Sunday, June 28, 2009

بے بسی ، بے حسی اور طاقت کا امتزاج

از خاکسار

مئی کے مہینے کی گرمی ۔ ۔ ۔ توبہ توبہ اللہ رحم فرمائے ۔ اگر کسی سے ملنے کہیں جانا پڑجائے تو دس دفعہ سوچنا پڑتاہے ۔ اللہ اللہ کرکے خاکسار اپنے عزیز دوست کے آفس پہنچا تو آفس میں داخل ہوتے ہی ہر دلعزیز نے جھٹ سے مجھے پکڑ لیا اور یوں گویا ہوا : بھائی آج ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے اور پھر وہ سنانا شروع ہوگیا:
نیپا چورنگی سے صفورا گوٹھ جانے والے روڈ پر ایک خاتوں رکشے میں سوار تھیں۔ رکشے والا رکشہ بھی بالکل درست چلا رہا تھا جیسے ہی رکشہ ثمامہ شاپنگ سینٹر کے سامنے پہنچا اچانک ایک تیز رفتار مزدانے جو کہ ڈرائیور کے بس سے باہر ہوگئی تھی ، رکشے کو زوردار ٹکر ماری اوررکشہ دوتین قلابازیاں کھا کر فٹ پاتھ کے ساتھ جالگا۔
رکشہ ڈرائیور ایک جانب اوندھا گرا ہوا تھا تو دوسری طرف وہ خاتون بے حس وحرکت پڑی ہوئی تھی ۔ بے حس مزدا والے نے جب یہ دیکھا تو فوراً مزدا سے اتر کر ایک جانب گلیوں سے فرار ہوگیا۔ اتنے میں لوگ دونوں زخمیوں کی جانب دوڑے جواب کچھ حواس سنبھال کر اپنے زخموں کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔

ایک نوجوان نے فوراًایمرجنسی نمبر 15 پر فون ملا کر پولیس کو اطلاع دی ، کچھ لوگ پانی لے آئے ، کسی نے ایدھی اور چھی پا ایمبولینس کو فون کیا تو جواب ملا کہ ابھی کوئی ایمبولینس موجود نہیں جیسے ہی آئے گی آپ کی طرف بھیج دیں گے۔
رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ خاتون اس کی بیوی ہے اور دونوں شاپنگ کرکے گھر جارہے تھے ڈرائیور بے چارے کے کندھے کی ہڈی شاید ٹوٹ چکی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف محسوس کررہا تھا جبکہ خاتون کے دو دانت ٹوٹ کرگرگئے اور گھٹنے اور کمر سے بھی خون رس رہا تھا۔ اتنی دیر میں پولیس آگئی اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے لگے ، میں اور کچھ نوجوان مزدا میں گھسے اور کاغذات ٹٹولنے لگے جوکہ ڈیش بورڈ سے برآمد ہوئے۔
میں وہ کاغذات لے کر اے ایس آئی کے پاس آیا جس نے کاغذات ہاتھ میں لیتے ہی اپنے ساتھیوں کو چلنے کا اشارہ دیا اور موبائل میں بیٹھ کر جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا ، لوگوں نے اسے بہت لعنت ملامت کی مگر وہ بھی بے حس نکلا۔
اسی اثناء میں سیاہ رنگ کے ایک نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا جائے حادثہ کے قریب سے گزری اور پھرلوٹ آئی کار میں سے 30۔32 سال کا ایک خوش لباس نوجوان نمودار ہوا اور لوگوں کے مجمعے کو ہٹاتے ہوئے زخمیوں کے پاس جا پہنچا۔ لوگوں نے اسے معزز جان کر ساری صورت حال اس کو بتائی تو وہ طیش میں آگیا اور غصے سے پولیس موبائل جوکہ کچھ فاصلے پر ہی کھڑی تھی کی جانب بڑھا۔ موبائل کے قریب پہنچتے ہی اس نے موبائل کا دروازہ جھٹکے سے کھولا اور ای ایس آئی کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکال دیا اور زور سے چلاّیا : ۔نظر آرہے ہیں وہ زخمی تجھے ، موبائل میں کیوں نہیں ڈالتا ان کو ؟ یا ایمبولینس کیوں نہیں بلاتا تو ؟
اے ایس آئی ادب سے بولا بھائی میرے پاس موبائل نہیں ہے تو نوجوان طیش میں آگیا اور اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرلیا پھر بولا اللہ کی قسم اگر تیرے چہرے پر یہ داڑھی اور اس میں یہ سفید بال نہ ہوتے تو میں تیرا منہ توڑدیتا۔ یہ سب باتیں سارے پولیس اہلکاروں نے سنیں مگر کوئی بھی آگے نہ آیا۔
نوجوان نے جیب سے موبائل نکالا اور چھیپا کے نیپا والے دفتر فون کیا اور چند ہی لمحوں میں ایمبولینس زخمیوں کو لے گئی۔
جائے حادثہ پر موجودسب لوگ بے بسی ، بے حسی اور طاقت کے اس منظر کو دیکھ کر یقینا حیران ہوئے ہوں گے مگر میں اسی سوچ میں پڑا رہا کہ اگر وہ لڑکانہ آتا اور وہ زخمی خدانخواستہ مرجاتے تو ان کے قتل کا ذمہ دار کون تھا۔ ۔ ۔ مزدا والا ؟ پولیس والے ؟ یا ایمبولینس والے ؟؟
بے حسی ہمارا قومی وملی المیہ بن گئی ہے اللہ کے قرآن اور رسول اکے فرمان سے روگردانی کا یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ امت میں آج یگانگت اور معاشرتی اقدار کا فقدان ہے۔ جاہ وجلال اور ظاہری اشیاء کے حصول نے معاشرے کو روحانی تازگی اور تسکین سے بہرہ ور ہونے کا موقع ہی فراہم نہ کیا ، ہے کوئی جو قرآن اور حدیث میں موجود معاشرتی اور اخلاقی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرسکے ؟؟؟ کاش کہ کوئی تو ہو ۔ ۔ ۔ اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟