Tuesday, February 2, 2010

تفسیر سورۃ النور

از شیخ فیض الابرار صدیقی
احکام شرعیہ مستنبطہ:
۱۔ ابتداء اسلام سے زنا کی عقوبت کی کیا کیفیت تھی؟
ابتداء اسلام میں یہ سزا خفیف اور عارضی طور پر تھی کیونکہ لوگوں نے تازہ اسلام قبول کیا تھا اور شریعت اسلامیہ کی حکمت تدریج بتدریج ہوتی ہے یعنی شرعی احکام مرحلہ وار اترے ہیں یعنی حسب حاجت اور ضرورت ، ان کی سزا یہ تھی کہ ان کو ان کے گھروں میں قید کر دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ان کوموت نہ آجائے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے ، پس عورت کو حبس کیا جاتا تھا اور مرد کو توبیخ اور تانیب کی جاتی تھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی حیثیت تعزیری تھی نہ کہ اس کا شمار حدود میں کیا جاتا تھا ۔
۲۔ کنوارے اور شادی شدہ کی سزا کیا ہو گی؟
شریعت اسلامیہ نے دونوں کی سزا میں فرق رکھا ہے ، کنوارے کے لیے سو کوڑ ے اور شادی شدہ کیلئے رجم۔ شادی شدہ کے لیے سزا میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے بعد یہ حرا م کافتنہ وفساد پہلے سے زیادہ شدید ہو تا ہے ۔
سیدنا عبادۃ بن صامت کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: البکر بالبکر جلد مائۃ وتغریب عام والثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم۔
(مسلم، ابو داؤد، ترمذی)
’’ کنورے زانی کو سو کوڑ ے اور ملک بدر کیا جائے جبکہ شادی شدہ زنا کار کو سو کوڑ ے اور رجم کیا جائے ‘‘
۳۔ کیا رجم اور جلد کو جمع کیاجا سکتا ہے ؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ ان دونوں کو جمع نہیں کیا جائے گا ۔
۴۔ کیازانی کو جلا وطن یاملک بدر بھی کیا جائے گا؟
اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کنوارے بدکار کو صرف کوڑ ے لگائے جائیں گے اور جلا وطنی کی سز ا قاضی پر منحصر ہے کہ وہ سنائے یا نہ سنائے ۔
جبکہ جمہور علماء ان دونوں سزاؤں کو جمع کرنے کے حق میں ہیں اور جمہور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تغریب یعنی ملک بدری کی سزا عورت کیلئے نہیں ہے ۔
۵۔ شادی شدہ اگر ذمی ہو تو اس کو کیا سزا دی جائے گی؟
احناف اس پر کوڑ وں کی سزا کے قائل ہیں جبکہ شوافع اور حنابلہ رجم کی طرف مائل ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جب وہ(ذمی لوگ) جزیہ دینا قبول کر لیں تو ان کیلئے وہ کچھ ہے جو مسلمانوں کے لئے ہے اور ان پر وہ کچھ ہے جو کچھ مسلمانوں پرہے ‘‘
۶۔ حدود کو قائم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟
آیت کے ظاہر سے تو یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس آیت کا مخاطب أولی الامر یعنی حاکم وقت ہے کیونکہ اس میں ہی مصلحت ہے اور اگر حاکم یا امام موجود نہیں ہو تو اس کا نائب سزا دے سکتا ہے ۔
۷۔کوڑ ے لگانے کی کیفیت اور صفت کیا ہو گی؟
علماء آیت کے اس جزء ’’ولا تأخذکم بہما رأفۃ‘‘ سے اخذ کرتے ہیں کہ زانی کی سز ا میں کوئی تخفیف نہ ہو گی نہ عدد میں اور نہ کیفیت میں ۔ لیکن امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لفظ ’’فاجلدوا‘‘ جلد سے ماخوذ ہے اور جلد کا معنی معروف ہے یعنی چمڑ ی ، کھال یا جلد اور یہ نہیں کہا گیا کہ ’’فاضربوا‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مار ایسی ہو گی جس کا اثر کھال تک رہے اور زانی کو زخمی نہ کرے ۔ (القرطبی: ۱۲/۱۶۳)
۸۔کیاتمام کوڑ وں کی سزا ایک جیسی ہو گی یا اس میں فرق ہو گا یعنی شراب کی سزا ، قذف کی سزا اور زنا کی سزاَ؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ تمام سزاؤں میں ضرب ایک جیسی ہو گی کیونکہ قرآن وسنت میں کہیں اس کی تفریق نہیں آتی ۔
۹۔ وہ کون سے اعضاء ہیں جن پر حد جاری کی جائے گی؟
جمہور علماء کی رائے ہے کہ کوڑ ے لگاتے وقت چہرے ، ستر پوش کے اعضاء اور جوڑ وں سے اجتناب کیا جائے گا ، جبکہ امام قرطبی رحمہ اللہ سر پر مارنے سے بھی منع کر تے ہیں ۔
۱۰۔ حدو د میں شفاعت یاسفارش کی حرمت۔
حدو د کے نفاذ میں شفاعت یا سفارش کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ کافرمان ہے :’’من حالت شفاعتہ دون حد من حدود اللہ تعالیٰ فقد ضاد اللہ عزوجل۔‘‘
’’جس کی سفارش یا شفاعت اللہ کی حدود کے نفاذ میں حائل ہو گی اس نے اللہ تعالیٰ سے محاربت اختیار کی ‘‘
۱۱۔ طائفہ سے کیا مراد ہے ؟
﴿ولیشھد عذا بہما طائفۃ من المومنین ﴾
میں طائفہ سے مراد مومنین کی ایک جماعت ہے جو کہ بغرض وصولِ عبرت کے حاضر ہو گی، اور طائفہ سے مراد :
بقول مجاہد رحمہ اللہ کے : ایک اور ایک سے زیادہ
عکرمہ اور عطاء رحمہم اللہ : دو اور دو سے زیادہ
زھری رحمہ اللہ : تین یا اس سے زیادہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما: چار یا اس سے زیادہ۔
اور چوتھی رائے سب سے زیادہ اصح ہے کہ لفظ طائفہ کا اطلاق تین سے زیادہ پر ہو تا ہے ۔
استفادات:
۱۔ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام سے عبرت کا حصول ۔
۲۔ شرم وحیا دین اسلام کا بنیادی جزو ہے ۔
۳۔ اسلام نہ صرف برائیوں سے روکتا ہے بلکہ برائیوں کی طرف جانے والے راستوں سے بھی روکتا ہے ۔
۴۔ اسلام میں طہارت کا تصور سب سے زیادہ مکمل ہے کہ ظاہری طہارت اور معنوی طہارت دونوں کا حصول اسلام کی تعلیمات کا بنیادی محور ہے اور کسی دین میں حیا وعفت کا مکمل تصور نہیں پایا جاتا نتیجہ غیر اسلامی تہذیبیں کس اخلاقی پستی پر پہنچ چکی ہیں ۔
۵۔ زنا کی قباحت اتنی شدید ہے کہ اس کو شرک جیسے جرم کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے جبکہ مشرک کی مغفرت نہیں ہو گی۔
۶۔ مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے جس کا تعلق اللہ سے ہے جبکہ زانی بھی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے ہے جس کا تعلق بندوں سے ہے ۔
۷۔حدود کی ایجاد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی عزت ، عفت وعصمت کے تحفظ کیلئے ہے تاکہ نسب محفوظ رہیں ۔
۸۔ شریعت اسلامیہ کے احکام مسلمانوں کے مصالح کیلئے ہیں ۔
۹۔ قرآن مجید اس امت کا دستور اور آئین ہے ۔
۱۰۔ کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ فاسقہ یا مشرکہ سے شادی کرے اور نہ ہی کسی مسلمان عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی فاسق ، زانی یا مشرک سے شادی کرے ۔
تلک عشرۃکاملۃ
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟