو گیا اور شرافت سے نیچے اتر گیا۔ "یہ کیا ہے ؟"، ہاتھ میں موجود تھیلی کودیکھ کر پولیس والا چلّایا۔یہ ہارڈ ڈسک ہے ، خاکسار نے عاجزانہ عرض کی۔"اتنی رات کو کہاں سے آ رہے ہو؟ اور یہ بتاؤ کہ ہم تمہارا لانڈھی سے پیچھا کر رہے ہیں تم رکے کیوں نہیں ؟ پھر تم پاپوش گئے اور اب یہاں کچرا کنڈی میں کیا پھینک کر آئے ہو؟"، پولیس والے نے ایک دم اتنے سارے الزامات عائد کر دیئے اورخاکسار کے پسینے چھوٹ گئے کہ یا اللہ یہ کیا مصیبت ہے ۔میں نے پولیس والے کو تمیز سے سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب میں ابھی ہسپتال سے آ رہا ہوں میرا بھانجا بیمار ہے مگر وہ اپنی بات پر مُصر تھا اور کسی طرح مجھے موبائل میں بٹھانے پر تُلا ہوا تھا۔میں انکاری ہواتو اس کا لہجہ کرخت ہو گیا اور وہ بدتمیزی سے توتڑ اک پر اتر آیا۔
خاکسار نے ہمت کی اور موبائل میں براجمان اے ایس آئی سے مخاطب ہوا اور اس کو سمجھانا چاہا کہ جناب میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں ہسپتال سے آ رہا ہوں مگر وہ بھی مجھے مجرم ٹھہرا چکا تھا۔اس افرا تفری میں میرے منہ سے صرف یہ دعا نکلی کہ "اللہم انا نجعلک فی نحورہم و نعوذبک من شرورہم"اسی اثنا میں موبائل کا ڈرائیورباہر نکلا، وہ تیس بتیس سال کا باریش نوجوان تھا اس نے خاکسار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرپوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کیا معاملہ ہے ۔خاکسار کی بھرائی ہوئی آواز سن کر اس نے اے ایس آئی سے کہا سر شاید یہ وہ نہیں ہے وہ کہیں گلیوں میں چلا گیا ہو گا۔
اے ایس آئی نے میری جانب ایک نظر دیکھا اور بولا جانے دو یار اسے ۔میری جان میں جان آ گئی میں فوراً رکشے میں سوار ہو ا اور رکشے والے نے سفر شروع کر دیا ۔ذرا دور جا کر ہی اس نے قانون کے محافظوں کو "عظیم القابات"سے نوازنا شروع کر دیا ۔
میں تھکا ہارا گھر پہنچا اور قمیص اتارنے لگا تو کڑ وں کی آواز نے میرے اوسان خطا کر دیئے کہ اگر وہ "محافظ"میری تلاشی لے لیتے اور یہ کڑ ے برآمد ہوجاتے تومیرا بچنا مشکل تھا ۔
معاشرے کے ہر فرد اور قوم کے ہر ادارے کو اصلاح کی ضرورت ہے ۔محکمہ پولیس کی تاریخ کئی شہید پولیس آفیسروں اور اہلکاروں کے خون سے لکھی گئی ہے ۔کئی ماؤں کے سپوت اس ادارے کو ثمر آور بنانے کے لئے اپنا لہو پیش کر چکے ہیں ۔اس ذمہ دار اور اہم ادارے کو کالی بھیڑ وں سے محفوظ کیا جانا چاہئے تھاکہ لوگ جب کسی موبائل کو اپنی گاڑ ی کے آس پاس دیکھیں تو ان میں خوف کی بجائے تحفظ کا احساس بیدار ہو سکے ۔لوگ اپنے بچوں کو پولیس آفیسر بنانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں بلکہ شوق ، جذبہ حب الوطنی اور رغبت سے اپنے بچوں کو قوم کا محافظ بننے دیں ۔اس درجہ عالی کے حصول کے لئے اس ادارے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے ۔جرائم کا سدِ باب ہو۔رہزنی ، قتل وغارت گری اور بدمعاشی جیسے معاشرتی ناسوروں کا قلع قمع ہوجائے ۔ یہ سب کچھ ممکن ہے ناممکن نہیں ، بس ذرا سی توجہ اور احساسِ ذمہ داری بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟