از مقبول احمد مکی
قال اللہ تعالی ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّہِ أَن یُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ وَسَعَی فِی خَرَابِہَا أُوْلَئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ أَن یَدْخُلُوہَا إِلاَّ خَآئِفِینَ لہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِی الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیمٌ﴾(البقرہ ؛۱۱۴)
اور اس سے زیا دہ ظالم کون ہو سکتا ہے جس نے لوگوں کو اس بات سے روکا کہ اللہ کی مسجد وں میں اللہ کا نام لیا جائے اور انہیں اجاڑ ے کی کوشش کی۔ ان (روکنے والوں )کے لائق تو یہ تھا ان (مسجدوں )میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں ۔ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑ ا عذاب ہے ۔یعنی کہ جو مسجدوں سے منع کر ے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے وہ سب سے بڑ ا ظالم ہے ۔(تفسیر ابن کثیر )
اللہ تعالی کی نظر میں روئے زمین کا سب سے زیادہ بہتر اور افضل حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے اللہ تعالی سے پیار رکھنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسجد سے بھی پیار رکھتے ہیں قیامت کے ہولناک دن میں جب کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا اللہ تعالی اس دن اپنے اس بندے کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو ۔جیسا کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے : ’’سَبعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَومَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ (مِنہُم) رَجُلٌ قَلبُہُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ۔‘‘ (البخا ری ؛کتاب الاذان)
’’سات (اللہ کے خوش نصیب بندے) روز قیامت اللہ کے سائے کے نیچے ہوں گے جس دن اس(اللہ) کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا(ان میں سے ایک) جس شخص کا دل مسجدوں سے چمٹا (جڑ ا)رہے ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پاک سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی مسجدوں کی دیکھ بھال ، خدمت کرنے والے اور ان کو آباد کرنے والوں کو قیامت والے دن سے ہی خوشحال زندگی عطا فرما دیں گے ۔مساجد کی تعمیرو ترقی کا خیال رکھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنی پاک مقدس کتاب میں یوں ارشاد فرمایا ہے ۔
﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلَئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِینَ﴾(التوبہ :۱۸)
اللہ کی مسجدوں کو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالی پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑ ھتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے یہی لوگ یقینا ھدایت یافتہ ہیں ۔
اس ارشاد ربانی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تعمیر مسجد علامات ایمان میں سے ہے جس کے بارے میں رسول عربی انے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’من بنی للہ مسجداً قدارا مفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتاً فی الجنۃ ۔ (البزار ، ابن حبان )
ترجمہ ۔سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چیل کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائے گا۔
اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرتے ہیں ۔اور دوسری حدیث میں مسجد کو بہترین جگہ قرار دیتے ہوئے اعلان فرمایا : ’’ان احسن البقاع إلی اللہ المساجد وأبغض البقاع إلی اللہ الأسواق ۔ ‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، ج/۱، ص:۱۷۹، رقم الحدیث :۴۷۰)
ترجمہ ۔ مسجد یں اللہ کی پسندیدہ جگہیں ہیں جبکہ بازار اللہ تعالی کو انتہائی ناپسند ہیں صحیح روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مذکو رہ بالا بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبر ائیل امین کے بتلانے کے بعد ارشاد فرمائی یعنی مسجدوں کی عظمت ورفعت اتنی زیا دہ ہے کہ اس کو بیان کرنے کے لئے اللہ رب العزت جبرائیل امین کو خصوصی طور پر نازل ہونے کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص وضو کر کے مسجد میں آتا ہے اس کی خوش نصیبی کا تذکرہ کرتے ہوئے رسول رحمت ا فرماتے ہیں ۔’’من خرج من بیتہ متطہراً إلی صلاۃ مکتوبۃ فأجرہ کأجر الحاج المحرم ۔ ‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب ، ج:۱، ص:۱۷۸، رقم الحدیث:۴۶۵)
ترجمہ ۔ فرض نماز کے لئے گھر سے وضو کر کے مسجد آنے والا خوش نصیب حج کے ثواب کا مستحق بن جاتا ہے دوسری جگہ دربار الہی میں حاضر ہونے والے خوش بخت انسان کے بارے میں یوں گویاہیں ۔
’’ من غدا إلی المسجد أو راح أعدّ اللہ لہ نزلۃ من الجنۃ کلما غدا أو راح ۔ (متفق علیہ )
جب کوئی شخص صبح و شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اتنی ہی مرتبہ اس کے لئے جنت کی مہمانی کا سامان مہیا کرتا ہے جتنی مرتبہ وہ مسجد کو جاتا ہے مسجد کے مسافر کو قیا مت کے دن مکمل نور سے نوازا جائے گا ارشاد رحمت للعالمین ہے ۔
’’بشر المشائین فی الظلم إلی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ ۔‘‘ (سنن الترمذی)
ترجمہ ۔اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والے لو گوں کو خوشخبری دے دو کہ اللہ انہیں روز قیامت مکمل نور عطا فرمائے گا۔ محبانِ مساجد کیلئے فرشتے دعا کرتے ہیں ۔ مسند احمد کی صحیح روایت ہے کہ نبی ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :مسلمانوں میں بعض لوگ وہ ہیں جو مسجدوں میں جمے رہتے ہیں اور وہاں سے ہٹتے نہیں ہیں ، فرشتے ایسے لوگوں کے ہمنشین ہوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ غائب ہوجائیں تو فرشتے ان کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو فرشتے ان کی بیمار پُرسی کرتے ہیں اور اگر کسی کام میں لگے ہوں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں ۔ مسجد میں بیٹھنے والا اللہ کی رحمت کا منتظر ہوتا ہے ۔(مسند احمد)
مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ مسجد کو اسلامی معاشرہ کی تعمیر وترقی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے مسجد دیکھنے میں تو چھوٹی سی عمارت ہے مگر حقیقت میں یہ ایک انقلابی ادارہ ہے جو کہ مسلمانان عالم کیلئے معاشرتی ، معاشی ، فلاحی، دعوتی ، تربیتی، سیاسی سرگرمیوں کیلئے بھرپور مرکز فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میں قرآن وحدیث وسیرت کے دروس بھی دیے جاتے ہیں اور خاندانی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کیلئے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کی جاتی ہے گویا کہ مسجد کا ایک مسلم معاشرہ میں وہی مقام ومرتبہ ہے جو انسانی جسم میں دل کا ہے جب تک دل متحرک ہے تو جسم میں جان ہوتی ہے اور جب دل ڈھیلا پڑ جائے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے ۔ اگر مسجد کے اس انقلابی تصور کو اس کی صحیح روح کے ساتھ اختیار کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ اور قیادت کو دوبارہ حاصل نہ کرسکیں اس درس گاہ اول کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو ایک غیر محسوس انقلاب کے ذریعہ امت مسلمہ کے جسم میں نئی زندگی کی لہر دوڑ سکتی ہے ۔ مگر وائے ناکامی آج ہمارے ادارے اجتماعیت کو کھو رہے ہیں ہماری زندگی ’’میں ‘‘’’ میرا ‘‘’’میری‘‘ کی تثلیث کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
اجتماعیت افسانہ بن چکی ہے جوکہ اس ملت اسلامیہ کیلئے بہت بڑ ا سانحہ اور موجب الم ہے ملت اسلامیہ آج ملت واحدہ نہیں بلکہ مختلف فرقوں ، مسلکوں گروہوں اور قوموں میں تقسیم ہو گی ہے مسلمان معاشرتی لحاظ سے اونچ نیچ ذات بات اور برادری جیسے ’’بتوں ‘‘ کی فرسودہ روایات کے آگے تسلیم خم کئے
ہوئے ہے پھر انہی بنیادوں پر ایک دوسرے کو حقیر گردانتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ منفی انداز سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں نیز اسی طرح یہ علاقائیت ، لسانیت ، نسلیت ، فرقہ واریت اور صوبائیت کے چکروں میں پڑ ے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے حسد ، کینہ ، بغض اور نفرت رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ جھوٹے گھمنڈ، دھن دولت کے نشے اور اسٹیٹس کے زعم میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے ، بات کرنے ، دکھ درد معلوم کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔الغرض امت اجتماعیت سے دور ہوکر گروہوں میں بٹتی جا رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن سے ہر مسلمان پریشان ہے اور یہ خواہش رکھتا ہے کہ ان بیماریوں سے کسی طرح نجات حاصل کرے تاکہ پھر سے قرنِ اول کے عدل وانصاف اخوت ومساوات ، ہمدردی وغمخواری ، یک جہتی ویک رنگی والا معاشرہ قائم ہو، نفرتوں کدورتوں ، جھوٹی نخوتوں اور قومیتوں کے بادل چھٹ جائیں ۔ پھر وہی مبارک دور آئے جو چشم فلک نے اسلام کے قرن اول میں دیکھا تھا۔ جسے دنیا آج تک یاد کرتی ہے ، اپنے لئے مشعلِ راہ گردانتی ہے اور سنہری دور شمار کرتی ہے ۔ جس میں اپنی نجات سمجھتی ہے اور جسے امن وسلامتی کا گہوارہ تصور کرتی ہے ۔ جس کی آمد کیلئے لاکھوں ہاتھ دعائیں مانگنے کیلئے اٹھتے ہیں جسے کمزور اپنے لئے سہارا سمجھتے ہیں جسے غریب اپنے لئے عظیم نعمت خیال کرتے ہیں ۔
آئیے اس دور کو اپنے معاشرے میں لانے کیلئے پھر سے مسجد کو مرکز بنائیں اور وہی سنہرا دَور واپس لائیں جو مسجد سے شروع ہوا تھا اور مسجد سے تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے اوجھل ہو گیا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم پھر دوبارہ مسجد سے اسی طرح کا تعلق پیدا کریں ، جس طرح کا تعلق صحابہ کرام وتابعین عظام اور سلف صالحین کا تھا۔
قارئین کرا م اس طویل ترین تہمید ی کلمات کا محرک گزشتہ دنوں پیش آنے والا افسوناک واقعہ ہے ۔ جس میں چند شر پسندوں نے اللہ کی محبوب ترین جگہ کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا مسجد کی بے حرمتی تاریخ پا کستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے اس سے پہلے بھی حکومتی اہل کاروں نے مسجدوں کو ویران کرنے کے لئے ایڑ ی چوٹی کا زور لگایا تھا اک آمر نے تو لال مسجد کو حقیقتا خون مسلم سے رنگین کیامگر وہ بد بخت یہ نہ جان سکا اس کا نامہ اعما ل اس واقعہ کی وجہ سے سیا ہ تر ہو گیا ہے اور دنیا میں ہی اس کو اپنے کیے کی سزا ملنا شروع ہو گی جائے ۔حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ملک میں جاری پُرتشدد کا روائیوں کی سنجیدگی کیساتھ تحقیقات کرے اور اس میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دے ۔یہی مسجد کے تقدس کا تقاضہ اور ایک مؤمن کا حق بھی ہے ۔ دہشت گردی کی حالیہ کاروائیاں متاثر ین لال مسجد کا رد عمل بھی ہو سکتی ہیں مگر کیا یہ رد عمل خود بخود وقوع پزیر ہوا ہے یا سابقہ حکومت کی انتقامی کاروائیو ں کا نتیجہ ہے اہل حل وعقد کو غورو فکر کر کے ایسی دورس پا لیسیاں مرتب کرنی چاہییں جس میں ان کے دکھوں کا مداوا بھی ہو اور اسلام کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ بھی ۔ تفتیشی ٹیموں کوبلیک واٹر ، انڈیا اور اسرا ئیل کی سرگرمیوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہیں انہوں نے مسلمانانِ پاکستان کو مساجد سے بد ظن کرنے کے لئے تویہ کھیل نہیں کھیلا ہے ۔یادرہے کہ پاکستان میں وہی کچھ ہورہا ہے جو اغیار نے بیس سال پہلے اسلامی ملک الجزئر میں کروایا تھا کہ عوام کو فورسز کے ساتھ لڑ وایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج اور عوام دونوں کمزور ہوگئے آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی وہاں حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ۔ اور وہی اغیار پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال کر قبائلی علاقوں میں اپریشن کروا رہے ہیں تاکہ قبائل اور فوج کو آپس میں لڑ وایا جا سکے اور شہروں میں دہشت گردی بھی اسی کی چال ہے تاکہ ایک تیرسے کئی شکار کیے جا سکیں اور وہی طالبان کو پاکستان سے بدگمان کر کے مزید آگ بھڑ کانا چاہتے ہیں اور یہ آگ اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو گی جب تک اس خطہ سے دشمانانِ اسلام کا انخلا ممکن نہیں ہوجاتا۔ پاکستان کی خود مختیا ری اور اسلا می طرز حیا ت کی حفاظت کے لئے کام کرنے والے اشخاص ہی تا ریخ میں تعریف پا سکتے ہیں وگر نہ بقول شاعر : داستان تک نہ ہو گی تمہا ری داستا نوں میں
وما علینا إلا البلاغ