Tuesday, September 1, 2009

قرآن اور رمضان کا پیغام

از مقبول احمد مکی

﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾( البقرۃ: ۱۸۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح سے ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں شاید کہ تم متقی بنو۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رحمتوں ، بخششوں ، عظمتوں اور مغفرتوں والا ماہ مقدس سایہ فگن ہورہا ہے ۔مساجد کی رونق بڑ ھ جائے گی فرزندانِ توحید تقوی کے حصول کیلئے دنیاوی ناز ونعم کو ترک کر کے اپنے رب رحیم وکریم کا حکم بجا لانے میں مستعد ہوجائیں گے سارا سال کاہلی اور سستی کرنے والا مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر کوشش کرے گا کہ برے کاموں سے بچا رہے ۔ درحقیقت روزہ اسی کا ہے جو کھانے ، پینے ، شہوت ، غیبت ، بدزبانی ، بداندیشی اور بدعملی سے مکمل اجتناب کرے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے کا نام ہے جو روزے دار روزہ رکھ کر بھی غیبت ، گالی گلوچ، مکروفریب ، رشوت ، قماربازی ، سود خوری ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدنظری سے نہیں رکتے وہ روزے کی روح سے نابلد ہیں ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

مَن لَّم یَدَع قَولَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِہِ فَلَیسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَن یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ ۔(صحیح البخای ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۱۹۰۳)
جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بدعملی سے نہیں رکتا(اس سے کہہ دو) کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں ۔
دوسری جگہ ارشادفرمایا: اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلاَ یَرفُث وَلاَ یَجہَل وَاِنِ امرُؤٌ قَاتَلَہُ أَو شَاتَمَہُ فَلیَقُل إِنِّی صَائِمٌ مَرَّتَینِ ‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الصوم، حدیث نمبر :۱۸۹۱)
ترجمہ: روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بدزبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑ ے یا گالیاں دے تو اسے دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں ۔
اسلام کا مقصد بھی ایسے ہی رجال کارکی تیاری ہے جو خواہشات ، جذبات اور اعمال میں متوازن ہو، جو خواب وخور، گفت وشنید، خندہ وگِریہ، جسم وروح اور دنیا وآخرت میں توازن قائم رکھتے ہوں ۔تمام بد اعمال لوگ مثلاً : راشی اہل کار، انصاف فروش حکّام ، عیاش سرمایہ دار، لامذہب اساتذہ وطلباء اور گراں فروش تجار اس ماہ مقدس میں بھی اس توازن کو اپنے جذبات ، اعمال اور حرکات سے درہم وبرہم کر رہے ہوتے ہیں جبکہ روزہ تو اس توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہے جس طرح فوج کو جفاکش بنانے کیلئے ہر سال ایک دوماہ کیلئے جنگلوں اور پہاڑ وں میں رکھا جاتا ہے جہاں سپاہی ہر روز میلوں پیدل چلتے اور پہروں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اِسے کیمپ لائف کہا جاتا ہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے کیمپ لائف ہے خود ہی غور فرمائیے کہ جولوگ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی فطری محبت کے باوجود چھوڑ کر رب کریم کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر روز کم از کم بارہ گھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں ، سحری کے بعد دیر تک تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں ۔ تمام گنا ہوں سے بچتے ہیں ، پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے تصور میں ڈوبے رہتے ہیں غرباء ، مساکین ، ایتام اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرتے ہیں اپنی کمائی کا خاصہ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو تقدس اور توازن کی مطلوبہ منزل کو پہنچ سکتے ہیں ۔
روزے کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت ہے اس روزے سے نہ صرف تزکیہ نفس ہوتا ہے بلکہ اس کی بدولت انسان مادی خواہشات ، لالچ اور طمع جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرتا ہے اور روزے سے روحانی تربیت ہوتی ہے اس سے ذہنی اور جسمانی نظم وضبط پیدا ہوتا ہے انسانیت سے محبت کا شعور اجاگر ہوتا ہے رمضان میں عبادت کے ذریعے انسان انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت بھی حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں مساوات پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
رمضان المبارک حقوق اللہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص محروم طبقات کی جانب متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ بنتا ہے کیونکہ انسان خود بھوکا پیاسا رہ کر دوسروں کی فاقہ کشی کابخوبی احساس کرسکتا ہے ۔
اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے رمضان و قرآن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس ماہ مقدس میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے دل کی اجڑ ی بستی کو آباد کیا جائے تاکہ وہ دل کے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بن سکے اور اللہ تعالی کا بھی ارشاد گرامی ہے :﴿إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ٭ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ ﴾ (فاطر: (۲۹۔۳۰)
وہ جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالی ان کو پورا پورا اجر عطا فرمائے گا اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا بے شک وہ بڑ ا بخشنے والا اور قدرت والا ہے اور قرآن پاک کی تلاوت سے انسان کے خیالات ، احساسات اور فکر پاک ہوتی ہے جب اس کے اندر پاکیزگی آ جاتی ہے تو ظاہر بھی صاف ہوتا چلا جاتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ
قرآن مجیدکو کثرت کے ساتھ اور سمجھ کر پڑ ھا جائے جس سے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور تعلق باللہ بڑ ھتا ہے۔
قرآن پاک ایک بات بہت زور دے کر کہتا ہے اس پر بھی غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے آخرت کی فکر کرنی چاہیے ۔
روزہ مسلمانوں کو نظم و ضبط ، صبر و استقامت ، ایثارو قربانی، اتحادویگانگت، باہمی اخوت، محبت ، مساوات ، ضرورتمندوں سے حسن سلوک ، انفاق ، مؤثر پلاننگ اور اپنے دشمن کو پہنچانے کا اور اس سے فی سبیل اللہ نبرد آزما ہونے کا بھی درس دیتا ہے ۔
رمضان المبارک تقوی و صبر کا مہینہ ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے طاقت اور جذبہ ایمانی کے عملی مظاہرے کا مہینہ ہے اسی ماہ میں غزوہ بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں نے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دی یہ ماہ رحمت مسلمانوں کو دنیا کے فرعون کے خلاف مقابلہ اور طاغوت کے خلاف کھڑ ا ہو جانے کا پیغام دیتا ہے ۔
ماہِ رمضان مسلمانوں کو درس دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! بلا شبہ روزہ تمہیں صبرو عظمت سکھاتا ہے لیکن صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی مدر پدر آزاد، پلید رحمت دو جہاں ، محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی طرح بھی گستاخی کرے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو نہیں بلکہ غازی عبد القیوم شہید ، غازی علم الدین شہید ، عامر عبدالرحمن چیمہ شہیداور شہیدۃ الحجاب کی طرح اپنی جان سے آگے گزر جاؤ۔
الغرض روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی عملی تربیت کا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت میں کا میابی و کامرانی حا صل ہو سکے اور یہی رمضان المبارک کا پیغام ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

آئیے حدیث رسول پڑھیں

نخبۃ الاحادیث
تالیف : فضیلۃ الشیخ محمد داؤد رازرحمۃ اللہ علیہ

ترجمہ و تشریح
ڈاکٹر عبدالحئی مدنی حفظہ اللہ

اگر کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے
عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہَا قَالَت قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ا : إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُم طَعاَمًا فَلیَقُل بِسمِ اللّٰہِ ، فَإِن نَسِیَ فِی اَوَّلِہِ فَلیَقُل بِسمِ اللّٰہِ فِی أَوَّلِہِ وَآخِرِہِ
تخریج : سنن الترمذی ، کتاب الأطعمۃ ، باب التسمیۃ علی الطعام ، حدیث نمبر :۱۸۵۸
راوی کا تعارف : حدیث نمبر ۵۷ کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں
معانی الکلمات
إِذَا: جب when
أَکَلَ: کھائے Eat
أَحَدُکُم : تم میں کوئی ایک One of you
طَعاَمًا : کھانا Meal/food
فَلیَقُل : تو وہ کہے He may say
بِسمِ اللّٰہِ: اللہ کے نام سے with name of Allah
فَإِن : پس اگر If
نَسِیَ : وہ بھول گیا He forget
فِی اَوَّلِہِ: اس کے شروع میں in its starting
وَآخِرِہِ: اس کے آخر میں in it end
ترجمہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑ ھے ۔ اگر شروع کرتے وقت (یہ پڑ ھنا) بھول جائے تو یہ پڑ ھ لے میں (کھانا)کے شروع اور آخر میں بھی اللہ ہی کا نام لیتا ہوں ۔
تشریح
بلاشبہ اس کائنات کا خالق ، مالک ، رب اللہ تعالیٰ ہی ہے نظام کائنات کا وہ اکیلا منظم اور مدبر ہے ۔ تمام مخلوقات کی تخلیق زندگی وموت، صحت وبیماری ، افزائش نسل، قوت وطاقت ، طرح طرح کی صلاحتیں ، طعام وخوراک وغیرہ کا بندوبست کرنیوالا ہے ۔ چنانچہ اس ارشاد نبوی میں کھانے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ اسی مالک کا نام لیکر شروع کیا جائے اگر بھول جائے تو کھانے کے دوران جب یاد آجائے تویہ الفاظ پڑ ھ لے بِسمِ اللّٰہِ فِی أَوَّلِہِ وَآخِرِہِ اپنی بندگی اور مالک کی بزرگی وبڑ ھائی کے جذبات دل میں تو رہنے ہی چاہیں زبان سے بھی اظہار کرے ۔ نتیجتاً مالک کی رضا وقرب کا حصول ، رزق میں برکت جیسے فوائد ممکن ہوجائیں گے ۔إن شاء اللہ
اگر کوئی کھانے میں بھول جائے تو یہ دعا بھی پڑ ھی جا سکتی ہے عَن عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُم فَلیَذکُرِ اسمَ اللّٰہِ تَعَالَی فَإِن نَسِیَ أَن یَذکُرَ اسمَ اللّٰہِ تَعَالیَ فِی أَوَّلِہِ فَلیَقُل بِسمِ اللّٰہِ أَوَّلَہُ وَآخِرَہُ ۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الأطعمۃ)
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

روزہ کیوں؟

از عبدالرشیدعراقی

صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الإِسلاَمُ عَلیَ خَمسٍ شَہَادَۃُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہُ وَرَسُولُہُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ ، إِیتَائِ الزَّکَوۃِ وَحَجِّ بَیتِ اللّٰہِ وَصَومِ رَمَضَانَ ۔
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے
۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ۲۔ نماز قائم کرنا ۳۔ زکوۃ ادا کرنا ۴۔ بیت اللہ کا حج کرنا ۵۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔

روزہ کا مفہوم
روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے ۔عربی زبان میں اس کو صوم کہتے ہیں جس کے لفظی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں ۔
روزہ کی تاریخ
قدیم زمانے کے سارے تمدنوں اور سارے مذاہب نے اپنے ماننے والوں پر ہر سال چند دن روزے فرض کئے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس بات کی شہادت دی ہے ۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾(البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں عجب بعض کہ تم متقی بن جاؤ۔
روزہ کے بارے میں دوسرا ارشاد ہے : ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآ ن نازل ہوا ، جو لوگوں کیلئے سرتاپا ہدایت ہے ، جو ہدایت وتمیز حق وباطل کی نشانی ہے پس جو اس مہینہ میں موجود رہے وہ روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ دن کے بدلے دوسرے دنوں میں روزے رکھ لے قدر (اللہ)آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور روزے اس لئے فرض ہوئے کہ تم اس عطائے ہدایت پر قدر (اللہ) کی بڑ ائی کرو اورشکر بجا لاؤ۔
ان آیات میں روزہ کے چند احکام، روزہ کی تاریخ ، روزہ کی حقیقت ، رمضان کی ماہیت اور روزہ پر اعتراض کا جواب، یہ تمام امور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ۔
روزہ کی تاریخ
مذکورہ بالا آیات میں قرآن مجید نے تصریح کی ہے کہ روزہ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسلام سے پہلے بھی کل مذاہب کے مجموعہ احکام کا ایک جزو رہا ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۵۳ء؁) لکھتے ہیں کہ
قدیم مصریوں کے ہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا ہے ۔یونان میں صرف عورتیں تھسموفیریا کی تیسری تاریخ کو روزے رکھتی تھیں پارسی مذہب میں گو عام پیروں پر روزہ فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجود تھا۔ خصوصاً مذہبی پیشواؤں کیلئے پنج سالہ روزہ ضروری تھا۔ (سیرۃ النبی ۵/۲۱۲)
روزہ یہودیوں میں
یہودیوں میں بھی روزہ فریضہ الٰہی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس دن بھوکے پیاسے گزارے چنانچہ عام طور سے یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں چالیس دن روزہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں لیکن چالیسویں دن کا روزہ ان پر فرض ہے ۔(سیرۃ النبی ۵/۲۱۲۔۲۱۳)
روزہ عیسائیوں میں
عیسائی مذہب میں بھی روزہ کا وجود ہے لیکن اس کی حقیقت اور تفصیل تشریح طلب ہے ۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے آغاز سے قبل ۴۰ دن روزہ رکھا تھا وہ کفارہ کا روزہ تھا جو موسوی شریعت میں فرض کے درجہ میں ہے وہ اس کو اسی طرح پابندی کے ساتھ رکھتے تھے ۔(ارکان اربعہ ص/۲۵۴)
روزہ ہندو مذہب میں
ہندو مذہب میں بھی روزہ کا وجود ہے ہندو مذہب کا ایک پروفیسر (T.M.P. Mahadevan) جو مدراس یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کا صدر ہے وہ لکھتا ہے : ان تہواروں میں جن کو سالانہ منایا جاتا ہے بعض تہوار روزہ(برت) کیلئے مخصوص ہیں جو تزکیہ نفس کیلئے رکھا جاتا ہے ہر ہندو فرقہ نے دعا عبادت کیلئے کچھ دن مقرر کر لیے ہیں جن میں اکثر افراد روزہ رکھتے ہیں کھانے پینے سے باز رہتے ہیں رات بھر جاگ کر اپنی مذہبی کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں اور مراقبہ کرتے ہیں ۔ (بحوالہ ارکان اربعہ ص/۲۵۱)
تبصرہ
روزہ کا حکم تمام مذاہب میں ملتا ہے لیکن کسی مذہب کے لوگ اتنی بڑ ی تعداد میں روزہ نہیں رکھتے جتنا کہ مسلمان رکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت روزہ رکھتی ہے ۔دنیا کے ہر ملک میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں (ما شاء اللہ) بہر حال یہ مسلّم ہے کہ ہر دین میں روزے کا حکم رہا ہے اور قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ۔
روزہ کے مقاصد
روزہ کے مقاصد کیا ہیں قرآن مجید نے تین فقروں میں بیان کئے ہیں ۔
۱۔ ﴿وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
تاکہ قدر (اللہ)نے جو تم کو ہدایت کی ہے اس پر اس کی عظمت اور بڑ ائی ظاہر کرو۔
۲۔ ﴿وَلَعَلَّکُم تَشکُرُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
تاکہ اس ہدایت کے ملنے پر تم خدا کا شکر ادا کرو۔
۳۔ ﴿لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۳)
تاکہ تم پرہیزگار ہو (یاتم میں تقویٰ پیدا ہو)۔
روزہ کا سب سے بڑ ا مقصد تقویٰ اور دل کی پرہیزگاری اور صفائی ہے ۔
مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گنا ہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑ پ ہوتی ہے اور روزہ کامقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پیدا ہو کہ انسانوں کے دلوں میں گنا ہوں کے اکثر جذبات بہیمی قوت کی افراط سے پیدا ہوتے ہیں روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزور کرتا ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان نوجوانوں کا علاج جو اپنی مالی مجبوریوں کے سبب نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور ساتھ ہی اپنے نفس پر قابو نہیں رکھتے روزہ بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ روزہ شہوت کو توڑ نے اور کم کرنے کیلئے بہترین چیز ہے ۔(سیرۃ النبی ۵/۲۲۳، ۲۲۴)
مولانا ابو الکلام آزاد (متوفی ۱۹۵۸ء؁) لکھتے ہیں کہ پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیز گاری کا ثبوت دے روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے ، روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل بَرشدائد وتکالیف کا عادی بنائے ، روزہ وہ ہے جو ہماری تمام بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے ، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق راستبازی کی شیفتگی اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے اور باقی سب کچھ بمنزلہ وسائل وذرائع کے ہے ۔ (ارکان اسلام ص/۲۸۴)
حافظ ابن القیم (متوفی ۷۵۱ھ؁) روزہ کے مقاصد کے تحت فرماتے ہیں کہ :روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزا د ہو سکے اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کیلئے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے ۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات آئے کہ کتنے مسکین ہیں جو نان شبینہ میں محتاج ہیں وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کر دے اور اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار ومقربین کی ریاضت ہے ۔ (زادالمعاد ۱/۱۵۲)
اس کے بعد حافظ صاحب روزہ کے مقاصدپر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑ ی تاثیر رکھتا ہے فاسد مادہ کے جمع ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے جو چیزیں مانع صحت ہیں ان کو خارج کر دیتا ہے اور اعضاء وجوارح میں جو خرابیاں ہوئیں اور ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں وہ اس سے دفع ہوتی ہیں وہ صحت کیلئے مفید اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے میں بہت معاون ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾(البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں عجب بعض کہ تم متقی بن جاؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الصوم جُنَّۃ روزہ ڈھال ہے ۔
چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہش مند ہو ، اور استطاعت نہ رکھتا ہو روزے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح اور فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے ۔ اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔(زاد المعاد :۱/۱۵۲)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: شریعت اسلامیہ نے روزہ کی ہئیت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی پوری توجہ دی ہے اس نے صرف کھانے ، پینے اور جنسی تعلقات کو حرام ہی نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جو روزہ کے مقاصد کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی اور اخلاقی فوائد کیلئے مضر ہے اس نے روزہ کو ادب وتقویٰ، دل اور زبان کی عظمت وطہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : تم میں سے جوکوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شوروشر کرے اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑ نے جھگڑ نے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں ۔ (بخاری ومسلم بحوالہ ارکان اربعہ ص/۲۸۶)
روزے اور تراویح باعث مغفرت
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ۔(بخاری ومسلم)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھیں ان کے سب گذشتہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح وتہجد) پڑ ھیں گے ان کے بھی سب پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ نوافل پڑ ھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔
اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ روزہ مقبول ہے جو ایمان واحتساب کے جذبہ کے ساتھ رکھا جائے ۔ اور مسلمان اپنے اعمال کے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت وخوشنودی کے وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے انجام دے ۔
روزے کی معافی
روزہ داروں میں بوڑ ھے ، کمزور، بیمار ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے ۔اسلام سے پہلے کے مذاہب میں ہم اس قسم کے معذور اصحاب کیلئے کوئی استثناء نہیں پاتے اسلام نے اس قسم کے تمام اشخاص کو مختلف طریق سے مستثنیٰ کر دیا۔
﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
جو بیمار ہو یا مسافروہ ایام رمضان کے علاوہ اور دنوں میں قضا روزے رکھے اور جو لوگ اس کو مشکل سے برداشت کرسکیں ان کے ذمہ یہ ہے (کہ وہ ) ایک مسکین کا کھانا ہے ۔
قرآن مجید کی اس آیت نے ہر قسم کے معذور لوگوں کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا ہے بچے بھی مستثنیٰ ہیں عورتیں ایام حمل ورضاعت اور دیگر مخصوص ایام میں روزہ سے مستثنیٰ ہیں بوڑ ھے ، بیمار اور مسافر مستثنیٰ ہیں ۔ کمزوراشخاص جو روزہ پر فطرتاً قادر نہیں مستثنیٰ ہیں ، بیمار ، مسافر اور عارضی معذور ، بیماری ، حالت سفر اور عذر کے دفع ہونے کے بعد اتنے دنوں کی قضا بعد کو رکھیں اور جو دائمی طور سے معذور ہیں وہ روزہ کی بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ۔
حالتِ سفر میں رسول اللہ ﷺ نے روزے بھی رکھے ہیں اور افطار بھی کیا ہے بسبب اختلاف وحالات لیکن اگر کوئی شخص باوجود ضعف وعدم تحمل شدائد سفر میں روزے رکھے تو اسلام میں یہ ثواب کاکام نہیں شمار ہو گا۔
آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما قال کان رسول اللہ ﷺ فی سفر فرأی زحاماً ورجلاً قد ظل علیہ فقال ماہن! فقالوا صائماً فقال لیس من البرّ الصوم فی السفر ۔ ( صحیح بخاری)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے تو ایک بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ ایک آدمی کو سایہ کئے ہوئے لوگ کھڑ ے ہیں پوچھا کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : کہ ایک روزہ دار ہے آپ ﷺ نے فرمایا : سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے ۔
لاحاصل روزہ
آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔(بخاری ومسلم)
وہ روزہ جو تقویٰ اور عفاف سے خالی اور محروم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں ۔مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں : پھر کتنے لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک مع صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے ۔
آہ ! میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑ ھتے اور روزے رکھتے ہیں دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے ، بندوں کے حقوق غصب کرتے ، اعزہ واقارب کے فرائض پامال کرتے ، بندگان الٰہی کی غیبتیں کرتے ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے ، طرح طرح کے مکر وفریب کو کام میں لاتے ہیں یعنی اپنے دل کے شکم کو تو گنا ہوں کی کثافت سے آلودہ اور سیر رکھتے ہیں جب کہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا : کم من صائم لیس لہ من صومہ إلا الجوع والعطش کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ (بخاری ، ابن ماجہ ، بحوالہ ارکان اسلام ص/۲۸۵)
روزہ کی قدروقیمت اور اس کا صلہ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے روزہ کی فضیلت اور قدروقیمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑ ھا دیا جاتا ہے (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الٰہی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہو گا ۔ اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص وخشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہو گا یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمائے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا ) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لئے ایک تحفہ ہے اور میں ہی (جس طرح چا ہوں گا )اس کا اجر وثواب دوں گا میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا)۔
روزہ دار کیلئے دو مسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرف بار یابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔(یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بُو اس سے بھی اچھی ہے ) اور روزہ (دنیا میں شیطان ونفس کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بیہودہ اور فحش باتیں نہ بکے اور شوروشغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑ ا وغیرہ کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۴/۱۰۵)
ایک دوسری حدیث جس کو امام بخاری وامام مسلم نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور جس کے راوی سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو باب الریّان کہا جاتا ہے اس دروازہ سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ان کے سوا کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہیں ہو سکے گا اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑ یں گے ان کے سوا کسی اور کا اس دروازہ سے داخلہ نہیں ہو سکے گا جب وہ روزہ دار اس دروازہ سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۶)
اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے اس کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے جس کا ارشاد ہے کہ الصوم لی وأنا اجزی بہ (بندہ کا روزہ میرے لئے اور میں خود ہی اس کا صلہ دوں گا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۷)
روزہ افطار کرانا باعث ثواب ہے
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو روزہ دار کو افطار کرائے اس کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (جامع الترمذی)
روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر (صحیح بخاری)
لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے ہمیشہ خیر وعافیت سے رہیں گے ۔
افطاری کی دعا
روزہ کھولتے وقت رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑ ھتے تھے ۔ اللہم إنی لک صمت وعلی رزقک أفطرت (سنن أبی داؤد تصحیح و تضعیف)
اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دئیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
اعتکاف
رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں ایک اعتکاف بھی ہے اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اور سب سے منقطع ہوکر کسی مسجد کے گوشہ میں بیٹھ جائے اور سب سے الگ تنہائی میں اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول ہوجائے ۔
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے وفات تک آپ ﷺ کا یہ معمول رہا آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں ۔(متفق علیہ)
اعتکاف رمضان کے فوائد اور مقاصد کی تکمیل کیلئے ہے اگر روزہ دار کو رمضان کے پہلے حصے میں وہ سکون قلب، فکر وخیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت، رجوع الی اللہ کی حقیقت ، اور اس کے در رحمت پرپڑ ے رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی تو اس اعتکاف کے ذریعہ وہ اس کا تدارک کرسکتا ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے ۔ اشتغال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتغال بالحق کی نعمت میسر آئے اور یہ حال ہو جائے کہ تمام افکار وترددات اور ہموم و وساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے یہ فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے اورہر حساس وخیال اس کے ذکر وفکر اور اس کے رضا وقرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے مخلوق سے انس کی بجائے اللہ سے انس پیدا ہو اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہو گا یہ انس اس کا زادِ سفر بنے یہ ہے اعتکاف کا مقصد ، جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (زاد المعاد ۱/۱۷۸)
امام شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی ۱۱۷۶ھ؁) لکھتے ہیں چونکہ مسجد میں اعتکاف جمیعۃ خاطر ، صفائی قلب ملائکہ سے تشبہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ ، نیز طاقت وعبادت کا بہترین موقع ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے اور اپنی امت کے محسنین وصالحین کیلئے اس کو سنت قرار دیا ہے ۔(حجۃ اللہ البالغہ ۲/۲۲)
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس پر ہمیشہ مداومت فرمائی اور مسلمانوں نے بھی ہر جگہ اور ہر دور میں اس کی پابندی کی۔
لیلۃ القدر
﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ٭وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ٭لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ٭ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ ٭سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴾(سورۃ القدر)
بیشک ہم نے اس (قرآن)کو شب قدر میں اتارا ہے ، اور آپ کو خبر ہے کہ شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بڑ ھ کر ہے اس رات فرشتے اور روح القدس اُترتے ہیں اپنے پروردگار کے حکم سے یہ امر خیر کے لئے سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ رہتی ہے طلوع فجر تک ۔
جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح رمضان المبارک کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اس لئے کہ شب قدر اسی عشرہ میں ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ آخری عشرہ میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے تھے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر مجھے لیلۃ القدر معلوم ہوجائے تو میں اس وقت اللہ تعالیٰ سے کیا عرض کروں آپ ﷺ نے فرمایا عرض کرو اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ العَفوَ فَاعفُ عَنِّی (جامع ترمذی کتاب الدعوات)
اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے اور بڑ ا کرم فرما ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے ۔
روزہ میں اسلام کا اصلاحی کردار
اسلام نے جس طرح دوسرے تمام فرائض وعبادات اور منا سک میں اپنا اصلاحی کردار ادا کیا ہے اسی طرح اس نے روزہ کے مفہوم ، آداب واحکام اور اس کی شکل وطریقہ کار میں بھی اپنا یہ اصلاحی وانقلابی کردار ادا کیا ہے اور اس بات نے روزہ کو بہت آسان وخوشگوار ، فطرت سلیم سے بہت قریب متعدد روحانی واجتماعی فوائد کا حامل اور معاشرہ پر پوری طرح اثر اندازہونے والا بنا دیا ہے ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی نے نہ روزہ نفس کو ایذا پہنچانے اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے نہ اس کو خداکا عذاب قرار دیا ہے پورے قرآن وحدیث میں ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ملتا جس سے اس کا اشارہ نکلتا ہو اس لئے اس کو ایک ایسی عبادت کے طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اس نے اس کے احکام اور قوانین بھی ایسے خشک اور ظالمانہ نہیں بنائے کہ اس کا قطعی نتیجہ نفس کی ایذا رسانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہو اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہو بلکہ اس نے سحری کھانا سخت قرار دیا اور تاخیر کے ساتھ کھانے کو مستحب کیا اور ہدایت کی کہ فجر تک کھاتے رہو ۔ افطار میں عجلت کا حکم دیا رات اور دن دونوں میں سونے اور آرام کرنے کی اجازت دی کاروبار تجارت اور مفید جائز کاموں میں انہماک ومصروفیت کو بھی یہودی مذہب کے برعکس جائز رکھا جس میں روزہ کی حالت میں کام کرنا ممنوع ہے اور مکمل طور پر خلوت وعبادت لازمی ہے اسلام نے ہر قسم کی طبقہ داری ، قید اور بندش سے آزادکر کے بالکل عام کر دیا اور اعلان کر دیا ہے کہ ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
سو تم میں سے جوکوئی اس مہینہ کو پائے لازم ہے کہ وہ (مہینہ بھر) روزہ رکھے ۔
قدیم مذاہب میں اس تخصیص اور امتیازی حکم کے باوجود لوگ اس سے مستثنیٰ نہ تھے اسلام نے ان سب بندوں کو سہولیت بہم پہنچائی ان کیلئے آسانی پیدا فرمائی اور ان کو پوری رعایت دی ۔
﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
پھر تم میں سے جوشخص بیمار ہویا سفر میں اس پر دوسرے دنوں کا شمار رکھنا لازم ہے ۔
دوسری جگہ آتا ہے ﴿وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
اور جو لوگ اس کو مشکل سے برداشت کرسکیں ان کے ذمہ یہ ہے (کہ وہ ) ایک مسکین کا کھانا ہے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

روزے کی فضیلت اور اس کے احکام ومسائل

از مقبول احمد مکی

روزہ کی تعریف
روزہ لفظ صوم کا ترجمہ ہے جس کا لفظی معنی کسی چیز کو ترک کرنا یا کسی چیز سے رکنا ہے ۔
شرعی اعتبار سے اس سے مراد مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں ، مخصوص اشیاء (یعنی کھانے پینے ، فسق وفجور اور شہوت کے کاموں سے ) طلوع فجرسے غروب آفتاب تک رک جانے کا نام روزہ ہے ۔
روزہ کی فضیلت
روزہ ارکان اسلام میں غیر معمولی فضیلت واہمیت کا حامل رکن ہے ۔اور جس ماہ مبارک میں روزے فرض ہوئے وہ ماہ مقدس رحمتوں ، بخششوں اور برکتوں کا مہینہ قرار پایا ۔ اس کی فضیلت میں محمد عربی رحمت دو عالم ﷺ سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔

٭ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزہ کے اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے ۔ اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصیام)
٭نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : جو بھی بندہ اللہ کی راہ میں روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے چہرے کو آگ سے ستر خریف ( یعنی 210میل) دور کر دیتا ہے ۔ ( صحیح بخاری )
٭ رسول معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا : روزہ اور قرآن پاک قیامت کے روز مومن بندے کی سفارش کریں گے ۔ روزہ کہے گا اے رب ! میں نے اس کو دن بھر کھانا کھانے سے اوراپنی خواہشات پورا کرنے سے روکے رکھا اس لیے اس کے بارے میں میر ی سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا اے میرے پرودگار!میں نے اس کو رات کے وقت نیند سے روکے رکھا ا س لیے اس کے معاملے میں میری سفارش قبول فرما۔ پھر دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔ ( صحیح الترغیب ، کتاب الترغیب فی الصوم)
٭ روزوں کی برکت سے رمضان المبارک میں ادا کیا جانے والا عمرہ ثواب میں حج کے برابر ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ام سنان انصاریہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: فَاِذَا جَائَ رَمَضَانُ فَاعتَمِرِی فَاِنَّ عُمرَۃً فِیہِ تَعدِلُ حَجَّۃً ( صحیح مسلم ، کتاب الحج، رقم الحدیث: ۲۲۰۱)
کہ جب رمضان المبارک آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان میں عمرہ ( کا اجر وثواب ) حج کے برابر ہوتا ہے ۔
رمضان المبارک کاچاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :( صُومُوا لِرُؤیَتِہِ وَأَفطِرُوا لِرُؤیَتِہِ ) ( صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۱۷۷۶)
ماہ رمضان کاچاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (ماہ شوال کا ) چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ و۔
چاند دیکھنے کی دعا
نبی کریم ﷺ جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑ ھتے تھے ۔( اللَّہُ أَکبَرُ اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَینَا بِالأَمنِ وَالاِیمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالاِسلَامِ وَالتَّوفِیقِ لِمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرضَی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللَّہُ )( سنن الدارمی ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۱۶۳۵)
اللہ سب سے بڑ ا اے اللہ ! تو اسے ہم پر امن اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما اور اس چیزکی توفیق کے ساتھ جس کو تو پسند کرتا ہے ۔ اور جس سے تو راضی ہوتا (اے چاند)ہمارا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہے ۔
ماہ رمضان کے متعلق ایک یا دو دیانتدار مسلمان کی گواہی کافی ہے
سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ( تَرَائَ ی النَّاسُ الہِلَالَ فَأَخبَرتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ أَنِّی رَأَیتُہُ فَصَامَہُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِیَامِہِ )(سنن أبی داؤد ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۹۹۹۵)
لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا تو میں نے نبی کریم ﷺ کواطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اورلوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث نبوی ہے کہ ( وَاِن شَہِدَ شَاہِدَانِ مُسلِمَانِ فَصُومُوا وَأَفطِرُوا )( مسند احمد ، رقم الحدیث:۱۸۱۳۷)
اگر دو مسلمان گواہ شہادت دیں تو روزہ رکھو (دو کی گواہی کے ساتھ ) روزہ رکھنا چھوڑ دو ۔
٭اگر چاند نظر نہ آ سکے تو ماہِ شعبان 30کے دن مکمل ہونے پر روزہ رکھنا چأہیے :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :( صُومُوا لِرُؤیَتِہِ وَأَفطِرُوا لِرُؤیَتِہِ فَاِن غُمَّ عَلَیکُم فَأَکمِلُوا عِدَّۃَ شَعبَانَ ثَلَاثِینَ )( صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۱۷۷۶)
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر افطار کرو لیکن اگر مطلع ابر آلود ہو نے کے باعث چاند چھپ جائے توپھر تم شعبان کے تیس دن پورے کرو ۔
مشکوک دن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ( مَن صَامَ الوَ مَ الَّذِی یَشُکُّ فِیہِ النَّاسُ فَقَد عَصَی أَبَا القَاسِمِ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ ) ( سنن الترمذی ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۶۲۲)
جس نے مشکوک دن میں روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ۔
مشکوک دن سے مراد ماہ شعبان کا انتسواں روز ہے یعنی جب اس رات ابر آلودگی کے باعث چاند نظر نہ آئے اوریہ شک ہو جائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں ؟(سعودی مجلس افتاء )
صحیح سنت مشکوک دن کے روزے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ۔
روزوں کے آداب
روزہ رکھنے والے کیلئے فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے ۔
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( مَن لَم یُجمِعِ الصِّیَامَ قَبلَ الفَجرِ فَلَا صِیَامَ لَہُ )( سنن الترمذی ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۶۶۲)
جس نے فجر (یعنی صبح صاد ق ) سے پہلے پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ۔
نوٹ : روزہ کی نیت کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔
نفلی روزے کی نیت
واضح رہے کہ یہ فرض روزے کی بات ہے جبکہ نفلی روزے کیلئے نفلی روزے سے پہلے یعنی فجر کے بعد بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس آئے اور فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ ہم نے کہا نہیں ؟ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : تب میں روزہ دار ہوں ۔
سحری کھانے میں برکت ہے
خادم رسول ا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا ( تَسَحَّرُوا فَاِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَۃً ) ( صحیح بخاری ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث :۱۷۸۹)
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔
سحری کی فضیلت
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا :(اِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی المُتَسَحِّرِینَ ) ( مسند أحمد ، رقم الحدیث: ۱۰۶۶۴)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ سحر ی کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور فر شتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔
کھجور کے ساتھ سحری کھانے کی فضلیت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ا نے فرمایا:( نِعمَ سَحُورُ المُؤمِنِ التَّمرُ )( سنن ابی داؤد، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: ۱۹۹۸)
مومن کی بہترین سحری کھجور ہے ۔
اگر سحری کھاتے وقت اذان ہو جائے
تو فوراً چھوڑ دینا ضروری نہیں بلکہ حسب عادت جلد از جلد کھا لینا جائز ومباح ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : (اِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمُ النِّدَائَ وَالاِنَائُ عَلَی یَدِہِ فَلَا یَضَعہُ حَتَّی یَقضِیَ حَاجَتَہُ مِنہُ) ( سنن ابی داؤد ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: ۲۰۰۳)
جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور (کھانے یا پینے ) کابرتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے رکھے مت بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے ۔
روزہ میں فضول اور لایعنی باتوں سے زبان کو روکے رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا : جس شخص نے (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے کوترک نہ کیا ، تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ ے ۔(صحیح بخاری)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا: روزہ کھانا اور پینا چھوڑ نے کا نام نہیں ہے ۔بلکہ وہ فضول اور گندگی سے رکے رہنے کا نام ہے ۔اگر کوئی شخص تمہیں ( روزہ کی حالت میں )گالی دے ، یا تم سے جہالت کاسلوک کرے تو تم اس سے کہہ دو بھئی میں روزے سے ہوں ۔ ( حاکم ، ابن خزیمہ ، ابن حبان)
صدقہ وخیرات ، تلاوت قرآن پاک ، ذکر الٰہی اورنبی کریم ﷺ پر درود کی کثرت
سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ سب سے زیادہ سخی اس وقت ہوتے جب جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کی ملاقات کیلئے آتے ۔ وہ رمضان کی ہر رات آپ ﷺ کے پاس آتے اور آپﷺ کے ساتھ قرآن پاک کی مدارست ( باہمی تلاوت ) کرتے ۔ اس وقت نبی کریم ﷺ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری شریف)
رزوہ افطا ر کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا: لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطرَ ( صحیح البخاری ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: ۱۸۲۱)
لوگ جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے ہمیشہ خیر و عافیت میں ر ہیں گے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا: لَا یَزَالُ الدِّینُ ظَاہِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الفِطرَ لِأَنَّ الیَہُودَ وَالنَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ ) (سنن أبی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر : ۲۰۰۶)
لوگ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے دین ہمیشہ غالب رہے گاکیونکہ یہود ونصاری تاخیرسے افطار کرتے ہیں ۔
نوٹ : روزہ افطار کرنے میں جلد ی سے مراد وقت سے پہلے افطار کرنا ہر گز مراد نہیں بلکہ وقت ہونے پر جلدی کرنا مقصود ہے ۔
روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے ؟
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یُفطِرُ عَلَی رُطَبَاتٍ قَبلَ أَن یُصَلِّیَ فَاِن لَم تَکُن رُطَبَاتٌ فَعَلَی تَمَرَاتٍ فَاِن لَم تَکُن حَسَا حَسَوَاتٍ مِن مَاٍ (سنن ابی داؤد ، کتاب الصو م ، رقم الحدیث: ۲۰۹)
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے ، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ افطا ر کرتے ۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔
ایک صحیح روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ستو گھول کر روزہ افطار کیا ۔
افطاری کی دعا
روزہ کھولتے وقت رسول اللہ ﷺ یہ کلمات کہتے تھے : ( اللَّہُمَّ لَکَ صُمتُ وَعَلَی رِزقِکَ أَفطَرتُ) (سنن أبی داؤد، کتاب الصوم، حدیث نمبر :۲۰۱۱)
اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کیا ۔
اس مندرجہ بالاحدیث کو بھی بعض علماء ضعیف کہتے ہیں ۔اس میں یہ الفاظ (..... وَبِکَ آمَنتُ وَ عَلَیکَ تَوَکَّلتُ .....)کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑ ھتے ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابتَلَّتِ العُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجرُ اِن شَائَ اللَّہُ کہ پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہو گئیں اور روزے کا اجر ان شاء اللہ ثابت ہو گیا۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الصوم ، رقم الحدیث: ۲۰۱۰، حدیث صحیح ہے )
روزہ دار کیلئے جو کام کرنے جائز ہیں
مبالغے کے بغیر کلی کرنا اورناک میں پانی چڑ ھانا
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرا دل چاہا اور میں نے روزے کی حالت میں (اپنی بیوی کا ) بوسہ لے لیا۔ میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے آج بہت بڑ ا (برا) کام کیا ہے ، میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے بتاؤ اگر تم دوران روزہ کلی کر لو تو؟ میں نے کہا، کلی میں توکوئی حرج نہیں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر کون سی چیز میں حرج ہے ؟ (مراد یہ ہے کہ جب کلی کرنے میں کوئی حرج نہیں تو بوسہ لینے میں بھی کوئی حر ج نہیں ۔
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۲۰۸۹)
امام شوکانی رحمہ اللہ حدیث کے ان الفاظ ( أرأیت لو مضمضت من الماء) میں ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کلی کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
تیل لگانا اور کنگھی کرنا
سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ یوں صبح کرے کہ اس نے تیل لگایا ہوا ہو اور کنگھی کی ہو۔(صحیح بخاری ، کتاب الصو م )
گرمی کی وجہ سے غسل کرنا
ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کودیکھا کہ آپ ﷺ گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے اور آپ ﷺروزہ دار تھے ۔ ( صحیح ابی داؤد ، کتاب الصیام، رقم الحدیث: ۲۰۲۷۲)
حالت جنابت میں روزہ رکھنا اور بعد میں غسل کرنا
حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کر لیناجائز ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُدرِکُہُ الفَجرُ وَہُوَ جُنُبٌ مِن أَہلِہِ ثُمَّ یَغتَسِلُ وَیَصُومُ )( صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۱۷۹۱)
رسول اللہ ﷺ کو (بعض اوقات ) اس حالت میں فجر ہوجاتی کہ آپ مباشرت کرنے کی وجہ سے جنبی ہوتے (ایسے ہی آپ ﷺ سحری کھا لیتے ) پھر غسل کر کے روزہ رکھ لیتے ۔
سرمہ لگانا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ( اکتَحَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہم عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ صَائِمٌ )( سن ابن ماجہ ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۱۶۶۸)
نبی کریم نے ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں سرمہ لگایا ۔
اگر مذکورہ حدیث صحیح ہے تو واضح طور پر اس سے دوران روزہ سرمہ لگانے کا جواز نکلتا ہے اوربالفرض اگر اس میں ضعف بھی ہے تب بھی اصل براء ت ہی ہے لہذا سرمہ لگانا جائز ہے اور کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سرمہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
دوران روزہ ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کا حکم
اگر ٹوتھ پیسٹ حلق میں نہ جائے توروزہ نہیں ٹوٹتا لیکن افضل یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ رات کو استعمال کی جائے ۔ اوردن کومسواک استعمال کریں کیونکہ یہی سنت نبوی ہے ۔
ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا
قال ابن عباس رضی اللہ عنہما : لا بأس أن یتطعم القدر أو الشئی
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہنڈیا یا کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصوم )
روزہ دار کو جو کام کرنے حرام ہیں
جھوٹ بولنا ، غیبت کرنا اور لڑ ائی جھگڑ ا کرنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( مَن لَم یَدَع قَولَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِہِ فَلَیسَ لِلَّہِ حَاجَۃٌ فِی أَن یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ ) ( صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۱۷۷۰)
جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔
لغو ، رفث اور جہالت کی باتیں کرنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ( الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلَا یَرفُث وَلَا یَجہَل)( صحیح بخاری، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۱۷۶۱)
روزہ (گنا ہوں سے بچاؤ کی ) ایک ڈھال ہے لہذا(روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اورنہ جہالت کی باتیں کرے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( لیس الصیام من الأکل و الشرب إنما الصیام من اللغو والرفث فإن سابک أحد أو جہل علیک فلتقل إنی صائم إنی صائم ) ( صحیح الترغیب، رقم الحدیث :۱۰۸۲)
روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ نے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ تو لغو ( ہر بے فائدہ بے ہودہ کام) اور رفث (جنسی خواہشات پر مبنی کلام ) سے بچنے کا نام ہے ۔ لہذا اگر کوئی تمہیں (دوران روزہ ) گالی دے یا جہالت کی باتیں کرے تو اسے دو دفعہ کہہ دو کہ میں تور وزہ دار ہوں ۔
مبالغے سے ناک میں پانی چڑ ھانا
سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ( أَسبِغِ الوُضُوئَ وَبَالِغ فِی الِاستِنشَاقِ اِلَّا أَن تَکُونَ صَائِمًا ) ( سنن النسائی ، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۸۶)
وضو اچھی طرح پورا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑ ھایا کرو مگر روزے کی حالت میں (ایسا نہ کیا کرو)۔
جو ضبط نفس کی طاقت نہ رکھتا ہواسے احتیاط کرنی چاہیے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ وَکَانَ أَملَکَکُم لِاِربِہِ) ( صحیح بخاری، کتاب الصیام ، ر قم الحدیث: ۱۷۹۲)
نبی کریم ﷺ روزہ دار ہوتے لیکن (اپنی ازواج مطہرات کا ) بوسہ لیتے اور ان کے ساتھ مباشرت کرتے (یعنی ان کے صرف جسم کے ساتھ جسم ملاتے ) اور آپ ﷺ تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے ۔
روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے
جان بوجھ کر کھانے ، پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿ وَکُلُوا وَاشرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الخَیطُ الأَبیَضُ مِنَ الخَیطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیلِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)
تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے (یعنی صبح صادق رات سے ) ظاہر ہوجائے ۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔
اگر کوئی بھول کر کھاپی لے
تو اس پر نہ کفارہ ہے نہ قضا کیونکہ اس کا رزوہ برقرار ہے ۔
مباشرت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
﴿أُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلَی نِسَائِکُم ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)
روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا۔
معلوم ہوا کہ دن میں یہ حرام ہے ۔
عمداً قے کرنے سے رزوہ ٹوٹ جاتا ہے
اگر خود بخود قے آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :( مَن ذَرَعَہُ القَیئُ فَلَیسَ عَلَیہِ قَضَائٌ وَمَنِ استَقَائَ عَمدًا فَلیَقضِ )( سنن الترمذی، کتاب الصیام ، رقم الحدیث: ۶۵۳)
جسے روزے کی حالت میں قے آجائے اس پر قضا نہیں ، اگر جا ن بوجھ کر قے کرے تو قضا دے ۔
جان بوجھ کر روزہ توڑ نے والے پر ظہار کے کفارے کی طرح کفارہ لازم ہے
حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے دوران روزہ اپنی بیوی سے حقیقی مباشرت کر لی تونبی کریم ﷺ نے اسے اس طرح کفارہ ادا کرنے کوکہا ۔ایک گردن آزاد کرو ، اگر اس کی طاقت نہیں تو دو ماہ کے پے درپے روزے رکھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مساکین کوکھاناکھلاؤ۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر : ۲۰۴۲)
دوران روزہ احتلام اور مذی کا حکم
روزے کی حالت میں اگر احتلام ہوجائے یا مذی وغیرہ خارج ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ ان اشیاء سے ٹوٹتا ہے جو اند رجاتی ہیں ۔ ان سے نہیں ٹوٹتا جو باہر آتی ہیں إلا یہ کہ اس میں قصد شامل ہو۔
مخصوص ایام یا نفاس شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
امام بخاری نے باب قائم کیا ہے ( الحائض تترک الصوم والصلاۃ ) حیض والی عورت نہ نماز پڑ ھے اور نہ روزے رکھے ۔
کیا بچے کو دودھ پلانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے
شریعت اسلامیہ نے بچے کو دودھ پلانا روزہ توڑ نے والی اشیاء میں شمار نہیں کیا لہذا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کا روزہ دودھ پلانے کے باوجود جائز ہے اس سے اُس پرکچھ اثر نہیں پڑ تا۔
کیا نکسیر آنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ؟
سعودی مجلس افتاکے مطابق اگر آپ کو نکسیر آجائے تو آپ کا روزہ صحیح ہے ۔کیونکہ نکسیر کے آنے پر آپ کو کوئی اختیار نہیں ۔ اس بنا پر اس کے آنے سے آپ کے روزے کو کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی وہ فاسد ہے ۔اس کے دلائل میں سے مندرجہ ذیل ارشاد باری تعالی ہے ﴿ لا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفساً اِلَّا وُسعَہَا ﴾ (البقرۃ:۲۸۶)
اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
کیا دانتوں سے نکلنے والا خون روزہ توڑ دیتا ہے ؟
(سعودی مجلس افتاء ) کے مطابق وہ خون جو دانتوں سے نکلتا ہے روزہ نہیں توڑ تا خواہ خود بخود نکل آئے یا کسی انسان کے مارنے سے نکلے ۔
کیا آنکھوں یا کانوں میں قطر ے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ مطلق طورپر( آنکھوں میں ڈالنے والے ) قطرو ں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(سعودی مجلس افتاء ) صحیح بات یہ ہے کہ جس نے اپنی دونوں آنکھوں یا اپنے کانوں میں بطور دواء قطرے ڈالے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق روزہ رکھنے اور اس ماہ مقدس کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

روزہ فلاحِ دارین

از ڈاکٹر حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ

قدیم زمانے کے سارے تمدنوں اور سارے مذاہب نے اپنے ماننے والوں پر ہر سال چند دن روزے فرض کئے ہیں ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا یہ صرف ایک تو ہم ہے یا اس میں کچھ فائدہ بھی ہے ؟ ہم اب ایک ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ہرشہری خواہ غریب ہو یا امیر علم حاصل کرسکتا ہے اور ہماری حکومتیں ہم کو مجبور نہیں کرتیں کہ ہم اپنے روحانی فرائض بجالائیں اس لئے اب یہ معلوم کرنا مناسب ہو گا کہ روزہ رکھنے کا یہ قدیم فرض اب بھی لوگوں کے لئے مفید ہے یا نہیں ؟ اس پر غور کرنا خاص طور پر مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کیونکہ نہ صرف عقل اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے بلکہ قرآن بھی جو اسلام کی بنیاد ہے ، اس کا حکم دیتا ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے کوئی روحانی فریضہ ایسا نہیں عائد کیا ہے جس میں عقل سے اپیل نہ کی گئی ہوکہ غور کرو ، سوچو اور سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اس حکم کے بجا لانے سے ہمارا ہی فائدہ ہے ۔ باربار قرآن تنبیہ کرتا ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ آزادانہ طور پر غور کریں تاکہ ہم انفرادی اور شخصی طور پر اس قابل ہو سکیں کہ ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں آدمی کو چاہیے کہ جانوروں کی طرح جو دل میں آئے نہ کرے بلکہ عقل اور سمجھ سے بھی کام لے جو اللہ نے اس کو عطا کئے ہیں ۔ جانوروں کو یہ چیزیں اللہ نے نہیں دی ہیں آدمی کو چاہیے کہ کسی مذہبی کام کو ناقابل فہم اسرار قرار دے کر عقل کو علیحدہ چیز اور مذہب کو علیحدہ چیز نہ بنا لے اور صرف اعتقاد کی خاطر کسی چیز کا اعتقاد نہ رکھے بلکہ جو اعتقاد رکھے اس کے متعلق پوری طرح مطمئن ہوجائے کہ یہ اعتقاد صحیح ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے مزاج اور طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور تمام لوگ ایک ہی چیز کی طلب نہیں رکھتے دنیا دار معاملہ فہم لوگ کسی کام کو کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس کام میں ان کو کوئی مادی نفع ہو گا یا نہیں ۔ ایک خالص مسلمان عابد یا زاہد کسی دنیا دار کے برخلاف ، صرف روحانی فائدے اور آخرت کی نجات تلاش کرتا ہے اور دنیاوی فائدوں کو کسی کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے چھوڑ دیتا ہے ۔ خالص دنیا دار اور خالص تارک الدنیا دونوں قسم کے انتہا پسندوں کی تعداد بالکل محدود ہے ۔ دنیا کے ہر حصے میں انسانوں کی بہت زیادہ غالب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ آخرت میں اور موجودہ دینوی زندگی میں دونوں جگہ اچھے رہیں ۔ اسلام کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور قرآن (۲۔۱۔۲) ان لوگوں کی تعریف کرتا جو اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ﴿رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (البقرۃ:۲۰۱)
اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر۔
یہ ہے وہ مطمع نظر جو اسلام پیش کرتا ہے چونکہ روزہ بھی اسی قرآن کے ذریعہ سے فرض کیا گیا ہے ۔ پس ہمارے لئے یہ مناسب ہو گا کہ یہ معلوم کریں کہ روزے میں دنیا کی بھلائی کیا ہے اور آخرت کی بھلائی کیا ہے ؟ خاص کر اس لئے بھی کہ انسان صرف جسم سے نہیں بنا ہے اور صرف روح سے بھی نہیں بلکہ بہ یک وقت دونوں سے ۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی طلب میں مشغول ہوجائیں اور دوسرے سے غفلت کریں تو توازن باقی نہیں رہتا حالانکہ انسان کا بہترین مفاد اس امر میں ہے کہ جسم اور روح دونوں کو متوازن ترقی دے اور دونوں کی ضرورتیں اس طرح پوری کرے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہو۔ اگر ہم پوری طرح سے صرف روح کے فائدے کیلئے کام کریں تو ہم فرشتہ بن جائیں گے بلکہ فرشتوں سے بھی آگے بڑ ھ جائیں گے ۔ لیکن اللہ فرشتوں کو پیدا کر چکا ہے اور اللہ کو ضرورت نہیں کہ ان کی تعداد میں اور اضافہ کرے اسی طرح اگر ہماری پوری قوت مادی بھلائی اور خود غرضانہ ذاتی مفاد میں صرف ہوتو ہم درندے اور شیطان بن سکتے بلکہ ان سے بھی آگے بڑ ھ سکتے ہیں اللہ نے اس مقصد کیلئے دوسری مخلوقات پیدا کی ہیں اگر ہم درندہ اور شیطان بن جائیں تو انسان کی پیدائش کی جو غرض ہے وہ پوری نہ کرسکیں گے انسان کو روحانی کمال اور مادی کمال دونوں کے اکتساب کی قوتیں عطا کی گئی ہیں اور عقل سمجھ بھی دی گئی ہے تاکہ بھلائی اور برائی کے درمیان امتیاز کریں اور معلوم کریں کہ کونسی چیز بری ہے اور کونسی چیز اچھی ہے پس انسان کو چاہیے کہ اللہ نے اس کو جو قابلیتیں عطا کی ہیں ان کو ترقی دے اور ہر ایک قابلیت کے درمیان توازن قائم رکھے ۔
روزے کے اندر جو باتیں چھپی ہوئی ہیں ان کو معلوم کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے ہم قرآن شریف کی وہ آیتیں دیکھیں جن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
روزہ اور قرآن
روزے کے متعلق قرآن یہ کہتا ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ٭أَیَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَہُ وَأَنْ تَصُومُوا خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٭شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۳۔۱۸۵)
اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح سے ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں شاید کہ تم متقی بنو۔ اور یہ گنتی کے چند دن کیلئے ہے ، اور تم میں جو بیمار ہے یا سفر میں ہے تو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں روزہ رکھے اور جولوگ(سفر یا بیماری کے باوجود) اس کی طاقت رکھتے ہیں (اور روزہ نہیں رکھتے ) تو وہ فدیہ دیں یعنی ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اور جو شخص اپنی خوشی سے نیک کام کرے تو اس کیلئے ہی بہتر ہے اور یہ کہ تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اگر تم جانتے ۔ ۔ ۔ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور ہدایت کا واضح ثبوت ہے اور (صحیح اور غلط کے درمیان)امتیاز کرنے والا ہے ۔ تم میں جو شخص اسے پائے تو اس کو چاہیے کہ وہ (پورا)مہینہ روزے رکھے ۔اور تم میں جو شخص بیمار ہویا سفر میں ہوتو اس کو چاہیے کہ اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں روزہ رکھے اللہ تم پر آسانی کا ارادہ رکھتا ہے ، وہ تم پر سختی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور چاہیے کہ تم اس مدت کو پورا کرو اور اللہ کی بڑ ائی بیان کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی اس طرح شایدتم شکر گزار بن سکو گے ۔
اس آیت کے شروع میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دوسرے مذہبوں میں بھی روزہ پایا جاتا ہے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ دوسرے مذاہب اس کے متعلق کیا کہتے ہیں ۔ اسلام کے ساتھ ان کا مقابلہ دلچسپی سے خالی نہیں البتہ ایک بات شروع ہی سے واضح کر دیں کہ اسلامی روزے میں فجر (یعنی طلوع آفتاب سے ڈیڑ ھ گھنٹہ قبل) سے لیکر غروب آفتاب تک ہر قسم کا کھانا ، پینا، سگریٹ پینا، ٹیکہ یا انجکشن لگوانا حرام ہوتا ہے ۔ برے خیالات کو بھی روکنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے بھول چوک البتہ معاف ہے اوراللہ رب العزت سے کوئی چیز ہم چھپا نہیں سکتے ۔
نوٹ : بعض انجکشن جائز ہیں ۔
روزے کا زمانہ
یہودی، عیسائی اور ہندو یا تو خالص شمسی حساب کرتے ہیں یا قمری سال میں وقت بہ وقت کبیسہ (Intercalation) کر کے ایک مہینہ کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ قمری سال کی مدت بھی اتنی ہی طویل ہوا کرے جتنی شمسی سال کی ہے اس لحاظ سے ان کے روزے ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتے ہیں ۔ مسلمان قمری حساب کا حساب کرتے ہیں ان کی جنتری چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوتی ہے جس میں کبیسہ(Intercalation) نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مہینہ رمضان بتدریج باری باری سال کے ہر موسم میں آتا ہے ۔
قمری سال کے مہینوں سے حساب کرنا بہتر ہے یا شمسی سال کے مہینوں سے ؟ جس کرۂ ارض پر ہم بستے ہیں اس کا موسم ہر جگہ یکساں نہیں ہے لوگ ہر موسم کی شدت سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ خواہ گرمی کی شدت ہویا سردی کی۔ اس طرح کسی علاقہ کی گرمی اور سردی کے موسم محض اضافی امر ہیں ۔ مثلاً جاڑ ے کا موسم مکہ میں بڑ ا خوشگوار ہوتا ہے اور وہ قطبوں کے قریب (کناڈا، شمالی یورپ میں ) ایسا نہیں ہوتا۔ گرما قطب شمالی اور جنوبی کے قریب بہترین موسم ہے لیکن خط استواء کے پاس اور ریتلے صحرا میں ایسا نہیں ہے ۔ موسم بہار ہرجگہ ایک معتدل موسم ہو سکتا ہے ، لیکن خطِ استواء کے قریب بہت سے ملکوں میں (مثلاً جنوبی ہندوستان میں )موسم بہار ہوتاہی نہیں ، یہاں کے لوگ موسمِ بہار جانتے ہی نہیں ۔ اور ان ملکوں میں صرف تین موسم ہوتے ہیں ۔ سردی، گرمی اور بارش۔ ایک ایسے مذہب کیلئے جو تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، اگر ہم روزہ رکھنے کیلئے کوئی خاص موسم مقرر کر دیں تو بعض لوگوں کیلئے مدامی طور پر آسانی ہو گی اور بعض لوگوں کیلئے مدامی سختی اورتکلیف یا کسی اور طرح زمین کے بعض علاقوں کے باشندوں کیلئے سہولت بخش نہ ہو گا لیکن اگر روزہ رکھنے کے زمانے میں موسم باقاعدگی کے ساتھ بدلتے رہیں تو آسانی اور سختی باری باری سے آتے رہیں گے اور کوئی شخص روزہ کا قانون بنانے والے پر خفا نہ ہو گا۔ ا سکے علاوہ روزہ رکھنے کیلئے موسموں کی اس تبدیلی کا یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ ہر قسم کے موسم میں روزہ رکھنے کے عادی ہوجائیں اور یہ عادت کاٹ کھانے والے جاڑ ے میں اور جھلسانے والے گرما میں کھانے اور پینے سے رک جانے کی یہ قابلیت ، مومن کو صبر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے مثلاً جنگ کے محاصرہ کے وقت ، غذا اور غلہ کے تاجروں اور آب رسانی کے عملے کی ہڑ تال کے وقت جبکہ کھانا ، پانی مشکل سے ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ۔
روزہ کا مفہوم
جیسا کہ بیان ہوا اسلام تمام کاموں میں انسانوں کی دونوں جہاں اور اس کے مضمرات کی بھلائی چاہتا ہے ۔اسلام یہ بتلاتا ہے کہ آخرت میں ہر شخص کا حساب اس دنیا میں اس کے کیے ہوئے کاموں کے لحاظ سے دیا جائے گا وہ لوگ کامیاب اور خوش نصیب ہونگے جو وہاں اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کریں ۔ اس دنیا کی حد تک چونکہ انسان جسم اور روح دونوں سے بنا ہے اس لئے یہاں ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ روزہ رکھنے سے روحانی فائدے کیا ہیں اور مادی فائدے کیا ؟۔
۱۔ نیت اور ارادے کی اہمیت
ہر شخص جانتا ہے کہ ناحق کسی کو قتل کرڈالنا تمام تمدنوں میں برا سمجھا جاتا ہے اور تمام مذاہب ایسے قاتل کو دوزخی قرار دیتے ہیں ۔ اور بے گناہ مقتول شہادت کا مرتبہ پا کر جنت کامستحق ہوتا ہے ہر شخص جانتا ہے کہ کسی اقدام کے خلاف حق اور صداقت کی مدافعت ایک فرض ہے اور جو شخص کسی اقدام کرنے والے کو قتل کرڈالتا ہے تو اس کو ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے ۔ ان دونوں قسموں کے قتلوں میں کیا صرف نیت کا فرق نہیں ؟اس طرح اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے مشورہ کے بنا پر کھانے پینے سے باز رہے تو کیا اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو اللہ کے حکم اور اللہ کیلئے کھانا پینا چھوڑ دے ؟اللہ ہمارا خالق (پیدا کرنے والا) اور شارع (قانون بنانے والا)ہے جو ہم کو مرنے کے بعد پھر زندہ کرنے والا اور اسی دنیا کے ہمارے کاموں کا حساب طلب کرنے والا ہے ۔ جس کسی نے اس کی اطاعت کی ہو گی وہ اس کی خوشنودی حاصل کرے گا اگرچہ یہ کہ ہم اس کے احکام کے اندرونی راز کو نہ سمجھے ہوں ۔ جو روزہ وحی کے ذریعے سے فرض کیا گیا اس کی تعمیل سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے کونسا روحانی اور اخروی فائدہ اللہ کی ابدی رضا مندی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ نیت اگر مادی فائدے کی ہو ، نیز ریا اور اسی قسم کی چیزیں نیت کی صفائی میں خرابی پیدا کرتی ہیں ۔ ہمارا روزہ پورے کا پورا اللہ کی رضا مندی اور اس کے احکام کی تعمیل کے تحت ہونا چاہیے ۔نبی کریم ﷺ کا مشہور ارشاد ہے کہ : إِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیِّاتِ (صحیح بخاری ، کتاب الإیمان ، حدیث نمبر :۱)
عمل صرف نیتوں سے (جانچے جاتے ) ہیں ۔
۲۔ روحانی پہلو
تجربہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عام طور پر ایک اندھے آدمی کا حافظہ زیادہ اچھا ہوتا ہے اور اس کے بعض حواس آنکھ والے لوگوں کے حواس سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی ملکہ یا قابلیت سے کام نہ لیا جائے تو دوسرا ملکہ زیادہ قوی ہوجاتا ہے ۔جسم اور روح کے باہمی تعلقات بھی ایسے ہی ہیں جسم کوکمزور کر دینے سے روح طاقتور ہوجاتی ہے ۔جس طرح سے کہ درخت کی بعض شاخوں کو کاٹ دینے سے پھول اور پھل زیادہ حاصل ہوتے ہیں ۔جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے تو اس کا ضمیر برے کام کے وقت اس کی ملامت کرتا ہے اوروہ بری ترغیبات کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ قابل ہوجاتا ہے پھر روزے سے اللہ کی عبادت کی مٹھاس کا مزہ آنے لگتا ہے ۔
مادی پہلو
طالب علم کئی ماہ مسلسل پڑ ھتے ہیں پھر ان کو موسمِ گرما کی تعطیل مل جاتی ہیں ۔ ملازمین ہفتہ میں چھ دن کام کرتے ہیں اور ساتویں دن ان کو آرام اور فرصت کیلئے چھٹی ملتی ہے ۔لوگ تمام دن دماغی اور جسمانی قوت خرچ کرتے ہیں اس کے بعد نیند کا آرام دوسرے دن ان کو تازہ دم بنا دیتا ہے ۔ حتی کہ مشین اور اوزار بھی آرام کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ موٹر کار، ہوائی جہاز، ریل گاڑ ی وغیرہ کو بھی بہت دور چلنے کے بعد مشین گرم ہوجانے سے مشین ٹھنڈا ہونے تک ٹھہرا دیتے ہیں ۔ کیا یہ خیال کرنا معقول نہ ہو گا کہ معدہ اور ہضم کرنے والے اعضاء کو بھی آرام لینے کی ضرورت ہے ؟ اگر سارا دن داڑ ھ چلتا رہے تو معدہ بھی چلتا رہے گا اور ہاضمے کے اعضاء کمزور ہوجائیں گے ۔یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ ڈاکٹر بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں ۔ فرانس، سوئزرلینڈ ، جرمنی وغیرہ کے ڈاکٹروں کی ایک بڑ ی تعداد مختلف بیماریوں کا نسخہ بیمار کی بیماری یا جسمانی قوت کے لحاظ سے طویل یا مختصر مدت کیلئے بھوک اور پیاس تجویز کرتی ہے ۔ڈاکٹروں نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ انسان کے مختلف غدود میں بھوک اور پیاس سے ایک قسم کا لعابی مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ مادہ بہت سے جراثیم کو مار ڈالتا ہے ۔ جو مختلف بیماریاں پھیلاتے ہیں ۔ اعداد وشمار بھی یہ بتلاتے ہیں کہ متعدد قسم کی بیماریاں ان لوگوں میں کم ہوتی ہیں جو ہر سال روزہ رکھتے ہیں بلکہ روزہ عمر درازی کا بھی باعث سمجھا جانے لگاہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ آدمی کوآب وہوا اور مقام کی تبدیلی کی بھی وقتا فوقتاً ضرورت پڑ تی ہے جو شخص بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کو آرام کیلئے ڈاکٹر ایسے مقام پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں جو اس کے مستقل رہنے کے مقام سے جدا ہو۔زیادہ خوش قسمت لوگ گرمیوں کا مہینہ اپنے وطن کے باہر سرد مقام میں گزارتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ اپنے معمول کو وقتاً فوقتاً بدلتے رہنا ضروری سمجھا جانے لگاہے یہ بھی ایک قسم کا آرام لینا ہی ہے ۔مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ کاشت کار اپنے کھیتوں کو ایک سال آڑ کام میں لاتے ہیں اور زمین کو بھی آرام لینے دیتے ہیں ۔ مسلسل کاشت کرتے رہنے سے زمین کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اسلام سال بھر روزے رکھنے سے منع کرتا ہے حتی کہ ان لوگوں کو بھی اس کی ممانعت ہے جو روزہ سے روحانی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو یہ ایک عادت اور ایک فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور ایسا شخص روزے سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتا جو وقفے وقفے سے روزہ رکھنے والا شخص حاصل کرتا ہے ۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اگر کوئی شخص چالیس دن سے زیادہ مسلسل روزے رکھے تو وہ ا س کی عادت بن جاتی ہے اگر کوئی شخص ایک مہینے سے کم روزے رکھے تو وہ زیادہ اثر نہیں کرتا۔
روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے سے بہت سے فوجی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات سپاہی کو رمضان کے مہینے میں پورے روزے رکھنے کی عادت ہو اس کے ساتھ ہی ساتھ رات میں تراویح پڑ ھنے کی، تو ایسا سپاہی ایسے اتفاقاً پیش آنے والے کاموں کیلئے اس سپاہی سے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے جو ایسی مشق کا عادی نہیں ہوتا ۔ غیر فوجی (Civil) روز مرہ کی زندگی میں بھی روزہ رکھنے کی عادت سے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔آج کل ہڑ تالیں عام ہیں جب آبرسانی کے محکمہ کے ملازم یا روٹی غلہ اور بھاجی ترکاری بیچنے والے ہڑ تال کریں تو روزہ رکھنے کا عادی شخص آسانی سے نمٹ لیتا ہے ۔
یہ ہیں روزہ کی کرامات
اس بیان کو اس بات پر ختم کیا جاتا ہے کہ جولوگ ڈاکٹرکے مشورے پر طبی وجوہ سے یا کسی اور مجبوری کی بنا پر روزہ رکھتے ہیں تو ان کو روزہ کا مادی فائدہ تو حاصل ہوتا ہے لیکن ان کی نیت چونکہ روحانی تلاش کی نہیں ہوتی اس لئے ان کو کوئی روحانی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ مسلمان اللہ کے حکم کی تعمیل کی نیت سے روزہ رکھتے ہیں اس لئے ان کا روزہ عبادت واطاعت بنتا ہے اور انہیں اس کا ثواب بھی ملتا ہے اور مزید برآں وہ روزہ کے جسمانی اور مادی فائدوں سے بھی محروم نہیں رہتے ۔ مختصر یہ کہ کسی بھی نقطۂ نظر سے مسلمان کے روزے رکھنے سے غور کریں تو دوسرے تمدنوں کے روزے رکھنے کے طریقے سے فوقیت رکھتا ہے ۔
خلاصہ
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ قرآن شریف کی سب سے پہلی وحی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر رمضان کے مہینے میں آئی اس لئے یہ بات بڑ ی موزوں ہو گی کہ روزہ کی حالت میں زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت میں صرف کریں ۔ جولوگ عربی نہیں جانتے ان کیلئے دنیا کی ہر ایک اہم زبان میں قرآن کریم کے ترجمے موجود ہیں ۔ کسی سچے اور متقی مسلمان کا ترجمہ ہی صحیح ہو سکتا ہے ۔ اگر ممکن ہوتو اس مہینے میں پورے قرآن کا ایک ختم کرنا چاہیے روزانہ ایک پارہ پڑ ھنے سے پورا قرآن ختم ہو سکتا ہے ۔
روزے کے مہینے کے ختم ہونے پر شوال کے مہینے کے پہلے دن عظیم الشان عید ہوتی ہے ۔ صبح میں باجماعت نماز عید پڑ ھی جاتی ہے ۔اس کے بعد امام خطبہ دیتے ہیں چونکہ یہ روزے کے مہینے کا اختتام ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے سفارش کی ہے کہ لوگ اس مقام کو جہاں باجماعت نماز پڑ ھی جاتی ہے جانے سے پہلے ناشتہ کر لیں ، ناشتہ کر کے عید گاہ جاناچاہیے ۔
یہ بھی مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ ہر شخص اس دن فطرہ یعنی غریبوں کیلئے غذا مہیا کرے ۔ ابتدائے اسلام میں نہ صرف کھجور، کشمش اور ایسی چیزیں اس مقصد کیلئے تقسیم کی جاتی تھیں بلکہ چاول وغیرہ بھی دئیے جاتے تھے ۔ غرض یہ کہ خیرات دینے کی ہمت افزائی کی جائے جو کسی طرح دکھلاوے کیلئے اور ریا کیلئے نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ خداوند ذوالجلال فرماتا ہے کہ میں نے ایک نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا مقرر کیا ہے ۔ (خلوص نیت کے لحاظ سے )لیکن روزہ اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے ۔ (روزہ رکھنے سے صرف دس گنا یا سات سوگنا ثواب نہیں ملتا بلکہ)روزہ میرے لیے ہے اور میں روزہ کی جزا دیتا ہوں کیونکہ بندہ میرے لیے اپنی خواہش اور اپنی غذا کو چھوڑ دیتا ہے ۔(روزہ رکھنے سے اللہ کی قربت ملتی ہے اور اس کے مقابل ثواب اور بہشت کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۔)
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

روزہ کیسے گذاریں؟

از الشیخ عبدالرحمٰن عیسیٰ

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
قال اللہ تعالیٰ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۴)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ ہُدًی للِّنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الہُدَی وَالفُرقَانِ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جوراہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔

رمضان المبارک ، قرآن مجید اور تقویٰ
رمضان المبارک کا مہینہ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک انتہائی عظیم نعمت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عنایت فرمائی ہے ۔
اسی ماہ میں ہمیں محمدﷺ کی رسالت نعمت عطا کی گئی اس ماہ میں قرآن مجید ہمیں عطا کیا گیا جو ہدایت، فرقان ، رحمت ، نور، شفا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ امت کی زندگی اور سربلندی کا رازدعوت محمد ﷺ کیلئے جہاد میں پوشیدہ ہے ۔ پہلے انسانوں کے دل جیتنے کیلئے جہاد، پھر تہذیبی غلبہ کیلئے جہاداور اس جہاد کے ساتھ ساتھ ، کامیابی کیلئے اپنے نفس سے جہاد، تاکہ تقویٰ حاصل ہو، انفرادی تقویٰ بھی اور اجتماعی تقویٰ بھی۔ خلوتوں میں نالہ نیم شبی ، آہ سحر گاہی اور اشکوں سے وضوبھی اور جلوتوں میں پبلک لائف میں ، صداقت، دیانت، امانت، عدالت، شجاعت،
ا خوت اور حقوق انسانی کا احترام بھی رمضان علم وعمل کا وہ راستہ ہے جس کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے ۔نبی کریمﷺ رمضان سے قبل اپنے ساتھیوں کواس ماہ کے خزانوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیارکیا کرتے تھے ۔
چند دن کی بات ہے کہ ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہو گا اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سراب کرنے کیلئے برس رہی ہو گی اس مہینے کی عظمت وبرکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی کریمﷺ نے شہر عظیم اورشہر مبارک کہا ہو۔یعنی بڑ ی عظمت والا مہینہ اور بڑ ی برکت والا مہینہ ، نہ ہم اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کا احاطہ کرسکتے ہیں نہ ہمارا قلم اس کی ساری برکتیں تحریر کر سکتا ہے ۔
رمضان المبارک عظیم کیوں ؟
اس ماہ کے دامن میں وہ بے شمار بہاریں ہیں کہ اس کی ایک رات میں ہزاروں مہینوں سے بڑ ھ کر خیروبرکت کے خزانے لٹائے جاتے ہیں ۔اور اسی ماہ میں قرآن مجید ہمارے نبی ﷺپر نازل ہوا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ماہ کا ہر روز، روزسعید ہے اور ہرشب شب مبارک ہے دن روشن ہوتا ہے تو ان گنت بندوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی اطاعت اور رضا جوئی کی خاطر ، اپنے جسم کی جائز خواہشات اور اس کے ضروری مطالبات تک ترک کر کے گواہی دیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کا رب اور مطلوب ومقصود ہے ۔اس کی اطاعت وبندگی کی طلب ہی زندگی کی اصل بھوک پیاس ہے اور اس کی خوشنودی ہی میں دلوں کیلئے سیری اور لوگوں کیلئے تری کاسامان ہے ۔
اس ماہ کی ہر گھڑ ی میں فیض وبرکت کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال صالحہ، فرض اعمال صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرائض ستر گناہ زیادہ وزنی اور بلند ہوجاتے ہیں ۔ اس مہینے میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق عام ہوجاتی ہے ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔
آپ کا حصہ
اس مہینے کی عظمت اور برکت بلاشبہ عظیم، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پالے ، جب بارش ہوتی ہے تو مختلف ندی نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت وگہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ، بارش سب پر یکساں برستی ہے مگر ایک چھوٹے سے گڑ ھے کے حصے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا جتنا ایک لمبے چوڑ ے تالاب میں بھر جاتا ہے ۔یہی حال انسانوں کی فطرت اور ان کے نصیب کا ہے ۔زمین کی طرح آپ کے دل نرم اور آنکھیں نم ہوں گی آپ ایمان کا بیج اپنے اندر ڈالیں گے اور اپنی صلاحیت واستعداد کی حفاظت کریں گے تو بیج پودا بنے گا اور پودا درخت اور درخت اعمال صالحہ کے پھل پھول اور پتوں سے لہلہا اٹھیں گے اور آپ ابدی بادشاہت کی فصل کاٹیں گے کسان کی طرح، آپ سخت عمل کریں تو جنت کے انعامات کی فصل تیار ہو گی۔اور اگردل پتھر کی طرح سخت ہونگے اور آپ غافل کساں کی طرح سوتے پڑ ے رہ جائیں گے تو روزہ ، تراویح اور رحمت وبرکت کاسارا پانی بہہ جائے گا اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ توفیق الٰہی کے بغیر یقینا کچھ نہیں ملتا لیکن یہ توفیق بھی اس کو ملتی ہے جوکوشش اور محنت کرتا ہے تو ایسا نہ کیجئے کہ رمضان کاپورا مہینہ گزر جائے رحمتوں اور برکتوں کے ڈول کے ڈول انڈیلے جاتے رہیں اور آپ کو اتنا نصیب ہو کہ آپ کی جھولی خالی رہ جائے ۔ سارا انحصار آپ پر ہے نبی کریمﷺ رمضان سے پہلے اپنے رفقاء کو مخاطب کر کے اسی مہینے کی عظمت وبرکت بھی بیان کرتے اور اس کی برکتوں کے خزانوں میں سے اتنا بھر پور حصہ لینے کیلئے پوری محنت اور کوشش کی تاکید فرماتے : کچھ کرنے کیلئے اور اپنے حصے کی رحمتیں لوٹنے کیلئے کمر کس لیجئے اور نبی کریم ﷺ کی اس تنبیہ کو اچھی طرح یاد رکھیں ۔
کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑ ھنے والے جن کو اپنی نمازوں سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(الدارمی)
برکت وعظمت کا راز
رمضان المبارک کے مہینے میں جو عظمت اور برکت ہے اس کاسارا راز ایک چیز میں پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن مجید نازل کیا گیا گویا کہ اس ماہ میں رب رحمن ورحیم کی بے پایاں رحمت نے ہم جیسے انسانوں کی راہنمائی کاسامان عطا فرمایا اس کی حکمت لامتناہی ہے ہماری سوچ اور عمل کی صحیح راہیں اور غلط کو پرکھنے کیلئے وہ کسوٹی عطا کی جو غلطی، کمی اور تغیر سے پاک ہے بات یہ نہیں ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ اس لیے مبارک ہواکہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اورتلاوت قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ مبارک اس لیے ہوا کہ اس میں نزول قرآن کا عظیم الشان واقعہ ظہور پزیر ہوا۔
نعمت قرآن
ویسے تو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حد وحساب ہیں ہم ہر لمحہ دونوں ہاتھوں سے ان نعمتوں کے خزانے لوٹ رہے ہیں لیکن دنیا اور دنیا کی ہر نعمت اسی وقت تک ہماری ہے جس وقت تک سانس آ رہی ہے اور جا رہی ہے ۔ آخری سانس نکلی تو زندگی کے ان فانی لمحات کو لازوال زندگی میں ان ختم ہوجانے والی نعمتوں کو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں میں بدل سکتی ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی نعمت ہے ۔ اسی لیے یہ دنیا کے سارے خزانوں سے زیادہ قیمتی خزانے ہیں اسی لیے جس رات یہ نازل کیا گیا اس کو لیلۃ مبارکہ اور لیلۃ القدر فرمایا اور جہاں جہاں اس کے اتارے جانے کا ذکر فرمایا اکثر اس کا رشتہ اپنی رحمت بار بار کی جانے والی رحمت اپنی بے پایاں حکمت ، اور اپنی بے پناہ قوت کے ساتھ جوڑ ا پھر اسی لیے رمضان کے اختتام پر عید منانے کو کہا۔
رمضان میں روزہ اور تروایح کیوں ؟
یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں اگر آپ یہ جان لیں کہ قرآن مجید کی نعمت کی حقیقت کیا ہے اور تھوڑ ا سا غور کر لیں کہ قرآن مجید کا امین وحامل ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں
قرآن کی عظیم امانت اور مشن
نعمت جتنی بیش بہا ہو اس کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری اتنی ہی بھاری ہوتی ہے ۔ اس کی کتاب اور اس کا کلام سب سے بڑ ی رحمت اور برکت ہے اس لیے یہ اپنے دامن میں ذمہ داریوں کی ایک پوری دنیا رکھتی ہے یہ ذمہ داریاں اس حوالے سے ہیں کہ یہ کتاب زندگی کے اصل مقصد اور زندگی کو کامیاب اور بامراد بنانے کیلئے صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے یہ کتاب انسان کے سارے باطنی وظاہری اور انفرادی واجتماعی امراض کیلئے نسخہ شفا ہے ۔ یہ کتاب اندھیروں میں بھٹکنے والوں کیلئے چراغ راہ ہے دیکھئے تو ہدایت الٰہی کا یہ انعام دو بڑ ی ذمہ داریاں اپنے ساتھ لاتا ہے ۔
۱۔ایک اس بتائی ہوئی راہ پر خود چلنا، اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرنا اس کے نسخہ شفا کو اپنی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال کرنا ، اپنے دل کو، اپنی سوچ کو فکر وعمل کو سیرت وکردار کو اس کے بتائے ہوئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگ جانا۔
۲۔دوسری جو ہدایت ، ہُدًی للِنَّاسِ ہے سارے انسانوں کیلئے ہے صرف اپنے نفس کیلئے نہیں ۔اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچانا ان کو اس کی راہ پر چلنے کی دعوت دینا ، اندھیروں میں راتوں میں روشنی کرنا ، اور بیماروں تک دوا پہنچانا۔
سوچئے تو دوسری ذمہ داری پہلی ذمہ داری ہی کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا ایک ناگزیر حصہ دوسراکام کیے بغیر پہلا کام کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے ۔ دوسری طرف جب تک دوسروں کو قرآن کی راہ پر چلانے کیلئے کوشش اورمحنت نہ ہو، خود آپ کا اپنا صحیح راہ پر بھی ناقص اور نامکمل رہے گا اس لیے کہ دعوت وجہاد تو قرآن پر عمل کرنے کا سلوک قرآنی کا ، ایک لازمی حصہ ہے بلکہ چوٹی کا عمل ہے ۔ اس لیے کہ آپ کی زندگی دوسرے انسانوں کی زندگیوں سے تعلقات وروابط میں اس طرح گھتی ہوئی ہے کہ جب تک وہ بھی اس راہ پر نہ چلیں آپ کا تنہا چلنا مشکل ہے ۔ اور پوری طرح چلنا اوربھی زیادہ مشکل ہے یہ قرآن کا مشن ہے یہ ذمہ داری کتنی بھاری اور بڑ ی ذمہ داری ہے اس کا تصور بھی مشکل ہے ۔ ساری انسانیت کو صحیح راہ پر ڈالا جائے یہ ایک انتہائی عظیم الشان کام ہے ۔ اس لیے حضورﷺ پہلا پیغام لے کر غار حرا سے گھر آئے تو کانپتے اور لرزتے ہوئے خود اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی امانت کو ایک بھاری بات ، قول ثقیل کہا اور کمر توڑ بوجھ قرار دیا یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن ایسا مشکل بھی نہیں کہ اس کا اٹھانا انسان کے بس سے باہر ہو۔ بس اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے اپنے اندر ایک ایسابندہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ جو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو اور اپنی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے اور اس کیلئے قرآن سے مسلسل گہراربط بھی ضروری ہے صبر اور استقامت بھی درکار ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانی بھی ناگزیر ہے ۔
تقویٰ کیا ہے ؟
تقوی بڑ ی اونچی اور بیش بہا صفت ہے اور ساری مطلوبہ صفات کی جامع بھی ، تقویٰ وہ چیز ہے جس سے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے ۔
تقویٰ وہ ہے جس سے رزق کے دروازے اس طرح کھلتے ہیں کہ انسان کوگمان بھی نہیں ہوتا تقویٰ کی وجہ سے دین اور دنیا کے سارے کام آسان ہوجاتے ہیں ، جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے ۔ متقین ہی وہ ہیں جن کو اس جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں انہی سے ایسی مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اس جنت کی طرف لے جانے والی ہے ۔
تقویٰ کیا ہے ؟ بات سمیٹ کر کہی جائے تو کہنا چاہیے کہ تقویٰ قلب وروح ، شعوروآگہی، عزم وارادہ ، نظم وضبط اور عمل وکردار کی اس قوت اور استعداد کانام ہے کہ جس کے بَل بوتے پر ہم اس چیز سے رک جائیں جس کو ہم غلط جانتے اور مانتے ہیں ۔
تقوی کے لغوی معنی: بچنے کے ہیں ۔
یہ قوت ہماری فطرت میں ودیعت ہے کہ ہم نقصان وتکلیف سے بچیں ، نفع کالالچ کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ، ہمارے اندر اس کی طلب اور قوت نہ ہوتو انسان کی زندگی کی بقابالکل ناممکن ہے نہ وہ ترقی کرسکتا ہے ۔
متقی وہ بن سکتے ہیں جو غیبی امور پر ایمان لائیں اور ان کیلئے ایک ہی راستہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے تن من دھن سب کو پورا کا پورا اپنے رب کے حوالے کر دے یہی وہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے آغاز ہی میں بیان فرمادیا ہے غیب پر ایمان، جسم وجان سے بندگی نماز کی شکل میں ، اس کا دیا ہوا اسی کی راہ میں خرچ کرنا، حق وباطل کی کسوٹی کیلئے وحی پر ایمان اور آخرت پر یقین۔ جو اللہ کو اپنا رب کہے اور اس کے بعد بھی اپنے جسم وجان کی قوتوں کو اپنے وقت اور مال کو ان را ہوں میں لگائے جو اس کو ناپسند ہیں اور ان چیزوں سے نہ بچے جو اس کے غضب کی آگ بھڑ کانے والی ہے وہ تقویٰ سے محروم ہے تقویٰ صرف ظاہری رسوم کی پابندی کانام نہیں یہ اپنے اندر کی قوت اور یقین کانام ہے اسی لیے نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ تو یہاں ہے ۔(مسلم)
تقویٰ اور روزہ کا تعلق
تقوی کے یہ معنی آپ ذہن میں رکھیں تو یہ بات سمجھنا کچھ دشوار نہیں کہ تقویٰ پیدا کرنے کیلئے روزہ قیام لیل، اور تلاوت قرآن سے زیادہ مؤثر کوئی اور نسخہ مشکل ہی سے ہو سکتا ہے ۔
ہم روزہ رکھتے ہیں تو صبح سے شام تک اپنے جسم کے جائز مطالبات تک کو بھوک پیاس جیسے مطالبات تک کو پورا کرنے سے اللہ کی رضا کی خاطر رک جاتے ہیں اور اس کے اجروانعام کی خاطر اپنی جائز خواہشات بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ روزے سے ہمارا یقین بھی راسخ ہوتا ہے کہ جن حقیقتوں کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دی ہے جو مادی وحسی نہیں ہیں وہ بھوک، پیاس اور جنسی جیسی مادی حقیقتوں سے کہیں زیادہ بالابیش بہا اور لذیذ ہیں ۔
روزہ یہ بات بھی راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعت الٰہی ہے صرف حکم الٰہی ہی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کیلئے آخری سند ہے نیکی اور ثواب کھانے میں نہیں نہ بھوکے رہنے میں ، نہ جاگنے میں نہ سونے میں ، نیکی اور ثواب صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے ۔
روزے فرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اندر وہ تقویٰ پیدا کریں جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت کا حق ادا کرنے کی قوت اور استعداد حاصل ہو۔
ہم کیا کریں ؟
جس سے رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں اس کے روزوں سے اس کی تراویح سے ، اس کی تلاوت قرآن سے ، اس کی عبادات ومعمولات سے ، اس کی راتوں اور اس کے دنوں سے ، تقویٰ کی قوت اور استعداد حاصل کرسکیں ۔اس کیلئے سب سے پہلی چیز نیت اور پکا ارادہ ہے ۔
۱۔ نیت
نیت شعور واحساس پیدا کرتی ہے اور اس کو متحرک کرتی ہے ۔ شعور بیدار ہوتو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ محنت اور کوشش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔کسی کام کیلئے مقصد کے صحیح شعور اور اس کے حصول کیلئے پختہ عزم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کیلئے روح کی ہوتی ہے ۔نیت عمل کی روح کاکام اسی صورت میں کرسکتی ہے جب یہ دل ودماغ میں عمل کا مقصد اجاگر کر دے اور دل میں اس مقصد کے حصول کیلئے عزم پیدا کر دے ۔نیت ہونی چاہیے صحیح ہونی چاہیے لیکن خالص بھی ہونی چاہیے یعنی ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے اور اس کا اجر وانعام حاصل کرنے کیلئے کرنا چاہیے ۔ اگر آپ کی نیت خالص نہ ہو گی اور آپ کام صرف اللہ تعالیٰ کیلئے نہ کریں گے تو وہ قبول نہ ہو گا اور آپ کی محنت کا اجر ضائع جا سکتا ہے ۔
۲۔ قرآن مجید سے تعلق
دوسری چیز قرآن مجید کی تلاوت وسماعت اور علم وفہم کے حصول کا اہتمام ہے ۔اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑ ھنا قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے ۔ رمضان میں پورا قرآن تراویح میں سن لیتے ہیں لیکن عربی نہ جاننے کی وجہ سے آپ اس عبادت سے یہ فائدہ نہیں حاصل کرپاتے کہ آپ قرآن کے پیغام اور مضامین سے واقف ہوجائیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن کیلئے لگائیں یعنی قرآن کا کچھ حصہ ترجمہ سے سمجھ کر پڑ ھنے کی کوشش کریں ، سمجھ کرپڑ ھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کو اپنے اندر جذب کر لیں اور اس کے ساتھ اپنے دل اور روح کے تعلق کو گہرا کریں اور پروان چڑ ھائیں خواہ آپ تھوڑ ا ہی حصہ پڑ ھیں ۔لیکن اس میں ڈوب کر پڑ ھیں آپ کا دل اور دماغ اور جسم سب تلاوت کے اس کام میں شریک ہوں ۔
۳۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا
تیسری چیز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کریں ۔ روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا اور رمضان المبارک کا مہینہ تقویٰ کی افزائش کا موسم بہار ہے اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا ضروری ہے ۔اچھی طرح جان لیجئے کہ روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ، آنکھ کا بھی روزہ ہے ، کان کا بھی روزہ ہے ، زبان کا بھی روزہ ہے ، ہاتھ پاؤں کا بھی روزہ ہے ۔وہ روزہ یہ ہے آنکھ وہ نہ دیکھے کان وہ نہ سنے ، زبان وہ نہ کہے ، ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں ، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور جن سے اس نے منع فرمایا ہے ۔ ایک ایک کر کے اپنی خرابیوں پر قابو پانے سے بہت کام ہو سکتا ہے یہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کی پابندی سے تمام کام سدھرنے اور اپنی نیکیاں غارت ہونے سے بچانے کے عظیم فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔
۴۔ نیکی کی جستجو
چوتھی چیز ہر طرح کی نیکیوں کی خصوصی جستجو ہے ۔ہر لمحے ، ہر قسم کی نیکی کی طلب اور جستجو تو مؤمن کی فطرت کا جز ہونا چاہیے لیکن رمضان کے مہینے میں اس معاملے میں بھی خصوصی توجہ اور کوشش ضروری ہے اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ جس نیکی سے بھی خدا کا قرب تلاش کریں اس کا ثواب فرض کے برابر ہوجاتا ہے ۔ اس سے بڑ ی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے ۔
۵۔ قیام اللیل
پانچویں چیز قیام اللیل ہے ۔رات کا قیام اور تلاوت قرآن اپنا احتساب اور استغفار ، تقویٰ کے حصول کیلئے بہت ضروری اور انتہائی کارگر نسخہ ہے ۔ یہ متقین کی صفت اور علامت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ متقین وہی ہیں جورات کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں ۔ (الذاریات)
رمضان کے مہینے میں تھوڑ اسا اہتمام کر کے رات کے آخری حصے میں آپ قیام اللیل کی برکت حاصل کرسکتے ہیں اور آپ کا شمار مستغفرین بالاسحار میں ہو سکتا ہے اس کا طریقہ بڑ ا آسان ہے ، سحری کیلئے تو آپ اٹھتے ہیں ، پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھ کر وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھ لیں ۔
۶۔ ذکر ودعا
چھٹی چیز: ذکر اور دعا کا اہتمام ہے ۔ذکر اور دعا کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے ، ہروہ کام جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ذکر ہے خواہ دل سے ہو یا زبان سے یا اعضاء وجوارح سے روزہ بھی ان معنوں میں ذکر ہے بھوک پیاس بھی ذکر ہے ، ذکر کی ایک صورت دعا ہے جو ہمیں اس مہینے میں کثرت سے کرنی چاہیے ۔
۷۔ شب قدر اور اعتکاف
ساتویں چیز:شب قدر کا اہتما م ہے۔ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ، یہ رات اپنی قدرو قیمت کے لحاظ سے اس کام کے لحاظ سے جو اس رات میں انجام پایا، ان خزانوں کے لحاظ سے جو اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں ۔اور حاصل کیے جا سکتے ہیں ، ہزاروں مہینوں گذشتہ بہتر ہے جو اس رات قیام کرے اس کو سارے گنا ہوں سے مغفرت کی بشارت دی گئی ہر رات کی طرح اس میں بھی وہ عظیم گھڑ ی ہے جس میں دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں اور دین ودنیا کی جو بھلائی مانگی جائے وہ عطا کی جاتی ہے ۔
اگر ہمت وحوصلہ ہوتو پھر آپ آخری عشرے میں اعتکاف بھی ضرور کریں ۔اعتکاف کی اصل روح یہ ہے کہ آپ کچھ مدت کیلئے دنیا کے ہر کام، مشغلے اور دلچسپی سے کٹ کر اپنے آپ کو صرف اللہ کیلئے وقف کر دیں ۔ اہل وعیال اور گھر بار چھوڑ کر اس کے گھر گوشہ گیر ہو جائیں اور سارا وقت اس کی یاد میں صرف کریں ۔ اعتکاف کا حاصل یہ ہے کہ پوری زندگی ایسے سانچے میں ڈھل جائے کہ اللہ کو اور اس کی بندگی کو ہر چیز پر فوقیت اور ترجیح حاصل ہو۔
۸۔انفاق فی سبیل اللہ
آٹھویں چیز اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کرنا ہے ۔نبی کریم ﷺ سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے لیکن جب رمضان المبارک اور حضور کی ملاقات جبرئیل علیہ السلام سے ہوتی تو پھر آپ ﷺ کی سخاوت اور دادو بس کی کوئی انتہا نہ رہتی آپ ﷺ اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کی مانند ہوجایا کرتے تھے ۔(بخاری ومسلم عن ابن عباس )
پس آپ رمضان میں اپنی مٹھی کھول دیں اللہ کے دین کی اقامت وتبلیغ کیلئے اقرباء کیلئے یتیموں اور مسکینوں کیلئے ، جتنا مال بھی اللہ کی راہ میں نکال سکیں نکالیں ۔ لیکن جو کچھ دیجئے صرف اللہ کیلئے دیجئے کسی سے بدلے اور شکر یے کی خواہش آپ کے دل میں نہ ہو۔
۹۔انسان کی مدد اور خدمت
نویں چیز انسان کی مدد اور خدمت ہے
یہ اپنے جیسے انسانوں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے خاص طور پر یہ معاش ورزق کے دائرے میں ایک دوسرے کی تنگیوں اور محرومیوں ، پریشانیوں اور دکھوں میں شرکت اور مدد وخدمت کا مہینہ ہے ۔اس لیے اس مہینے میں خاص اہتمام کیجئے کہ آپ اپنے بھائی بہنوں کے کام آئیں ۔
۱۰۔دعوت الی القرآن
دسویں چیز قرآن اور خیر کی طرف بلانا ہے ۔
قرآن کی وجہ سے ہی رمضان کو عزت وشرف حاصل ہوا ہے پھر نزول کے مہینے سے زیادہ موزون وقت اس کام کیلئے کیا ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں ان کو قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کریں ان کو قرآن کے مشن کی طرف بلائیں ان کو قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے کیلئے کھڑ ا کریں ۔
یہ دس چیزیں میں نے آپ کے سامنے الگ الگ بیان کی ہیں آپ ان پر غور کریں تو یہ سب ایک ہی مقصد کے رشتے سے بندھی ہوئی ہیں وہ رشتہ یہ ہے کہ ہم رمضان سے وہ تقویٰ اور قوت واستعداد حاصل کریں جس سے ہم قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے کے اہل بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے والا بنائے اور قرآن پر عمل کرنے والا بنائے ۔آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فضائلِ سورۃ العصر

از حمزہ طارق برکی

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد :
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ﴿ وَالْعَصْرِ ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ ٭ إِلَّا الَّذِینَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ ( العصر)
قسم ہے زمانے کی ٭ یقینا انسان خسارے میں ہے ٭ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے ۔

سورۃ العصرقرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ہے ، اور خوش قسمتی سے اس میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ سب أردو میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں أو اور ایک عام اردو دان بھی ان سے بہت حد تک مانوس ہو سکتا ہے ، یہی وجہ سے کہ اس کا سرسری مفہوم تقریباً ہر شخص سمجھ جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی دِقَّت محسوس نہیں کرتا لیکن اس سورت کا اگر غور وفکر ، تدبراور شوق دلی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پورے قرآن کریم کی تعلیمات کا خلاصہ ہے ، اور اس کی ظاہری سادگی او رسلاست کے پردوں میں علم وحکمت کے کتنے خزا نے پوشیدہ ہے ۔
سورۃ العصر کے بارے میں چند بنیادی باتیں
قارئین کرام ! اس عظیم ترین سورت کی چند بنیادی باتیں ذہن نشین کر لیجئے ۔
۱۔ یہ سورت مبارکہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن کریم کی اوّلین سورتوں میں سے ہے ، گویا کہ یہ نبی ا کرم ﷺپر مکی دور کے بالکل آغاز میں نازل ہوئی۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ایک ہے ، اس لئے کہ یہ کل تین آیات پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے یعنی والعصر ۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ اپنے مضمون اور مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے ، اس لئے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے ﴿ہُدًی لِنَّاسِ﴾ یعنی انسان کو کامیابی اور فوز وفلاح کا راستہ دکھانے کیلئے نازل کیا گیا ہے تاکہ انسان نجات حاصل کرسکے اور واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نجات کی جس راہ کی جانب لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے وہ نہایت اختصار لیکن حد درجہ جامعین کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان ہوگئی ہے ، اس اعتبار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورۃ العصر میں پورا قرآن کریم موجود ہے ۔
۴۔ چوتھی بات یہ کہ اس سورت کے الفاظ بہت سادہ اور آسان ہیں ، آپ کو معلوم ہے کہ ہر زبان میں اس کے ادب کے شاہکار وہ ادب پارے کہلاتے ہیں جن میں مضامین اور معانی تو بہت اعلیٰ اور بلند پایہ ہوں لیکن الفاظ نہایت آسان اور عام فہم ہوں ایسے ہی ادب پاروں کو سہل ممتنع قرار دیا جاتا ہے ۔ اوّل تو قرآن مجید پورا ہی عربی زبان کا اعلیٰ ترین ادبی شاہکار ہے ، اور کل کا کل سہل ممتنع ہے ، لیکن اس میں بھی خاص طور پر یہ سورت سہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہے ، جس میں مضامین کے اعتبار سے تو گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے لیکن ثقیل اور بھاری لفظ ایک بھی استعمال نہیں ہوا۔
والعصر کا مفہوم
قارئین کرام! سب سے پہلے لفظ والعصر کو سمجھئے جس کا سادہ ترجمہ میں نے ابھی زمانے کی قسم کیا ہے ۔
عصر کا اصل مفہوم صرف زمانہ نہیں بلکہ تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے ، عربی زبان میں عصر اور دہر کے دوالفاظ بہت جامع ہیں ، اور ان دونوں میں صرف زمان (Time) نہیں بلکہ زمان اور مکان کے مرکب کی جانب اشارہ ہے ۔اور حسن اتفاق سے قرآن مجید میں العصر اور الدہر دونوں ہی ناموں کی سورتیں موجود ہیں ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دہر میں مرکب زمان ومکان کی وسعت کا لحاظ ہے یا جدید فلسفے کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجئے کہ زمان مطلق مراد ہے ، جبکہ لفظ عصر میں زمانہ مراد اور اس کی تیزروی کی جانب اشارہ ہے ، گویا فلسفی اصطلاح میں زمان جاری یا زمان مسلسل (Serial time) مراد ہے ۔ والعصر میں حرف واو حرف جار ہے اور اس کا مفاد قسم کا ہوتا ہے ، اور قسم سے اصل مراد شہادت اور گواہی ہے ، گویا لفظ والعصر کا حقیقی مفہوم یہ ہوا کہ تیزی سے گزرتا ہوا زمانہ شاید ہے اور گواہی دے رہا ہے ۔
خُسران کا مفہوم
اسی طرح دوسری آیت کا سادہ ترجمہ بھی میں کرآیا ہوں کہ انسان خسارے میں ہے ، لیکن اس سے بھی اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا، اس لیے کہ قرآن کی اصطلاح میں دو چار ہزار یا دو چار لاکھ کے گھاٹے کو نہیں بلکہ کامل تباہی اور بربادی کو کہتے ہیں ، چنانچہ کامیابی اور بامرادی کیلئے تو قرآن حکیم میں متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، جیسے فوز و فلاح، اور رشد وہدایت لیکن ان سب کی کامل ضد حیثیت سے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے خُسران، گویا دوسری آیات کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ پوری نوع انسانی تباہی اور ہلاکت وبربادی
سے دوچار ہونے والی ہے ۔
پہلی دو آیتوں کا باہمی ربط
یہ بات تو واضح ہے کہ پہلی آیت قسم پر مشتمل ہے اور دوسری جواب قسم پر یعنی دوسری آیت میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور پہلی میں اس پر زمانے کی گواہی کی جانب اشارہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کے مابین منطقی ربط کیا ہے ؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر یعنی زمان جاری یا زمان مسلسل ایک ایسی چادر کی مانند ہے جو ازل سے ابد تک تنی ہوئی ہے ، گویا زمانہ انسان کی تخلیق سے لیکر نہ صرف انسان کی حیات دنیوی اور اس کی پوری تاریخ بلکہ حیات اخروی اور اس کے جملہ مراحل کا چشم دیدگواہ ہے ۔ اس حقیقت ثابت پر ایک تنبیہ اور انداز کا مزید رنگ ہے جو لفظ والعصر کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کی ہلاکت اور تباہی اور خسران حقیقی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس پر غفلت طاری ہوجاتی ہے اوروہ اپنے ماحول اور اپنے فوری مسائل ومعاملات میں الجھ کر گویا گمشدگی کی سی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے ، اس حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں آفاق
ایمان کا اصل مفہوم
اس خسران عظیم اور تباہی اور بربادی سے نجات کی شرط اول ایمان ہے ، ایمان کا لفظ امن سے بنا ہے اور اس کے لفظی دو معنی ہیں کسی کو امن دینا اور سکون بخشنا۔ لیکن اصطلاح کے معنی میں تصدیق کرنا اور یقین واعتماد کے لفظ بن جاتے ہیں ۔ایمان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ ہر وہ انسان جو عقل اور شعور کی پختگی کو پہنچ جائے لازماً یہ سوچتا ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اور کائنات کیا ہے اور اس کی ابتداء اور انتہاء کیا ہے اور خود میرے سفر زندگی کی آخری منزل کون سی ہے لیکن آج بنی آدم ایسی تاریکی میں گم ہے کہ اپنی منزل مقصود اور اپنے مقصد حیات سے ناآشنا ہے ، اور نہ اپنے آغاز وانجام کی خبر اسے حاصل ہے نہ کائنات کی ابتداء وانتہاء کا علم۔
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہامعلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سویہ بھی کیا معلوم
عمل صالح کا مفہوم
قارئین کرام! عمل صالح کا عام ترجمہ آپ بھی باآسانی کرسکتے ہیں لیکن خود اس کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھئے تو مزید حقائق سے پردہ اٹھتا ہے ، اس لئے کہ ایک طرف تو اس کے باوجود کہ عمل اور فعل دو نہایت قریب المفہوم الفاظ ہیں ، ان کے معنی میں ایک باریک سا فرق ہے ، اور وہ یہ کہ فعل کسی بھی کام کو کہہ دیں گے ، لیکن عمل کا اطلاق عام طور پر محنت طلب اور مشقت بخش کام پرہوتا ہے ، اوردوسری طرف صالح کا اطلاق ہر اس چیز پرہوتا ہے جس میں ترقی نشو ونما کی صلاحیت موجود ہو ، انسان کو عمل صالح کی صلاحیت کی وجہ سے فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں انسان کو مشقت ومحنت کا مظاہرہ کرنا پڑ تا ہے ، اعمال صالحہ اختیار کرنے کا مقصدہے کہ شریعت کی را ہوں پر گامزن ہونا چنانچہ یہی انسان کی نجات (Salvation) ہے ۔
تواصی کے معنی
سورۃ العصر کے آخری حصہ میں دوبار جو لفظ تواصوا آیاہ ے اس کا مصدر تواصی ہے اور یہ وصیت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں تاکید اور مدد کے ساتھ کسی بات کی تلقین ونصیحت پھر یہ مصدر باب تفاعل سے ہے ، جس کے خواص میں ایک تو باہمی اشتراک ہے اور دوسرے شدت ومبالغہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک تو یہ عمل تواصی پورے زور وشور اور پوری قوت وشدت کے ساتھ مطلوب ہے اور دوسرے اس مرحلے پر ایک اجتماعیت کا قیام ناگزیر ہوجاتا ہے جو باہم ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کے اصول پر مبنی ہو۔
حق کے معنی
لفظ حق معنی ومفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پرہوتا ہے جو واقعی ہو(یعنی صرف خیالی نہ ہو) یا عقل کے نزدیک مُسلّم ہو یا اخلاقاً واجب ہو یا بامقصد اور غرض وغایت کی حاصل ہو (یعنی بیکار نہ ہو) تو معلوم ہوا کہ تواصی بالحق کے معنی ہوں گے ہر اس بات کا اقرار واعلان اور ہر اس چیز کی دعوت وتلقین جو واقعی اور حقیقی ہو عقلاً ثابت ہو یا اخلاقاً واجب ہو ، گویا حق کے دائرے میں چھوٹی سے چھوٹی صداقت سے لیکر کائنات کے بڑ ے بڑ ے حقائق وحقوق سب داخل ہوں گے اور تواصی بالحق کے ذیل میں چھوٹی سے چھوٹی اخلاقی نصیحتوں سے لیکر اس سب سے بڑ ے حق کا اعلان بھی شامل ہو گیا کہ اس کائنات کا مالک حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور صرف اس کو حق پہنچاہے کہ دنیا میں اس کا حکم چلے اور اسی کا قانون نافذ ہو پھر یہ کہ اس حق کا صرف اعتراف نہ ہو بلکہ اس کی عملی تنفیذ کیلئے جدوجہد کی جائے ۔
صبر کا مفہوم
قارئین کرام! صبر کا مفہوم بہت وسعت کا حامل ہے اور اس کا اصل ماحصل یہ ہے کہ انسان اپنے طے کردہ راستے پر گامزن رہے اور اس سے اسے نہ کوئی تکلیف یا
مصیبت ہٹا سکے نہ لالچ وحرص ، گویا اسے راہ سے نہ تو کسی قسم کے تشدد سے ہٹایا جا سکے نہ کسی طرح کے طمع اور لالچ سے بلکہ وہ ہر صورت میں ثابت قدم اور پختہ ارادے والا ثابت ہو ، اور استقلال اور پامردی سے حق پر خود بھی قائم رہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا چلا جائے ۔
سورۃ العصر سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعین کا طرز عمل
ابو مزینہ دارمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ا کرم ﷺ کے صحابہ میں سے دو حضرات اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو سورۃ العصر نہ سنا لیتا اس کے بعد ہی ان میں سے ایک دوسرے کو الوداعی سلام کہتا۔ (اخرجہ الطبرانی فی الأوسط ، والبیہقی فی شعب الإیمان)
سورۃ العصر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو حکیمانہ اقوال
۱۔ لو تدبر الناسُ ہذہ السورۃ لوسعتہم ۔
اگر لوگ اس سورۃ پر غور کریں تو وہ اسی میں پوری رہنمائی اور کامل ہدایت پالیں گے ۔ (تفسیرابن کثیر)
۲۔ لَومَا اَنزَلَ اللّٰہُ حُجَّۃً عَلَی خَلقِہِ إِلاَّ ہٰذِہِ السُّورَۃَ لَکَفَتہُم (بحوالہ : تفسیر ابن کثیر، والاصول الثلاثۃ :شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ)
اگر قرآن حکیم میں سوائے اس سورۃ مبارکہ کے اور کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو صرف یہ سورۃ ہی لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کیلئے کافی ہوتی۔

قارئین کرام!ذرا غور کیجئے کہ ہمارے پاس قرآن جیسی نعمت ہونے کے باوجودآج ہم رسوا کیوں ہیں ؟ ہم کیوں دن بدن پستی کی طرف گامزن ہیں ؟ کیونکہ آج ہم قرآن کو اپنے گھروں میں سجا کر رکھ تو دیتے ہیں ، اسے عقیدت سے چوم تو لیتے ہیں لیکن اسے پڑ ھنے اور سمجھنے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ، اس لیے آج ہم پستی کی طرف بڑ ھتے چلے جا رہے ہیں ۔
قارئین کرام! قرآن مجید کی عظمت دیکھئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآَنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ﴾ (سورۃ الحشر:۲۱)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو آپ اس سے (اللہ کے حضور) جھکا ہوا اور اس کے خوف سے ریزا ریزا ہوا دیکھتے ، اور ہم یہ مثالیں انسانوں کیلئے اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں ۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجئے کہ پہاڑ جیسی سخت ماندہ مخلوق اللہ کے کلام سے ریزا ریزا ہو سکتی ہے ، لیکن آج ہمارا حال دیکھئے کہ دن رات قرآن کو سنتے تو ہیں لیکن آنکھوں سے دو قطرے آنسوں باہر نہیں آتے ۔ کیونکہ آج ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں اور آج ہمارے آئیڈیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین کو چھوڑ کر فلمی اداکار (Actors) اور کھیلوں کے کھلاڑ ی بن چکے ہیں اور دنیا کی طمع نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا اوراندھا کر دیا ہے آج بھی دیر نہیں ہوئی ہے ابھی ہماری آنکھیں کھلی ہیں آئیے آج ہی قرآن کریم کو سیکھنا اور سمجھنا شروع کریں ، اور اس پر عمل کریں اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید باغور ودقت سے مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا ہمارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے سلف صالحین رحمہم اللہ کیا کرتے تھے ۔ آمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

معمولات النبی ﷺ

رمضان اور صاحبِ قرآن

از الشیخ محمد طیب معاذ
قسط نمبر ۸


محترم قارئین دینِ اسلام کی عمارت پانچ عظیم ستونوں پر قائم ہے جس میں سے ایک اہم ترین ستون رمضان المبارک کا روزہ ہے جیسا کہ رحمت للعالمین ا نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الإِسلاَمُ عَلیَ خَمسٍ شَہَادَۃُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہُ وَرَسُولُہُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ ، إِیتَائِ الزَّکَوۃِ وَحَجِّ بَیتِ اللّٰہِ وَصَومِ رَمَضَانَ ۔(متفق علیہ)
دین اسلام کی اساس پانچ ارکان پر ہے (۱) شہادتان ، ۲۔ نماز کوقائم کرنا ، ۳۔زکاۃ کی ادائیگی ، ۴۔بیت اللہ کا حج کرنا ، ۵۔ رمضان کے روزے رکھنا۔
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے قرآن وحدیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہوئے ہیں ۔ سردست صرف رسول اللہا کے معمولات رمضانیہ کا تذکرہ مقصود ہے ۔ کیونکہ سید الأولین والآخرین محمدا کے معمولات رمضان میں بالعموم اور رمضان کے آخری عشرے میں بالخصوص عام معمولات سے مختلف ہوتے تھے ۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کاَنَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ العَشَرُ الأَوَاخِرُ مِن رَمَضَانَ شَدَّ مِئزَرَہُ وَاَحاَی لَیلَہُ وَاَیقَظَ أَہلَہُ (صحیح بخاری )
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا عشرہ اخیرہ شروع ہوتا تو رسول معظم ا کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں کو (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکیں )۔
شانِ رمضان
رمضان المبارک کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہیں چند ایک صحیح احادیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے تاکہ ہم اس رمضان کو اپنے لئے مبارک بنا سکیں ۔ اللہم وفقنا لما تحبہ وترضاہ
٭ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ ارشاد رب العالمین ہے ﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
ماہ رمضان ہی وہ (برکت والامہینہ ہے ) جس میں قرآن (عظیم) اتارا گیا۔
٭ ماہ رمضان میں لیلۃ القدر جیسی عظیم الشان رات ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔(القدر :۱تا۳)
٭ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جبکہ جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے جبکہ ایک روایت میں ہے کہ اس ماہ مبارک میں رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ج/۱، ص/۶۱۱، بتحقیق الشیخ الألبانی)
٭ جنت کے آٹھ دروازے ہیں باب الریّان نامی دروازہ روزہ داروں کیلئے خاص ہے ۔(ایضاً)
٭ رمضان ماہ غفران بھی ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی ایمان اور ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح أیضاً)
٭روزہ عذاب الٰہی کیلئے ڈھال کاکام دیتا ہے ۔
٭ روزہ دار کے منہ کی خوشبو (بو) اللہ رب العزت کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔
٭ روزہ کی اجر بے حدوحساب ہے روزہ کا اجر صرف اللہ ہی ادا کرے گا حالانکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے (مگر روزہ کا ثواب اس سے بھی بڑ ھ کرہے )۔ (عن
أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ، بخاری، کتاب الصوم ، باب فضل الصوم )
٭روزہ روز قیامت روزہ دارکے حق میں شفاعت کرے گا ۔(بیہقی اسنادہ حسن بحوالہ مشکاۃ ، ج/۱، ص/۱۱، بتحقیق الشیخ الألبانی )
٭جدید میڈیکل نے بھی روزہ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے روزہ دل، شوگر اور معدے کیلئے بہت ہی مفید ہے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ نرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہو جاتا ۔ (سنت نبوی اور جدیدسائنس ج۱/۱۶۲)
٭امام شہیر ابن القیم رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب زاد المعاد میں رقمطراز ہیں ۔
وہ(روزہ) ظاہری وباطنی قوی کو جلادیتا ہے فاسد مادے کو دور کرتا ہے اور ارذی اخلاق سے جسم کو پاک کرتا ہے روزہ قلب ودیگر تمام اعضاء کو وہ تمام قوتیں واپس دلاتا ہے ۔جو مختلف طریقوں سے صرف ہوجاتیں ہیں روزہ کے ذریعے انسان کو فقر وفاقہ کی تلخی اور سختی کا علم حاصل ہوتا ہے ، بھوکوں پر ترس آتا ہے ، محتاجوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔
بنابرین روزہ کو روحانیت میں ایک بڑ ا درجہ حاصل ہے تقوی وطہارت کے حصول کا ایک عمدہ ذریعہ ہے ۔ اللہ حکیم وعلیم کا ارشاد ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں شاید کہ تم متقی بن جاؤ۔ (زاد المعاد ج/۲، ص/۶۴)
اب ہم سید العابدین رسول اللہ ا کے معمولات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
سحری کی فضیلت
سحری باعث برکت ہے خادمِ رسول اللہ ا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا سحری کا کھانا کھاؤ بیشک یہ برکت والی چیز ہے ۔ (متفق علیہ)
سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہانے ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب (یہودی، عیسائی ) اور اہل قرآن (مسلمان) کے روزے میں سحری کا کھانا ہی باعث تمیز اور فارق ہے ۔ (رواہ مسلم)
رسول مکرم نے سحری کے کھانے کو مبارک قرار دیا جیسا کہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول معظم ا نے رمضان میں مجھے سحری پر بلایا اور کہا کہ آؤ مبارک کھانے کی طرف۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج/۱، کتاب الصوم بتحقیق الشیخ الألبانی رحمہ اللہ)
سحری میں تاخیر
سحری کے کھانے میں تاخیر کرنا بھی معمولات محمدیہ میں شامل ہے مگر تاخیرکے معنی آذان فجر کے بعد تک کھانا پینا نہیں ہے ۔
دلیل : سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول مکرم ا کے ساتھ سحری کیا کرتے تھے پھر ہم نمازِ فجر ادا کرتے ، میں نے پوچھا کہ ان دونوں چیزوں کے درمیان کتنا وقت ہوتا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ پچاس آیات کی تلاوت کے برابر۔
سحری اور کھجور
کھجور کی غذائی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے اس میں پائی جانے والی بے شمار طبی خصوصیات کی بدولت بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہنے کا سبب بھی۔ اسی لیے توحکیم ملت طبیب اعظم ا نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کی بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ (عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ رواہ ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱، ص/۶۲۲، بتحقیق الشیخ الألبانی )
حالت صوم میں کثرت سے تلاوت فرقان حمید میں مشغول رہنا بھی معمولات محمدیہ ا میں شامل ہے اسی طرح رمضان میں کثرت کیساتھ انفاق فی سبیل اللہ بھی معمولات نبویہ سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ ترجمان قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپ ا رمضان میں سخی ہوجاتے تھے (خصوصاً) جب آپ ا سے جبرائیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام آپ ا سے رمضان میں ہر رات میں ملتے تھے اور آپ ا سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے تو یقیناً (اس وقت ) رسول اللہ ﷺ (خلق اللہ کی نفع رسانی میں ) تند وتیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں ) تیز ہوتے تھے ۔
ایسا نہیں ہے
بعض لوگ حالتِ صوم میں مسواک کرنا ناپسند اور مکروہ خیال کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مسواک ایک محبوب اور باعث ثواب عمل ہے عمومی روایتوں سے حالتِ صوم میں مسواک کی اجازت ثابت ہے بعض ضعیف قسم کے استدلالات کی بنا پر حالتِ صوم میں مسواک کو مکروہ قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے ۔ (واللہ أعلم بالصواب )
افطاری
افطاری میں جلدی کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن جلدی سے مراد غروب آفتاب سے پہلے افطاری کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ غروب آفتاب کے بعد فوراً افطاری کرنی چاہیے ۔
دلیل : رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے ۔ ( متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ج/۱ ، ص/۶۱۹، بتحقیق الشیخ الألبانی رحمہ اللہ )
افطاری میں کھجوریں استعمال کرنا برکت ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب تم افطاری کرو تو کھجوروں کیساتھ کرو وہ برکت ہے اور اگر کھجوریں میسر نہ ہو تو پانی کیساتھ افطاری کرو کیونکہ وہ پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ (ابو داؤد ، عن سلمان بن عامر بحوالہ مشکوٰۃ ص/۶۲۰)
اور خادم رسول ا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نمازِ مغرب سے قبل تازہ کھجوروں کیساتھ روزہ افطار کرتے اگر تازہ کھجوریں مہیا نہ ہوتی تو پھر خشک کھجوریں کھاتے اگر وہ بھی میسر نہ ہوتی تو پانی کا گھونٹ پی لیتے تھے ۔ (ترمذی ، اسنادہ جید بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱ ، ص/۶۲۱، بتحقیق الشیخ الألبانی )
افطار ی کی دعا
رسول اللہ ﷺ جب افطاری کرتے تو یہ دعا پڑ ھتے تھے : ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابتَلَّتِ العُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجرُ إِن شَائَ اللّٰہُ (عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ، صحیح ابو داؤد )
پیاس جاتی رہی رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر (ثواب) ثابت ہو گیا۔
افطاری کروانے کی فضیلت
زید بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی جہاد کیلئے مجاہد تیار کرتا ہے یا روزے دار کو افطاری کرواتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ مجاہد یا روزے دار کو ثواب ملتا ہے ۔ (رواہ البیہقی صححہ الألبانی بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱، ص/۶۲۱)
نمازِ تراویح
رسول اللہ ا نے کبھی بھی قیام اللیل کو ترک نہیں کیا یادرہے کہ نمازِتہجد قیام اللیل اور نمازِ تراویح ایک مسمیٰ کے مختلف نام ہیں اور صحیح ترین قول یہی ہے کہ تراویح کی مسنون اور معمول بھا تعداد صرف آٹھ رکعتیں ہیں ۔
دلیل : صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں (آٹھ رکعتیں تراویح + تین وتر) سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے ۔ (صحیح بخاری)
تفصیل کیلئے صلاۃ التراویح للمحدث الألبانی (عربی) اور تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ (اردو)مصنف محقق اہلحدیث حافظ زبیر علی زئی کا مطالعہ بے حد مفید ہو گا۔
اعتکاف
عشرہ اخیرہ میں اعتکاف بیٹھنا بھی معمولات محمدیہ ا میں سے شامل ہے ۔ جبکہ اعتکاف کا لغوی ، شرعی مفہوم تفصیلی احکام ومسائل اسوۂ حسنہ کے ہی دیر صفحات پر ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی رسول اللہ ا کے اسوۂ حسنہ کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
(جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟