Tuesday, September 1, 2009

کتابِ مقدس اور ماہِ مقدس

از الشیخ آصف ہارون مصلح، اوکاڑہ

جس طرح مچھلی کا تعلق پانی سے اور کنگن کا تعلق کلائی سے ہوتا ہے بالکل اسی طرح قرآن کا تعلق رمضان کے ساتھ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ (ماہ مقدس) ہے جس میں قرآن (کتاب مقدس) کو اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ۔ اور پھر رمضان کے بھی آخری عشرے میں لیلۃ القدر میں اتارا گیا ارشاد ہوا یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا ، تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی اس ایک رات کی عبادت وریاضت تراسی سال چار ماہ کی عبادت سے کہیں بہتر ہے (فرشتے اور روح امین اس میں رب کی اجازت سے ہرحکم لیکر آتے ہیں ، یہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی والی ہے ۔ (سورۃ القدر)

اسی طرح مفسر قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کاَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ أَجوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَجوَدُ مَا یَکُونُ فِی رَمَضَانَ حِینَ یَلقَاہُ جِبرِیلُ وَکَانَ یَلقَاہُ فِی کُلِّ لَیلَۃٍ مِن رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ القُرآنَ فَلَرَسُولُ اللّٰہِ ﷺ أَجوَدُ بِالخَیرِ مِنَ الرِّیحِ المُرسَلَۃِ ۔ (صحیح بخاری ، کتاب بدء الوحی ، حدیث نمبر :۵)
رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور مضان میں بھی جب جبرائیل آپ سے ملا کرتے تو بہت زیادہ سخی ہوتے اور جبرائیل رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دورکرتے ۔ الغرض رسول اللہ ﷺ (لوگوں ) کو بھلائی پہنچانے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے ۔
قارئین کرام! مذکورہ آیات قرآنیہ اور حدیث رسول ﷺ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن کا رمضان کے ساتھ کس قدر گہرا رشتہ ہے ، نازل ہوا تو رمضان میں اور اس کا دور کیا جاتا تو تب بھی رمضان میں ۔گویا کہ رمضان کواگر عظمت ورفعت ملی تو قرآن سے اور شب قدر کو اگر عزت ومنقبت ملی تو تب بھی قرآن سے ملی ، بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ جس ذات نے کتاب مقدس کو نازل کیا وہ ذات تمام ذوات سے مقدس، جو فرشتہ یہ کتاب مقدس لیکر آیا وہ فرشتوں سے مقدس، جس رسول پہ نازل ہوا وہ تمام رسولوں سے مقدس ، جس رات نازل ہوا وہ تمام راتوں سے مقدس جن نفوس قدسیہ کے درمیان نازل ہوتا رہا وہ لوگ تمام لوگوں سے مقدس۔ الغرض جس چیز کی بھی نسبت اس مقدس ومحترم کتاب سے ہوئی وہ خود بھی مقدس ، محترم، معظم اور مکرم ہوگئی کجا یہ کہ انسان اشرف المخلوقات اور اس کی نسبت قرآن سے ہو اور اس کو عزت وعظمت کی بلندیاں نہ ملیں یہ کیسے ممکن ہے ؟
رات کا قیام تو ویسے ہی بہت اہمیت وافادیت رکھتا ہے کس قدر خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ قیام رمضان ہو، زبان پر قرآن ہو، رات کی ساعتیں ہوں ، پھر اس عاصی انسان کیلئے مغفرتیں ہوں ۔ ارشاد اقدس ہوا مَن قَامَ رَمَضَانَ اِیمَانًا وَّاحتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہِ ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الإیمان ، حدیث نمبر:۳۶)
جس نے ماہ مقدس (رمضان )کا قیام کیا ، ایمان کی حالت میں ، ثواب کی نیت سے اس کے ماقبل تمام گناہ(صغائر) معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ پھر یہی اجر وثواب اس کے لیے جس نے شب قدر کا قیام کیا۔ارشاد ہوتا ہے : مَن قَامَ لَیلَۃَ القَدرِ اِیمَانًا وَّاحتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہِ ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، حدیث نمبر :۱۷۶۸)
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ قیام خواہ رمضان کا ہو یا غیر رمضان کا بغیر رمضان کے اس کا تصور ہی ناممکن ہے جیسا کہ اس ارشاد اقدس سے واضح ہے : لَا حَسَدَ إِلاَّ عَلَی اثنَتَینِ رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الکِتَابَ وَقَامَ بِہِ آنَائَ اللَّیلِ وَرَجُلٌ أَعطَاہُ اللّٰہُ مَالاً فَہُوَ یَتَصَدَّقُ بِہِ آنَائَ اللَّیلِ وَالنَّہَارِ ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن ، حدیث نمبر : ۴۶۳۷)
قابل رشک ہیں وہ دو شخص(یعنی ان پر حسد نہیں ) ایک وہ جس کو قرآن مقدس ملا اور وہ رات کی ساعتوں میں اس قرآن کے ساتھ قیام کرتا ہے اور دوسرا وہ جس کو مال ملا اور وہ دن رات صدقہ وخیرات کرتا ہے ۔
وقام بہ سے واضح ہے کہ قیام صرف قرآن سے ہو سکتا اور رمضان کا قیام اجر وثواب کے لحاظ سے کہیں بہتر ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن کا رمضان سے تعلق بالکل ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا پانی کے ساتھ۔
قرآن کی تلاوت وقرأت، تعلیم وتعلّم اور عمل وتعمیل یہ تو عام دنوں میں بھی ضر وری ولازمی بلکہ مقصد حیات ہے لیکن رمضان جیسے ماہ مقدس میں ان امور کو سرانجام دینا سونے پہ سہاگے والی بات کے مترادف ہے ۔ نیکیوں کے اس موسم بہار میں تو صحابہ کرام ، تابعین عظام، ائمہ محدثین، سلف صالحین بھی دوسری کتب کو خیر آباد کہہ کر قرآن کو اپنے سینوں سے لگا لیتے اور اس کے حقوق کو پورا کرتے کیونکہ انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ قرآن کا رمضان کے ساتھ کیسا رشتہ ہے جب کہ ہم اس بات کو بھولے ہوئے ہیں نہ کبھی سوچا، سمجھا اور نہ ہی کبھی سوچنے سمجھنے کا احساس پیدا ہوا۔ رَبِّ ارحَم
نصوص قرآن وسنت میں اس عظیم المرتبت کتاب کی جو بھی فضیلت بیان ہوئی اس کا دارومدار تلاوت وقرأت ، تعلیم وتعلّم پر ہے اگر ان تینوں کا لحاظ رکھا جائے گا تو اجر
وثواب کے حقدار ہوں گے اگر ان میں ایک چیز بھی متروک ومفقود ہو گی تو ثواب تو دور کی بات ، عذاب وعقاب سے سامنا کرنا پڑ ے گا۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے ﴿وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآَنَ مَہْجُورًا ﴾ (الفرقان:۳۰) اور پیغمبر فرمائے گا کہ اے میرے رب!یقینا میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
۱۔ تلاوت وقرأت
ارشاد اقدس ہے إِقرَئُوا القُرآنَ فَإِنَّہُ یَأتِی یَومَ القِیَامَۃِ شَفِیعًا لِأَصحَابِہِ ۔ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، حدیث نمبر:۱۳۳۷)
کہ قرآن کو پڑ ھا کرو کیونکہ وہ قیامت والے دن اپنے پڑ ھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔
پھر ارشاد فرمایا : مَن قَرَأَ حَرفاً مِن کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہُ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالحَسَنَۃُ بِعَشرِ أَمثَالِہَا لاَ أَقُولُ الم حَرفٌ وَلٰکِن أَلِفٌ حَرفٌ وَلاَمٌ حَرفٌ وَمِیمٌ حَرفٌ ۔ (سنن الترمذی، کتاب فضائل القرآن ، حدیث نمبر :۲۸۳۵)
جس نے کتاب اللہ (قرآن )سے ایک حرف پڑ ھا اس کیلئے ایک نیکی ہے اور (خلوص نیت کی بدولت) نیکی دس گنا تک بڑ ھا دی جاتی ہے ۔ میں نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے بلکہ الف الگ حرف، لام الگ اور میم الگ حرف ہے ۔ گویا ان تین حروف کی ادائیگی سے تیس نیکیاں مل سکتی ہیں اور ماہِ اقدس (رمضان) میں تو نیک عمل کے ثواب کو مزید بڑ ھا دیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد اقدس ہے ۔
اَلمَاہِرُ بِالقُرآنَ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ وَالَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ وَیَتَتَعتَعُ فِیہِ وَہُوَ عَلَیہِ شَاقٌّ لَہُ أَجرَانِ۔ (صحیح مسلم، کتاب المسافرین ، حدیث نمبر :۱۳۲۹)
جو شخص قرآن میں ماہر ہو وہ ان فرشتوں کے ساتھ رہتا ہے جو معزز اور بزرگ ہیں اور (نامہ اعمال یا لوح محفوظ کو ) لکھتے ہیں اور جس شخص کو قرآن پڑ ھنے میں دشواری ہوتی ہے اور اٹک اٹک کر پڑ ھتا ہے اس کو دو اجر ملتے ہیں ۔ یہ سب قرآن کی برکات ہیں کہ اگر کوئی اس کو پڑ ھنے میں اٹکتا ہے تو اس کو دوگنا اجر ملے گا یہ صرف قرآن کا اعجاز ہے دنیا کی کسی دوسری کتاب کایا کسی دوسری آسمانی کتاب کا نہیں ۔
پھر ارشاد ہوا۔یُقاَلُ لِصاَحِبِ القُرآنِ اِقرَأ وَارتَقِ وَرَتِّل کَمَا کُنتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّناَ فَإِنَّ مَنزِلَکَ عِندَ آخِرِ آیَۃٍ تَقرَؤُہَا ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، رقم الحدیث :۱۲۵۲)
روز محشر صاحب قرآن کیلئے کہا جائے گا کہ قرآن پڑ ھو اور جنت کے زینے چڑ ھو اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ اس طرح پڑ ھو جس طرح دنیا میں پڑ ھتے تھے پس بیشک تمہاری منزل وہاں ہے جہاں تم قرآن کی آخری آیت پڑ ھ کر ختم کر لو گے ۔
اس حدیث مبارکہ میں جہاں اصحاب قرآن کیلئے بشارت ہے وہاں ان حفاظ وقراء کیلئے سخت وعید بھی ہے جو قرآن کو ترتیل (ٹھہرٹھہر) کے ساتھ نہیں پڑ ھتے ۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کسی کا نام شالیمار ایکسپریس اورکسی کا نام قراقرم ۔ العیاذ باللہ
۲۔ تعلیم وتعلم
اتنی دیر تک قرآن کی تلاوت وقرأت میں کوئی مزہ وچاشنی نہیں جتنی دیر ہمیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ قرآن ہمیں کیا کہہ رہا ہے اس کے معانی ومفاہیم کیا ہے اس کا ترجمہ وتفسیر کیا ہے تب کہیں جا کر قرآن کی تلاوت وقرأت کا اثر ہمارے قلوب واذہان پر ہو گا قرآن میں تفکر وتدبر نہ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا ﴾(محمد:۲۴) کیا ان لوگوں نے قرآن پر غوروفکر نہیں کیا یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ۔
اور حقیقت بھی اسی بات میں پنہاں ہے کہ اس وقت تک قرآن میں غوروفکر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا ترجمہ، تفسیراور معانی ومفاہیم کا علم نہیں ہوتا اور پھر قرآن کو سیکھنا اور سکھلانا کوئی عام عمل نہیں بلکہ بہت عظیم عمل ہے جیسا کہ ارشاد اقدس ہے ۔
خَیرُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہُ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن ، رقم الحدیث :۴۶۳۹)
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کو سیکھتا اور سکھلاتا ہے ۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ بہتر وہ ہے کہ جس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو ، قوت وطاقت والی جوانی ہو، آسائشوں اور سہولتوں والی زندگانی ہو، کوٹھی، بنگلہ، کار، بیلنس ، جاگیر، جائیداد ، جھوٹی عزت، عہدہ، منصب، طبیعت میں طغیانی ہو اور حکومت کی غلامی ہو یہ ہم کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف صاحب قرآن کہتے ہیں کہ سیکھنے اور سکھلانے والا بچپن اور جوانی ہو بلکہ پوری زندگانی ہوکتنا خوش نصیب اور خوش بخت ہے وہ شخص جس پر میرے رب کی خاص مہربانی ہو ، قرآن وفرقان جیسی نشانی ہو ، فرشتوں کی نگہبانی ہو ، ر وزمحشر کامیابی وکامرانی ہو ، جنت کی مہمانی ہو اور میرے رب کی میزبانی ہو، یہ بلند رتبہ ملا جسے ملا۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
۳۔ عمل
قرأت وتلاوت اور تعلیم وتعلّم کے بعد اس قرآن پہ عمل پیرا ہونا یہ اس کا حق ہے ایک آدمی سریلی آواز میں تلاوت تو کرتا ہے ۔ تعلیم وتعلّم میں ساری زندگی لگادی لیکن قرآن پر عمل نہیں کرتا تو یہ قرآن اس کیلئے باعثِ ثواب نہیں بلکہ باعثِ عذاب وعقاب ہو گا اور روزِ قیامت اس کے حق میں حجت کی بجائے اس کے خلاف حجت قائم کرے گا جیسا کہ ارشاد اقدس ہے ۔
وَالقُرآنُ حُجَّۃٌ لَکَ أَو عَلَیکَ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ ، رقم الحدیث :۳۲۸) قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہو گا یا تیرے خلاف۔
بات واضح ہے جو قرآن کی بات مانے گا قرآن اس کی سفارش کرے گا اور اپنے رب سے لڑ ائی جھگڑ ا کرے گا۔
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے ارشاد اقدس مروی ہے یُؤتَی بِالقُرآنِ یَومَ القِیَامَۃِ وَأَہلِہِ الَّذِینَ کَانُوا یَعمَلُونَ بِہِ تَقدُمُہُ سُورَۃُ البَقَرَۃِ وَآلُ عِمرَانَ وَضَرَبَ لَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ ثَلاَثَۃَ أَمثَالٍ مَا نَسِیتُہُنَّ بَعدُ قَالَ کَأَنَّہُمَا غَماَمَتَانِ أَو ظُلَّتَانِ سَودَاوَانِ بَینَہُمَا شَرقٌ أَو کَاَنَّہُمَا حِزقَانِ مِن طَیرٍ صَواَفٍّ تُحاَجَّانِ عَن صَاحِبِہِمَا ۔ (صحیح مسلم، کتاب المسافرین ، رقم الحدیث:۱۳۳۸)
قیامت کے دن قرآن اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا اس کے آگے سورۃ بقرہ اور آل عمران ہونگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سورتوں کیلئے تین مثالیں بیان فرمائیں جن کو میں آج تک نہیں بھولا فرمایا وہ ایسی ہیں جیسے جو بادل ہوں یا دوسیاہ سائبان ہوں ، درمیان میں روشنی ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطار ہوں وہ حاملین فرقان اور عاملین قرآن کیلئے لڑ ائی جھگڑ ا اور وکالت کریں گی اورجو نہیں مانے گا اس کیلئے ندامت اور ذلت ورسوائی ہو گی۔
اور شاعر بھی کہتا ہے-
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
انسانی زندگی مصائب وآلام اور ہموم وغموم کا محور ومرکز ہے زندگی میں نشیب وفراز آتے ہی رہتے ہیں ۔ عربی شاعر بھی کہتا ہے ۔
ثمانیۃ تجری علی المرء دائما
ولا بد أن المرء یلقی ثمانیۃ
سرورو حزن واجتماع وفرقہ
ویسر وعسر ثم سقم وعافیہ
آدمی ہمیشہ آٹھ قسم کے حالات سے دو چار رہتا ہے یہ ناممکن ہے کہ کسی کا ان سے واسطہ نہ پڑ ے تو خوشی اور غمی، ملاپ اور جدائی ، آسانی اور تنگی ، بیماری اور عافیت۔
موجودہ انسان کو امراض وخطرات ، پریشانیوں ، مصیبتوں ، مشکلات نے گھیرا ہوا ہے اس کا قلب، ذہن بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہے ۔ قرآن نے ان کا بھی حل بتایا کیونکہ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے عبادات ہوں یا معاملات ہوں یا اخلاقیات، سیاسیات ہو یا معاشیات۔ الغرض ہر طرف ہماری رہنمائی کی گئی اسی طرح انسان کی جسمانی وروحانی امراض وخطرات کا حل ذکر الٰہی سے ہے خود قرآن نے کہا ﴿أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴾ (الرعد:۲۸) دلوں کو چین ، سکون ، آرام اور سکھ ملتا ہے تو ذکر الٰہی سے ۔ دلوں کی صفائی ہوتی ہے تو ذکر الٰہی سے ، قرآن کی تلاوت وقرأت، تعلیم وتعلّم ، تفکر وتدبر، دعوت وتبلیغ، عمل وتعمیل یہ سب ذکر الٰہی کی بہترین صورتیں ہیں ۔ خود قرآن نے اپنے آپ کوذکر کہا ۔ ارشاد الٰہی ہے ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ﴾ (الحجر:۹) ہم نے ذکر(قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ اب جس نے اس ذکر (قرآن) کو تھام لیا دنیا وآخرت کی فوز وفلاح اس کے قدم چومے گی اور جس نے اس سے اعراض کیا ، منہ موڑ لیا چھوڑ دیا وہ رب کے اس ارشاد پر غور کرے ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی ٭قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِی أَعْمَی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیرًا ٭ قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ آَیَاتُنَا فَنَسِیتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنْسَی ﴾ (طہ:۱۲۴تا۱۲۶)
جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا یقینا اس کی معیشت وزندگی ، روزی تنگ ہوجائے گی اور ہم روزِ محشر اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے پھر کہے گا اے میرے رب!تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ جبکہ دنیا میں تو میں دیکھا کرتا تھا( وہ آنکھیں تھیں ) فرمایاتیرے ساتھ اسی طرح ہونا چاہیے تھا تیرے پاس ہماری آیات آتی رہیں اور تو ان کو بھلا دیا کرتا تھا اور آج کے دن ہم نے بھی تجھے بھلا دیا۔
قارئین کرام! کس قدر سخت وعید ہے جو لوگ قرآن سے اعراض کرتے ہیں کہ دنیا میں بھی روزی اور زندگی کی تنگی کی صورت میں ذلت ورسوائی اور روزِ آخرت بھی ندامت اور دربارِ الٰہی سے دھتکار۔ اللہم لا تجعلنا منہم الذین أعرضوا عن ذکرک۔
اسلام کی سنہری اور تابندہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اس قرآن کو اپنا دستور، منشور، آئین ، اپ۔نا نصب العین، اپنا معیار اور کسوٹی بنایا پھر دنیا ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ، بڑ ی بڑ ی حکومتیں اور بادشاہتیں نیست ونابود ہوگئیں ۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات مستحکم اور مضبوط ہو گئے ۔ عزت وعظمت کی بلندیاں ملیں جبکہ دوسری طرف جن لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا رحمت خداوندی نے ان کو چھوڑ دیا، ضلالت وگمراہی ان کا مقدر ٹھہری، شکست وریخت سے دوچارہوئے ، دنیامیں پستی اور آخرت میں بدنامی اور بربادی اُن کے حصے میں آئی۔ سچ کہا قرآن نے اور صاحب قرآ۔ ن نے ﴿یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا﴾ (البقرۃ:۲۶) قومیں اس قرآن سے گمراہ ہوئیں اور اسی قرآن سے ہدایت یافتہ بنیں ۔
إِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِہَذَا الکِتاَبِ أَقوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ ۔ (صحیح مسلم، کتاب المسافرین، رقم الحدیث:۱۳۵۳)
یقینا اللہ اس قرآن کے ساتھ قوموں کو بلندیاں عطا کرتا ہے اور اس کے ساتھ قوموں کو پستیاں عطا کرتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے آج کے مسلمان قرآن سے وہی محبت اور الفت رکھیں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ویسا ہی ذوق وشوق ہونا چاہیے جیسا اصحاب رسول کا تھا۔ ماہِ مقدس کوغنیمت سمجھ کر اس کتاب مقدس کی آبرو وعزت کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کا عہد کریں تو بلندی، رفعت، عزت، عظمت، نصرت اور مدد آج بھی اتر سکتی جو چودہ سو برس پہلے اترا کرتی تھی ﴿فَإِنْ آَمَنُوا بِمِثْلِ مَا آَمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾(البقرۃ:۱۳۷)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟