Monday, January 4, 2010

تبصرۂ کتب

از ڈکٹر تاج الدین الازہری

نام کتب : تقدیر ۔۔کتا ب سنت کی روشنی میں
مصنف : محمد فتح اللہ گولن
متر جم : محمد خالد سیف
شائع کردہ : ھار مونی پبلیکیشنز، اسلا م آباد
سا ل اشاعت : ۲۰۰۹ء
صفحا ت : ۱۶۲
قیمت : درج نہیں
تقدیر پر ایمان لانا ہما رے ایما ن کا حصہ ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی ، اس کے فرشتے ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے ، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے ۔دیگر ارکان کے بغیر تقدیر پر ایمان کا تصور ممکن نہیں اور تقدیر کے بغیر باقی چیزوں پر ایمان کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ۔
مسئلہ تقدیر کو اسلام کے ابتد ائی ایام ہی سے مشکل مسائل میں شمار کیا جاتا ہے ، جن میں قدم پھسلنے کا اندیشہ رہتا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے اس کے بنیادی اصولوں کو آیا ت کریمہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور اس کے متفرق اور عمیق پہلوؤں سے بحث نہیں کی تا کہ عوام الناس کو اس مسئلہ کی دقیق تفا صیل کے بارے میں بحث کے وقت ان راستوں میں ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ، جن سے وہ آشناہی نہیں ہیں ۔تقدیر کے مسائل کی اسی نزاکت کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ اپنے شاگرد وں کو ان میں بحث ومباحثہ سے منع فرماتے تھے اور آپ سے پوچھا جاتا کہ آپ اس مسئلہ میں کیوں گفتگو فرماتے ہیں تو جواب دیتے کہ ۔۔۔’’میں اس مسئلہ میں اس طرح ڈرتے ہوئے گفتگو کرتا ہوں گویا میرے سر پر پرندہ بیٹھا ہو۔۔۔‘‘
اما م صاحب کے قول کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ تقدیر میں ہر شخص کے لئے گفتگو جائز نہیں ، اس مسئلہ میں گفتگو صرف اس حاذق اور ماہر شخص کو کرنی چاہیئے جو زرگر کی طرح حاذق ہو ۔
موجودہ دور میں مادی فلسفہ پوری دنیا میں بڑ ی تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ عقائد میں شکوک و شبہات پید ا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تنقید کو پروان چڑ ھانے میں بھی مصروف عمل ہے ، تو ایسے میں مادہ پرستوں نے محسوس کیا کہ تقدیر لوگوں کو خوش کرنے والے مسائل میں سے ہے ، اس لیے انہوں نے پوری قوت کے ساتھ ان مسائل کو بیان کرنا شروع کر دیا ، جب کہ مسلمان ان مسائل میں غور وخوض کرنے میں حرج محسوس کرتے تھے ۔
زیر نظر کتاب ’’تقدیر کتاب وسنت کی روشنی میں ‘‘ایسے ہی مادہ پرست افراد کے لیے ایک تحفہ ہے ، جس میں جناب فتح اللہ گولن نے مسئلہ تقدیر کو کتاب وسنت کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بڑ ی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔
جناب فتح اللہ گولن نے ۱۹۹۰؁ ء کے بعد مختلف جماعتوں ، صحافیوں ، تعلیم یافتہ طبقوں اور مذاہب وافکارکے درمیان باہمی افہام وتفہیم اور مکالمے کی تحریک کا آغاز کیا ، اس تحریک کے اثرات نہ صرف ترکی میں بلکہ ترکی سے باہر بھی محسوس کیے گئے اس تحریک کے اثرات کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوپ کی دعوت پر جناب فتح اللہ نے ویٹی گن سٹی میں پوپ سے ملاقات کی۔
ان کے خطبا ت، مواعظ ، لیکچرز اور مجالس پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں کیسٹیں لوگوں کی راہنمائی کیلئے موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی مطبوعہ کتب کی تعداد ۲۲ ہے جن میں کئی کتابیں ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہیں کئی کتابوں کا ترجمہ انگریزی ، جرمن ، بلغاری ، البانوی ، انڈونیشی ، روسی اور کوریائی زبانوں میں ہو چکا ہے ، ارودو زبان میں ان کی ۸ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ایک زیر نظر کتاب بھی ہے ۔
ان کی یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے ، ہر فصل کے تحت ذیلی عنوانا ت ہیں ، فصل اول میں تقدیر کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانا ت یہ ہیں ۔
تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی ، مسئلہ تقدیر وجدانی ہے ، تقدیر اور جزوی ارادہ میں تضاد نہیں ، اللہ تعالیٰ کی مشیت اور انسان کا ارادہ تقدیر آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کی روشنی میں ۔
فصل دوم قضا کا تقدیر کے تعلق بیان کیا ہے اور اس کے اہم ذیلی عنوانا ت یہ ہیں ۔ قضاو قدر علم الٰہی کی حیثیت سے ، قضاء وقدر تحریر کی حیثیت سے ، قضاء وقدر مشیت الٰہی کی حیثیت سے اور قضاء وقدر بحیثیت مخلوق۔
فصل سوممیں تقدیر ، ارادہ اور ہدایت کا آپس میں تعلق بیان کیا ہے ۔ چوتھی فصل میں تقدیر سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے گئے ہیں ، جن میں اہم یہ ہیں ۔ ارادہ کے جزئیات وکلیات، مشیت الٰہی اور انسان کی آزادی ، کلی اور جزوی ارادے کی ماہیت۔
٭ تقدیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں جناب فتح اللہ گولن ص ۱۹ پر یوں رقمطراز ہیں : ’’قدر کے لغوی معنی اندازے کے ہیں اور کسی کام کی تدبیر کرنے ، اس کا فیصلہ کرنے اور اس کے بارے میں حکم صادر کرنے کے بھی ہیں ۔ ان تمام معانی سے ہم یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ قدر کے اصلاحی معنی یہ ہیں کہ وہ فیصلہ جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اندازہ مقرر فر ما دیا اور اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا ۔اس مذکورہ بالا تعریف کی آیا ت کریمہ سے تایید ہوتی ہے ۔
تقدیر کی اہمیت کو مصنف ص۲۱ پر یوں بیان کرتے ہیں : ’’تقدیر کو فقط علم کا عنوان قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ تقدیر کے معنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اپنے علم کے ساتھ اشیاء کی تعیین و تقدیر سے بڑ ھ کر اس کے سمع وبصر ، ارادہ اور مشیت تک کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں ، جب تقدیر کے معنی یہ ہیں تو تقدیر کا انکار گویا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تمام صفات کا انکار ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’تقدیر کا تعلق قدرت سے ہے لہٰذا جو شخص تقدیر کا انکار کرتا ہے وہ ان بہت سے امور کا منکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ خاص ہیں یعنی اس سے الوہیت کا عقیدہ متزلزل ہو جاتا ہے ، فکر کے نظام ٹوٹ جاتے ہیں اور مفاہیم کی بنیادیں منہدم ہو جاتی ہیں ۔‘‘
تقدیر پر ایمان کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ص۲۷ پر ہو یوں گویا ہیں : ’’ہمار ا کھانا پینا ، سونا جاگنا اور بات کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کا تعلق خلق سے ہے وہ قطعی طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صاحب ایمان کہیں ’’جبریت‘‘ میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ انسان جب ہر فعل کو اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دیتا ہے تو نتیجہ کے طور پر اس کے سامنے (جزئی) ارادہ بھی آتا ہے اور اسے ذمہ داری یاد دلاتا ہے تاکہ ا سکی ذمہ داری ختم نہ ہو جائے اور اس لیے کہ انسان اپنی نیکیوں کی وجہ سے مبتلائے فریب نہ ہو جائے ۔ تقدیر اپنا کام دکھاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ مبتلائے فریب نہ ہوتو وہ فاعل نہیں ہے اس طرح وہ اسے غرور سے بچا لیتی ہے اور اس طرح انسان اعتدال تک پہنچ جاتا ہے اور اس اعتدال کی حفاظت سے اس کی زندگی اور کردار میں بھی ایک نظم وضبط پیدا ہو جاتا ہے ۔ تمام نیکیاں اللہ تعالی ہی کے فعل وتقدیر کی وجہ سے ہیں انسان از خود انہیں سر انجام نہیں دے سکتا ورنہ وہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائے گا البتہ نفس شریرہ اپنے شر کی وجہ سے جمیل اور جمال کو پسند نہیں کرتا بلکہ ان سے دشمنی رکھتا ہے ۔نفس امارہ برائیوں کی طرف راغب ہوتا ہے ، اس لئے برائیوں کی ذمہ داری اس پر واقع ہوتی ہے ۔ درج ذیل آیت کریمہ میں ان دونوں قاعدوں کو یکجا کر دیا گیا ہے : مَا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللَّہِ وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ (النساء:۷۹) ’’(اے ابن آدم زاد ) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال کی)وجہ سے ہے ۔‘‘
انسانی ارادے کی حقیقت کو ص۳۳ پر یوں بیان کرتے ہیں : ’’یہ صحیح ہے کہ ہم میں ارادہ موجود ہے لیکن اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے لہٰذا یہ اس وقت مخلوق نہیں ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے ارادہ کی طرف اس طرح دیکھ سکیں کہ یہ موجود ہے پس جو اشیاء موجود نہ ہوں وہ مخلوق نہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں یعنی ان کا علمی وجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ وقدرت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر معاملہ اس نظریہ کے برعکس ہوتا یعنی اگر ہمارا ارادہ بھی ہمارے اعضاء کی طرح مخلوق ہوتا اور ہمیں اس کے بارے میں اختیار تو نہ دیا جاتا لیکن اس کے بارے میں سوال ضرور کیا جاتا تو ہمارے افعال میں سے کسی فعل کی بھی ہم پر کوئی ذمہ داری نہ ہوتی ۔ کسی کو بھی اپنی نیکیوں پر ثواب طلب کرنے کا حق حاصل نہ ہوتا ، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے پس انسان کا ارادہ بذات خو دمخلوق نہیں ہے ، موجود بھی نہیں ہے ، بلکہ اسے ایک اعتباری وجود عطا کیا گیا ہے ‘‘ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق اور بندے کے کسب کو ص۱۴۱ پر یوں بیان کیا گیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے بجلی کا جو نظام وضع فرمایا ہے ، وہ تمہارے سوئچ آن کرنے سے سب ماحول کو روشن کر دیتا ہے لیکن بجلی کے نظا م سے روشنی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی ذات کے ساتھ خاص ہے ، جس نے اسے بنایا ہے اور انسان کے اس سے جزوی طور پر کام لینے کو ہم انسان کے کسب یا جزئی ارادے سے تعبیرکرتے ہیں ، جب کہ خلق اور ایجاد کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ‘‘ ہدایت اور گمراہی کے بارے میں مشیت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے ص۱۰۲ پر لکھتے ہیں : ہدایت وضلالت کے مشیت الٰہی کے ساتھ ربط کو قرآن کریم کی بہت سی آیات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے مثلاً: فَمَنْ یُرِدِ اللَّہُ أَنْ یَہدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُرِدْ أَنْ یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقًا حَرَجًا کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللَّہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ (الانعام:۱۲۵)
’’تو جس شخص کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہداتی بخشے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا کہ وہ آسمان پر چڑ ھ رہا ہے اسی طرح اللہ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے ‘‘ اس آیت کی تشریح میں ص ۱۰۳ پر لکھتے ہیں :
’’جس طرح اس نے ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، اسی طرح اسنے ہمیں اس کام کیلئے اپنے ارادے کو استعمال کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی ہے ، جو ہم کرنا چاہیں ، ہمیں ارادہ عطا فرمانے کے باوجود مشیت وارادہ اس کی ذات پاک کے لیے مخصوص ہے ۔
مترجم کتاب جناب محمد خالد سیف نے ایسا رواں اور شگفتہ ترجمہ کیا ہے کہ قاری کو کتاب کے سمجھنے میں کہیں بھی دقت پیش نہیں آتی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کتاب اردو زبان میں ہی لکھی گئی ہے ۔ کتاب کی طباعت بھی بہت عمدہ ہے ، کاغذ بہت اچھا استعمال کیا گیا ہے جس نے طباعت کو مزید چار چاند لگا دیے ہیں ۔ املائی اغلاط کا نہ ہونا نظر ثانی کرنے والے کی محنت کی دلیل ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مترجم ، ناشر اور اس میں حصہ لینے والے تمام افراد کو اجر دارین عطا فرمائے ۔ آمین

’’خبر نامہ‘‘
صفحات : ۳۰
ناشر : عبد الرحمن اسلامک لائبریری
گلشن فیض کالونی بالمقابل گورنمنٹ پولٹری فارم قاسم بورڈ ڈاکخانہ ممتاز آباد ملتان
مبصر : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
محترم محمد یٰسین شاد صاحب بلدۃ ملتان سے تعلق رکھنے والے مشہور صاحبِ علم وقلم ہیں ۔ بحیثیت استاد ان کی شناخت ہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو موصوف نے خدمتِ علم دین کیلئے وقف کر دیا ہے ۔ اپنے ذاتی پلاٹ کو مسجد کیلئے وقف کر دیا ونیز اپنے ذاتی ذخیرئہ کتب کو بھی عوام الناس کے لیے وقف کر دیا اور ہر دم اس ذخیرئہ کتب میں اضافے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔ اپنی لائبریری کی جانب سے ان کے دماغ میں مختلف نشریاتی ارادے بھی منصہ شہود پر آنے کیلئے مچل رہے ہیں ۔ اللہ رب العزت ان کا معاون وکارساز ہو۔
سردست ان کے طبع کردہ ’’خبر نامہ‘ کا تعارف مقصود ہے جس میں چند ایک مضامین اور مسجد لائبریری کا تعارف مرقوم ہے ۔ ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ لا ہور (فروری ۱۹۷۱ے ) سے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کا مضمون ’’رسول کریم کی چند وصیتیں ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے ۔ یہ مضمون طلبائے دین کیلئے انتہائی مفید ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں وسائل مہیا فرمائے تاکہ آئندہ ’’خبر نامہ‘‘ سے بڑ ھ کر یٰسین شاد ایسے علمی کارنامے انجام دیں جو خود ’’خبر‘‘ بن جائیں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟