Tuesday, September 1, 2009

زکوٰۃ کے احکام و مسائل

از الشیخ فضل الرحمٰن

رمضان المبارک وہ بابرکت ماہ ہے جس میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اپنے رب کی رحمتوں ، برکتوں اور مغفرتوں کو سمیٹنے میں مصروف ہوجاتی ہے اور رب تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی کمر کس لیتے ہیں اور تمام احکامات کی بجا آوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں انہی احکامات میں سے اللہ کا ایک حکم زکوۃ ادا کرنا ہے ۔ ادائیگی زکوۃ ایک دینی وملی فریضہ ہے جس کے معنی پاکی، صفائی اور نمو کے ہیں اور شریعت اسلامی میں زکوۃ اس مال کو کہتے ہیں جسے انسان اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے حقداروں کیلئے نکالتا ہے اسے زکوۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی سے انسان کا مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور اس شخص کے مال واجر میں اضافہ بھی ہوتا ہے زکوۃ بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز پڑ ھنا فرض ہے ۔

زکوۃ کی فرضیت وحکمت
زکوۃ ادا کرنا ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو کسی مال کے نصاب کا مالک ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِمْ بِہَا ﴾(التو بۃ:۱۰۳)
یعنی اے محمد ﷺ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ وصول کر کے انہیں پاک کیجئے اور ان کا تزکیہ کیجئے ۔
اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کی فرضیت کو مزید اجاگر کرتے ہوئے فرمایا ۔﴿الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآَتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ ﴾(الحج:۴۱)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر زمین میں اقتدار وحکومت نصیب کریں تو یہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کیلئے ہے ۔
ایک اور جگہ فرمایا اَقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَأَتَوُا الزَّکَاۃَ (نماز پڑ ھواور زکوۃ ادا کرو)
قرآن مجید میں تقریباً بیاسی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے زکوۃ ادا کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اور اکثر مقامات پر اس کا ذکر نماز کے ساتھ کیا ہے جس کا اندازہ درج بالا آیات سے بھی ہوتا ہے ۔ زکوۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے ۔ جیسا کہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔(بخاری ومسلم)
غرض یہ کہ زکوۃ کی فرضیت پر اور بھی کئی احادیث موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ زکوۃ بھی بعینہ اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے اور پھر اس کی مشروعیت میں بے انتہا حکمتیں پنہاں ہیں ۔
مثلاً : زکوۃ کی ادائیگی سے انسان بخیلی اور کنجوسی جیسے رذیل اوصاف سے مبراء ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فقراء ومساکین ، تنگ دستوں اور ناداروں کیلئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ زکوۃ ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے مَانَقَصَ مَالُ عَبدٍ مِن صَدَقَۃٍ (سنن الترمذی، کتاب الزہد)
صدقہ سے کسی بندے کے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔
زکوۃ کی فضیلت
زکوۃ ادا کرنے کی بے انتہا فضیلتیں ہیں جس میں باقی مال کی پاکی، مال میں برکت وزیادتی وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ زکوۃ ادا کرنے والے شخص کیلئے آپ ﷺ کی طرف سے جنت کی بشارت بھی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بدو نبی ا کرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مجھے ایسا عمل بتائیے جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، فرض نماز قائم کر، فرض زکوۃ ادا کر اور رمضان المبارک کے روزے رکھ ۔ اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہ کرونگا جب وہ آدمی چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جسے جنتی آدمی دیکھنے کا شوق ہو وہ اسے دیکھ لے ۔ (البخاری ، کتاب الزکوۃ)
زکوۃ کا نصاب
دین اسلام میں زکوۃ کا ایک نصاب مقرر ہے ۔ سونا ہو یا چاندی (نقدی) مال تجارت ہو یا زرعی پیداوار مویشی اور دبے ہوئے (مدفون) خزانے ان تمام اموال میں زکوۃ کا نصاب مقرر کر دیا گیا ہے ۔ جیسے سونے کا نصاب ساڑ ھے سات تولہ مقرر کیا گیا ہے (یا اس کے برابر نقدی ہو) اسی طرح چاندی کا نصاب ساڑ ھے باون تولہ مقرر کیا گیا ہے (یا اس کے برابر نقدی ہو)اور ایسے ہی ان تمام اموال کے نصاب مقرر ہیں جن پر زکوۃ فرض ہے اور اگر مال نصاب سے کم ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے
لَیسَ فِیمَا دُونَ خَمسِ أَوَاقٍ مِنَ الوَرِقِ صَدَقَۃٌ (البخاری ، کتاب الزکوۃ)
چاندی کے پانچ اوقیہ(یعنی دوسو درہم یا ساڑ ھے باون تولہ) سے کم میں زکوۃ نہیں ہے ۔
لہذا جس کسی کا مال اس کے نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ فرض ہوجاتی ہے ۔جوچالیسواں حصہ یعنی اڑ ھائی فیصد ہوئی ہو تو سو روپے میں اڑ ھائی روپے اور ہزار روپے میں 25روپے ۔
زیورات پر زکاۃ
سونے اور چاندی کے زیورات جو زیر استعمال ہیں یا استعمال کیلئے عاریتاً دینے کیلئے بنوائے گئے ہیں ان میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف معروف ومشہور ہے لیکن راحج قول یہی ہے کہ ان زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب ہے ، کیونکہ سونے اور چاندی میں زکوٰۃ واجب ہونے کے جو دلائل ہیں وہ عام ہیں ۔ نیز عبد اللہ بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک خاتون نبی ا کے پاس آئی اور ان کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے ۔ اسے دیکھ کر آپ ا نے فرمایا: کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں آپ نے فرمایا: کیا تم کو یہ اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگ۔ پہنائے ؟ چنانچہ اس نے وہیں دونوں کنگن اتاردیے اور کہا: یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کیلئے ہیں ۔ (ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب الکنز ما ہو؟ (۱۵۶۳)
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حدیث ہے کہ وہ سونے کے زیورات پہنتی تھی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کیا یہ کنز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو مال زکاۃکے نصاب کو پہنچ جائے اور پھر اس کی زکوٰۃ دے دی جائے تو کنز نہیں ۔ (ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب الکنز ما ہو ؟ (۱۵۲۴))
آپ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ زیورات میں زکوۃ نہیں ہے ۔
یہ ساری حدیثیں ان زیورات پر محمول کی جائیں گی جو نصاب زکوٰۃ کو پہنچ گئے ہوں تاکہ ان احادیث کے درمیان اور زکوٰۃ کے تعلق سے وارد دیگر مسائل کے درمیان تطبیق ہوجائے کیونکہ جس طرح قرآنی آیات ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں اور احادیث نبوی ﷺ بھی آیات کی تفسیر کرتی ہیں ۔ نیز آیات کے عام کو خاص اور مطلق کو مقید کرتی ہیں ، اسی طرح احادیث بھی بعض بعض کی تصدیق وتفسیر کرتی ہیں ۔ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے جس طرح ان کا مقدار نصاب تک پہنچنا ضروری ہے اسی طرح دیگر امور زکوٰۃ مثلاً روپے پیسے ، سامان تجارت اور چوپایوں کی طرح زیورات پر ایک سال کی مدت کا گزرنا بھی ضروری ہے ۔ واللہ ولی التوفیق! (ماخوذ از احکام ومسائل الشیخ مبشر احمد ربانی)
مصارف زکوۃ
زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں یعنی جن لوگوں کو زکوۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے وہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں ۔ جو رب تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ذکر کیے ہیں ۔
فرمان ایزدی ہے ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَاِبْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَۃً مِنَ اللَّہِ وَاللَّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ﴾(التوبۃ:۶۰)
صدقات فقراء ، مساکین، اس پر (زکوۃ) کام کرنے والے ، جن کے دلوں کی تالیف مطلوب ہو، غلام آزاد کروانے ، مقروض لوگوں کیلئے ، اللہ کے راستے میں ، اور مسافروں کیلئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔
مذکورہ بالا آیت کی رو سے زکوۃ کے مستحق درج ذیل عناصر ہیں ۔
۱۔ فقراء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس اتنا مال نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اہل وعیال کی ضروریات پوری کرسکتے ہوں ۔
۲۔ مساکین کی تعریف نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں یوں فرمائی ہے مسکین وہ نہیں جو ایک دولقموں ، یا ایک دو کھجوروں کی خاطر لوگوں کے پاس چکر لگاتا پھرے بلکہ مسکین وہ ہے جسکی ضروریات پوری نہیں ہورہی ہوں ۔ گمنامی میں رہتا ہوکہ اس کو خیرات نہیں دی جاری اور نہ ہی وہ کھڑ ا ہوکر لوگوں سے سوال کرتا ہے ۔
۳۔زکوۃ پر کام کرنے والے سے مراد زکوۃ وصول کرنے والے ہیں ۔ زکوۃ کے نگران ومنتظم بھی اس میں شامل ہیں اگرچہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں وہ زکوۃ لینے کے حقدار ہیں یعنی ان کو زکوۃ کی مد سے تنخواہ دی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : مالدار کیلئے زکوۃ لینا حلال نہیں ہے مگر پانچ لوگوں کیلئے حلال ہے ، زکوۃ میں کام کرنے والا، مقروض انسان، اللہ کے راستے میں لڑ نے والا، اور اگر کسی مسکین کو زکوۃ کا مال دیا گیا ہو اور وہ اس میں سے ہدیہ اپنے مالدار پڑ وسی کودے دے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔(سنن أبی داؤد، کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر :۱۳۹۳)
۴۔ دلوں کی تالیف کیلئے : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی طرف مائل ہوں یا انہیں مائل کرنا ہو یا پھر وہ مسلمان تو ہو گئے ہوں مگر ان کی اسلامی حالت کمزور ہو ایسے لوگ بھی مصارف زکوۃ میں شامل ہیں تاکہ یہ لوگ مکمل اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام پرجم کر پکے مسلمان ہوجائیں ۔
۵۔زکوۃ کا پانچواں مصرف غلام آزاد کروانا یا کسی قیدی کو قید خانے سے چھڑ وانا ہے یعنی اللہ کے راستے میں کسی غلام کو زکوۃ کے پیسے سے خرید کر یا کسی قیدی کو جیل سے رہائی دلوائی جا سکتی ہے ۔
۶۔ مقروض لوگ : اس سے مراد ایسا صاحب قرض ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی میں مقروض نہ ہوا ہو اور اس قرض کی ادائیگی بہت مشکل ہو تو ایسے شخص کو اس قدر زکوۃ دی جا سکتی ہے جس سے اس کے قرض کی ادائیگی ہوجائے ۔
۷۔اللہ کے راستے میں : اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ اور وہ کام ہیں جو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے موجب ہوں جیسے مدارس، رفاہی وفلاحی ادارے ، خیراتی ہسپتال، یتیم خانے وغیرہ ہیں ۔
۸۔ابن السبیل سے مراد مسافر ہے جوکہ سفر کی حالت میں ہو اور تنگدست ہو گیا ہو اگر ایسا شخص اپنے علاقے میں مالدا ر ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر سفر میں اس کا مال ختم ہوجائے اور وہ ضرورت مند ہوجائے تو ایسے شخص کو زکوۃ دی جا سکتی ہے ۔
یہ آٹھوں قسم کے لوگ زکوۃ کے مستحق ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے غرض یہ کہ زکوۃ مالداروں سے لیکر غریبوں کو دینی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : مسلمان مالداروں سے زکوۃ لی جائے اور مسلمانوں کے محتاجوں پر تقسیم کیا جائے ۔ (البخاری، کتاب الزکوۃ)
زکوۃ نہ دینے پر وعید
ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ٭یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْہَا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُونَ ﴾(التوبۃ۳۴۔۳۵)
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے جس دن اس کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغ دیا جائے گا اور ان سے یہ کہا جائے گا کہ یہ وہی خزانہ ہے جس کو تم لوگوں نے اپنے لیے جمع کیا تھا اب تم اس خزانے کے عذاب کو چکھو۔
نبی ا کرم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص سونے چاندی کی زکوۃ نہ دے گا قیامت کے روز جس کی مقدار پچاس ہزار برس کے برابر ہو گی اس کے مال کی تختیاں بنائی جائیں گی اور دوزخ کی آگ میں گرم کر کے اس کی پیشانی ، کروٹ اور پیٹھ پر داغی جائیں گی ۔ پچاس ہزار برس کے دن یہی عذاب ہوتا رہے گا یہاں تک کہ تمام بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا فیصلہ کے بعد یہ شخص یا تو جنت میں جائے گا یا جہنم میں ۔ (مسلم، کتاب الزکوۃ)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کی زکوۃ نہیں دے گا تو قیامت کے روز وہ جانو ر بہت موٹے تازے ہوکر اپنے مالکوں کو اپنے تیز سینگوں سے ماریں گے اور اسے روندتے اورکچلتے رہیں گے پچاس ہزار سال کے برابر اسے یہی عذاب ہوتا رہے گا۔(مسلم، کتاب الزکوۃ)
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال ایسے گنجے سانپ کی شکل بن کے ، جس کی آنکھوں کے اوپر دوسیاہ دھبے ہوں گے ۔ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا اَنَا مَالُکَ ، أَنَا کَنزُکَ ( میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں ) پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آَتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَہُمْ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ﴾ (آل عمران:۱۸۰)
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال دیا ہے اور وہ بخیلی کرتے ہیں تو وہ یہ بخل اپنے لیے بہتر نہ سمجھیں بلکہ ان کے حق میں برا ہے عنقریب قیامت کے دن یہ بخیلی ان کے گلے کا طوق بننے والی ہے ۔
درج بالا آیات واحادیث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مانع الزکوۃ کو اللہ کی طرف سے دردناک عذاب ہو گا جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ معراج کی رات جب آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے آگے اور پیچھے سے دھچیاں لٹک رہی تھیں اور وہ اونٹ کی طرح کانٹے دار جہنمی درخت کو چبا رہے تھے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے تھے آپﷺنے جبرائیل امین علیہ السلام سے دریافت فرمایا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوۃ نہ دیتے تھے ۔(ابن کثیر)
اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے (اللہ کی طرف سے ) یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک وہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں ۔ (بخاری ومسلم)
جس طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکاۃ سے جنگ کی اور فرمایا: اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کرونگا جنہوں نے نماز اور زکاۃ کے درمیان تفریق کی اور اگر ان لوگوں نے مجھ سے اونٹ کی ایک رسی بھی جسے وہ نبی ﷺ کو دیا کرتے تھے روکی تو میں ان سے لڑ وں گا۔ (بخاری ومسلم)
لہذا زکوۃ نہ دینے سے اللہ کے بے شمار عذاب آتے ہیں جن میں قحط سالی، مال کی تباہی وبربادی اور زکوۃ ادا نہ کرنے والا شخص دوزخی ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق بھی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو جومال دار ہیں اپنے مالوں میں سے صحیح اور مکمل طور پر زکوۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟