Monday, July 27, 2009

اخبار الجامعہ

از محمد طیب معاذ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
طلباء جامعہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے انفرادی اور جماعتی سطح پر مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دیتے رہتے ہیں جس کی قابل نمونہ مثال معہد علمی ثانوی کے سالِ سوم کے زیر اہتمام احیائے دعوت کتاب وسنت کا ہفتہ وار تقریری پروگرام بھی ہے ۔اس پروگرام کا آخری اجلاس گذشتہ دنوں شیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ سیمینار ہال میں انتہائی شان وشوکت کیساتھ منعقد کیا گیا۔ جس میں معہد ثالث کے طلبہ کے درمیان عربی واردو زبان میں تقریری مقابلہ ہوا اس پروگرام میں آخری کلاس کے طلبہ کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جبکہ الشیخ مقبول احمد مکی (مدیر ماہنامہ اسوئہ حسنہ) الشیخ ڈاکٹر محمد حسین لکھوی (مدیر معہد) الشیخ محمد طاہر باغ ، الشیخ ابو معاذ محمد شریف (نائب مفتی) الشیخ فضل الرحمن حفظہم اللہ جمیعاً نے ججز کے فرائض سرانجام دئیے ۔
پروگرام کی نظامت محترم عرفان قدیر نے احسن طریقہ سے کی جب کہ تلاوت کلام حمید کی سعادتِ ابدی کا شرف قاری حبیب الرحمن کو حاصل ہوا اردوزبان میں ابوبکر عاصم نے پہلی ، محمد وسیم نے دوسری جبکہ امتیاز احمد نے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ عربی زبان میں عزیز الرحمن الحمیدی ، عبد الباسط اور خلیل الرحمن ے بالترتیب پوزیشن حاصل کی ۔ فضیلۃ الشیخ مقبول احمد مکی (مدیر ماہنامہ اسوئہ حسنہ) نے طلباء کو اس کامیاب پروگرام پر مبارکباد پیش کی اور پوزیشن ہولڈر مقررین میں کتب تقسیم کیں آخر میں تمام حاضرین کیلئے بہترین لذت طعام دھن کا اہتمام کیا گیا ماحضر تناول کرنے کے بعد یہ یادگار پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
اسی طرح مؤرخہ 7 مئی بروز اتوار ادارہ تعلیم کے زیر اہتمام جامعہ بھرکے طلباء کے درمیان شاندار تقریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی وکیل الجامعہ نے خصوصی طور پر شرکت کی یہ مقابلہ تین زبانوں (عربی + اردو+ انگلش) میں منعقد ہوا جس میں 18 طلباء نے شرکت کی جبکہ تقاریر کیلئے خطباء کو تین موضوع دئیے گئے تھے ۔
۱۔ تنفیذ حدود اللہ - برکات + ثمرات
۲۔ رسول معظم ﷺ بحیثیت حکمران
۳۔ دینی مدارس - اہمیت وکردار
پروگرام کاباقاعدہ آغاز تلاوت فرقان حمید سے ہوا جس کی سعادت قاری محمد اکمل شاہین نے حاصل کی اور اس کے بعد قاری اظہر الدین نے خوبصورت آواز میں عبادتِ رسول ﷺ کے موضوع پر نظم پیش کی۔
تنفیذ حدود اللہ کے بارے میں طلباء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عقل انسانی کے تراشیدہ اصول وقوانین حیاتِ انسانی کی اجڑ ی بستیوں کو آباد کرنے سے قاصر ہیں اگر دنیا میں امن وسلامتی چاہیے تو پھر خلوص نیت کیساتھ حدود اللہ کو پوری دنیا میں من وعن نافذ کرنا ہو گا کیونکہ کامیاب وکامران حیات کیلئے رب ذوالجلال والا کرام کے زندہ وجاوید دستور حیات ہی کواپنانا چاہیے ۔ آج ہمارے معاشرے سے امن وسکون ، اطمینان وراحت مفقود ہو چکا ہے عصمت وعفت کے قوانین ناہموار اور اخلاق واعمال کی مٹی پلید ہو چکی ہے ۔ یہ زلزلے طوفان ہلاکتیں غارت گری ، دہشت گردی معاشی بے حالی نفاذ حدود اللہ سے روگردانی کا نتیجہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے اندازِ حکمرانی ، اور عہد حکمرانی کے بارے میں طلباء نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا انداز حکمرانی بھی بہترین ہے اور عہد حکمرانی بھی خوب تر ، قائد اعظم ﷺ نے عدل وانصاف کے عصرجدید کا اعلان کیا اور جس عالمگیر حکومت کی بنیاد رکھی اس میں نسلی ولسانی امتیاز نہ تھأ کیونکہ رہبر کامل ﷺ کی حکمرانی اپنی منشا کے مطابق نہ تھی بلکہ رب کائنات کے بنائے ہوئے اصول وضوابط اور وحی الٰہی کی تعلیمات کے مطابق تھی ۔مدینہ منورہ میں آ کر آپ ﷺ نے ایک منظم سیاسی نظام ترتیب دیا اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق کا تعین کیا۔ مہاجرین مکہ کے توطن اور بسر بُرد کا انتظام کیا ۔شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ کیا شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا انتظام کیا ۔ قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی ومالی نقصان کا بدلہ لیا اس انصاف پسند حکمران نے اپنے رب کا حکم سب پر نافذ کیاحتی کہ اپنی ذات بھی ان ہی قوانین کی پابند تھی اور فیصلہ کرتے ہوئے کبھی کسی کی پرواہ کی اور نہ ہی کسی طرفداری۔ رسول عربی ﷺ جسموں پر ہی نہیں بلکہ دلوں پر حکمرانی کی اور دل تو ان کے بھی چھینے جو سرقلم کرنے آئے یہی وہ انصاف والا قانون جب صحابہ نے اپنایا تو ایک وقت ایسا آیا کہ دس لاکھ مربع میل کے حکمران ہو چکے تھے ۔ آج بھی اگر انصاف چاہتے ہو امن وسلامتی چاہتے ہو تو پھر محمد ﷺ کی حکمرانی کو نافذ کرنا ہو گا۔اس تقریری مقابلہ کا تیسرا موضوع دینی مدارس کے متعلق تھا جس کے بارے میں مقررین نے لب کشائی کرتے ہوئے مدارس اسلامیہ کو دین اسلام کے قلعے قرار دیا اور کہا کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاء اور اس کے قیام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اسلامی تعلیمات ہی پر کسی اسلامی معاشرے کی بنیاد اور داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے ۔ قرآن وحدیث اسلامی تعلیمات کا منبع ہے اور دینی مدارس کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ماہرین قرآن وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے علماء اور علوم شرعیہ اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے رجال کارپیدا کئے جائیں ۔ جو آگے چل کرمسلمان معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑ نے ۔ مسلمانوں میں اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیم عام کرنے اور اسلامی تہذیب وتمدن کی ابدی صداقت وحقانیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیں ۔دینی مدارس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شاعر مشرق نباض ملت ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا :
ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑ ھنے دو اگرچہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا ؟ جوکچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کی نشانات کے سوا اسلام کے محافظوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
الغرض دینی مدارس کے بغیر امن وامان کا قیام اور اسلامی تشخض کی بقاء مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔
اس تقریری مقابلہ میں اردوزبان میں عبد المجید ، ساجد الرحمن اور حسین بن محمد نے بالترتیب پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ عربی زبان میں پہلی پوزیشن حمزہ حسین (یوگنڈا) دوسری اور تیسری پوزیشن محمد عبد الرحمن (صومال) اور محمد عیسیٰ نے حاصل کی ۔ تیمور شاہ ، عبد الرحیم اور محمد حارث انگلش زبان میں پہلی ، دوسر ی اور تیسری پوزیشن کے حق دار قرار پائے ۔
آخر میں فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی (وکیل الجامعہ) ، فضیلۃ الشیخ أبو عمر (مدیر التعلیم ) اور فضیلۃ الشیخ محمد طاہر آصف (چیئرمین مجلس ادارت ماہنامہ اسوئہ حسنہ) نے طلبہ کو خصوصی پندونصائح کیں اور محترم شہاب عالم ، محمد شعیب نے پوزیشن لینے والے طلبہ کے درمیان انعامات تقسیم کیے ۔اسی طرح دعاء خیرکے ساتھ یہ کامیاب پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟