Monday, June 29, 2009

شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ

از عبدالرشیدعراقی

کائنات نے اپنی بقا کیلئے کبھی اشخاص کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے مگریہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اس عالم رنگ وبو میں جو زندگی بھی نظر آتی ہے وہ چند باہمت اشخاص کی جدوجہد کا نتیجہ ہے یہ شخصیتیں اگرچہ دنیا سے اٹھ جاتی ہیں مگر ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ موت ان کے جسموں کو فنا کردینے پر قدرت رکھتی ہے مگر ان کی عظمت اس کی دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہتی ہے ۔یہ لوگ اپنے پیراہن خاکی میں زندہ نہ سہی مگر اپنے اعمال وافعال ، خیالات وتصورات میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جیتے ہیں۔ اپنے رفیق اعلیٰ کی قربت انہیں اس دنیا سے دور نہیں کرتی۔ انسانیت کے قافلے ان کے نقش پا کو دیکھ کر فوراً پکار اٹھتے ہیں ۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
مرحوم شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کاشمار بھی انہی چند خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتاہے وہ ایک فرد نہیں تھے ، بلکہ اپنی ذات میں ایک تحریک ، ایک انجمن تھے اس لئے ان کی موت ایک فرد کی موت نہیں ، بلکہ ایک ادارہ کی موت ہے۔ ایسی باکمال شخصیتیں صدیوں بعد پیداہوتی ہیں۔ اور ایسی شخصیتوں کے بارے میں شاعر مشرق نے فرمایا تھا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا سلفی مرحوم بیک وقت ایک جید عالم دین بھی تھے اور مجتہد بھی ، مفسر قرآن بھی اور محدث بھی ، مؤرخ بھی اور محقق بھی ، خطیب بھی اور مقرر بھی ، معلم بھی اور متکلم بھی ، ادیب بھی اور نقاد بھی ، دانشور بھی اور مبصر بھی مصنف بھی اور سیاستدان بھی ۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی : تفسیر قرآن ، حدیث ، اسماء الرجال ، تاریخ وسیر اور فقہ پر ان کو عبور کامل حاصل تھا ۔ حدیث اور تعلیقات حدیث پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ :
’’برصغیر (پاک وہند) میں علمائے اہلحدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ایسی دوشخصیتیں گزری ہیں جنہوں نے حدیث کی مدافعت ، نصرت اور حمایت میں اپنی زندگیاں وقف کررکھی تھیں۔ جب بھی کسی طرف سے حدیث پر ناروا قسم کی تنقید کی گئی تو مولانا امر تسری اور مولانا سلفی رحمہما اللہ تعالیٰ فوراً اس کا نوٹس لیتے تھے اور معترضین کا دلائل سے جواب دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اوران کی قبروں کو روشن رکھے۔ اب یہ ڈیوٹی محترم حافظ عبد القادر روپڑی اور خاکسار( عطاء اللہ حنیف) انجام دے رہا ہے۔ جب بھی حدیث کے خلاف کوئی مضمون یا رسالہ ، کتاب وغیرہ شائع ہوتی ہے۔ تو حافظ روپڑی صاحب اور خاکساراس کا فوراً نوٹس لیتے ہیں۔
اور دلائل سے معترض کے اعتراضات کا جواب شائع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محنت کو قبول فرمائے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے نیزغیر معمولی حافظہ سے قدرت نے نوازا تھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے۔ ملکی سیاسیات سے نہ صرف یہ کہ باخبر تھے بلکہ اس پر اپنی ناقدانہ رائے بھی رکھتے تھے ۔ برصغیر کی سیاسی وغیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے۔ عالم اسلام کی تحریکات سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے۔
ان کی علمی ودینی خدمات کے علاوہ سیاسی تحریکات میں بھی ان کی خدمات قدرکے قابل ہیں۔ تحریک استخلاص وطن کے سلسلہ میں کئی بار اسیر زندان بھی رہے۔
علم وفضل اور اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم جامع الکمالات تھے بہت زیادہ کریم النفس اور شریف الطبع انسان تھے ۔اپنے پہلو میں ایک درد مند دل رکھتے تھے ۔کریمانہ اخلاق اور صفات کے حامل تھے یہ طبیعت میں قناعت تھی۔ جاہ وریاست کے طالب نہ تھے۔ مردم شناس تھے خودپسندی اور نخوت سے نفرت تھی بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے ۔سادہ لباس پہنتے تھے اور سادہ لباس میں جمعیت اہلحدیث کے اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے ۔ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے ۔ایک دفعہ ایک اجلاس میں تہمد پہنے شریک اجلاس ہوئے تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ امیر جمعیت اہلحدیث جو اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے نے فرمایا کہ
’’میں بحیثیت امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان ناظم اعلیٰ صاحب کو حکم دیتاہوں کہ آئندہ اس لباس میں اجلاس میں شرکت نہ کیا کریں بلکہ شلوار اور شیروانی پہن کر آیا کریں۔‘‘
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ایک کامیاب مصنف بھی تھے ۔ان کی اکثر تصانیف حدیث کی تائید وحمایت اور نصرت ومدافعت میں ہیں۔ آپ کی تصانیف کی اجمالی فہرست درج ذیل ہے:
۱۔مشکوۃ المصابیح مترجم
۲۔امام بخاری کا مسلک
۳۔واقعہ افک
۴۔مسئلہ حیات النبی ﷺ
۵۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز
۶۔زیارۃ القبور
۷۔ سنت قرآن کے آئینہ میں
۸۔مقام حدیث ۹۔حدیث کی تشریعی اہمیت
۱۰۔حجیت حدیث آنحضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں ۱۱۔جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث
۱۲۔شرح المعلقات السبع
۱۳۔اسلام کی حکومت صالحہ اور اس کی ذمہ داریاں
۱۴۔اسلامی نظام حکومت کے ضروری اجزاء
۱۵۔اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ
۱۶۔تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تجدیدی مساعی ۱۷۔خطبات سلفیہ
۱۸۔مقالات مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم
مولانا سلفی رحمہ اللہ کی تصانیف کے عربی تراجم
۱۔موقف الجماعۃ الاسلامیہ من الحدیث النبوی ، دراسۃ نقدیۃ ومسلک الاعتدال للشیخ المودودی،(جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اور مسلک اعتدال)
۲۔رسالہ فی مسألۃ حیات النبی ﷺ (مسئلہ حیات النبی ﷺ )
۳۔مسألۃ زیارۃ القبور فی ضوء الکتاب و السنۃ (زیارۃ القبور )
۴۔حرکۃ الانطلاق الفکری وجہود الشاہ ولی اللہ دہلوی فی التجدید (تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تجدیدی مساعی )
۵۔السنۃ فی ضوء القرآن (سنت قرآن کے آئینہ میں)
۶۔مکانۃ السنۃ فی التشریع الاسلامی (حدیث کی تشریعی اہمیت)
۷۔صفۃ صلوۃ النبی ﷺ (رسول اکرم ﷺ کی نماز )
۸۔تخطیط وجیز للحکومۃ الاسلامیہ (اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ )
۹۔مذہب الامام البخاری (امام بخاری کا مسلک)
جماعتی خدمات
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم قیام پاکستان سے پہلے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی مجلس عامہ کے رکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے مغربی پاکستان جمعیت اہلحدیث کی بنیاد رکھی۔ تو مولانا سلفی کو ناظم اعلیٰ بنایا گیا۔ ۱۹۶۳ئ؁ میں مولانا غزنوی نے انتقال کیا تو مولانا سلفی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر منتخب ہوئے ۔جامعہ سلفیہ کے قیام میں بھی مولانا سلفی کی خدمات قابل قدر ہیں۔
ولادت
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ۱۸۹۵ء؁ مطابق ۱۳۱۴ھ؁ میں قصبہ ڈہونیکی تحصیل وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام مولوی کلیم محمد ابراہیم تھا جو حازق طبیب ہونے کے علاوہ بہترین کاتب بھی تھے ۔ مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع ترمذی (عربی) اور مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ کا مترجم قرآن مجید (طبع لاہور) آپ ہی کے فن خوشنویسی کے شاہکار ہیں۔
تعلیم
مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم نے مختلف علوم اسلامیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی ۔ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
۱۔والد محترم مولوی کلیم محمد ابراہیم
۲۔مولانا عبدالستار بن استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی
۳۔مولانا عمر الدین وزیر آبادی
۴۔مولانا عبد الجبار عمر پوری
۵۔مولانا مفتی محمد حسن امرتسری
۶۔مولانا سید عبد الغفور غزنوی
۷۔مولوی حکیم محمد عالم امر تسری
۸۔مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ اجمعین
دہلی میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کے درس قرآن میں بھی شریک ہوتے رہے۔
وفات
تاریخ وفات ۲۰ فروری ۱۹۶۸؁ءبمطابق ذی قعدہ ۱۳۸۷ ھ؁گوجرانوالہ میں انتقال کیا عمر (۷۳) سال تھی۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟