۳۔دوران سفرادعیہ مسنونہ کا اہتمام کرنا
مسافر آدمی کو چاہیے کہ وہ احادیث میں وارد شدہ اذکارِسفر پر کاربند رہے تاکہ وہ سفر میں پیش آنی والی مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے ۔رسول اللہ ﷺ جب بھی سفر کرتے تو مندرجہ ذیل دعا پڑ ھتے تھے ۔
اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البر والتقوی ومن العمل ما تحب وترضی اللہم ہون علینا سفرنا ہذا واطوعنابعدہ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل اللہم انی اعوذبک فی وعثاء السفر وکلبۃ المنظر وسوء والمنقلب فی المال والاہل والولد (رواہ مسلم)اس لئے سفر حج میں بالخصوص ان اذکارِ کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
۴۔ فضول خرچی سے پرہیز
دوران سفر اسراف اور فضول خرچی سے مکمل اجتناب بھی آداب سفر میں سے ہے کیونکہ سفر کے دوران مالی پریشانی سے ادائیگی حج میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں جس سے آدمی فریضہ حج کو یکسوئی سے ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے ۔
۵۔ صحبت صالح
سفر حج کے دوران نیک لوگوں کی مصاحبت اختیار کرنا بھی محمود فعل ہے خاص طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ عالم دین کا ساتھ میسر ہو تاکہ آدمی حج کی ادائیگی عین شریعت کے مطابق کرسکے او ر حاجی کی روحانی قوتوں کو جلا مل سکے ۔
۶۔ فسق وفجور سے اجتناب
عام مسافر کو بالعموم اور حاجی کو بالخصوص دوران سفر فسق وفجور اور لڑ ائی جھگڑ ے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔﴿ اَلحَجُّ اَشہُرٌ مَعلُومَات فَمَن فَرَضَ فِیہِنَّ الحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الحَجِّ﴾ (البقرۃ:۱۹۷) حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے ، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑ ائی جھگڑ ے کی بات سرزد نہ ہو ۔
۷۔سفر سے واپسی پر بھی درج بالا دعا پڑ ھیں اور اس کے آخر میں آئبون تآئبون عابدون لربنا حامدون کے الفاظ کا اضافہ فرمائیں ۔
۸۔ بعد از سفر معانقہ اور مصافحہ کرنا بھی مأثور عمل ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو معانقہ کرتے تھے ۔
۹۔سفر سے واپس آ کر اچانک گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ پہلے اپنے آنے کی خبر کریں ۔
۱۰۔ سفر سے لوٹ کر آنے والے کیلئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے ۔
ہمیں چاہے کہ ہم اس سنت نبوی کو دوبارہ سے زندہ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کے مستحق بن سکیں ۔
برکاتِ حج وعمرہ
دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے جن میں سے ایک حج بھی ہے ۔حج اسلام کا اہم ترین ستون اور رکن ہے حج کی ابتداء امام الموحدین ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہوتی ہے ۔قرآن وسنت میں حج کے بہت سے فضائل مذکورہیں ۔جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔حج سے آدمی کے گزشتہ گناہ مٹا دئے جاتے ہیں ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَن حَجَّ لِلّٰہِ فَلَم یَرفُث وَلَم یَفسُق رَجَعَ کَیَومِ وَلَدَتہُ اُمُّہُ (متفق علیہ)
ترجمہ:جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کیا دوران حج فسق وفجور سے اجتناب کیا تو وہ گنا ہو ں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز گنا ہوں سے پاک تھا ۔ حج ہی وہ عظیم سفر ہے جس کا انعام صرف اور صرف جنت ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ(الحدیث) ترجمہ:حج مقبول کی جزا صرف جنت ہی ہے ۔حج ایک نعمت ہے لذت و کیفیت اور درس۔۔ تربیت نفس ہے ۔حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں دوسری تمام عبادتوں کی روح شامل ہے ۔اس میں نماز بھی ہے ، قربانی بھی ہے مال خرچ کرنا زکوٰۃسے مشابہت رکھتا ہے ۔ نفسیانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی سی کیفیت رکھتا ہے ۔گھر سے دوری اور سفر کے مصائب میں جہاد کا رنگ ہے ۔ غرض یہ کہ حج ہی وہ عظیم عبادت ہے جس میں آدمی اپنا مال و جان دونوں خرچ کرتا ہے ۔
۱۔ایمان وجہاد کے بعد حجِ مبرور ومقبول افضل ترین عمل ہے ۔ صحیح بخاری /۲۶
۲۔ حج عورتوں کا جہاد ہے ۔ (بخاری :۱۸۲۱) جس میں کوئی قتال بھی نہیں ۔ مسند احمد ۶/۱۵۶
۳۔ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ۔ نسائی :۲۶۲۶
۴۔ حاجی کی زندگی قابلِ رشک اور وفات قابلِ فخر ہوتی ہے کہ اگر وہ احرام کی حالت میں فوت ہوجائے تو قیامت کے دن وہ لَبَّیکَ پکارتا اٹھایا جائے گا۔ بخاری :۱۲۶۵
۵۔ رمضان میں کئے گئے عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے ۔ صحیح بخاری :۱۷۸۲
۶۔ایک عمرہ دوسرے عمرے تک گنا ہوں کا کفارہ ہے ۔ صحیح بخاری :۱۷۷۳
فرضیتِ حج اور تارکِ حج کیلئے وعید
لوگوں پر اللہ کا یہ حق (فرض)ہے کہ جو اس کے گھر (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ، وہ اس کا حج کریں اور جو کوئی اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔ (آل عمران :۹۷) نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو۔ ایک صحابی (اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ) نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہر سال حج کریں ؟ انہوں نے تین بار یہ سوال دہرایا اور نبی ﷺ خاموش رہے اور بالآخر فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ پاتے ۔ صحیح مسلم :۱۳۳۷
حج کی استطاعت حاصل ہوجائے تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرنا ضروری ہے ۔ مسند احمد ۱/۲۱۴
اگر توفیق ہوتو پانچ سال میں ایک مرتبہ حج کر لینا چاہیے ۔ ابن حبان :۹۶۰، بیہقی ۵/۲۶۲
جو استطاعت حاصل ہوجانے کے باوجود مشاغلِ دنیا میں مصروف رہے اور اسی حالت میں حج کئے بغیر ہی موت آجائے تو ان کے بارے میں سخت وعید آئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ طاقت کے باوجود جن لوگوں نے حج نہیں کیا ، میں ان پر غیر مسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس (جزیہ) نافذ کر دوں ۔ اللہ کی قسم! وہ مسلمان نہیں ہے ۔ تلخیص الحبیر ۲/۲۲۳
مفہوم استطاعت
استطاعت کے مفہوم میں زادِراہ (البقرۃ:۱۹۷) اور سواری (یا مکہ آنے جانے کیلئے اس کے اخراجات) شامل ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ :۲۸۹۶)
اسی طرح اہل علم نے راستوں کے پر امن ہونے کی شرط بھی عائد کی ہے ۔ (الفتح الربانی ۱۱/۴۲، ۴۳) اور عورتوں کیلئے ساتھ ہی کسی محرم کا ہونا بھی شرط ہے جو حج اور کسی بھی سفر (بخاری :۳۰۰۶) خصوصاً ایک دن اور ایک رات (بخاری :۱۰۸۸)یا زیادہ سے زیادہ تین دنوں اور تین راتوں کے ہر سفر کیلئے شرط ہے ۔ (صحیح مسلم)
استطاعت کے مفہوم میں ہی جسمانی استطاعت بھی شامل ہے ، اگر کوئی شخص پیدل تو کجا ، سواری پر بھی نہ بیٹھ سکتا ہوتو اس پر حج کے سفر کیلئے نکلنا واجب نہیں ۔ بخاری :۱۵۱۲
فرضیت حج کے مقاصد اور حکمت
اللہ رب العزت نے متعدد با ر قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وہ علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے ۔ اسی لئے تو اس نے اپنے بندوں کی ہر نفع بخش چیز کے متعلق رہنمائی فرمائی ہے اور ہر مضر چیز سے اجتناب کا حکم دیا ہے ۔دین اسلا م میں جتنی بھی عبادات ہیں سب کا کوئی نہ کوئی مقصد اور ا سکی فرضیت کے پیچھے کچھ حکمتیں کا ر فرما ہوتی ہیں ۔ جس طرح فرضیت زکوٰۃ کی حکمت اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِم بِہَا﴾(التوبہ)ان کے مال میں سے زکوٰۃ لیں ا س سے آپ ﷺ ن کو پاک اور ان کا تزکیہ نفس کرتے ہو۔ اس طرح فرضیت زکوٰۃ سے اموال و نفوس کا تزکیہ و تطہیر ، رضائے الہی کا حصول ، مساکین و فقراء کے ساتھ ہمدردی ، ضرور ت مندوں کی حاجت روائی اورمرض بخل و حرص سے حفاظت ہے ۔ اگر روزہ فرض کیا تو ارشاد فرمایا :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ)
ترجمہ:اے ایمان والو تم پر اسی طرح روزے فرض ہیں جس طرح سابقہ امم پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔
روزے کی فرضیت کا مقصد تقوے کا ملکہ حاصل کرنا ہے ۔ پھرحج کی تشریعی حکمت بیا ن کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ثُمَّ لیَقضُوا تَفَثَہُم﴾(الحج) پھر حاجیوں کو چاہیئے کہ اپنا میل کچیل دور کریں ۔
یعنی حج اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ حجاج اپنی ظاہری اور باطنی برائیوں کا خاتمہ کریں اور مستقبل میں امت مسلمہ کی بیداری کا سامان کریں ۔حج کا ایک بڑ ا مقصد محبوب حقیقی سے والہانہ محبت کا اظہا ربھی ہے ۔
حج کا دوسرا بڑ ا مقصد امت محمدیہ کو مزاج ابراہیمی سے مربوط کرنا ہے ، جس طرح کہ شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :اس حج کا بڑ ا مقصد یہ ہے کہ قیامت تک یہ ملت اپنے بانی ابراہیم علیہ السلام کیساتھ مربوط رہے اور سیرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنے لئے فکری غذا لے ﴿مِلَّۃَ اَبِیکُم إِبرَاہِیمَ﴾ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہمیشہ تم سے مربوط رہنا چاہیے اسی میں اس ملت کے ابراہیمی مزاج اور خمیر کی حفاظت اور ملتوں اور قوموں میں اس کا تشخص و امتیاز ہے ۔
میقات حج کے تعین کی حکمت
حج میں جو احکا م بتائے جاتے ہیں اس میں احرام کیلئے میقات کا تعین بھی ہے ۔اس سے حاجی میں ایک نیا شعور اور فکری اور روحانی بیداری پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دربار الہی کے قریب پہنچ چکا ہے اس لئے آداب حاضری کوملحوظ خاطر رکھے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی زندہ جاوید کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں میقات کے تعین کی حکمت کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ مواقیت کا اصل راز یہ ہے کہ چونکہ ایک طرف مکہ میں آشفتہ حال اور پراگندہ بال حاضر ہونے کی تاکید ہے ، دوسری طرف اپنے شہر سے احرام باندھ کر سفر کرنے میں کھلی ہوئی دشواری ہے ، کسی کا راستہ ایک ماہ کا ہے ، کسی کی مسافت دومہینے یا اس سے بھی زیادہ کی ہے اس لئے مکہ کے اردگرد خاص مقامات متعین کر دیئے گئے ہیں جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے ، اس کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے کہ یہ مقامات معروف ہوں اور عام گزرگا ہوں کی حیثیت سے زیادہ دور ہے ، اہل مدینہ کیلئے جو میقات (ذو الحلیفہ) ہے وہ نسبتاً سب سے زیادہ دور ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مدینہ وحی کا مرکز ، ایمان کا قلعہ اور دار الہجرت ہے ، اور پہلا شہر ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول ا کی دعوت پر ایمان قبول کیا، اس لحاظ سے اس کے باشندے اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ اعلاء کلمۃ اللہ میں سب سے زیادہ کوشاں اور عبادات میں سب سے آگے رہیں جو أثی! طائف اور یمامہ وغیرہ کے برعکس سب سے پہلے ایمان لانے والے اور سب سے زیادہ اخلاص کا ثبوت دینے والے شہروں اور قریوں میں اس کا شمار ہے ، اس
لئے اس کے میقات کی دوری میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص/۴۵)
احرام باندھنے کی حکمت
احرام حاجی میں شعور اور بیداری کاسبب ہے دربار الہی میں حاضری کے وقت مصنوعی آرائش وزیبائش سے مکمل آزادی کا حکم دیاتاکہ امت میں سادگی کو فروغ دیا جا سکے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔حج وعمرہ میں جو احرام باندھا جاتا ہے وہ نمازمیں تکبیر تحریمہ کی طرح ہے وہ اخلاص وتعظیم اور عزیمت مؤمن کی ایک ظاہری وعملی صورت آرائی ہے اس کا مقصد لذتوں اور عادتوں آرائش وزیبائش کی تمام اقسام کو ترک کر کے نفس کو حقیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز وسرنگوں کرنا۔(حجۃ اللہ البالغہ/ج:۲)
احرام کی حرمت
احرام کی حرمت کے بھی بہت سے احکام اور خصوصی آداب ہیں مثلاً حالت احرام میں شکار کی ممانعت ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَقتُلُوا الصَّیدَ وَاَنتُم حُرُمٌ﴾(المائدۃ :۹۵) اے ایمان والو! شکار کو مت مارو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔
دوسری جگہ آتا ہے ﴿أُحِلَّ لَکُم صَیدُ البَحرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعاً لَّکُم وَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیکُم صَیدُ البَرِّ مَا دُمتُم حُرُماً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِی إِلَیہِ تُحشَرُونَ﴾(المائدۃ:۹۶) تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا جائز کیا گیا تمہارے نفع کیلئے اور قافلوں کیلئے اور تمہارے اوپر جب تک تم حالت احرام میں ہوخشکی کا شکار حرام کیا گیا ، اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ان اشیاء کی ممانعت محرم یعنی احرام باندھنے والے کیلئے اس لئے ہے کہ تذلل، ترک تجمل، پراگندہ بال اور غبار آلود ہونے کی کیفیت حاصل ہو، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف کا غلبہ اور مواخذہ کا ڈر اس پر غالب رہے اور وہ اپنی خواہشات اور دلچسپیوں میں پھنس کرنہ رہ جائے ، ان ممنوعات میں شکار اس لیے شامل ہے کہ وہ بھی ایک قسم کے توسع میں داخل ہے اور دلچسپی اور توسع خاطر کی چیز ہے ۔حجۃ اللہ البالغہ ج/۲، ص/۴۴
حلق کی حکمت
اسی طرح احرام سے باہر آنے اور اس کے قیود واحکام سے رہائی پانے کیلئے بھی ایک خاص طریقہ مقرر ہے جو نفس کو متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ حاجی احرام سے بالکل اچانک باہر آجائے اور تمام چیزوں سے فوراً لطف اندوز ہونے لگے ، وہ ایک خاص عمل اور نیت وارادہ کے ساتھ احرام اتارتا ہے وہ نماز میں سلام کے ذریعے اس کی فضا سے باہر آتا ہے اور احرام میں حلق (سر منڈوانے ) کے ذریعے ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حلق کا راز یہ ہے کہ اس سے احرام سے نکلنے کا ایک ایسا طریقہ متعین ہوتا ہے جو وقار کے منافی نہیں ہے ، اگر لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑ دیا جاتاتو ہر شخص جو طریقہ چاہتا اختیار کر لیتا، اس کے علاوہ اس میں پراگندہ بال اور زولیدہ سرہونے کی حالت کا خاتمہ ہے جو پہلے مطلوب تھی، یہ ایسا ہے جیسا نماز میں سلام پھیرنا۔ حجۃ اللہ البالغہ ج/۲، ص/۴۵ملحق از ارکان اربعہ لأبی الحسن الندوی رحمہ اللہ
حج کے فوائد وثمرات
حج میں بہت سے انفرادی مادی ، روحانی، اجتماعی فوائد پوشیدہ ہیں اس لئے تو قرآن میں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کوعام منادی کرنے کا حکم دیا تھا وہاں اس حکم کی پہلی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ﴿لِیَشہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم﴾ تاکہ لوگ یہاں آ کر دیکھیں کہ اس حج میں ان کیلئے کیسے کیسے فائدے ہیں ۔ حج کے ثمرات وفوائد بالاختصار ذکر کئے جا رہے ہیں ۔
نیکی وتقوی میں رغبت
حج سے انسان میں نیکی کرنے کی جستجو بڑ ھتی ہے وہ خیر کے کاموں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیتا ہے برائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے جیسے جیسے حاجی خانہ کعبہ کے قریب ہوتا ہے ویسے ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بڑ ھتارہتا ہے ۔ بدکلامی، بے ہودگی ، بے حیائی ، بددیانتی، جھگڑ ا فساد سے اس کا ضمیر راضی نہیں ہوتا اور اس کا ضمیر پکار کر کہتا ہے ۔حرم الہی کا مسافر ہوں پھر برے کام کرتا ہوا جاؤں اس عبادت کے کام میں ظلم وفسق کا کیا کام۔ ۔ ۔ سفرِ حج ہر دم آدمی کے نفس کو پاک کرتارہتا ہے ۔احرام کی وجہ سے اس کی ظاہری غربت وسادگی کا اثر ا سکے باطن پربھی پڑ تا ہے اس سے حاجی کے دل سے کبر و غرور اور حسد و کینہ نکل جاتا ہے ۔حج اس آدمی میں ایثار و قر بانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔المختصر حج ایک بہت بڑ ا اصلاحی کورس ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان حقیقی معنو ں میں معرفت الہی حاصل کرتا ہے ۔ حج محبت الہی کے ا ظہار کا عملی نمونہ اور ذریعہ بھی ہے ۔
وحدت ملت کا پر کیف نظارہ
حج کے مادی ، سیاسی ، تمدنی اور روحانی فوائد میں سے ایک فائدہ وحدت ملت بھی ہے ۔حج ہی میں اسلامی اتحاد و اتفاق اور اخوت ومساوات کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے ۔ حج اسلا می اتحادو اتفاق اور یک جہتی کو برقرار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔اس میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے مسلما ن جمع ہو کر آتے ہیں ۔مختلف رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کے لوگ ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں جمع ہو کر ایک جیسا لباس پہن کر ایک جیسے اعمال و افعال بجا لاتے ہیں جس سے اسلامی اتحادو اتفاق کو تقویت حاصل ہو تی ہے ۔حج ہر سال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جغرافیائی ، لسانی نسلی اور سیاسی اختلافات کو مٹا کر انہیں ایک ہمہ گیر انسانی وحدت کا روپ عطا کرتا ہے ۔خدا کی شا ن دیکھئے کہ اس مبارک موقع پر امیر و غریب اور شاہ وگدا کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے ۔مسلم امہ کو ایک پلیٹ فار م پر جمع کرنے میں حج اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ مسلم امہ غیر مسلم ملکوں کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ ، ریشہ دوانیوں ، سیاسی رقابتوں اور فکری غلامی سے محفوظ رہ کر دنیا میں حقیقی امن قائم کر نے کے لائق ہو جائے ۔ علاوہ ازیں اسلامی بلاک کی تشکیل ، عرب و عجم کے اختلافات کو مٹا نے اور انہیں کھوئی ہوئی عزت وسرفرازی عطا کرنے کے لئے حج کا اجتماع حیرت انگیز انقلاب پید ا کر سکتا ہے ۔ اسلامی بلاک کی تشکیل سے ہی مسلمان سیاسی ، فنی ، عملی ، تہذیبی اور سماجی میدان میں ترقی کر سکتے ہیں ۔ الغرض حج حقیقی معنو ں میں تما م ظاہری امتیازات اور گوناگوں فروعی ، لسانی ، علاقائی اختلافات کا قلع قمع کر کے مسلمان کے اندر عاجزی ، سادگی ، خداپرستی ، خوف الہی ، انسان دوستی ، اخوت ، مساوات اور ملی وحدت کا زبر دست جذبہ پیدا کرتا ہے ۔
درس حج
اسلامی عبادات میں انسانیت کیلئے بے شمار فوائد پنہاں ہوتے ہیں ۔اسی طرح عبادات سبق اور درس بھی سکھاتی ہیں ۔حج سے ملنے والے درو س تو بہت ہیں مگر سر دست اجمالی طور پر چند ایک کا تذکرہ کرنا مقصو د ہے ۔
٭فریضہِ حج ہمیں اللہ کی کبریائی ، دین حق کی صداقت اور امت مسلمہ کی عظمت و رفعت سے آگاہ کرتا ہے ۔
٭حج مساوات ، بھائی چارے کا سبق سکھاتا ہے ۔
٭حج ہمیں سادگی سے زندگی بسرکرنے کی تعلیم دیتا ہے اس کی مثال احرام کاسادہ ہونا ہے ۔
٭حج محبت الہی کاعملی اظہا رہے ۔
٭حج حلال کمائی کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ اس کی قبولیت تبھی ہوتی ہے ۔جب حلال کمائی سے کیا گیا ہو۔
٭حج ہمیں خالص توحید کا درس دیتا ہے لہذا حاجی کو اپنے دل سے تمام دنیوی سہاروں کا خیال نکال دینا چاہیے تاکہ اس کی روح اللہ کے گھر میں خالص قرار پائے اوروہ جو مانگے اسے عطا کر دیا جائے ۔
٭سفر حج ہمیں سفر آخرت کی یاد دلاتا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہم سفر حج کیلئے تیاری کرتے ہیں اسی طرح سفر آخرت کیلئے بھی بھر پور تیاری کریں ۔
آخری گزارش
مذکورہ بالا سطور میں بیان کئے گئے احکامات وفوائد حکمتوں اور فضائل نے فریضہ حج کو تقدس وطہارت، تورع وزھد ، مراقبہ ومجاہدہ نفس کی ایسی خلعت عطا کی ہے جو دوسرے مدہبوں اور ملتوں کے اس قسم کے اعمال میں ہرگز نہیں ملتیں ۔ حج کی وجہ سے نفس انسانی اخلاق عامہ اور عام زندگی پر جو اثرات پڑ تے ہیں اس کو دیکھ کر صادق وامین پیغمبر ا کی اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے ۔
مَن حَجَّ لِلّٰہِ فَلَم یَرفُث وَلَم یَفسُق رَجَعَ کَیَومِ وَلَدَتہُ اُمُّہُ (متفق علیہ)
جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کیا دوران حج فسق وفجور سے اجتناب کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز گنا ہوں سے پاک تھا ۔
ہر سال حج کے موقع پر لاتعداد مسلمان فریضہ حج ادا کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاتے ہیں اگر وہ حج کے بعد اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے ہمہ گیر اثرات کو شامل کر کے مثالی مسلمان ثابت ہوں تو وہ معاشرت ، معیشت، سیاست کے میدان میں حیرت انگیز انقلاب لا سکتے ہیں ہرسال حج کرنے والے لاکھوں نفوس اگر اپنی سابقہ روش کو ترک کر کے خیر وتعمیر کی راہ پر گامزن ہوجائیں تو چند ہی سالوں میں مسلم ملکوں میں ذہن بیداری سیاسی استحکام وعروج ملی اتحاد اور باہمی یگانگت کے مفید نتائج نظر آنے لگیں گے حج کرنے والوں کیلئے یہ بہت بڑ ا لمحہ فکر یہ ہے امید ہے کہ وہ صحیح معنوں میں فریضہ حج ادا کر کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بننے کیلئے کوشاں ومصروف عمل ہونگے کیونکہ۔
فتح ہے جس کی منتظر تمہی وہ کارواں ہو