Tuesday, September 1, 2009

روزہ فلاحِ دارین

از ڈاکٹر حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ

قدیم زمانے کے سارے تمدنوں اور سارے مذاہب نے اپنے ماننے والوں پر ہر سال چند دن روزے فرض کئے ہیں ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا یہ صرف ایک تو ہم ہے یا اس میں کچھ فائدہ بھی ہے ؟ ہم اب ایک ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ہرشہری خواہ غریب ہو یا امیر علم حاصل کرسکتا ہے اور ہماری حکومتیں ہم کو مجبور نہیں کرتیں کہ ہم اپنے روحانی فرائض بجالائیں اس لئے اب یہ معلوم کرنا مناسب ہو گا کہ روزہ رکھنے کا یہ قدیم فرض اب بھی لوگوں کے لئے مفید ہے یا نہیں ؟ اس پر غور کرنا خاص طور پر مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کیونکہ نہ صرف عقل اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے بلکہ قرآن بھی جو اسلام کی بنیاد ہے ، اس کا حکم دیتا ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے کوئی روحانی فریضہ ایسا نہیں عائد کیا ہے جس میں عقل سے اپیل نہ کی گئی ہوکہ غور کرو ، سوچو اور سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اس حکم کے بجا لانے سے ہمارا ہی فائدہ ہے ۔ باربار قرآن تنبیہ کرتا ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ آزادانہ طور پر غور کریں تاکہ ہم انفرادی اور شخصی طور پر اس قابل ہو سکیں کہ ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں آدمی کو چاہیے کہ جانوروں کی طرح جو دل میں آئے نہ کرے بلکہ عقل اور سمجھ سے بھی کام لے جو اللہ نے اس کو عطا کئے ہیں ۔ جانوروں کو یہ چیزیں اللہ نے نہیں دی ہیں آدمی کو چاہیے کہ کسی مذہبی کام کو ناقابل فہم اسرار قرار دے کر عقل کو علیحدہ چیز اور مذہب کو علیحدہ چیز نہ بنا لے اور صرف اعتقاد کی خاطر کسی چیز کا اعتقاد نہ رکھے بلکہ جو اعتقاد رکھے اس کے متعلق پوری طرح مطمئن ہوجائے کہ یہ اعتقاد صحیح ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے مزاج اور طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور تمام لوگ ایک ہی چیز کی طلب نہیں رکھتے دنیا دار معاملہ فہم لوگ کسی کام کو کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس کام میں ان کو کوئی مادی نفع ہو گا یا نہیں ۔ ایک خالص مسلمان عابد یا زاہد کسی دنیا دار کے برخلاف ، صرف روحانی فائدے اور آخرت کی نجات تلاش کرتا ہے اور دنیاوی فائدوں کو کسی کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے چھوڑ دیتا ہے ۔ خالص دنیا دار اور خالص تارک الدنیا دونوں قسم کے انتہا پسندوں کی تعداد بالکل محدود ہے ۔ دنیا کے ہر حصے میں انسانوں کی بہت زیادہ غالب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ آخرت میں اور موجودہ دینوی زندگی میں دونوں جگہ اچھے رہیں ۔ اسلام کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور قرآن (۲۔۱۔۲) ان لوگوں کی تعریف کرتا جو اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ﴿رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (البقرۃ:۲۰۱)
اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر۔
یہ ہے وہ مطمع نظر جو اسلام پیش کرتا ہے چونکہ روزہ بھی اسی قرآن کے ذریعہ سے فرض کیا گیا ہے ۔ پس ہمارے لئے یہ مناسب ہو گا کہ یہ معلوم کریں کہ روزے میں دنیا کی بھلائی کیا ہے اور آخرت کی بھلائی کیا ہے ؟ خاص کر اس لئے بھی کہ انسان صرف جسم سے نہیں بنا ہے اور صرف روح سے بھی نہیں بلکہ بہ یک وقت دونوں سے ۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی طلب میں مشغول ہوجائیں اور دوسرے سے غفلت کریں تو توازن باقی نہیں رہتا حالانکہ انسان کا بہترین مفاد اس امر میں ہے کہ جسم اور روح دونوں کو متوازن ترقی دے اور دونوں کی ضرورتیں اس طرح پوری کرے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہو۔ اگر ہم پوری طرح سے صرف روح کے فائدے کیلئے کام کریں تو ہم فرشتہ بن جائیں گے بلکہ فرشتوں سے بھی آگے بڑ ھ جائیں گے ۔ لیکن اللہ فرشتوں کو پیدا کر چکا ہے اور اللہ کو ضرورت نہیں کہ ان کی تعداد میں اور اضافہ کرے اسی طرح اگر ہماری پوری قوت مادی بھلائی اور خود غرضانہ ذاتی مفاد میں صرف ہوتو ہم درندے اور شیطان بن سکتے بلکہ ان سے بھی آگے بڑ ھ سکتے ہیں اللہ نے اس مقصد کیلئے دوسری مخلوقات پیدا کی ہیں اگر ہم درندہ اور شیطان بن جائیں تو انسان کی پیدائش کی جو غرض ہے وہ پوری نہ کرسکیں گے انسان کو روحانی کمال اور مادی کمال دونوں کے اکتساب کی قوتیں عطا کی گئی ہیں اور عقل سمجھ بھی دی گئی ہے تاکہ بھلائی اور برائی کے درمیان امتیاز کریں اور معلوم کریں کہ کونسی چیز بری ہے اور کونسی چیز اچھی ہے پس انسان کو چاہیے کہ اللہ نے اس کو جو قابلیتیں عطا کی ہیں ان کو ترقی دے اور ہر ایک قابلیت کے درمیان توازن قائم رکھے ۔
روزے کے اندر جو باتیں چھپی ہوئی ہیں ان کو معلوم کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے ہم قرآن شریف کی وہ آیتیں دیکھیں جن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
روزہ اور قرآن
روزے کے متعلق قرآن یہ کہتا ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ٭أَیَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَہُ وَأَنْ تَصُومُوا خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٭شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۳۔۱۸۵)
اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح سے ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں شاید کہ تم متقی بنو۔ اور یہ گنتی کے چند دن کیلئے ہے ، اور تم میں جو بیمار ہے یا سفر میں ہے تو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں روزہ رکھے اور جولوگ(سفر یا بیماری کے باوجود) اس کی طاقت رکھتے ہیں (اور روزہ نہیں رکھتے ) تو وہ فدیہ دیں یعنی ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اور جو شخص اپنی خوشی سے نیک کام کرے تو اس کیلئے ہی بہتر ہے اور یہ کہ تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اگر تم جانتے ۔ ۔ ۔ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور ہدایت کا واضح ثبوت ہے اور (صحیح اور غلط کے درمیان)امتیاز کرنے والا ہے ۔ تم میں جو شخص اسے پائے تو اس کو چاہیے کہ وہ (پورا)مہینہ روزے رکھے ۔اور تم میں جو شخص بیمار ہویا سفر میں ہوتو اس کو چاہیے کہ اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں روزہ رکھے اللہ تم پر آسانی کا ارادہ رکھتا ہے ، وہ تم پر سختی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور چاہیے کہ تم اس مدت کو پورا کرو اور اللہ کی بڑ ائی بیان کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی اس طرح شایدتم شکر گزار بن سکو گے ۔
اس آیت کے شروع میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دوسرے مذہبوں میں بھی روزہ پایا جاتا ہے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ دوسرے مذاہب اس کے متعلق کیا کہتے ہیں ۔ اسلام کے ساتھ ان کا مقابلہ دلچسپی سے خالی نہیں البتہ ایک بات شروع ہی سے واضح کر دیں کہ اسلامی روزے میں فجر (یعنی طلوع آفتاب سے ڈیڑ ھ گھنٹہ قبل) سے لیکر غروب آفتاب تک ہر قسم کا کھانا ، پینا، سگریٹ پینا، ٹیکہ یا انجکشن لگوانا حرام ہوتا ہے ۔ برے خیالات کو بھی روکنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے بھول چوک البتہ معاف ہے اوراللہ رب العزت سے کوئی چیز ہم چھپا نہیں سکتے ۔
نوٹ : بعض انجکشن جائز ہیں ۔
روزے کا زمانہ
یہودی، عیسائی اور ہندو یا تو خالص شمسی حساب کرتے ہیں یا قمری سال میں وقت بہ وقت کبیسہ (Intercalation) کر کے ایک مہینہ کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ قمری سال کی مدت بھی اتنی ہی طویل ہوا کرے جتنی شمسی سال کی ہے اس لحاظ سے ان کے روزے ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتے ہیں ۔ مسلمان قمری حساب کا حساب کرتے ہیں ان کی جنتری چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوتی ہے جس میں کبیسہ(Intercalation) نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مہینہ رمضان بتدریج باری باری سال کے ہر موسم میں آتا ہے ۔
قمری سال کے مہینوں سے حساب کرنا بہتر ہے یا شمسی سال کے مہینوں سے ؟ جس کرۂ ارض پر ہم بستے ہیں اس کا موسم ہر جگہ یکساں نہیں ہے لوگ ہر موسم کی شدت سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ خواہ گرمی کی شدت ہویا سردی کی۔ اس طرح کسی علاقہ کی گرمی اور سردی کے موسم محض اضافی امر ہیں ۔ مثلاً جاڑ ے کا موسم مکہ میں بڑ ا خوشگوار ہوتا ہے اور وہ قطبوں کے قریب (کناڈا، شمالی یورپ میں ) ایسا نہیں ہوتا۔ گرما قطب شمالی اور جنوبی کے قریب بہترین موسم ہے لیکن خط استواء کے پاس اور ریتلے صحرا میں ایسا نہیں ہے ۔ موسم بہار ہرجگہ ایک معتدل موسم ہو سکتا ہے ، لیکن خطِ استواء کے قریب بہت سے ملکوں میں (مثلاً جنوبی ہندوستان میں )موسم بہار ہوتاہی نہیں ، یہاں کے لوگ موسمِ بہار جانتے ہی نہیں ۔ اور ان ملکوں میں صرف تین موسم ہوتے ہیں ۔ سردی، گرمی اور بارش۔ ایک ایسے مذہب کیلئے جو تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، اگر ہم روزہ رکھنے کیلئے کوئی خاص موسم مقرر کر دیں تو بعض لوگوں کیلئے مدامی طور پر آسانی ہو گی اور بعض لوگوں کیلئے مدامی سختی اورتکلیف یا کسی اور طرح زمین کے بعض علاقوں کے باشندوں کیلئے سہولت بخش نہ ہو گا لیکن اگر روزہ رکھنے کے زمانے میں موسم باقاعدگی کے ساتھ بدلتے رہیں تو آسانی اور سختی باری باری سے آتے رہیں گے اور کوئی شخص روزہ کا قانون بنانے والے پر خفا نہ ہو گا۔ ا سکے علاوہ روزہ رکھنے کیلئے موسموں کی اس تبدیلی کا یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ ہر قسم کے موسم میں روزہ رکھنے کے عادی ہوجائیں اور یہ عادت کاٹ کھانے والے جاڑ ے میں اور جھلسانے والے گرما میں کھانے اور پینے سے رک جانے کی یہ قابلیت ، مومن کو صبر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے مثلاً جنگ کے محاصرہ کے وقت ، غذا اور غلہ کے تاجروں اور آب رسانی کے عملے کی ہڑ تال کے وقت جبکہ کھانا ، پانی مشکل سے ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ۔
روزہ کا مفہوم
جیسا کہ بیان ہوا اسلام تمام کاموں میں انسانوں کی دونوں جہاں اور اس کے مضمرات کی بھلائی چاہتا ہے ۔اسلام یہ بتلاتا ہے کہ آخرت میں ہر شخص کا حساب اس دنیا میں اس کے کیے ہوئے کاموں کے لحاظ سے دیا جائے گا وہ لوگ کامیاب اور خوش نصیب ہونگے جو وہاں اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کریں ۔ اس دنیا کی حد تک چونکہ انسان جسم اور روح دونوں سے بنا ہے اس لئے یہاں ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ روزہ رکھنے سے روحانی فائدے کیا ہیں اور مادی فائدے کیا ؟۔
۱۔ نیت اور ارادے کی اہمیت
ہر شخص جانتا ہے کہ ناحق کسی کو قتل کرڈالنا تمام تمدنوں میں برا سمجھا جاتا ہے اور تمام مذاہب ایسے قاتل کو دوزخی قرار دیتے ہیں ۔ اور بے گناہ مقتول شہادت کا مرتبہ پا کر جنت کامستحق ہوتا ہے ہر شخص جانتا ہے کہ کسی اقدام کے خلاف حق اور صداقت کی مدافعت ایک فرض ہے اور جو شخص کسی اقدام کرنے والے کو قتل کرڈالتا ہے تو اس کو ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے ۔ ان دونوں قسموں کے قتلوں میں کیا صرف نیت کا فرق نہیں ؟اس طرح اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے مشورہ کے بنا پر کھانے پینے سے باز رہے تو کیا اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو اللہ کے حکم اور اللہ کیلئے کھانا پینا چھوڑ دے ؟اللہ ہمارا خالق (پیدا کرنے والا) اور شارع (قانون بنانے والا)ہے جو ہم کو مرنے کے بعد پھر زندہ کرنے والا اور اسی دنیا کے ہمارے کاموں کا حساب طلب کرنے والا ہے ۔ جس کسی نے اس کی اطاعت کی ہو گی وہ اس کی خوشنودی حاصل کرے گا اگرچہ یہ کہ ہم اس کے احکام کے اندرونی راز کو نہ سمجھے ہوں ۔ جو روزہ وحی کے ذریعے سے فرض کیا گیا اس کی تعمیل سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے کونسا روحانی اور اخروی فائدہ اللہ کی ابدی رضا مندی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ نیت اگر مادی فائدے کی ہو ، نیز ریا اور اسی قسم کی چیزیں نیت کی صفائی میں خرابی پیدا کرتی ہیں ۔ ہمارا روزہ پورے کا پورا اللہ کی رضا مندی اور اس کے احکام کی تعمیل کے تحت ہونا چاہیے ۔نبی کریم ﷺ کا مشہور ارشاد ہے کہ : إِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیِّاتِ (صحیح بخاری ، کتاب الإیمان ، حدیث نمبر :۱)
عمل صرف نیتوں سے (جانچے جاتے ) ہیں ۔
۲۔ روحانی پہلو
تجربہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عام طور پر ایک اندھے آدمی کا حافظہ زیادہ اچھا ہوتا ہے اور اس کے بعض حواس آنکھ والے لوگوں کے حواس سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی ملکہ یا قابلیت سے کام نہ لیا جائے تو دوسرا ملکہ زیادہ قوی ہوجاتا ہے ۔جسم اور روح کے باہمی تعلقات بھی ایسے ہی ہیں جسم کوکمزور کر دینے سے روح طاقتور ہوجاتی ہے ۔جس طرح سے کہ درخت کی بعض شاخوں کو کاٹ دینے سے پھول اور پھل زیادہ حاصل ہوتے ہیں ۔جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے تو اس کا ضمیر برے کام کے وقت اس کی ملامت کرتا ہے اوروہ بری ترغیبات کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ قابل ہوجاتا ہے پھر روزے سے اللہ کی عبادت کی مٹھاس کا مزہ آنے لگتا ہے ۔
مادی پہلو
طالب علم کئی ماہ مسلسل پڑ ھتے ہیں پھر ان کو موسمِ گرما کی تعطیل مل جاتی ہیں ۔ ملازمین ہفتہ میں چھ دن کام کرتے ہیں اور ساتویں دن ان کو آرام اور فرصت کیلئے چھٹی ملتی ہے ۔لوگ تمام دن دماغی اور جسمانی قوت خرچ کرتے ہیں اس کے بعد نیند کا آرام دوسرے دن ان کو تازہ دم بنا دیتا ہے ۔ حتی کہ مشین اور اوزار بھی آرام کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ موٹر کار، ہوائی جہاز، ریل گاڑ ی وغیرہ کو بھی بہت دور چلنے کے بعد مشین گرم ہوجانے سے مشین ٹھنڈا ہونے تک ٹھہرا دیتے ہیں ۔ کیا یہ خیال کرنا معقول نہ ہو گا کہ معدہ اور ہضم کرنے والے اعضاء کو بھی آرام لینے کی ضرورت ہے ؟ اگر سارا دن داڑ ھ چلتا رہے تو معدہ بھی چلتا رہے گا اور ہاضمے کے اعضاء کمزور ہوجائیں گے ۔یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ ڈاکٹر بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں ۔ فرانس، سوئزرلینڈ ، جرمنی وغیرہ کے ڈاکٹروں کی ایک بڑ ی تعداد مختلف بیماریوں کا نسخہ بیمار کی بیماری یا جسمانی قوت کے لحاظ سے طویل یا مختصر مدت کیلئے بھوک اور پیاس تجویز کرتی ہے ۔ڈاکٹروں نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ انسان کے مختلف غدود میں بھوک اور پیاس سے ایک قسم کا لعابی مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ مادہ بہت سے جراثیم کو مار ڈالتا ہے ۔ جو مختلف بیماریاں پھیلاتے ہیں ۔ اعداد وشمار بھی یہ بتلاتے ہیں کہ متعدد قسم کی بیماریاں ان لوگوں میں کم ہوتی ہیں جو ہر سال روزہ رکھتے ہیں بلکہ روزہ عمر درازی کا بھی باعث سمجھا جانے لگاہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ آدمی کوآب وہوا اور مقام کی تبدیلی کی بھی وقتا فوقتاً ضرورت پڑ تی ہے جو شخص بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کو آرام کیلئے ڈاکٹر ایسے مقام پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں جو اس کے مستقل رہنے کے مقام سے جدا ہو۔زیادہ خوش قسمت لوگ گرمیوں کا مہینہ اپنے وطن کے باہر سرد مقام میں گزارتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ اپنے معمول کو وقتاً فوقتاً بدلتے رہنا ضروری سمجھا جانے لگاہے یہ بھی ایک قسم کا آرام لینا ہی ہے ۔مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ کاشت کار اپنے کھیتوں کو ایک سال آڑ کام میں لاتے ہیں اور زمین کو بھی آرام لینے دیتے ہیں ۔ مسلسل کاشت کرتے رہنے سے زمین کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اسلام سال بھر روزے رکھنے سے منع کرتا ہے حتی کہ ان لوگوں کو بھی اس کی ممانعت ہے جو روزہ سے روحانی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو یہ ایک عادت اور ایک فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور ایسا شخص روزے سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتا جو وقفے وقفے سے روزہ رکھنے والا شخص حاصل کرتا ہے ۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اگر کوئی شخص چالیس دن سے زیادہ مسلسل روزے رکھے تو وہ ا س کی عادت بن جاتی ہے اگر کوئی شخص ایک مہینے سے کم روزے رکھے تو وہ زیادہ اثر نہیں کرتا۔
روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے سے بہت سے فوجی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات سپاہی کو رمضان کے مہینے میں پورے روزے رکھنے کی عادت ہو اس کے ساتھ ہی ساتھ رات میں تراویح پڑ ھنے کی، تو ایسا سپاہی ایسے اتفاقاً پیش آنے والے کاموں کیلئے اس سپاہی سے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے جو ایسی مشق کا عادی نہیں ہوتا ۔ غیر فوجی (Civil) روز مرہ کی زندگی میں بھی روزہ رکھنے کی عادت سے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔آج کل ہڑ تالیں عام ہیں جب آبرسانی کے محکمہ کے ملازم یا روٹی غلہ اور بھاجی ترکاری بیچنے والے ہڑ تال کریں تو روزہ رکھنے کا عادی شخص آسانی سے نمٹ لیتا ہے ۔
یہ ہیں روزہ کی کرامات
اس بیان کو اس بات پر ختم کیا جاتا ہے کہ جولوگ ڈاکٹرکے مشورے پر طبی وجوہ سے یا کسی اور مجبوری کی بنا پر روزہ رکھتے ہیں تو ان کو روزہ کا مادی فائدہ تو حاصل ہوتا ہے لیکن ان کی نیت چونکہ روحانی تلاش کی نہیں ہوتی اس لئے ان کو کوئی روحانی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ مسلمان اللہ کے حکم کی تعمیل کی نیت سے روزہ رکھتے ہیں اس لئے ان کا روزہ عبادت واطاعت بنتا ہے اور انہیں اس کا ثواب بھی ملتا ہے اور مزید برآں وہ روزہ کے جسمانی اور مادی فائدوں سے بھی محروم نہیں رہتے ۔ مختصر یہ کہ کسی بھی نقطۂ نظر سے مسلمان کے روزے رکھنے سے غور کریں تو دوسرے تمدنوں کے روزے رکھنے کے طریقے سے فوقیت رکھتا ہے ۔
خلاصہ
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ قرآن شریف کی سب سے پہلی وحی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر رمضان کے مہینے میں آئی اس لئے یہ بات بڑ ی موزوں ہو گی کہ روزہ کی حالت میں زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت میں صرف کریں ۔ جولوگ عربی نہیں جانتے ان کیلئے دنیا کی ہر ایک اہم زبان میں قرآن کریم کے ترجمے موجود ہیں ۔ کسی سچے اور متقی مسلمان کا ترجمہ ہی صحیح ہو سکتا ہے ۔ اگر ممکن ہوتو اس مہینے میں پورے قرآن کا ایک ختم کرنا چاہیے روزانہ ایک پارہ پڑ ھنے سے پورا قرآن ختم ہو سکتا ہے ۔
روزے کے مہینے کے ختم ہونے پر شوال کے مہینے کے پہلے دن عظیم الشان عید ہوتی ہے ۔ صبح میں باجماعت نماز عید پڑ ھی جاتی ہے ۔اس کے بعد امام خطبہ دیتے ہیں چونکہ یہ روزے کے مہینے کا اختتام ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے سفارش کی ہے کہ لوگ اس مقام کو جہاں باجماعت نماز پڑ ھی جاتی ہے جانے سے پہلے ناشتہ کر لیں ، ناشتہ کر کے عید گاہ جاناچاہیے ۔
یہ بھی مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ ہر شخص اس دن فطرہ یعنی غریبوں کیلئے غذا مہیا کرے ۔ ابتدائے اسلام میں نہ صرف کھجور، کشمش اور ایسی چیزیں اس مقصد کیلئے تقسیم کی جاتی تھیں بلکہ چاول وغیرہ بھی دئیے جاتے تھے ۔ غرض یہ کہ خیرات دینے کی ہمت افزائی کی جائے جو کسی طرح دکھلاوے کیلئے اور ریا کیلئے نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ خداوند ذوالجلال فرماتا ہے کہ میں نے ایک نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا مقرر کیا ہے ۔ (خلوص نیت کے لحاظ سے )لیکن روزہ اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے ۔ (روزہ رکھنے سے صرف دس گنا یا سات سوگنا ثواب نہیں ملتا بلکہ)روزہ میرے لیے ہے اور میں روزہ کی جزا دیتا ہوں کیونکہ بندہ میرے لیے اپنی خواہش اور اپنی غذا کو چھوڑ دیتا ہے ۔(روزہ رکھنے سے اللہ کی قربت ملتی ہے اور اس کے مقابل ثواب اور بہشت کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۔)
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟