Tuesday, February 2, 2010

حقوق نسواں اسلام کی روشنی میں

از محترمہ ڈاکٹر طاہرہ کوکب
قسط نمبر : ۳
خواتین کے حقوق و فرائض بحیثیت بہن سیرت طیبہ کی روشنی میں :
عورت کی دوسری حیثیت بہن ہونا ہے ۔ بہنوں کی یا بھائیوں کی بہن اسے بھی تقریبا وہی تمام حقوق حاصل ہیں جو میں اوپر بچیوں کے حقوق میں بیان کر چکی ہوں ۔
بڑ ی بہن بڑ ے بھائی کے حکم میں ہے اور بڑ ا بھائی باپ کی حیثیت رکھتا ہے ۔بقول حضرت تھانوی رحمہ اللہ اسی پر بڑ ی بہن اور چھوٹی بہن کو قیاس کر لینا چاہئے ۔جامع ترمذی کی روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:
من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او ابنتان او اختان فاحسن صحبتھن واتقی اللہ فیھن فلہ الجنہ (سنن الترمذی ، کتاب البر والصلۃ، رقم الحدیث:۱۸۳۹)
’’جس کی تین بچیاں یا تین بہنیں دو بچیاں یا دو بہنیں ہوں ، اس نے انہیں اچھی طرح تربیت دی اور اللہ سے ڈرتا رہا تو فرمایا اس کے لئے جنت ہے ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا :’’جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اس میں سے سب سے زیادہ فضیلت اس خرچ پر ہے جو تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے ہو ‘‘ (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ باب فضل الصدقۃ علی العیال)
﴿۱۱﴾عبادت کا حق : اگر عورت بالغ ہو جائے تو اس پر شرعا تمام عبادات کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے ۔یہ اس کا فریضہ بھی ہے اور حق بھی لہذا اسے عبادت سے نہیں روکا جا سکتا جیسا کہ سورہ النحل(آیت :۹۷) ، النسائ(۲۴) اور الاحزاب(۳۷) میں حکم دیا گیا ہے ۔
﴿۱۲﴾نکاح کا حق : عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکا ح کرے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اسے کسی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں آپ ﷺ کے پاس جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :اب تک کئی افراد نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے نکاح کا پیغام دیا ہے ، میں نے ان کے لئے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بات کی مگر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چہرے سے ناگواری کا اظہار کیا ، اس لئے منع کر دیا گیا ، اب تمہاری بات بھی کر لیتے ہیں ۔ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی سے آپ ﷺ نے یہ رشتہ طے فرما دیا ۔ یہ آپ ﷺ کی سیرت تھی ، تعلیمات بھی ملاحظہ فرمائیں آپ ﷺ نے فرمایا : لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن ۔
شادی شدہ کی دوسری شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے اور غیر شادی شدہ کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کریں ۔
اسی طرح نکا ح شغار جس میں باپ اپنی بیٹی یا بھائی اپنی بہن دوسرے کے نکاح میں بلا مہر دے کر اس کے بدلہ اس کی بیٹی یا بہن کو اپنے نکا ح میں لیتا ہے یہ شرعا ممنوع ہے اس لئے کہ عورت مال نہیں ہے جس کا تبادلہ کوئی شخص اپنی مرضی سے کر لے ۔
فرائض :
ایک بہن کے بھی وہی فرائض ہیں جو اوپر میں بیٹی کے فرائض میں بیا ن کر چکی ہوں ، البتہ اس کو اپنے سے چھو ٹو ں پر وہی مقام حاصل ہے جو باپ کو اولاد پر ہوتا ہے ۔ اس حیثیت میں بڑ ی بہن کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو بڑ ے بھائی کی ہیں ۔ اسے چاہئے اپنے چھوٹوں کی تعلیم، تربیت ، ضروریات کی نگرانی کرے ۔
تو نے سیکھی ہی نہیں ہیں انجمن آرائیاں
جان عصمت ، شان عفت ہیں تری تنہائیاں
خواتین کے حقوق وفرائض بحیثیت بیوی سیرت طیبہ کی روشنی میں
عورت کی تیسری حیثیت اور شناخت ’’بیوی ‘‘کی ہے ۔
﴿۳۱﴾مہر کا حق : بیوی کی حیثیت قبول کرتے ہی عورت کو حق حاصل ہوجاتا ے کہ وہ اپنا مہر شوہر سے وصول کرے ۔ اسی طرح عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معقول مہر مقرر کروائے اورمہر میں ملنے والا مال عورت ہی کی ملکیت ہو گا۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ والدین مہر بچی کو دینے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں ۔ یا شوہر ساری زندگی مہر ہی ادا نہیں کرتے بلکہ عورت کو یونہی مجبور کرتے ہیں کہ مہر معاف کر دو اس کی شریعت میں قطعاً اجازت نہیں بلکہ قرآن میں مردوں کو واضح حکم دیا گیا ہے ۔
﴿وَاٰتُوا النِّسَائَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحلَۃً﴾ ’’عورتوں کو ان کا حق مہر پورا پورا ادا کرو۔
اس کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ ﴿فَمَا استَمتَعتُم بِہِ مِنہُنَّ فِاٰتُوہُنَّ اُجُورَہُنَّ فَرِیَضَۃً﴾ یعنی ’’ جن عورتوں سے استفادہ کرو تو ان کا مہر بھی لازماً پورا ادا کرو۔‘‘
ہاں البتہ اگر عورت مہر وصول کرنے کے بعد اپنی خوش دلی سے کچھ یا مکمل مہر شوہر کو واپس کر دے تو اس کیلئے اس مہر کو استعمال کرنا جائز ہے ۔ مہر کتنا ہو اس کی شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد مقرر کرنی چاہی تو ایک بڑ ھیا نے کھڑ ے ہوکر اعتراض کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کو قبول کیا۔ ہاں البتہ فقہاء کی رائے ہے کہ مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے ۔ اختلاف مہر کی صورت میں فیصلہ مہر مثل کی بنیاد پر ہو گا۔
۱۴۔ نفقہ(اخراجات) کا حق: عورت کا دوسرا حق یہ کہ شوہر اس کے کھانے پینے لباس اور رہائش کے اخراجات برداشت کرے عورت مرد سے زیادہ مالدار ہوپھر بھی بیوی کا نفقہ شوہر پر فرض ہے ۔ سورئہ طلاق میں حکم ہے ۔﴿اَسکِنُوہُنَّ مِن حَیثُ سَکَنتُم مِن وُّجدِکُم﴾
’’اپنی حیثیت کے مطابق ان کو رہنے کا مکان دو ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگرشوہر اس حق کو ادا کرنے میں ناکام رہے تو صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عورت کو حق ہے مطالبہ کرے ۔
اما ان تطعمنی واما ان تطلقنی
یا تو مجھے کھلاؤ ورنہ طلا ق دے دو ، سورہ طلاق کے مطابق مرد اپنی وسعت کے مطابق اور عرف کے مطابق خرچ کرنے کا پابند ہے ۔ آپ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا :تطعمھا اذا طعمت وتکسوھا اذا اکتسیت ۔
’’جو تم کھاؤ وہ اپنی بیوی کو کھلاؤ جو تم پہنو اسی درجہ کا لباس اسے پہناؤ ۔ ‘‘
ارشاد نبوی ﷺ ہے : اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جاتا ہے اسمیں بہترین صدقہ وہ ہے جو انسان اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہے ۔ ایک سائل کے جواب میں فرمایا:
انفقہ علی زوجتک ’’مال کو اپنی بیوی پر خرچ کرو ‘‘
فرمایا : ’’بیوی پر خرچ ہونے والے ایک لقمہ پر بھی ثواب ملتا ہے ۔‘‘
﴿۱۵﴾حقوق زوجیت قائم کرنے کا حق : اگر کوئی شوہر بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرنے میں ناکام رہے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے نکا ح فسخ (ختم ) کروالے ۔
ّ﴿۱۶﴾خلع کا حق : اگر شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا نا ممکن نظر آئے ، صلح کی کوئی صورت نہ بن سکے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے خلع حاصل کر کے آزاد ہو جائے ۔
﴿۱۷﴾مساوات کا حق : اگر کسی شخص کی اور بھی بیویا ں ہوں تو مرد پر لازم ہے کہ وہ مساوات کا معاملہ کرے یہ مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :
من کانت لہ امراتان فلم یعدل بینھما جا ء یوم القیامہ وشقہ ساقط ۔
’’جس کی دو بیویاں ہوں وہ ان کے درمیان عدل نہیں کرے گا تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا کاندھا جھکا ہوا ہو گا ۔‘‘
﴿۱۸﴾شوہر کی خدمت اور گھر یلو کام سے انکار کا حق :
فقہاء کرام نے اس بات کی ۔صراحت کی ہے کہ عورت پر گھریلو کام کھا نا پکانا ، کپڑ ے دھونا لا زم نہیں ، اگر شو ہر ملا زم رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس پر ملازم رکھنا لازم ہے ، بلکہ ان سب کاموں کی انجام دہی شوہر کی ذمہ داری ہے ۔ جیسا کہ علامہ کاسا نی نے صراحت فرمائی ہے ۔
﴿۱۹﴾بچے کو دودھ پلا نے سے انکار کا حق :
عورت کو حق ہے عام حالات میں دودھ پلانے سے انکار کر دے اور شوہر دودھ پلانے کے لئے کسی کو ملازم رکھے ، قرآن سے بھی اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے ۔
اگر دودھ پلانے کے مسئلہ پر اختلاف ہو جائے تو شوہر دودھ پلانے کے لئے کسی اور عورت سے معاوضہ پر دودھ پلوائے ۔
﴿۲۰﴾رشتہ دارں سے ملنے کا حق :
بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے محارم سے ملے جلے ، شوہر کو قطع رحمی کی ممانعت ہے ۔ بیوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر اس سے محبت کرے اس حق کا پہلے ذکر آ چکا ہے اسی طرح ایک حق یہ بھی ہے کہ بیوی کی عزت کرے ۔
٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟