Tuesday, September 1, 2009

خلیفۂ رابع علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ

از ابو عکاشہ عبداللطیف حلیم

ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
﴿وَالَّذِینَ آَمَنُوا وَہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ ﴾ (سورۃ الأنفال : ۷۴)
محترم قارئین کرام میں نے آپ کے سامنے جو آیت مبارکہ پیش کی ہے اللہ مالک الملک نے اس میں ایمانداروں ، مہاجرین ، مجاہدین اور انصار کا تذکرہ ، انہیں حق مومن قرار دے کر ان کیلئے مغفرت وانتہائی عزت والے رزق کا تذکرہ بڑ ے احسن پیرائے میں کیا ہے ، جس ہستی کا میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ایمان ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم اعمال ان کی سیرت کے درخشندہ پہلوہیں ۔ اور انہی اعمال کی بدولت انہیں زبان نبوت سے جنت کی بشارت کا تزکیہ حاصل ہوا میری مراد خلیفہ رابع داماد رسول علی المرتضیٰ بن ابی طالب قریشی رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں دس سال کی عمر میں ایمان کی دولت سے آشنا ہونے کی سعادت حاصل ہوئی جنہیں لسان نبوی سے اَنتَ مِنِّی وَاَنَا مِنکَ (بخاری ) کا اعزاز حاصل ہے ۔

اگر میں ان کی سیرت کے پہلو کو اجاگر کرنا چا ہوں تو صفحات اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ میں تو ان کی حیات طیبہ کے گلستان سے اس پھول کی خوشبو سے آپ کو معطر کرنا چاہتا ہوں جس کا نام علم ہے کہ اللہ رب العزت نے انہیں اس دولت سے کیسے سرفراز کیا کہ جس کے متعلق خاتم الانبیاء والمرسلین نبی معظم ا نے ارشاد فرمایا : مَن یُّرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیراً یُفَقِّہُ فِی الدِّینِ ، کہ جس پر اللہ ذوالجلال والا کرام اپنی خاص مہربانیوں کی فروانی کرتا ہے اسے دین حنیف کی سمجھ عطا کر دیتا ہے ۔
تقرب رسول ﷺ کا درجہ
جنہیں براہ راست کا شانہ نبوت سے علمی پیاس بجھانے کا موقع میسر آیا اور بالخصوص قرآن مجید کی تفہیم وتفسیر انہوں نے زبان نبوت سے سماعت کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح کو معمولا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا (مسند احمد) اور تقرب کا درجہ میرے سوا کسی کو حاصل نہ تھا ایک روایت میں ہے کہ رات دن میں دوبار اس قسم کا موقع ملتا تھا۔ اکثر سفر میں آپ اہی کی رفاقت کا موقع میسر آتا تھا آپ اکے تقرب واختصاص کی بنا پر رسول اللہ ا آپ صکو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے ۔ بعض مواقع پر قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر بھی فرماتے تھے ۔ غرض سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابتدا ہی سے علم وفضل کے گہوارے میں تربیت پائی تھی۔
کاتب وحی تھے
نوشت وخواند کی تعلیم آپ نے بچپن سے ہی حاصل کی تھی۔ اسلام کے ظہور کے وقت آپ لکھنا پڑ ھنا جانتے تھے کاتبان وحی میں آپ کا بھی نام ہے حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ لکھنے کے فرائض آپ ص نے سرانجام دیئے ۔
اسلام کے علوم ومعارف کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے علی رضی اللہ عنہ اس سرچشمہ سے پوری طرح سیراب اور ان صحابہ کرام ثمیں سے تھے جنہوں نے نبی ا کرم اکی حیات طیبہ میں نہ کہ صرف پورا قرآن یاد کر لیا تھا بلکہ اس کی ایک ایک آیت اور شان نزول سے واقف تھے ۔ خود علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ہر آیت کے متعلق بتا سکتا ہوں کہ یہ کہاں اور کیوں اور کس کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ (طبقات ابن سعد )
علی رضی اللہ عنہ مفسر قرآن تھے
چنانچہ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا شمار مفسرین کے اعلیٰ طبقہ میں ہے ۔ صحابہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اس کمال درجہ میں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ ان تمام تفسیروں میں فن کا دارومدار روایتوں پر ہے مثلاً : ابن جریر طبری ، ابن ابی حاتم ، ابن کثیر وغیرہ میں آپ کی روایت سے آیات کی تفسیریں کثرت سے منقول ہیں ۔ابن سعد کے مطابق آپ نے وفات النبی ا کے چھ ماہ بعد تک جو گوشہ نشینی اختیار کئے رکھی اس میں آپ نے قرآن حکیم کی تمام سورتوں کو نزول کی ترتیب سے مرتب کیا تھا۔
اجتہاد میں ید طولیٰ
قرآن مجید سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں سیدنا علی صکو یدطولیٰ حاصل تھا چنانچہ تحکیم کے مسئلہ میں خوارج نے اعتراض کیا کہ فیصلے کا حق اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ﴿اِنِ الحُکمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ﴾ تو آپ نے قرآن کے تمام حفاظ کو جمع کر کے فرمایا کہ میاں بیوی میں جب اختلاف رائے ہوتو اللہ تعالیٰ نے حکم بنانے کی اجازت دی ہے ۔ ﴿وَاِن خِفتُم شِقَاقَ بَینِہُمَا فَابعَثُوا حَکَماً مِن اَہلِہِ وَحَکَماً مِن اَہلِہَا ﴾ اور امت محمدیہ ﷺ میں اختلاف رائے ہوجائے تو حکم بنانا ناجائز ہے ؟ کیا تما م امت محمدیہ ﷺ کی حیثیت ایک مرد اور ایک عورت سے بھی اللہ کی نگاہ میں کم ہے ۔ (مسند احمد)
علی المرتضیٰ ص قرآن کی اس آیت ﴿وَفِصَالُہُ فِی عَامَینِ ﴾ اور ﴿وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ ﴾ سے یہ استدلال کرتے تھے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہو سکتی ہے ۔ (ابن کثیر )
خلافت عثمانیہ رضی اللہ عنہ میں ایک شخص نے عدالت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں یہ دعویٰ دائر کر دیا کہ میری بیوی نے چھ ماہ کی تکمیل پر بچہ جنم دیا ہے اس کا فیصلہ کریں ۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو طلب کیا جب وہ عورت اپنے گھر سے چلنے لگی تو اس کی بہن نے رونا شروع کر دیا تو اس صالح خاتون نے کہا : وَمَا یُبکِیکِ ؟ فَوَ اللّٰہِ مَا اِلتَبَسَ بِی اَحَدٌ مِن خَلقِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَغَیرُہُ قَطٌّ فَیُقضِیَ اللّٰہُ سُبحَانَہُ وَتَعَالیٰ فَیَّ مَا شَاء
اے میری بہن مت رو اللہ سبحانہ وتعالیٰ میرے حق میں جو چاہے فیصلہ کرے گا اس لئے کہ اللہ کی قسم آج تک میرے خاوند کے علاوہ مجھے کسی نے چھوا تک نہیں ۔ وہ عورت عدالت عثمانی رضی اللہ عنہ میں حاضر ہوئی۔ تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کے رجم کا حکم صادر فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو عرض کیا اے عثمان رضی اللہ عنہ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا ؟ فرمایا اس لئے کہ اس نے چھ ماہ کی مدت میں بچہ جنم دیا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اَمَا تَقرَأُ القُرآنَ ؟ قَالَ بَلیٰ اے عثمان رضی اللہ عنہ کیا آپ نے قرآن پڑ ھا ہے ؟ فرمایا قرآن تو پڑ ھا ہے فرمایا کیا آپ نے اللہ عزوجل کا یہ فرمان پڑ ھا ہے ۔
﴿ حَملُہُ وَفِصَالُہُ ثَلاَثُونَ شَہراً ﴾
جب ہم دودھ پینے کی مدت دوسال شمار کریں تو تیس مہینوں سے بقیہ چھ ماہ رہ جاتے ہیں ۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اعتراف حق کرتے ہوئے اور اجتہاد علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے فرمایا وَاللّٰہِ مَا فُطِنتُ بِہَذَا علی ص اللہ کی قسم جو فیصلہ تم نے کیا ہے عثمان رضی اللہ عنہ کے دل پر اس کا خیال تک نہیں گزرا، پھر جب اس عورت کے اس بیٹے کا ملاحظہ کیا گیا تو بعجہ بن عبد اللہ جہنی کہتے ہیں کہ : فَوَ اللّٰہِ مَالغُرَابُ بِالغُرَابِ وَالبَیضَۃُ بِالبَیضَۃِ بِاَشبَہُ مِنہُ بِاَبِیہِ
اللہ کی قسم کوا کوے سے اور انڈا انڈے سے بھی اتنی مشابہت نہیں رکھتا جتنی اس بچے کی تشبیہ اپنے باپ سے تھی ۔ (ابن کثیر)
علم ناسخ ومنسوخ کے ماہر تھے
علم ناسخ ومنسوخ میں آپ کو کمال حاصل تھا اور اس کو آپ بڑ ی اہمیت دیتے تھے اور جن لوگوں کو اس میں درک نہ ہوتا ان کو درس و وعظ سے روک دیتے تھے ۔ کوفہ کی جامع مسجد میں اگر کوئی وعظ کرنا چاہتا اس سے پوچھتے کہ تمہیں ناسخ ومنسوخ کا علم ہے اگروہ نفی میں جواب دیتا تو زجروتوبیخ کرتے اور اسے درس و وعظ کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔
بعض لوگوں کا یہ نظریہ تھا کہ رسول معظم ا نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ان ظاہری علوم کے علاوہ کچھ خاص باتیں اور بھی بتائیں ہیں ۔ ان کے شاگرد نے ان سے پوچھا ہَل عِندَکُم شَیئٌ مَالَیسَ فِی القُرآنِ؟
کہ کیا قرآن مجید کے سوا بھی آپ کے پاس کوئی علم ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا: وَالَّذِی فَلَقَ الحَبَّ وَبَدَائَ النَّسَمَۃَ مَا عِندَنَا اِلاَّ مَافِی القُرآنِ اِلاَّ فَہماً یُعطیٰ الرَّجُلُ فِی کِتَابِہِ
اس ذات کی قسم جودانے کو پھاڑ کر اس سے انگوری اگاتا ہے ہمارے پاس قرآن کے سوا کچھ نہیں یا پھر وہ فہم اور سمجھنے کی قوت جو اللہ تعالیٰ کسی کو عطا کر دے ۔ (صحیح بخاری )
جناب مرتضیٰ ص نے بچپن سے لے کر وفات النبوی ا تک کامل تیس سال تک رفاقت نبوی ا میں بسر کئے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے احکام وفرائض اور ارشادات نبوی ا کے سب سے بڑ ے عالم آپ ہی تھے ۔ آپ ص سے کل ۱۵۸۶ احادیث مروی ہیں جن میں سے ۲۰ متفق علیہ ہیں اور ۹ احادیث صرف صحیح بخاری اور ۱۰ صحیح مسلم میں ہیں ۔
فہم قرآن کے سلسلہ میں جو احادیث پہلے بیان ہوئی ہیں اس میں ایک صحیفے کا بھی ذکر ہے ۔یہ وہ احادیث تھیں جنہیں سیدنا علی ص نے رسول اللہا کی زبان اقدس سے سماعت کر کے کتابت حدیث اور حفاظت حدیث کا اہم پہلو سرانجام دیا۔
فقہ واجتہاد کیلئے کتاب وسنت کے علم کے ساتھ سرعت فہم ، دقیق ذہن شناسی کی بڑ ی ضرورت ہے ۔ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو فقہ واجتہاد میں بھی کامل دسترس حاصل تھی بڑ ے بڑ ے صحابہ یہاں تک کہ مرادِ رسول سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو کبھی کبھی علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضل وکمال کا ممنون ہونا پڑ تا تھا مشکل سے مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کی تہہ تک آپ صکی نکتہ رس نگاہ آسانی سے پہنچ جاتی تھی۔
ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر ص کے سامنے ایک مجنون زانیہ پیش کی گئی سیدناعمر ص نے اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا ۔علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ ممکن نہیں کیونکہ مجنون حدود شرعی سے مستثنیٰ ہیں ، یہ سن کرسیدناعمر ص اپنے ارادے سے توقف اختیار کر لیا ۔ (مسند احمد)
ایک دفعہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بارپاؤں دھونے کے بعد کتنے دن تک موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ؟ فرمایا : علی رضی اللہ عنہ سے جا کر دریافت کرو ان کو معلوم ہو گا کیونکہ وہ سفر میں رسول مکرم ﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے ، چنانچہ وہ سائل خلیفہ رابع سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا انہوں نے بتایا کہ مسافرتین دن اور تین رات تک اور مقیم ایک دن اور ایک رات تک موزوں پر مسح کرسکتا ہے ۔ (مسند احمد)
سیدناعلی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فیصلوں اور قضا کیلئے نہایت تجربہ رکھتے تھے اور اس کو عام طور پر صحابہ تسلیم کرتے تھے سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اقضانا علی
واقرا نا ابی، یعنی مقدمات کے فیصلوں کیلئے سب سے موزوں علی صاور سب سے بڑ ے قاری أُبَی ص ہیں ۔ (طبقات ابن سعد)
سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم کہا کرتے تھے مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔ (مستدرک حاکم)
نبی معظم ا کی جوہر شناس نگاہ نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی اس ستعداد وقابلیت کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور ضرورت کے تحت قضا کی خدمت آپ کے سپرد فرماتے تھے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عہدہ قضا
چنانچہ جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا تو رسول مکرم ا نے وہاں کے عہدہ قضا کیلئے آپ کو منتخب فرمایا عرض کیا یا رسول اللہ اوہاں نئے نئے مقدمات پیش ہوں گے قضا کا تجربہ اور علم نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو ثبات اور استقلال بخشے گا اور تمہاری زبان راہ راست پر رکھے گا ۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ اس کے بعد مقدمات کے فیصلے میں تذبذب نہ ہوا۔ (مسند احمد)
رسول اللہ ا نے آپ کو قضا اور فصل مقدمات کے بعض اصول سکھلائے چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا علی! جب تم دو آدمیوں کا جھگڑ ا چکانے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کرفیصلہ نہ کرو اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔ (مسند احمد)
کبھی کوئی لغو مقدمہ پیش ہوتا تو زندہ دلی کا ثبوت بھی دیتے تھے ایک شخص نے ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اس نے میری ماں کی خواب میں آبروریزی کی ہے فرمایا ملزم کو لے جا کر دھوپ میں کھڑ ا کرو اور اس کے سایہ کو سو کوڑ ے مارو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
آپ کے فیصلے قانون کے نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لئے اہل علم نے ان کو تحریری صورت میں مدون کر لیا تھا مگر اس میں تحریف بھی ہوئی چنانچہ سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے جب ان کے فیصلوں کا تحریری مجموعہ پیش ہوا تو اس میں سے ایک حصہ انہوں نے جعلی بتلایا اور فرمایا کہ عقل وہوش کی سلامتی کے ساتھ کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے ۔ (مقدمہ صحیح مسلم)
علم نحو کی بنیاد خاص سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے دست مبارک سے رکھی گئی ہے ایک شخص سے قرآن کو غلط پڑ ھتے ہوئے سنا اس سے خیال پیدا ہوا کہ کوئی ایسا قاعدہ بنا دیا جائے جس سے اعراب میں غلطی واقع نہ ہو سکے ۔ چنانچہ ابو الاسود دؤلی کو چند قواعد کلیہ بتا کر اس فن کی تدوین پر مامور کیا۔ (فہرست ابن ندیم)
گویا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام تاریخ اسلامی کا سنہری باب ہے جس کا اعتراف ہر مسلم اور مومن کے ایمان کا حصہ ہے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟