Tuesday, September 1, 2009

روزہ کیوں؟

از عبدالرشیدعراقی

صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بُنِیَ الإِسلاَمُ عَلیَ خَمسٍ شَہَادَۃُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہُ وَرَسُولُہُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ ، إِیتَائِ الزَّکَوۃِ وَحَجِّ بَیتِ اللّٰہِ وَصَومِ رَمَضَانَ ۔
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے
۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ۲۔ نماز قائم کرنا ۳۔ زکوۃ ادا کرنا ۴۔ بیت اللہ کا حج کرنا ۵۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔

روزہ کا مفہوم
روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے ۔عربی زبان میں اس کو صوم کہتے ہیں جس کے لفظی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں ۔
روزہ کی تاریخ
قدیم زمانے کے سارے تمدنوں اور سارے مذاہب نے اپنے ماننے والوں پر ہر سال چند دن روزے فرض کئے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس بات کی شہادت دی ہے ۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾(البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں عجب بعض کہ تم متقی بن جاؤ۔
روزہ کے بارے میں دوسرا ارشاد ہے : ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآ ن نازل ہوا ، جو لوگوں کیلئے سرتاپا ہدایت ہے ، جو ہدایت وتمیز حق وباطل کی نشانی ہے پس جو اس مہینہ میں موجود رہے وہ روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ دن کے بدلے دوسرے دنوں میں روزے رکھ لے قدر (اللہ)آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور روزے اس لئے فرض ہوئے کہ تم اس عطائے ہدایت پر قدر (اللہ) کی بڑ ائی کرو اورشکر بجا لاؤ۔
ان آیات میں روزہ کے چند احکام، روزہ کی تاریخ ، روزہ کی حقیقت ، رمضان کی ماہیت اور روزہ پر اعتراض کا جواب، یہ تمام امور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ۔
روزہ کی تاریخ
مذکورہ بالا آیات میں قرآن مجید نے تصریح کی ہے کہ روزہ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسلام سے پہلے بھی کل مذاہب کے مجموعہ احکام کا ایک جزو رہا ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۵۳ء؁) لکھتے ہیں کہ
قدیم مصریوں کے ہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا ہے ۔یونان میں صرف عورتیں تھسموفیریا کی تیسری تاریخ کو روزے رکھتی تھیں پارسی مذہب میں گو عام پیروں پر روزہ فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجود تھا۔ خصوصاً مذہبی پیشواؤں کیلئے پنج سالہ روزہ ضروری تھا۔ (سیرۃ النبی ۵/۲۱۲)
روزہ یہودیوں میں
یہودیوں میں بھی روزہ فریضہ الٰہی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس دن بھوکے پیاسے گزارے چنانچہ عام طور سے یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں چالیس دن روزہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں لیکن چالیسویں دن کا روزہ ان پر فرض ہے ۔(سیرۃ النبی ۵/۲۱۲۔۲۱۳)
روزہ عیسائیوں میں
عیسائی مذہب میں بھی روزہ کا وجود ہے لیکن اس کی حقیقت اور تفصیل تشریح طلب ہے ۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے آغاز سے قبل ۴۰ دن روزہ رکھا تھا وہ کفارہ کا روزہ تھا جو موسوی شریعت میں فرض کے درجہ میں ہے وہ اس کو اسی طرح پابندی کے ساتھ رکھتے تھے ۔(ارکان اربعہ ص/۲۵۴)
روزہ ہندو مذہب میں
ہندو مذہب میں بھی روزہ کا وجود ہے ہندو مذہب کا ایک پروفیسر (T.M.P. Mahadevan) جو مدراس یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کا صدر ہے وہ لکھتا ہے : ان تہواروں میں جن کو سالانہ منایا جاتا ہے بعض تہوار روزہ(برت) کیلئے مخصوص ہیں جو تزکیہ نفس کیلئے رکھا جاتا ہے ہر ہندو فرقہ نے دعا عبادت کیلئے کچھ دن مقرر کر لیے ہیں جن میں اکثر افراد روزہ رکھتے ہیں کھانے پینے سے باز رہتے ہیں رات بھر جاگ کر اپنی مذہبی کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں اور مراقبہ کرتے ہیں ۔ (بحوالہ ارکان اربعہ ص/۲۵۱)
تبصرہ
روزہ کا حکم تمام مذاہب میں ملتا ہے لیکن کسی مذہب کے لوگ اتنی بڑ ی تعداد میں روزہ نہیں رکھتے جتنا کہ مسلمان رکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت روزہ رکھتی ہے ۔دنیا کے ہر ملک میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں (ما شاء اللہ) بہر حال یہ مسلّم ہے کہ ہر دین میں روزے کا حکم رہا ہے اور قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ۔
روزہ کے مقاصد
روزہ کے مقاصد کیا ہیں قرآن مجید نے تین فقروں میں بیان کئے ہیں ۔
۱۔ ﴿وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
تاکہ قدر (اللہ)نے جو تم کو ہدایت کی ہے اس پر اس کی عظمت اور بڑ ائی ظاہر کرو۔
۲۔ ﴿وَلَعَلَّکُم تَشکُرُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
تاکہ اس ہدایت کے ملنے پر تم خدا کا شکر ادا کرو۔
۳۔ ﴿لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ:۱۸۳)
تاکہ تم پرہیزگار ہو (یاتم میں تقویٰ پیدا ہو)۔
روزہ کا سب سے بڑ ا مقصد تقویٰ اور دل کی پرہیزگاری اور صفائی ہے ۔
مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گنا ہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑ پ ہوتی ہے اور روزہ کامقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پیدا ہو کہ انسانوں کے دلوں میں گنا ہوں کے اکثر جذبات بہیمی قوت کی افراط سے پیدا ہوتے ہیں روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزور کرتا ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان نوجوانوں کا علاج جو اپنی مالی مجبوریوں کے سبب نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور ساتھ ہی اپنے نفس پر قابو نہیں رکھتے روزہ بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ روزہ شہوت کو توڑ نے اور کم کرنے کیلئے بہترین چیز ہے ۔(سیرۃ النبی ۵/۲۲۳، ۲۲۴)
مولانا ابو الکلام آزاد (متوفی ۱۹۵۸ء؁) لکھتے ہیں کہ پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیز گاری کا ثبوت دے روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے ، روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل بَرشدائد وتکالیف کا عادی بنائے ، روزہ وہ ہے جو ہماری تمام بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے ، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق راستبازی کی شیفتگی اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے اور باقی سب کچھ بمنزلہ وسائل وذرائع کے ہے ۔ (ارکان اسلام ص/۲۸۴)
حافظ ابن القیم (متوفی ۷۵۱ھ؁) روزہ کے مقاصد کے تحت فرماتے ہیں کہ :روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزا د ہو سکے اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کیلئے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے ۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات آئے کہ کتنے مسکین ہیں جو نان شبینہ میں محتاج ہیں وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کر دے اور اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار ومقربین کی ریاضت ہے ۔ (زادالمعاد ۱/۱۵۲)
اس کے بعد حافظ صاحب روزہ کے مقاصدپر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑ ی تاثیر رکھتا ہے فاسد مادہ کے جمع ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے جو چیزیں مانع صحت ہیں ان کو خارج کر دیتا ہے اور اعضاء وجوارح میں جو خرابیاں ہوئیں اور ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں وہ اس سے دفع ہوتی ہیں وہ صحت کیلئے مفید اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے میں بہت معاون ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾(البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں عجب بعض کہ تم متقی بن جاؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الصوم جُنَّۃ روزہ ڈھال ہے ۔
چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہش مند ہو ، اور استطاعت نہ رکھتا ہو روزے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح اور فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے ۔ اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔(زاد المعاد :۱/۱۵۲)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: شریعت اسلامیہ نے روزہ کی ہئیت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی پوری توجہ دی ہے اس نے صرف کھانے ، پینے اور جنسی تعلقات کو حرام ہی نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جو روزہ کے مقاصد کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی اور اخلاقی فوائد کیلئے مضر ہے اس نے روزہ کو ادب وتقویٰ، دل اور زبان کی عظمت وطہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : تم میں سے جوکوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شوروشر کرے اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑ نے جھگڑ نے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں ۔ (بخاری ومسلم بحوالہ ارکان اربعہ ص/۲۸۶)
روزے اور تراویح باعث مغفرت
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ومن قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ۔(بخاری ومسلم)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھیں ان کے سب گذشتہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح وتہجد) پڑ ھیں گے ان کے بھی سب پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ نوافل پڑ ھیں گے ان کے بھی سارے پہلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔
اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ روزہ مقبول ہے جو ایمان واحتساب کے جذبہ کے ساتھ رکھا جائے ۔ اور مسلمان اپنے اعمال کے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت وخوشنودی کے وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے انجام دے ۔
روزے کی معافی
روزہ داروں میں بوڑ ھے ، کمزور، بیمار ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے ۔اسلام سے پہلے کے مذاہب میں ہم اس قسم کے معذور اصحاب کیلئے کوئی استثناء نہیں پاتے اسلام نے اس قسم کے تمام اشخاص کو مختلف طریق سے مستثنیٰ کر دیا۔
﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
جو بیمار ہو یا مسافروہ ایام رمضان کے علاوہ اور دنوں میں قضا روزے رکھے اور جو لوگ اس کو مشکل سے برداشت کرسکیں ان کے ذمہ یہ ہے (کہ وہ ) ایک مسکین کا کھانا ہے ۔
قرآن مجید کی اس آیت نے ہر قسم کے معذور لوگوں کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا ہے بچے بھی مستثنیٰ ہیں عورتیں ایام حمل ورضاعت اور دیگر مخصوص ایام میں روزہ سے مستثنیٰ ہیں بوڑ ھے ، بیمار اور مسافر مستثنیٰ ہیں ۔ کمزوراشخاص جو روزہ پر فطرتاً قادر نہیں مستثنیٰ ہیں ، بیمار ، مسافر اور عارضی معذور ، بیماری ، حالت سفر اور عذر کے دفع ہونے کے بعد اتنے دنوں کی قضا بعد کو رکھیں اور جو دائمی طور سے معذور ہیں وہ روزہ کی بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ۔
حالتِ سفر میں رسول اللہ ﷺ نے روزے بھی رکھے ہیں اور افطار بھی کیا ہے بسبب اختلاف وحالات لیکن اگر کوئی شخص باوجود ضعف وعدم تحمل شدائد سفر میں روزے رکھے تو اسلام میں یہ ثواب کاکام نہیں شمار ہو گا۔
آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما قال کان رسول اللہ ﷺ فی سفر فرأی زحاماً ورجلاً قد ظل علیہ فقال ماہن! فقالوا صائماً فقال لیس من البرّ الصوم فی السفر ۔ ( صحیح بخاری)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے تو ایک بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ ایک آدمی کو سایہ کئے ہوئے لوگ کھڑ ے ہیں پوچھا کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : کہ ایک روزہ دار ہے آپ ﷺ نے فرمایا : سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے ۔
لاحاصل روزہ
آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔(بخاری ومسلم)
وہ روزہ جو تقویٰ اور عفاف سے خالی اور محروم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں ۔مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں : پھر کتنے لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک مع صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے ۔
آہ ! میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑ ھتے اور روزے رکھتے ہیں دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے ، بندوں کے حقوق غصب کرتے ، اعزہ واقارب کے فرائض پامال کرتے ، بندگان الٰہی کی غیبتیں کرتے ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے ، طرح طرح کے مکر وفریب کو کام میں لاتے ہیں یعنی اپنے دل کے شکم کو تو گنا ہوں کی کثافت سے آلودہ اور سیر رکھتے ہیں جب کہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا : کم من صائم لیس لہ من صومہ إلا الجوع والعطش کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ (بخاری ، ابن ماجہ ، بحوالہ ارکان اسلام ص/۲۸۵)
روزہ کی قدروقیمت اور اس کا صلہ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے روزہ کی فضیلت اور قدروقیمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑ ھا دیا جاتا ہے (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الٰہی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہو گا ۔ اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص وخشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہو گا یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمائے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا ) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لئے ایک تحفہ ہے اور میں ہی (جس طرح چا ہوں گا )اس کا اجر وثواب دوں گا میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا)۔
روزہ دار کیلئے دو مسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرف بار یابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ۔(یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بُو اس سے بھی اچھی ہے ) اور روزہ (دنیا میں شیطان ونفس کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بیہودہ اور فحش باتیں نہ بکے اور شوروشغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑ ا وغیرہ کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۴/۱۰۵)
ایک دوسری حدیث جس کو امام بخاری وامام مسلم نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور جس کے راوی سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو باب الریّان کہا جاتا ہے اس دروازہ سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا ان کے سوا کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہیں ہو سکے گا اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑ یں گے ان کے سوا کسی اور کا اس دروازہ سے داخلہ نہیں ہو سکے گا جب وہ روزہ دار اس دروازہ سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۶)
اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے اس کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے جس کا ارشاد ہے کہ الصوم لی وأنا اجزی بہ (بندہ کا روزہ میرے لئے اور میں خود ہی اس کا صلہ دوں گا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۰۷)
روزہ افطار کرانا باعث ثواب ہے
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو روزہ دار کو افطار کرائے اس کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (جامع الترمذی)
روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر (صحیح بخاری)
لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے ہمیشہ خیر وعافیت سے رہیں گے ۔
افطاری کی دعا
روزہ کھولتے وقت رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑ ھتے تھے ۔ اللہم إنی لک صمت وعلی رزقک أفطرت (سنن أبی داؤد تصحیح و تضعیف)
اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دئیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
اعتکاف
رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں ایک اعتکاف بھی ہے اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اور سب سے منقطع ہوکر کسی مسجد کے گوشہ میں بیٹھ جائے اور سب سے الگ تنہائی میں اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول ہوجائے ۔
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے وفات تک آپ ﷺ کا یہ معمول رہا آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں ۔(متفق علیہ)
اعتکاف رمضان کے فوائد اور مقاصد کی تکمیل کیلئے ہے اگر روزہ دار کو رمضان کے پہلے حصے میں وہ سکون قلب، فکر وخیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت، رجوع الی اللہ کی حقیقت ، اور اس کے در رحمت پرپڑ ے رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی تو اس اعتکاف کے ذریعہ وہ اس کا تدارک کرسکتا ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے ۔ اشتغال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتغال بالحق کی نعمت میسر آئے اور یہ حال ہو جائے کہ تمام افکار وترددات اور ہموم و وساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے یہ فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے اورہر حساس وخیال اس کے ذکر وفکر اور اس کے رضا وقرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے مخلوق سے انس کی بجائے اللہ سے انس پیدا ہو اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہو گا یہ انس اس کا زادِ سفر بنے یہ ہے اعتکاف کا مقصد ، جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (زاد المعاد ۱/۱۷۸)
امام شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی ۱۱۷۶ھ؁) لکھتے ہیں چونکہ مسجد میں اعتکاف جمیعۃ خاطر ، صفائی قلب ملائکہ سے تشبہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ ، نیز طاقت وعبادت کا بہترین موقع ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے اور اپنی امت کے محسنین وصالحین کیلئے اس کو سنت قرار دیا ہے ۔(حجۃ اللہ البالغہ ۲/۲۲)
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس پر ہمیشہ مداومت فرمائی اور مسلمانوں نے بھی ہر جگہ اور ہر دور میں اس کی پابندی کی۔
لیلۃ القدر
﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ٭وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ٭لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ٭ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ ٭سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴾(سورۃ القدر)
بیشک ہم نے اس (قرآن)کو شب قدر میں اتارا ہے ، اور آپ کو خبر ہے کہ شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بڑ ھ کر ہے اس رات فرشتے اور روح القدس اُترتے ہیں اپنے پروردگار کے حکم سے یہ امر خیر کے لئے سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ رہتی ہے طلوع فجر تک ۔
جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح رمضان المبارک کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اس لئے کہ شب قدر اسی عشرہ میں ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ آخری عشرہ میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے تھے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر مجھے لیلۃ القدر معلوم ہوجائے تو میں اس وقت اللہ تعالیٰ سے کیا عرض کروں آپ ﷺ نے فرمایا عرض کرو اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ العَفوَ فَاعفُ عَنِّی (جامع ترمذی کتاب الدعوات)
اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے اور بڑ ا کرم فرما ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے ۔
روزہ میں اسلام کا اصلاحی کردار
اسلام نے جس طرح دوسرے تمام فرائض وعبادات اور منا سک میں اپنا اصلاحی کردار ادا کیا ہے اسی طرح اس نے روزہ کے مفہوم ، آداب واحکام اور اس کی شکل وطریقہ کار میں بھی اپنا یہ اصلاحی وانقلابی کردار ادا کیا ہے اور اس بات نے روزہ کو بہت آسان وخوشگوار ، فطرت سلیم سے بہت قریب متعدد روحانی واجتماعی فوائد کا حامل اور معاشرہ پر پوری طرح اثر اندازہونے والا بنا دیا ہے ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی نے نہ روزہ نفس کو ایذا پہنچانے اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے نہ اس کو خداکا عذاب قرار دیا ہے پورے قرآن وحدیث میں ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ملتا جس سے اس کا اشارہ نکلتا ہو اس لئے اس کو ایک ایسی عبادت کے طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اس نے اس کے احکام اور قوانین بھی ایسے خشک اور ظالمانہ نہیں بنائے کہ اس کا قطعی نتیجہ نفس کی ایذا رسانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہو اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہو بلکہ اس نے سحری کھانا سخت قرار دیا اور تاخیر کے ساتھ کھانے کو مستحب کیا اور ہدایت کی کہ فجر تک کھاتے رہو ۔ افطار میں عجلت کا حکم دیا رات اور دن دونوں میں سونے اور آرام کرنے کی اجازت دی کاروبار تجارت اور مفید جائز کاموں میں انہماک ومصروفیت کو بھی یہودی مذہب کے برعکس جائز رکھا جس میں روزہ کی حالت میں کام کرنا ممنوع ہے اور مکمل طور پر خلوت وعبادت لازمی ہے اسلام نے ہر قسم کی طبقہ داری ، قید اور بندش سے آزادکر کے بالکل عام کر دیا اور اعلان کر دیا ہے کہ ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
سو تم میں سے جوکوئی اس مہینہ کو پائے لازم ہے کہ وہ (مہینہ بھر) روزہ رکھے ۔
قدیم مذاہب میں اس تخصیص اور امتیازی حکم کے باوجود لوگ اس سے مستثنیٰ نہ تھے اسلام نے ان سب بندوں کو سہولیت بہم پہنچائی ان کیلئے آسانی پیدا فرمائی اور ان کو پوری رعایت دی ۔
﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
پھر تم میں سے جوشخص بیمار ہویا سفر میں اس پر دوسرے دنوں کا شمار رکھنا لازم ہے ۔
دوسری جگہ آتا ہے ﴿وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ ﴾(البقرۃ:۱۸۴)
اور جو لوگ اس کو مشکل سے برداشت کرسکیں ان کے ذمہ یہ ہے (کہ وہ ) ایک مسکین کا کھانا ہے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟