Wednesday, December 2, 2009

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

از سابق مدیر تعلیم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی، فضیلۃ الشیخ عمرفاروق السعیدی
معاصر مؤقر مجلہ ہفت روزہ الاعتصام لا ہور کی ایک قریبی اشاعت-۹۔۱۵ اکتور ۲۰۰۹؁ء شمارہ نمبر ۶۱/۴۰- میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں جامعات اسلامیہ کے اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کو بہتر بنانے کیلئے چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جو یقینا ان لوگوں کیلئے قابل توجہ ہیں ۔جو حضرات علماء کو مساجد ومدارس میں عام قسم کے ملازم یا مزدور سمجھتے ہیں ۔ مگر سوئِ اتفاق سے اس مضمون کے پہلے حصے میں حضرات علماء کرام اور ان کے مدارس کے متعلق کچھ ناروا ، خلافِ حقیقت تلخ جملے درآئے ہیں ۔ جو راقم الحروف کی نظر میں انتہائی محلِ نظر ہیں ۔ ان سے بہت سے بزرگوں اور خدّام مساجد ومدارس کی عزت افزائی نہیں ہوئی۔
اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ معاشرے کے تمام ہی طبقات میں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ ’’کالی بھیڑ یں ‘‘ بھی ہوتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے دیگر مخلصین کو طعن وتشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے ۔ ہمارے علماء ومدرسین اور خطباء و واعظین کے طبقہ میں بحمد اللہ ایک کثیر تعداد اخلاص وللّہٰیت کی علامت اور اس میدان میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں تو کمزور اکائیوں کی وجہ سے اس طبقہ کو بغیر کسی استثناء کے طعن کا نشانہ بنانا کسی طرح قرینِ انصاف نہیں ہے ۔ درج ذیل تحریر اس مضمون کی روشنی میں پڑ ھی جانی چاہیے ۔
٭ مجھے یہ باور کرنے میں انتہائی تأمل ہے کہ اس ترقی یافتہ ۔، روشن اور روشن خیالی کے دور میں بعض احباب کو اپنے تعلیمی ، تربیتی اور اب عملی میدان میں ’’خودساختہ خشونت‘‘ ۔بے محل سادہ لوحی۔ مصنوع زہد وتقشف-زدہ- ۔ اسلامی ذوق جمال -سے عاری- اور عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے غافل یا عدمِ ادراک‘‘کے کو تاہ نظر اساتذہ ، منتظمین اور ساتھیوں سے سابقہ پڑ تا رہا یا اب بھی ہے ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مجلہ کے قارئین و مستفیدین میں بڑ ے بڑ ے وسیع المطالعہ اور بابصیرت شخصیات موجود ہیں ۔ میں راقم تو ٹھہرا ایک مُلاّئے مکتبی!۔ میرے نظر میں ہمارے دینی ادارے ، دینی شخصیات ، طلبہ علوم شرعیہ اور ان کے خدام ومنتظمین کے ’زمینی حقائق‘‘ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی پیش از پیش حوصلہ افزائی کی جائے انہیں اخلاص ، ثبات، استقامت اور زہد وقناعت، رغبت الی اللہ اور خودداری کا سبق بار بار یاد کراتے رہنا چاہیے کہ وہ مزید محنت واخلاص کے ساتھ اپنے ذمّے لیا کام کرتے جائیں ۔ اور لوگوں کی جیبوں کی طرف نہ جھانکیں ۔
اللہ کریم یقینا اس دنیائے دوں کی ضروریات میں ان کی کفالت اور کفایت کے اسباب پیدا فرماتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا ۔ ’’من کان للہ کان اللہ لہ ‘‘ -جو اللہ کا ہوا ، اللہ اس کا ہوا-
انہیں یہ آیات باربار اپنے مطالعہ اور نگاہ میں رکھنی چاہییں ﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَی ﴾-طہ:۱۳۱-
’’ اپنی نگاہیں ہرگزان چیزوں کی طرف نہ دوڑ انا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں ۔ تیرے رب کا دیا ہوا رزق ہی -بہت- بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے ۔‘‘
﴿لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی الْبِلَادِ ٭مَتَاعٌ قَلِیلٌ ﴾-آل عمران : ۱۹۶۔۱۹۷-
’’تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا-اور آنا جانا- کسی دھوکے میں نہ ڈال دے یہ بہت ہی تھوڑ ا فائدہ ہے ۔‘‘
اور وہ لوگ جن کی پہلی اور آخری نظر مساجد ومدارس کی عمارات ، دفاتر، فرنیچروہاں کی فنی ترتیبات اور ان میں مشغول لوگوں کے رنگ وروپ اور لباس وروغن پر رہتی ہے انہیں قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور تاریخ اسلام کی روشنی میں اپنے ذوق کا خود جائزہ لینا چاہیے ۔ ۔ ۔ اور اپنی پسند کی جگہ کہیں اور ہی ڈھونڈنی چاہیے ، یقینا کسی آکسفورڈ، پرسٹن اور ہاورڈ یونیورسٹی میں انہیں ’’اسلامی شعبہ‘‘ بھی مل ہی جائے گا۔
یہاں تو نمو ہی ’’ضعفاء اور غُربائ‘‘ سے اٹھتی اور ’’طوبیٰ للغُربٰی‘‘ پر انتہا ہوتی ہے ۔
فی الواقع یہ لوگ ’’مترَفِین‘‘ -کھاتے پیتے خوشحال لوگوں - کی نظروں میں کسی طور جچتے نہیں ہیں نہ جچ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے آئندہ کوئی ایسی امید ہے یہ لوگ شروع ہی سے کہتے رہے ہیں ۔
﴿وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلَّا الَّذِینَ ہُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ وَمَا نَرَی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ﴾
-ہود:۲۷-
’’تیرے پیروکار لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جوسطحی سوچ والے ہیں ، اور تمہاری ہم پر کوئی فضیلت بھی نظر نہیں آتی۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان اساتذہ کا معیار زندگی ’’ان اصحاب ذوق‘‘ کے لیے ہمیشہ سے ’’ناقابل اپیل‘‘ ہی رہا ہے نہ طلبہ کا ’’طرزِ بود وباش‘‘ اور نہ ان کے کلاس رومز پُرکشش رہے ہیں ۔
یہاں تو کسی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو’’صدیق‘‘ بننے کیلئے اپنا مال ومنال اور جاہ منصب قربان کرنا پڑ ے گا۔ کسی بھی کھاتے پیتے ’’مُصعب رضی اللہ عنہ‘‘ کو اپنی زیب وزینت اپنے پچھلے ہی گھر میں اپنی اماں کے ہاں چھوڑ کے آنا پڑ ے گی۔ عمر وعثمان رضی اللہ عنہما جیسے اغنیاء اور اصحاب ثروت کو اپنا ’’ذوقِ لطیف‘‘ دارِ ارقم اور صُفہ کی چٹائیوں کیلئے تج دینا ہو گا ان حضرات کو اپنا اسٹیٹس Status بلال ، صہیب ، عمار اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سطح تک نیچے لانا ہو گا۔
یہاں تو مادی سوچ رکھنے والے بعض انصار کو بھی اپنا مزاج تبدیل کرنا پڑ ا تھا ۔ زاد المعاد -ج/۳، ص:۴۱۵۔۴۱۶- میں رسول اللہ کا وہ خطبہ پڑ ھنے کے لائق ہے اور بڑ ا دلگداز ہے جو غزوئہ حنین کے موقعہ پر تقسیم غنائم کے بعد دیا گیا تھا ۔ آپ نے فرمایا : ’’یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ مَا قَالَۃٌ بَلَغَتْنِی عَنْکُمْ وَجِدَۃٌ وَجَدْتُمُوہَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَلَمْ آتِکُمْ ضُلّالًا فَہَدَاکُمْ اللّہُ بِی ، وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمْ اللّہُ بِی ، وَأَعْدَاء ً فَأَلّفَ اللّہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ ؟ قَالُوا اللّہُ وَرَسُولُہُ أَمَنّ وَأَفْضَلُ ثُمّ قَالَ أَلَا تُجِیبُونِی یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ؟ قَالُوا بِمَاذَا نُجِیبُک یَا رَسُولَ اللّہِ لِلّہِ وَلِرَسُولِہِ الْمَنّ وَالْفَضْلُ قَالَ أَمَا وَاَللّہِ لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَلَصَدَقْتُمْ وَلَصُدّقْتُمْ أَتَیْتَنَا مُکَذّبًا فَصَدّقْنَاکَ وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاکَ وَطَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ وَعَائِلًا فَآسَیْنَاکَ أَوَجَدْتُمْ عَلَیّ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِی أَنْفُسِکُمْ فِی لُعَاعَۃٍ مِنْ الدّنْیَا تَأَلّفْتُ بِہَا قَوْمًا لِیُسْلِمُوا ، وَوَکَلْتُکُمْ إلَی إسْلَامِکُمْ أَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَنْ یَذْہَبَ النّاسُ بِالشّاءِ وَالْبَعِیرِ وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّہِ إلَی رِحَالِکُمْ فَوَاَلّذِی نَفْسُ مُحَمّدٍ بِیَدِہِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِہِ خَیْرٌ مِمّا یَنْقَلِبُونَ بِہِ وَلَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَء ًا مِنْ الْأَنْصَارِ ، وَلَوْ سَلَکَ النّاسُ شِعْبًا وَوَادِیًا ، وَسَلَکَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا وَوَادِیًا لَسَلَکْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ وَوَادِیَہَا ، الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنّاسُ دِثَارٌ اللّہُمّ ارْحَمْ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ ، وَأَبْنَاءَ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ ، قَالَ فَبَکَی الْقَوْمُ حَتّی أَخْضَلُوا لِحَاہُمْ وَقَالُوا:رَضِینَا بِرَسُولِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ قَسْمًا وَحَظّا‘‘
’’ اے جماعتِ انصار! یہ کیا باتیں ہیں جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچ رہی ہیں کہ تم اپنے دلوں میں کچھ گھٹن سی محسوس کرنے لگے ہو کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے کہ اللہ نے تمہیں میرے ذریعے ہدایت دی کیا تم فقروفاقہ میں نہ تھے کہ اس نے میرے ذریعے تمہیں غنی بنادیا کیا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن نہ تھے کہ اس نے میرے ذریعے تمہاے دل شیروشکر کر دئیے ؟ ان سب نے جواب دیا: یقینا یہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت بڑ ا احسان اور فضل ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : اے جماعتِ انصار! کیا تم جواب نہیں دو گے ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم کیا جواب دے سکتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت بڑ ا احسان اور فضل ہے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! تم چا ہو تو کہہ سکتے ہو اور سچ ہی کہو گے اور تمہاری تصدیق بھی کی جائے گی۔ تم کہہ سکتے ہو کہ آپ اس حال میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا ، ہم نے آپ کی تصدیق کی ، آپ کو بے سہارا کر دیا گیا تو ہم آپ کیلئے سہارا بنے آپ دھتکارے گئے تھے ہم نے آپ کو جگہ دی ، آپ فقیر ومحتاج تھے ، ہم نے آپ کی مدد کی ۔ تو کیا اے انصار کے لوگو! تم دنیا کے ان چند نرم ونازک کاسنی کے سبز پتوں کی وجہ سے ناراض ہورہے ہو ، اس -مال- کے ذریعے سے تو میں نے ان لوگوں کی تالیف قلبی کی ہے تاکہ یہ اسلام پر ثابت قدم ہوجائیں اور تم کو میں نے تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے کیا تم اس پر راضی نہیں کہ لوگ تو اپنے گھروں کو بھیڑ بکریاں اور اونٹنیاں لے کر جائیں ، اور تم اپنے گھر میں اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ ۔ اللہ کی قسم! جو چیز تم لیکر جاؤ گے وہ ان چیزوں کے مقابلے جو وہ لے کر جائیں گے بہت ہی بہترین ہے ۔
اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اگر لوگ اس گھاٹی اور وادی اختیار کریں اور انصار کوئی دوسری گھاٹی اور وادی اختیار کریں تو میں وہی گھاٹی اور وادی اختیار کروں گا جو انصار کی ہو گی۔ انصار تو میرے جسم کے ساتھ چمٹے لباس کی مانند اور دوسرے لوگ اوپر کی ظاہری چادر ہیں ۔ اے اللہ انصار پر ان کی اولاد پر رحم فرما۔
چنانچہ انصار رونے لگے حتی کہ ان کی داڑ ھیاں تر ہوگئیں اور کہنے لگے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم اور آپ کے اپنے حصے میں آجانے پر بہت ہی راضی اور خوش ہیں ۔‘‘
٭ الغرض اگر یہ مُترَفین مساجد ومدارس میں محض ظاہری زیب وزینت کی چیزیں نہ ہونے کی وجہ سے حصول علم کے ’’نیک ارادوں سے باز رہتے ہیں ‘‘ تو اسے ان کی اپنی حرماں نصیبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے جن لوگوں کی سوچ صرف ’’جیب اور معدہ‘‘ ہی کے گرد گھومتی ہو ، انہیں یہ کام چھوڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہیے ۔ع
وہ یہیں سے لوٹ جائیں جنہیں زندگی ہو پیاری
٭ دینی اداروں کا اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو بڑ ی خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے اچھے بھلے کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانوں کے ذہین وفطین، خوبصورت اور محنتی بچے حفظ القرآن ، تجوید اور علوم اسلامیہ کے شعبوں میں ایک ولولہ کے ساتھ داخلہ لیتے ہیں اور یہ ادارے اور ان کے انتظامات اپنے طلبہ کیلئے اپنی تنگ دامانی کے شاکی ہوتے ہیں ۔
ان نیک نفس نونہالوں اور ان کے والدین کو یقین ہوتا ہے کہ یہ میدان کسی طور بھی آمدنی اور کمائی کا میدان نہیں ہے یہ ادارے ملکی آبادی کی نسبت سے انتہائی کم ، ان کی سہولیات بڑ ی محدود اور داخلہ لینے والوں کی تعداد دنیاوی اداروں کے مقابلے میں اقل قلیل ہوتی ہے مگر حکومتوں کے لادینی عناصر اور جن کے یہ لوگ زلّہ خوار ہیں انہیں اپنے دین اسلام سے محبت کرنے والی یہ قلیل ترین تعداد بھی کسی طرح گوارا اور ہضم نہیں ہورہی ۔ واللہ ولی الأمر
٭ رسول اللہ نے اپنے ایک صحابی کو جو سوالی بن کر آیا تھا اور آپ سے تعاون طلب کیا تھا تو آپ نے اسے لکڑ یاں کاٹ کر اور بیچ کر اپنی معیشت درست کرنے کی تعلیم دی اور اسے کم ازکم دو ہفتوں کے لیے اپنی صحبت وغیرہ کی حاضری سے روک دیا مگر پاس ہی ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس سے زیادہ فقیر اور محتاج تھے ، آپ نے انہیں تعلیم وتلقین نہیں فرمائی کہ میاں ! تم اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کاتوسوچو؟
٭ اور نہ یہی آپ نے کسی عثمان، ابن عوف یا ابن معاذ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے اپیل کی کہ اس فقیر طالب علم کا معیار زندگی بہتر کر دو ۔ البتہ آپ علیہ السلام اہل یُسر اور اہل خیر کو عمومی انداز میں ضرور دعوت دیتے رہے کہ کون ہے جو فقراء ومساکین پر خرچ کر کے اپنی دنیا وآخرت باسعادت بنالے ؟
٭ ’’العلماء ورثۃ الأنبیائ‘‘ -علماء انبیاء کے وارث ہیں - اور نبی کی وراثت بالعموم فقر وفاقہ اور اِعراض عَن زِیناتِ الدنیا کا میدان ہے ۔
ازواج نبی علیہ الصلاۃ والسلام کیلئے وارد تعلیمات میں طلبہ واساتذہ مدارس اور ائمہ ودعاۃ کیلئے بہت بڑ ا درس ہے ۔
﴿إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ﴾-الاحزاب : ۲۸-
’’ اگر تمہاری خواہش دنیا کی زندگی اور یہاں کی زیب وزینت ہی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے انداز میں چھوڑ دوں ۔‘‘
اور کہا جا سکتا ہے کہ جامع ترمذی کی یہ روایت اسی معنیٰ ومفہوم کی مؤید ہے ۔
’’إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِی فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ یُحِبُّنِی مِنْ السَّیْلِ إِلَی مُنْتَہَاہُ‘‘ -جامع ترمذی ، حدیث :۲۳۵ وروایۃ ضعیفۃ-
اگر تجھے مجھ سے محبت ہے تو پھر فقیری کیلئے سامان تیار رکھ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہو اس کی طرف فقیری سیلاب کی سی تیزی سے آتی ہے ۔‘‘
محوّلہ بالا مضمون کا یہ تجزیہ ’’زمینی حقائق‘‘ کے یقینا خلاف ہے کہ ان مدارس کا ماحول ’غیر معیاری‘‘ ہوتا ہے بلکہ بحمد اللہ ترقی یافتہ شہروں کے جامعات ترقی یافتہ ، قصبوں اور دیہاتوں کے مدارس وہاں کے ماحول کے عین مطابق بلکہ عمدہ ہی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جاہل لوگوں کی ایک تعداد دنیا کے مشاغل سے فارغ البال علماء اور مساجد ومدارس کے پُرسکون ماحول اور آرام دہ مشغلہ کی وجہ سے ان سے حسد کرتی ہے ۔ ان کے بس میں نہیں ہوتا کہ ان کی یہ راحتیں ان سے چھین لیں اور نہ ہی وہ اپنی محرومئی قسمت سے ان صفوں میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں ۔
٭ اور ایک حد تک غلط ہے یہ دعویٰ کہ مدارس کی پسماندگی اور مسکنت کے باعث بعض مشائخ عظام اور علماء کرام اپنے نونہالوں کو مدارس کا رخ نہیں کرنے دیتے بلکہ یہ ان نوخیزوں کی اپنی محرومی ہوتی ہے جو اپنی ذاتی پسندناپسند کی وجہ سے یہ میدان اختیار نہیں کرتے یا ماں کی وجہ سے یا ان کے چچے تائے ہوتے ہیں جنہیں اپنے بھائی بند علماء کا ماحول مرغوب نہیں ہوتا تو وہ ان کے نونہالوں کو ان سے جھپٹ لے جاتے ہیں ۔ یاکہیں یہ بعض علماء کرام کا اپنا اجتہاد ہوتا ہے کہ ان کے فرزند گریجویٹ ہونے کے بعد ان اداروں اور محراب ومنبر پر زیادہ سجیں گے مگر فی الواقع اس فریب سے محفوظ -یا اس میں کام یاب- ہونے والوں کی تعداد اگر آٹے میں نمک کے برابر بھی ثابت ہوجائے تو بڑ ی بات ہو گی۔
دراصل دنیا کے نقدِ حاضر کی لذت اور چکا چوند آخرت کے ادھار کو بالعموم مات دے جاتی ہے اور اس میں علماء اور غیر علماء کی تخصیص نہیں کی جا سکتی اس سے معصوم ومحفوظ وہی ہے جسے اللہ محفوظ رکھے ۔ میرے جیسے رجعت پسند سمجھتے ہیں کہ یہ میدان اللہ کی حکمت کے تحت غرباء وفقراء ہی نے سنبھالا ہے ۔ اغنیاء اور مترفین کو یہاں کم ہی لذت آتی ہے ۔
٭ اس مضمون میں ایک عجیب پُر لطف تضاد ہے کہ ابتداء میں ان لوگوں کیلئے خشونت ، بے محل سادہ لوحی مصنوعی زہد وتقشف وغیرہ کی ایک قاموس کا ذکر ہے تو دوسرے حصے میں ان کی آسودہ حالی ، یکسوئی اور فکر معاش سے آزادی کیلئے معقول سفارشات ہیں ۔
٭ اللہ کرے اس مضمون کا یہ دوسرا حصہ متعلقہ حضرات دلجمعی سے مطالعہ فرمالیں ۔
ویسے اللہ کا شکر ہے کہ امت کے صالح اغنیاء نے کہیں بھی علماء کی تحقیر کی حماقت نہیں کی ، اور نہ وہ کرتے ہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو تعاون کرتے ہیں او ر کر رہے ہیں ۔ مساجد ومدارس کی ظاہری وباطنی رونقوں میں ان کا وافر حصہ ہے ۔ -اللہ انہیں مزید توفیق دے اور قبول فرمائے -
اور جو لوگ علماء کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ صرف علماء ہی کو نہیں بلکہ اپنی طبعی خسِّت کی وجہ سے اپنی برادری اور اپنے میل جول والے سبھی لوگوں میں اس طرز عمل پر مجبور ہوتے ہیں ۔ عام معاشرے میں تو مقابلے کی چوٹ ہوتی ہے اور وہاں انہیں اس کا جواب بھی مل جاتا ہے لیکن علماء کرام چونکہ اپنا ایک عظیم ترین مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں کوئی کلمہِ حق کہنے کا موقعہ مل جائے تو وہ ایسے نامعقول لوگوں کے ساتھ جیسے تیسے کر کے برداشت کرتے رہتے ہیں اور اپنے حال اور مآل کو اللہ پر چھوڑ ے رہتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان لوگوں پر پیش کردہ تجویزات کوئی اثر بھی کرتی ہیں یا نہیں ؟
٭ اور یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ استاذ کی عزت اس کے مال اور لباس وغیرہ سے ہوتی ہے یا مغربی ممالک میں استاذ کو بڑ ی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مسلمہ اور بین الاقوامی اور دائمی حقیقت یہ ہے کہ استاذ ہمیشہ ہر معاشرے میں معزز اور محترم ہی ہوتا ہے ۔بشرطیکہ وہ استاذ ہونے کے اوصاف محمودہ سے موصوف ہو ۔ حرص وطمع اور دیگر خصائل مذمومہ کا مریض نہ ہو کسی شریف باوقار انسان نے کبھی بھی استاذ کو حقیر نہیں جانا اور جو انہیں کمی کمین سمجھتے ہیں وہ اپنے علاوہ سب ہی کو یہی سمجھتے ہیں ۔
اور ہمیں اپنے ملک میں اور عوام سے بھی قطعاً کوئی بدگمانی نہیں ہے یہ لوگ بھی اپنے ربانی ، حقانی ، مخلص اور محنتی اساتذہ کی انتہائی قدر ومنزلت جانتے پہچانتے اور کرتے ہیں ۔ وللہ الحمد ۔ونعوذ باللہ من الفتن
٭ اس تحریر نے ہمارے ملک کے ان نام نہاد دانشوروں کو ایک مواد اور دلیل دے دی جو ایک طویل مدت سے ان کی نجی محافل کا موضوع ہوتی تھی اب علَنَّا اخباری کالموں سے بڑ ھ کر یہود ومجوس کی سازشوں سے علماء ومدارس کے خلاف مسلح کاروائیاں کرنے لگے ہیں ۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ
مگر اہل اللہ اور اہل خیر کی آزمائش اور ان کا امتحان تو اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے ۔
﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آَمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ﴾-العنکبوت : ۲-
’’ کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انہیں محض اس بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ انہوں نے اس قدر کہہ دیا کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کی آزمائش نہ ہو گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء ، اساتذہ ، طلبہ اور ائمہ ودعاۃ کا حامی وناصر ہو ۔ یہی ان شاء اللہ طائفہ منصورہ ہے انہیں مزید در مزید توفیق دے کہ وہ اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے اپنی کارکر دگی کو اور زیادہ توانا بنا سکیں ۔
اللہم اہدہم فیمن ہدیت۔ وعافہم فیمن عافیت و والہم فیمن تولیت ، وبارک لہم فیما أعطیت ، وقہم شرّ ما قضیت
وصلی اللہ علی النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟