Monday, November 2, 2009

فیوض القرآن

قسط نمبر: ۱۷
فیض الابرار صدیقی
ان س
اِنسٌ مانوس ہونا جو کہ وحشت کی ضد ہے چنانچہ الحمر الانسیۃ پالتو گدھوں کو کہتے ہیں اور حمار وحشی جنگلی گدھے کو ۔ استأنس الوحشی کے معنی ہیں جانور مانوس ہو گیا۔ (تاج العروس، اقرب الموارد)
اس کی واحداِنسِیٌ ۔ الأَنَسَ وہ قبیلہ جو کسی بھی مقام پر مقیم ہو ۔ (تاج العروس)
ابن فارس نے لکھا ہے کہ إِنسٌ کے بنیادی معنی ظاہر ہونے کے ہیں اورجَنَّ کے معنی پوشیدہ ہونے کے ہیں اس کی جمع أنَاسٌ اور اَنَاسِیٌّ ہے ۔

بعض مقامات پر اس کی جمع الناس بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ قرآن مجید میں ایک مقام پراناس قبیلہ کے مفہوم میں بھی آیا ہے ۔
﴿قَد عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَشرَبَہُم﴾ (البقرۃ:۶۰)
سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔
اور نوع انسانی کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔جیسے سورۃ الفرقان میں استعمال ہوا ہے ۔
﴿لِنُحْیِیَ بِہِ بَلْدَۃً مَیْتًا وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِیَّ کَثِیرًا ﴾(الفرقان:۴۹)
تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اوراس کو پلائیں اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں ۔
﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوا فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلَّا کُفُورًا ﴾(الفرقان:۵۰)
اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانانہیں ۔
لفظ انسان کی ایک سے زائدتوجیہات کتب لغات میں پیش کی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر علماء کا خیال ہے کہ یہ بھی إِنسٌ سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں انسان اور بشر مفردات معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔
اور کچھ علماء کے نزدیک یہ قوم کی طرح اسم جمع ہے اور کچھ کی رائے میں اناس تھا جو إِنسٌ کی جمع ہے ۔ اور کچھ نے کہا کہ یہ دراصل الأناسی تھا کثرت استعمال سے آخر کی یاء گرگئی۔ اس کے بعد الأناس کا درمیانی ھمزہ بھی تخفیفاً حذف کر دیا گیا اور اس طرح الناس باقی رہ گیا۔ (تاج العروس)
اور کہا گیا کہ کسی شئے کی معرفت اور ادراک حاصل کر لینے اور یقین کرنے کو اناس کہتے ہیں جو أَنَسَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دیکھنے اور محسوس کرنے کے ہیں ۔ (القاموس المحیط)
قرآن مجید میں ہے ﴿فَإِن آنَستُم مِنہُم رُشداً﴾ (النساء :۶) پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ۔
﴿وَإِنِّی آنَستُ نَاراً﴾(طہ:۱۰)
اور مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔
﴿حَتَّی تِستَأنِسُوا﴾(النور:۲۷)
جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔
انسان کو اس نام سے اس لئے پکارا گیا کہ وہ أُنُس کی صفت کے ساتھ پیدا کیا گیا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی محبت اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ۔
اور کہا گیا کہ اسے اس نام سے اس لئے پکارا گیا ہے کہ جو اس کے ساتھ مانوس اور بے تکلف ہو یہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے ۔(المقتضب۴/۱۳)
اور ایک ضعیف قول کے مطابق انسان نسی سے ہے جس کا مطلب بھول جانا ہے کہ انسان أپنا عہد اولین بھول رکھتا ہے ۔
الصحاح میں ہے کہ میں اپنے والے ۔ مانوس۔ انسان (الصحاح) اس لفظی مفاہیم کے مطابق اس کا ایک مفہوم أَنَسَ محسوس کرنا یا دیکھنا ہے ۔
قرآن مجید میں اس کے درج ذیل مشتقات استعمال ہوئے ہیں ۔
آنس، آنستُ ، آنستم ، تستأنسوا ، مستأنسین ، إنس، الإنس ، أناس ، إنسان، الإنسان ، للإنسان ، إنسیاً، أناسی۔
قرآن مجید میں یہ لفظ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔
۱۔ انسان یعنی آدم
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِن طِینٍ﴾(المؤمنون )
یقینا ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ۔
﴿خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ﴾
(الرحمن:۱۴ )
اس نے انسان کو ایسی آواز دینے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی۔
۲۔ انسان ۔ اولاد آدم
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مَا تُوَسوِسُ بِہِ نَفسُہُ﴾(ق)
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں ۔
﴿إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُطفَۃٍ﴾(الدہر:۲)
بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا ہے ۔
أ ھ ل
اہل : اس مادہ کے معنی عبرانی زبان میں خیمہ کے ہوتے ہیں اس اعتبار سے اس کا مفہوم وہ لوگ جو ایک خیمہ میں رہتے ہوں ۔ (المحیط)
اور راغب نے اس کا مفہوم بیان کیا : یہ لفظ ان لوگوں کیلئے بولا جانے لگا جو آپس میں نسب، دین یا پیشہ ، مکان اور شہر میں مشترک ہوں ۔ (مفردات)
عمومی طور پر اہل الرجل سے مراد انسان کے خاندان اور قریبی رشتہ داروں ہوتے ہیں ۔
اہل بیت گھر میں رہنے والے ۔ اہل رجل اولاد اور بیوی کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ (تاج العر وس ، مفردات)
المحیط میں ابو حنیفہ کے حوالے سے ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بالخصوص بیوی مراد ہوتی ہے ۔ (المحیط)
لیکن ایک استعمال میں کفر اور ایمان کو معیار بنایا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح کو طوفان کے وقت ان کے بیٹے کے حوالے سے فرمایا ۔
﴿إِنَّہُ لَیسَ مِن أَہلِکَ﴾(ہود :۴۶)
وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے ۔
اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ﴿إِنَّہُ عَمَلٌ غَیرُ صَالِحٍ﴾(ہود:۴۶) کہ اس کے اعمال غیر صالح ہیں ۔
لہذا اگر دین کا تعلق نہیں ہے تو کوئی رشتہ داری اہل میں شمار نہ ہو گی۔
اہل سے مراد استحقاق بھی ہے جیسے اردومیں اہلیت یعنی صلاحیت کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے ﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا ﴾(النساء :۵۸)
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (مستحقین )کی طرف لوٹا دو۔
اہل الکتاب سے مراد وہ لوگ جو کسی نہ کسی آسمانی کتاب پر ایمان رکھنے کے مدعی تھے ۔ پس رسول کا اہل وہ ہے جو اس کی پیروی کرے ۔(۔/۸۳) نیز اس کے معنی حقدار مالک اور ان کے بھی ہیں جو کسی کام کی اہلیت رکھیں ۔ (۴/۵۸)
اس لفظ کے قرآنی مشتقات درج ذیل ہیں ۔
أہل ، أہلک ، أہلکم ، أہلنا ، أہلہ ، أہلہا ، أھلہم ، أہلہن ، أہلونا ، أہلی ، أہلیکم، أہلیہم
اہل کے قرآنی مفاہیم درج ذیل ہیں
أہل
۱۔اہل وعیال
﴿وَیَنْقَلِبُ إِلَی أَہْلِہِ مَسْرُورًا ﴾(۸۴/۹)
اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا۔
۲۔ بیوی
﴿قَالَتْ مَا جَزَاء ُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوء ًا إِلَّا أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴾(یوسف : ۲۵)
تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی کہ اسے قید کر دیاجائے یا اور کوئی درد ناک سزا دی جائے ۔
۳۔ قرابت دار
﴿وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ﴾(یوسف : ۲۶)
اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف علیہ السلام جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں ۔
﴿وَاجْعَلْ لِی وَزِیرًا مِنْ أَہْلِی ﴾(طہ:۲۹)
اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے ۔
۴۔ پیروکار
﴿فَأَنجَینَاہُ وَأَھلَہُ﴾(الأعراف:۸۳)
پس ہم نے اس کو(لوط علیہ السلام)نجات دی اور اس کے پیروکاروں کو ۔
﴿فَأَسرِ بِأَہلِکَ بِقِطعٍ مِنَ اللَّیلِ﴾ (ہود:۸۱)
پس تو اپنے پیروکاروں کو لیکر کچھ رات رہے نکل کھڑ ا ہو۔
۵۔ حقدار مالک
﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا﴾(النساء : ۵۸)
اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان تک پہنچاؤ۔
﴿فَانکِحُوہُنَّ بِإِذنِ أَہلِہِنَّ﴾(النساء :۲۵)
ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو۔
۶۔ لائق سزاوار
﴿قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﴾(ہود:۴۶)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح ! یقینا وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ناسائشتہ ہیں ۔
۷۔رہنے والے باشندے
﴿أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَنْ یَأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتًا وَہُمْ نَائِمُونَ﴾(الأعراف:۹۷)
کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑ ے جس وقت وہ سوتے ہوں ۔
۸۔ اہل بیت گھر کے لوگ بمعنی بیوی
﴿قَالُوا أَتَعْجَبِینَ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ رَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ ﴾(ہود:۷۳)
فرشتوں نے کہا : کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہے تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہو۔
﴿یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا٭وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآَتِینَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ﴾(الأحزاب : ۳۲۔۳۳)
اے نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیز گاری کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی (برا)خیال کرے ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو اپنے گھروں میں قرار سے رہواور قدیمی جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو ، نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیوں تم سے وہ ہر قسم کی لغو کو دور کر دے اور وہ تمہیں خوب(گنا ہوں سے ) صاف کر دے ۔
۹۔ اہل کتاب
وہ لوگ جو کسی سماوی کتاب کے ماننے کے مدعی ہوں
﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ﴾(آل عمران :۷۵)
بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ہاں یہ اور بات ہے کہ تو ا سکے سر پر ہی کھڑ ا رہے یہ اس لیے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں ۔
 

آپ کے اشتہارات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قاری!
اب آپ اسوۂ حسنہ کی سائیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتے ہیں۔
تو ابھی رابطہ کیجئے
usvaehasanah@gmail.com

اسوۂ حسنہ کا ساتھ دیں

ماہ صفر

آپ کو اسوۂ حسنہ کی نئی سائیٹ کیسی لگی؟