Tuesday, February 2, 2010

اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہو؟

از خاکسار

"ہیلو !السلام علیکم ، کیا حال ہیں ؟"، دن کے کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور میں نے فون اٹھایاتو دوسری جانب سے بہن کی آواز سن کر حال چال پوچھنا شروع کر دیا۔پتا چلا کہ بھانجے صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور انہیں پٹیل ہسپتال میں داخل کر دیا ہے اور بہن وہیں جا رہی ہیں ۔"میں ابھی نہ آ سکوں گا، ان شاء اللہ رات کو فارغ ہوکر آپ کے پاس آتا ہوں "، دلاسہ دے کر میں نے لائن کاٹ دی چونکہ بہنوئی بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے جبکہ مجھے آفس کے لئے نکلنا تھا۔
"یارپٹیل ہسپتال تک جانا ہے "، رات کے تقریباً ساڑ ھے نو بجے کے قریب رکشے والے سے بھاؤ تاؤ طے کر کے ہسپتال پہنچ گیا اور سیکیورٹی گارڈز کے مضبوط جال کو پھلانگتا ہوا بچوں کے وارڈ تک جاپہنچا۔ننھے منے ہاتھوں میں کینولا لگا دیکھ کر ایک لمحے کو دل بھرآیامگر دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو سنبھال کر بہن سے گفتگو میں محو ہو گیا اتنے میں بہنوئی صاحب بھی آ گئے اور بولے کہ اب ایک اور وارڈ میں شفٹ ہونا ہے وہاں نسبتاً کم رش ہے ۔ دوسری جگہ شفٹ ہونے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو بہنوئی بھی ساتھ ہولئے کہ ساتھ ہی گھرتک چلتے ہیں میں بھی ذرا تازہ دم ہوکر آجاؤں گا، بہن نے مجھے ایک طرف کھینچ کر اپنی سونے کی چین، ہاتھ کے کڑ ے اور انگوٹھی اتار کر دے دی کہ انہیں گھر چھوڑ دینایہاں مناسب نہیں ۔
ہم دونوں گھر آنے کے لئے سیڑ ھیاں اتر کرنیچے آئے تو بہنوئی صاحب بولے یار ٹھیک نہیں لگ رہا ہے تم جاؤ میں صبح آتا ہوں ۔
ہسپتال کے دروازے سے ہی رکشہ میں سوارہوکر جب گھڑ ی پر نظر ڈالی تو پونے بارہ بج چکے تھے اور روشنیوں کے شہر کے باسی تھک ہار کر گھروں میں بیٹھ چکے تھے اور تقریباً سنسان سڑ ک پر رکشہ تیزی سے دوڑ تا چلا جا رہا تھا۔ابھی ہم یو بی ایل کمپلیکس کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ ایک اندھیرے موڑ پر اچانک پیچھے سے پولیس موبائل سامنے آ کر رک گئی۔خاکسار یہی گمان کر رہا تھا کہ رکشے والے سے سو پچاس کامطالبہ کیا جائے گا مگر ایک پولیس اہلکار کود کرموبائل سے اترا اور سیدھا خاکسار کی جانب آ کر بولا : نیچے آجاؤ۔خاکسار اس افتاد سے حیران ہو گیا اور شرافت سے نیچے اتر گیا۔ "یہ کیا ہے ؟"، ہاتھ میں موجود تھیلی کودیکھ کر پولیس والا چلّایا۔یہ ہارڈ ڈسک ہے ، خاکسار نے عاجزانہ عرض کی۔"اتنی رات کو کہاں سے آ رہے ہو؟ اور یہ بتاؤ کہ ہم تمہارا لانڈھی سے پیچھا کر رہے ہیں تم رکے کیوں نہیں ؟ پھر تم پاپوش گئے اور اب یہاں کچرا کنڈی میں کیا پھینک کر آئے ہو؟"، پولیس والے نے ایک دم اتنے سارے الزامات عائد کر دیئے اورخاکسار کے پسینے چھوٹ گئے کہ یا اللہ یہ کیا مصیبت ہے ۔میں نے پولیس والے کو تمیز سے سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب میں ابھی ہسپتال سے آ رہا ہوں میرا بھانجا بیمار ہے مگر وہ اپنی بات پر مُصر تھا اور کسی طرح مجھے موبائل میں بٹھانے پر تُلا ہوا تھا۔میں انکاری ہواتو اس کا لہجہ کرخت ہو گیا اور وہ بدتمیزی سے توتڑ اک پر اتر آیا۔
خاکسار نے ہمت کی اور موبائل میں براجمان اے ایس آئی سے مخاطب ہوا اور اس کو سمجھانا چاہا کہ جناب میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں ہسپتال سے آ رہا ہوں مگر وہ بھی مجھے مجرم ٹھہرا چکا تھا۔اس افرا تفری میں میرے منہ سے صرف یہ دعا نکلی کہ "اللہم انا نجعلک فی نحورہم و نعوذبک من شرورہم"اسی اثنا میں موبائل کا ڈرائیورباہر نکلا، وہ تیس بتیس سال کا باریش نوجوان تھا اس نے خاکسار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرپوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کیا معاملہ ہے ۔خاکسار کی بھرائی ہوئی آواز سن کر اس نے اے ایس آئی سے کہا سر شاید یہ وہ نہیں ہے وہ کہیں گلیوں میں چلا گیا ہو گا۔
اے ایس آئی نے میری جانب ایک نظر دیکھا اور بولا جانے دو یار اسے ۔میری جان میں جان آ گئی میں فوراً رکشے میں سوار ہو ا اور رکشے والے نے سفر شروع کر دیا ۔ذرا دور جا کر ہی اس نے قانون کے محافظوں کو "عظیم القابات"سے نوازنا شروع کر دیا ۔
میں تھکا ہارا گھر پہنچا اور قمیص اتارنے لگا تو کڑ وں کی آواز نے میرے اوسان خطا کر دیئے کہ اگر وہ "محافظ"میری تلاشی لے لیتے اور یہ کڑ ے برآمد ہوجاتے تومیرا بچنا مشکل تھا ۔
معاشرے کے ہر فرد اور قوم کے ہر ادارے کو اصلاح کی ضرورت ہے ۔محکمہ پولیس کی تاریخ کئی شہید پولیس آفیسروں اور اہلکاروں کے خون سے لکھی گئی ہے ۔کئی ماؤں کے سپوت اس ادارے کو ثمر آور بنانے کے لئے اپنا لہو پیش کر چکے ہیں ۔اس ذمہ دار اور اہم ادارے کو کالی بھیڑ وں سے محفوظ کیا جانا چاہئے تھاکہ لوگ جب کسی موبائل کو اپنی گاڑ ی کے آس پاس دیکھیں تو ان میں خوف کی بجائے تحفظ کا احساس بیدار ہو سکے ۔لوگ اپنے بچوں کو پولیس آفیسر بنانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں بلکہ شوق ، جذبہ حب الوطنی اور رغبت سے اپنے بچوں کو قوم کا محافظ بننے دیں ۔اس درجہ عالی کے حصول کے لئے اس ادارے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے ۔جرائم کا سدِ باب ہو۔رہزنی ، قتل وغارت گری اور بدمعاشی جیسے معاشرتی ناسوروں کا قلع قمع ہوجائے ۔ یہ سب کچھ ممکن ہے ناممکن نہیں ، بس ذرا سی توجہ اور احساسِ ذمہ داری بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟