Monday, November 2, 2009

کچھ باتیں خواتین سے

محمد فہد شمسی

جس کے سبب آج کفار ہم پر حاوی اور مسلط ہوگئے ہیں ۔ آج سب اپنی نسبت سوچتے ہیں ملت کیلئے نہیں ۔ اے میرے وطن عزیز کے لوگوں اور ملت اسلامیہ کیلئے سوچو ! وطن عزیز کیلئے سوچو ! ۔ یادرکھو! یہ وطن عزیز ہے تو ہم ہیں ورنہ ہمارا حال اندلس کی مانند ہو گاکہ آنے والے لوگ کہیں گے ہاں کبھی یہاں پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوا کرتی تھی۔
اے میرے وطن عزیز کے سپوتو! ایک ہوجاؤ ، متحد بنیان مرصوص کی مانند کہ کوئی دشمن تمہاری صفوں میں داخل نہ ہو سکے ، اختلافات کو بھلا دو ، اور دشمنانِ اسلام اور وطن کا ڈٹ کا مقابلہ کرو، اسی میں بقا، عزت اور فلاح ہے ۔بقول شاعر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر ۔اقبال۔

خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں اور اس اعتبار سے وہ ہرگز نظر انداز کئے جانے کے لائق نہیں ہیں جبکہ ہمارے دین میں بھی انہیں ہر حیثیت سے قابل توقیر مقام حاصل ہے ۔ انہیں جو حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں دنیا کے ہر منصب اور معاشرے کی عورت ان سے محروم ہے یہ دینی علوم سے دوری اور بے خبری کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے اسلامی معاشرے کی عورت بے بنیاد، غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے ۔حقوق آزادی نسواں کی علم بردار خواتین اگر قرآن وحدیث کا بغور مطالعہ کریں تو انہیں یہ ضرور معلوم ہوجائے گاکہ مغرب کے دلفریب معاشرے کی نقالی اور مغربی عورت کی بے مقصد آزادی بے پردگی حقوق نسواں نہیں بلکہ اصلی حقوق وہ ہیں جو اسلام نے عورت کو ہر حیثیت میں دئیے ہیں ۔
دینی تعلیم سے بے بہرہ بہت سی خواتین کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ اللہ نے نبوت اور رسالت کی ذمہ داری کسی عورت کو نہیں دی اس طرح (نعوذ باللہ) اللہ نے بھی مردوں کے ساتھ خصوصی امتیاز برقرار رکھا اور خواتین کو نبوت ورسالت کے لائق نہ جانا ، حالانکہ خواتین بھی یہ ذمہ داری ادا کرسکتی تھیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بیشک اللہ نے کسی عورت کو نبوت ورسالت سے مشرف نہیں فرمایا لیکن عورت کیلئے یہ اعزازکیا کم ہے کہ ماسوائے آدم علیہ السلام ہر نبی اور رسول نے عورت کی کوکھ ہی سے جنم لیا ہے وہ نبی اور رسول نہیں لیکن نبیوں اور رسولوں کی ماں ہے اور اس کیلئے یہ اعزاز بھی کیا کم ہے کہ انبیاء اور رسول کی بھی جنت اس کے قدموں تلے ہے ۔
سیدنا عیسی علیہ السلام اللہ کے پانچ برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ فرما کر قرآن مجید میں مذکور فرمایا ہے یہ بلند ترین مقام کے حامل پیغمبر بھی بالفاظ قرآنی اپنی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿وَبَراًّ بِوَالِدَتِی﴾(مریم:۳۲) یعنی میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں ۔
معلوم یہ ہوا کہ اللہ کے بلند رتبہ نبی اور رسول بھی اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت کرنے پر من جانب اللہ مامور ہیں ایک دوسرے مقام پر بغیر کسی قسم کے استثنیٰ کہ ارشاد ربّ العالمین ہے ۔
﴿وَقَضَی رَبُّکَ اَلاَّ تَعبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالوَلِدَینِ إِحسَانًا﴾(نبی اسرائیل :۲۳)
اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ازلی اور ابدی ہے اس میں تمام جن وانس بشمول اپنے تمام طبقات شامل ہیں یعنی ہر نبی ، ہر رسول ، ہر ولی ، ہر عابد وزاہد ، ہر متقی ، ہر اونچے سے اونچا اور ہر کم سے کم تر سب لوگ اس بات کے ہمیشہ کیلئے پابند کر دیئے گئے ہیں کہ عبادت وہ صرف اللہ کی کریں اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھا برتاؤ کریں گے ۔
کاش کہ خواتین اس امر پر غور کریں کہ کیا دنیا کے کسی اور مذہب ومعاشرے میں خواتین کو یہ بلندی وسرفرازی اور یہ شان وشوکت اور یہ عظمت ورفعت حاصل ہے جو اسلام اوراسلامی معاشرے میں انہیں حاصل ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اپنے معبود واحد ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد اُن پر دوسرا حق والدین کا بیان فرمایا جن میں والدہ کا حق والد کے حق سے بڑ ھ کر ہے ۔آخر میں میں چاہتا ہوں کہ خواتین کواسلام میں اپنے حقوق معلوم ہونے چاہئیں اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کیلئے ایک بلند رتبہ عالی شان، معزز اور محترم مقام اگر اسلام نے انہیں ماں کی صورت میں عنایت کیا ہے تو بحیثیت بیوی بھی وہ اپنے شوہر کی بادشاہت میں اُس کے گھر کی ملکہ اُس کی عزت اور آبرو اس کے دل کی راحت اور اُس کے بچوں کی معلمہ اور مربیّہ ہے ۔
کاش کہ خواتینِ اسلام اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانیں اور مغرب کی جھوٹی آزادی اور پرفریب نعروں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق گزاریں ۔ اللہ رب العزت ہمیں ہدایت الٰہی پر کاربند بنائے ۔ آمین
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟