Monday, November 2, 2009

مولانا عبدالرشید حنیف رحمۃ اللہ علیہ

محمد رمضان یوسف سلفی

جنوری 2005ء کے دوسرے ہفتے ایک روز شام کو میرے عزیز دوست مولانا فاروق الرحمن یزدانی (مدیر ماہنامہ ترجمان الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد) تشریف لائے ۔ اثنائے گفتگو فرمانے لگے سلفی صاحب آؤ آج تمہیں جھنگ کی سیر کرالائیں ۔ ان دنوں جماعت کے معروف خطیب اور نامور عالمِ دین حضرت مولانا حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب حج بیت اللہ کیلئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے ۔ جاتے ہوئے انہوں نے حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب سے فرمایا کہ وہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی جامع مسجد کوثراہلحدیث جھنگ میں 14 جنوری 2005ء کا جمعہ پڑ ھادیں ۔

مولانا حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب کے حافظ فاروق الرحمن صاحب سے گہرے دوستانہ مراسم قائم ہیں اور انہوں نے حافظ صاحب کے فرمان پر ان کی بات مان لی چنانچہ مولانا فاروق یزدانی صاحب نے جھنگ کیلئے رختِ سفرباندھا تو ازراہِ کرم مجھے بھی ہمراہ لے گئے ۔ ایک عرصے سے میرے دل میں ادارہ علوم اسلامی دیکھنے اور اس کے بانی سے ملاقات کا خیال انگڑ ائی لے رہا تھا۔ میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار حافظ فاروق الرحمن سے کر بھی دیا تھا اور میرے اس سفر کا سب سے بڑ ا مقصد بھی یہی تھا ۔ نمازِ جمعہ اور کھانے سے فراغت کے بعد جھنگ کے رہائشی ایک دوست کی ہمراہی میں گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے ہم پاپیادہ سمن آباد میں واقع ادارہ علوم اسلامی پر پہنچ گئے ۔ادارے کی عمارت میں واقع مطب میں ادارے کے بانی ایک صاحب سے محو گفتگو تھے اور ان کے ہاتھ میں کسی کتاب کا کمپوز شدہ مسودہ تھا۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحے کیلئے ہاتھ آگے بڑ ھا دیا انہوں نے ازراہِ کرم سلام کا جواب دیا، مصافحہ کیا اور مطب میں بڑ ے بینچ پر تشریف رکھنے کو کہا ان دنوں ادارہ علوم اسلامی میں لائبریری کی سیٹنگ اور صفائی کی جا رہی تھی اس باعث چیزیں منتشر تھی اور ان پر گرد وغبار پڑ ا ہوا تھا میں نے عرض کیا حضرت کوئی کپڑ ا عنایت کیجئے تاکہ بینچ کو گرد سے صاف کر دیا جائے فرمانے لگے ! مولانا مرکر مٹی میں ہی تو جانا ہے راقم نے عرض کیا حضرت مرنے کے بعد توجو ہو گا سوہو گا، جیتے جی تو کوئی بھی گرد آلود ہونا نہیں چاہتا بہرحال بینچ صاف کر دیا گیا اور ہم مولانا کے حکم پر اس پر تشریف فرما ہوگئے تھوڑ ی دیر بعد آپ کمپوزر سے فارغ ہوکر ہماری طرف متوجہ ہوئے میرے ساتھیوں نے اپنا اپنا تعارف کرایا جبکہ میں نے صرف اپنا نام محمد رمضان بتانے پر اکتفا کیا میرے دوست حافظ فاروق الرحمن فوراً بولے حضرت یہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ مولانا کہنے لگے آپ وہی رمضان یوسف سلفی ہیں جو علمائے اہل حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بڑ ے خوش ہوئے ساتھ ہی فرمانے لگے ماشاء اللہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں اور عمدگی سے علماء کا تعارف کراتے ہیں میں کیسا لکھتا ہوں یہ تو معزز قارئین ہی جانتے ہیں بہرحال مولانا نے اچھے الفاظ اور دعائیہ کلمات سے راقم کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ یہ تھے ادارہ علوم اسلامی جھنگ کے بانی، معروف مصنف اور جید عالمِ دین مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ ان سے میرے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی جو خوب یادگار رہی اس ملاقات کا تأثر اب تک قلب وذہن کو معطر کئے ہوئے ہے اور مولانا کی علم وعمل سے ہم آہنگ شخصیت نظروں کے سامنے ہے ۔
انہوں نے ہمیں اپنی لائبریری بھی دکھائی تھی اس میں حدیث ، تفاسیر، رجال، تاریخ اور مختلف ادیان ومذاہب کے بارے علمی وتحقیقی کتب کا وسیع ذخیرہ موجود تھا۔ ازراہِ کرم انہوں نے مجھے اور حافظ فاروق الرحمن صاحب کو اپنی اور بعض دیگر مصنفین کی کتابوں کی علیحدہ علیحدہ بوریاں بھر کر دیں مولانا محمد ادریس بھوجیانی مرحوم کی کتاب خاندان نبوت کا قلمی مسودہ اور ان کی یادرفتگاں کا قلمی مسودہ عنایت فرمایا ایک مطبوعہ کتاب شجرہ نسب علمائے بھوجیاں مرحمت فرمائی یہ علمی مسودات دے کر فرمانے لگے ! بچہ یہ چیزیں تمہارے کام آئیں گی انہیں سنبھال کر رکھنا اور پھر ڈھیروں دعاؤں سے انہوں نے ہمیں رخصت کیا ایک عرصے سے مولانا مرحوم سے میری خط وکتابت تھی ان کی کوئی کتاب شائع ہوتی تو وہ اپنے دستخطوں سے کتاب بھیجتے میں نے ان کی کئی کتب پر ماہنامہ صدائے ہوش لا ہور اور ماہنامہ ترجمان الحدیث فیصل آباد میں تبصرے لکھے ۔ ان کی تفسیر سورئہ الکوثر جب شائع ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی عبد الرحیم کے ہاتھ یہ کتاب مجھے بجھوائی۔ 14 جنوری 2005ء کو جب میں ان کی خدمت میں جھنگ حاضر ہوا تو انہوں نے اپنی عظیم علمی وتحقیقی کاوش تفسیر سورئہ یٰسین مرحمت فرمائی اور اس کے شروع صفحے پر یہ الفاظ لکھے :ہدیہ سینہ لاخ الصالح، الفاضل مولانا محمد رمضان یوسف سلفی ۔ ۔ ۔
عبد الرشید حنیف -1-14 2005ء اسی طرح کے الفاظ انہوں نے تفسیر سورئہ الکوثر کے شروع میں لکھے ۔ مولانا عبد الرشید حنیف صاحب خلیق ، ملنسار، مہمان نواز اور صالح انسان تھے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا اور پھر انہیں نبھانا خوب جانتے تھے بلاشبہ ان کا شمار دور حاضر کے عظیم المرتبت علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا انہوں نے درس وتدریس ، وعظ وتبلیغ اور ترجمہ وتصنیف کے ذریعے جو دینی خدمات سرانجام دی وہ قابل تحسین اور قابلِ رشک ہے ۔ مولانا محترم کے علمی کارناموں پر ضلع جھنگ ہی نہیں بلکہ پوری جماعت اہل حدیث کا ہر فردنازاں ہے وہ ایک دینی وعلمی خاندان کے چشم وچراغ تھے ان کے عالی قدر بزرگوں میں مولانا حکیم عبد الرحمن ، مولانا عبد السلام، مولانا عبد الستار، مولانا عبد النور اور مولانا عبد الکریم شفیق رحمہم اللہ اجمعین جیسے جید علماء کے نام نمایاں ہیں ۔
مولانا مرحوم نے جھنگ جیسے سنگلاخ علاقے میں توحید وسنت کی ضیاء پاشیاں کیں اور نیک نام ہوئے بسا اوقات توحید وسنت کے پرچار پر انہیں مخالفین کی طرف سے نشانہ ستم بھی بنایا گیا لیکن وہ عزم وہمت سے اپنے مشن پر گامزن رہے ان کی شب وروز کی محنت کا ثمر ہے کہ اس وقت اپنے تو اپنے بیگانے بھی ان کی دینی مساعی پر رطب اللسان ہیں ۔
مو لانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ6 جون 1936ء کو روڑ اں والی ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام کریم بخش تھا جو عالمِ دین تھے اور اس علاقے میں اچھے مبلّغ اور مدرّس تھے ۔
مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ رحمانیہ وریام میں اپنے والد مکرم سے حاصل کی اس کے بعد آپ دار العلوم تعلیم الاسلام اوڈاں والا میں پڑ ھتے رہے آخر میں مولاناشیخ الحدیث عبد اللہ رحمہ اللہ ویرو والوی کی خدمت میں لائل پور حاضر ہوئے اور کلیہ دار القرآن والحدیث جناح کالونی میں زیر تعلیم رہ کر درس نظامی کی تکمیل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا کریم بخش ، مولانا حکیم عبد الرحمن ، مولانا عبد الستار ، مولانا محمد یعقوب ملھوی ، مولانا عبد الصمد روؤف ، مولانا عبد اللہ محدث ویرو والوی اور مولانا خان محمد رحمہم اللہ اجمعین کے نام نمایاں ہیں ۔
تحصیل علم کے بعد مولانا عبد الرشید صاحب چار سال مادرِ علمی کلیہ دار القرآن جناح کالونی فیصل آباد میں مدرس رہے ۔ اس دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد ایف اے کیا اور طب وحکمت کے کورس پاس کیے ۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے خود کو درس وتدریس ، وعظ وتبلیغ اور تصنیف وتالیف میں مشغول کر لیا تھا اور ساری زندگی ان امور خیر کی انجام دہی میں مصروف عمل رہے ان کے والد مکرم مولانا کریم بخش گاؤں میں اقامت پذیر تھے اور وہ گاؤں کی مسجد کے امام وخطیب بھی تھے وہ نمازِ فجر کے بعد درس قرآن ارشاد فرماتے اور لوگوں کو توحید وسنت کی تعلیم دیتے ایک بار ان کی شیعہ حضرات سے ان کے ڈیرے پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے انہیں لاجواب کر دیا اس دن سے اہل حدیث کو گاؤں کے دیگر مکاتب فکر پر برتری حاصل ہوگئی ۔پھر کسی مسئلے میں گاؤں کے حنفیوں سے مولانا کریم بخش کا اختلاف ہو گیا وہ لوگ باہم مل کر مولانا عبد الرشید اور ان کے والد مولانا کریم بخش کو اور تو کوئی جواب نہ دے سکے البتہ انہوں نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جنہیں ان اہل توحید کیلئے پورا کرنا نا ممکن تھا مولانا کریم بخش کہنے لگے اس گاؤں کو چھوڑ اتو جا سکتا ہے لیکن قرآن وسنت کے خلاف کوئی عمل نہیں کیا جائے گا لہذا یہ دونوں باپ بیٹا گاؤں چھوڑ کر جھنگ میں آ کر قیام پذیر ہوگئے اور یہاں آ کر انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد اہل حدیث تعمیر کی اور توحید وسنت کی اشاعت کا کام نئے جذبے اور عزم وہمت سے شروع کر دیا۔ مولانا عبد الرشید رحمہ اللہ کے والد گرامی مولانا کریم بخش نے 11دسمبر 1983ء کو جھنگ میں وفات پائی۔
مولانا عبد الرشید حنیف صاحب نے والد کی وفات کے بعد اپنی مسجد اہل حدیث اور ادارہ علوم اسلامی کو خوب ترقی دی اور تن من دھن سے دعوت دین کا کام کیا ۔مولانا مرحوم کو تصنیف وترجمہ سے خاص شغف تھا اوروہ زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے لگے تھے ۔ 1955ء میں انہوں نے حقیقت پردہ کتاب لکھی۔
مولانا عبد الرشید حنیف صاحب کی تصانیف تین قسم کی ہیں ۔ (۱) تفاسیر القرآن (۲) اردو تراجم (۳) اصلاحی وتحقیقی کتب
اب اسی ترتیب سے ان کی تصنیفات کا تعارف ملاحظہ فرمائیں ۔
تفسیر سورۃ یٰسین : اس میں بڑ ا علمی مواد جمع کیا گیا ہے اور سورۃ یٰسین کی یہ ایک جامع تفسیرہے جو 534 صفحات پر مشتمل ہے ۔
تفسیر سورۃ الکوثر : اس میں نہایت عمدگی سے تفسیری نکات بیان کئے گئے ہیں اس کے صفحات کی تعداد200 ہے ۔
تفسیر سورۃ اخلاص : یہ تفسیر دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں مقدمہ اوردوسرے میں تفسیر ہے کل صفحات 232 ہیں ۔
تفسیر سورۃ العصر : اس تفسیر کے صفحات کی تعداد 96 ہے اس میں بھی عمدگی سے سورۃ العصر کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔
پانچ سور ہ : اس میں قرآن مجید کی پانچ سورتوں ، سورئہ کہف ، سجدۃ، دہر، اعلیٰ اور غاشیہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔
انہوں نے جن کتب کے عربی سے اردو تراجم کئے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے :
۱۔ اردو ترجمہ سنن دارمی رحمہ اللہ
۲۔ اردو ترجمہ قیام اللیل للمروزی رحمہ اللہ
۳۔ اردو ترجمہ کتاب الصلاۃ امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ
۴۔ اردو ترجمہ الدر لنفید امام الشوکانی رحمہ اللہ
۵۔ اردو ترجمہ الصوائق المحرقہ
۶۔ اردو ترجمہ فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ
۷۔ امہات المؤمنین اردو ترجمہ
۸۔اردو ترجمہ الاسلام اساس السعادۃ
۹۔ صرف عورتوں کیلئے ترجمہ
ان کی دیگر کتب کے نام یہ ہیں : مقبول نماز ، نماز نبوی، تحفہ عید قرباں ، امین کائنات ﷺ ، چہرے کا تاج ، بہار ایمان ، بہار قرآن ، قربانی کے چار دن اسلامی تہذیب ، اسوئہ عائشہ بتول رضی اللہ عنہا، الدعاء مخ العبادۃ ، احساس بندگی ، اسلام میں عورت کی حکمرانی ، احکام رمضان ، انبیاء کی دعائیں ، امام کعبہ جھنگ میں ، نبی نوع انسان کے لئے قیام ، برکات رمضان ، پیغمبر انقلاب ، تعمیر انسانیت، تحفہ معراج ، تنویر معاشرہ ، تعظیمی قیام، ثعلبہ بن خطاب ، حقیقت استغفار ، خصوصیت ماہ شعبان، خدائی گرفت، خون صحابہ، خطاب امام کعبہ لا ہور ، دو مذہبی دہشت گرد، رسول اللہ ﷺ بحیثیت قانون دان، رفع الیدین سے انکار کیوں ؟ ، زندگی کے قیمتی لمحات سے غفلت کیوں ؟ ، شاتم رسول کی سزا، صدیق نبوت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، صاع نبوی ﷺ عرفان توحید وشرک، عزرائیل کی گرفت، فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ ، فضائل قرآن ، فضائل ابو بکر رضی اللہ عنہ جنتی بزبان علی رضی اللہ عنہ جنتی ، قرآن مغربی مفکرین کی نظر میں ، ماہ مبارک، ماہ محرم ، ماہ صفرسے بدشگونی کیوں ؟، معجزات رسول ﷺ ، محفل میلاد کی شرعی حیثیت ، نظام مصطفیٰ ﷺ ، وضو اور غسل کی شرعی حیثیت اور انبیاء کی دعائیں ۔
مولانا عبد الرشید حنیف مرحوم تنظیمی اعتبار سے مرکزی جمعیت اہل حدیث سے منسلک تھے اور آپ جھنگ کے امیر تھے انہوں نے حضرت مولاناحافظ عبد العلیم یزدانی حفظہ اللہ صاحب کے ساتھ مل کر جماعت کی تعمیر وترقی میں بڑ ا کام کیا۔ چند سال پہلے ضلع جھنگ شدید مذہبی فرقہ پرستی اور شیعہ سنی فسادات کی لپیٹ میں تھا اس موقع پر قیام امن کے لئے مولانا مرحوم نے بحیثیت امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اپنے رفیق خاص محترم حافظ عبد العلیم یزدانی صاحب کے ساتھ مل کر قابل قدر خدمات سرانجام دی ان کی اس مساعی حسنہ کے باعث انتظامیہ نے انہیں کئی بارامن ایوارڈزسے نوازا۔
مولانا مرحوم طبیب حاذق بھی تھے وہ اپنے مطب پر بھی بیٹھتے تھے اور اس کے علاوہ طبیہ کالج جھنگ میں پڑ ھاتے بھی تھے بلاشبہ وہ جامع جمیع علوم اور متبحر عالمِ دین تھے انہوں نے تکبر وغرور سے دور رہ کر سادگی سے زندگی بسر کی ۔ چند سال پہلے ان کا جوان بیٹا فوت ہو گیا تھا اس ناگہانی موت نے ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بڑ ا متاثر کیا اور کچھ عرصہ پہلے ان کا دوسرا جوان بیٹا بھی اس دنیا سے منہ موڑ کر آخرت کو روانہ ہوا ان پے درپے صدمات نے مولانا عبد الرشید حنیف رحمہ اللہ صاحب کو اس قدر غم زدہ کیا کہ وہ بستر علالت پر فراش ہوگئے اور ان کی یاداشت بھی ختم ہوگئی تھی۔
آخر طویل علالت کے بعد 15مئی 2009ء کی صبح ۶ بجے جمعہ کے روز ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
اس روز شام ۶ بجے محدث دوراں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ صاحب نے ان کی نماز جنازہ پڑ ھائی اس موقع پر قائدین جماعت اہلحدیث اور سینکڑ وں جماعتی اور غیر جماعتی افراد نماز جنازہ میں شریک تھے اور ان کی مغفرت کیلئے دعا کر رہے تھے ۔ نماز مغرب سے پہلے ان کی تدفین عمل میں آئی اور اس عظیم عالمِ دین کو سرزمینِ جھنگ نے اپنی آغوش میں چھپا لیا ۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے عبد الرشید رحمہ اللہ کی خطاوؤں سے درگزر فرما کر انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟