Tuesday, September 1, 2009

معمولات النبی ﷺ

رمضان اور صاحبِ قرآن

از الشیخ محمد طیب معاذ
قسط نمبر ۸


محترم قارئین دینِ اسلام کی عمارت پانچ عظیم ستونوں پر قائم ہے جس میں سے ایک اہم ترین ستون رمضان المبارک کا روزہ ہے جیسا کہ رحمت للعالمین ا نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الإِسلاَمُ عَلیَ خَمسٍ شَہَادَۃُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہُ وَرَسُولُہُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ ، إِیتَائِ الزَّکَوۃِ وَحَجِّ بَیتِ اللّٰہِ وَصَومِ رَمَضَانَ ۔(متفق علیہ)
دین اسلام کی اساس پانچ ارکان پر ہے (۱) شہادتان ، ۲۔ نماز کوقائم کرنا ، ۳۔زکاۃ کی ادائیگی ، ۴۔بیت اللہ کا حج کرنا ، ۵۔ رمضان کے روزے رکھنا۔
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے قرآن وحدیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہوئے ہیں ۔ سردست صرف رسول اللہا کے معمولات رمضانیہ کا تذکرہ مقصود ہے ۔ کیونکہ سید الأولین والآخرین محمدا کے معمولات رمضان میں بالعموم اور رمضان کے آخری عشرے میں بالخصوص عام معمولات سے مختلف ہوتے تھے ۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کاَنَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ العَشَرُ الأَوَاخِرُ مِن رَمَضَانَ شَدَّ مِئزَرَہُ وَاَحاَی لَیلَہُ وَاَیقَظَ أَہلَہُ (صحیح بخاری )
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا عشرہ اخیرہ شروع ہوتا تو رسول معظم ا کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں کو (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکیں )۔
شانِ رمضان
رمضان المبارک کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہیں چند ایک صحیح احادیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے تاکہ ہم اس رمضان کو اپنے لئے مبارک بنا سکیں ۔ اللہم وفقنا لما تحبہ وترضاہ
٭ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ ارشاد رب العالمین ہے ﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
ماہ رمضان ہی وہ (برکت والامہینہ ہے ) جس میں قرآن (عظیم) اتارا گیا۔
٭ ماہ رمضان میں لیلۃ القدر جیسی عظیم الشان رات ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔(القدر :۱تا۳)
٭ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جبکہ جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے جبکہ ایک روایت میں ہے کہ اس ماہ مبارک میں رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ج/۱، ص/۶۱۱، بتحقیق الشیخ الألبانی)
٭ جنت کے آٹھ دروازے ہیں باب الریّان نامی دروازہ روزہ داروں کیلئے خاص ہے ۔(ایضاً)
٭ رمضان ماہ غفران بھی ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی ایمان اور ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح أیضاً)
٭روزہ عذاب الٰہی کیلئے ڈھال کاکام دیتا ہے ۔
٭ روزہ دار کے منہ کی خوشبو (بو) اللہ رب العزت کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔
٭ روزہ کی اجر بے حدوحساب ہے روزہ کا اجر صرف اللہ ہی ادا کرے گا حالانکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے (مگر روزہ کا ثواب اس سے بھی بڑ ھ کرہے )۔ (عن
أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ، بخاری، کتاب الصوم ، باب فضل الصوم )
٭روزہ روز قیامت روزہ دارکے حق میں شفاعت کرے گا ۔(بیہقی اسنادہ حسن بحوالہ مشکاۃ ، ج/۱، ص/۱۱، بتحقیق الشیخ الألبانی )
٭جدید میڈیکل نے بھی روزہ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے روزہ دل، شوگر اور معدے کیلئے بہت ہی مفید ہے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ نرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہو جاتا ۔ (سنت نبوی اور جدیدسائنس ج۱/۱۶۲)
٭امام شہیر ابن القیم رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب زاد المعاد میں رقمطراز ہیں ۔
وہ(روزہ) ظاہری وباطنی قوی کو جلادیتا ہے فاسد مادے کو دور کرتا ہے اور ارذی اخلاق سے جسم کو پاک کرتا ہے روزہ قلب ودیگر تمام اعضاء کو وہ تمام قوتیں واپس دلاتا ہے ۔جو مختلف طریقوں سے صرف ہوجاتیں ہیں روزہ کے ذریعے انسان کو فقر وفاقہ کی تلخی اور سختی کا علم حاصل ہوتا ہے ، بھوکوں پر ترس آتا ہے ، محتاجوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔
بنابرین روزہ کو روحانیت میں ایک بڑ ا درجہ حاصل ہے تقوی وطہارت کے حصول کا ایک عمدہ ذریعہ ہے ۔ اللہ حکیم وعلیم کا ارشاد ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں شاید کہ تم متقی بن جاؤ۔ (زاد المعاد ج/۲، ص/۶۴)
اب ہم سید العابدین رسول اللہ ا کے معمولات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
سحری کی فضیلت
سحری باعث برکت ہے خادمِ رسول اللہ ا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا سحری کا کھانا کھاؤ بیشک یہ برکت والی چیز ہے ۔ (متفق علیہ)
سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہانے ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب (یہودی، عیسائی ) اور اہل قرآن (مسلمان) کے روزے میں سحری کا کھانا ہی باعث تمیز اور فارق ہے ۔ (رواہ مسلم)
رسول مکرم نے سحری کے کھانے کو مبارک قرار دیا جیسا کہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول معظم ا نے رمضان میں مجھے سحری پر بلایا اور کہا کہ آؤ مبارک کھانے کی طرف۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج/۱، کتاب الصوم بتحقیق الشیخ الألبانی رحمہ اللہ)
سحری میں تاخیر
سحری کے کھانے میں تاخیر کرنا بھی معمولات محمدیہ میں شامل ہے مگر تاخیرکے معنی آذان فجر کے بعد تک کھانا پینا نہیں ہے ۔
دلیل : سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول مکرم ا کے ساتھ سحری کیا کرتے تھے پھر ہم نمازِ فجر ادا کرتے ، میں نے پوچھا کہ ان دونوں چیزوں کے درمیان کتنا وقت ہوتا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ پچاس آیات کی تلاوت کے برابر۔
سحری اور کھجور
کھجور کی غذائی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے اس میں پائی جانے والی بے شمار طبی خصوصیات کی بدولت بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہنے کا سبب بھی۔ اسی لیے توحکیم ملت طبیب اعظم ا نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کی بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ (عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ رواہ ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱، ص/۶۲۲، بتحقیق الشیخ الألبانی )
حالت صوم میں کثرت سے تلاوت فرقان حمید میں مشغول رہنا بھی معمولات محمدیہ ا میں شامل ہے اسی طرح رمضان میں کثرت کیساتھ انفاق فی سبیل اللہ بھی معمولات نبویہ سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ ترجمان قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپ ا رمضان میں سخی ہوجاتے تھے (خصوصاً) جب آپ ا سے جبرائیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرائیل علیہ السلام آپ ا سے رمضان میں ہر رات میں ملتے تھے اور آپ ا سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے تو یقیناً (اس وقت ) رسول اللہ ﷺ (خلق اللہ کی نفع رسانی میں ) تند وتیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں ) تیز ہوتے تھے ۔
ایسا نہیں ہے
بعض لوگ حالتِ صوم میں مسواک کرنا ناپسند اور مکروہ خیال کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مسواک ایک محبوب اور باعث ثواب عمل ہے عمومی روایتوں سے حالتِ صوم میں مسواک کی اجازت ثابت ہے بعض ضعیف قسم کے استدلالات کی بنا پر حالتِ صوم میں مسواک کو مکروہ قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے ۔ (واللہ أعلم بالصواب )
افطاری
افطاری میں جلدی کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن جلدی سے مراد غروب آفتاب سے پہلے افطاری کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ غروب آفتاب کے بعد فوراً افطاری کرنی چاہیے ۔
دلیل : رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے ۔ ( متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ج/۱ ، ص/۶۱۹، بتحقیق الشیخ الألبانی رحمہ اللہ )
افطاری میں کھجوریں استعمال کرنا برکت ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب تم افطاری کرو تو کھجوروں کیساتھ کرو وہ برکت ہے اور اگر کھجوریں میسر نہ ہو تو پانی کیساتھ افطاری کرو کیونکہ وہ پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ (ابو داؤد ، عن سلمان بن عامر بحوالہ مشکوٰۃ ص/۶۲۰)
اور خادم رسول ا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نمازِ مغرب سے قبل تازہ کھجوروں کیساتھ روزہ افطار کرتے اگر تازہ کھجوریں مہیا نہ ہوتی تو پھر خشک کھجوریں کھاتے اگر وہ بھی میسر نہ ہوتی تو پانی کا گھونٹ پی لیتے تھے ۔ (ترمذی ، اسنادہ جید بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱ ، ص/۶۲۱، بتحقیق الشیخ الألبانی )
افطار ی کی دعا
رسول اللہ ﷺ جب افطاری کرتے تو یہ دعا پڑ ھتے تھے : ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابتَلَّتِ العُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجرُ إِن شَائَ اللّٰہُ (عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ، صحیح ابو داؤد )
پیاس جاتی رہی رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر (ثواب) ثابت ہو گیا۔
افطاری کروانے کی فضیلت
زید بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی جہاد کیلئے مجاہد تیار کرتا ہے یا روزے دار کو افطاری کرواتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ مجاہد یا روزے دار کو ثواب ملتا ہے ۔ (رواہ البیہقی صححہ الألبانی بحوالہ مشکوٰۃ ج/۱، ص/۶۲۱)
نمازِ تراویح
رسول اللہ ا نے کبھی بھی قیام اللیل کو ترک نہیں کیا یادرہے کہ نمازِتہجد قیام اللیل اور نمازِ تراویح ایک مسمیٰ کے مختلف نام ہیں اور صحیح ترین قول یہی ہے کہ تراویح کی مسنون اور معمول بھا تعداد صرف آٹھ رکعتیں ہیں ۔
دلیل : صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں (آٹھ رکعتیں تراویح + تین وتر) سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے ۔ (صحیح بخاری)
تفصیل کیلئے صلاۃ التراویح للمحدث الألبانی (عربی) اور تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ (اردو)مصنف محقق اہلحدیث حافظ زبیر علی زئی کا مطالعہ بے حد مفید ہو گا۔
اعتکاف
عشرہ اخیرہ میں اعتکاف بیٹھنا بھی معمولات محمدیہ ا میں سے شامل ہے ۔ جبکہ اعتکاف کا لغوی ، شرعی مفہوم تفصیلی احکام ومسائل اسوۂ حسنہ کے ہی دیر صفحات پر ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی رسول اللہ ا کے اسوۂ حسنہ کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
(جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟