Tuesday, February 2, 2010

رحمۃ للعالمین ﷺکے ایمان افروزحالات وواقعات

از حافظ محمد سفیان
نام و نسب : محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن مناف بن قصی ۔ آ پ ﷺ سیدنا اسماعیل بن ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے آپ ﷺ کے دادا نے آپ کا نام ’’محمد ‘‘ (ﷺ )رکھا ۔ جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا ہوا ‘‘یا ’’جس کی تعریف کی جائے ‘‘۔
تاریخ پیدائش : پیارے نبی ﷺ موسم بہار میں بروز پیر اور ۹ربیع الاول ۱ ؁ع (عام الفیل )بمطابق ۲۲، اپریل ۵۷۱ء؁ کو مکہ مکرمہ میں صبح کے وقت پیدا ہوئے ۔ (الرحیق المختوم :ص:۸۳/رحمۃٌللعالمین :ص:۴۰)
پیدائش کا واقعہ : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور خاتم النبیین ہوں جب میں پیدا ہوا تو میری والدہ نے خواب میں دیکھاکہ ان کے بطن سے ایسا نور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے ۔ (مسند احمد : ج:۴، ص:۱۲۷، ح:۱۷۱۹۱، /مستدرک الحاکم : ج:۲، ص:۴۵۳، ح:۳۵۶۶)
رضاعت کا دور : آپ ﷺ کو بنی سعد بن بکر کی رہنے والی ایک دائی سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے دو برس تک دودھ پلایا ۔ اور آپ ﷺ تقریبا پانچ برس تک سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے زیر تربیت رہے ۔
واقعہ شق صدر : آپ ﷺ کی ولادت کے پانچویں سال شق صدر (سینہ مبارک چاک کئے جانے ) کا واقعہ پیش آیا ۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس سیدنا جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے ، اس وقت آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺکو پکڑ کر لٹایا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا پھر دل سے ایک لوتھڑ ا نکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے ۔ پھر دل کو سونے کے ایک طشت میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی اصل جگہ رکھ دیا ۔(صحیح مسلم : کتاب الایمان ، باب الاسراء برسول اللہ ﷺ الی السموات ، ح: ۱۶۲)
پیارے پیغمبر ﷺ بہت خوبصورت ، ذہین ، بردبار ، معاملہ فہم ، بہادر ، باوفا ، رحم دل اور دوسروں کی مدد کرنے والے تھے اور یہ سارے اوصاف آپ ﷺ کے اندر بچپن سے ہی مکمل موجود تھے ۔ آپ ﷺ لوگوں میں امانت دار ، ہمیشہ سچ بولنے والے ، پاکباز ، نیک سیرت ، باحیا اور شرمیلے مشہور تھے ۔ کبھی کسی نے ساری زندگی آپ ﷺ کی زبان مبارک سے گالی یا کوئی بھی بری بات نہیں سنی تھی ۔
تجارت کے میدان میں
جب نبی ا کرم ﷺجوان ہوئے تو پہلے آ پ ﷺ کا خیال تجارت کی طرف مائل ہوا ، مگر گھر میں روپیہ پیسہ نہیں تھا ۔ مکہ میں نہایت شریف خاندان کی ایک بیوہ عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں ، جو کہ بہت مالدار تھیں اور اپنا روپیہ تجارت میں لگائے رکھتی تھیں ۔ اس نے آپ ﷺکی خوبیوں اور اوصاف سن کر اور آپ ﷺ کی سچائی ، دیانت داری اور سلیقہ شعاری کا حال معلوم کر کے خود درخواست کی کہ آپ ﷺ ان کے مال سے تجارت کریں ۔ آپ ﷺ ان کا مال لے کر تجارت کے لئے نکلے ۔ اس تجارت میں آپ کو بہت نفع ہوا۔
نکاح: اس سفر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ اس نے آپ کی ان تمام خوبیوں کا ذکر خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا جو اس نے آپ ﷺ کے اندر دیکھی تھیں ۔ ان اوصاف کو سن کر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود درخواست کر کے آپ ﷺ سے نکاح کر لیا ۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے عرب کے بڑ ے بڑ ے سرداروں کی درخواست نکاح رد کر چکی تھیں ۔ اس نکاح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک پچیس (۲۵)برس اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس (۴۰)برس تھی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے مزید دس شادیاں کیں ۔ جن میں سے نو (۹)غریب بیواؤں ، جبکہ صرف ایک کنواری لڑ کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ۔
اولاد : پیارے پیغمبر ﷺ کے تین بیٹے : (۱)قاسم بن محمد ﷺ (۲)عبد اللہ بن محمد ﷺ (۳)ابراہیم بن محمد ﷺ
اور چار بیٹیاں
(۱)زینب بنت محمد ا (۲)رقیہ بنت محمد ا (۳)ام کلثوم بنت محمد ا (۴)فاطمہ بنت محمد ا تھیں رضی اللہ عنہن۔
تینوں بیٹے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے ، اسی طرح تین بیٹیاں آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں فوت ہوگئیں ، جبکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی وفات کے بعد فوت ہوئیں ۔
نبوت ورسالت : رسول اللہ ﷺ بچپن ہی سے توحید کے متوالے اور شرک و بدعت سے بیزار تھے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے تمام کائنات والوں میں سے آپ کے دل کی پاکیز گی کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ کو اپنی رسالت کیلئے منتخب فرمالیا ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیا ن کرتی ہیں کہ :رسول اللہ ا پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خوابوں سے ہوئی ، آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمو دار ہوتا تھا ، پھر آپ ﷺ کو تنہائی محبوب ہو گئی ، چنانچہ آپ ﷺغار حرا میں خلوت فرمانے لگے اور کئی کئی رات گھر میں تشریف لانے کے بجا ئے مصروف عبادت رہتے ۔ پھر (توشہ ختم ہونے پر )سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کیلئے پھر توشہ لے جاتے ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس حق (پیغام الہی )آ گیا اور آپ ﷺ غار حرا میں تھے ۔ یعنی آپ ﷺ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑ ھو آپ ﷺ نے فرمایا : میں پڑ ھا ہوا نہیں ہو ں ۔ اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر ا س زور سے دبایا کہ آپ ﷺ کی قوت نچوڑ دی ۔ پھر چھوڑ کر کہا : کہ پڑ ھو آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ میں پڑ ھنا نہیں جانتا ۔ اس نے تین مرتبہ ایسا ہی کیا اور تیسری مرتبہ چھوڑ کر کہا :’’پڑ ھو اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا ، انسان کو خون کے لوتھڑ ے سے ، پڑ ھو تمہارا رب نہایت کریم ہے ۔ ‘‘(صحیح البخاری : کتاب بدء الوحی ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ )
دعوت و تبلیغ: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو نبوت ورسالت سے سرفراز کرنے کیساتھ ہی دعوت و تبلیغ کا حکم صادر بھی فرمادیا ۔ (دیکھئے : سورۃ المدثر ، آیات ۱تا۷)آپ ﷺ کی مکی دعوت کا خلاصہ یہ تھا : (۱)توحید خالص، (۲)یوم آخرت پر ایمان ، (۳)تزکیہ نفس کا اہتمام ، (یعنی انجام بد تک لیجانے والے گندے اور فحش کاموں سے مکمل پرہیز اور اعمال خیر پر کار بند رہنے کی کوشش )(۴)اپنے تمام معاملات کی اللہ کو حوالگی و سپردگی (۵)اور جناب خاتم النبیین محمد ﷺ کی رسالت ونبوت پر ایمان اور ہر مسئلے میں آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع ۔
مصائب و آلام : جب آپ ﷺ نے دعوت کا آغاز کیا تو آپ کو بے شمار تکلیفوں ، رکاوٹوں اور مخالفوں کا سامنا کرنا پڑ ا، حتی کہ آپ کے اپنے سگے رشتہ دار بھی آپ کو اذیتیں دینے والوں کے ساتھ تھے ۔ نبوت کے پانچویں سال آپ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا ۔ پھر آپ ﷺکے قتل کی سازش کی گئی ، لیکن اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی حفاظت کی ۔ پھر نبوت کے ساتویں سال ابتدائے محرم میں مشرکین نے نبی ﷺ اور مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے انہیں تین سال کے لئے ’’شعب ابی طالب ‘‘(جیل )میں قید کر دیا ۔ جہاں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے درختوں کے پتے اور چمڑ ے چبا کر اپنی بھوک اور پیاس مٹائی ۔ نبوت کے دسویں سال نبی ا کرم ﷺمکہ سے باہر دعوت وتبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے ، مگر انہوں نے بجائے آپ ﷺکی دعوت کو قبول کرنے کے نبی معظم ﷺ پر پتھروں کی بارش کر دی اور آپ ﷺ کو لہو لہان کر کے اپنی بستی سے نکال دیا ۔
سفر معراج : جب مشرکین مکہ کاظلم و ستم حد سے بڑ ھ گیا اور آپ ﷺ ان کی تکلیفوں کی وجہ سے پریشان رہنے لگے تو اللہ تعالی نے آپ کی تسلی کے لیے آپ ﷺ کو وہ رتبہ عطا فرمایا جو آپ سے پہلے سے کسی نبی کو عطا نہیں فرمایا ۔ آپ ﷺ کو پہلے مکہ سے بیت المقدس لیجایا گیا ، جہاں آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کروائی ، یوں آپ ﷺ کو ’’امام الانبیاء ‘‘ ہونے کا بلند مرتبہ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا ۔ پھر آپ کو دیگر عظیم المرتبت انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرواتے ہوئے ساتویں آسمان سے اوپر ’’ سدرۃالمنتہی ‘‘ تک لیجایا گیا ۔ جہاں آپ ﷺ اپنے رب سے ہم کلام ہوئے اور جنت کی سیر کی ، جہاں آپ ﷺ نے اس کی بے شمار نعمتوں کا مشاہدہ کیا ، پھر آپ ﷺ نے جہنم دیکھی اور اس میں ہونے والے سخت ترین عذابات کا مشاہدہ کیا ۔ (خلاصہ حدیث ، صحیح البخاری : کتاب الایمان ، باب قولہ تعالی : وکلم اللہ موسی تکلیما )
ہجرت مدینہ : رحمۃ للعالمین ﷺ نے نبوت ملنے کے بعد تیرہ برس اپنے آبائی وطن مکہ میں دعوت و تبلیغ کا کام سر انجام دیا ۔ لیکن جب آپ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف مشرکین مکہ کی چیرہ دستیاں حد سے تجاوز کر گئیں اور انہوں نے آپ ﷺ کے قتل کا پختہ ارادہ کر لیا تو اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ وہاں کی سرزمین مکہ کی نسبت دین الہی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے قدرے ساز گار تھی ۔ آپ ﷺ نے اپنے دیرینہ رفیق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور کفار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مدینہ تک پہنچادیا نبی رحمت ﷺ کا قدم مبارک مدینہ کی سر زمین پر پڑ تے ہی اس کا نام ’’یثرب ‘‘ سے ’’مدینہ الرسول ﷺ ‘‘ رکھدیا گیا۔ مدینہ میں آپ ﷺ کا تاریخی استقبال کیا گیا اور وہاں کی بچیوں نے آپ ﷺ کی شان میں اشعار گنگنائے ۔ پھر آپ ﷺ نے سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام کیا ۔ خاتم النبیین ﷺ کی مدنی زندگی خالص اسلامی معاشرہ کی تکمیل ، مسلمانوں کی اخلاقی تربیت ، دیگر احکام و مسائل کا حل ، اسلامی فوج کی تشکیل اور کفار و مشرکین سے جہاد و قتال پر مشتمل تھی ۔
غزوات : نبی ا کرم ﷺ نے کل انیس (۱۹) غزوات میں شرکت فرمائی ۔ (صحیح البخاری : کتاب المغازی ، باب غزوۃ العشیرۃ ۔ ۔ ۔ )
امام المجاہدین ﷺ نہایت ہی بہادر اور باوفا تھے ۔ آپ ﷺ ہر غزوہ میں بذات خود شرکت فرما کر مسلمانوں کی قیادت فرمایا کرتے تھے ۔ حتی کہ سخت ترین معرکوں میں بھی آپ ﷺ نے کبھی پشت نہ دکھائی ۔ آپ ہمیشہ سب سے آگے رہتے ، تاکہ خود بڑ ھ کر سب سے پہلے دشمن پر حملہ آور ہوں ۔
وفات : ۲۹، صفر ۱۱ھجری بروز پیر کو آپ ﷺپر مرض کے آثارنمودار ہونا شروع ہو گئے ۔ مگر آپ ﷺ کی وفات سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل مرض نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی ، حتی کہ آپ ﷺ کے لئے بغیر سہارہ کے چلنا بھی دشوار ہو گیا ۔ اسی عالم میں آپ ﷺ نے اپنی امت کو اپنی آخری نصیحتیں اور بعض ہدایات جاری فرمائیں ۔ یہاں تک کہ وہ دن بھی آپہنچا کہ جب آپ ﷺ نے اس فانی و عارضی دنیا کی لذتوں کو الوداع کہتے ہوئے اپنے رفیق اعلی سے ہمیشہ کی ملاقات کو ترجیح دی اور ۱۲، ربیع الاول ۱۱ھ؁ بروز پیر بعد نماز فجر آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی اور رفیق اعلی سے جا ملے ۔
﴿إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ﴾
اس حادثہ دلفگار کی خبر فوراً ہی تمام مسلمانوں میں پھیل گئی ، اہل مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑ ا ، آفاق و اطراف تاریک ہو گئے ۔ مسلمانوں پر اس سے بڑ ا غم نہ پہلے کبھی آیا نہ اس کے بعد کبھی آ سکتا ہے ۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نہ ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جس میں کرب والم کے دریا موجزن نہ ہوں ۔ مدینے کی فضا آہ و بکا سے گونج اٹھی ، کسی کو اس بات کا ہوش نہ تھا کہ وہ کس حال میں ہے اور کیا کر رہا ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب پیغمبر جناب محمد مصطفی ﷺ سے محبت کا حق ادا کرنے اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے اور شرک و بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وما علینا الا البلاغ المبین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟