Tuesday, February 2, 2010

معمولات النبی ﷺ

از محمد طیب معاذ
قسط نمبر : ۱۱

نماز مغرب
نماز مغرب کو دن کا وتر کہا جاتا ہے ، نماز مغرب کا آغاز سورج کے غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے اور شفق کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے ۔
دلیل: عن عبد اللہ بن عمر قال قال النبی ﷺ : وقت صلا ۃ المغرب اذا غابت الشمس مالم یغب الشفق ۔(مسلم)
’’ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا: مغرب کی نماز کا وقت سورج کے غروب ہونے سے لیکر اس وقت تک ہے جب تک شفق کی سرخی غائب نہ ہو جائے ‘‘
شفق کیا ہے ؟
شفق کی تعریف میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، فقہاء حنفیہ نے شفق سے مراد وہ سفیدی لی ہے جو کہ مغرب کی طرف سرخی کے غائب ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے اس لیے احناف کے ہاں مغرب کا وقت سرخی غائب ہو جانے تک ہے جبکہ مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک شفق سرخی ہی ہے اور نماز مغرب کا وقت اس سرخی کے غائب ہونے تک رہتا ہے ۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
لیکن نماز مغرب کو اول وقت میں پڑ ھنا افضل ہے اور اس کو بلا وجہ مؤخر کرنا سخت مکروہ ہے ۔
دلیل: عن انس بن مالک قال : کنّا نصلی المغرب مع النبی ؑﷺ ثُم نرمی فیری احدنا موضع نبلہ ۔
(ابو داؤد ، ۴۱۶، ص:۱۶۵، ج: ۱، باب فی وقت المغرب)
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز مغرب نبی ا کرم ﷺ کے ساتھ پڑ ھتے پھر تیراندازی کرتے تو ہر ایک تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ لیتا تھا۔یعنی نماز مغرب کے بعد اتنی سفیدی (روشنی)باقی ہوتی کہ دور کی چیز نظر آ جاتی تھی ۔
۲۔ عن سلمۃ بن اکوع قال : کان النبی ﷺ یصلی المغرب ساعۃ تغرب فیہ الشمس اذا غاب حاجبہا۔ (ملخصا از سنن ابی داؤد )
ترجمہ: سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز مغرب غروب آفتاب کے ساتھ ہی پڑ ھ لیتے تھے یعنی سورج کا ایک کنارہ غروب ہوتا تو آپ ﷺ جلدی سے نماز مغرب ادا کرتے ۔
۳۔عن ابی ایوب قال قال النبی ﷺ : لا تزال امتی بخیر او قال علی الفطرۃ مالم یؤخروا المغرب الی ان تشتبک النجوم۔
(ملخصا از سنن ابو داؤد )
ترجمہ: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر یا فطرت پر رہے گی جب تک تارے نظر آنے تک مغرب میں تاخیر نہیں کریگی۔
تنبیہ: ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ قبل ازمغرب دو رکعت نہ پڑ ھی جائیں بلکہ ان دو رکعتوں کی ادائیگی کے بعد جلد از جلد نماز مغرب کاآغازکر دینا چاہئے
نماز مغرب میں قرا ء ت:
نماز مغرب میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت تلاوت کی جا سکتی ہے ۔
دلیل: ثم اقراء ما تیسّر معک من القرآن (اخرجہ السبعۃ واللفظ للبخاری بحوالہ : بلوغ المرام ، ص:۷۸)
ترجمہ: ’’ پھر تم (یعنی سورۃ فاتحہ کے بعد) قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑ ھ سکتے ہو پڑ ھو۔
رسول معظم ﷺ نماز مغرب میں درج ذیل سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے ۔
۱۔ الطور۔ (صحیح بخاری ، مسلم )
۲۔ الاعرا ف ۔ (سنن النسائی )
۳۔ المرسلات ۔ یہ سورت رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کی آخری نماز مغرب میں تلاوت کی ۔ (سنن الترمذی ، ۳۰۸)
۴۔ الانفال ۔ (الطبرانی الکبیر بسند صحیح )
۵۔ التین والزیتون ۔ (البراء بن عازب ، سنن الترمذی )
۶۔ کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ طوال مفصل ، قصار مفصل اور اوساط مفصل میں سے بھی تلاوت کرتے تھے ۔
(ملخصا از صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للشیخ الالبانی ، ص:۸۵)
اوساط مفصل؛ سورۃ بروج سے سورۃ بیّنہ تک
طوال مفصلسورۃ حجراتسے لیکر سورۃ بروج تک
قصار مفصل: سورۃ لم یکن الذین کفروا سے لیکر سورۃ الناس تک ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آپ نماز مغرب میں قصار مفصل سورتیں تلاوت کریں ۔ (سنن الترمذی ، صححہ الالبانی)
گزارش:
ہمارے ہاں جہری نمازوں میں قراء ت کے مسئلہ میں کچھ لوگ سخت موقف اختیار کرتے ہیں ، حقیقت میں اس مسئلہ میں اسلام نے وسعت رکھی ہے ، ائمہ حضرات نمازیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر قراء ت کریں یہی معتدل اور جمہور علماء کا مؤقف ہے ۔ واللہ اعلم بالصوا ب
نماز مغرب کے بعد دورکعت سنتیں رواتبہ (موکدہ) ادا کرنا بھی معمولات محمدیہ ﷺ میں شامل ہے ۔
دلیل : عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال : صلّیت مع رسول اللہ ﷺ رکعتین قبل الظہر ورکعتین بعدہا ورکعتین بعد الجمعۃ ورکعتین بعد المغرب (متفق علیہ )
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے اور دورکعت اس کے بعد ، دو رکعت جمعہ کے بعد، اور دورکعت نماز مغرب کے بعد پڑ ھیں ۔
سنت مغرب میں اکثر رسول ا کرم ﷺ سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص پڑ ھتے تھے ۔ (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للالبانی ، ص:۸۵)
دلیل ۲۔ عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت : کان النبی ﷺ یصلی بالناس المغرب ثم یدخل فیصلی رکعتین(مسلم)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول معظم ﷺ لوگوں کو نماز مغرب پڑ ھا کر پھر (میرے )گھر تشریف لاتے اور دور کعتیں پڑ ھتے تھے
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کوگھر میں اہتما م کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔ اکثر لوگ اس معمول محمدی ﷺکو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ سنن رواتبہ و دیگر نفل نمازیں گھر میں ادا کرنا قولی وفعلی احادیث سے ثابت ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
۱۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال : اجعلوا من صلاتکم فی بیوتکم ولا تتخذواھا قبوراً (صحیح الترغیب والترھیب ج: ۱، ص:۲۱۴)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ تم اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، یعنی قبرستان میں نماز ممنوع ہے اس لیے تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ بلکہ اس میں نفل نمازیں ادا کرو۔
۲۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا قضی احدکم الصلاۃ فی مسجد ہ فلیجعل لبیتہ نصیبا من صلاتہ فان اللہ جاعل فی بیتہ من صلاتہ خیرا۔(ایضا)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم مسجد میں (فرض )نماز سے فارغ ہو جاؤ تو( نفل [L:4 R:228] سنن الرواتبہ ) کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی خاص کر لو کیونکہ گھر میں نماز پڑ ھنے سے اللہ تعالیٰ خیر وبرکت نازل فرماتا ہے ۔
۳۔ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : مثل البیت الذی یذکر اللہ فیہ والبیت الذی لا یذکر اللہ فیہ ، مثل الحی والمیت ۔(ایضا)
ترجمہ: سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نبی ا کرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛ وہ گھر جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور جس میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے ، یعنی جس گھر میں اللہ رب العزت کا ذکر اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے اصل میں اسی گھر کے مکیں حیات سعیدہ گزار رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ مکاں جس کے باسی ذکراللہ کا اہتمام نہیں کرتے وہ زندگی کی حقیقی لذتوں سے ناآشنا ہیں ، ذکر اللہ سے مراد نمازبھی ہے ، کیونکہ قرآن حکیم نے نماز کو بھی ذکر قرار دیا ہے (اقم الصلاۃ لذکری)
بعد از نماز مغرب:
رسول اللہ ﷺ کبھی کبھار نماز مغرب سے لیکر نماز عشاء تک نفل نماز میں مشغول رہتے تھے ۔ (الترغیب والترہیب: ج: ۱، ص:۲۶۹)
اور کبھی اپنی ازواج مطہرات کے پاس اپنا وقت گزارا کرتے تھے ، پھر نماز عشاء پڑ ھ کر جس بیوی کی باری ہوتی اس کے حجرے میں تشریف لے جاتے ، یاد رہے کہ نماز مغرب سے لیکر نماز عشاء تک سونا منع ہے ۔
ضروری وضاحت :
بعض لوگ نماز مغرب کے بعد چھ رکعت سنت کو صلاۃ اوابین سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے ، صحیح احادیث کی روشنی میں قرین انصاف بات یہی ہے کہ صلاۃ الاوابین سے مراد چاشت کی نماز ہے نہ کہ بعد از مغرب چھ رکعتیں ۔ (تفصیل کیلئے فتح الباری لابن حجر ، الترغیب والترھیب للمنذری رحمہم اللہ دیکھیے )لیکن اگر کوئی شخص تقرب الی اللہ کی نیت سے بغیر تحدید اور صلاۃالاوابین کے اجر کی نیت کے بغیر نما زمغرب کے بعد کثرت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کیلیے کوئی امر مانع نہیں ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔(جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟