Monday, January 4, 2010

حقوقِ نسواں اسلام کی روشنی میں

قسط نمبر۲
از محترمہ طاہرہ کوکب

مستشرقین کا اعتراف
اسلام کی اس خوبی کا اپنوں کے ساتھ غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے پروفیسر سانتی لانا لکھتے ہیں : اسلامی قانون کا نظم ماہرین قانون کی نظر میں ہر قدر وستائش کا مستحق ہے اور اس کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے بے ڈول اور وحشیانہ رسوم ورواج کے مقابلہ میں وہ بہت بلند ہے اور عربی قانون کے اہم اجزاء نے مغربی تصورات کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے ۔ جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہے ۔
جنیو ایونیورسٹی کے پروفیسر سپریل لکھتے ہیں : پوری نسل انسانی کو اسلام کے پیغمبر پر فخر کرنا چاہیے کیونکہ آپ نے انسانیت کیلئے وہ پیغام چھوڑ ا ہے جس کے اعلیٰ معیار پر انسانیت اگر دو ہزار سال میں بھی آجائے تو بڑ ی باعث مسرت کامیابی ہو گی۔
ممتاز انگریز مفکر موسیولیون راس لکھتا ہے ۔
اسلام ایک جامع کمالات دستور ہے جس کو انسانی ، فطری ، طبعی ، اقتصادی اور اخلاقی قانون کہنا بالکل بجا اور درست ہے ۔

خواتین کے حقوق وفرائض
حقوق میں بہت سے حقوق وہ ہیں جن کا مرد وعورت دونوں سے تعلق ہے ، لیکن کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق خواتین سے ہے پھر خواتین کی بھی چار بنیادی حیثیتیں ہیں ۔ بیٹی ، بہن ، بیوی اور ماں ۔ کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق چاروں سے ہے کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق کسی خاص حیثیت سے ہے ۔ اسی وجہ سے میں جس حق کا تعلق غالب درجہ میں عورت کی جس حیثیت سے ہے اس کے ضمن میں تحریر کروں گی پھر آخر میں مشترکہ حقوق پر روشنی ڈالوں گی۔
خواتین کے حقوق وفرائض بحیثیت بیٹی کے سیرت طیبہ کی روشنی میں
بچے اور بچیاں اللہ کی نعمت ہیں ، قرآن نے انہیں ’’زِینَۃُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا‘‘ دنیا کی زینت کہا ہے رسول مکرم کے توسط سے مسلمانوں کو نیک اولاد کی دعا مانگے کا طریقہ سکھایا گیا ہے ۔ بچیوں کے کچھ حقوق وہ ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہے ۔ کچھ وہ ہیں جن کا تعلق معاشرت سے ، کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مال سے ہے ۔
۱۔ بچیوں کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کی پیدائش حلال تعلق کے نتیجہ میں ہو۔
۲۔ پیدائش کے بعد شرعی رسومات کی ذمہ داریاں حسب استطاعت ادا کی جائیں جس میں اذان واقامت ، تحنیک ، عقیقہ ، ختنہ وغیرہ بحیثیت مجموعی بچی کا حق ہے ۔
۳۔ تعلیم دلوانا بچی کا حق اور والدین کا فریضہ ہے ۔ ابو ذرقلمونی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فرائض کا علم عورت کو اپنے شوہر یا والد سے حاصل کرنا چاہیے ۔ بچیاں عہد اسلامی میں بہت اہتمام سے علم حاصل کرتی تھیں ۔ سیدہ زینب جو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے لکھا ہے وہ اپنے زمانہ کی فقیہہ تھیں ۔ عیسیٰ بن مسکین کے بارے میں لکھا ہے صبح وہ خود لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ، شام کو ان کی بیٹیاں اور بھائی کی بیٹیاں لوگوں کو تعلیم دیتی تھیں ۔ خطیب بغدادی نے صحیح البخاری کریمہ بنت احمد المروزی سے پڑ ھی ہے ۔ بقول علی میاں ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ انہی سے منقول نسخہ آج برصغیر میں رائج ہے ۔ تعلیم بچی کا حق اور والدین کا فریضہ ہے ارشاد نبوی ہے علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ عبد الحئی کتانی نے اس حق پر بہت مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔
۴۔ تربیت انسانیت کا جھومر اور اسلامی تعلیمات کا محور ہے خود نبی کریم نے اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ تربیت فرمائی۔ قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے ۔ قُوا أَنفُسَکُم وَأَہلِیکُم نَاراً (تحریم)
خود بھی نیک کام کر کے جہنم سے بچو اور اولاد کو بھی بچاؤ اور یہ صرف اچھی تعلیم کے ساتھ تربیت سے ہی ممکن ہے ۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے آپ نے فرمایا : ’’من کن لہ ثلاث بنات یؤدبہن ویرحمہن ویکفلہن وجبت لہ الجنۃ البَتّۃ قیل یا رسول اللہ فان کانتا اثنتین قال وإن کانتا اثنتین قال فرأی بعض القوم أن لو قالوا واحدۃ لقال واحدۃ .‘‘(مسند احمد وفیہ ضعف)
’’جس کی تین بچیاں ہوں اور وہ انہیں (اعلیٰ تربیت کے ذریعہ ) مؤدب ومہذب بنائے اور ان کے ساتھ رحمدلی کا معاملہ کرے ان کی کفالت کرے تو اللہ نے اس کیلئے ہر حال میں جنت واجب کر دی ہے ، نبی کریم سے سوال کیا گیا اگر اس کی دو بچیاں ہوں ، آپ نے فرمایا: دو ہوں پھر بھی یہی حکم ہے ، بعض افراد نے کہا اگر صرف ایک بچی ہوتو آپ نے فرمایا : پھر بھی یہی حکم ہے ۔‘‘
یہاں خصوصی طور سے بچیوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے کہ عرب بچوں کی تو اعلیٰ تربیت کرتے بچیوں پر توجہ نہیں دیتے تھے ۔ اعلیٰ تربیت اسی وقت ممکن ہے کہ پہلے والدین خود عمل کریں ، پھربچے بھی عمل کریں گے ۔ آپ نہ خود صدقہ کھاتے نہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو کھانے دیتے تھے ۔نہ خود جھوٹ بولتے نہ بچوں کو بولنے دیتے تھے ، بچوں کو کھانا کھاتے ہوئے ادب سکھاتے تھے ۔
۵۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ مساوات کا سلوک بھی بچی کا حق ہے ایک شخص نے اپنے ایک بچے کو جائیداددی اور اس پر آپ کو گواہ بنانا چاہا آپ نے فرمایا تم نے دوسروں کو کیا دیا اس نے کہا کچھ نہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ تم مجھے ظلم پر گواہ بنانا چاہتے ہو، یعنی اگر کچھ دیا جائے تو سب کو برابر دیا جائے ۔ اسی طرح جو یتیم بچی زیر پرورش ہو اس کے بھی یہی پانچوں حقوق ہیں ، جیسا کہ سورۃ النساء میں حکم دیا گیا ہے ۔اور اس کی فضیلت واضح کرتے ہوئے فرمایا :’’أنا وکافل الیتیم ہکذا۔‘‘
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے قیامت کے دن اس طرح ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں لہذا بیوی کے پچھلے شوہر کی اولاد کے بھی یہی حقوق ہوں گے ۔
۶۔ ماں کے پاس پرورش کا حق : بچیاں چونکہ ماں سے زیادہ مانوس ہوتی ہیں اس لئے بلوغت تک ماں کے پاس رہنے کا حق ہے ، جیسا کہ آپ نے ایک عدالتی فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’ أنت احق بہ ما لم تنکحی .‘‘
جامع ترمذی کی روایت ہے جس نے ماں کو اس کے بچے یا بچی سے جدا کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اس کے پسندیدہ لوگوں سے جدا کر دے گا۔
۷۔ نفقہ (اخراجات) وکفالت کا حق : بچیوں کا حق ہے کہ والدین وسرپرست ان کی مالی کفالت کریں اور ان کے جملہ اخراجات اپنی وسعت کے مطابق اٹھائیں اگر بچے معذور ہوں تو ساری زندگی ان کی کفالت والدین کے ذمہ رہتی ہے ۔
۸۔ محبت کا حق :بچیوں سے محبت ان کا حق ہے ۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے آپ بچوں سے پیار کرتے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کرنے پر جب ایک دیہاتی نے تعجب کیا تو آپ نے فرمایا میرے بس میں نہیں ہے کہ بچوں کی محبت تیرے دل میں ڈالوں جب اللہ نے کھینچ لی ہے ۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کوجواب دیا ’’من لا یرحم لا یرحم ‘‘ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ فرمایا جو بچوں سے رحمت ومحبت کا سلوک نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
۹۔ عزت کا حق :رحمت کا تقاضا ہے بچوں کی عزت کی جائے ان کے ساتھ اہانت کا رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : سن لو تمہارا مال، جان آبرو قیامت تک کیلئے ایک دوسرے پر حرام ہیں ۔ اگر ہم بچوں کے ساتھ بدسلوکی کریں ذلت آمیز رویہ اختیار کریں تو کل بڑ ے ہوکر وہ بھی ایسا ہی کریں گے ۔ سورۃ الحجرات میں مذاق اڑ انے ، طعنہ زنی کرنے اور برے نام رکھنے سے باز رہنے کا حکم بچیوں کیلئے بھی ہے ۔ بچیوں کا اچھا نام رکھنا اسی نام سے بلانا یہ ان کا حق ہے ۔ جیسا کہ آپ نے حکم دیا ہے ۔ ارشاد نبوی :’’ اَکرِمُوا اَولاَدَکُم وَاَحسِنُوا اَدَبَہُم ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث :۳۶۶۱)
’’اپنے بچوں کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ ‘‘
۱۰۔ تجہیز وتکفین کا حق :اگر بچے کا انتقال ہوجائے تو پورے اعزاز وا کرام اور اسلامی طریقے سے غسل ، کفن اور جنازہ کے ساتھ اسے دفنایا جائے گا، جیسا کہ آپ نے عبد اللہ بن عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ (مردہ بچے کے بارے میں جنازہ کے مسئلہ میں اختلاف ہے ) بچیوں کے ان دس اہم حقوق کی وضاحت کے بعد اب ہم ان کے فرائض کا بھی سیرت طیبہ سے مطالعہ کرتے ہیں ۔(جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟