Monday, January 4, 2010

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ

از عبدالرشید عراقی
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کا شمار برصغیر (پاک وہند) کی جماعت اہلحدیث کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناگوں صفات سے متصف فرمایا تھا وہ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے اور محدث بھی وہ مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی ، مورخ بھی تھے اور محقق بھی ، خطیب بھی تھے اور مقرر بھی، معلم بھی تھے اور متکلم بھی دانشور بھی تھے اور ادیب بھی، مبصر بھی تھے اور نقاد بھی ، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی مناظر بھی تھے اور مبلغ بھی۔
ایک وقت تھا جب برصغیر میں اہلحدیث جماعت کا کوئی جلسہ ہوتا تھا تو اس میں تین علمائے کرام ضرور شرکت کرتے تھے اور ان کی شرکت اس لئے ضروری سمجھی جاتی تھی کہ وہ ملت اسلامیہ کے ایسے نامور علماء تھے کہ باطل فرقوں کے علماء ان کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرتے تھے ان کی یلغار اور للکار سے ان کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان تین علمائے کرام کے علم وفضل کا ڈنکا چار سو عالم میں بجتا تھا اور پورے برصغیر کی فضا پر چھائے ہوئے تھے اوروہ یہ تھے ۔
۱۔شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ
۲۔فاضل اجل مولانا ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ
۳۔امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ
مولانا ابراہیم میر۱۲۹۱ھ؁ بمطابق ۱۸۷۴ء؁ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے مولانا سیالکوٹی نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن سیالکوٹی المتوفی( ۱۳۳۶ھ؁ ) سے حاصل کی اس کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی المتوفی (۱۳۳۴ھ؁) اور شیخ الکل حضرت میاں سید محمد نذیر صاحب محدث دہلوی المتوفی (۱۳۲۰ھ؁)سے کی ۔ ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۶ء؁ میں آپ نے تعلیم سے فراغت پائی اس کے بعد واپس اپنے وطن سیالکوٹ تشریف لائے ۔ اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جب دہلی کے شیخ عبد الرحمان اور شیخ عطاء الرحمان (دونوں بھائیوں ) نے دار الحدیث رحمانیہ کے نام سے دہلی میں ایک دینی درسگاہ قائم کی تو اُن کے اولین مدرسین میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ بھی شامل تھے ۔
علم وفضل کے اعتبار سے مولانا سیالکوٹی ایک متبحر عالم دین تھے ۔ تفسیر قرآن میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔
’’قرآن مجید کے لطائف ومعارف سمجھنے میں جتنی یہ تفسیر مفید ہے اور کوئی تفسیر نہیں اور میں نے اس تفسیر سے بہت کچھ حاصل کیا ہے ۔‘‘
حدیث نبوی سے بھی بہت زیادہ شغف تھا آپ کی ساری زندگی حدیث کی نشر واشاعت اور اس کی حمایت ومدافعت اور نصرت میں بسر ہوئی حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔
قادیانیت کی تردید میں بھی آپ کی خدمات قدرکے قابل ہیں آپ نے قادیانیوں سے بے شمار مناظرے کئے ۔ ان کے خلاف کئی ایک کتابیں لکھیں ۔ قادیانیت کی تردید میں آپ کی کتاب ’’شہادۃ القرآن‘‘ ایک لاجواب کتاب ہے جو آیت ’’إنی متوفیک ورافعک إلیّ‘‘ کی ایسی بے مثال تفسیر اور حیات عیسیٰ ں پر ایسی گواہی ہے کہ حضرت مسیح ں کو مردہ بتانے والے بھی ’’کَذَلِکَ یُحْیِی اللَّہُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آَیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ۔‘‘ پکار اٹھے ۔
اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم ایک کریم النفس اور شریف انسان تھے بہت زیادہ خوددار ، حق گو اور کھرے آدمی تھے ۔
مؤرخ اسلام واہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ :’’ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم، منقول ومعقول کے ماہر ۔ بہت بڑ ے مناظر، کثیر التصانیف مصنف، دین کے بارے میں نہایت غیور، عزت نفس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی جری ، بارعب اور صاحب جلال بزرگ تھے ۔ اللہ نے ان کو دین اور دنیا دونوں سے نوازا تھا۔ جس بات کو غلط سمجھتے اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے غلطی پر ٹوکنا، برائی سے روکنا اور صحیح راہ کی تلقین کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔ اس ضمن میں وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے کوئی مانے یا نہ مانے وہ ہر حال میں کلمہِ حق بلند کرتے تھے ۔‘‘
سیاسی اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم میر مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور آپ نے ۱۹۳۸ء؁ میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مارچ ۱۹۴۰ء؁ کے اجلاس مسلم لیگ لا ہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔جب جمیعۃ علماء ہند نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور دو قومی نظریہ کی بجائے متحدہ قومیت کا نعرہ لگایا تو مولانا محمد ابراہیم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے ساتھ مل کر جمیعۃ علماء اسلام کے نام سے ایک جماعت بنائی۔ اس کا سیاسی اجلاس اکتوبر ۱۹۴۵ء؁ میں کلکتہ میں ہوا اس کی صدارت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے کی تھی۔ مولانا شبیراحمد عثمانی علالت کی وجہ سے شریک اجلاس نہ ہو سکے ۔ اس اجلاس میں قیام پاکستان کے حامی علماء نے شرکت کی تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے ’’تمدن ومعاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا ۔ پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : ’’ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے ’’تمدن ومعاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ دیا۔ جس میں کتاب وسنت کی روشنی میں آزاد وخود مختار مملکت کے قیام کیلئے پاکستان کو اسلامیان ہند کی سیاسی، اقتصادی ، معاشرتی، دینی اور ملی ضرورت قرار دیا۔مولانا نے اپنے خطبہ میں ہندوذہنیت کاپوسٹ مارٹم کیا اور کانگریسی وزارتوں کے قیام کے بعد ہندوازم کے قیام اور مسلمانوں پر مظالم کی تصویر کشی کرتے ہوئے گاندھی کے کردار کو بے نقاب کیا۔ یہ خطبہ کلکتہ کے ’’عصر جدید‘‘ کی اشاعت نومبر ۱۹۴۵ء؁میں شائع ہوا جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر پنجاب مسلم فیڈریشن جو مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم تھی نے کتابی صورت میں شائع کر کے وسیع پیمانے پر تقسیم کیا۔
مولانا ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ جو ممتاز اہلحدیث عالم، مناظراور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے خاص دوستوں میں سے تھے ۔ سیاسی اعتبار سے کانگرس سے وابستہ تھے ۔ اور متحدہ قومیت کے حامی تھے انہوں نے متحدہ قومیت کی تائید اور قیام پاکستان کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا۔ مولانا سیالکوٹی نے فوراً اس مضمون کا جواب دیا جو روزنامہ احسان لا ہور کی دسمبر ۱۹۴۵ء؁ میں شائع ہوا۔ مولانا سیالکوٹی نے مولانا بنارسی کے اعتراضات کا جامع جواب دیا۔ اور قیام پاکستان کے خلاف اعتراضات کو غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ وغیر عادلانہ قرار دیا۔ اور ثابت کیا کہ اہل اسلام کی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے تحریک پاکستان کی حمایت میں کئی ایک مضامین’’پیغام ہدایت اور تائید پاکستان ومسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے لکھے جو روزنامہ نوائے وقت لا ہور میں شائع ہوئے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا شمار کثیر التصانیف علماء میں ہوتا ہے آپ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور ہر موضوع کا حق ادا کیا۔
آپ نے تفسیر قرآن ، سیرۃ النبوی ، تاریخ، تائید احادیث، تردید عیسائیت وقادیانیت، اور منکرین حدیث تردید شیعیت اور مقلدین احناف اور سیاست پر کتابیں لکھیں ۔
آپ کی چھوٹی بڑ ی تصانیف کی تعداد ایک سو کے قریب ہے ۔
ان کے علم وفضل اور تبحر علمی کے بارے میں مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کثیر المطالعہ عالم تھے ۔ تفسیر وحدیث ، فقہ واصول ، تاریخ وتذکرہ، فلسفہ ومنطق اور تقابل ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کادائرہ بہت وسیع تھا۔ اسلام اور احکام اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑ ی شہرت تھی۔ عیسائیوں ، آریوں اور قادیانیوں کے ساتھ انہوں نے متعدد مناظرے کئے اور کامیاب رہے بعض مسائل میں علمائے احناف سے بھی ان کے مباحثے ہوئے ۔
مولانا محمد ابراہیم میر نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۶ء؁ (۲۶ جمادی الاولی۱۳۷۵ھ؁ ) سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔
مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑ ی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑ ھائی ۔ راقم کو آپ کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے ۔ اللہم اغفر ہ وارحمہ وأدخلہ فی جنات الفردوس۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟