Tuesday, September 1, 2009

نزولِ قرآن،صحابۂ کرام اورہم

از الشیخ امجدسہیل، اسلام آباد

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاء ٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِینَ ﴾( یونس :۵۷)
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ چکی یہ (دلوں کے امراض کیلئے ) شفا اور مؤمنین کیلئے ہدایت اور رحمت ہے ۔
قرآ ن عظیم کی اس آیت میں کلام اللہ کی چار صفات بیان ہوئی ہیں یہ کلام یعنی قرآن مجید موعظہ یعنی نصیحت ہے ایسی نصیحت جو انسانوں کو خبردار کرتی ہے کہیں عبرتناک واقعات کے ذریعے غافل دلوں کو بیدار کرتی ہے اور کہیں جنت کی بیش بہا نعمتوں کے ذکر سے ان کی توجہ دنیا سے ہٹا کر آخرت کی تیاری کی طرف مبذول کرتی ہے اور جب انسان قرآن کے نصائح کو قبول کرتا ہے تو قرآن تمام قلبی بیماریوں شرک، حسد، نفرت، بغض ، کینہ، بخل ، بزدلی کو دور کر کے دل اور روحوں کو شفا دیتا ہے اور جب دل صحت یاب ہوتے ہیں تب یہ قرآن انفرادی اور اجتماعی ہدایت کا سبب بنتا ہے اور جب ہدایت مل جاتی ہے تو دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور جب رحمتیں اترتیں ہیں تو ہر طرف سرخروئیاں اور فتوحات مقدر بن جایا کرتی ہیں ۔

جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : إِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِہٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ۔ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین ، حدیث نمبر :۱۳۵۳)
اللہ تعالی اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو سربلندی عطا کرے گا اور بہت سے لوگوں کو ذلیل کرے گا۔
مندرجہ بالا آیت کی مختصر وضاحت کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ساتھ ساتھ ان حالات اور اُس ماحول کو تھوڑ ا اپنے ذہنوں میں تازہ کریں گے جب یہ عظیم الشان کتاب نازل ہوئی ۔ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تھے ۔ قرآن عظیم پہ عمل کے سلسلے میں اُن کے طرز عمل کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے میں عظیم ہستیوں نے اپنے ذاتی فیصلوں ، طبعی وفطری خواہشات، نفس کا دباؤ ، قلبی رجحانات ، اعزیٰ واقرباء کی محبت غرض ہر چیز کو پس پشت ڈال کر قرآن کی عملی تفسیر کا نمونہ بنے ۔ اس لیے تو اقبال نے ان نفوس قدسیہ کے بارے میں یہ تعریفی کلمات کہے -
صفحۂ ہستی سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
نوعِ انسانی کو غلامی سے چھڑ ایا کس نے ؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
٭اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی : ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ﴾(البقرۃ:۲۳۲)
جب تم عورتوں کو طلاق دو پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ دونوں آپس میں رضا مند ہوں ۔
اس سے پہلے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن کو اُن کے خاوند نے طلاق رجعی دیدی تھی اور جب عدت گزر گئی تو رجوع کرنا چاہا لیکن معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ اب تو ہرگز اپنی بہن کا نکاح ان سے نہیں کریں گے ۔لیکن اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمادی جیسے ہی قرآنی حکم کا علم ہوا تو فوراً ہی اپنی بہن کا نکاح اپنے بہنوئی سے کرادیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
جب اللہ تعالیٰ نے پیغام بھیجا ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾(آل عمران:۹۲)
تم اس وقت تک اصل نیکی نہ حاصل کرسکو گے جب تک وہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کروجو تمہیں محبوب ہو۔
تو فوراً سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا میرے مال میں سے بیئر روحا کا باغ جو مجھے سب سے زیادہ عزیز اور پسند ہے لیکن میں اُس کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے ثواب اور(آخرت کیلئے )ذخیرہ کی امید رکھتا ہوں ۔ (مختصر من الصیحح البخاری)
اسی طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سے سب سے زیادہ محبوب مال خیبر کی زمین ہے میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں اور پھر نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں انہوں نے وہ زمین اللہ کی راہ میں وقف کر دی۔ (بخاری وتفسیر ابن کثیر)
٭ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی تو میں نے اس لونڈی کو اللہ کی راہ
میں آزاد کر دیا۔ (مسند احمد)
٭ جب قرآن کریم میں شراب کی حرمت کا حکم آیا اور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمادی ۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (المائدۃ:۹۰)
اے ایمان والو! بیشک یہ شراب ، یہ جوا، یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے باز آجاؤ تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
اس سے پہلے شراب قطعی طور پہ حرام نہ تھی اس لیے جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا انس ص فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر اپنے چچاؤں کو شراب پلا رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے منادی کرنے والے کو حکم دیا کہ شراب حرام ہونے کا اعلان کر دے جب ہم نے یہ منادی سنی کہ آج سے شراب کو حرام قرار دے دیا گیا ہے تو ابو طلحہ ص نے کہا شراب کے تمام مٹکوں کو توڑ دو میں نے اسی وقت ساری شراب بہادی اس دن مدینہ کی گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اس منادی کرنے والے کی آواز سن کر نہ کوئی تصدیق کرنے گیا اور نہ کسی شخص نے شراب پی۔
٭ سورۂ الأنعام کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال نہ کھانے بلکہ اس کے قریب بھی نہ جانے کا حکم دیا۔ ﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ﴾(الأنعام:۱۵۲)
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔
اور اس کی وعید بھی بتلا دی کہ جو لوگ ناحق یتیم کا مال کھاتے ہیں وہ جہنم کی آگ پیٹ میں بھرتے ہیں ۔ یہ حکم سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ڈرے اور یوں محتاط ہوگئے کہ جن کے زیر پرورش بچے تھے انہوں نے یتیموں کا مال مکمل طور پر علیحدہ کر دیا۔ جس سے انہیں شدید دِقّت اور پریشانی اٹھانی پڑ ی مگر اللہ کے حکم سے ذرا بھر بھی سرتابی کا خیال پیدا نہ ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی مشکل کو آسان فرمایا:﴿وَإِنْ تُخَالِطُوہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ ﴾(البقرۃ:۲۲۰)
اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
٭ مشہور واقعہ افک میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پہ بہتان لگانے والوں میں ایک شخص مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ یہ ایک سادہ لوح مسلمان اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار اور محتاج تھے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں ماہانہ کچھ وظیفہ بھی دیا کرتے تھے جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو دکھ اور رنج کی وجہ سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب ان کا وظیفہ بند کر دیں گے تو اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ أَنْ یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴾(النور:۲۲)
تم میں سے جولوگ صاحب فضل اور صاحب قدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار مسکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے لوگوں کی مدد نہ کریں گے ۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ غفور اور رحیم ہے ۔
چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق ص نے فوراً اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور فرمایا کہ پروردگار ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً دوبارہ وظیفہ جاری کر دیا اور اس کو ہمیشہ جاری رکھنے کا عہد کیا۔
٭ نبی کریم ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے اپنی پھوپھی کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا رشتہ طلب کیا خاندانی حسب ونسب اور تفاوت کی بنا پر انہیں یہ ناگوار گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی :﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ ﴾(النور:۳۶)
کسی مومن مرد اور عورت کیلئے یہ لائق نہیں کہ جب اللہ اور اُس کے رسول ا کسی کام کا فیصلہ کر دیں تو ان کیلئے اپنے معاملے میں کوئی اختیارباقی رہ جائے ۔
جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے سامنے تلاوت فرمائی تو انہوں نے فوراً اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور یہ رشتہ قبول کر لیا۔
٭ اللہ رب العزت نے مومنوں کو نبی کریم ﷺ کے آداب واحترام کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ﴾(الحجرات:۲)
اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔
اس آیت کا اثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پہ اس انداز سے ہوا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جن کی آواز قدرتی طور پہ بلند تھی وہ گھر میں قید ہوگئے جب نبی کریم ﷺ نے ان کا پتہ کروایا تو کہنے لگے برا ہو میرا، میری آواز تو نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند ہوتی تھی۔ میرے اعمال اکارت گئے میں اہل دوزخ سے ہوں ! لیکن رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ذریعے اُن کو خوشخبری بھیجی کہ وہ اہلِ جنت میں سے ہیں کیونکہ ان کی فطری طور پر آواز بلند تھی ، بے ادبی یا گستاخی کی وجہ سے ایسا نہ تھا۔ (بخاری کتاب التفسیر)
اسی آیت پر عمل کی مثال میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بھی قابل غور ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ اتنی آہستہ آہستہ آواز میں بات کرتے کہ نبی کریم ﷺ کو ان سے پوچھنے کی دوبارہ ضرورت پیش آتی۔
٭ جب اللہ نے مومنوں کو حکم دیا کہ ﴿وَمَا آَتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا ﴾(الحشر:۷)
جو کچھ رسول اللہ ﷺ تمہیں دیں وہ لے لیا کرو اور جس کام سے منع کر دیں تو اس سے رک جایا کرو۔
تو اس کی عملی تفسیر کے سلسلے میں ان کی زندگیاں بھری پڑ ی ہیں ۔ انہیں میں ایک وہ دور بھی ہے جب اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کو کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں سے بات چیت کرنے سے روک دیا اس حکم پر تمام مسلمان یوں عمل پیرا ہوئے کہ اپنے بھائی کے ساتھ حقیقی خون کا رشتہ تک فراموش کر دیا اور جیسے ہی نبی کریم ﷺ نے دوبارہ ان کی معافی اور ان کے ساتھ میل جول کا اعلان کیا تو یوں شیروشکر ہوئے کہ کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
جب اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور پیروی کو جنت میں داخلے اور اخروی کامیابی کیلئے لازمی قرار دیاتو جس والہانہ انداز میں اس جماعت نے نبی کریم ﷺ کی پیروی کی اس مختصر مضمون میں تو اس کا تذکرہ ممکن نہیں ۔
٭ اسی طرح عورتیں یعنی صحابیات مبشرات بھی کسی میدان میں پر خلوص عمل سے پیچھے نہ رہیں ۔ صرف ایک مثال پہ اکتفا کیا جاتا ہے کہ جب اللہ رب العزت نے قرآن میں مومنوں کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے فوری عمل کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔
﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ﴾ (الأحزاب :۵۹)
اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔
تو مدینہ کی عورتوں نے اسی دن موٹا کپڑ ا پھاڑ کر اوڑ ھنیاں بنالیں ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے قرآن سن کر عمل پہ ہی بس نہیں کیا بلکہ ان کا قر آن کے ساتھ ایسا تعلق اور معاملہ تھا کہ اگر کوئی آیت ان کو سمجھ نہ آتی تو فوری طور پر متردد ہوتے ، تحقیق کیلئے دوڑ تے ہوئے بارگاہ رسالت میں جاتے اور جب تک سمجھ نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے جیسا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿الَّذِینَ آَمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُونَ ﴾ (الأنعام :۸۲)
وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمانوں کے ساتھ ظلم شامل نہ کیا تو وہی امن والے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔
آیت سن کر صحابہ کرام پریشان ہوگئے کہ ہر شخض سے کچھ نہ کچھ ظلم سرزدہوتا ہے تب نبی کریم ﷺ نے ان کی تسلی فرمائی کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے ۔
اورجب سورۂ بقرہ میں آیا ﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللَّہُ ﴾ (البقرۃ:۲۸۴)
تم اپنے دل کی باتوں کو خواہ ظاہر کرو ، خواہ چھپاؤ، اللہ بہر حال ان کا حساب تم سے لے گا۔
تو صحابہ کرام پریشان ہوگئے کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پہ تو ہمارا اختیار نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم (سَمِعنَا وَاَطَعنَا) یعنی ہم نے سنا اور اطاعت کی ہی کہو۔ چنانچہ صحابہ کرام ثکے قرآن پہ عمل اور اطاعت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے اللہ نے مسلمانوں پر خاص کرم کیا کہ دل میں آنے والے وساوس اور خیالات کو معاف فرمانے کا حکم دیے دیا۔
یہ چند مثالیں تو آیات سن کر عمل بجالانے کی ہیں جبکہ بیشتر مقامات پر اُن کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیات بنا کر نازل فرمایا۔
ہماری طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ، ہماری طرح کا دل رکھنے والے ، والدین واعزہ کی محبت رکھنے والے اور اولاد کیلئے تڑ پنے والے انسان تھے ۔ لیکن قرآن پر عمل کے سلسلے میں کوئی مجبوری اور کسی قسم کی رکاوٹ کو انہوں نے اپنے آڑ ے نہ آنے دیا جب قرآن کے نصائح کو اس جماعت نے قبول کیا اور آخرت کی طرف مائل ہوگئے اور نصیحت دلوں میں اتری تو یہی قرآن اُن کی روحانی وقلبی بیماریوں سے شفا کا سبب بنا اور جب دل کی بیماریاں دور ہوئیں تو سب نکھر ا نکھرا اور اجالا ہو گیا۔ چہار عالم میں نور پھیل گیا پھر وہ دنیا میں بھی رحمتوں کے حقدار بنے اور آخرت میں اچھے مقامات ان کے منتظر ہیں ۔
لیکن اے امتِ مسلمہ ! آج ہم کس مقام پر ہیں ؟ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ اور اس کے نبی ﷺ سے سچی محبت کے بلند بانگ نعرے بھی لگاتے ہیں ۔
قرآن مجید اور فرقان حمید کی آیات ہماری نظروں سے گزرتی ہیں مگر پھر یہ قرآن ہماری روحوں کیلئے شفا کا سبب کیوں نہیں بن رہا؟
ہم انفرادی اور اجتماعی ہدایت سے محروم کیوں ہیں ؟ یہ قرآن تو اس دور میں بھی انقلاب لایا جب چہار سو اندھیرے اور گمراہیاں تھیں آج اس کے حاملین غیروں کے انقلابات کی زد میں ہیں اس کی تو یہ شان بیان ہوئی ہے کہ اگرسخت ترین پہاڑ وں پہ نازل ہوتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ۔ آج اس کی تلاوت کرنے والے اس قدر سخت دل ہیں ۔
اس پر عمل کرنے والے تو کافروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ گئے آج ہم آپس میں شکست وریخت کا شکار ہیں اس کے پڑ ھنے والوں کا نام سن کر کفر کانپ کر رہ جاتا تھا آج اس کے پڑ ھنے والے کفار کے زیرنگیں ہیں ۔
کیا سبب ہے کہ اللہ نے تو ہماری رہنمائی کرنے والی کتاب (گویا کہGuiding line ) عطا کی اور ہم اندھیروں میں سرٹکرا رہے ہیں ۔
اس سارے زوال اور بحران کا سبب کوئی بیرونی نہیں ہے بلکہ ہمارے اندر کی کمزوریاں ہیں آج ہم میں پہاڑ وں جیسے ایمان اور فوری عمل جیسے گرانقدر جذبے کا فقدان ہے
کبھی خالی خواہش، کبھی نفس کی بے راہ روی ، کہیں مال وجاہ کی ہوس، کبھی دنیا میں کامیابیوں کا حصول ، کہیں برادری اور اس جیسی سینکڑ وں خودساختہ مجبوریاں ہمارے اور ہمارے قرآن کے درمیان ایک آڑ کی طرح سینہ تانے کھڑ ی ہیں جبکہ صحابہ کرام ہر خواہش ، غرض اور محبت کو آن واحد میں عبور کر کے عمل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد میں رہتے تھے ۔
اس قرآن حمید کو سمجھنے ، تحقیق کرنے ، اس کے رموز واوقاف کو سمجھنے اور اس کا علم حاصل کرنے کا جو جذبہ ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تھا آج ہم میں کہیں اس کا شائبہ تک نہیں ہے ایک بڑ ی تعداد قرآن کے علوم سے واقف نہیں صرف تلاوت کی حد تک یا پھر بعض اس سے بھی دور ہیں ۔ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ، مفاہیم، معانی ومطالب کا کچھ علم نہیں اور جب علم ہی نہیں تو عمل کے جذبے کی آبیاری کیسے ہو سکتی ہے ؟ آج ہم نے اللہ کے پیغام کو پس پشت ڈال دیا ہے ایک شخص اپنی 60,50 سالہ دنیاوی زندگی میں سے اللہ کی کتاب کو سمجھنے کیلئے چند لمحات بھی وقف کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
قارئین کرام! یہ رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریوں میں ہم خوشی خوشی مصروف ہیں اس کی تمام فضیلت اسی سبب سے ہے کہ اس ماہ قرآن جیسا عظیم تحفہ اللہ نے ہمارے لیے بھیجا تو باقی تیاریوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم قدم قرآن کو سمجھنے ، اس کا ترجمہ وتفسیر سیکھنے کیلئے بھی اٹھائیں اور اس کام میں دیر کی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن کے علم اور پھر اس پر عمل کو اپنی زندگی کا مقصد واحد سمجھ لیں ۔ علم ہونے پہ ہم بھی اپنی محبتوں اور خواہشوں کو قربان کر دیں اور سمجھ نہ آنے پہ ہم بھی متردد ہوں ، تحقیق کریں ، دوڑ یں اور پھر جب تک الفاظ یا حکم کی روح تک نہ پہنچیں چین سے نہ بیٹھیں ۔ تب ہی ہم قرآن پاک اور رمضان المبارک کا صحیح حق ادا کرسکتے ہیں اور تب ہی یہ قرآن ہمارے دلوں کیلئے شفا بن کر ہماری ہدایت اور پھر اللہ کی رحمتوں کے نزول کا سبب بن سکتا ہے ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟