Tuesday, September 1, 2009

روزہ کیسے گذاریں؟

از الشیخ عبدالرحمٰن عیسیٰ

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
قال اللہ تعالیٰ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۴)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
﴿شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ ہُدًی للِّنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الہُدَی وَالفُرقَانِ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جوراہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔

رمضان المبارک ، قرآن مجید اور تقویٰ
رمضان المبارک کا مہینہ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک انتہائی عظیم نعمت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عنایت فرمائی ہے ۔
اسی ماہ میں ہمیں محمدﷺ کی رسالت نعمت عطا کی گئی اس ماہ میں قرآن مجید ہمیں عطا کیا گیا جو ہدایت، فرقان ، رحمت ، نور، شفا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ امت کی زندگی اور سربلندی کا رازدعوت محمد ﷺ کیلئے جہاد میں پوشیدہ ہے ۔ پہلے انسانوں کے دل جیتنے کیلئے جہاد، پھر تہذیبی غلبہ کیلئے جہاداور اس جہاد کے ساتھ ساتھ ، کامیابی کیلئے اپنے نفس سے جہاد، تاکہ تقویٰ حاصل ہو، انفرادی تقویٰ بھی اور اجتماعی تقویٰ بھی۔ خلوتوں میں نالہ نیم شبی ، آہ سحر گاہی اور اشکوں سے وضوبھی اور جلوتوں میں پبلک لائف میں ، صداقت، دیانت، امانت، عدالت، شجاعت،
ا خوت اور حقوق انسانی کا احترام بھی رمضان علم وعمل کا وہ راستہ ہے جس کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے ۔نبی کریمﷺ رمضان سے قبل اپنے ساتھیوں کواس ماہ کے خزانوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیارکیا کرتے تھے ۔
چند دن کی بات ہے کہ ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہو گا اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سراب کرنے کیلئے برس رہی ہو گی اس مہینے کی عظمت وبرکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی کریمﷺ نے شہر عظیم اورشہر مبارک کہا ہو۔یعنی بڑ ی عظمت والا مہینہ اور بڑ ی برکت والا مہینہ ، نہ ہم اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کا احاطہ کرسکتے ہیں نہ ہمارا قلم اس کی ساری برکتیں تحریر کر سکتا ہے ۔
رمضان المبارک عظیم کیوں ؟
اس ماہ کے دامن میں وہ بے شمار بہاریں ہیں کہ اس کی ایک رات میں ہزاروں مہینوں سے بڑ ھ کر خیروبرکت کے خزانے لٹائے جاتے ہیں ۔اور اسی ماہ میں قرآن مجید ہمارے نبی ﷺپر نازل ہوا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ماہ کا ہر روز، روزسعید ہے اور ہرشب شب مبارک ہے دن روشن ہوتا ہے تو ان گنت بندوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی اطاعت اور رضا جوئی کی خاطر ، اپنے جسم کی جائز خواہشات اور اس کے ضروری مطالبات تک ترک کر کے گواہی دیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کا رب اور مطلوب ومقصود ہے ۔اس کی اطاعت وبندگی کی طلب ہی زندگی کی اصل بھوک پیاس ہے اور اس کی خوشنودی ہی میں دلوں کیلئے سیری اور لوگوں کیلئے تری کاسامان ہے ۔
اس ماہ کی ہر گھڑ ی میں فیض وبرکت کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال صالحہ، فرض اعمال صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرائض ستر گناہ زیادہ وزنی اور بلند ہوجاتے ہیں ۔ اس مہینے میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق عام ہوجاتی ہے ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔
آپ کا حصہ
اس مہینے کی عظمت اور برکت بلاشبہ عظیم، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پالے ، جب بارش ہوتی ہے تو مختلف ندی نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت وگہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ، بارش سب پر یکساں برستی ہے مگر ایک چھوٹے سے گڑ ھے کے حصے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا جتنا ایک لمبے چوڑ ے تالاب میں بھر جاتا ہے ۔یہی حال انسانوں کی فطرت اور ان کے نصیب کا ہے ۔زمین کی طرح آپ کے دل نرم اور آنکھیں نم ہوں گی آپ ایمان کا بیج اپنے اندر ڈالیں گے اور اپنی صلاحیت واستعداد کی حفاظت کریں گے تو بیج پودا بنے گا اور پودا درخت اور درخت اعمال صالحہ کے پھل پھول اور پتوں سے لہلہا اٹھیں گے اور آپ ابدی بادشاہت کی فصل کاٹیں گے کسان کی طرح، آپ سخت عمل کریں تو جنت کے انعامات کی فصل تیار ہو گی۔اور اگردل پتھر کی طرح سخت ہونگے اور آپ غافل کساں کی طرح سوتے پڑ ے رہ جائیں گے تو روزہ ، تراویح اور رحمت وبرکت کاسارا پانی بہہ جائے گا اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ توفیق الٰہی کے بغیر یقینا کچھ نہیں ملتا لیکن یہ توفیق بھی اس کو ملتی ہے جوکوشش اور محنت کرتا ہے تو ایسا نہ کیجئے کہ رمضان کاپورا مہینہ گزر جائے رحمتوں اور برکتوں کے ڈول کے ڈول انڈیلے جاتے رہیں اور آپ کو اتنا نصیب ہو کہ آپ کی جھولی خالی رہ جائے ۔ سارا انحصار آپ پر ہے نبی کریمﷺ رمضان سے پہلے اپنے رفقاء کو مخاطب کر کے اسی مہینے کی عظمت وبرکت بھی بیان کرتے اور اس کی برکتوں کے خزانوں میں سے اتنا بھر پور حصہ لینے کیلئے پوری محنت اور کوشش کی تاکید فرماتے : کچھ کرنے کیلئے اور اپنے حصے کی رحمتیں لوٹنے کیلئے کمر کس لیجئے اور نبی کریم ﷺ کی اس تنبیہ کو اچھی طرح یاد رکھیں ۔
کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑ ھنے والے جن کو اپنی نمازوں سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(الدارمی)
برکت وعظمت کا راز
رمضان المبارک کے مہینے میں جو عظمت اور برکت ہے اس کاسارا راز ایک چیز میں پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن مجید نازل کیا گیا گویا کہ اس ماہ میں رب رحمن ورحیم کی بے پایاں رحمت نے ہم جیسے انسانوں کی راہنمائی کاسامان عطا فرمایا اس کی حکمت لامتناہی ہے ہماری سوچ اور عمل کی صحیح راہیں اور غلط کو پرکھنے کیلئے وہ کسوٹی عطا کی جو غلطی، کمی اور تغیر سے پاک ہے بات یہ نہیں ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ اس لیے مبارک ہواکہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اورتلاوت قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ مبارک اس لیے ہوا کہ اس میں نزول قرآن کا عظیم الشان واقعہ ظہور پزیر ہوا۔
نعمت قرآن
ویسے تو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حد وحساب ہیں ہم ہر لمحہ دونوں ہاتھوں سے ان نعمتوں کے خزانے لوٹ رہے ہیں لیکن دنیا اور دنیا کی ہر نعمت اسی وقت تک ہماری ہے جس وقت تک سانس آ رہی ہے اور جا رہی ہے ۔ آخری سانس نکلی تو زندگی کے ان فانی لمحات کو لازوال زندگی میں ان ختم ہوجانے والی نعمتوں کو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں میں بدل سکتی ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی نعمت ہے ۔ اسی لیے یہ دنیا کے سارے خزانوں سے زیادہ قیمتی خزانے ہیں اسی لیے جس رات یہ نازل کیا گیا اس کو لیلۃ مبارکہ اور لیلۃ القدر فرمایا اور جہاں جہاں اس کے اتارے جانے کا ذکر فرمایا اکثر اس کا رشتہ اپنی رحمت بار بار کی جانے والی رحمت اپنی بے پایاں حکمت ، اور اپنی بے پناہ قوت کے ساتھ جوڑ ا پھر اسی لیے رمضان کے اختتام پر عید منانے کو کہا۔
رمضان میں روزہ اور تروایح کیوں ؟
یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں اگر آپ یہ جان لیں کہ قرآن مجید کی نعمت کی حقیقت کیا ہے اور تھوڑ ا سا غور کر لیں کہ قرآن مجید کا امین وحامل ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں
قرآن کی عظیم امانت اور مشن
نعمت جتنی بیش بہا ہو اس کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری اتنی ہی بھاری ہوتی ہے ۔ اس کی کتاب اور اس کا کلام سب سے بڑ ی رحمت اور برکت ہے اس لیے یہ اپنے دامن میں ذمہ داریوں کی ایک پوری دنیا رکھتی ہے یہ ذمہ داریاں اس حوالے سے ہیں کہ یہ کتاب زندگی کے اصل مقصد اور زندگی کو کامیاب اور بامراد بنانے کیلئے صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے یہ کتاب انسان کے سارے باطنی وظاہری اور انفرادی واجتماعی امراض کیلئے نسخہ شفا ہے ۔ یہ کتاب اندھیروں میں بھٹکنے والوں کیلئے چراغ راہ ہے دیکھئے تو ہدایت الٰہی کا یہ انعام دو بڑ ی ذمہ داریاں اپنے ساتھ لاتا ہے ۔
۱۔ایک اس بتائی ہوئی راہ پر خود چلنا، اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرنا اس کے نسخہ شفا کو اپنی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال کرنا ، اپنے دل کو، اپنی سوچ کو فکر وعمل کو سیرت وکردار کو اس کے بتائے ہوئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگ جانا۔
۲۔دوسری جو ہدایت ، ہُدًی للِنَّاسِ ہے سارے انسانوں کیلئے ہے صرف اپنے نفس کیلئے نہیں ۔اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچانا ان کو اس کی راہ پر چلنے کی دعوت دینا ، اندھیروں میں راتوں میں روشنی کرنا ، اور بیماروں تک دوا پہنچانا۔
سوچئے تو دوسری ذمہ داری پہلی ذمہ داری ہی کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا ایک ناگزیر حصہ دوسراکام کیے بغیر پہلا کام کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے ۔ دوسری طرف جب تک دوسروں کو قرآن کی راہ پر چلانے کیلئے کوشش اورمحنت نہ ہو، خود آپ کا اپنا صحیح راہ پر بھی ناقص اور نامکمل رہے گا اس لیے کہ دعوت وجہاد تو قرآن پر عمل کرنے کا سلوک قرآنی کا ، ایک لازمی حصہ ہے بلکہ چوٹی کا عمل ہے ۔ اس لیے کہ آپ کی زندگی دوسرے انسانوں کی زندگیوں سے تعلقات وروابط میں اس طرح گھتی ہوئی ہے کہ جب تک وہ بھی اس راہ پر نہ چلیں آپ کا تنہا چلنا مشکل ہے ۔ اور پوری طرح چلنا اوربھی زیادہ مشکل ہے یہ قرآن کا مشن ہے یہ ذمہ داری کتنی بھاری اور بڑ ی ذمہ داری ہے اس کا تصور بھی مشکل ہے ۔ ساری انسانیت کو صحیح راہ پر ڈالا جائے یہ ایک انتہائی عظیم الشان کام ہے ۔ اس لیے حضورﷺ پہلا پیغام لے کر غار حرا سے گھر آئے تو کانپتے اور لرزتے ہوئے خود اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی امانت کو ایک بھاری بات ، قول ثقیل کہا اور کمر توڑ بوجھ قرار دیا یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن ایسا مشکل بھی نہیں کہ اس کا اٹھانا انسان کے بس سے باہر ہو۔ بس اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے اپنے اندر ایک ایسابندہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ جو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو اور اپنی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے اور اس کیلئے قرآن سے مسلسل گہراربط بھی ضروری ہے صبر اور استقامت بھی درکار ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانی بھی ناگزیر ہے ۔
تقویٰ کیا ہے ؟
تقوی بڑ ی اونچی اور بیش بہا صفت ہے اور ساری مطلوبہ صفات کی جامع بھی ، تقویٰ وہ چیز ہے جس سے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے ۔
تقویٰ وہ ہے جس سے رزق کے دروازے اس طرح کھلتے ہیں کہ انسان کوگمان بھی نہیں ہوتا تقویٰ کی وجہ سے دین اور دنیا کے سارے کام آسان ہوجاتے ہیں ، جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے ۔ متقین ہی وہ ہیں جن کو اس جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں انہی سے ایسی مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اس جنت کی طرف لے جانے والی ہے ۔
تقویٰ کیا ہے ؟ بات سمیٹ کر کہی جائے تو کہنا چاہیے کہ تقویٰ قلب وروح ، شعوروآگہی، عزم وارادہ ، نظم وضبط اور عمل وکردار کی اس قوت اور استعداد کانام ہے کہ جس کے بَل بوتے پر ہم اس چیز سے رک جائیں جس کو ہم غلط جانتے اور مانتے ہیں ۔
تقوی کے لغوی معنی: بچنے کے ہیں ۔
یہ قوت ہماری فطرت میں ودیعت ہے کہ ہم نقصان وتکلیف سے بچیں ، نفع کالالچ کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ، ہمارے اندر اس کی طلب اور قوت نہ ہوتو انسان کی زندگی کی بقابالکل ناممکن ہے نہ وہ ترقی کرسکتا ہے ۔
متقی وہ بن سکتے ہیں جو غیبی امور پر ایمان لائیں اور ان کیلئے ایک ہی راستہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے تن من دھن سب کو پورا کا پورا اپنے رب کے حوالے کر دے یہی وہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے آغاز ہی میں بیان فرمادیا ہے غیب پر ایمان، جسم وجان سے بندگی نماز کی شکل میں ، اس کا دیا ہوا اسی کی راہ میں خرچ کرنا، حق وباطل کی کسوٹی کیلئے وحی پر ایمان اور آخرت پر یقین۔ جو اللہ کو اپنا رب کہے اور اس کے بعد بھی اپنے جسم وجان کی قوتوں کو اپنے وقت اور مال کو ان را ہوں میں لگائے جو اس کو ناپسند ہیں اور ان چیزوں سے نہ بچے جو اس کے غضب کی آگ بھڑ کانے والی ہے وہ تقویٰ سے محروم ہے تقویٰ صرف ظاہری رسوم کی پابندی کانام نہیں یہ اپنے اندر کی قوت اور یقین کانام ہے اسی لیے نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ تو یہاں ہے ۔(مسلم)
تقویٰ اور روزہ کا تعلق
تقوی کے یہ معنی آپ ذہن میں رکھیں تو یہ بات سمجھنا کچھ دشوار نہیں کہ تقویٰ پیدا کرنے کیلئے روزہ قیام لیل، اور تلاوت قرآن سے زیادہ مؤثر کوئی اور نسخہ مشکل ہی سے ہو سکتا ہے ۔
ہم روزہ رکھتے ہیں تو صبح سے شام تک اپنے جسم کے جائز مطالبات تک کو بھوک پیاس جیسے مطالبات تک کو پورا کرنے سے اللہ کی رضا کی خاطر رک جاتے ہیں اور اس کے اجروانعام کی خاطر اپنی جائز خواہشات بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ روزے سے ہمارا یقین بھی راسخ ہوتا ہے کہ جن حقیقتوں کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دی ہے جو مادی وحسی نہیں ہیں وہ بھوک، پیاس اور جنسی جیسی مادی حقیقتوں سے کہیں زیادہ بالابیش بہا اور لذیذ ہیں ۔
روزہ یہ بات بھی راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعت الٰہی ہے صرف حکم الٰہی ہی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کیلئے آخری سند ہے نیکی اور ثواب کھانے میں نہیں نہ بھوکے رہنے میں ، نہ جاگنے میں نہ سونے میں ، نیکی اور ثواب صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے ۔
روزے فرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اندر وہ تقویٰ پیدا کریں جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت کا حق ادا کرنے کی قوت اور استعداد حاصل ہو۔
ہم کیا کریں ؟
جس سے رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں اس کے روزوں سے اس کی تراویح سے ، اس کی تلاوت قرآن سے ، اس کی عبادات ومعمولات سے ، اس کی راتوں اور اس کے دنوں سے ، تقویٰ کی قوت اور استعداد حاصل کرسکیں ۔اس کیلئے سب سے پہلی چیز نیت اور پکا ارادہ ہے ۔
۱۔ نیت
نیت شعور واحساس پیدا کرتی ہے اور اس کو متحرک کرتی ہے ۔ شعور بیدار ہوتو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ محنت اور کوشش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔کسی کام کیلئے مقصد کے صحیح شعور اور اس کے حصول کیلئے پختہ عزم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کیلئے روح کی ہوتی ہے ۔نیت عمل کی روح کاکام اسی صورت میں کرسکتی ہے جب یہ دل ودماغ میں عمل کا مقصد اجاگر کر دے اور دل میں اس مقصد کے حصول کیلئے عزم پیدا کر دے ۔نیت ہونی چاہیے صحیح ہونی چاہیے لیکن خالص بھی ہونی چاہیے یعنی ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے اور اس کا اجر وانعام حاصل کرنے کیلئے کرنا چاہیے ۔ اگر آپ کی نیت خالص نہ ہو گی اور آپ کام صرف اللہ تعالیٰ کیلئے نہ کریں گے تو وہ قبول نہ ہو گا اور آپ کی محنت کا اجر ضائع جا سکتا ہے ۔
۲۔ قرآن مجید سے تعلق
دوسری چیز قرآن مجید کی تلاوت وسماعت اور علم وفہم کے حصول کا اہتمام ہے ۔اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑ ھنا قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے ۔ رمضان میں پورا قرآن تراویح میں سن لیتے ہیں لیکن عربی نہ جاننے کی وجہ سے آپ اس عبادت سے یہ فائدہ نہیں حاصل کرپاتے کہ آپ قرآن کے پیغام اور مضامین سے واقف ہوجائیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن کیلئے لگائیں یعنی قرآن کا کچھ حصہ ترجمہ سے سمجھ کر پڑ ھنے کی کوشش کریں ، سمجھ کرپڑ ھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کو اپنے اندر جذب کر لیں اور اس کے ساتھ اپنے دل اور روح کے تعلق کو گہرا کریں اور پروان چڑ ھائیں خواہ آپ تھوڑ ا ہی حصہ پڑ ھیں ۔لیکن اس میں ڈوب کر پڑ ھیں آپ کا دل اور دماغ اور جسم سب تلاوت کے اس کام میں شریک ہوں ۔
۳۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا
تیسری چیز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کریں ۔ روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا اور رمضان المبارک کا مہینہ تقویٰ کی افزائش کا موسم بہار ہے اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا ضروری ہے ۔اچھی طرح جان لیجئے کہ روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ، آنکھ کا بھی روزہ ہے ، کان کا بھی روزہ ہے ، زبان کا بھی روزہ ہے ، ہاتھ پاؤں کا بھی روزہ ہے ۔وہ روزہ یہ ہے آنکھ وہ نہ دیکھے کان وہ نہ سنے ، زبان وہ نہ کہے ، ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں ، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور جن سے اس نے منع فرمایا ہے ۔ ایک ایک کر کے اپنی خرابیوں پر قابو پانے سے بہت کام ہو سکتا ہے یہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کی پابندی سے تمام کام سدھرنے اور اپنی نیکیاں غارت ہونے سے بچانے کے عظیم فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔
۴۔ نیکی کی جستجو
چوتھی چیز ہر طرح کی نیکیوں کی خصوصی جستجو ہے ۔ہر لمحے ، ہر قسم کی نیکی کی طلب اور جستجو تو مؤمن کی فطرت کا جز ہونا چاہیے لیکن رمضان کے مہینے میں اس معاملے میں بھی خصوصی توجہ اور کوشش ضروری ہے اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ جس نیکی سے بھی خدا کا قرب تلاش کریں اس کا ثواب فرض کے برابر ہوجاتا ہے ۔ اس سے بڑ ی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے ۔
۵۔ قیام اللیل
پانچویں چیز قیام اللیل ہے ۔رات کا قیام اور تلاوت قرآن اپنا احتساب اور استغفار ، تقویٰ کے حصول کیلئے بہت ضروری اور انتہائی کارگر نسخہ ہے ۔ یہ متقین کی صفت اور علامت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ متقین وہی ہیں جورات کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں ۔ (الذاریات)
رمضان کے مہینے میں تھوڑ اسا اہتمام کر کے رات کے آخری حصے میں آپ قیام اللیل کی برکت حاصل کرسکتے ہیں اور آپ کا شمار مستغفرین بالاسحار میں ہو سکتا ہے اس کا طریقہ بڑ ا آسان ہے ، سحری کیلئے تو آپ اٹھتے ہیں ، پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھ کر وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھ لیں ۔
۶۔ ذکر ودعا
چھٹی چیز: ذکر اور دعا کا اہتمام ہے ۔ذکر اور دعا کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے ، ہروہ کام جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ذکر ہے خواہ دل سے ہو یا زبان سے یا اعضاء وجوارح سے روزہ بھی ان معنوں میں ذکر ہے بھوک پیاس بھی ذکر ہے ، ذکر کی ایک صورت دعا ہے جو ہمیں اس مہینے میں کثرت سے کرنی چاہیے ۔
۷۔ شب قدر اور اعتکاف
ساتویں چیز:شب قدر کا اہتما م ہے۔ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ، یہ رات اپنی قدرو قیمت کے لحاظ سے اس کام کے لحاظ سے جو اس رات میں انجام پایا، ان خزانوں کے لحاظ سے جو اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں ۔اور حاصل کیے جا سکتے ہیں ، ہزاروں مہینوں گذشتہ بہتر ہے جو اس رات قیام کرے اس کو سارے گنا ہوں سے مغفرت کی بشارت دی گئی ہر رات کی طرح اس میں بھی وہ عظیم گھڑ ی ہے جس میں دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں اور دین ودنیا کی جو بھلائی مانگی جائے وہ عطا کی جاتی ہے ۔
اگر ہمت وحوصلہ ہوتو پھر آپ آخری عشرے میں اعتکاف بھی ضرور کریں ۔اعتکاف کی اصل روح یہ ہے کہ آپ کچھ مدت کیلئے دنیا کے ہر کام، مشغلے اور دلچسپی سے کٹ کر اپنے آپ کو صرف اللہ کیلئے وقف کر دیں ۔ اہل وعیال اور گھر بار چھوڑ کر اس کے گھر گوشہ گیر ہو جائیں اور سارا وقت اس کی یاد میں صرف کریں ۔ اعتکاف کا حاصل یہ ہے کہ پوری زندگی ایسے سانچے میں ڈھل جائے کہ اللہ کو اور اس کی بندگی کو ہر چیز پر فوقیت اور ترجیح حاصل ہو۔
۸۔انفاق فی سبیل اللہ
آٹھویں چیز اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کرنا ہے ۔نبی کریم ﷺ سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے لیکن جب رمضان المبارک اور حضور کی ملاقات جبرئیل علیہ السلام سے ہوتی تو پھر آپ ﷺ کی سخاوت اور دادو بس کی کوئی انتہا نہ رہتی آپ ﷺ اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کی مانند ہوجایا کرتے تھے ۔(بخاری ومسلم عن ابن عباس )
پس آپ رمضان میں اپنی مٹھی کھول دیں اللہ کے دین کی اقامت وتبلیغ کیلئے اقرباء کیلئے یتیموں اور مسکینوں کیلئے ، جتنا مال بھی اللہ کی راہ میں نکال سکیں نکالیں ۔ لیکن جو کچھ دیجئے صرف اللہ کیلئے دیجئے کسی سے بدلے اور شکر یے کی خواہش آپ کے دل میں نہ ہو۔
۹۔انسان کی مدد اور خدمت
نویں چیز انسان کی مدد اور خدمت ہے
یہ اپنے جیسے انسانوں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے خاص طور پر یہ معاش ورزق کے دائرے میں ایک دوسرے کی تنگیوں اور محرومیوں ، پریشانیوں اور دکھوں میں شرکت اور مدد وخدمت کا مہینہ ہے ۔اس لیے اس مہینے میں خاص اہتمام کیجئے کہ آپ اپنے بھائی بہنوں کے کام آئیں ۔
۱۰۔دعوت الی القرآن
دسویں چیز قرآن اور خیر کی طرف بلانا ہے ۔
قرآن کی وجہ سے ہی رمضان کو عزت وشرف حاصل ہوا ہے پھر نزول کے مہینے سے زیادہ موزون وقت اس کام کیلئے کیا ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں ان کو قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کریں ان کو قرآن کے مشن کی طرف بلائیں ان کو قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے کیلئے کھڑ ا کریں ۔
یہ دس چیزیں میں نے آپ کے سامنے الگ الگ بیان کی ہیں آپ ان پر غور کریں تو یہ سب ایک ہی مقصد کے رشتے سے بندھی ہوئی ہیں وہ رشتہ یہ ہے کہ ہم رمضان سے وہ تقویٰ اور قوت واستعداد حاصل کریں جس سے ہم قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے کے اہل بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کی امانت کا حق ادا کرنے والا بنائے اور قرآن پر عمل کرنے والا بنائے ۔آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟