Tuesday, February 2, 2010

شریعتِ محمدی اور میلاد نبوی ﷺ

از محمد حسان دانش
عید میلاد النبی ا تاریخ کے آئینہ میں :
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے انسانیت کی رہنمائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام نبی آخر الزماں محمد ﷺ اس دنیا فانی سے کوچ فرما کر گئے تو اس وقت باری تعالیٰ کی طرف سے دین کی تکمیل کا اعلان ہو چکا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ۔ (المائدۃ: ۳ )
’’ میں نے تم پر تمہارادین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔‘‘
رسول ا کرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں دین کو ناقص نہ چھوڑ ا بلکہ جو انہیں اللہ تعالی بزرگ وبرتر کی طرف سے پیغام ملا اسے مکمل طور پر لوگوں تک پہنچاکر اپنا فریضۂ نبوت ادا کر دیا کیونکہ ان کو اللہ کی طرف یہ حکم ملا تھا۔﴿یَا اَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ فَاِن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہ﴾(المائدۃ: ۶۷)
’’ اے (اللہ کے ) رسول ﷺ جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل ہو ا اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے ، اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔‘‘
اس گواہی کے بعد ہمیں یقین کامل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پیغام الہٰی لوگوں تک پہنچاکر رسالت کا حق ادا کر دیا ہے گویا کہ دین اسلام میں کوئی کمی نہیں چھوڑ ی اب اگر ہم دین سے کوئی چیز نکالتے ہیں تو اس میں نقص پیدا کرنے کا جرم ہم پر عائد ہوتا ہے ، اگر ہم مزید کوئی چیز اس میں داخل کرتے ہیں تو اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ رسول ا کرم ﷺ نے (نعوذ باللہ ) رسالت کا حق ادا نہیں کیا اس لیے اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :۔’’من ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم أن محمدا خان الرسالۃ لأن اللہ یقول:﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔﴾ (المائدۃ: ۳ )
’’ جس نے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا اسے اچھا سمجھاتو اس نے (نعوذ باللہ ) یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے : میں نے تمہارے لیے تمہارے لیے کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر کے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں پیارے پیغمبر ﷺ نے جتنا دین دیا ہے اسی پر عمل کافی ہے اور یہی جنت میں جانے کا ذریعہ ہے ، اور اگر کوئی محبت رسول ﷺ کا اظہار کرنا چاہے تو اسے بھی خالصتاً دین اسلام پر عمل کرنا ہو گا اس میں کمی کوتاہی کرنے والا تو مجرم ہوتا ہے اور اس میں زیادتی کرنے والے کو بھی مجرم قراردیا گیا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے :
’’مَن اَحدَثَ فِی اَمرِنا ھذا مَا لَیسَ مِنہُ فَھُو رَدّ‘‘(بخاری ومسلم)
’’ جس نے دین میں ایسا نیا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو اس کا کیا گیا یہ کام مردود ٹھہرے گا ‘‘
لیکن ہمارے بعض بھائی محض لاشعوری طور پر محبت رسول ﷺ میں ایسے کام کر بیٹھتے ہیں کہ جن کا دین اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ ایسے کاموں کا کرنا دین میں زیادتی کرنے کے مترادف ہے جن کو ثواب اور تقرب کیلئے کیا جاتا ہے حالانکہ ایسے کام بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور بدعت کے متعلق رسول ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٍ وکُلُّ بِدعَۃٍ ضَلَالَۃ وکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘
’’ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے ‘‘
ان کاموں میں ایک مروجہ عید میلاد النبی ﷺ بھی ہے جسے ربیع الاول کی 12 بارہ تاریخ کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہی بیان کی گئی ہیں ، اس کے منانے کا طریقہ یہ وضع کیا گیا ہے کہ ربیع الاول شروع ہوتے ہی مساجد اور مدارس کے طلباء الٹی ٹوپیاں پہن کر گلی کوچوں میں کھڑ ے ہو جاتے ہیں اور راہ گزرنے والوں سے عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلہ میں ایک ایک دو دو روپے اکھٹے کر رہے ہوتے ہیں ، پھر بارہ ربیع الاول کو اسی جمع شدہ رقم کو ختم دلانے اور جلسے جلوس نکالنے پر خرچ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اہالیان جلوس پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں ، سبیلیں لگتی ہیں منچلے جوان دن کے وقت پگڑ یاں باندھ کر نقلی داڑ ھی مونچھیں لگائے گلی محلوں میں باجے اور شہنایاں بجاتے پھر رہے ہوتے ہیں ، جب اندھیرا پھیلنے لگتا ہے تو سماع اور ناچ گانے کی محفلیں شروع ہو جاتی ہیں ، روضۂ رسول ﷺ اور پہاڑ یوں کی نمائش لگتی ہے جسے مرد تو کیا عورتیں بھی بلا امتیاز کار ثواب خیال کرتے ہوئے اس کی زیارت کرتی ہیں ، اس طرح کی محفل میں لوگ بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ جو ان فضولیات میں شرکت نہ کرے تو اسے گستاخ رسول ﷺ کا لقب دے کر کہا جاتا ہے کہ اسے پیدائش رسول ﷺ کی کوئی خوشی ہی نہیں ہوئی ۔حالانکہ یہ چیزیں اسلام نے سختی سے منع کر دی ہیں اور یہ لوگ کیسی عبادت کرتے ہیں جس میں شروع سے لیکر آخر تک محبت رسول ﷺ کا اظہار ان کے احکامات کو نہ مان کر کیا جاتا ہے اس سے صاحب عقل کس نتیجہ پر پہنچتا ہے ؟؟
محترم قارئین ! اسلام نے ایک مکمل دین ہونے کی حیثیت سے خوشی کے دن بھی متعین فرما دیے اور اس کے ساتھ غم کے دنوں کی بھی وضاحت کر دی ہے ، چنانچہ اسلام کے مقرر کردہ خوشی کے دنوں کے علاوہ زیادتی کا مرتکب ہوتے ہوئے اگرکوئی مزید دن مقرر کرتا ہے اور خوشی منانے کے لیے غیر شرعی طریقے اختیار کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہے اور لوگوں کوگمراہ کرنے کا جرم بھی اس پر عائد ہوتا ہے ، بالکل ایسے ہی عید میلادالنبی ﷺ کا دن بھی ایک طبقے نے اپنی طرف منسوب کیا ہوا ہے جس کا اسلام سے کیا تعلق ہے ؟ آئیے زمانۂ رسول ؑﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو دیکھتے ہیں ۔
عید میلا دالنبی ﷺ کی دور صحابہ میں حیثیت:
رسول اللہ ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا کی گئی نبوت ملنے کے بعد (23) تیئیس مرتبہ یہ دن آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آیا ، کسی جگہ کوئی ثبوت موجود نہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں یہ دن منایا ہو ،
اس کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہو ا جو رسول ا کرم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے 10؁ ھ کو سرور کائنات ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو 10 ؁ ھ سے لیکر 13؁ ھ تک ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رہے ان کی زندگی میں دومرتبہ یہ دن آیا ، 13؁ سے لیکر 24؁ تک سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ دن دس مرتبہ آیا ، 24 ؁ ھ سے لیکر 35؁ ھ تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ دن گیارہ مرتبہ آیا اور 35 ؁ھ سے لیکر 40 ؁ھ تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران یہ دن پانچ مرتبہ آیا ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے آخری صحابی 110؁ھ کو فوت ہوئے اس وقت تک نہ تو کسی صحابی نے یہ دن منایا نہ ہی خلفائے راشدین میں سے کسی کے بارے میں اس دن کو منانے کا ثبوت ملتا ہے ، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو وہ لوگ ہم سے زیادہ نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والے تھے آج ہم سب مل کر نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر واقعی اس دن کی حقیقت ہوتی یا یہ دن شریعت اسلامیہ میں موجود ہے تو صحابہ کرام اس موقع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔
صحابہ کرام کے دور کے بعد تابعین کے زمانہ کو بھی اگر دیکھا جائے آخری تابعی 180؁ھ کو فوت ہوئے اس وقت تک اس دن کے منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔
کچھ عید میلاد النبی ا کی ابتداء کے بارے میں
دین اسلام میں ایجاد کردہ اس تیسری عید کو متعارف کرنے کا سہرا ملک مظفر الدین کوکبوری نے اپنے سر لے کر قیامت تک آنے والے لوگوں میں سے اس بات پرعمل کرنیوالوں کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا۔
حدیث مبارکہ میں اسلام میں برا کام جاری کرنے والے کے بارے میں اس بات کی وضاحت موجود ہے ۔
’’ ومن سن سنۃ سیئۃ فلہ وزر مثل وزر فاعلہ ‘‘
ترجمہ:’’جس نے (اسلام میں ) کوئی براطریقہ جاری کیا تو اس پر اس کے اپنے گنا ہ کا بوجھ اور اس برے طریقے پر عمل پیرا لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی ہو گا۔‘‘
یہ شخص 586 ؁ ھ میں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا اور 604 ؁ھ میں اس نے عید میلاد النبی ﷺ کا آغاز کیا ، تاریخ ابن خلکان میں اس بات کا ذکر اس طرح موجود ہے ۔
شاہ اربل محفل میلاد کو ہر سال نہایت شان وشوکت سے مناتا تھا جب اربل شہر کے اردگرد والوں کو خبر ہوئی کہ شاہ اربل نے ایک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑ ی عقیدت اور شان وشوکت سے انجام دیتا ہے تو بغداد ، موصل ، جزیرہ سجاوند اور دیگر بلاد عجم سے شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کی غرض سے اربل آنا شروع کر دیتے قلعہ کے نزدیک ہی ایک ناچ گھر تعمیر کیا گیا تھا جس میں کثرت سے قبے اور خیمے بنے ہوئے تھے جو کہ ناچ گانے کیلیے مخصوص تھے اب اس بات کو علمائے کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں آئیے ان کے فتویٰ جات کو سامنے رکھ کر اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عیدمیلاد کے بارے میں سابق مفتی اعظم عبد العزیز ابن باز کا فتویٰ :
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا سیرت رسول ﷺ کے ذکر واذکار کیلئے میلا د کی محفلیں آراستہ کرنا جائز ہے ، اس بارے میں کچھ لوگ بدعت حسنہ جبکہ کچھ بدعت سیئیہ کہتے ہیں ؟؟
انہوں نے جواب میں فرمایا:12 ربیع الاول یا کسی بھی مخصوص دن میں اس طرح کی محفلیں مسلمانوں کیلئے جائز نہیں ہیں اس لیے کی جشن ولادت دین میں ایک بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی اپنا یوم پیدائش نہیں منایا ، جبکہ آپ ﷺ دین کے مبلغ اور رب کی شریعت کے مرتب ومنتظم تھے آپ نے نہ تو اس کو منانے کا حکم دیا اور نہ ہی خلفائے راشدین نے کبھی س کو منانے کا اہتمام کیا اور نہ ہی عام صحابہ کرام اور نہ ہی یہ بات تابعین عظام سے ثابت ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ بدعت ہے اور بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمارے دین میں نئی بات داخل کی وہ مردودہے ‘‘ (متفق علیہ)
اور مسلم شریف میں ہے ’’ جو شخص ایسا عمل کرے گا جس پر ہمارا حکم نہ ہوتو وہ عمل مردود ہے ‘‘ اس کے علاوہ رسول ا کرم ﷺ خطبہ میں فرماتے تھے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ۔
جشن میلادالنبی ﷺ کی محفلیں سجانے کی بجائے اگر ہم آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ سے متعلق مساجد ومدارس میں آپ کی ولادت کے بارے میں دروس دیں تو جشن میلاد جیسی بدعت کی ضرورت پیش نہ آئے گی جو نہ تو شریعت الہٰیہ سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی شرعی دلیل قائم کی ۔
(بحوالہ: فتاویٰ عبد العزیز بن باز ، ص:۵۷۷، ۵۷۸)
جشن میلاد کے متعلق مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا فتویٰ:
نبی کریم ﷺ کا یوم پیدائش اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ:
دین اسلام اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اشخاص سے زیادہ ان کے کارناموں کی عزت کرتا ہے جو کسی بڑ ے شخص سے صادر ہوں اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ ، تبع تابعین اور ائمہ ھدی رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی بڑ ے آدمی کا پیدائش کادن یا موت کادن نہیں منایا ۔
یہ جو عوام نے پیدائش کے دن کو ’’میلاد‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور موت کے دن کو ’’عرس‘‘ سے موسوم کیا ہے یہ رسم صدیوں بعد بنائی گئی اور عموما ایسی رسوم کا اہتمام وہی لوگ کرتے ہیں جن کوان سے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے ، عوام بیچارے تو عقیدت کی وجہ سے خسارے میں رہ جاتے ہیں ۔
ابتدائے اسلام سے اکابر اسلام کی پیدائش اور موت کے دن منانے کا اہتمام کیا جاتا تو شاید سال کا کوئی بھی دب کسی میلاد یا عرس شریف سے خالی نہ ہوتا ۔ امت میں الحمدللہ پاک لوگوں کی کمی نہ تھی اگران واقعات اور حوادث کو بطور ایام منایا جاتا تو یقینا بہت سے ضروری اور اچھے کاموں کیلیے وقت نہ بچتا ، سارا وقت مرنے والوں کے احترام اوراہتمام میں گزرتا جبکہ زندوں کی اصلاح اور تعمیر کیلئے شاید ہی تھوڑ ا بہت وقت بچ پاتا۔
سیرت ، وفیات اور رجال کی کتابوں کو پڑ ھ کر ملاحظہ کریں کہ ان سب حضرات نے عرسار میلاد کے اہتمام کیے ہیں یانہیں ؟؟شاید گداگر اور ملّا حضرات تو اسی کاروبار کو کر گزریں کہ اس میں ان کیلئے مالی فائد ہ ہے لیکن عوام الناس کیلئے ضلالت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس بدعت کا آغاز ساتویں صدی کے شروع میں ہو ا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بیسیوں منکرات شامل ہوتے چلے گئے اس کے بعد برسوں تک یہ بدعت متروک رہی اور پھر انگریزکے دور میں ہندوؤں کے بزرگوں کے جنم دن کی تقلید میں اسے دوبارہ شروع کر دیا گیا ۔ حکومت کی لاعلمی کی بناء پر اسے دین کا مسئلہ سمجھ کر تھوڑ ا سا تعاون کیاکیا کہ ملّا حضرات نے اسے پیٹ کا دھندا سمجھ کر محفل کی رونق کا سامان مہیا کر دیا ہے ۔
میرے نزدیک یہ فعل بدعت ہے اس میں کتنی ہی تقدیس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے میں اسے گناہ سمجھتا ہوں اورہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں ان بدعات کو اسلام پسندی کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے پھر ان میں فواحش کا ارتکاب ہوتا ہے جس کوہم روکنے پر قادر نہیں ہیں ۔(بحوالہ: الاعتصام ، 4 ستمبر 1964)
محبت کامعیار:
محبت کا معیار نعرہ بازی نہیں اور نہ ہی محبت کا تقاضا ریا کاری اور دکھلاوا ہے ، محبت زمانی اور مکانی نہیں ہوتی ، الفت دائمی تعلق کا نام ہے جو محب کے دل اور زندگی پر غالب رہتی ہے ، محب رسول ﷺ بننا بہت مشکل ہے اور اگر بننا ہو تو صحابہ کرام ، مہاجرین عظام ، شہدائے احد، مجاہدین بدر اورخصوصا مکی زندگی میں اسلام قبول کرنے والے فرشتہ صفت لوگوں کی سراپا جانثاری اور والہانہ عقیدت سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے ، محبت صرف موسمی نہیں ہے کہ صرف ماہ ربیع الاول میں سیلاب بن کرآئے اورسال کے باقی دنوں میں اس بات کا احساس تک نہ ہوکہ آپ کاکوئی رسول ﷺ بھی ہے جسکی تعلیمات کو اسوہ حسنہ طورپر پیش کیا گیا ہے اور انہی میں دنیا اور آخرت کی بھلائی پوشیدہ رکھی گئی ہے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟