Monday, November 2, 2009

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

اداریہ
قال اللہ عزوجل ﴿رَبِّ اجعَل ہَذَ ا البَلَدَ آمِناً وَارزُق اَہلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ﴾(البقرۃ) ’’اے میرے رب اس شہر کو (مکہ)امن کا گہوارہ بنا دے اوراس کے باسیوں کو پھلوں کی روزی دے ۔‘‘
قرآن کے یہ الفاظ دراصل ابو الأنبیاء سیدنا إبراہیم علیہ السلام کی دعا کے ہیں جس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ کسی بھی شہر یا ملک کی معیشت کی بحالی اس کے امن وامان کی صورتحال کے ساتھ وابستہ ہے ۔ معاشی آسودگی بحالی امن کے بغیر ممکن نہیں ہے مگر شومئی قسمت کہ مملکت خداد پاکستان اندرونی اوربیرونی سازشوں کے سبب امن کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے ملکِ عزیز پاکستان کا امن وامان تہہ وبالا کر دیا گیا ہے آئے روز خودکش دھماکے ، انتہا پسندوں کی تخریبی کاروائیاں سرحدوں کی غیر یقینی صورت حال سے اہل پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا عالمِ اسلام حیران وپریشان ہے ۔

مملکت خداد پاکستان آگ وخون کے ایسے دریا کو عبور کر کے حاصل کی گئی ہے جن کی تفصیلات سے ہر صاحب علم اچھی طرح واقف ہے اب دوبارہ اس مملکت کو آگ وخون کے دریا میں ڈبو نے کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں ۔دگرگوں ہوتی اس صورت حال میں اس وقت بھونچال ساآ گیا جب میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر (G-H-Q)واقع راولپنڈی پردہشت گردوں نے حملہ کر دیا اور تقریباً چالیس کے قریب اہل کارں کو یرغمال بنا لیا مگر افواج پاکستان کے جوانوں نے روایتی بہادری اور پیشہ وارانہ مہارت سے ان دہشت گردوں پر قابو پالیا بلاشبہ پاکستان آرمی اپنی اس کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس واقع کے پیچھے کونسے ہاتھ ہیں اور دہشت گردوں کا ہدف پاک فوج ہی کیوں ۔ ۔ ۔ ؟
اہل نظر اور دانشورحضرات کا تجزیہ تو یہی ہے کہ یہ سراسر امریکا کی بلیک واٹرنامی خفیہ تنظیم کا ہی ’’کالا دھندا‘‘ ہے کیونکہ گذشتہ دنوں پاک فوج نے پاکستان کیلئے مجوزہ (غلامی فنڈ) کیری لو گربل کی شدید مخالفت کی تھی اگر فوج کی جانب سے اس بل پر شدید تحفظات کا اظہار نہ کیا جاتا توممکن تھا کہ ’’جمہوری حکومت ‘‘اس بھیک کو بلا چوں چراں قبول کر لیتی۔

کیری لوگربل کیا ہے ؟
کیری لوگربل امریکی سنیٹر جان کیری اور لوگرکاپاکستان کیلئے تیار کردہ امدادی پیکج ہے جس میں پاکستان کی خود مختاری ، آزادی کو چیلنج کیا گیا ہے ۔اس کی شرائط پاکستان کو غلام بنانے کی کوششیں ہیں ۔پاکستان کو ایسی شرائط میں جکڑ نے کی کوششیں کی جا رہی ہے جس سے امریکا بہادر کو پاکستان کے فوجی عدالتی اور دیگر حکومتی شعبوں میں براہِ راست مداخلت کی اجازت حاصل ہو گی ۔
آئیے ذرا اس بل کی شرائط پر نظر دہراتے ہیں یہ بل 24 ستمبر 2009ء کو امریکی سینیٹ سے منظور ہوا۔ اس بل کے تحت پاکستان کو 7.5 بلین ڈالر کی رقم اگلے پانچ سال میں ملے گی ، جس میں سے 1.5 ہر سال ملا کرے گی، مگر اس بل میں تحریر ہے کہ امداد روکی بھی جا سکتی ہے اگر امریکہ نے درج ذیل امور خلاف شرائط محسوس کیں ۔
٭ پاکستانی فوج یا کسی انٹیلی جنس ادارے میں ’’موجود عناصر ‘‘ (یعنی براہ راست الزام) کی جانب سے انتہا پسندوں یا دہشت گرد گروپوں کی مددخصوصاً وہ گروپ جنہوں نے افغانستان میں امریکی یا اتحادی افواج پر حملے کئے ہوں (یعنی پاک فوج کی 2000 جانوں کی قربانی کو مطلقاً فراموش کر دیں )یا پڑ وسی ممالک کے لوگوں یا علاقوں پر حملوں میں ملوث ہوں (ظاہر سی بات ہے پڑ وسی ملک کا مطلب بھارت اور علاقے کا مطلب کشمیر ہے )۔
٭ سرحد پر پڑ وسی ممالک میں حملوں کی روک تھام(یعنی اپنے ملک میں دہشت گردی کی موجودگی کا اعتراف) قبائلی علاقوں میں دہشت گرد کیمپوں کی بندش (ڈرون حملوں کا جواز بنانا)۔ ملک کے مختلف حصوں بشمول کوئٹہ اور مریدکے (یعنی نام نہاد شورائے کوئٹہ کے وجود کو تسلیم کرنا اور لشکر طیبہ کی موجودگی کا اقرار) میں موجو د دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ ۔
٭ پاکستان کی سیکورٹی فورسز پاکستان میں عدالتی وسیاسی معاملات میں عملاً یا کسی طریقے سے دخل اندازی نہیں کریں گی(یعنی ملکی خود مختاری میں مکمل مداخلت)
٭ فوجیوں کی ترقی کے معاملات پر نظر رکھنے اور مدارس کے نصاب کی تبدیلی کی بھی بات کی گئی۔
ظاہر سی بات ہے کہ ایسی شرائط قوم کیلئے غلامی کا پروانہ ہی ہوتیں ہیں لیکن یادرکھئے ! اسلام دشمن طاقتوں کا اصل مقصد پاکستان کے ناقابل تسخیر ایٹمی پروگرام کو تسخیر کرنا ہے ۔ ہمارے ارباب اختیار اورنام نہاد دانشور اس بل کے خلاف عوامی اور حقیقت پر مبنی مخالفت کو دیکھ کر بری طرح بلبلا اٹھے ہیں ستم بالا ستم تویہ ہے کہ امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر حسین احمد حقانی صاحب نے تو میڈیا پر پاکستانی قوم کو اس بل کی شرائط پر یا ۔ ۔ ۔ یاکا چکر دیا تھا جبکہ ’’عوامی حکومت‘‘ نے بھی اس بل کے بدلے میں ملنی والی بھیک کو پاکستان کیلئے سود مند قرار دے رہی ہے اس پر مستزاد ہمارے وزیر خارجہ اسی بات پر شاداں وفرحاں ہیں کہ امریکا کا وضاحتی بیان بھی اس بل کیساتھ منسلک کیا جائے گا شاید ان کو اس بات کا علم نہیں کہ وضاحتی بیان سے اس بل کی شرائط غلامی میں کوئی فرق نہیں پڑ ے گا۔ کیا یہ بل پاکستان کے دکھوں کا مداوا کرسکے گا ہرگز نہیں جس بل یا امداد کے بدلے میں کسی قوم کا دفاع اورایٹمی ادارے داؤ پر لگ جائیں وہ قوم کبھی بھی سرخرو نہیں ہو سکتی ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں اقبال کے فلسفہ خودی کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ ہم اس رزق سے دستبردار ہوجائیں جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو۔

اے طائرِ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مقتدر ومتمول طبقے کو بھی چاہیے کہ وہ مال ومنال اور حب جاہ وکمال کی لالچ میں دوسروں سے بھیک مانگنے کی بجائے سادگی وکفایت شعاری کو اپنائے اور اگر واقعی پاکستان کا خزانہ خالی ہو چکا ہے تو اصحاب اقتدار کو چاہیے کہ وہ اپنا سرمایہ یورپی بنکوں سے نکلوا کرپاکستان واپس لائیں اور ایسی دور رس تجارتی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جس سے معیشت کو سہارا ملے ۔ بیگانوں کی امداد پر پلنی والی قوم غیور وجسور نہیں ہو سکتی۔اب اتحاد واتفاق کا وقت ہے ہمیں اپنے دفاع اور شناخت کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی اب پاکستانی قوم کو حقیقی معنوں میں متحد قوم بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ چلناچاہیے تاکہ افواجِ پاکستان حفاظتِ پاکستان کیلئے جرأت مندانہ اور دوراندیش فیصلے کرسکے اور پاکستان کی طرف بڑ ھتے ہوئے خطرات کو روکنے میں کامیاب ہو سکے ۔اور پاک فوج کو بھی چاہیے کہ جس طرح انہوں نے اپنے ہیڈ کوارٹرکو بچانے کیلئے جان کی بازی لگائی اسی جذبہ ولولہ کیساتھ اسلامی احکامات کو نافذ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور حکمران جماعت کو اس بات پر مجبور کرے کہ اسلام کے نفاذ میں ہی پاکستان کے امن کی ضمانت ہے ۔
اس وقت وطنِ عزیز جن سنگین بحرانوں بیرونی خطرات اوراندرونی خلفشار سے دوچار ہے اس سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح اوردائرہ اختیار میں اسلامی احکامات کی تنفیذ کریں اور اصحاب اقتدار پر بھی لازم ہے کہ وہ اسلامی فکر رکھنے والے بلاد اسلامیہ کیساتھ روابط کوبڑ ھائیں امریکہ اوردوسری اسلام دشمن طاقتوں سے فاصلہ رکھیں اسی میں ہی وطن عزیز کی مشکلات کا مداوا ہے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے سیاستدانوں اسلام پسندوں اور محب وطن قوتوں کو ذاتی اور وقتی مفادات کی بجائے اجتماعی اورنظریاتی مفادات کیلئے جمع ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فیوض القرآن

قسط نمبر: ۱۷
فیض الابرار صدیقی
ان س
اِنسٌ مانوس ہونا جو کہ وحشت کی ضد ہے چنانچہ الحمر الانسیۃ پالتو گدھوں کو کہتے ہیں اور حمار وحشی جنگلی گدھے کو ۔ استأنس الوحشی کے معنی ہیں جانور مانوس ہو گیا۔ (تاج العروس، اقرب الموارد)
اس کی واحداِنسِیٌ ۔ الأَنَسَ وہ قبیلہ جو کسی بھی مقام پر مقیم ہو ۔ (تاج العروس)
ابن فارس نے لکھا ہے کہ إِنسٌ کے بنیادی معنی ظاہر ہونے کے ہیں اورجَنَّ کے معنی پوشیدہ ہونے کے ہیں اس کی جمع أنَاسٌ اور اَنَاسِیٌّ ہے ۔

بعض مقامات پر اس کی جمع الناس بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ قرآن مجید میں ایک مقام پراناس قبیلہ کے مفہوم میں بھی آیا ہے ۔
﴿قَد عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَشرَبَہُم﴾ (البقرۃ:۶۰)
سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔
اور نوع انسانی کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔جیسے سورۃ الفرقان میں استعمال ہوا ہے ۔
﴿لِنُحْیِیَ بِہِ بَلْدَۃً مَیْتًا وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِیَّ کَثِیرًا ﴾(الفرقان:۴۹)
تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اوراس کو پلائیں اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں ۔
﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوا فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلَّا کُفُورًا ﴾(الفرقان:۵۰)
اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانانہیں ۔
لفظ انسان کی ایک سے زائدتوجیہات کتب لغات میں پیش کی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر علماء کا خیال ہے کہ یہ بھی إِنسٌ سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں انسان اور بشر مفردات معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔
اور کچھ علماء کے نزدیک یہ قوم کی طرح اسم جمع ہے اور کچھ کی رائے میں اناس تھا جو إِنسٌ کی جمع ہے ۔ اور کچھ نے کہا کہ یہ دراصل الأناسی تھا کثرت استعمال سے آخر کی یاء گرگئی۔ اس کے بعد الأناس کا درمیانی ھمزہ بھی تخفیفاً حذف کر دیا گیا اور اس طرح الناس باقی رہ گیا۔ (تاج العروس)
اور کہا گیا کہ کسی شئے کی معرفت اور ادراک حاصل کر لینے اور یقین کرنے کو اناس کہتے ہیں جو أَنَسَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دیکھنے اور محسوس کرنے کے ہیں ۔ (القاموس المحیط)
قرآن مجید میں ہے ﴿فَإِن آنَستُم مِنہُم رُشداً﴾ (النساء :۶) پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ۔
﴿وَإِنِّی آنَستُ نَاراً﴾(طہ:۱۰)
اور مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔
﴿حَتَّی تِستَأنِسُوا﴾(النور:۲۷)
جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔
انسان کو اس نام سے اس لئے پکارا گیا کہ وہ أُنُس کی صفت کے ساتھ پیدا کیا گیا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی محبت اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ۔
اور کہا گیا کہ اسے اس نام سے اس لئے پکارا گیا ہے کہ جو اس کے ساتھ مانوس اور بے تکلف ہو یہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے ۔(المقتضب۴/۱۳)
اور ایک ضعیف قول کے مطابق انسان نسی سے ہے جس کا مطلب بھول جانا ہے کہ انسان أپنا عہد اولین بھول رکھتا ہے ۔
الصحاح میں ہے کہ میں اپنے والے ۔ مانوس۔ انسان (الصحاح) اس لفظی مفاہیم کے مطابق اس کا ایک مفہوم أَنَسَ محسوس کرنا یا دیکھنا ہے ۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوئے ہیں ۔
آنس، آنستُ ، آنستم ، تستأنسوا ، مستأنسین ، إنس، الإنس ، أناس ، إنسان، الإنسان ، للإنسان ، إنسیاً، أناسی۔
قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔
۱۔ انسان یعنی آدم
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِن طِینٍ﴾(المؤمنون )
یقینا ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ۔
﴿خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ﴾
(الرحمن:۱۴ )
اس نے انسان کو ایسی آواز دینے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی۔
۲۔ انسان ۔ اولاد آدم
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مَا تُوَسوِسُ بِہِ نَفسُہُ﴾(ق)
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں ۔
﴿إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُطفَۃٍ﴾(الدہر:۲)
بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا ہے ۔
أ ھ ل
اہل : اس مادہ کے معنی عبرانی زبان میں خیمہ کے ہوتے ہیں اس اعتبار سے اس کا مفہوم وہ لوگ جو ایک خیمہ میں رہتے ہوں ۔ (المحیط)
اور راغب نے اس کا مفہوم بیان کیا : یہ لفظ ان لوگوں کیلئے بولا جانے لگا جو آپس میں نسب، دین یا پیشہ ، مکان اور شہر میں مشترک ہوں ۔ (مفردات)
عمومی طور پر اہل الرجل سے مراد انسان کے خاندان اور قریبی رشتہ داروں ہوتے ہیں ۔
اہل بیت گھر میں رہنے والے ۔ اہل رجل اولاد اور بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ (تاج العر وس ، مفردات)
المحیط میں ابو حنیفہ کے حوالے سے ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بالخصوص بیوی مراد ہوتی ہے ۔ (المحیط)
لیکن ایک استعمال میں کفر اور ایمان کو معیار بنایا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح کو طوفان کے وقت ان کے بیٹے کے حوالے سے فرمایا ۔
﴿إِنَّہُ لَیسَ مِن أَہلِکَ﴾(ہود :۴۶)
وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے ۔
اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ﴿إِنَّہُ عَمَلٌ غَیرُ صَالِحٍ﴾(ہود:۴۶) کہ اس کے اعمال غیر صالح ہیں ۔
لہذا اگر دین کا تعلق نہیں ہے تو کوئی رشتہ داری اہل میں شمار نہ ہو گی۔
اہل سے مراد استحقاق بھی ہے جیسے اردومیں اہلیت یعنی صلاحیت کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے ﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا ﴾(النساء :۵۸)
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (مستحقین )کی طرف لوٹا دو۔
اہل الکتاب سے مراد وہ لوگ جو کسی نہ کسی آسمانی کتاب پر ایمان رکھنے کے مدعی تھے ۔ پس رسول کا اہل وہ ہے جو اس کی پیروی کرے ۔(۔/۸۳) نیز اس کے معنی حقدار مالک اور ان کے بھی ہیں جو کسی کام کی اہلیت رکھیں ۔ (۴/۵۸)
اس لفظ کے قرآنی مشتقات درج ذیل ہیں ۔
أہل ، أہلک ، أہلکم ، أہلنا ، أہلہ ، أہلہا ، أھلہم ، أہلہن ، أہلونا ، أہلی ، أہلیکم، أہلیہم
اہل کے قرآنی مفاہیم درج ذیل ہیں
أہل
۱۔اہل وعیال
﴿وَیَنْقَلِبُ إِلَی أَہْلِہِ مَسْرُورًا ﴾(۸۴/۹)
اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا۔
۲۔ بیوی
﴿قَالَتْ مَا جَزَاء ُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوء ًا إِلَّا أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴾(یوسف : ۲۵)
تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی کہ اسے قید کر دیاجائے یا اور کوئی درد ناک سزا دی جائے ۔
۳۔ قرابت دار
﴿وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ﴾(یوسف : ۲۶)
اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف علیہ السلام جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں ۔
﴿وَاجْعَلْ لِی وَزِیرًا مِنْ أَہْلِی ﴾(طہ:۲۹)
اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے ۔
۴۔ پیروکار
﴿فَأَنجَینَاہُ وَأَھلَہُ﴾(الأعراف:۸۳)
پس ہم نے اس کو(لوط علیہ السلام)نجات دی اور اس کے پیروکاروں کو ۔
﴿فَأَسرِ بِأَہلِکَ بِقِطعٍ مِنَ اللَّیلِ﴾ (ہود:۸۱)
پس تو اپنے پیروکاروں کو لیکر کچھ رات رہے نکل کھڑ ا ہو۔
۵۔ حقدار مالک
﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا﴾(النساء : ۵۸)
اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان تک پہنچاؤ۔
﴿فَانکِحُوہُنَّ بِإِذنِ أَہلِہِنَّ﴾(النساء :۲۵)
ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو۔
۶۔ لائق سزاوار
﴿قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﴾(ہود:۴۶)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح ! یقینا وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ناسائشتہ ہیں ۔
۷۔رہنے والے باشندے
﴿أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَنْ یَأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتًا وَہُمْ نَائِمُونَ﴾(الأعراف:۹۷)
کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑ ے جس وقت وہ سوتے ہوں ۔
۸۔ اہل بیت گھر کے لوگ بمعنی بیوی
﴿قَالُوا أَتَعْجَبِینَ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ رَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ ﴾(ہود:۷۳)
فرشتوں نے کہا : کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہے تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہو۔
﴿یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا٭وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآَتِینَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ﴾(الأحزاب : ۳۲۔۳۳)
اے نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیز گاری کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی (برا)خیال کرے ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو اپنے گھروں میں قرار سے رہواور قدیمی جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو ، نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیوں تم سے وہ ہر قسم کی لغو کو دور کر دے اور وہ تمہیں خوب(گنا ہوں سے ) صاف کر دے ۔
۹۔ اہل کتاب
وہ لوگ جو کسی سماوی کتاب کے ماننے کے مدعی ہوں
﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ﴾(آل عمران :۷۵)
بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ہاں یہ اور بات ہے کہ تو ا سکے سر پر ہی کھڑ ا رہے یہ اس لیے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں ۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

حج کی مسنون دعائیں

مرتب : الشیخ ضیاء الرحمٰن المدنی

دعا کی ضرورت
ہرانسان فقیر وعاجز ہے ، اپنی زندگی کی ہر قسم کی ضرورت کیلئے وہ اللہ کا محتاج ہے ۔ غنی اورحمید صرف اللہ کی ذات ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿یٰاَیُّہَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرائُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ہُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ﴾(فاطر :۱۵)
لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو اوراللہ تو غنی وحمید ہے ۔
اس لئے فقیر وعاجز بندہ کا فرض ہے کہ اپنی ہر ضرورت کیلئے اللہ کو پکارے ۔
دعا کیلئے حکم الہٰی﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُونِی اَستَجِب لَکُم ﴾ (المؤمن :۶۰)
اورتمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

﴿اُدعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعاً وَّخُفیَۃً ، اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُعتَدِینَ﴾(الأعراف :۵۵)
اپنے رب کو پکارو گڑ گراتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
دعا عبادت ہے ۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے : الدُّعَاء ُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ (ترمذی)
دعا عین عبادت ہے ۔
دعا مومن کا ہتھیار ہے
الدُّعَاء ُ سِلاَحُ المُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّینِ وَنُورُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ (رواہ الحاکم بسند صحیح)
دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نور ہے ۔
ہر مصیبت کاعلاج
ارشاد نبوی ﷺ ہے : اَلدُّعَائُ یَنفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَم یَنزِل وَإِنَّ البَلاَئَ لَیَنزِلُ فَیَلقَاہُ الدُّعَآہُ فَیَعتَلِجَانِ إِلَی یَومِ القِیَامَۃِ۔
(رواہ البزار والطبرانی والحاکم وقال صحیح الاسناد)
دعا مفید ہے اس مصیبت کیلئے جواتر چکی اور جوابھی نہیں اتری اور مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس سے ٹکراتی ہے اور قیامت تک دونوں کی ٹکر جاری رہتی ہے ۔
دعا کے آداب وشرائط
دعا سے قبل حسب ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
اخلاص : دعا صرف اللہ سے مانگی جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔﴿فَادعُوہُ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ﴾ (المؤمن:۶۵)
اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کیلئے خالص کر کے ۔
حضور قلب: دعا کرتے وقت دل اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ دعا کے معنی ومفہوم کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت پر پورا یقین ہونا چاہیے ۔ارشاد ہے ۔ اُدْعُوا اللَّہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَۃِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاء ً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ (ترمذی )
اللہ سے دعامانگو تو دعا کی قبولیت پر یقین رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔
عاجزی وانکساری:دعا کرتے وقت عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا چاہیے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ ﴿اُدعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعاً وَّخُفیَۃً﴾ (الأعراف:۵۵)
اس کے ساتھ اپنے قصوروں کا اعتراف ، آئندہ کیلئے اس سے اجتناب کا عہد اور توبہ وندامت بھی ہونی چاہیے ۔
دعا سوال ہے اور سائل کیلئے عجز وانکساری ضروری ہے ۔
حمد وصلوۃ: دعا سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنی چاہیے اور رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام بھیجنا چاہیے ۔ (ترمذی)
٭ دعا میں اپنے بہترین اعمال کا واسطہ دینا چاہیے ۔ (بخاری حدیث اصحاب الغار)
٭ دعا کرتے وقت قبلہ رخ اور دوزانوں بیٹھنا چاہیے ۔ (ترمذی)
٭ اللہ کے اسماء الحسنیٰ کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلِلّٰہِ الأَسمَائُ الحُسنیٰ فَادعُوہُ بِہاَ ﴾( الأعراف :۱۸)
اور اللہ کے اچھے نام ہیں انہی سے اس کو پکارو۔
متفرق آداب
٭ دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے ۔ (ترمذی)
٭ دعا میں ہاتھوں کی ہتھیلی منہ کی طرف کرنی چاہیے ۔ (ابوداؤد)
٭ دعا میں تکلف اورترنم سے پرہیز کیا جائے ۔ (بخاری)
٭ دعا پہلے اپنے لئے ، پھر اپنے والدین ، بھائی، بہنوں اور عام مسلمانوں کیلئے مانگنی چاہیے ۔ (مسلم)
٭ دعا میں یوں نہ کہنا چاہیے کہ خدایا اگر تو چاہے تو مجھ کو دے کیونکہ اللہ کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ ( بخاری)
٭ گناہ کے کام اور رشتہ داری کاٹنے کیلئے دعا نہیں مانگنی چاہیے ۔ (مسلم)
٭ دعا میں جلدی نہ کرنی چاہیے یعنی یوں نہ کہنا چاہیے کہ میں نے دعا کی اور اب تک قبول نہ ہوئی۔
(بخاری ومسلم)
٭ دعا کرنے والا دعا کے بعد آمین کہے ۔ (بخاری ومسلم)
٭ بہتر ہے کہ دعا کرنے والا باوضو ہو اور دعا کی جگہ بھی پاک وصاف ہو ۔
٭ دعا کی قبولیت کیلئے حلال روزی کھانا مؤثر ذریعہ ہے حرام خور بیت اللہ شریف میں بھی جا کر دعا مانگے تو رد کر دی جاتی ہے ۔ (مسلم)
دعا کی مقبولیت کے مخصوص اوقات
٭ رات کا آخری حصہ اس وقت رحمت الٰہی متوجہ ہوتی ہے ۔ ( بخاری )
٭ لیلۃ القدر (ترمذی )
٭ جمعہ کی ساعت میں ۔ (مسلم)
٭ خاص طور پر امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز سے فارغ ہونے تک (حصن حصین )
٭ اذان اوراقامت کے درمیان ۔ (ابوداؤد)
٭ فرض نماز کے بعد ۔ (ترمذی)
٭ عرفہ کے دن کی دعا ۔ (ترمذی )
٭ زمزم پینے کے وقت ۔ (مستدرک حاکم)
٭ روزہ افطار کرنے کے وقت
٭ امام کے ولا الضالین کہنے کے وقت ۔ (بخاری)
وہ لوگ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
٭ ماں باپ کی دعا اولاد کے حق میں ۔ (ترمذی)
٭ مظلوم کی دعا ۔ (ترمذی)
٭ مسافر کی دعا ۔(ترمذی)
٭ حاکم عادل کی دعا (مسلم)
٭ فرماں بردار اولاد کی دعا ۔ (ابوداؤد)
٭ روزہ دار کی دعا افطار ی کے وقت ۔ (مسلم)
٭ مسلمان کی دعا اپنے غیر حاضر بھائی کیلئے ۔
دعا قبول ہونے والے مقامات
٭ بیت اللہ شریف کے اندر ۔ (مسلم)
٭ ملتزم جو رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان ہے ۔ (طبرانی)
٭ زمزم کے کنوئیں کے پاس ۔ (دار قطنی)
٭ صفا ومروہ کی پہاڑ ی پر ۔
٭ مسعیٰ جہاں سعی کی جاتی ہے ۔
٭ مقام ابراہیم کے پاس۔
٭ عرفات میں ۔ (مسلم)
٭ مشعر الحرام مزدلفہ ۔ (قرآن )
سفر کی دعائیں
مسافرکو رخصت کرنے کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ کو کوئی چیز سونپی جاتی ہے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ (صحیح رواہ احمد)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سفر کرنا چاہے اس کو اپنے پسماندگان کو یہ کہہ کر رخصت کرنا چاہیے ۔
اَستَودِعُکُمُ اللّٰہَ الَّذِی لاَ تُضِیعُ وَدَآئِعَہُ
میں تمہیں اس اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کی سپرد کی ہوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ (حسن رواہ احمد فی المسند وابن ماجہ)
جناب سالم رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو سفر کیلئے رخصت کرتے تو فرماتے : آؤ میں تمہیں ویسے ہی رخصت کروں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہم کو رخصت کرتے تھے ۔ آپ ﷺ فرماتے تھے :
اَستَودِعُ اللّٰہَ دِینَکَ وَاَمَانَتَکَ وَآخِرَعَمَلِکَ (ترمذی)
میں تمہارے دین اور تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔
نیز رسول اللہ ﷺ جب کسی کو رخصت فرماتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور جب تک وہ مسافر آپ ﷺ کا ہاتھ نہ چھوڑ تا آپ ﷺ ہاتھ پکڑ ے رہتے ۔ (ترمذی حسن صحیح)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں ، آپ ﷺ مجھے مزید نصیحت فرمائیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقوَی اس نے کہا مزید ارشاد ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا : وَغَفَرَ ذَنبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الخَیرَحَیثُمَا کُنتَ پوری دعا یوں ہے : زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقوَی وَغَفَرَ ذَنبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الخَیرَحَیثُمَا کُنتَ (رواہ ترمذی حسن)
اللہ تعالیٰ تمہیں تقویٰ کا زادِ سفر عطا کرے اور تمہارے گناہ بخش دے اور تم جہاں رہو خیر وبرکت تمہیں میسر رہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں ، آپ مجھے وصیت فرمائیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے ڈرتے رہنا اور بلندی پر چڑ ھنا تو اللہ اکبر کہنا ، جب وہ شخص چلا گیا تب آپ ﷺ نے اس کے حق میں یہ دعا پڑ ھی۔ اَللّٰہُمَّ اَطوِلہُ البُعدَ وَہَوِّن عَلَیہِ السَّفَرَ۔ (ترمذی ، صححہ الحاکم )
اے اللہ اس کی مسافت کو کم کر دے اور اس کے سفر کو آسان کر دے ۔
سفر کیلئے روانگی کی دعا
سیدنا علی بن ربیعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا کہ ان کی سواری کا جانور لایا گیا ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رکاب میں پاؤں رکھ کر فرمایا بِسمِ اللّٰہِ جب جانور کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا : اَلحَمدُ لِلّٰہِ پھر یہ دعا پڑ ھی۔ ﴿سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ﴾(مسلم)
کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے لئے تابع کر دیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
اس کے بعد تین مرتبہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہا اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑ ھی۔
سُبْحَانَکَ إِنِّی قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
تیری ذات پاک ہے میں نے یقینا خود پر ظلم کیا ہے میری مغفرت فرما، گنا ہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرسکتا۔
اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے تو میں نے مسکرانے کا سبب پوچھا کہنے لگے میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ سے سبب پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ اِغفِر لِی ذُنُوبِی (میرے گناہ بخش دے ) کہتا ہے تو اللہ کو بڑ ا بھلا معلوم ہوتا ہے کہ بندہ کو یقین ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی گناہ نہیں معاف کرسکتا۔ (صححہ الترمذی)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر روانہ ہونے کیلئے اپنی سواری پر سوار ہوجاتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑ ھتے ۔ ﴿سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ﴾اللَّہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِی سَفَرِنَا ہَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَی اللَّہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ اللَّہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الْأَہْلِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَہْلِ (رواہ مسلم ص/۴۲۴، ج/۱)
کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے تابع کر دیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔اے اللہ ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقوی کا سوال کرتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق چاہتے ہیں جس سے تو راضی ہو ۔ اے اللہ ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور ہم سے اس کی دوری کم کر دے اے اللہ تو سفر میں ہمارا ساتھ ہے اور گھر میں ہمارا نگہبان۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں سفر کی تکلیف اور برے منظر اور اہل وعیال اورمال میں بری حالت کے ساتھ واپس آنے سے ۔
سفر سے واپسی کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہونے لگتے تو ہر اونچی جگہ پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور یہ دعا پڑ ھتے ۔
لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّہُ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے ہیں اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمدﷺ) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ہم جب بلندی پرچڑ ھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب نیچے اترتے تو سُبحَانَ اللّٰہِ کہتے ۔ (بخاری)
احرام کی دعا
احرام کی نیت کرنے سے پہلے حمد وثنا اور تسبیح وتکبیر کہنی چاہیے پھر حج یا عمرہ یا دونوں جس کا ارادہ ہو اس کی نیت لفظوں میں کرے اور لبیک پڑ ھے ۔ لبیک کے صحیح الفاظ یہ ہیں ۔ لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ
میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، بیشک تعریف تیرے ہی لئے ہے اورنعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں اورملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں ۔
حدودِحرم میں داخلہ کی دعا
حدودِ حرم میں داخلہ کی کوئی مخصوص دُعا صحیح احادیث سے ثابت نہیں مگر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ دعا پڑ ھا کرتے تھے ۔ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
حرم شریف میں داخل ہونے کی دعا
حرم میں داخل ہونے کی مخصوص دعا رسول اللہا سے ثابت نہیں البتہ عام مسجدوں میں داخل ہوتے وقت جودعا پڑ ھی جاتی ہے وہی پڑ ھنی چاہیے ۔ اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔
طواف کی دعائیں
حجر اسود کے پاس اللہ اکبر کہنا چاہیے ، رکن یمانی کے پاس یہ دعا پڑ ھنی چاہیے ۔ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔
اللہ کا نام لیکر جو بہت عظیم ہے ۔ اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔
طواف کی حالت میں بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے کوئی خاص دعا صحیح سند سے مروی نہیں ، البتہ تسبیحات میں سے یہ دعا پڑ ھنی ہے ۔
سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ ۔
اللہ کی ذات پاک ہے اورتعریف اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑ ا ہے اور طاقت اور زور کسی کو نہیں سوائے اللہ کے ۔
طواف کی دو رکعتیں
طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعت پڑ ھنی چاہیے پہلی رکعت میں قل یا یہا الکفرون اور دوسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑ ھنی مسنون ہے ۔ (مسلم)
ملتزم کے پاس دعا مانگنی مسنون ہے ۔ (ابوداؤد) مگر اس کیلئے کوئی خاص الفاظ وارد نہیں ۔
مقام ابراہیم کے پاس یہ آیت تلاوت کر کے دو رکعتیں طواف کی پڑ ھنی مسنون ہیں ۔ (مسلم)
﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَقَامِ اِبرَاہِیمَ مُصَلَّی﴾ (البقرۃ:۱۲۵)
اور جس جگہ ابراہیم علیہ السلام کھڑ ے ہوتے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو ۔
کعبہ کے اندر دو رکعت پڑ ھنی، دعا مانگنی ، توبہ واستغفار کرنا ، ہر کونے میں تکبیر ، تہلیل، تسبیح اور حمد وثنا کرنا مسنون ہے ۔(بخاری)
حرم سے نکلنے کی دعا
اس کیلئے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ، البتہ عام مسجدوں سے نکلتے وقت جو دعا مسنون ہے وہی حرم سے نکلنے کے وقت بھی پڑ ھنی چاہیے یعنی بِسْمِ اللَّہِ وَالصَّلَاۃُ عَلَی رسول اللہ ﷺ للَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ ۔
اللہ کا نام لیکر نکلتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتا ہوں اے میرے رب میرے گناہ معاف کر دے اورمیرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے ۔
زمزم پینے کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تاکید کرتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوزمزم قبلہ رخ ہوکر بسم اللہ کہہ کر تین سانس میں پینا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ سے زمزم پینے کی مخصوص دعا ثابت نہیں ، البتہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما زمزم پیتے وقت یہ دعا پڑ ھا کرتے تھے ۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّی اَسئَلُکَ عِلماً نَافِعاً وَّرِزقاً وَّاسِعاً وَّشِفَآئً مِّن کُلِّ دَآئٍ ۔ (الترغیب )
اے اللہ میں تجھ سے مفید علم اور وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا سوال کرتا ہوں ۔
سعی کی دعا
سعی شروع کرتے وقت یہ دعا پڑ ھے ۔
اِنَّ الصَّفَا وَالمَروَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، اَبدَأُ بِمَا بَدَئَ اللّٰہُ بِہِ ۔ (مسلم)
بیشک(کوہِ) صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جس چیز کو اللہ نے پہلے ذکر کیا ہے میں بھی اُسی سے شروع کرتا ہوں ۔
صفا اورمروہ میں ہر پھیرے میں قبلہ رو کھڑ ے ہوکر اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح ، تہلیل اور دعا مانگنا مسنون ہے ۔ اس کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے تین بار اللہ اکبر کہے پھر یہ ذکر پڑ ھے ۔
لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمدا) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔
صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے پڑ ھنے کیلئے کوئی خاص دعا منقول نہیں ، البتہ بعض صحابہ کرام سیدنا علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے یہ دعا منقول ہے ۔
رَبِّ اغفِر وَارحَم وَاَنتَ الاَعَزُّ الاَکرَمُ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
اے اللہ بخش دے اور رحم فرما ، تو ہی سب سے زیادہ عزت والا اور سب سے زیادہ بزرگ ہے ۔
اس کے علاوہ قرآن وحدیث کی دعاؤں میں سے جو دعا چاہیں پڑ ھیں ۔
ایام عشرہ : پہلی ذی الحجہ سے دسویں ذی الحجہ تک ایام عشرہ کہلاتے ہیں ان میں عبادت الٰہی اور نیک کام کرنے کا بہت بڑ ا ثواب ہے ۔ (بخاری)
ان دنوں میں کثرت سے یہ تسبیح پڑ ھتے رہنا چاہیے ۔
سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَر۔ (الترغیب والترہیب)
پاک ہے اللہ تعالیٰ اور تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑ ا ہے ۔
منیٰ میں جاتے وقت
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے تو ہم میں سے کوئی لبیک پڑ ھ رہا تھا اور کوئی اللہ اکبر کہہ رہا تھا۔
عرفات کی دعا
یوم عرفہ (حج کادن ) بڑ ی فضیلت کا دن ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے : عرفات کے دن سے زیادہ اور کسی دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس دن قریب ہوتا ہے اور تجلی فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ۔ (مسلم)
عرفات دعا کی قبولیت کی جگہ ہے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے ۔ خَیْرُ الدُّعَاءِ دُعَاء ُ یَوْمِ عَرَفَۃَ ۔
بہترین دعا عرفات کے دن کی دعا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ ظہر کے بعد سے مغرب تک تسبیح، تکبیر، تہلیل اور دعا کرتے رہے ۔ اس لئے ہر حاجی کو چاہیے کہ اس دن اس متبرک جگہ میں خوب دل لگا کر دعا مانگے اور تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، توبہ واستغفار اور تکبیر وتہلیل میں مشغول رہے درود شریف کثرت سے پڑ ھے لبیک بار بارکہے ، اپنے لئے بھی دعا مانگے اور عزیز واقارب واحباب کیلئے بھی ۔
عرفات کے دن رسول اللہ ﷺ اس دعا کو اکثر پڑ ھتے تھے ۔
لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
مزدلفہ : مزدلفہ میں ذکر الٰہی کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿ فَإِذَا اَفَضتُم مِن عَرَفَاتٍ فَاذکُرُوا اللّٰہَ عِندَ المَشعَرِ الحَرَامِ ، وَاذکُرُوہُ کَمَا ہَدٰکُم وَاِن کُنتُم مِن قَبلِہِ لَمِنَ الضَّآلِّینَ﴾(مسلم)
اور جب تم عرفات سے واپس ہوتو مشعر حرام کے پاس یعنی مزدلفہ میں اللہ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا ہے ۔ اگرچہ اس سے بیشتر تم لوگ گمرا ہوں میں سے تھے ۔
رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں نمازِ فجر کے بعد سے خوب اجالا ہونے تک قبلہ رخ ہوکر دعا مانگی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی یہاں دیر تک دعا مانگنے کا حکم دیا ہے ۔ (مسلم)
رمی جمار کی دعا
منیٰ میں شیطان کو کنکری مارتے وقت یا اس کے بعد دونوں روایتیں ہیں اللہ اکبر کہنا چاہیے ۔ رمی جمار سے فارغ ہوکر یہ دعا پڑ ھنی چاہیے ۔
اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا
اے اللہ ہمارے حج کو مقبول حج کر اور ہمارے گناہ کو معاف فرما۔
قربانی کی دعا
جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑ ھی جائے ۔
اِنِّی وَجَّہتُ وَجہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ عَلَی مِلَّۃِ اِبرَاہِیمَ حَنِیفاً وَّمَا اَنَا مِنَ المُشرِکِینَ ، اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرتُ وَاَنَا مِنَ المُسلِمِینَ ، اَللّٰہُمَّ مِنکَ وَلَکَ پھر بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَرُ کہہ کر ذبح کرے ۔اگر جانور دوسرے کی طرف سے ذبح کرتا ہوتو اس کا نام لیکر کہے میں رخ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جسنے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے میں ابراہیم کی ملت پر ہوں ، یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کیلئے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں ہوں ۔ اللہ کے نام کے ساتھ ، اللہ سب سے بڑ ا ہے ، اے اللہ قبول کریہ قربانی فلاں کی طرف سے ۔
احکام وآداب زیارت مدینہ منورہ
مسجد نبوی میں نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کیا جائے تاکہ نبی ﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جس میں آپ ﷺ نے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی طرف بغرضِ ثواب رختِ سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے ۔ (بخاری:۱۱۸۹)
مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی میں جائیں ، جہاں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے ۔ (بخاری :۱۱۹۰) جبکہ پچاس ہزار نماز کاثواب والی حدیث (ابن ماجہ) ضعیف وناقابل حجت ہے ۔
٭ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دعائے دخول اور پھر تحیۃ المسجد پڑ ھیں اور اگر ممکن ہوتو روضۃ الجنۃ میں پڑ ھیں جو قبرِ شریف کے ساتھ ہی سفید ستونوں والی جگہ ہے اور جسے نبی ﷺ نے ، جنت کا باغیچہ قرار دیا ہے ۔ (صحیح بخاری :۱۱۹۶، ۱۸۸۸) اگر کسی فرض نماز کا وقت ہے تو باجماعت نماز ادا کر لیں ۔
٭ فرض نماز یا تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے بعد نبی ﷺ کی قبرِمقدس کے پاس جائیں اور یوں سلام کریں : اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ
اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر سلام ہو۔
پھر ساتھ ہی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کریں ۔ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَا اَبَا بَکرٍ (اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔
اور پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کہیں ۔
اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَاعُمَرُ اے عمر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔ (مؤطا امام مالک ۱/۱۶۶)
٭ نبی ﷺ کی آخری آرامگاہ کے درودیوار یا جالیوں اور پوری مسجد نبوی کے کسی بھی حصہ کو تبرک کی نیت سے چھونا، پھر ہاتھوں کو چہرے اور سینے پر پھیرنا اور چومنا ثابت نہیں ہے ۔ امام غزالی ، ابن تیمیہ، امام نو وی، ابن قدامہ، ملا علی قاری ، شیخ عبد الحق حنفی دہلوی اور مولانا احمد رضا خان(بریلوی) رحمہم اللہ نے بھی ان امور کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ (احیاء علوم الدین از غزالی ۱/۲۴۴)
٭ قبر شریف کے پاس شور پیدا کرنا یا طویل عرصہ تک رک کر شور کا باعث بننا بھی درست نہیں کیونکہ یہ ادب گاہِ عالم ہے اور یہاں آوازوں کو پست رکھنا ضروری ہے ۔ (الحجرات:۲)
صلوٰۃ وسلام سے فارغ ہوجائیں تو قبلہ رو ہوکر دعائیں مانگیں نہ کہ قبر شریف کی طرف منہ کر کے ۔(التحقیق والایضاح ص/۴۳)
٭ حرم مکی کی طرح ہی مسجد نبوی سے بھی الٹے پاؤں نکلنا ایک خود ساختہ فعل ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ (منا سک الحج والعمرۃ ص/۴۳)
٭ قیام مدینہ منورہ کے دوران کسی بھی وقت اقامت گاہ سے وضو کر کے جائیں اور مسجد قبا میں دو رکعتیں پڑ ھ لیں ۔ اس کا ثواب پورے عمرے کے برابر ہے ۔ (نسائی ۲/۳۶)
مسجد قبا کی زیارت سنتِ رسول ﷺ ہے ۔ (صحیح مسلم۹۔/۱۶۹، ۱۷۰)
٭ بقیع الغرقد (جنت البقیع) کی زیارت کر سکتے ہیں اور وہاں عام قبرستان کی زیارت والی دعا کریں اور ان الفاظ کا اضافہ کر دیں ۔ اَللّٰہُمَّ اغفِر لِاَہلِ بَقِیعِ الغَرقِدِ اے اللہ! اس بقیع غرقد کے آسودگانِ خاک کی مغفرت فرما دے ۔
٭ شہدائے احد کی زیارت بھی جائزہے اور وہاں بھی عام زیارت قبور والی دعا کریں ۔
٭ مدینہ منورہ میں جتنا بھی قیام ممکن ہو جائز ہے ۔ چالیس نمازیں پوری کرنے کیلئے ہفتہ بھر رکنا کوئی شرط نہیں ، کیونکہ اس موضوع پر بیان کی جانے والی مسند احمد وطبرانی اوسط والی روایت ضعیف وناقابلِ استدلال ہے ۔ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی ۱/۳۶۶)
٭دورانِ حج اگر کوئی شخص مقصد بنائے بغیر ضمنی طور پر کوئی تجارت یا مزدوری کرنا چاہے تو یہ جائز ہے ۔(البقرۃ:۱۹۸، الحج:۳۸، تفسیر ابن کثیر ۱/۲۸۵، صحیح بخاری حدیث نمبر :۱۷۷)
البتہ اس میں غیر قانونی اشیاء غیر قانونی طریقوں سے لانا، ان کا کاروبار کرنا اور کسٹم میں دھوکا دہی کرنا جوکہ عام حالات میں بھی روا نہیں ، وہ حج وحجاج کیلئے بھی جائز نہیں ، ان سے بچیں ۔ (جدید فقہی مسائل ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ص:۱۳۰، ۱۳۱)
٭ مکہ مکرمہ کا اصل تحفہ آبِ زمزم اور مدینہ منورہ کا مبارک ہدیہ عجوہ کھجور ہے کیونکہ آبِ زمزم ہرغرض ومرض کیلئے مفید ہے ۔ (مسند احمد ۲/۳۰۵، ۳۵۶) یہ کھانے کا کھانا ۔ (صحیح مسلم۲/۱۴) اور بیماری کی دوا ہے ۔(مسند احمد ۲/۳۰۱، ۳۰۵) اور عجوہ کھجور کے سات دانے صبح کھالیں تو اس دن زہر اور سحر(جادو) اثر نہیں کرتا۔ (بخاری :۵۴۴۵) یہ شفا اور زہر کا تریاق ہے ۔ (صحیح مسلم۳/۱۴)
یہ جنت کا پھل ہے ۔ (ترمذی:۲۰۶۸)
٭ سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو ، یہ عذاب کا ایک ٹکڑ ا ہے ، لہذا کوئی شخص جب اپنا کام مکمل کر لے تو جلد اپنے اہل وعیال میں لوٹ جائے ۔ (بخاری :۱۸۰۴) حاجی کا حج سے فارغ ہوکر اپنے اہل وعیال میں جلد لوٹ جانا ہی زیادہ اجر کا باعث ہے ۔ (دار قطنی ۲/۳۰۰)
٭ جب واپسی کا سفر اختیار کریں تو سواری پر بیٹھنے ، راستے میں قیام کرنے ، شہروں کو دیکھنے ، اونچائی پر چڑ ھنے اور زیریں جانب اترنے وغیرہ کی دعائیں کرتے آئیں اور جب اپنا شہر نظر آجائے تو یہ دعا کریں ۔
ٌ آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ (بخاری :۲۹۸۱، ۱۷۹۷)
ہم تو تائب ہوکر ، سجدہ وعبادت گزاری کا عہد کر کے لوٹ آئے ہیں ، اور اپنے رب کی تعریفیں کرتے ہیں ۔
٭ اور اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ممکن ہوتو مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑ ھ لیں ۔ (بخاری ومسلم) اور پھر یہ دعا کرتے ہوئے اپنے گھر داخل ہو جائیں ۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسئَلُکَ خَیرَ المَولَجِ وَخَیرَ المَخرَجِ ، بِسمِ اللّٰہِ وَلَجنَا وَعَلَی رَبِّنَا تَوَکَّلنَا۔ (سنن ابو داؤد: ۵۰۹۶)
اے اللہ ! میں تجھ سے داخل ہونے ، اور نکلنے کی جگہوں کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں ، تیرا نام لیکر ہم یہاں سے نکلے تھے اور اے ہمارے رب! تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مقدس سفر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

فرضیتِ حج کی حکمتیں

محمد طیب معاذ

صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے السَّفَرُقِطعَۃٌ مِّنَ العَذَابِ (الحدیث) کہ سفر عذاب کا ایک حصہ ہے ۔اسی لئے شریعت نے ہمیں سفر کے آداب بالعموم اور سفر حج کے آداب بالخصوص بتلائے ہیں انہی آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر حجاج کرام اپنے سفر کو آرام دہ اور باعث ثواب بنا سکتے ہیں ۔
۱۔ خلوص نیت
ہر عمل کی قبولیت کا دارومدار خلوص نیت پر ہے اس لئے سفرِ حج سے پہلے اپنی نیت کو خالص کرنا انتہائی ضروری ہے اگر سفر حج میں ریا وعجب داخل ہو گیا اور اخلاص کی عظیم نعمت سے محروم ہو گیا توآدمی کی محنت رائیگاں اور عبث ہوجائے گی۔
۲۔ سفر کیلئے جمعرات کا دن منتخب کرنا
رسول اللہا اکثر اپنے سفر کا آغاز جمعرات کے دن صبح کے وقت کرتے تھے اس لئے حاجی کو چاہے کہ وہ اس سنت پر عمل کرنے کی مقدور بھر کوشش کرے ۔

۳۔دوران سفرادعیہ مسنونہ کا اہتمام کرنا
مسافر آدمی کو چاہیے کہ وہ احادیث میں وارد شدہ اذکارِسفر پر کاربند رہے تاکہ وہ سفر میں پیش آنی والی مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے ۔رسول اللہ ﷺ جب بھی سفر کرتے تو مندرجہ ذیل دعا پڑ ھتے تھے ۔
اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البر والتقوی ومن العمل ما تحب وترضی اللہم ہون علینا سفرنا ہذا واطوعنابعدہ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل اللہم انی اعوذبک فی وعثاء السفر وکلبۃ المنظر وسوء والمنقلب فی المال والاہل والولد (رواہ مسلم)اس لئے سفر حج میں بالخصوص ان اذکارِ کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے ۔

۴۔ فضول خرچی سے پرہیز
دوران سفر اسراف اور فضول خرچی سے مکمل اجتناب بھی آداب سفر میں سے ہے کیونکہ سفر کے دوران مالی پریشانی سے ادائیگی حج میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں جس سے آدمی فریضہ حج کو یکسوئی سے ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے ۔

۵۔ صحبت صالح
سفر حج کے دوران نیک لوگوں کی مصاحبت اختیار کرنا بھی محمود فعل ہے خاص طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ عالم دین کا ساتھ میسر ہو تاکہ آدمی حج کی ادائیگی عین شریعت کے مطابق کرسکے او ر حاجی کی روحانی قوتوں کو جلا مل سکے ۔

۶۔ فسق وفجور سے اجتناب
عام مسافر کو بالعموم اور حاجی کو بالخصوص دوران سفر فسق وفجور اور لڑ ائی جھگڑ ے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔﴿ اَلحَجُّ اَشہُرٌ مَعلُومَات فَمَن فَرَضَ فِیہِنَّ الحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الحَجِّ﴾ (البقرۃ:۱۹۷) حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے ، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑ ائی جھگڑ ے کی بات سرزد نہ ہو ۔

۷۔سفر سے واپسی پر بھی درج بالا دعا پڑ ھیں اور اس کے آخر میں آئبون تآئبون عابدون لربنا حامدون کے الفاظ کا اضافہ فرمائیں ۔

۸۔ بعد از سفر معانقہ اور مصافحہ کرنا بھی مأثور عمل ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو معانقہ کرتے تھے ۔

۹۔سفر سے واپس آ کر اچانک گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ پہلے اپنے آنے کی خبر کریں ۔

۱۰۔ سفر سے لوٹ کر آنے والے کیلئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے ۔
ہمیں چاہے کہ ہم اس سنت نبوی کو دوبارہ سے زندہ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کے مستحق بن سکیں ۔
برکاتِ حج وعمرہ
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے جن میں سے ایک حج بھی ہے ۔حج اسلام کا اہم ترین ستون اور رکن ہے حج کی ابتداء امام الموحدین ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہوتی ہے ۔قرآن وسنت میں حج کے بہت سے فضائل مذکورہیں ۔جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔حج سے آدمی کے گزشتہ گناہ مٹا دئے جاتے ہیں ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَن حَجَّ لِلّٰہِ فَلَم یَرفُث وَلَم یَفسُق رَجَعَ کَیَومِ وَلَدَتہُ اُمُّہُ (متفق علیہ)
ترجمہ:جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کیا دوران حج فسق وفجور سے اجتناب کیا تو وہ گنا ہو ں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز گنا ہوں سے پاک تھا ۔ حج ہی وہ عظیم سفر ہے جس کا انعام صرف اور صرف جنت ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ(الحدیث) ترجمہ:حج مقبول کی جزا صرف جنت ہی ہے ۔حج ایک نعمت ہے لذت و کیفیت اور درس۔۔ تربیت نفس ہے ۔حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں دوسری تمام عبادتوں کی روح شامل ہے ۔اس میں نماز بھی ہے ، قربانی بھی ہے مال خرچ کرنا زکوٰۃسے مشابہت رکھتا ہے ۔ نفسیانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی سی کیفیت رکھتا ہے ۔گھر سے دوری اور سفر کے مصائب میں جہاد کا رنگ ہے ۔ غرض یہ کہ حج ہی وہ عظیم عبادت ہے جس میں آدمی اپنا مال و جان دونوں خرچ کرتا ہے ۔
۱۔ایمان وجہاد کے بعد حجِ مبرور ومقبول افضل ترین عمل ہے ۔ صحیح بخاری /۲۶
۲۔ حج عورتوں کا جہاد ہے ۔ (بخاری :۱۸۲۱) جس میں کوئی قتال بھی نہیں ۔ مسند احمد ۶/۱۵۶
۳۔ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ۔ نسائی :۲۶۲۶
۴۔ حاجی کی زندگی قابلِ رشک اور وفات قابلِ فخر ہوتی ہے کہ اگر وہ احرام کی حالت میں فوت ہوجائے تو قیامت کے دن وہ لَبَّیکَ پکارتا اٹھایا جائے گا۔ بخاری :۱۲۶۵
۵۔ رمضان میں کئے گئے عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے ۔ صحیح بخاری :۱۷۸۲
۶۔ایک عمرہ دوسرے عمرے تک گنا ہوں کا کفارہ ہے ۔ صحیح بخاری :۱۷۷۳
فرضیتِ حج اور تارکِ حج کیلئے وعید
لوگوں پر اللہ کا یہ حق (فرض)ہے کہ جو اس کے گھر (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ، وہ اس کا حج کریں اور جو کوئی اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔ (آل عمران :۹۷) نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو۔ ایک صحابی (اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ) نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہر سال حج کریں ؟ انہوں نے تین بار یہ سوال دہرایا اور نبی ﷺ خاموش رہے اور بالآخر فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ پاتے ۔ صحیح مسلم :۱۳۳۷
حج کی استطاعت حاصل ہوجائے تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرنا ضروری ہے ۔ مسند احمد ۱/۲۱۴
اگر توفیق ہوتو پانچ سال میں ایک مرتبہ حج کر لینا چاہیے ۔ ابن حبان :۹۶۰، بیہقی ۵/۲۶۲
جو استطاعت حاصل ہوجانے کے باوجود مشاغلِ دنیا میں مصروف رہے اور اسی حالت میں حج کئے بغیر ہی موت آجائے تو ان کے بارے میں سخت وعید آئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ طاقت کے باوجود جن لوگوں نے حج نہیں کیا ، میں ان پر غیر مسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس (جزیہ) نافذ کر دوں ۔ اللہ کی قسم! وہ مسلمان نہیں ہے ۔ تلخیص الحبیر ۲/۲۲۳
مفہوم استطاعت
استطاعت کے مفہوم میں زادِراہ (البقرۃ:۱۹۷) اور سواری (یا مکہ آنے جانے کیلئے اس کے اخراجات) شامل ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ :۲۸۹۶)
اسی طرح اہل علم نے راستوں کے پر امن ہونے کی شرط بھی عائد کی ہے ۔ (الفتح الربانی ۱۱/۴۲، ۴۳) اور عورتوں کیلئے ساتھ ہی کسی محرم کا ہونا بھی شرط ہے جو حج اور کسی بھی سفر (بخاری :۳۰۰۶) خصوصاً ایک دن اور ایک رات (بخاری :۱۰۸۸)یا زیادہ سے زیادہ تین دنوں اور تین راتوں کے ہر سفر کیلئے شرط ہے ۔ (صحیح مسلم)
استطاعت کے مفہوم میں ہی جسمانی استطاعت بھی شامل ہے ، اگر کوئی شخص پیدل تو کجا ، سواری پر بھی نہ بیٹھ سکتا ہوتو اس پر حج کے سفر کیلئے نکلنا واجب نہیں ۔ بخاری :۱۵۱۲
فرضیت حج کے مقاصد اور حکمت
اللہ رب العزت نے متعدد با ر قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وہ علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے ۔ اسی لئے تو اس نے اپنے بندوں کی ہر نفع بخش چیز کے متعلق رہنمائی فرمائی ہے اور ہر مضر چیز سے اجتناب کا حکم دیا ہے ۔دین اسلا م میں جتنی بھی عبادات ہیں سب کا کوئی نہ کوئی مقصد اور ا سکی فرضیت کے پیچھے کچھ حکمتیں کا ر فرما ہوتی ہیں ۔ جس طرح فرضیت زکوٰۃ کی حکمت اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِم بِہَا﴾(التوبہ)ان کے مال میں سے زکوٰۃ لیں ا س سے آپ ﷺ ن کو پاک اور ان کا تزکیہ نفس کرتے ہو۔ اس طرح فرضیت زکوٰۃ سے اموال و نفوس کا تزکیہ و تطہیر ، رضائے الہی کا حصول ، مساکین و فقراء کے ساتھ ہمدردی ، ضرور ت مندوں کی حاجت روائی اورمرض بخل و حرص سے حفاظت ہے ۔ اگر روزہ فرض کیا تو ارشاد فرمایا :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ)
ترجمہ:اے ایمان والو تم پر اسی طرح روزے فرض ہیں جس طرح سابقہ امم پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔
روزے کی فرضیت کا مقصد تقوے کا ملکہ حاصل کرنا ہے ۔ پھرحج کی تشریعی حکمت بیا ن کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ثُمَّ لیَقضُوا تَفَثَہُم﴾(الحج) پھر حاجیوں کو چاہیئے کہ اپنا میل کچیل دور کریں ۔
یعنی حج اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ حجاج اپنی ظاہری اور باطنی برائیوں کا خاتمہ کریں اور مستقبل میں امت مسلمہ کی بیداری کا سامان کریں ۔حج کا ایک بڑ ا مقصد محبوب حقیقی سے والہانہ محبت کا اظہا ربھی ہے ۔
حج کا دوسرا بڑ ا مقصد امت محمدیہ کو مزاج ابراہیمی سے مربوط کرنا ہے ، جس طرح کہ شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :اس حج کا بڑ ا مقصد یہ ہے کہ قیامت تک یہ ملت اپنے بانی ابراہیم علیہ السلام کیساتھ مربوط رہے اور سیرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنے لئے فکری غذا لے ﴿مِلَّۃَ اَبِیکُم إِبرَاہِیمَ﴾ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہمیشہ تم سے مربوط رہنا چاہیے اسی میں اس ملت کے ابراہیمی مزاج اور خمیر کی حفاظت اور ملتوں اور قوموں میں اس کا تشخص و امتیاز ہے ۔
میقات حج کے تعین کی حکمت
حج میں جو احکا م بتائے جاتے ہیں اس میں احرام کیلئے میقات کا تعین بھی ہے ۔اس سے حاجی میں ایک نیا شعور اور فکری اور روحانی بیداری پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دربار الہی کے قریب پہنچ چکا ہے اس لئے آداب حاضری کوملحوظ خاطر رکھے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی زندہ جاوید کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں میقات کے تعین کی حکمت کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ مواقیت کا اصل راز یہ ہے کہ چونکہ ایک طرف مکہ میں آشفتہ حال اور پراگندہ بال حاضر ہونے کی تاکید ہے ، دوسری طرف اپنے شہر سے احرام باندھ کر سفر کرنے میں کھلی ہوئی دشواری ہے ، کسی کا راستہ ایک ماہ کا ہے ، کسی کی مسافت دومہینے یا اس سے بھی زیادہ کی ہے اس لئے مکہ کے اردگرد خاص مقامات متعین کر دیئے گئے ہیں جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے ، اس کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے کہ یہ مقامات معروف ہوں اور عام گزرگا ہوں کی حیثیت سے زیادہ دور ہے ، اہل مدینہ کیلئے جو میقات (ذو الحلیفہ) ہے وہ نسبتاً سب سے زیادہ دور ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مدینہ وحی کا مرکز ، ایمان کا قلعہ اور دار الہجرت ہے ، اور پہلا شہر ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول ا کی دعوت پر ایمان قبول کیا، اس لحاظ سے اس کے باشندے اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ اعلاء کلمۃ اللہ میں سب سے زیادہ کوشاں اور عبادات میں سب سے آگے رہیں جو أثی! طائف اور یمامہ وغیرہ کے برعکس سب سے پہلے ایمان لانے والے اور سب سے زیادہ اخلاص کا ثبوت دینے والے شہروں اور قریوں میں اس کا شمار ہے ، اس
لئے اس کے میقات کی دوری میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص/۴۵)
احرام باندھنے کی حکمت
احرام حاجی میں شعور اور بیداری کاسبب ہے دربار الہی میں حاضری کے وقت مصنوعی آرائش وزیبائش سے مکمل آزادی کا حکم دیاتاکہ امت میں سادگی کو فروغ دیا جا سکے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔حج وعمرہ میں جو احرام باندھا جاتا ہے وہ نمازمیں تکبیر تحریمہ کی طرح ہے وہ اخلاص وتعظیم اور عزیمت مؤمن کی ایک ظاہری وعملی صورت آرائی ہے اس کا مقصد لذتوں اور عادتوں آرائش وزیبائش کی تمام اقسام کو ترک کر کے نفس کو حقیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز وسرنگوں کرنا۔(حجۃ اللہ البالغہ/ج:۲)
احرام کی حرمت
احرام کی حرمت کے بھی بہت سے احکام اور خصوصی آداب ہیں مثلاً حالت احرام میں شکار کی ممانعت ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَقتُلُوا الصَّیدَ وَاَنتُم حُرُمٌ﴾(المائدۃ :۹۵) اے ایمان والو! شکار کو مت مارو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔
دوسری جگہ آتا ہے ﴿أُحِلَّ لَکُم صَیدُ البَحرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعاً لَّکُم وَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیکُم صَیدُ البَرِّ مَا دُمتُم حُرُماً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِی إِلَیہِ تُحشَرُونَ﴾(المائدۃ:۹۶) تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا جائز کیا گیا تمہارے نفع کیلئے اور قافلوں کیلئے اور تمہارے اوپر جب تک تم حالت احرام میں ہوخشکی کا شکار حرام کیا گیا ، اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ان اشیاء کی ممانعت محرم یعنی احرام باندھنے والے کیلئے اس لئے ہے کہ تذلل، ترک تجمل، پراگندہ بال اور غبار آلود ہونے کی کیفیت حاصل ہو، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف کا غلبہ اور مواخذہ کا ڈر اس پر غالب رہے اور وہ اپنی خواہشات اور دلچسپیوں میں پھنس کرنہ رہ جائے ، ان ممنوعات میں شکار اس لیے شامل ہے کہ وہ بھی ایک قسم کے توسع میں داخل ہے اور دلچسپی اور توسع خاطر کی چیز ہے ۔حجۃ اللہ البالغہ ج/۲، ص/۴۴
حلق کی حکمت
اسی طرح احرام سے باہر آنے اور اس کے قیود واحکام سے رہائی پانے کیلئے بھی ایک خاص طریقہ مقرر ہے جو نفس کو متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ حاجی احرام سے بالکل اچانک باہر آجائے اور تمام چیزوں سے فوراً لطف اندوز ہونے لگے ، وہ ایک خاص عمل اور نیت وارادہ کے ساتھ احرام اتارتا ہے وہ نماز میں سلام کے ذریعے اس کی فضا سے باہر آتا ہے اور احرام میں حلق (سر منڈوانے ) کے ذریعے ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حلق کا راز یہ ہے کہ اس سے احرام سے نکلنے کا ایک ایسا طریقہ متعین ہوتا ہے جو وقار کے منافی نہیں ہے ، اگر لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑ دیا جاتاتو ہر شخص جو طریقہ چاہتا اختیار کر لیتا، اس کے علاوہ اس میں پراگندہ بال اور زولیدہ سرہونے کی حالت کا خاتمہ ہے جو پہلے مطلوب تھی، یہ ایسا ہے جیسا نماز میں سلام پھیرنا۔ حجۃ اللہ البالغہ ج/۲، ص/۴۵ملحق از ارکان اربعہ لأبی الحسن الندوی رحمہ اللہ
حج کے فوائد وثمرات
حج میں بہت سے انفرادی مادی ، روحانی، اجتماعی فوائد پوشیدہ ہیں اس لئے تو قرآن میں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کوعام منادی کرنے کا حکم دیا تھا وہاں اس حکم کی پہلی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ﴿لِیَشہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم﴾ تاکہ لوگ یہاں آ کر دیکھیں کہ اس حج میں ان کیلئے کیسے کیسے فائدے ہیں ۔ حج کے ثمرات وفوائد بالاختصار ذکر کئے جا رہے ہیں ۔
نیکی وتقوی میں رغبت
حج سے انسان میں نیکی کرنے کی جستجو بڑ ھتی ہے وہ خیر کے کاموں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتا ہے برائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے جیسے جیسے حاجی خانہ کعبہ کے قریب ہوتا ہے ویسے ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بڑ ھتارہتا ہے ۔ بدکلامی، بے ہودگی ، بے حیائی ، بددیانتی، جھگڑ ا فساد سے اس کا ضمیر راضی نہیں ہوتا اور اس کا ضمیر پکار کر کہتا ہے ۔حرم الہی کا مسافر ہوں پھر برے کام کرتا ہوا جاؤں اس عبادت کے کام میں ظلم وفسق کا کیا کام۔ ۔ ۔ سفرِ حج ہر دم آدمی کے نفس کو پاک کرتارہتا ہے ۔احرام کی وجہ سے اس کی ظاہری غربت وسادگی کا اثر ا سکے باطن پربھی پڑ تا ہے اس سے حاجی کے دل سے کبر و غرور اور حسد و کینہ نکل جاتا ہے ۔حج اس آدمی میں ایثار و قر بانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔المختصر حج ایک بہت بڑ ا اصلاحی کورس ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان حقیقی معنو ں میں معرفت الہی حاصل کرتا ہے ۔ حج محبت الہی کے ا ظہار کا عملی نمونہ اور ذریعہ بھی ہے ۔
وحدت ملت کا پر کیف نظارہ
حج کے مادی ، سیاسی ، تمدنی اور روحانی فوائد میں سے ایک فائدہ وحدت ملت بھی ہے ۔حج ہی میں اسلامی اتحاد و اتفاق اور اخوت ومساوات کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے ۔ حج اسلا می اتحادو اتفاق اور یک جہتی کو برقرار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔اس میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے مسلما ن جمع ہو کر آتے ہیں ۔مختلف رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کے لوگ ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں جمع ہو کر ایک جیسا لباس پہن کر ایک جیسے اعمال و افعال بجا لاتے ہیں جس سے اسلامی اتحادو اتفاق کو تقویت حاصل ہو تی ہے ۔حج ہر سال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جغرافیائی ، لسانی نسلی اور سیاسی اختلافات کو مٹا کر انہیں ایک ہمہ گیر انسانی وحدت کا روپ عطا کرتا ہے ۔خدا کی شا ن دیکھئے کہ اس مبارک موقع پر امیر و غریب اور شاہ وگدا کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے ۔مسلم امہ کو ایک پلیٹ فار م پر جمع کرنے میں حج اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ مسلم امہ غیر مسلم ملکوں کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ ، ریشہ دوانیوں ، سیاسی رقابتوں اور فکری غلامی سے محفوظ رہ کر دنیا میں حقیقی امن قائم کر نے کے لائق ہو جائے ۔ علاوہ ازیں اسلامی بلاک کی تشکیل ، عرب و عجم کے اختلافات کو مٹا نے اور انہیں کھوئی ہوئی عزت وسرفرازی عطا کرنے کے لئے حج کا اجتماع حیرت انگیز انقلاب پید ا کر سکتا ہے ۔ اسلامی بلاک کی تشکیل سے ہی مسلمان سیاسی ، فنی ، عملی ، تہذیبی اور سماجی میدان میں ترقی کر سکتے ہیں ۔ الغرض حج حقیقی معنو ں میں تما م ظاہری امتیازات اور گوناگوں فروعی ، لسانی ، علاقائی اختلافات کا قلع قمع کر کے مسلمان کے اندر عاجزی ، سادگی ، خداپرستی ، خوف الہی ، انسان دوستی ، اخوت ، مساوات اور ملی وحدت کا زبر دست جذبہ پیدا کرتا ہے ۔
درس حج
اسلامی عبادات میں انسانیت کیلئے بے شمار فوائد پنہاں ہوتے ہیں ۔اسی طرح عبادات سبق اور درس بھی سکھاتی ہیں ۔حج سے ملنے والے درو س تو بہت ہیں مگر سر دست اجمالی طور پر چند ایک کا تذکرہ کرنا مقصو د ہے ۔
٭فریضہِ حج ہمیں اللہ کی کبریائی ، دین حق کی صداقت اور امت مسلمہ کی عظمت و رفعت سے آگاہ کرتا ہے ۔
٭حج مساوات ، بھائی چارے کا سبق سکھاتا ہے ۔
٭حج ہمیں سادگی سے زندگی بسرکرنے کی تعلیم دیتا ہے اس کی مثال احرام کاسادہ ہونا ہے ۔
٭حج محبت الہی کاعملی اظہا رہے ۔
٭حج حلال کمائی کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ اس کی قبولیت تبھی ہوتی ہے ۔جب حلال کمائی سے کیا گیا ہو۔
٭حج ہمیں خالص توحید کا درس دیتا ہے لہذا حاجی کو اپنے دل سے تمام دنیوی سہاروں کا خیال نکال دینا چاہیے تاکہ اس کی روح اللہ کے گھر میں خالص قرار پائے اوروہ جو مانگے اسے عطا کر دیا جائے ۔
٭سفر حج ہمیں سفر آخرت کی یاد دلاتا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہم سفر حج کیلئے تیاری کرتے ہیں اسی طرح سفر آخرت کیلئے بھی بھر پور تیاری کریں ۔
آخری گزارش
مذکورہ بالا سطور میں بیان کئے گئے احکامات وفوائد حکمتوں اور فضائل نے فریضہ حج کو تقدس وطہارت، تورع وزھد ، مراقبہ ومجاہدہ نفس کی ایسی خلعت عطا کی ہے جو دوسرے مدہبوں اور ملتوں کے اس قسم کے اعمال میں ہرگز نہیں ملتیں ۔ حج کی وجہ سے نفس انسانی اخلاق عامہ اور عام زندگی پر جو اثرات پڑ تے ہیں اس کو دیکھ کر صادق وامین پیغمبر ا کی اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے ۔
مَن حَجَّ لِلّٰہِ فَلَم یَرفُث وَلَم یَفسُق رَجَعَ کَیَومِ وَلَدَتہُ اُمُّہُ (متفق علیہ)
جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کیا دوران حج فسق وفجور سے اجتناب کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز گنا ہوں سے پاک تھا ۔
ہر سال حج کے موقع پر لاتعداد مسلمان فریضہ حج ادا کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاتے ہیں اگر وہ حج کے بعد اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے ہمہ گیر اثرات کو شامل کر کے مثالی مسلمان ثابت ہوں تو وہ معاشرت ، معیشت، سیاست کے میدان میں حیرت انگیز انقلاب لا سکتے ہیں ہرسال حج کرنے والے لاکھوں نفوس اگر اپنی سابقہ روش کو ترک کر کے خیر وتعمیر کی راہ پر گامزن ہوجائیں تو چند ہی سالوں میں مسلم ملکوں میں ذہن بیداری سیاسی استحکام وعروج ملی اتحاد اور باہمی یگانگت کے مفید نتائج نظر آنے لگیں گے حج کرنے والوں کیلئے یہ بہت بڑ ا لمحہ فکر یہ ہے امید ہے کہ وہ صحیح معنوں میں فریضہ حج ادا کر کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بننے کیلئے کوشاں ومصروف عمل ہونگے کیونکہ۔
فتح ہے جس کی منتظر تمہی وہ کارواں ہو
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

سیرت کے شناور ۔۔۔جوارِ رحمت میں

فیض الابرار صدیقی

اے مطمئن جان اپنے رب کی طرف واپس آجا راضی خوشی پس میرے پیارے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ (القرآن) ایک اہل علم کی موت ایک جہاں کی موت ہوتی ہے ۔
۱۳ اکتوبر ۲۰۰۹ء کا دن ایسے ایک فرد کے سفر آخرت کا دن تھا جس کی موت حقیقت میں اک عالم کی موت تھی ۔ وہ فرد جس کی شب وروز کی مصروفیت اللہ رب العزت کی وحدانیت کے حقیقی تصور کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا۔ جس فرد نے زندگی کا مقصد رسالت کے پیغام کو عام کرنا بنا لیا تھا ، وہ فرد جس نے زندگی میں سلف صالحین کے منہج کو اپنا منہج قرار دے دیا تھا ۔میری مراد عصر حاضر کی عظیم علمی شخصیت سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا سلفی منہج کے حقیقی ترجمان اور عظیم ا سکالر پروفیسر عبد الجبار شا کر رحمہ اللہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل الدعوۃ اکیڈمی انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد ہیں ۔ رب العزت ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین

ایک انسان اپنی تمام زندگی سرگرداں گزار دیتا ہے اس کے ہاتھ کچھ آئے یا نہ آئے آنے والی نسلیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اس شخص کو کیا حاصل ہوا لیکن اللہ رب العزت نے انبیاء کے وارثین کو ان کی زندگی میں ہی عزت دینے کا فیصلہ کر دیا۔
پروفیسر عبد الجبار شا کر رحمہ اللہ کا شمار بھی اسی زمرے میں ہوتا ہے جنہیں اللہ رب العزت نے یہ بلندمقام زندگی میں ہی عطا فرمادیا تھا۔
آپ رحمہ اللہ کی ساری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت میں گزری۔ دین اسلام کی نشر واشاعت وتبلیغ کے ضمن میں شرک وبدعات کے رد میں آپ کی گفتگو اور خطابت بے مثال وبے نظیر مقام کی حامل تھی۔جبکہ گمراہ فرقوں کے رد کو بیان کرنے پر بھی آپ کو خصوصی مہارت حاصل تھی ۔ آپ رحمہ اللہ کی گفتگو کتاب وسنت کے دلائل سے مزین ہوتی تھی۔
چونکہ ایمان اور عقیدہ ، انسانی ذہن کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور ذہن وفکر کی روشنی سے شخصیت کو بالیدگی اور جلا ملتی ہے ۔ پروفیسر عبد الجبار شا کر رحمہ اللہ ایک متدین اور راسخ العقیدہ مسلمان اور بالیدہ وکشادہ ذہن وفکر کے مالک اور گوناگوں صفات کے مالک تھے اور بدعات کے حوالے سے آپ رحمہ اللہ بہت بے باک ، جرأت مند اور دبنگ فرد تھے ۔ اسلام کے نظریات کے حوالہ سے واضح موقف کے مالک تھے اور اس کا اظہار ان کی تحریر وتقریر میں ہوتا رہتا تھا اس ضمن میں کسی مصلحت یا خوف کو انہوں نے اپنے پاس جگہ نہ دی بلکہ حق بات کہنے میں کبھی بھی جھجک محسوس نہ کی۔
ان کی وفات سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا یقینا انتہائی مشکل ہو گا۔ ملک کے ممتاز عالم دین اور خطیب ومؤلف پروفیسر عبد الجبار شا کر رحمہ اللہ نے ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اس طرح شیخوپورہ کی علمی سرزمین سے طلوع ہونے والا علم ودانش کا سورج ساری زندگی دین اسلام کیلئے وقف کر دینے والا 63 سال کی عمر میں اسلام آباد میں غروب ہو گیا ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
نامور عالم دین اہل قلم اور معروف خطیب جو اپنے شہر اورصوبے سے باہر قومی افق پر بھی جانے جاتے تھے وہ اسلام کے حقیقی مقاصد سے واقف تھے لہذا انہوں نے پاکستان اور مسلمانوں کو اسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کیلئے اپنی تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں وقف کر دیں ۔
اردو عربی انگریزی زبان کے ماہر پروفیسر عبد الجبار شا کر رحمہ اللہ نے سوگواران میں ایک بیوہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑ یں ہیں ۔
ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور ادارہ ماہنامہ اسوئہ حسنہ اللہ رب العزت سے دعا گو ہے کہ وہ مرحوم کی بشری لغزشوں کو معاف فرماتے ہوئے جنتِ معلی کا مکیں بنائے اور جملہ سوگواران کو اس صدمہ پر صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

مولانا عبدالرشید حنیف رحمۃ اللہ علیہ

محمد رمضان یوسف سلفی

جنوری 2005ء کے دوسرے ہفتے ایک روز شام کو میرے عزیز دوست مولانا فاروق الرحمن یزدانی (مدیر ماہنامہ ترجمان الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد) تشریف لائے ۔ اثنائے گفتگو فرمانے لگے سلفی صاحب آؤ آج تمہیں جھنگ کی سیر کرالائیں ۔ ان دنوں جماعت کے معروف خطیب اور نامور عالمِ دین حضرت مولانا حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب حج بیت اللہ کیلئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے ۔ جاتے ہوئے انہوں نے حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب سے فرمایا کہ وہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی جامع مسجد کوثراہلحدیث جھنگ میں 14 جنوری 2005ء کا جمعہ پڑ ھادیں ۔

مولانا حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب کے حافظ فاروق الرحمن صاحب سے گہرے دوستانہ مراسم قائم ہیں اور انہوں نے حافظ صاحب کے فرمان پر ان کی بات مان لی چنانچہ مولانا فاروق یزدانی صاحب نے جھنگ کیلئے رختِ سفرباندھا تو ازراہِ کرم مجھے بھی ہمراہ لے گئے ۔ ایک عرصے سے میرے دل میں ادارہ علوم اسلامی دیکھنے اور اس کے بانی سے ملاقات کا خیال انگڑ ائی لے رہا تھا۔ میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار حافظ فاروق الرحمن سے کر بھی دیا تھا اور میرے اس سفر کا سب سے بڑ ا مقصد بھی یہی تھا ۔ نمازِ جمعہ اور کھانے سے فراغت کے بعد جھنگ کے رہائشی ایک دوست کی ہمراہی میں گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے ہم پاپیادہ سمن آباد میں واقع ادارہ علوم اسلامی پر پہنچ گئے ۔ادارے کی عمارت میں واقع مطب میں ادارے کے بانی ایک صاحب سے محو گفتگو تھے اور ان کے ہاتھ میں کسی کتاب کا کمپوز شدہ مسودہ تھا۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحے کیلئے ہاتھ آگے بڑ ھا دیا انہوں نے ازراہِ کرم سلام کا جواب دیا، مصافحہ کیا اور مطب میں بڑ ے بینچ پر تشریف رکھنے کو کہا ان دنوں ادارہ علوم اسلامی میں لائبریری کی سیٹنگ اور صفائی کی جا رہی تھی اس باعث چیزیں منتشر تھی اور ان پر گرد وغبار پڑ ا ہوا تھا میں نے عرض کیا حضرت کوئی کپڑ ا عنایت کیجئے تاکہ بینچ کو گرد سے صاف کر دیا جائے فرمانے لگے ! مولانا مرکر مٹی میں ہی تو جانا ہے راقم نے عرض کیا حضرت مرنے کے بعد توجو ہو گا سوہو گا، جیتے جی تو کوئی بھی گرد آلود ہونا نہیں چاہتا بہرحال بینچ صاف کر دیا گیا اور ہم مولانا کے حکم پر اس پر تشریف فرما ہوگئے تھوڑ ی دیر بعد آپ کمپوزر سے فارغ ہوکر ہماری طرف متوجہ ہوئے میرے ساتھیوں نے اپنا اپنا تعارف کرایا جبکہ میں نے صرف اپنا نام محمد رمضان بتانے پر اکتفا کیا میرے دوست حافظ فاروق الرحمن فوراً بولے حضرت یہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ مولانا کہنے لگے آپ وہی رمضان یوسف سلفی ہیں جو علمائے اہل حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بڑ ے خوش ہوئے ساتھ ہی فرمانے لگے ماشاء اللہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں اور عمدگی سے علماء کا تعارف کراتے ہیں میں کیسا لکھتا ہوں یہ تو معزز قارئین ہی جانتے ہیں بہرحال مولانا نے اچھے الفاظ اور دعائیہ کلمات سے راقم کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ یہ تھے ادارہ علوم اسلامی جھنگ کے بانی، معروف مصنف اور جید عالمِ دین مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ ان سے میرے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی جو خوب یادگار رہی اس ملاقات کا تأثر اب تک قلب وذہن کو معطر کئے ہوئے ہے اور مولانا کی علم وعمل سے ہم آہنگ شخصیت نظروں کے سامنے ہے ۔
انہوں نے ہمیں اپنی لائبریری بھی دکھائی تھی اس میں حدیث ، تفاسیر، رجال، تاریخ اور مختلف ادیان ومذاہب کے بارے علمی وتحقیقی کتب کا وسیع ذخیرہ موجود تھا۔ ازراہِ کرم انہوں نے مجھے اور حافظ فاروق الرحمن صاحب کو اپنی اور بعض دیگر مصنفین کی کتابوں کی علیحدہ علیحدہ بوریاں بھر کر دیں مولانا محمد ادریس بھوجیانی مرحوم کی کتاب خاندان نبوت کا قلمی مسودہ اور ان کی یادرفتگاں کا قلمی مسودہ عنایت فرمایا ایک مطبوعہ کتاب شجرہ نسب علمائے بھوجیاں مرحمت فرمائی یہ علمی مسودات دے کر فرمانے لگے ! بچہ یہ چیزیں تمہارے کام آئیں گی انہیں سنبھال کر رکھنا اور پھر ڈھیروں دعاؤں سے انہوں نے ہمیں رخصت کیا ایک عرصے سے مولانا مرحوم سے میری خط وکتابت تھی ان کی کوئی کتاب شائع ہوتی تو وہ اپنے دستخطوں سے کتاب بھیجتے میں نے ان کی کئی کتب پر ماہنامہ صدائے ہوش لا ہور اور ماہنامہ ترجمان الحدیث فیصل آباد میں تبصرے لکھے ۔ ان کی تفسیر سورئہ الکوثر جب شائع ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی عبد الرحیم کے ہاتھ یہ کتاب مجھے بجھوائی۔ 14 جنوری 2005ء کو جب میں ان کی خدمت میں جھنگ حاضر ہوا تو انہوں نے اپنی عظیم علمی وتحقیقی کاوش تفسیر سورئہ یٰسین مرحمت فرمائی اور اس کے شروع صفحے پر یہ الفاظ لکھے :ہدیہ سینہ لاخ الصالح، الفاضل مولانا محمد رمضان یوسف سلفی ۔ ۔ ۔
عبد الرشید حنیف -1-14 2005ء اسی طرح کے الفاظ انہوں نے تفسیر سورئہ الکوثر کے شروع میں لکھے ۔ مولانا عبد الرشید حنیف صاحب خلیق ، ملنسار، مہمان نواز اور صالح انسان تھے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا اور پھر انہیں نبھانا خوب جانتے تھے بلاشبہ ان کا شمار دور حاضر کے عظیم المرتبت علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا انہوں نے درس وتدریس ، وعظ وتبلیغ اور ترجمہ وتصنیف کے ذریعے جو دینی خدمات سرانجام دی وہ قابل تحسین اور قابلِ رشک ہے ۔ مولانا محترم کے علمی کارناموں پر ضلع جھنگ ہی نہیں بلکہ پوری جماعت اہل حدیث کا ہر فردنازاں ہے وہ ایک دینی وعلمی خاندان کے چشم وچراغ تھے ان کے عالی قدر بزرگوں میں مولانا حکیم عبد الرحمن ، مولانا عبد السلام، مولانا عبد الستار، مولانا عبد النور اور مولانا عبد الکریم شفیق رحمہم اللہ اجمعین جیسے جید علماء کے نام نمایاں ہیں ۔
مولانا مرحوم نے جھنگ جیسے سنگلاخ علاقے میں توحید وسنت کی ضیاء پاشیاں کیں اور نیک نام ہوئے بسا اوقات توحید وسنت کے پرچار پر انہیں مخالفین کی طرف سے نشانہ ستم بھی بنایا گیا لیکن وہ عزم وہمت سے اپنے مشن پر گامزن رہے ان کی شب وروز کی محنت کا ثمر ہے کہ اس وقت اپنے تو اپنے بیگانے بھی ان کی دینی مساعی پر رطب اللسان ہیں ۔
مو لانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ6 جون 1936ء کو روڑ اں والی ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام کریم بخش تھا جو عالمِ دین تھے اور اس علاقے میں اچھے مبلّغ اور مدرّس تھے ۔
مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ رحمانیہ وریام میں اپنے والد مکرم سے حاصل کی اس کے بعد آپ دار العلوم تعلیم الاسلام اوڈاں والا میں پڑ ھتے رہے آخر میں مولاناشیخ الحدیث عبد اللہ رحمہ اللہ ویرو والوی کی خدمت میں لائل پور حاضر ہوئے اور کلیہ دار القرآن والحدیث جناح کالونی میں زیر تعلیم رہ کر درس نظامی کی تکمیل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا کریم بخش ، مولانا حکیم عبد الرحمن ، مولانا عبد الستار ، مولانا محمد یعقوب ملھوی ، مولانا عبد الصمد روؤف ، مولانا عبد اللہ محدث ویرو والوی اور مولانا خان محمد رحمہم اللہ اجمعین کے نام نمایاں ہیں ۔
تحصیل علم کے بعد مولانا عبد الرشید صاحب چار سال مادرِ علمی کلیہ دار القرآن جناح کالونی فیصل آباد میں مدرس رہے ۔ اس دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد ایف اے کیا اور طب وحکمت کے کورس پاس کیے ۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے خود کو درس وتدریس ، وعظ وتبلیغ اور تصنیف وتالیف میں مشغول کر لیا تھا اور ساری زندگی ان امور خیر کی انجام دہی میں مصروف عمل رہے ان کے والد مکرم مولانا کریم بخش گاؤں میں اقامت پذیر تھے اور وہ گاؤں کی مسجد کے امام وخطیب بھی تھے وہ نمازِ فجر کے بعد درس قرآن ارشاد فرماتے اور لوگوں کو توحید وسنت کی تعلیم دیتے ایک بار ان کی شیعہ حضرات سے ان کے ڈیرے پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے انہیں لاجواب کر دیا اس دن سے اہل حدیث کو گاؤں کے دیگر مکاتب فکر پر برتری حاصل ہوگئی ۔پھر کسی مسئلے میں گاؤں کے حنفیوں سے مولانا کریم بخش کا اختلاف ہو گیا وہ لوگ باہم مل کر مولانا عبد الرشید اور ان کے والد مولانا کریم بخش کو اور تو کوئی جواب نہ دے سکے البتہ انہوں نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جنہیں ان اہل توحید کیلئے پورا کرنا نا ممکن تھا مولانا کریم بخش کہنے لگے اس گاؤں کو چھوڑ اتو جا سکتا ہے لیکن قرآن وسنت کے خلاف کوئی عمل نہیں کیا جائے گا لہذا یہ دونوں باپ بیٹا گاؤں چھوڑ کر جھنگ میں آ کر قیام پذیر ہوگئے اور یہاں آ کر انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد اہل حدیث تعمیر کی اور توحید وسنت کی اشاعت کا کام نئے جذبے اور عزم وہمت سے شروع کر دیا۔ مولانا عبد الرشید رحمہ اللہ کے والد گرامی مولانا کریم بخش نے 11دسمبر 1983ء کو جھنگ میں وفات پائی۔
مولانا عبد الرشید حنیف صاحب نے والد کی وفات کے بعد اپنی مسجد اہل حدیث اور ادارہ علوم اسلامی کو خوب ترقی دی اور تن من دھن سے دعوت دین کا کام کیا ۔مولانا مرحوم کو تصنیف وترجمہ سے خاص شغف تھا اوروہ زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے لگے تھے ۔ 1955ء میں انہوں نے حقیقت پردہ کتاب لکھی۔
مولانا عبد الرشید حنیف صاحب کی تصانیف تین قسم کی ہیں ۔ (۱) تفاسیر القرآن (۲) اردو تراجم (۳) اصلاحی وتحقیقی کتب
اب اسی ترتیب سے ان کی تصنیفات کا تعارف ملاحظہ فرمائیں ۔
تفسیر سورۃ یٰسین : اس میں بڑ ا علمی مواد جمع کیا گیا ہے اور سورۃ یٰسین کی یہ ایک جامع تفسیرہے جو 534 صفحات پر مشتمل ہے ۔
تفسیر سورۃ الکوثر : اس میں نہایت عمدگی سے تفسیری نکات بیان کئے گئے ہیں اس کے صفحات کی تعداد200 ہے ۔
تفسیر سورۃ اخلاص : یہ تفسیر دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں مقدمہ اوردوسرے میں تفسیر ہے کل صفحات 232 ہیں ۔
تفسیر سورۃ العصر : اس تفسیر کے صفحات کی تعداد 96 ہے اس میں بھی عمدگی سے سورۃ العصر کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔
پانچ سور ہ : اس میں قرآن مجید کی پانچ سورتوں ، سورئہ کہف ، سجدۃ، دہر، اعلیٰ اور غاشیہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔
انہوں نے جن کتب کے عربی سے اردو تراجم کئے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے :
۱۔ اردو ترجمہ سنن دارمی رحمہ اللہ
۲۔ اردو ترجمہ قیام اللیل للمروزی رحمہ اللہ
۳۔ اردو ترجمہ کتاب الصلاۃ امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ
۴۔ اردو ترجمہ الدر لنفید امام الشوکانی رحمہ اللہ
۵۔ اردو ترجمہ الصوائق المحرقہ
۶۔ اردو ترجمہ فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ
۷۔ امہات المؤمنین اردو ترجمہ
۸۔اردو ترجمہ الاسلام اساس السعادۃ
۹۔ صرف عورتوں کیلئے ترجمہ
ان کی دیگر کتب کے نام یہ ہیں : مقبول نماز ، نماز نبوی، تحفہ عید قرباں ، امین کائنات ﷺ ، چہرے کا تاج ، بہار ایمان ، بہار قرآن ، قربانی کے چار دن اسلامی تہذیب ، اسوئہ عائشہ بتول رضی اللہ عنہا، الدعاء مخ العبادۃ ، احساس بندگی ، اسلام میں عورت کی حکمرانی ، احکام رمضان ، انبیاء کی دعائیں ، امام کعبہ جھنگ میں ، نبی نوع انسان کے لئے قیام ، برکات رمضان ، پیغمبر انقلاب ، تعمیر انسانیت، تحفہ معراج ، تنویر معاشرہ ، تعظیمی قیام، ثعلبہ بن خطاب ، حقیقت استغفار ، خصوصیت ماہ شعبان، خدائی گرفت، خون صحابہ، خطاب امام کعبہ لا ہور ، دو مذہبی دہشت گرد، رسول اللہ ﷺ بحیثیت قانون دان، رفع الیدین سے انکار کیوں ؟ ، زندگی کے قیمتی لمحات سے غفلت کیوں ؟ ، شاتم رسول کی سزا، صدیق نبوت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، صاع نبوی ﷺ عرفان توحید وشرک، عزرائیل کی گرفت، فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ ، فضائل قرآن ، فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ جنتی بزبان علی رضی اللہ عنہ جنتی ، قرآن مغربی مفکرین کی نظر میں ، ماہ مبارک، ماہ محرم ، ماہ صفرسے بدشگونی کیوں ؟، معجزات رسول ﷺ ، محفل میلاد کی شرعی حیثیت ، نظام مصطفیٰ ﷺ ، وضو اور غسل کی شرعی حیثیت اور انبیاء کی دعائیں ۔
مولانا عبد الرشید حنیف مرحوم تنظیمی اعتبار سے مرکزی جمعیت اہل حدیث سے منسلک تھے اور آپ جھنگ کے امیر تھے انہوں نے حضرت مولاناحافظ عبد العلیم یزدانی حفظہ اللہ صاحب کے ساتھ مل کر جماعت کی تعمیر وترقی میں بڑ ا کام کیا۔ چند سال پہلے ضلع جھنگ شدید مذہبی فرقہ پرستی اور شیعہ سنی فسادات کی لپیٹ میں تھا اس موقع پر قیام امن کے لئے مولانا مرحوم نے بحیثیت امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اپنے رفیق خاص محترم حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب کے ساتھ مل کر قابل قدر خدمات سرانجام دی ان کی اس مساعی حسنہ کے باعث انتظامیہ نے انہیں کئی بارامن ایوارڈزسے نوازا۔
مولانا مرحوم طبیب حاذق بھی تھے وہ اپنے مطب پر بھی بیٹھتے تھے اور اس کے علاوہ طبیہ کالج جھنگ میں پڑ ھاتے بھی تھے بلاشبہ وہ جامع جمیع علوم اور متبحر عالمِ دین تھے انہوں نے تکبر وغرور سے دور رہ کر سادگی سے زندگی بسر کی ۔ چند سال پہلے ان کا جوان بیٹا فوت ہو گیا تھا اس ناگہانی موت نے ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بڑ ا متاثر کیا اور کچھ عرصہ پہلے ان کا دوسرا جوان بیٹا بھی اس دنیا سے منہ موڑ کر آخرت کو روانہ ہوا ان پے درپے صدمات نے مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ صاحب کو اس قدر غم زدہ کیا کہ وہ بستر علالت پر فراش ہوگئے اور ان کی یاداشت بھی ختم ہوگئی تھی۔
آخر طویل علالت کے بعد 15مئی 2009ء کی صبح ۶ بجے جمعہ کے روز ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
اس روز شام ۶ بجے محدث دوراں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ صاحب نے ان کی نماز جنازہ پڑ ھائی اس موقع پر قائدین جماعت اہلحدیث اور سینکڑ وں جماعتی اور غیر جماعتی افراد نماز جنازہ میں شریک تھے اور ان کی مغفرت کیلئے دعا کر رہے تھے ۔ نماز مغرب سے پہلے ان کی تدفین عمل میں آئی اور اس عظیم عالمِ دین کو سرزمینِ جھنگ نے اپنی آغوش میں چھپا لیا ۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے عبد الرشید رحمہ اللہ کی خطاوؤں سے درگزر فرما کر انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اللہ کے لئے

محمد اکمل صدیقی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین أما بعد
محترم حضرات یہ چند گزارشات اللہ رب العزت کی رضا کے لیے عرض کر رہا ہوں اس خالق ومالک سے دعا ہے کہ وہ ان گزارشات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ آمین
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے گنا ہوں ، منکرات اور برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بہترین نعم البدل عطا فرمائے گا۔
دیکھئے ! خواہشات اور شہوات نفسی ، دلوں کو کنٹرول کر لیتی ہے بلکہ دلوں کو اپنے قبضے میں لیکر اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہیں ان شہوات سے جان چھڑ انا بہت کھٹن اور چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے ۔

لیکن جو دل اللہ تعالیٰ کے تقوی سے معمور ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے درخواستگار ہوں تو وہ کبھی اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے ۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ﴿وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ ﴾(الطلاق :۳)
جو شخص اللہ پربھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے کافی ہے ۔
جو شخص گنا ہوں اور خواہشات نفسی کو کسی غیر اللہ کیلئے چھوڑ تا ہے تو اس کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے لیکن اللہ کی رضا کیلئے گنا ہوں سے دور رہنے والے کو کوئی مشکل آڑ ے نہیں آتی صرف چند ابتدائی آزمائشیں ہوں گی تاکہ معلوم ہوکہ توبہ کرنے والا سچا اور خالص دل رکھتا ہے یا صرف ظاہراً توبہ کر رہا ہے ۔ اور یہ بھی یادرہے کہ گنا ہوں کی جس قدر لذت زیادہ ہو گی اور اسباب گناہ جتنے زیادہ ہوں گے ان سے توبہ کرنے والے کو اسی قدر اجر وثواب بھی زیادہ ملے گا۔
انسان فطرتاً خطا کا پتلا ہے اس لیے اگر دل کا جھکاؤ کبھی کبھار گنا ہوں کی طرف ہوجائے تو اسے فطرتی عمل گردانہ جائے اس لیے تقوی پر کوئی اثر نہیں پڑ تا لیکن گنا ہوں میں لت پت ہونا اور اس سے نفرت نہ رکھنا یہ قطعاً غلط ہے ۔ بلکہ ہمیشہ گنا ہوں سے جان چھڑ انے کی جدوجہد جاری رکھی جائے اور صمیم قلب سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے گنا ہوں کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑ ھ کر اور بہتر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔
بدلہ مختلف انواع کا ہو سکتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کا حصول ۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکون قلب واطمینان کا حاصل ہونا ۔دنیا وآخرت کی خیر وبرکت اور ا کرام وانعام الٰہی کا حصول زیر نظر سطور میں ہم مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھا رہے ہیں ۔
۱۔ جوشخص لوگوں سے مانگتا ہے اور ان کے آگے دست سوال کرنا چھوڑ دے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قناعت، صبر اور عزت نفس کی دولت عطا فرمائیں گے ۔ اس کا دل غنی اور خود دار ہو گا۔
فرمان رسول ﷺ ہے : جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرمائے گا (اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا) اور جو شخص مانگنے سے پرہیز کرے گا اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا فرمائے گا ۔ (ابوداؤد :۱۶۴۴)
۲۔ جو شخص تقدیر پر شکوہ کرنا اور اعتراض کرنا ترک کرے گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے گا اللہ تعالیٰ اسے رضا ویقین کی نعمت عطا فرمائے گا۔
اس کے انجام کو اچھا کرے گا ، اور جہاں سے اسے خیال تک بھی نہ ہو گا وہاں سے نعمت الٰہی سے سرفراز فرمائے گا ۔
۳۔ جو شخص جادو گروں ، کاہنوں اور عاملوں کے پاس جانا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے صبر ، توکل اور توحید خالص کی دولت سے سرشار کر دے گا۔
۴۔ جوشخص دنیا کے پیچھے مارا مارا پھرے گا ، اور ہمیشہ دولت دنیاوی کیلئے بھٹکنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے دل کا غنی کر دے گا اس کے تمام معاملات کو حل کر دے گا اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے پھرے گی۔
۵۔ جو شخص غیر اللہ سے ڈرنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے خوف سے نجات دے گا ، ہر چیز سے محفوظ کر دے گا ، امن وسلامتی کی دولت مہیا کرے گا۔
۶۔ جوشخص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا اور ہمیشہ سچ کو مدنظر رکھے گا تو اسے نیکی کی ہدایت ملے گی اور سچ بولنے کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق کہلائے گا ۔ عوام الناس میں اس کی سچائی ، صداقت وامانت کا احترام ہو گا اس کی عزت ومنزلت بڑ ھے گی۔
۷۔ جو آدمی جھگڑ ا کرنا ترک کر دے (اگرچہ وہ حق پر ہو) تو اللہ تعالیٰ اسے وسط جنت ایک محل کی ضمانت دیتا ہے اور وہ آدمی جھگڑ وں ، مصیبتوں سے محفوظ بھی رہے گا اور وہ پاکیزہ دل اور پاک دامن بھی ہوجائے گا۔
۸۔ جو آدمی کاروبار میں دھوکہ دہی ، خیانت کو ترک کرے گا تو لوگوں کا اعتماد اس پر بڑ ھتا جائے گا اس کا کاروبار وسیع تر ہوتاجائے گا۔
۹۔ جو شخص سودی کاروبار اور ناپاک کمائی کو ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت ڈال دے گا اس کیلئے خیر وبرکت کے دروازے کھل جائیں گے ۔
۱۰۔ جو شخص برے کاموں اور حرام کردہ مقامات پر نظر ڈالنا ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے فہم فراست ، اور نور قلب اور لذت عبادت عطا فرمائے گا۔
۱۱۔ جو شخص بخیلی اور کنجوسی کو ترک کرے گا اور سخاوت اور دریادلی کو اپ۔نا شعار بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی محبت ، قرابت الٰہی عطا فرمائے گا وہ شخص غموں ، پریشانیوں اور تنگ دلی سے نجات پائے گأ کمال وفضیلت کے درجوں پر فائز ہو گا۔
فرمان الٰہی ہے ﴿وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾(الحشر:۹)
اور جو شخص اپنے نفس کی بخیلی سے بچ گیا تو وہ فلاح پا گیا۔
۱۲۔ جو آدمی تکبر کرنا چھوڑ دے گا اور عاجزی اور انکساری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدرومنزلت کو بلند کر دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو اللہ کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے ۔ (رواہ البخاری)
۱۳۔ جو شخص بے وقت کی نیند کو ترک کر کے اور سستی اور کاہلی کو چھوڑ کر نماز کیلئے اٹھے تو اس کو اللہ تعالیٰ دلی خوشی، فرحت ونشاط اور محبت الٰہی عطا فرماتا ہے ۔
۱۴۔ جو شخص اللہ کیلئے سگریٹ نوشی ، نشہ آور اشیاء کو چھوڑ تا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اسے پھر حال میں ملتی ہے اس کو صحت وعافیت ملتی ہے یہ خوشی ہمیشہ رہنے والی ہے اور تندرستی ہزار نعمت ہے ۔
۱۵۔ جو شخص ذاتی انتقام کو باوجود قدرت کے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قلبی وسعت عطا فرمائے گا دلی خوشی ، اطمینان وسکون زندگی کی مٹھاس اور عزت نفس ملے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : معافی دینے والے کی عزت مزید بہتر ہوتی ہے ۔ (مسلم:۲۵۸۸)
۱۶۔ جو شخص بری صحبت اور دوستی کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اچھے دوست عطا کرتا ہے جن سے نفع وسکون ملتا ہے دنیا وآخرت کی بھلائیاں جن افراد کی محبت سے ملتی ہیں ۔
۱۷۔ جو شخض کثرت طعام کو ترک کرتا ہے تو اسے بڑ ے بڑ ے امراض سے نجات ملتی ہے ۔ پیٹ کی خرابیوں سے محفوظ رہتا ہے جو شخص زیادہ کھاتاپیتا ہے تو لازماً سوتا بھی بہت ہے ایسا شخص تو خیرات بہت سے ہی محروم رہتا ہے اور یہی چیزیں قوموں کی تباہی کا سبب ہیں ۔
۱۸۔ جو شخص قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔
۱۹۔ جو شخص غصہ کو ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت وکرامت کو بلند فرماتا ہے ندامت وشرمندگی کی ذلت سے وہ دور رہتا ہے رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی نے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : غصہ مت کیا کرو۔
امام ماوردی فرماتے ہیں کہ پھر باشعور اور عقل مند آدمی کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیے وہ حلم وبردباری اختیار کرے ، شدت پسندی سے ، غصے کو اپنی عقل وفراست سے محدود کر کے رکھے تاکہ خیر وبرکت اور سعادت وکامرانی اس کا مقدر بنے ۔
سیدنا امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ ایک دن کسی شخص پر شدید غضبناک ہوئے اس کو بطور سزا قید کرنے کا حکم دیا اور جب اسے کوڑ وں کو سزا دی جانے لگی تو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا : اس قیدی کو رہا کر دیا جائے ، میں نے جب اسے سزا سنائی تھی تو میں غصے میں آ گیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت بھی یہی بیان کی ہے کہ ﴿وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ ﴾(آل عمران:۱۳۴) مومن تو غصے کو پی جاتے ہیں ۔
۲۰۔ جو شخص عوام الناس کے عیبوں ، لغزشوں کا پردہ چاک نہ کرے تو بدلہ میں اس کے عیبوں پر بھی پردہ ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ لوگوں کے شر سے محفوظ رہے گا اس کی بصیرت وفراست میں اضافہ ہو گا ۔ سیدنا احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ جو شخض لوگوں کی ناپسندیدہ باتوں کی طرف جلدی لپکتا ہے تو لوگ بھی اس کے بارے میں چہ مگوئیاں شرع کر دیتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس نے کبھی نہ سنی ہوں گی ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے : اے بیٹے اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی سے بچاؤ۔
تم دوسروں کے عیبوں کو فاش کرو گے تو لوگ تمہیں بھی نشانہ بنالیں گے اور تم جانتے ہو کہ جس مقام پر بہت سے تیرپے درپے مارے جاتے ہوں تو وہ مقام اپنی قوت ومضبوطی کے باوجود کمزور ہوجاتا ہے بلکہ ٹوٹ کرگرجاتا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص واقعتاً مومن ہے تو وہ لوگوں کے عیبوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے جس طرح کوئی خود بیمار ہے تو وہ لوگوں کی بیماریوں کی طرف دیکھتابھی نہیں بلکہ اسے اپنی بیماری کی پڑ ی ہوتی ہے ۔
۲۱۔ جو شخص جاہلوں سے اور کم علم لوگوں سے مناظرے ، بحث ومباحث کو ترک کرتا ہے تو اس کی اپنی عزت بھی محفوظ ہوتی ہے اور اس کا نفس بھی سکون ہوتا ہے اور تکلیف دہ باتوں کو سننے سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ﴾ (الاعراف:۱۹۹) معافی دینے کو اپنا شعار بناؤ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے دور رہو۔
۲۲۔ جو شخص برے گمان سے بچتا ہے تو وہ اپنے دل کو فکر مندی ، پریشانی ، بدگمانی اور کدورت سے بچا لیتا ہے ۔
فرمان الٰہی ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ (الحجرات:۱۲)
اے مومنو! کثرت گمان سے بچو بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : برے گمان سے پرہیز کرو ، بیشک گمان جھوٹی بات ہے ۔(بخاری :۶۰۶۶) (جاری ہے )
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

سرکش پیڑ

محمد شعیب مغل

ہاں ! ہاں !ہم جنگ کیلئے تیار ہیں ۔۔۔ ہاں !ہم بھی جنگ کیلئے تیار ہیں ۔۔۔ ہم نے کوئی چوڑ یاں نہیں پہن رکھیں ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم کمزور ہوگئے ہیں ۔ ہمارے بازؤوں میں وہ قوت وطاقت نہیں رہی ہم آج بھی تمہارا برا حال کرسکتے ہیں ۔۔ ۔اور ولولہ انگیزاشعار کی آوازیں گھونجنے لگیں ۔لوگوں کا خون جوش مارنے لگا رونگٹے کھڑ ے ہوگئے ۔اور چہرے غصے اور غضب سے لال وسرخ ہونے لگے اور ہتھیار ۔۔۔ہتھیار کی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔ معرکہ بعاث آج ہم دوبارہ جوان بن کر دیکھائیں گے ۔

اور مقام حرّہ پر ہتھیار تھامے ہوئے ایک دوسرے کے مدمقابل جنگ کیلئے تیار تھے کہ یکدم رسول اللہ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ا آپہنچے اور ارشاد فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ! اللہ ۔ کیا میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کی پکار! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرما چکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دیکر تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ چکا ہے ۔ (الرحیق المختوم :ص/۳۲۴)
قارئین کرام! یہ واقعہ مدینہ میں اس وقت واقع ہو ا جب انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دونوں قبیلے ۔اوس وخزرج۔ کے چند افراد ایک ساتھ بیٹھے باہم کلام تھے کہ اتنے میں وہاں سے ایک بوڑ ھا یہودی کافر شاش بن قیس جس کے پاؤں قبر میں پڑ ے تھے گزرا اور بولا : اوہ! اس دیار میں بنو قیلہ کے افراد متحد ہوگئے ہیں ! بخدا ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گزر نہیں ۔ (الرحیق المختوم: ص/۳۲۴)اور اس نے تعصب ، عداوت اور نفرت سے بھرے زہر کی پھنکاریں ماریں اور صحابہ کو زہر آلودہ کر دیا ۔ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ﴾(التوبۃ:۱۰۰)یعنی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔
اور آج نہ جانے کتنے ہی شاش بن قیس ہمارے درمیان موجود ہیں جو دو بھائیوں ، دوستوں ، قبیلوں اور قوموں کے درمیان اپنا زہر اُگل رہے ہیں ۔ اور ان کے مابین انتشار برپا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ شیاطین ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی مذہب ۔ ان سے مسلمانوں کے درمیان الفت، محبت، اخوت اور رواداری کے جذبات برداشت نہیں ہوتے جس بنا پر یہ کبھی عبد اللہ بن أبی منافق کی شکل میں آتے ہیں تو کبھی ہنود ، یہود و نصاریٰ کی شکل میں ۔ اور ہم سمجھے بغیر ان شرور الناس کی باتوں پر کان دھرتے ہیں اور ان کے کلام پر یقین کرتے ہوئے دستِ گریباں ہوجاتے ہیں اور ان کے فریب میں آ کر اسلامی روایات کو پسِ پشت ڈال کر حسب ونسب ، عصبیت وجاہلیت کے گرویدے بن جاتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر اور اپنے نفسِ نفیس کو افضل ، ا کرم ، اعلیٰ وبرتر تصور کرتے ہوئے زمین پر متکبر انہ چال چلتے ہیں اور دوسروں کو ذلیل ، حقیر ، کمزور اور کمتر جانتے ہیں ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا﴾(بنی اسرائیل :۳۷)
اور تو زمین پر متکبرانہ چال نہ چل تو زمین کو ہرگز پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی پہاڑ وں کی طوالت کو پہنچ سکتا ہے ۔
اور انسان یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک ہی طریق اور ایک ہی قطرے سے ہوئی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :﴿فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ٭خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ ٭یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ﴾(الطارق:۵تا۷)
انسان غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ وہ پیدا کیا گیا ہے ذرا سے اچھلتے ہوئے پانی سے ، جو نکلتا ہے ریڑ ھ اور پسلیوں کے بیچ سے ۔ پر انسان پھر بھی عقل کے ناخن نہیں لیتا اور حدود کو پامال کرجاتا ہے ۔
قارئین کرام! یہ حرکات اور جذبات انسان میں کب پیدا ہوتے ہیں جب اس پر شیطان حاوی اور وہ دین مبین سے بہت دوری پر ہوجاتا ہے ۔ توپھر اعداء الاسلام کو اپنی فتنہ انگیزی پھیلانے کا بھر پور موقع مل جاتا ہے اور وہ ضعیف الإیمان افراد میں عصبیت کا بیج بوتے ہیں اور آہستہ آہستہ اسے جاہلیت کا پانی فراہم کرتے ہیں اور ایک دن آتا ہے کہ وہ ایک سرکش پیڑ بن چکا ہوتا ہے اور زہریلے ثمر سے مزین ہوتا ہے کہ جو چھوئے بھی تو بیمار ہوجائے ۔
قارئین کرام! اللہ رب العزت نے انسان کی نسبت فرمایا : ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ﴾(التین :۴)کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پیدا کیا اور خود اپنی نسبت فرمایا : ﴿فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ﴾(المومنون:۱۴) بڑ ا ہی بابرکت ہے اللہ جواحسن الخالقین ۔ اب سوال یہ کہ : کیا احسن الخالقین نے احسن تقویم کو فقط لہو ولغو ، حسب ونسب ، شہوت وھواء کا تابع بنا کر بھیجا ہے یا اس کی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات: ۵۶) میں نے جن وانس کو فقط اپنی عبادت کیلئے تخلیق کیا ہے ۔ یعنی احسن تقویم کا مقصدِ حیات اللہ کی عباد ت ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت ہی کیوں اور عبادت کیا ہے ؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴾( الملک :۲) اس نے موت وحیات کو تخلیق کیا تاکہ تمہیں آزما سکے کہ کون احسن عمل کرنے والا ہے ۔ احسن عمل کیا ہے ؟ احسن عمل :وہ عمل ہے جس کا حکم رب تعالیٰ اور نبی مکرم ﷺ نے دیا ہو ۔ اور وہی عبادت ہے ۔ اسم جامع لما یحبہ اللہ من الأقوال والأفعال الظاہرۃ والباطنۃ یہ ایک ایسا جامع اسم ہے کہ انسان کے تمام ظاہری وباطنی اقوال وافعال جو اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے وہ عبادت ہے ۔ جبکہ برعکس اس کے احسن تقویم عصبیت کی لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور قتال پر آمادہ کرتا ہے اور عصبیت کی خاطر غصے میں آ جاتا ہے جو کہ اللہ کی ناراضگی کاسبب بنتا ہے جیسے نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لیس منا من دعا إلی عصبیۃ ، ولیس منا من قاتل علی عصبیۃ ، ولیس منا من غضب لعصبیۃ۔ (مسلم)
جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پہ لڑ ا وہ ہم میں سے نہیں ، اور جو عصبیت کی وجہ سے غصے ہوا وہ ہم میں سے نہیں ۔ کیونکہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ﴾(الحجرات: ۱۳) اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبائل بنائے تاکہ تم پہچانے جا سکویقینا اللہ کے ہاں مکرم متقی ہے اور اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ یہ تمہارے خاندان، قبائل اور قومیں جن پر تم اپنا حسب ونسب چلاتے ہو اور اپنے آپ کو خود بنفسہ افضل وا کرم جانتے ہو حقیقت میں یہ تو صرف تمہارے تعارف کیلئے ہے اور تم میں مکرم تو وہ ہے جو اللہ کے ہاں ا کرام والا متقی، پر ہیزگاراور خوف الٰہی رکھنے والا ہے ۔اور یہ جان لو کہ رب تعالیٰ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے کہ اس میں کتنا تقویٰ ہے نہ کہ تمہاری صورتوں کو ، نہ حسب کو ، نہ نسب کو، نہ جسد کو ، بلکہ جس کا دل صالح ہو گا اللہ تعالیٰ اس پر سکینہ نازل فرماتا ہے نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : إن اللہ لا ینظر إلی أحسابکم، ولا إلی أنسابکم ، ولا إلی أجسامکم ، ولا إلی أموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم فمن کان لہ قلب صالح تحنن اللہ علیہ وإنما أنتم بنو آدم وأحبکم إلیہ أتقاکم ۔ (القرطبی)
بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے حسب ، نسب ، جسد اور اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور جس کا دل صالح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور تم آدم کی اولاد ہو اور تم میں متقی اللہ کے ہاں محبوب ہے ۔
قارئین کرام! تقویٰ ، پرہیزگاری ، خدا ترسی ، صبر ، استقامت جیسی اعلیٰ صفات اپنے اندر پیدا کریں اور عصبیت و جاہلیت پر فخرو تکبر جیسی مذموم عادات سے اپنے آپ کوبری کریں کیونکہ اس میں ہی دین و دنیا کا نفع ہے اور آج ہم پر مصائب ومشاکل کے جو پہاڑ ٹوٹ پڑ ے ہیں یہ ہمارے اعمال اور آپس میں تفارق ونفاق کی بنا پر ہے ۔ یہ وطن عزیز جو کلمہ طیبہ کے نام پر آزاد کروایا تھا اور جسے مسلمانوں کی ریاست تسلیم کیا گیا تھا آج یہ پنجابی ، سندھی، بلوچی ، پٹھان ، مہاجر، کشمیری، سرائیکی اور دوسری قوموں کی ریاست رہ گئی ہے نہ کہ مسلمانوں کی۔
بقول شاعر

یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ۔اقبال۔
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

کچھ باتیں خواتین سے

محمد فہد شمسی

جس کے سبب آج کفار ہم پر حاوی اور مسلط ہوگئے ہیں ۔ آج سب اپنی نسبت سوچتے ہیں ملت کیلئے نہیں ۔ اے میرے وطن عزیز کے لوگوں اور ملت اسلامیہ کیلئے سوچو ! وطن عزیز کیلئے سوچو ! ۔ یادرکھو! یہ وطن عزیز ہے تو ہم ہیں ورنہ ہمارا حال اندلس کی مانند ہو گاکہ آنے والے لوگ کہیں گے ہاں کبھی یہاں پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوا کرتی تھی۔
اے میرے وطن عزیز کے سپوتو! ایک ہوجاؤ ، متحد بنیان مرصوص کی مانند کہ کوئی دشمن تمہاری صفوں میں داخل نہ ہو سکے ، اختلافات کو بھلا دو ، اور دشمنانِ اسلام اور وطن کا ڈٹ کا مقابلہ کرو، اسی میں بقا، عزت اور فلاح ہے ۔بقول شاعر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر ۔اقبال۔

خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں اور اس اعتبار سے وہ ہرگز نظر انداز کئے جانے کے لائق نہیں ہیں جبکہ ہمارے دین میں بھی انہیں ہر حیثیت سے قابل توقیر مقام حاصل ہے ۔ انہیں جو حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں دنیا کے ہر منصب اور معاشرے کی عورت ان سے محروم ہے یہ دینی علوم سے دوری اور بے خبری کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے اسلامی معاشرے کی عورت بے بنیاد، غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے ۔حقوق آزادی نسواں کی علم بردار خواتین اگر قرآن وحدیث کا بغور مطالعہ کریں تو انہیں یہ ضرور معلوم ہوجائے گاکہ مغرب کے دلفریب معاشرے کی نقالی اور مغربی عورت کی بے مقصد آزادی بے پردگی حقوق نسواں نہیں بلکہ اصلی حقوق وہ ہیں جو اسلام نے عورت کو ہر حیثیت میں دئیے ہیں ۔
دینی تعلیم سے بے بہرہ بہت سی خواتین کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ اللہ نے نبوت اور رسالت کی ذمہ داری کسی عورت کو نہیں دی اس طرح (نعوذ باللہ) اللہ نے بھی مردوں کے ساتھ خصوصی امتیاز برقرار رکھا اور خواتین کو نبوت ورسالت کے لائق نہ جانا ، حالانکہ خواتین بھی یہ ذمہ داری ادا کرسکتی تھیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بیشک اللہ نے کسی عورت کو نبوت ورسالت سے مشرف نہیں فرمایا لیکن عورت کیلئے یہ اعزازکیا کم ہے کہ ماسوائے آدم علیہ السلام ہر نبی اور رسول نے عورت کی کوکھ ہی سے جنم لیا ہے وہ نبی اور رسول نہیں لیکن نبیوں اور رسولوں کی ماں ہے اور اس کیلئے یہ اعزاز بھی کیا کم ہے کہ انبیاء اور رسول کی بھی جنت اس کے قدموں تلے ہے ۔
سیدنا عیسی علیہ السلام اللہ کے پانچ برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ فرما کر قرآن مجید میں مذکور فرمایا ہے یہ بلند ترین مقام کے حامل پیغمبر بھی بالفاظ قرآنی اپنی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿وَبَراًّ بِوَالِدَتِی﴾(مریم:۳۲) یعنی میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں ۔
معلوم یہ ہوا کہ اللہ کے بلند رتبہ نبی اور رسول بھی اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت کرنے پر من جانب اللہ مامور ہیں ایک دوسرے مقام پر بغیر کسی قسم کے استثنیٰ کہ ارشاد ربّ العالمین ہے ۔
﴿وَقَضَی رَبُّکَ اَلاَّ تَعبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالوَلِدَینِ إِحسَانًا﴾(نبی اسرائیل :۲۳)
اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ازلی اور ابدی ہے اس میں تمام جن وانس بشمول اپنے تمام طبقات شامل ہیں یعنی ہر نبی ، ہر رسول ، ہر ولی ، ہر عابد وزاہد ، ہر متقی ، ہر اونچے سے اونچا اور ہر کم سے کم تر سب لوگ اس بات کے ہمیشہ کیلئے پابند کر دیئے گئے ہیں کہ عبادت وہ صرف اللہ کی کریں اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھا برتاؤ کریں گے ۔
کاش کہ خواتین اس امر پر غور کریں کہ کیا دنیا کے کسی اور مذہب ومعاشرے میں خواتین کو یہ بلندی وسرفرازی اور یہ شان وشوکت اور یہ عظمت ورفعت حاصل ہے جو اسلام اوراسلامی معاشرے میں انہیں حاصل ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اپنے معبود واحد ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد اُن پر دوسرا حق والدین کا بیان فرمایا جن میں والدہ کا حق والد کے حق سے بڑ ھ کر ہے ۔آخر میں میں چاہتا ہوں کہ خواتین کواسلام میں اپنے حقوق معلوم ہونے چاہئیں اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کیلئے ایک بلند رتبہ عالی شان، معزز اور محترم مقام اگر اسلام نے انہیں ماں کی صورت میں عنایت کیا ہے تو بحیثیت بیوی بھی وہ اپنے شوہر کی بادشاہت میں اُس کے گھر کی ملکہ اُس کی عزت اور آبرو اس کے دل کی راحت اور اُس کے بچوں کی معلمہ اور مربیّہ ہے ۔
کاش کہ خواتینِ اسلام اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانیں اور مغرب کی جھوٹی آزادی اور پرفریب نعروں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق گزاریں ۔ اللہ رب العزت ہمیں ہدایت الٰہی پر کاربند بنائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

اخبار الجامعہ

محمد طیب معاذ
گذشتہ دنوں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں محقق اہلحدیث سرمایہ اہلحدیث فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ رئیس ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد تشریف لائے ۔ انہوں نے نمازِظہر کے بعد طلباء کرام کو خصوصی پند ونصائح سے نوازا جس کا خلاصہ افادہ قارئین کیلئے پیشِ خدمت ہے ۔
بعد الحمد والصلاۃ
واجب الاحترام اساتذہ عظام اور طلباء کرام میں انتہائی اختصار کے ساتھ صرف دو چیزوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں اور یہی دو چیزیں دورِ طالب علمی میں آپ کے پیشِ نظر رہنی چاہیے سب سے پہلے تو آپ اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانئے کہ آپ ہی علوم نبوت کے حقیقی وارث ہیں آپ کو بلغوا عنی ولو آیۃ کے عظیم فریضہ کو ادا کرنے کیلئے ہرممکن تگ و دو کرنی چاہیے ہمارا معاشرہ اخلاقی بگاڑ کا بری طرح شکار ہو چکا ہے ۔

اخلاقی قدریں نا پید اور اسلامی تہذیب وتمدن گم ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود یہ معاشرہ وارثان علوم نبوت کی بے عملی اور بدعملی برداشت نہیں کرتا۔ ہمیں ہر حال اور ہر جگہ لوگوں کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے ہمارے اسلاف اسلامی تعلیمات کا اس قدر پاس اور خیال رکھتے تھے کہ محدث عظیم علی بن المدینی رحمہ اللہ کے بارے میں ترجمہ نگاروں نے لکھا ہے کہ لوگ ان کے نشست برخاست کے طریقے گفتگو کرنے کے سلیقے اور ان کی وضع قطع کو نوٹ کیا کرتے تھے اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارا کرتے تھے اہل علم کی بدعملی اور بے عملی سے دین اسلام پر دھبہ پڑ تا ہے اس لیے ورثاء علوم نبوت کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل صالح سے تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں ۔
دوسری نصیحت: فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ نے اپنے خطاب میں طلبا کرام کو حصول علم میں مشقت برداشت کرنے کی تلقین کی انہوں نے فرمایا کہ اہل خیر اور مدارس کے منتظمین نے آپ لوگوں کیلئے ہمہ قسم کی سہولیات مہیا کی ہیں اور دن رات آپ کی ضروریات کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ تو طلبا کا بھی یہ حق بنتا ہے وہ اپنے آپ کو حصولِ علم کیلئے وقف کر دیں آپ کی تمام تر مصروفیات حصول علم کیلئے ہونی چاہیے اگر طلبا کرام حصول علم میں سستی کرتے ہیں تو یہ مدرسہ کے ساتھ نمک حرامی ہے ۔انہوں نے اپنے وعظ میں کثرت کیساتھ سلف صالحین کے واقعات کا تذکرہ کیا جس میں انہوں نے سبیل علم میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا امام حجاج بن مشاعر رحمہ اللہ جوکہ امام مسلم رحمہ اللہ کے استاذ ذِی وقار ہیں فرماتے ہیں کہ میں جب حصول علم کیلئے گھر سے نکلا تو میری والدہ محترمہ نے 100روٹیاں پکا کر بطور زاد راہ عطا کی تو امام حجاج بن مشاعر رحمہ اللہ ہر روز ان روٹیوں میں سے ایک روٹی جوکہ مرورِ زمانہ کے باعث خشک ہو چکی تھی پانی میں ڈبو کر کھاتے تھے وہ اپنی ایک خشک روٹی کیساتھ 24گھنٹے گزارتے تھے یہاں تک کہ 100دن گزر گئے تو آپ اندازہ لگائیں کہ کتنی مشکلات اور مصائب اٹھائیں یعنی کہ تن آسانی سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ مسند العصر حافظ سلیمان بن احمدطبرانی (۶۶۰) رحمہم اللہ جنہوں نے امت اسلامیہ کیلئے معاجم ثلاثۃ جیسی مفیدکتب تالیف کی ہیں ان سے کسی سائل نے پوچھا کہ آپ نے یہ علم وفضل کیسے حاصل کیا آپ نے کس طرح یہ عظیم الشان کتب سپرد قلم کی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تقریباً 30 سال تک نرم بستر پر نہیں لیٹا صرف ٹیک لگا کر کچھ دیر سستا لیتا پھر تعلیم وتعلم اور کتابتِ علم میں مصروف ہوجاتا تھا ۔ (رحمہم اللہ جمیعاً)
اس لئے آپ کو بھی حصولِ علم میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے ۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلف صالحین کا صحیح خلف (جانشین) بنائے ۔ آمین
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>

بدع الحج والعمرۃ والزیارۃ

للشيخ ناصر الدين الألباني رحمه الله

وقد رأیت أن ألحق بالکتاب ذیلاً أسرد فیہ بدع الحج ، وزیارۃ المدینۃ المنورۃ ، وبیت المقدس، لأن کثیراً من الناس لا یعرفونہا فیقعون فیہا ، فأحببت أن أزیدہم نصحاً ببیانہا والتحذیر منہا ، ذلک لأن العمل لا یقبلہ اللہ تبارک وتعالی إلا إذا توفر فیہ شرطان اثنان.
الأول : أن یکون خالصاً لوجہہ عز وجل .
والآخر: أن یکون صالحاً ، ولا یکون صالحاً إلا إذا کان موافقاً للسنۃ غیر مخالف لہا ، ومن المقرر عند ذوی التحقیق من أہل العلم ، أن کل عبادۃ مزعومۃ لم یشرعہا لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقولہ ، ولم یتقرب ہو بہا إلی اللہ بفعلہ فہی مخالفۃ لسنتہ ، لأن السنۃ علی قسمین.

سنۃ فعلیۃ ، وسنۃ ترکیۃ ، فما ترکہ صلی اللہ علیہ وسلم من تلک العبادات فمن السنۃ ترکہا ، ألا تری مثلاً ، أن الأذان للعیدین ولدفن المیت مع کونہ ذکراً وتعظیماً للہ عز وجل لم یجز التقرب بہ إلی اللہ عز وجل ، وما ذلک إلا لکونہ سنۃ ترکہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وقد فہم ہذا المعنی أصحابہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فکثر عنہم التحذیر من البدع تحذیراً عاماً کما ہو مذکور فی موضعہ ، حتی قال حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ : کل عبادۃ لم یتعبدہا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوہا
وقال ابن مسعود رضی اللہ عنہ: اتبعوا ولا تبتدعوا ، فقد کفیتم ، علیکم بالأمر العتیق ۔
فہنیئاً لمن وفقہ اللہ للإخلاص لہ فی عبادتہ ، واتباع سنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یخالطہا ببدعۃ ، إذاً فلیبشر بتقبل اللہ عز وجل لطاعتہ ، وإدخالہ إیاہ فی جنتہ . جعلنا اللہ من الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ .
واعلم أن مرجع البدع المشار إلیہا إلی أمور :
الأول : أحادیث ضعیفۃ لا یجوز الاحتجاج بہا ولا نسبتہا إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ومثل ہذا لا یجوز العمل بہ عندنا علی ما بینتہ فی مقدمۃ صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، وہو مذہب جماعۃ من أہل العلم کابن تیمیۃ وغیرہ ۔
الثانی : أحادیث موضوعۃ ، أو لا أصل لہا ، خفی أمرہا علی بعض الفقہاء ، فبنوا علیہا أحکاماً ہی من صمیم البدع و محدثات الأمور۔
الثالث : اجتہادات واستحسانات صدرت من بعض الفقہاء ، خاصۃ المتأخرین منہم ، لم یدعموہا بأی دلیل شرعی ، بل ساقوہا مساق المسلمات من الأمور ، حتی صارت سنناً تتبع ! ولا یخفی علی المتبصر فی دینہ ، أن ذلک مما لا یسوغ اتباعہ ، إذ لا شرع إلا ما شرعہ اللہ تعالی ، وحسب المستحسن ۔ إن کان مجتہداً ۔ أن یجوز لہ ہو العمل بما استحسنہ ، وأن لا یؤاخذہ اللہ بہ ، أما أن یتخذ الناس ذلک شریعۃ وسنۃ فلا، ثم لا. فکیف وبعضہا مخالف للسنۃ العملیۃ کما سیأتی التنبیہ علیہ إن شاء اللہ تعالی ؟
الرابع : عادات وخرافات لا یدل علیہا الشرع، ولا یشہد لہا عقل ، وإن عمل بہا بعض الجہال واتخذوہا شرعۃ لہم ، ولم یعدموا من یؤیدہم ، ولو قی بعض ذلک ممن یدعی أنہ من أہل العلم ، ویتزیا بزیہم .
ثم لیعلم أن ہذہ البدع لیست خطوتہا فی نسبۃ واحدۃ ، بل ہی علی درجات ، فبعضہا شرک وکفر صریح کما ستری ، وبعضہا دون ذلک ، ولکن یجب أن یعلم أن أصغر بدعۃ یأتی الرجل بہا فی الدین ہی محرمۃ بعد تبین کونہا بدعۃ ، فلیس فی البدع ۔ کما یتوہم بعضہم ۔ ما وہو فی رتبۃ المکروہ فقط ، کیف ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : کل بدعۃ ضلالۃ ، وکل ضلالۃ فی النار أی صاحبہا .
وقد حقق ہذا أتم تحقیق الإمام الشاطبی رحمہ اللہ فی کتابہ العظیم الاعتصام ولذلک فأمر البدعۃ خطیر جداً ، لا یزال أکثر الناس فی غفلۃ عنہ ، ولا یعرف ذلک إلا طائفۃ من أہل العلم وحسبک دلیلاً علی خطورۃ البدعۃ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : إن اللہ احتجر التوبۃ عن کل صاحب بدعۃ ، حتی یدع بدعتہ ۔ ((رواہ الطبرانی والضیاء المقدسی فی الأحادیث المختارۃ ، وغیرہما بسند صحیح ، وحسنہ المنذری )
وأختم ہذہ الکلمۃ بنصیحۃ أقدمہا إلی القراء من إمام کبیر من علماء المسلمین الأولین ، وہو الشیخ حسن بن علی البَرْبَہاری من أصحاب الإمام أحمد رحمہ اللہ المتوفی سنۃ (۳۲۹) ، قال رحمہ اللہ تعالی : واحذر من صغار المحدثات ؛ فإن صغار البدع تعود حتی تصیر کباراً ، وکذلک کل بدعۃ أحدثت فی ہذہ الأمۃ کان أولہا صغیراً یشبہ الحق ، فاغتر بذلک من دخل فیہا ، ثم لم یستطیع المخرج منہا ، فعظمت ، وصارت دیناً یدان بہ ، فانظر رحمک اللہ کل من سمعت کلامہ من أہل زمانک خاصۃ فلا تعجلن ، ولا تدخل فی شیء منہ حتی تسأل وتنظر : ہل تکلم فیہ أحد من أصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم أو أحد من العلماء ؟ فإن أصبت أثراً عنہم فتمسک بہ ، ولا تجاوزہ لشیء ، ولا تختر علیہ شیء ، فتسقط فی النار .
واعلم رحمک اللہ أنہ لا یتم إسلام عبد حتی یکون متبعاً ونصدقاً مسلماً ، فمن زعم أنہ قد بقی شیء من أمر الإسلام لم یکفوناہ أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقد کذبہم ، وکفی بہذا فرقۃ وطعناً علیہم ، فہو مبتدع ضال مضل ، محدث فی الإسلام ما لیس فیہ ۔
قلت : ورحم اللہ الإمام مالک حیث قال : لا یصلح آخر ہذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولہا ، فما لم یکن یومئذ دیناً ، لا یکون الیوم دیناً ۔
وصلی اللہ علی نبینا القائل: ما ترکت شیئاً یقربکم إلی اللہ إلا وقد أمرتکم بہ ، وما ترکت شیئاً یبعدکم عن اللہ ، ویقربکم إلی النار ، إلا وقد نہیتکم عنہ ۔
والحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات .
بدع ما قبل الإحرام
۱ ۔ الإمساک عن السفر فی شہر صفر ، وترک ابتداء الأعمال فیہ من النکاح والبناء وغیرہ .
۲ ۔ ترک السفر فی محاق الشہر ، وإذا کان القمر فی العقرب .
۳ ۔ ترک تنظیف البیت وکنسہ عقب السفر المسافر .
۴ ۔ صلاۃ رکعتین حین الخروج إلی الحج ، یقرأ فی الأولی بعد الفاتحۃ و( قل یا أیہا الکافرون ) ، وفی الثانیۃ ( الإخلاص ) فإذا فرغ قال : اللہم بک انتشرت ، وإلیک توجہت ۔ ۔ ۔ ویقرأ آیۃ الکرسی ، وسورۃ الإخلاص ، والمعوذتین وغیر ذلک مما جاء فی بعض الکتب الفقہیۃ .
۵ ۔ صلاۃ أربع رکعات .
۶ ۔ قراء ۃ المرید للحج إذا خرج من منزلہ آخر سورۃ ( آل عمران ) وآیۃ الکرسی و ( أنا أنزلناہ ) و ( أم الکتاب ) ، بزعم أن فیہا قضاء حوائج الدنیا والآخرۃ .
۷ ۔ الجہر بالذکر والتکبیر عند تشییع الحجاج وقدومہم .
۸ ۔ الأذان عند تودیعہم .
۹ ۔ المحمل والاحتفال بکسوۃ الکعبۃ .
۱۰۔ تودیع الحجاج من قبل بعض الدول بالموسیقی ! .
۱۱۔ السفر وحدہ أنسا باللہ تعالی کما یزعم بعض الصوفیۃ ! .
۱۲ ۔ السفر من غیر زاد لتصحیح دعوی التوکل ! .
۱۳۔ السفر لزیارۃ قبور الأنبیاء والصالحین
۱۴۔ عقد الرجل علی المرأۃ المتزوجۃ إذا عزمت علی الحج ، ولیس معہا مَحْرَم ، یعقد علیہا لیکون معہا کمحرم ۔
۱۵۔ مؤاخاۃ المرأۃ للرجل الأجنبی لیصیر بزعمہما محرماً لہا ، ثم تعاملہ کما تعامل محارمہا .
۱۶۔ سفر المرأۃ مع عصبۃ من النساء الثقات ۔ بزعمہن ۔ بدون محرم ، ومثلہ أن یکون مع إحداہن محرم ، فیزعمن أنہ محرم علیہن جمیعاً.
۱۷۔ أخذ المکس من الحجاج القاصدین لأداء فریضۃ الحج .
۱۸۔ صلاۃ المسافر رکعتین کلما نزل منزلاً ، وقولہ : اللہم أنزلنی منزلاً مبارکاً وأنت خیر المنزلین .
۱۹۔ قراء ۃ المسافر فی کل منزل ینزلہ سورۃ الإخلاص ، إحدی عشرۃ مرۃ وآیۃ الکرسی مرۃ ، وآیۃ ( وما قدروا اللہ حق قدرہ ) مرۃ .
۲۰ ۔ الأکل من فَحا ( یعنی البصل ) کل أرض یأتیہا المسافر .
۲۱۔ قصد بقعۃ یرجو الخیر بقصدہا ، ولم تستحب الشریعۃ ذلک ، مثل المواضع التی یقال : إن فیہا أثر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، کما یقال فی صخرۃ بیت المقدس ، ومسجد القدم قبلیّ دمشق ، وکذلک مشاہد الأنبیاء والصالحین.
۲۲۔ شہر السلاح عند قدوم تبوک ۔
بدع الإحرام والتلبیۃ وغیرہا
۲۳ ۔ اتخاذ نعل خاصۃ بشروط معینۃ معروفۃ فی بعض الکتب .
۲۴ ۔ الإحرام قبل المیقات .
۲۵ ۔ الاضطباع عند الإحرام
۲۶ ۔ التلفظ بالنیۃ .
۲۷ ۔ الحج صامتاً لا یتکلم ۔
۲۸۔ التلبیۃ جماعۃ فی صوت واحد ۔
۲۹۔ التکبیر والتہلیل بدل التلبیۃ ۔
۳۰۔ القول بعد التلبیۃ : اللہم إنی أرید الحج فیسرہ لی وأعنی علی أداء فرضہ وتقبلہ منی ، اللہم إنی نویت أذاء فریضتک فی الحج ، فاجعلنی من الذین استجابوا لک .
۳۱ ۔ قصد المساجد التی بمکۃ ، وما حولہا غیر المسجد الحرام ، کالمسجد الذی تحت الصفا ، وما فی سفح أبی قبیس ، ومسجد المولد ، ونحو ذلک من المساجد التی بنیت علی آثار النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
۳۲ ۔ قصد الجبال والبقاع التی حول مکۃ ، مثل جبل حراء ، والجبل الذی عند منی ، الذی یقال : إنہ کان فیہ الفداء ، ونحو ذلک .
۳۳ ۔ قصد الصلاۃ فی مسجد عائشۃ ب۔ ( التنعیم ) .
۳۴۔ التصلب أمام البیت ۔
بدع الطواف
۳۵ ۔ الغسل للطواف ۔
۳۶۔ لبس الطائف الجورب أو نحوہ لئلا یطأ علی ذرق الحمام ، وتغطیۃ یدیہ لئلا یمس امرأۃ ۔
۳۷ ۔ صلاۃ المحرم إذا دخل المسجد الحرام تحیۃ المسجد ۔
۳۸ ۔ قولہ : نویت بطوافی ہذا الأسبوع کذا کذا ۔
۳۹ ۔ رفع الیدین عند استلام الحجر کما یرفع للصلاۃ ۔
۴۰ ۔ التصویت بتقبیل الحجر الأسود ۔
۴۱ ۔ المزاحمۃ علی تقبیلہ ، ومسابقۃ الإمام بالتسلیم فی الصلاۃ لتقبیلہ .
۴۲ ۔ تشمیر نحو ذیلہ عند استلام الحجر أو الرکن الیمانی ۔
۴۳ ۔ قولہم عند استلام الحجر: اللہم إیماناً بک ، وتصدیقاً بکتابک ۔
۴۴ ۔ القول عند استلام الحجر : اللہم إنی أعوذ بک من الکبر والفاقۃ ، مراتب الخزی فی الدنیا والآخرۃ .
۴۵ ۔ وضع الیمنی علی الیسری حال الطواف.
۴۶ ۔ القول قبالۃ باب الکعبۃ: اللہم إن البیت بیتک ، والحرم حرمک ، والأمن أمنک ، وہذا مقام العائد بک من النار ، مشیراً إلی مقام إبراہیم علیہ السلام .
۴۷ ۔ الدعاء عند الرکن العراقی : اللہم إنی أعوذ بک من الشک والشرک ، والشقاق والنفاق ، وسوء الأخلاق ، وسوء المنقلب فی المال والأہل والولد .
۴۸ ۔ الدعاء تحت المیزاب : اللہم أظلنی فی ظلک یوم لا ظل إلا ظلک ... إلخ .
۴۹ ۔ الدعاء فی الرَّمَل : اللہم اجعلہ حجاً مبروراً ، وذنباً مغفوراً ، وسعیاً مشکوراً ، وتجارۃ لن تبور ، یا عزیز یا غفور .
۵۰۔ وفی الأشواط الأربعۃ الباقیۃ : رب اغفر وارحم ، وتجاوز عما تعلم ، إنک أنت الأعز الأکرم .
۵۱۔ تقبیل الرکن الیمانی .
۵۲۔ تقبیل الرکنین الشامیین والمقام واستلامہما۔
۵۳ ۔ التمسح بحیطان الکعبۃ والمقام ۔
۵۴ ۔ التبرک ب۔ العروۃ الوثقی: وہو موضع عال من جدار البیت المقابل لباب البیت ، تزعم العامۃ أن من نالہ بیدہ ، فقد استمسک بالعروۃ الوثقی ۔
۵۵۔ مسمار فی وسط البیت ، سموہ سرَۃ الدنیا ، یکشف أحدہم عن سرتہ ویتبطح بہا علی ذلک الموضع ، حتی یکون واضعاً سرتہ علی سرۃ الدنیا ۔
۵۶ ۔ قصد الطواف تحت المطر ، بزعم أن من فعل ذلک غفر لہ ما سلف من ذنبہ .
۵۷ ۔ التبرک بالمطر النازل من میزاب الرحمۃ من الکعبۃ .
۵۸ ۔ ترک الطواف بالثوب القذر ۔
۵۹ ۔ إفراغ الحاج سؤرہ من ماء زمزم فی البئر وقولہ : اللہم إنی أسألک رزقاً واسعاً ، وعلماً نافعاً ، وشفاء من کل داء ..
۶۰ ۔ اغتسال البعض من زمزم .
۶۱ ۔ اہتمامہم بزمزمۃ لحاہم ، وزمزمۃ ما معہم من النقود والثیاب لتحل بہا البرکۃ۔
۶۲ ۔ ما ذکر فی بعض کتب أنہ یتنفس فی شرب ماء زمزم مرات ، ویرفع بصرہ فی کل مرۃ وینظر إلی البیت !
بدع السعی بین الصفا والمروۃ
۶۳ ۔ الوضوء لأجل المشی بین الصفا والمروۃ بزعم أن من فعل ذلک کتب لہ بکل قدم سبعون ألف درجۃ !
۶۴ ۔الصعود علی الصفا حتی یلصق بالجدار ۔
۶۵ ۔ الدعاء فی ہبوطہ من الصفا :اللہم استعملنی بسنۃ نبیک ، وتوفنی علی ملتہ ، وأعذنی من مضلات الفتن ، برحمتک یا أرحم الراحمین .
۶۶ ۔ القول فی السعی : رب اغفر وارحم ، وتجاوز عما تعلم ، إنک أنت الأغر الأکرم ، اللہم اجعلہ حجاً مبروراً ، أو عمرۃ مبرورۃ ، وذنباً مغفوراً ، اللہ أکبر ثلاثاً ... إلخ
۶۷ ۔ السعی أربعۃ عشرۃ شوطاً بحیث یختم علی الصفا .
۶۸۔ تکرار السعی فی الحج أوالعمرۃ ۔
۶۹ ۔ صلاۃ رکعتین بعد الفراغ من السعی ۔
۷۰ ۔ استمرارہم فی السعی بین الصفا والمروۃ ، وقد أقیمت الصلاۃ حتی تفوتہم صلاۃ الجماعۃ .
۷۱۔ التزام دعاء معین إذا أتی مِنی کالذی فی الإحیاء ، اللہم ہذہ منِی فامنن علی بما مننت بہ علی أولیائک وأہل طاعتک وإذا خرج منہا . اللہم اجعلہا خیر غدوۃ غدوتہا قط ۔ ۔ ۔ إلخ
بدع عرفۃ
۷۲۔ الوقوف علی جبل عرفۃ فی الیوم الثامن ساعۃ من الزمن احتیاطاً خشیۃ الغلط فی الہلال .
۷۳۔ إیقاد الشمع الکثیر لیلۃ عرفۃ بمنی ۔
۷۴۔ الدعاء لیلۃ عرفۃ بعشر کلمات ألف مرۃ : سبحان الذی فی السماء عرشہ ، سبحان الذی فی الأرض موطئہ ، سبحان الذی فی البحر سبیلہ ... إلخ .
۷۵۔ رحیلہم فی الیوم الثامن من مکۃ إلی عرفۃ رحلۃ واحدۃ ۔
۷۶۔ الرحیل من منی إلی عرفۃ لیلاً ۔
۷۷ ۔ إیقاد النیران والشموع علی جبل عرفات لیلۃ عرفۃ ۔
۷۸۔ الاغتسال لیوم عرفۃ .
۷۹ ۔ قولہ إذا قرب من عرفات ، و وقع بصرہ علی جبل الرحمۃ : سبحان اللہ ، والحمد للہ ، ولا إلہ إلا اللہ ، واللہ أکبر .
۸۰ ۔ قصد الرواح إلی عرفات قبل دخول وقت الوقوف بانتصاف یوم عرفۃ ۔
۸۱ ۔ التہلیل علی عرفات مئۃ مرۃ ، ثم قراء ۃ سورۃ الإخلاص مئۃ مرۃ ، ثم الصلاۃ علیہ ﷺ یزید فی آخرہا : وعلینا معہم مئۃ مرۃ ۔
۸۲ ۔ السکوت علی عرفات وترک الدعاء .
۸۳ ۔ الصعود إلی جبل الرحمۃ فی عرفات ۔
۸۴ ۔ دخول القبۃ التی علی جبل الرحمۃ ، ویسمونہا: قبۃ آدم ، والصلاۃ فیہا ، والطواف بہا کطوافہم بالبیت ۔
۸۵ ۔ اعتقاد أن اللہ تعالی ینزل عشیۃ عرفۃ علی جمل أورق ، یصافح الرکبان ، ویعانق المشاۃ ۔
۸۶ ۔ خطبۃ الإمام فی عرفۃ خطبتین یفصل بینہما بجلسۃ کما فی الجمعۃ .
۸۷ ۔ صلاۃ الظہر والعصر قبل الخطبۃ .
۸۸ ۔ الأذان للظہر والعصر فی عرفۃ قبل أن ینتہی الخطیب من خطبتہ .
۸۹۔ قول الإمام لأہل مکۃ بعد فراغہ من الصلاۃ فی عرفۃ : أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر .
۹۰۔ التطوع بین صلاۃ الظہر والعصر فی عرفۃ
۹۱۔ تعیین ذکر أو دعاء خاص بعرفۃ ، کدعاء الخضر علیہ السلام الذی أوردہ فی الإحیائ وأولہ : یا من لا یشغلہ شأن عن شأن ، ولا سمع عن سمع۔ ۔ ۔ وغیرہ من الأدعیۃ ، وبعضہا یبلغ خمس صفحات من قیاس کتابنا ہذا !
۹۲ ۔ إفاضۃ البعض قبل غروب الشمس .
۹۳ ۔ ما استفاض علی ألسنۃ العوام أن وقفۃ عرفۃ یوم الجمعۃ تعدل اثنتین وسبعین حجۃ !
۹۴ ۔ التعریف الذی یفعلہ بعض الناس من قصد الاجتماع عشیۃ یوم عرفۃ فی الجوامع ، أو فی مکان خارج البلد ، فیدعون ، ویذکرون ، مع رفع الصوت الشدید ، والخطب والأشعار ، ویتشبہون بأہل عرفۃ ۔
بدع المزدلفۃ
۹۵ ۔ الإیضاع ( الإسراع ) وقت الدافع من عرفۃ إلی مزدلفۃ ۔
۹۶ ۔ الاغتسال للمبیت بمزدلفۃ .
۹۷ ۔ استحباب نزول الراکب لیدخل مزدلفۃ ماشیاً توقیراً للحرم .
۹۸ ۔ التزام الدعاء بقولہ إذا بلغ مزدلفۃ : اللہم إن ہذہ مزدلفۃ جمعت فیہا ألسنۃ مختلفۃ ، نسألک حوائج مؤتنفۃ .. إلخ ما فی الإحیاء ۔
۹۹ ۔ ترک المبادرۃ إلی صلاۃ المغرب فور النزول فی المزدلفۃ ، والانشغال عن ذلک بلقط الحصی .
۱۰۰۔ صلاۃ سنۃ المغرب بین الصلاتین ، أو جمعہا إلی سنۃ العشاء والوتر بعد الفریضتین کما یقول الغزالی .
۱۰۱۔ زیادۃ الوقید لیلۃ النحر و بالمشعر الحرام .
۱۰۲۔ إحیاء ہذہ اللیلۃ .
۱۰۳۔ الوقوف بالمزدلفۃ بدون بیات .
۱۰۴۔ التزام الدعاء إذا انتہی إلی المشعر الحرام بقولہ : اللہم بحق المشعر الحرام ، والبیت الحرام ، والرکن والمقام ، أبلغ روح محمد منا التحیۃ والسلام ، وأدخلنا دار السلام یا ذا الجلال و الإکرام ۔
۱۰۵۔ قول الباجوری ( ۳۱۸) : ویسن أخذ الحصی الذی یرمیہ یوم النحر من المزدلفۃ وہی سبع والباقی من الجمرات تؤخذ من وادی محسِّر .
بدع الرمی
۱۰۶۔ الغسل لرمی الجمار .
۱۰۷۔ غسل الحصیات قبل الرمی .
۱۰۸۔ التسبیح أو غیرہ من الذکر مکان التکبیر .
۱۰۹۔ الزیادۃ علی التکبیر قولہم : رغماً للشیطان وحزبہ ، اللہم اجعل حجی مبروراً ، وسعیی مشکوراً ، وذنبی مغفوراً ، اللہم إیماناً بکتابک ، واتباعاً لسنۃ نبیک .
۱۱۰۔ قول بعض المتأخرین : ویسن أن یقول مع کل حصاۃ عند الرمی : بسم اللہ ، واللہ أکبر ، صدق اللہ وعدہ إلی قولہ (ولو کرہ الکافرون ) .
۱۱۱۔ التزام کیفیات معینۃ للرمی کقول بعضہم : یضع طرف إبہامہ الیمنی علی وسط السبابۃ ، ویضع الحصاۃ علی ظہر الإبہام کأنہ عاقد سبعین فیرمیہا .
وقال آخر: یحلق سبابتہ ویضعہا علی مفصل إبہامہ کأنہ عاقد عشرۃ .
۱۱۲۔ تحدید موقف الرامی: أن یکون بینہ وبین المرمی خمسۃ أذرع فصاعداً .
۱۱۳۔ رمی الجمرات بالنعال وغیرہا .
بدع الذبح والحلق
۱۱۴۔ الرغبۃ عن ذبح الواجب من الہدی إلی التصدق بثمنہ ، بزعم أن لحمہ یذہب فی التراب لکثرتہ ، ولا یستفید منہا إلا القلیل !
۱۱۵۔ ذبح بعضہم ہدی التمتع بمکۃ قبل یوم النحر .
۱۱۶۔ البدء بالحلق بیسار رأس المحلوق .
۱۱۷۔ الاقتصار علی حلق ربع الرأس .
۱۱۸۔ قول الغزالی فی الإحیائ :(( والسنۃ أن یستقبل القبلۃ فی الحق ))
۱۱۹۔ الدعاء عند الحق بقولہ : الحمد للہ علی ما ہدانا ، وأنعم علینا ، اللہم ہذہ ناصیتی بیدک فتقبل منی ، ... )) إلخ .
۱۲۰۔ الطواف بالمساجد التی عند الجمرات .
۱۲۱۔ استحباب صلاۃ العید بمنی یوم النحر.
۱۲۲۔ ترک المتمتع السعی بعد طواف الإفاضۃ
بدع متنوعۃ
۱۲۳۔ الاحتفال بکسوۃ الکعبۃ .
۱۲۴۔ کسوۃ مقام إبراہیم .
۱۲۵۔ رابط الخرق بالمقام والمنبر لقضاء الحاجات .
۱۲۶۔ کتابۃ الحجاج أسماء ہم علی عمد وحیطان الکعبۃ وتوصیتہم بعضہم بذلک .
۱۲۷۔ استباحتہم المرور بین یدی المصلی فی المسجد الحرام ومقاومتہم للمصلی الذی یدفعہم .
۱۲۸۔ مناداتہم لمن حج ب۔ الحاج .
۱۲۹۔ الخروج من مکۃ لعمرۃ تطوع .
۱۳۰۔ الخروج من المسجد الحرام بعد الطواف الوداع علی القہقری .
۱۳۱. تبییض بیت الحجاج بالبیاض (الجیر) ونقشہ بالصور ، وکتب اسم الحاج وتاریخ حجہ علیہ .
بدع الزیارۃ فی المدینۃ المنورۃ
ہذا ، ولما کان من السنۃ شد الرحل إلی زیارۃ المسجد النبوی الکریم والمسجد الأقصی ۔ أعادہ اللہ إلی المسلمین قریباً ۔ لما ورد فی ذلک من الفضل والأجر وکان الناس عادۃ یزورونہما قبل الحج أو بعدہ ، وکان الکثیر منہم یرتکبون فی سبیل ذلک العدید من المحدثات والبدع المعروفۃ عند أہل العلم ، رأیت من تمام الفائدۃ أن أسرد ما وقفت علیہ منہا تبلیغاً وتحذیراً ، فأقول :
۱۳۲۔ قصد قبرہ صلی اللہ علیہ وسلم بالسفر ۔
۱۳۳۔ إرسال العرائض مع الحجاج والزوار إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتحمیلہم سلامہم إلیہ .
۱۳۴۔ الاغتسال قبل دخول المدینۃ المنورۃ.
۱۳۵۔ القول إذا وقع بصرہ علی حیطان المدینۃ:اللہم ہذا حرم رسولک ، فاجعلہ لی وقایۃ من النار ، وأماناً من العذاب وسوء الحساب .
۱۳۶۔ القول عند دخول المدینۃ : بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ : ﴿ رب أدخلنی مدخل صدق ٭ وأخرجنی مخرج صدق٭وأجعل لی من لدنک سلطاناً نصیرا ﴾
۱۳۷۔ إبقاء القبر النبوی فی مسجدہ .
۱۳۸۔ زیارۃ قبرہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل الصلاۃ فی مسجدہ .
۱۳۹۔ استقبال بعضہم القبر بغایۃ الخشوع واضعاً یمینہ علی یسارہ کما یفعل فی الصلاۃ ، فریباً منہ أو بعیداً عند دخول المسجد أو الخروج منہ .
۱۴۰۔ قصد استقبال القبر أثناء الدعاء .
۱۴۱۔ قصد القبر للدعاء عندہ رجاء الإجابۃ
۱۴۲۔ التوسل بہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی اللہ فی الدعاء .
۱۴۳۔ طلب الشفاعۃ وغیرہا منہ .
۱۴۴۔ قول ابن الحاج فی المدخل ( 1 ! 159 ) أن من الأدب : أن لا یذکر حوائجہ ومغفرۃ ذنوبہ بلسانہ عند زیارۃ قبرہ صلی اللہ علیہ وسلم لأنہ أعلم منہ بحوائجہ ومصالحہ !!
وصلی اللہ علی نبیہ وسلم تسلیما کثیراً کثیراً .
مکمل مضمون کا مطالعہ کریں>>
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟