Monday, November 2, 2009

اللہ کے لئے

محمد اکمل صدیقی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأمین أما بعد
محترم حضرات یہ چند گزارشات اللہ رب العزت کی رضا کے لیے عرض کر رہا ہوں اس خالق ومالک سے دعا ہے کہ وہ ان گزارشات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ آمین
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے گنا ہوں ، منکرات اور برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بہترین نعم البدل عطا فرمائے گا۔
دیکھئے ! خواہشات اور شہوات نفسی ، دلوں کو کنٹرول کر لیتی ہے بلکہ دلوں کو اپنے قبضے میں لیکر اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہیں ان شہوات سے جان چھڑ انا بہت کھٹن اور چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے ۔

لیکن جو دل اللہ تعالیٰ کے تقوی سے معمور ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے درخواستگار ہوں تو وہ کبھی اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے ۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ﴿وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ ﴾(الطلاق :۳)
جو شخص اللہ پربھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے کافی ہے ۔
جو شخص گنا ہوں اور خواہشات نفسی کو کسی غیر اللہ کیلئے چھوڑ تا ہے تو اس کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے لیکن اللہ کی رضا کیلئے گنا ہوں سے دور رہنے والے کو کوئی مشکل آڑ ے نہیں آتی صرف چند ابتدائی آزمائشیں ہوں گی تاکہ معلوم ہوکہ توبہ کرنے والا سچا اور خالص دل رکھتا ہے یا صرف ظاہراً توبہ کر رہا ہے ۔ اور یہ بھی یادرہے کہ گنا ہوں کی جس قدر لذت زیادہ ہو گی اور اسباب گناہ جتنے زیادہ ہوں گے ان سے توبہ کرنے والے کو اسی قدر اجر وثواب بھی زیادہ ملے گا۔
انسان فطرتاً خطا کا پتلا ہے اس لیے اگر دل کا جھکاؤ کبھی کبھار گنا ہوں کی طرف ہوجائے تو اسے فطرتی عمل گردانہ جائے اس لیے تقوی پر کوئی اثر نہیں پڑ تا لیکن گنا ہوں میں لت پت ہونا اور اس سے نفرت نہ رکھنا یہ قطعاً غلط ہے ۔ بلکہ ہمیشہ گنا ہوں سے جان چھڑ انے کی جدوجہد جاری رکھی جائے اور صمیم قلب سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے گنا ہوں کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑ ھ کر اور بہتر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔
بدلہ مختلف انواع کا ہو سکتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کا حصول ۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکون قلب واطمینان کا حاصل ہونا ۔دنیا وآخرت کی خیر وبرکت اور ا کرام وانعام الٰہی کا حصول زیر نظر سطور میں ہم مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھا رہے ہیں ۔
۱۔ جوشخص لوگوں سے مانگتا ہے اور ان کے آگے دست سوال کرنا چھوڑ دے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قناعت، صبر اور عزت نفس کی دولت عطا فرمائیں گے ۔ اس کا دل غنی اور خود دار ہو گا۔
فرمان رسول ﷺ ہے : جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرمائے گا (اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا) اور جو شخص مانگنے سے پرہیز کرے گا اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا فرمائے گا ۔ (ابوداؤد :۱۶۴۴)
۲۔ جو شخص تقدیر پر شکوہ کرنا اور اعتراض کرنا ترک کرے گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے گا اللہ تعالیٰ اسے رضا ویقین کی نعمت عطا فرمائے گا۔
اس کے انجام کو اچھا کرے گا ، اور جہاں سے اسے خیال تک بھی نہ ہو گا وہاں سے نعمت الٰہی سے سرفراز فرمائے گا ۔
۳۔ جو شخص جادو گروں ، کاہنوں اور عاملوں کے پاس جانا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے صبر ، توکل اور توحید خالص کی دولت سے سرشار کر دے گا۔
۴۔ جوشخص دنیا کے پیچھے مارا مارا پھرے گا ، اور ہمیشہ دولت دنیاوی کیلئے بھٹکنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے دل کا غنی کر دے گا اس کے تمام معاملات کو حل کر دے گا اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے پھرے گی۔
۵۔ جو شخص غیر اللہ سے ڈرنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے خوف سے نجات دے گا ، ہر چیز سے محفوظ کر دے گا ، امن وسلامتی کی دولت مہیا کرے گا۔
۶۔ جوشخص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا اور ہمیشہ سچ کو مدنظر رکھے گا تو اسے نیکی کی ہدایت ملے گی اور سچ بولنے کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق کہلائے گا ۔ عوام الناس میں اس کی سچائی ، صداقت وامانت کا احترام ہو گا اس کی عزت ومنزلت بڑ ھے گی۔
۷۔ جو آدمی جھگڑ ا کرنا ترک کر دے (اگرچہ وہ حق پر ہو) تو اللہ تعالیٰ اسے وسط جنت ایک محل کی ضمانت دیتا ہے اور وہ آدمی جھگڑ وں ، مصیبتوں سے محفوظ بھی رہے گا اور وہ پاکیزہ دل اور پاک دامن بھی ہوجائے گا۔
۸۔ جو آدمی کاروبار میں دھوکہ دہی ، خیانت کو ترک کرے گا تو لوگوں کا اعتماد اس پر بڑ ھتا جائے گا اس کا کاروبار وسیع تر ہوتاجائے گا۔
۹۔ جو شخص سودی کاروبار اور ناپاک کمائی کو ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت ڈال دے گا اس کیلئے خیر وبرکت کے دروازے کھل جائیں گے ۔
۱۰۔ جو شخص برے کاموں اور حرام کردہ مقامات پر نظر ڈالنا ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے فہم فراست ، اور نور قلب اور لذت عبادت عطا فرمائے گا۔
۱۱۔ جو شخص بخیلی اور کنجوسی کو ترک کرے گا اور سخاوت اور دریادلی کو اپ۔نا شعار بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی محبت ، قرابت الٰہی عطا فرمائے گا وہ شخص غموں ، پریشانیوں اور تنگ دلی سے نجات پائے گأ کمال وفضیلت کے درجوں پر فائز ہو گا۔
فرمان الٰہی ہے ﴿وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾(الحشر:۹)
اور جو شخص اپنے نفس کی بخیلی سے بچ گیا تو وہ فلاح پا گیا۔
۱۲۔ جو آدمی تکبر کرنا چھوڑ دے گا اور عاجزی اور انکساری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدرومنزلت کو بلند کر دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو اللہ کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے ۔ (رواہ البخاری)
۱۳۔ جو شخص بے وقت کی نیند کو ترک کر کے اور سستی اور کاہلی کو چھوڑ کر نماز کیلئے اٹھے تو اس کو اللہ تعالیٰ دلی خوشی، فرحت ونشاط اور محبت الٰہی عطا فرماتا ہے ۔
۱۴۔ جو شخص اللہ کیلئے سگریٹ نوشی ، نشہ آور اشیاء کو چھوڑ تا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اسے پھر حال میں ملتی ہے اس کو صحت وعافیت ملتی ہے یہ خوشی ہمیشہ رہنے والی ہے اور تندرستی ہزار نعمت ہے ۔
۱۵۔ جو شخص ذاتی انتقام کو باوجود قدرت کے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قلبی وسعت عطا فرمائے گا دلی خوشی ، اطمینان وسکون زندگی کی مٹھاس اور عزت نفس ملے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : معافی دینے والے کی عزت مزید بہتر ہوتی ہے ۔ (مسلم:۲۵۸۸)
۱۶۔ جو شخص بری صحبت اور دوستی کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اچھے دوست عطا کرتا ہے جن سے نفع وسکون ملتا ہے دنیا وآخرت کی بھلائیاں جن افراد کی محبت سے ملتی ہیں ۔
۱۷۔ جو شخض کثرت طعام کو ترک کرتا ہے تو اسے بڑ ے بڑ ے امراض سے نجات ملتی ہے ۔ پیٹ کی خرابیوں سے محفوظ رہتا ہے جو شخص زیادہ کھاتاپیتا ہے تو لازماً سوتا بھی بہت ہے ایسا شخص تو خیرات بہت سے ہی محروم رہتا ہے اور یہی چیزیں قوموں کی تباہی کا سبب ہیں ۔
۱۸۔ جو شخص قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔
۱۹۔ جو شخص غصہ کو ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت وکرامت کو بلند فرماتا ہے ندامت وشرمندگی کی ذلت سے وہ دور رہتا ہے رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی نے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : غصہ مت کیا کرو۔
امام ماوردی فرماتے ہیں کہ پھر باشعور اور عقل مند آدمی کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیے وہ حلم وبردباری اختیار کرے ، شدت پسندی سے ، غصے کو اپنی عقل وفراست سے محدود کر کے رکھے تاکہ خیر وبرکت اور سعادت وکامرانی اس کا مقدر بنے ۔
سیدنا امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ ایک دن کسی شخص پر شدید غضبناک ہوئے اس کو بطور سزا قید کرنے کا حکم دیا اور جب اسے کوڑ وں کو سزا دی جانے لگی تو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا : اس قیدی کو رہا کر دیا جائے ، میں نے جب اسے سزا سنائی تھی تو میں غصے میں آ گیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت بھی یہی بیان کی ہے کہ ﴿وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ ﴾(آل عمران:۱۳۴) مومن تو غصے کو پی جاتے ہیں ۔
۲۰۔ جو شخص عوام الناس کے عیبوں ، لغزشوں کا پردہ چاک نہ کرے تو بدلہ میں اس کے عیبوں پر بھی پردہ ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ لوگوں کے شر سے محفوظ رہے گا اس کی بصیرت وفراست میں اضافہ ہو گا ۔ سیدنا احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ جو شخض لوگوں کی ناپسندیدہ باتوں کی طرف جلدی لپکتا ہے تو لوگ بھی اس کے بارے میں چہ مگوئیاں شرع کر دیتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس نے کبھی نہ سنی ہوں گی ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے : اے بیٹے اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی سے بچاؤ۔
تم دوسروں کے عیبوں کو فاش کرو گے تو لوگ تمہیں بھی نشانہ بنالیں گے اور تم جانتے ہو کہ جس مقام پر بہت سے تیرپے درپے مارے جاتے ہوں تو وہ مقام اپنی قوت ومضبوطی کے باوجود کمزور ہوجاتا ہے بلکہ ٹوٹ کرگرجاتا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص واقعتاً مومن ہے تو وہ لوگوں کے عیبوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے جس طرح کوئی خود بیمار ہے تو وہ لوگوں کی بیماریوں کی طرف دیکھتابھی نہیں بلکہ اسے اپنی بیماری کی پڑ ی ہوتی ہے ۔
۲۱۔ جو شخص جاہلوں سے اور کم علم لوگوں سے مناظرے ، بحث ومباحث کو ترک کرتا ہے تو اس کی اپنی عزت بھی محفوظ ہوتی ہے اور اس کا نفس بھی سکون ہوتا ہے اور تکلیف دہ باتوں کو سننے سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ﴾ (الاعراف:۱۹۹) معافی دینے کو اپنا شعار بناؤ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے دور رہو۔
۲۲۔ جو شخص برے گمان سے بچتا ہے تو وہ اپنے دل کو فکر مندی ، پریشانی ، بدگمانی اور کدورت سے بچا لیتا ہے ۔
فرمان الٰہی ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ (الحجرات:۱۲)
اے مومنو! کثرت گمان سے بچو بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : برے گمان سے پرہیز کرو ، بیشک گمان جھوٹی بات ہے ۔(بخاری :۶۰۶۶) (جاری ہے )
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟