از حسان دانش
کچھ عرصہ پہلے ایک دینی محفل میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام تشریف لائے تھے ، جب مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو نمازِ مغرب کا وقت ہو چکا تھا سو سب لوگ وضو کر کے مسجدکی طرف چلے جا رہے تھے اورتھوڑ ی ہی دیر میں نماز باجماعت کا آغاز ہو گیا ، لیکن چونکہ لوگو ں کا اک جمِ غفیر مسجد میں جمع ہو چکا تھا لہٰذا مسجد کے لاؤڈ سپیکر بھی کھول دیئے گئے ، مگر نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ وہاں ایک ایسا شخص پہلی صف میں نماز کی ادائیگی میں مشغول تھا جس کے موبائل پر نہایت فحش گانا رِنگ ٹون(Ring Tone) کے طور پر لگا ہوا تھا اور دورانِ نماز اس کے موبائل سے گانا بجنا شروع ہو گیا ، وہ پہلی صف میں امام کے قریب ہی کھڑ ا تھا اور لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے گانے کی آواز دوسرے لوگوں تک پہنچنے لگی ، ا س نے موبائل کو آف بھی نہیں کیا اور اس طرح اس کم فہم نے اپنی نماز کے علاوہ دوسرے لوگوں کی نماز میں بھی خلل ڈال کران کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا۔اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا یہ ذکر کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن اس نے اس طرح کے شغل کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اورساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ یہ موبائل ایک رحمت ہے یا پھر باعث زحمت۔ ۔ ۔ ؟؟
نہ جانے لوگ اس قدر کیوں اس بات سے غافل ہو چکے ہیں کہ وہ برابھلا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیوں کہ اگر ہمیں کسی وزیر یا کسی دنیاوی بادشاہ سے ملاقات کرنے کا موقع ملے تو ہم سب سے پہلے اپنے موبائل کو آف کریں گے کہ کہیں دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذا ت تو ان لوگوں سے بہت ہی عظیم ہے مسجد اس کا گھر ہے جس میں ہر کسی کو جانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی اور نما زافضل ترین عبادت ہے ، اس کے باوجود کیوں لاپرواہی برتی جاتی ہے ؟؟؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر ہم کسی بھی چیز کا بغور مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے ، کیونکہ یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے کس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ، مثبت یا منفی؟؟بالکل اسی طرح موبائل بھی بذات خود برا نہیں ہے بلکہ اس کے طریقہ استعمال کو دیکھ کر ہی اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یہ ایک منظم پلاننگ کے تحت کام کیا گیا ہے کہ لوگ زیادہ تر گھروں میں ٹی وی ، کیبل یا گانوں میں وقت گزارتے تھے لہذا اس طرح کے شوقین افراد کیلئے موبائل فون بنانے والی کمپنیز نے ان لوگوں کی مشکل حل کر دی اور موبائل میں ہر وہ چیز ڈا ل دی جس سے وہ لوگ سستی گمراہی خرید سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم اپنی پڑ ھائی کے ٹائم میں ، دفاتر میں کام کرنے والے بعض حضرات ڈیوٹی کے اوقات میں اور کچھ لوگ تو مساجد میں بھی اس کے استعمال سے نہیں چوکتے ۔حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ موبائل کو صرف ضرورت کے وقت اور اسے ضرورت سمجھتے ہوئے ہی استعمال کیا جاتا لیکن اس کے اصل مقصد کے علاوہ اس سے بہت سے دوسرے مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں ۔
رہی سہی کسر موبائل کمپنیز نے پوری کر دی اور اس کو مزید تقویت دینے کیلئے ایسے پیکجز متعارف کروائے ہیں جو کہ خصوصا نوجوان نسل کیلئے قابل تشویش ہیں ۔
مثلاًکسی کمپنی کی طرف سے سستے ترین کال ریٹس پر ساری ساری رات بات کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے
جس سے سب سے پہلے تو سنت مطہرہ کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ رسول ا کرم ﷺعشاء کی نماز سے پہلے سونے اور نمازعشاء کے بعد فضول جاگ کر باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔
دوسرا بڑ ا نقصان وقت کا ضیاع ہے جو آدمی رات کو دیرتک جاگ کر باتیں کرتارہتا ہے تو اوّل تو اس کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے ، سارا دن تھکن میں گزرجاتا ہے اور کسی کام کو دلجمعی سے انجام نہیں دے سکتا۔
اسی طرح کچھ سیلولر کمپنیز نے فری ایس ایم ایس کا پیکج متعارف کروا دیا ہے اس لیے جس کو بھی دیکھو موبائل میں گم نظر آتا ہے او ر ہر جگہ ، ہر وقت نوجوان نسل اس کام کو اپنے فرائض منصبی کی طرح ادا کرتے ہوئے اس کے نتائج سے غافل ہوکر اپنے آپ کو تباہی کے دھانے کی طرف لے جا رہی ہے ۔
اگر اس کے نقصان دہ پہلو پر غور کیا جائے تو وہ باتیں سامنے آتی ہیں جن کا کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کو چھوڑ نے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔
1۔ اسلام کے احکام کی خلاف ورزی :
اسلام لوگوں کو نیکی طرف نہ صرف بلاتا ہے بلکہ اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکی کا حکم دیکر برائی سے بچنے کی تلقین کی جائے ۔ چنانچہ اگر دیکھا جائے تو ساری رات بات کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس سے غیبت ، چغلی اور دیگر برائیوں کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس میں موجود کیمرہ بھی اسلام کے احکامات کے منافی ہے ۔موجودہ دور میں فحش گانے بھی موبائل میموری کا حصہ ہیں ، اول تو گانے نماز کے علاوہ بھی منع ہیں لیکن اگر حالتِ نماز میں گانا بجنا شروع ہو جائے تو اس سے مسجد کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے اور نماز میں بھی خلل آ جاتا ہے ۔
کچھ لوگ اپنے موبائل پر تلاوت کلام پاک کو رِنگ ٹون کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ دوران آیت اگر کال ریسیو کر لی جائے تو آیت نامکمل رہ جاتی ہے اور بعض اوقات بیت الخلاء میں اگر فون آجائے تو قرآنی آیات کی بے ادبی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک نہایت پاکیزہ کلام ہے ۔
اسی طرح جو والدین بغیر ضرورت کے اپنی اولاد کو خاص طور پر اپنی نوجوان بیٹیوں کو کہ جن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی آواز کسی نامحرم کے کان میں نہ پڑ ے ان کو بھی اس ’’نعمت‘‘ سے نوازنا فرض عین سمجھتے ہیں تو ان کو یہ قدم اٹھانے سے پہلے اس کے فوائد ونقصانات کا جائزہ لے لینا چاہئے ۔کیونکہ وہ اس بات کی نگرانی کسی صورت میں نہیں کر سکتے کہ کس وقت کس کی کال آ رہی ہے اور کس کو کی جا رہی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
وقت کا ضیاع:
ہر آدمی کیلئے وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ کسی کا انتظار نہیں کر تا ، موبائل کے پیکجز میں گم ہو کر اس بات کا احساس ہی نہیں ہو تا کہ کتنا وقت ضائع ہو چکا ہے جو کہ اب واپس کسی صورت میں نہیں آ سکتا ۔اسی طرح طالب علم بھی اپنی پڑ ھائی کو دینے والا وقت بھی اس مصیبت میں ضائع کر دیتے ہیں جس سے ان کی تعلیم کا بہت زیادہ حرج ہوتا ہے اور ان کے والدین کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کے خرچ کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے ۔
صحت کا نقصان:
جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے تو اس کا زیادہ استعمال خود اپنے لیے گڑ ھا کھودنے کے مترادف ہے ۔
پیسوں کی فضول خرچی:
اگر موبائل کو جائز طریقے سے استعما ل کیاجائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم تو ضرورت کے طور پر استعمال کی گئی ہے لیکن اگر پیکجز کے مختلف قسم کے بچھائے جانے والے جالوں میں پھنس کر انسان اپنی دن رات کی محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی کمائی کو داؤ پر لگاتا رہتا ہے جو کہ بلا فائدہ فضول خرچی میں شامل ہے ۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر سدباب کے طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔
٭ موبائل میں موجود مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اس کا استعمال کیا جائے تو نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو گا ۔
٭ موبائل میں فحش گانے ، لسانی وقومی تعصب پھیلانے والی چیزیں اسلامی معاشرہ میں انتشار کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں لہٰذا ان سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
٭ موبائل فون پر کوئی سادہ سی رِنگ ٹون ہونی چاہیے جو کہ نہ تو قرآنی آیت ہو اور نہ ہی میوزک ۔
٭ مسجد میں داخل ہو تے وقت موبائل کو آف کر دیا جائے یا کم از کم سائیلنٹ (sielent) کر دیا جائے ، اگر نماز سے پہلے بند کر نا بھول جائے تو اگر نماز کے دوران کال آجائے تو اس کو بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کی نماز میں خلل پیدا ہو گا۔
٭ آج کل گانے کی ٹون کو اس بات سے قطع نظر کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے وقار کے منافی ہے اسے فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، اگر کسی کے موبائل پر ہو تو اسے پُرحکمت انداز میں نرمی سے اس کے نقصانات کے بارے میں بتائیں تاکہ وہ اس کو تبدیل کر دے یہ آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہو گا۔
٭ آئے دن سیلولر کمپنیز کی جانب سے دیئے جانے والے بظاہر دلکش پیکجز لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے پیکجز ایکٹیویٹ کروا کر ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں لیکن عقل مند وہ ہے جو اپنا فائدہ خود سمجھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے تاکہ بعد میں اسے نادم نہ ہونا پڑ ے ۔
موجودہ دور میں اس وائرس کا زیادہ تر شکار نوجوان لڑ کے اور لڑ کیا ں ہیں ، جو زندگی کے اس دورانیے پر ہیں جہاں ان کو اپنی ساری توجہ اپنی تعلیم وتربیت پر مرکوز کرنی ہوتی ہے جس کے بعد وہ عملی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں اگر ان کی جوانی اچھے کاموں میں گزری ہو تو یہ مرحلہ بھی بہت آسان ہوتا ہے وگرنہ ندامت و پشیمانی کے علاوہ کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی اور پھر رہ رہ کر اپنے فضول گزرے ہوئے وقت کا خیال آتا ہے اس وقت صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے :’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت‘‘
لہٰذاہمیں چاہئے کہ موبائل ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور اس طرح کی دیگر اشیاء کے فضول استعمال کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو تعلیم وتربیت کے شعبے میں بروئے کا ر لا کر اپنا اور اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کریں تاکہ ہم صحیح طور پر ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں ۔
کچھ عرصہ پہلے ایک دینی محفل میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام تشریف لائے تھے ، جب مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو نمازِ مغرب کا وقت ہو چکا تھا سو سب لوگ وضو کر کے مسجدکی طرف چلے جا رہے تھے اورتھوڑ ی ہی دیر میں نماز باجماعت کا آغاز ہو گیا ، لیکن چونکہ لوگو ں کا اک جمِ غفیر مسجد میں جمع ہو چکا تھا لہٰذا مسجد کے لاؤڈ سپیکر بھی کھول دیئے گئے ، مگر نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ وہاں ایک ایسا شخص پہلی صف میں نماز کی ادائیگی میں مشغول تھا جس کے موبائل پر نہایت فحش گانا رِنگ ٹون(Ring Tone) کے طور پر لگا ہوا تھا اور دورانِ نماز اس کے موبائل سے گانا بجنا شروع ہو گیا ، وہ پہلی صف میں امام کے قریب ہی کھڑ ا تھا اور لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے گانے کی آواز دوسرے لوگوں تک پہنچنے لگی ، ا س نے موبائل کو آف بھی نہیں کیا اور اس طرح اس کم فہم نے اپنی نماز کے علاوہ دوسرے لوگوں کی نماز میں بھی خلل ڈال کران کا گناہ بھی اپنے سر لے لیا۔اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا یہ ذکر کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن اس نے اس طرح کے شغل کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اورساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ یہ موبائل ایک رحمت ہے یا پھر باعث زحمت۔ ۔ ۔ ؟؟
نہ جانے لوگ اس قدر کیوں اس بات سے غافل ہو چکے ہیں کہ وہ برابھلا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیوں کہ اگر ہمیں کسی وزیر یا کسی دنیاوی بادشاہ سے ملاقات کرنے کا موقع ملے تو ہم سب سے پہلے اپنے موبائل کو آف کریں گے کہ کہیں دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذا ت تو ان لوگوں سے بہت ہی عظیم ہے مسجد اس کا گھر ہے جس میں ہر کسی کو جانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی اور نما زافضل ترین عبادت ہے ، اس کے باوجود کیوں لاپرواہی برتی جاتی ہے ؟؟؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر ہم کسی بھی چیز کا بغور مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز فی نفسہ بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے ، کیونکہ یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے کس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ، مثبت یا منفی؟؟بالکل اسی طرح موبائل بھی بذات خود برا نہیں ہے بلکہ اس کے طریقہ استعمال کو دیکھ کر ہی اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یہ ایک منظم پلاننگ کے تحت کام کیا گیا ہے کہ لوگ زیادہ تر گھروں میں ٹی وی ، کیبل یا گانوں میں وقت گزارتے تھے لہذا اس طرح کے شوقین افراد کیلئے موبائل فون بنانے والی کمپنیز نے ان لوگوں کی مشکل حل کر دی اور موبائل میں ہر وہ چیز ڈا ل دی جس سے وہ لوگ سستی گمراہی خرید سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم اپنی پڑ ھائی کے ٹائم میں ، دفاتر میں کام کرنے والے بعض حضرات ڈیوٹی کے اوقات میں اور کچھ لوگ تو مساجد میں بھی اس کے استعمال سے نہیں چوکتے ۔حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ موبائل کو صرف ضرورت کے وقت اور اسے ضرورت سمجھتے ہوئے ہی استعمال کیا جاتا لیکن اس کے اصل مقصد کے علاوہ اس سے بہت سے دوسرے مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں ۔
رہی سہی کسر موبائل کمپنیز نے پوری کر دی اور اس کو مزید تقویت دینے کیلئے ایسے پیکجز متعارف کروائے ہیں جو کہ خصوصا نوجوان نسل کیلئے قابل تشویش ہیں ۔
مثلاًکسی کمپنی کی طرف سے سستے ترین کال ریٹس پر ساری ساری رات بات کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے
جس سے سب سے پہلے تو سنت مطہرہ کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ رسول ا کرم ﷺعشاء کی نماز سے پہلے سونے اور نمازعشاء کے بعد فضول جاگ کر باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔
دوسرا بڑ ا نقصان وقت کا ضیاع ہے جو آدمی رات کو دیرتک جاگ کر باتیں کرتارہتا ہے تو اوّل تو اس کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے ، سارا دن تھکن میں گزرجاتا ہے اور کسی کام کو دلجمعی سے انجام نہیں دے سکتا۔
اسی طرح کچھ سیلولر کمپنیز نے فری ایس ایم ایس کا پیکج متعارف کروا دیا ہے اس لیے جس کو بھی دیکھو موبائل میں گم نظر آتا ہے او ر ہر جگہ ، ہر وقت نوجوان نسل اس کام کو اپنے فرائض منصبی کی طرح ادا کرتے ہوئے اس کے نتائج سے غافل ہوکر اپنے آپ کو تباہی کے دھانے کی طرف لے جا رہی ہے ۔
اگر اس کے نقصان دہ پہلو پر غور کیا جائے تو وہ باتیں سامنے آتی ہیں جن کا کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کو چھوڑ نے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔
1۔ اسلام کے احکام کی خلاف ورزی :
اسلام لوگوں کو نیکی طرف نہ صرف بلاتا ہے بلکہ اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکی کا حکم دیکر برائی سے بچنے کی تلقین کی جائے ۔ چنانچہ اگر دیکھا جائے تو ساری رات بات کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس سے غیبت ، چغلی اور دیگر برائیوں کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس میں موجود کیمرہ بھی اسلام کے احکامات کے منافی ہے ۔موجودہ دور میں فحش گانے بھی موبائل میموری کا حصہ ہیں ، اول تو گانے نماز کے علاوہ بھی منع ہیں لیکن اگر حالتِ نماز میں گانا بجنا شروع ہو جائے تو اس سے مسجد کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے اور نماز میں بھی خلل آ جاتا ہے ۔
کچھ لوگ اپنے موبائل پر تلاوت کلام پاک کو رِنگ ٹون کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ دوران آیت اگر کال ریسیو کر لی جائے تو آیت نامکمل رہ جاتی ہے اور بعض اوقات بیت الخلاء میں اگر فون آجائے تو قرآنی آیات کی بے ادبی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک نہایت پاکیزہ کلام ہے ۔
اسی طرح جو والدین بغیر ضرورت کے اپنی اولاد کو خاص طور پر اپنی نوجوان بیٹیوں کو کہ جن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی آواز کسی نامحرم کے کان میں نہ پڑ ے ان کو بھی اس ’’نعمت‘‘ سے نوازنا فرض عین سمجھتے ہیں تو ان کو یہ قدم اٹھانے سے پہلے اس کے فوائد ونقصانات کا جائزہ لے لینا چاہئے ۔کیونکہ وہ اس بات کی نگرانی کسی صورت میں نہیں کر سکتے کہ کس وقت کس کی کال آ رہی ہے اور کس کو کی جا رہی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
وقت کا ضیاع:
ہر آدمی کیلئے وقت نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ کسی کا انتظار نہیں کر تا ، موبائل کے پیکجز میں گم ہو کر اس بات کا احساس ہی نہیں ہو تا کہ کتنا وقت ضائع ہو چکا ہے جو کہ اب واپس کسی صورت میں نہیں آ سکتا ۔اسی طرح طالب علم بھی اپنی پڑ ھائی کو دینے والا وقت بھی اس مصیبت میں ضائع کر دیتے ہیں جس سے ان کی تعلیم کا بہت زیادہ حرج ہوتا ہے اور ان کے والدین کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کے خرچ کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے ۔
صحت کا نقصان:
جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے تو اس کا زیادہ استعمال خود اپنے لیے گڑ ھا کھودنے کے مترادف ہے ۔
پیسوں کی فضول خرچی:
اگر موبائل کو جائز طریقے سے استعما ل کیاجائے تو اس پر خرچ ہونے والی رقم تو ضرورت کے طور پر استعمال کی گئی ہے لیکن اگر پیکجز کے مختلف قسم کے بچھائے جانے والے جالوں میں پھنس کر انسان اپنی دن رات کی محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی کمائی کو داؤ پر لگاتا رہتا ہے جو کہ بلا فائدہ فضول خرچی میں شامل ہے ۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر سدباب کے طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔
٭ موبائل میں موجود مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اس کا استعمال کیا جائے تو نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو گا ۔
٭ موبائل میں فحش گانے ، لسانی وقومی تعصب پھیلانے والی چیزیں اسلامی معاشرہ میں انتشار کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں لہٰذا ان سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
٭ موبائل فون پر کوئی سادہ سی رِنگ ٹون ہونی چاہیے جو کہ نہ تو قرآنی آیت ہو اور نہ ہی میوزک ۔
٭ مسجد میں داخل ہو تے وقت موبائل کو آف کر دیا جائے یا کم از کم سائیلنٹ (sielent) کر دیا جائے ، اگر نماز سے پہلے بند کر نا بھول جائے تو اگر نماز کے دوران کال آجائے تو اس کو بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کی نماز میں خلل پیدا ہو گا۔
٭ آج کل گانے کی ٹون کو اس بات سے قطع نظر کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے وقار کے منافی ہے اسے فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، اگر کسی کے موبائل پر ہو تو اسے پُرحکمت انداز میں نرمی سے اس کے نقصانات کے بارے میں بتائیں تاکہ وہ اس کو تبدیل کر دے یہ آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہو گا۔
٭ آئے دن سیلولر کمپنیز کی جانب سے دیئے جانے والے بظاہر دلکش پیکجز لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے پیکجز ایکٹیویٹ کروا کر ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں لیکن عقل مند وہ ہے جو اپنا فائدہ خود سمجھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے تاکہ بعد میں اسے نادم نہ ہونا پڑ ے ۔
موجودہ دور میں اس وائرس کا زیادہ تر شکار نوجوان لڑ کے اور لڑ کیا ں ہیں ، جو زندگی کے اس دورانیے پر ہیں جہاں ان کو اپنی ساری توجہ اپنی تعلیم وتربیت پر مرکوز کرنی ہوتی ہے جس کے بعد وہ عملی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں اگر ان کی جوانی اچھے کاموں میں گزری ہو تو یہ مرحلہ بھی بہت آسان ہوتا ہے وگرنہ ندامت و پشیمانی کے علاوہ کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی اور پھر رہ رہ کر اپنے فضول گزرے ہوئے وقت کا خیال آتا ہے اس وقت صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے :’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت‘‘
لہٰذاہمیں چاہئے کہ موبائل ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور اس طرح کی دیگر اشیاء کے فضول استعمال کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو تعلیم وتربیت کے شعبے میں بروئے کا ر لا کر اپنا اور اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کریں تاکہ ہم صحیح طور پر ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں ۔