Tuesday, February 2, 2010

آرمیگاڈون ۔۔۔دہشت گردوں کا عقیدہ

از ابو سلیم
دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی مذہب کو ضرور مانتا ہے کوئی عیسائی ہے تو کوئی یہودی ہے کوئی ہندو ہے تو کوئی بدھ مت اور کوئی اسلام کا پیروکار ہے اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی مذہب نہیں وہ بھی دراصل اپنے آپ کو کیمونیسٹ اور ایقییسٹ کہتے ہیں ۔
لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ’’چور مچائے شور‘‘ کی طرح جولوگ اسلام کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ یہ دہشت گروں کا مذہب ہے انہیں تھوڑ ا سا اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ان کے اندر کیا کیا عقائد پنپ رہے ہیں گنجا اگر ڈاکٹر ہوتو اسے سب سے پہلے اپنا علاج کرنا چاہیے ۔ یہی کچھ آج کل مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان ہورہا ہے اسلام کو دہشتگردی کا مذہب کہنے والے اگر یہ دیکھیں کہ ان کے عیسائی راہب اور پادری آج کل کیا تعلیم دے رہے ہیں تو اگر وہ مخلص ہوں تو شاید امریکہ پر بھی افغانستان جیسی کاروائی کریں ۔
دنیا نے اس بات کو بھلا دیا کہ جب بش نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو بش نے اسے ’’کروسیڈ‘‘ یعنی صلیبی جنگ کہہ کر مخاطب کیا اور پھر اپنے ان الفاظ کو بغیر معذرت کے واپس لے لیا۔
میرا ایک سوال ہے کہ کیا دنیا میں مسلمان ہی دہشت گرد ہیں ؟ جو فلسطین میں گولیوں اورمیزائلوں کا جواب پتھروں سے دیتے ہیں اگر ان کی حکومت صومالیہ پر مستحکم ہوجائے تو ان کیلئے لمحہ فکریہ ہوجاتا ہے ۔ تہذیبوں اور قوموں کو لڑ ا کر اپنا مقصد حاصل کرنے والا امریکہ دیکھے کہ ایک ایسا عقیدہ جو اس کے ایوانوں تک پہنچ چکا ہے اس کی حقیقت کیا ہے ایسا عقیدہ کہ جس کی بنیاد ہی دہشت گردی ہے ۔
اس کا نام ہے :’’آرمیگاڈون‘‘
جدید عیسائیوں کا (Evengalists) کا ایسا دہشت ناک نظریہ ہے جس نے گذشتہ عشرے میں امریکہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے ۔
اس نظریے کے مطابق دنیا اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور اس کے خاتمے سے پہلے یہاں ایک ایسی ہولناک جنگ ہو گی جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں ہوئی۔ عیسائی مبلغین کے مطابق یہ جنگ معرکہ حق وباطل ہو گی جس میں دنیا کی بہت بڑ ی آبادی ہلاک ہوجائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ فلسطین کی ایک آبادی میگڈو (جس کا حالیہ نام یروشلم ہے ) میں برپا ہو گی۔ جہاں دنیا بھر کی فوجیں اور ٹینک ایک دوسرے کے باہم مقابل ہوں گے ۔ اس جنگ کا حوالہ عیسائی مبلغین اپنی مقدس کتابوں ’’حزقیل‘‘ ’’جوشوا‘‘ اور ’’بک آف ریویلیشن "Book of Revelation" وغیرہ سے بھی دیتے ہیں ۔
اور پھر یہ قرآن کریم کو دہشت گردی کی کتاب بھی کہتے ہیں ۔
’’جیری فال ویل‘‘ اور ’’پال لنڈ‘‘ جو امریکہ کے بڑ ے مبلغ ہیں اور ان کے کئی ٹی وی چینل بھی چلتے ہیں ان کا اس جنگ کے بارے میں اظہار خیال پڑ ھئیے کہ ہم سب کیلئے اللہ کی ہدایت ہے کہ ہم ایک ہولناک جنگ لڑ یں ۔ ایک ایسی جنگ کہ جس کے بعد تاریخ انسانی ختم ہوجائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک درجن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں چنانچہ ہم دنیا کو یقینی طورسے ختم کرسکتے ہیں ۔
اور ’’جیری فال ویل‘‘ اعلانیہ کہتا ہے کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے جس میں کئی ارب افراد لقمہ اجل بن جائیں گے ۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اسلام کے مبلغین دنیا کو بچانے اور عیسائی مبلغین دنیا کو آگ میں جھونکنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اور امریکہ میں تقریباً پانچ کروڑ بنیاد پرست ہیں جو لا تعداد مذہبی تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جو آرمیگاڈون کے معرکہ خیروشر پر گہرا یقین رکھتے ہیں ۔ اور اس نظریے کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ وہ سرپھرے مذہبی افراد سے لے کر ارباب حکومت تک ، سب میں یکساں اہمیت رکھتا ہے ۔ایک سابق وزیر دفاع’’وائن برگز‘‘ نے 1984ء میں اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جی ہاں ! میں نے مقدس کتاب ’’بک آف ریویلیشن "Book of Revelation" پڑ ھی ہے اور میرا خیال ہے کہ دنیا تیزی سے ختم ہور ہی ہے ۔ سابق امریکی صدر’’ریگن‘‘ نے 1983ء میں ایک امریکی یہودی تنظیم AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قدیم صحیفوں میں آرمیگاڈون کے سلسلے میں پیشن گوئیاں اور ان کی نشانیاں موجود ہیں ۔ یقین کیجئے کہ یہ پیشن گوئیاں یقینی طور پر اس زمانے کو بیان کر رہی ہیں جس سے ہم گزر رہے ہیں ۔ صدر ’’ریگن‘‘ نے ایک اور موقع پر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ وہ گھوڑ وں کی باگ کے برابر اونچا ہو گا اور یہ ساری وادی ’’میگڈو‘‘ (یروشلم) جنگی سامان جانوروں اور انسانوں کے زندہ اجسام کے خون سے بھر جائے گی۔ ایک اہم امریکی شخصیت ’’کلائیڈ‘‘ کے بقول ’’میگڈو‘‘ میں ’’کنعان‘‘ کا قدیم شہر آباد تھا۔ ’’کلائیڈ‘‘ کے بقول جتنی جنگیں یہاں لڑ ی گئی تھیں دنیا میں شاید ہی کہیں اور لڑ ی گئیں ہوں گی۔ ’’کلائیڈ‘‘ نے ایک بار’’میگڈو‘‘ وادی کے پاس اپنے ہمرائیوں کو مخاطب کر کے بڑ ے ہی جذباتی انداز سے کہا تھا کہ میں اس آخری جنگ کے میدان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔
اور پھر اپنے ہمرائیوں سے کہا کہ ’’ہر‘‘ Hur کا لفظ عبرانی زبان میں پہاڑ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور ’’ہرمیگڈو‘‘ کا مطلب ہے ۔میگڈون کا پہاڑ۔ وہ کہتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں دنیا کی عظیم ترین جنگ ہو گی۔ لاکھوں لوگ ٹھیک اسی جگہ ہلاک ہوں گے ۔ اور پھر اس نے کہا کہ مقدس کتاب انجیل کے باب ’’حزقیل‘‘ (38-39 ) میں ایک ایٹمی جنگ بیان کی گئی ہے جس میں دھواں دار بارش ہو گی ، اولے پڑ یں گے ، آگ اور لاوارسے گا، اور زمین پر لرزہ طاری ہو گا جس سے پہاڑ ٹوٹنے لگیں گے ، چٹانیں گرنے لگیں گی اور ہر طرح کی دہشت ناک آوازوں سے دیواریں زمین بوس ہونے لگیں گی۔ پھر کلائیڈ نے کہا کہ اس موقع پر حضرت عیسیں آسمان سے نازل ہوں گے ۔ اور پہلا وار وہ خود کریں گے وہ پانچ ستارے والے جزل ہوں گے ۔ جو نیوٹرون بم کی مانند ایک جدید ہتھیار استعمال کریں گے جس کے استعمال سے لوگ اپنے قدموں پر کھڑ ے رہیں گے لیکن ان کے بدن کا سارا گوشت گل چکا ہو گا۔
مسیحی مبلغین کا کہنا ہے کہ یہی وہ دور ہو گا جب اینٹی کرائسٹ (دجال) بھی سامنے آئے گا جو اپنے وقت کا ذہین ترین اور فراست والا شخص ہو گا جس کی اہلیت سے پوری دنیا قریب میں آجائے گی۔
ایک نام ور ایونجلسٹ ہلٹن ہسٹن(امریکہ) کہتا ہے کہ دنیا کی تقدیر کے بارے میں مسیح دجال کا اعلان ایک عالمگیر پرلیس کانفرنس سے نشر کیا جائے گا جسے سیٹلائٹ کے ذریعے ساری دنیا میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جائے گا۔
’’جیری فال ویل‘‘ کے مطابق مقدس کتاب ’’جان‘‘ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انسان ہیں (تو خدا کا بیٹا کہاں گیا) اور عیسیٰ علیہ السلام ایک سفید گھوڑ ے پر سوار ہوں گے جو آخر کار اس جھوٹے نبی یعنی اینٹی کرائسٹ(دجال) کو آگ کے اس تالاب میں پھینک دیں گے جس میں لاوادہک رہا ہو گا۔
عیسائیوں کی ایک مشہور بائیبل ’’ا سکو فیلڈ‘‘ کے نام سے موسوم ہے جوان میں بہت زیادہ مقبول ہے ۔ اس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام ایک یہودی بادشاہت قائم کرنے آئیں گے ۔
اور یروشلم کی ایک عبادت گاہ (Tempel ) میں ایک تخت پر بیٹھیں گے ۔(یعنی قاتلوں کی نگہبانی) اور وہ ایک دائمی بادشاہ ہوں گے اوردائمی بادشاہت کے مالک ہیں ۔ عیسائی مبشراتی مبلغ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور اس عقیدے کا پرچار کر رہے ہیں کہ یہودی اپنا تیسراہیکل گنبد صخرا اور مسجد اقصیٰ کی جگہ پر بنائیں گے اور ان کا کہنا ہے کہ ہیکل کی تعمیر کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے ۔ اور ہر انسان تقریباً بہ بات جانتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں نکال کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے اور اس کے قریب ایک دوکان میں اس سرنگ کا دروازہ ہے ۔ اور کتنے ہی ایسے عیسائی پادری ہیں جو یہودیت کے طرف دار ہیں ایسے ہی ایک یہودی نظریات کے حامل پادری’’او ون‘‘نے کہا کہ مسلمانوں کی ان مقدس عمارتوں کو تباہ کر دیا جائے گا کیونکہ بائیبل وتورات میں آیا ہے کہ ہیکل کی تعمیر بہت ضروری ہے اور اس علاقے کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے ۔ کٹّر عیسائی پادریوں کا کہنا ہے کہ ہم آخری وقت کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔کٹّر یہودی کی خواہش ہے کہ مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑ ا دیا جائے جس سے مسلم دنیا میں اشتعال پھیل جائے گا پھر اسرائیل کے ساتھ ایک مقدس جنگ ہو گی اور یہ بات مسیح کو مجبور کر دے گی کہ وہ درمیان میں مداخلت کریں ایک بڑ ے امریکی پادری ’’ڈیلوک‘‘ نے کہا کہ اگر یہودی دہشت گرد مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرا (Dome of Rock) کو تباہ کر دینے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے نتیجے میں ایک تیسری عالم گیر جنگ آرمیگاڈون شروع ہو گی اور اگر یہ جنگ شروع ہو بھی گئی تب بھی وہ یہودی مورد الزام نہ ٹھہریں گے کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے ہوں گے وہی خدا کی مرضی ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ چاہے امریکہ افغانستان کی سرزمین پر عورتوں بچوں اور بوڑ ھوں کو بلا دریغ بموں کی چھاؤں میں سلا دے تب بھی قصوروار مرنے والے مسلمان۔ اگر صومالیہ پر حملہ کروائے تو ان میں مجرم بیچارہ مسلمان۔ اور عراق پر حملہ خود شروع کیا بم پہلے خود مارے اب جب دیکھا کہ میری دال تو نہیں گلتی کبھی زرقاوی کو مارا کبھی صدام کو لٹکادیا اگر غور کریں تو یہ سارے کے سارے مسلمان کیوں ہیں کہ جن پر حملہ کیا جاتا ہے ۔ ان کا جرم صرف ایک ہے کہ یہ مسلمان ہیں ۔ اور امریکہ دنیا میں امن پھیلا رہا ہے اس کے بدلے دنیا کی دس فیصد آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا چکا ہے ۔
امریکہ صلیبی جنگوں کا آغاز کر چکالیکن مسلمان اب بھی اپنے فرقوں میں بٹ کر طعن تشنیع ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دینے میں مشغول ہیں ۔ اجتماعی طور پر سب سے امیر ہونے کے باوجود مفلس و کنگال۔ تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے مہنگا تیل خریدنے پر مجبور۔
دنیا میں دہشت گردی کی چھاپ لگوا کر پھرنے والے اس مسلمان کی معیشت کو اس طرح سے تباہ کر دیا گیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے بیچارہ دال اور چینی خریدنے کیلئے چوبیس گھنٹے محنت کرے اور اس محنت کی وجہ سے اس کا جسم کمزور ولاغر ۔ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے سوچنے کی صلاحیات سے عاری۔
یہ ہے مسلمان !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا بنے گا اس کا ؟
نہ کوئی قیادت ہے نہ کوئی سیادت ہے اگر کوئی کرنے کے قابل ہے تو اسے مروادو یا لٹکادو۔
اللہ کیلئے سوچئے سمجھئے ہواؤں کارخ دیکھ کر چلیں مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے اور اگر وہ فراست سے عاری ہوتو وہ کیا ہے ؟
مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسا نہیں اور اگر ڈسا جائے تو اس کا کیا ایمان ہے ۔ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ رہے اور اگر محفوظ نہیں تو اس کی کیسی مسلمانی؟
کچھ بھی نہیں بھنور میں پھنسی ہوئی ایک ناؤ کی طرح۔ یا صحرا میں بھٹکے ہوئے کسی مسافر کی طرح جو کسی معجزے کے انتظار میں زندگی کی سرحد پار کرجائے ۔ یادرکھیے معجزات نبیوں کا خام تھا اور اس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہے جوکچھ کرنا ہے خود کرنا ہے مدد اللہ سے مانگنی ہے بس! یہ ہے حقیقت دنیا کی ۔
چلو ہم نے اسلام کی روح کو پہچانا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا یہودی اور عیسائی مبغلین مذہبی کتابوں کا سہارا لے کر اپنے ماننے والوں میں مسلسل جنگ کی آگ بھڑ کا رہے ہیں ۔
انہوں نے نہ صرف عوام میں بلکہ خود امریکی ایوان میں آرمیگاڈون ( یعنی دنیا کو برباد کرنے ) کا عقیدہ داخل کر دیا ہے ۔ اور دنیا میں مسلسل فساد پھیلا رہے ہیں ۔ اور مسلمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان تو بالکل دبا ہوا ہے ۔
پانی سر تک آ چکا گزرنے سے پہلے سوچنے والے کامیاب ہوں گے ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔
سوچئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھئے ۔ ۔ ۔ اور عمل کیجئے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟