از محمد طیب معاذ
وحوش وطیور کو سدھارنا ، ان کو وقت اور کام کا پابند کرنا اتنا دشوار اور مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ کسی انسان کو اس کے نظریات وعقائدسے دستبردا رکروانا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے عقائد پر پختگی سے کا ربند ہو تا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر آمادہ اور راضی نہیں ہو تا۔ لیکن اس کائنات رنگ وبو اور جہان آب وگل میں اللہ رب العزت نے کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا کی ہیں کہ جن کے نظریات سے متاثر ہو کرمتعصب ترین انسان بھی اپنے نظریات سے پہلو تہی کرتا ہوا نظرآتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے سب سے نمایاں ہستی تاجدار مدینہ ، ختم المرتبت ، نبی الفت ومحبت جناب محمد ﷺ کی ہستی بھی ہے انہوں نے اس وقت کہ جب عرب کے باسی تہذیب وثقافت سے نابلد ، اخوت ومحبت سے ناواقف ، خالص عبادت وریاضت سے کوسوں دور ، عقیدہ وحدت الٰہ سے یکسر محروم تھے ، فاران کی چوٹیوں سے دعوت توحید دی ، اس دعوت پر لبیک کہنے والے خوش بخت انسان ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنے لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا اظہار کرنے والے بدبخت لوگ قعر مذلت میں ڈوب گئے ۔
کیا کبھی ہم نے غوروفکر کیا ہے کہ پیغام محمدی ﷺپر لبیک کہنے والوں پر آج بھی تاریخ رشک کر رہی ہے اور ہم اسی پیغام کو پس پشت ڈال کر اشک بہا رہے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم نے ختم الرسل ﷺ کے عطا کیے ہوئے سنہری اصول حیات کو بروئے کار لانے کیلئے کیا کیا ہے ؟ کیا ہم نے من حیث القوم دعوت محمدی ﷺ کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ یقینا ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے بلا شبہ ہم بھی دعوت محمدی ﷺ کا مختلف حیلوں سے انکار کرتے ہیں ، کیا رسول ا کرم ﷺ نے ہمیں وحدت الٰہ کا درس نہیں دیا ، مگر ہم ہر دور میں مختلف چیزوں کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کر تے ر ہے ، سیرت نے تو ہمیں ’’اَلا اِنَّ القُوَّۃَالرَّمَی‘‘ (قوت وطاقت تیر اندازی میں ہے )کا درس دیا لیکن ہم نے خواب خرگوش سے بیدار ہونا گوارا نہ کیا ، سیر ت طیبہ نے تو ہمیں ’’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کَافَّۃ ‘ ‘(اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ)کی تلقین کی مگر ہم نے ’’یُؤمِنُون بِبَعضِ الکِتَابِ وَیَکفُرُونَ بِبَعض‘‘ (شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض احکام کا انکار کرتے ہیں )کو ہی اپنا وطیرہ بنا لیا ، سیرت تو ہمیں ’’اِعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا‘ (تم سب اکٹھے ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی وصیت کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد کو استوار کرنے کے لیے تیار ہیں ، پیغام محمدی ﷺ تو ’’اَلحَیَائُ مِنَ الاِیمَان‘ ‘(حیاء ایمان کا حصہ ہے )ہے مگرہم نے زبان حال سے ’’اِذَا لَم تَستَحیِ فاَصنَع ما شِئتَ ‘‘(جب حیاء رخصت ہو جائے تو جو جی میں آئے کرو) کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے ، پیکر اخلاص ﷺ تو ہمیں ’’لا فَضلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍ ‘‘(کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے )کی کسوٹی فراہم کرے مگر ہم ہیں کہ دوستی اور دشمنی کیلئے لسانی ، علاقائی ، جماعتی اور قومی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہیں ، محسن انسانیت تو ’’یَضَعُ عَنہُم اِصرَھُم وَالاغلَالَ الَّتِی کَانَت عَلَیھِم ‘‘(رسول رحمت ﷺ ان بندشوں کو ختم کرتے ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں اور اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر لاد دیا گیا ہے )خودساختہ رسوم ورواج سے آزاد کروانے آئے مگر ہم ہیں کہ دوبارہ سے انہی جاہلیت کے رسم ورواج کو اپنی گردنوں کا طوق بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نبی رحمت ﷺ ’’مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم ‘‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے ) کی وعید سنائیں اور ہم ہیں کہ اغیار کی نقالی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ رسول معظم ﷺنے ’’یَا فَاطِمَۃَ بِنتَ مُحَمَّدٍ : اِعمَلِی فَاِنِّی لَا اَغنِی عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا‘‘(اے محمد ﷺ کی بیٹی : اعمال میں سبقت لے جاؤ میں قیامت کے دن تمہیں بچا نہیں سکتا ) کہہ کر طبقاتی کشمکش کا استحصال کیا مگر اسی پیغمبر کے ماننے والے اپنے عزیزواقارب کو بڑ ے بڑ ے مناصب سے نوازتے ہیں ۔ احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کیں اور فرمایا:’’ کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہ وَعِرضُہ‘‘ (ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت وآبروحرام ہے )لیکن ہم ہیں کہ خون مسلم کے پیاسے ، مال غیر کو ہڑ پ کرنے کے رسیا اور عزت وآبرو کو سربازار تار تار کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
سیرت طیبہ نے ہمیں اعتماد علی النفس اور خود داری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کا درس دیا تاکہ ایک طرف ہر ہر فرد بذات خود قوت کی چٹان بن جائے تو دوسری طرف پوری امت و ملت قوت وطاقت کا ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر غیروں کے در پر کاسہ گدائی کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نکلنے والی ہو ۔
منتظم اعظم ﷺ نے تو ہمیں دنیا پر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے نظام حکمرانی عطا کیا مگر ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی بہترین نظام سمجھا اور اختیار کیا رسول عربی ﷺتو ہمیں غریب پروری ، انسانی ہمدردی ، غم خواری کا درس دیں مگر نسبت محمدی پر فخر کرنے والے متمول افراد ہی غریبوں کو نان شبینہ سے محروم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔والی اللہ المشتکی۔
نام محمد اور پیغام محمد ﷺ کے ساتھ ہماری بے وفائی کا خمیازہ ہے کہ آج اغیار رحمت کائنات محمد رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں ایسے لمحے قوموں میں بیداری کا باعث بنتے ہیں ، بقول شاعر: ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح اعمال کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے اپنے دلوں میں داعی اسلام ﷺکی سنت وسیرت کے ساتھ وہ محبت وجذبہ پیدا کریں کہ ان کے بارے میں کسی کو بکواس کی جرأت پیدا نہ ہو ، یاد رہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کی محبت ایمان کا جزو لا ینفک ہے لیکن یہ محبت اسی وقت باعث نجات ہو گی جب احکام محمدی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے گا ۔اس موقع پر ہمیں مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً:
٭اقتصادایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ، معاشی بائیکاٹ خاکوں والوں کو خا ک میں ملا سکتا ہے ، مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات کو ختم کرنا ہی محبت رسول ﷺ کا عملی مظاہر ہ ہے ۔
٭عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔
٭ اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
٭علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو ناموس رسالت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کریں ۔ محض جذباتی نعرے اور دوچار ہزار افراد کا جلوس نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر ﷺ کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ: (لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا )
ترجمہ: ’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب اسوہ حسنہ کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔
وحوش وطیور کو سدھارنا ، ان کو وقت اور کام کا پابند کرنا اتنا دشوار اور مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ کسی انسان کو اس کے نظریات وعقائدسے دستبردا رکروانا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے عقائد پر پختگی سے کا ربند ہو تا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر آمادہ اور راضی نہیں ہو تا۔ لیکن اس کائنات رنگ وبو اور جہان آب وگل میں اللہ رب العزت نے کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا کی ہیں کہ جن کے نظریات سے متاثر ہو کرمتعصب ترین انسان بھی اپنے نظریات سے پہلو تہی کرتا ہوا نظرآتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے سب سے نمایاں ہستی تاجدار مدینہ ، ختم المرتبت ، نبی الفت ومحبت جناب محمد ﷺ کی ہستی بھی ہے انہوں نے اس وقت کہ جب عرب کے باسی تہذیب وثقافت سے نابلد ، اخوت ومحبت سے ناواقف ، خالص عبادت وریاضت سے کوسوں دور ، عقیدہ وحدت الٰہ سے یکسر محروم تھے ، فاران کی چوٹیوں سے دعوت توحید دی ، اس دعوت پر لبیک کہنے والے خوش بخت انسان ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنے لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا اظہار کرنے والے بدبخت لوگ قعر مذلت میں ڈوب گئے ۔
کیا کبھی ہم نے غوروفکر کیا ہے کہ پیغام محمدی ﷺپر لبیک کہنے والوں پر آج بھی تاریخ رشک کر رہی ہے اور ہم اسی پیغام کو پس پشت ڈال کر اشک بہا رہے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم نے ختم الرسل ﷺ کے عطا کیے ہوئے سنہری اصول حیات کو بروئے کار لانے کیلئے کیا کیا ہے ؟ کیا ہم نے من حیث القوم دعوت محمدی ﷺ کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ یقینا ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے بلا شبہ ہم بھی دعوت محمدی ﷺ کا مختلف حیلوں سے انکار کرتے ہیں ، کیا رسول ا کرم ﷺ نے ہمیں وحدت الٰہ کا درس نہیں دیا ، مگر ہم ہر دور میں مختلف چیزوں کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کر تے ر ہے ، سیرت نے تو ہمیں ’’اَلا اِنَّ القُوَّۃَالرَّمَی‘‘ (قوت وطاقت تیر اندازی میں ہے )کا درس دیا لیکن ہم نے خواب خرگوش سے بیدار ہونا گوارا نہ کیا ، سیر ت طیبہ نے تو ہمیں ’’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کَافَّۃ ‘ ‘(اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ)کی تلقین کی مگر ہم نے ’’یُؤمِنُون بِبَعضِ الکِتَابِ وَیَکفُرُونَ بِبَعض‘‘ (شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض احکام کا انکار کرتے ہیں )کو ہی اپنا وطیرہ بنا لیا ، سیرت تو ہمیں ’’اِعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا‘ (تم سب اکٹھے ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی وصیت کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد کو استوار کرنے کے لیے تیار ہیں ، پیغام محمدی ﷺ تو ’’اَلحَیَائُ مِنَ الاِیمَان‘ ‘(حیاء ایمان کا حصہ ہے )ہے مگرہم نے زبان حال سے ’’اِذَا لَم تَستَحیِ فاَصنَع ما شِئتَ ‘‘(جب حیاء رخصت ہو جائے تو جو جی میں آئے کرو) کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے ، پیکر اخلاص ﷺ تو ہمیں ’’لا فَضلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍ ‘‘(کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے )کی کسوٹی فراہم کرے مگر ہم ہیں کہ دوستی اور دشمنی کیلئے لسانی ، علاقائی ، جماعتی اور قومی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہیں ، محسن انسانیت تو ’’یَضَعُ عَنہُم اِصرَھُم وَالاغلَالَ الَّتِی کَانَت عَلَیھِم ‘‘(رسول رحمت ﷺ ان بندشوں کو ختم کرتے ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں اور اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر لاد دیا گیا ہے )خودساختہ رسوم ورواج سے آزاد کروانے آئے مگر ہم ہیں کہ دوبارہ سے انہی جاہلیت کے رسم ورواج کو اپنی گردنوں کا طوق بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نبی رحمت ﷺ ’’مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم ‘‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے ) کی وعید سنائیں اور ہم ہیں کہ اغیار کی نقالی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ رسول معظم ﷺنے ’’یَا فَاطِمَۃَ بِنتَ مُحَمَّدٍ : اِعمَلِی فَاِنِّی لَا اَغنِی عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا‘‘(اے محمد ﷺ کی بیٹی : اعمال میں سبقت لے جاؤ میں قیامت کے دن تمہیں بچا نہیں سکتا ) کہہ کر طبقاتی کشمکش کا استحصال کیا مگر اسی پیغمبر کے ماننے والے اپنے عزیزواقارب کو بڑ ے بڑ ے مناصب سے نوازتے ہیں ۔ احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کیں اور فرمایا:’’ کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہ وَعِرضُہ‘‘ (ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت وآبروحرام ہے )لیکن ہم ہیں کہ خون مسلم کے پیاسے ، مال غیر کو ہڑ پ کرنے کے رسیا اور عزت وآبرو کو سربازار تار تار کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
سیرت طیبہ نے ہمیں اعتماد علی النفس اور خود داری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کا درس دیا تاکہ ایک طرف ہر ہر فرد بذات خود قوت کی چٹان بن جائے تو دوسری طرف پوری امت و ملت قوت وطاقت کا ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر غیروں کے در پر کاسہ گدائی کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نکلنے والی ہو ۔
منتظم اعظم ﷺ نے تو ہمیں دنیا پر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے نظام حکمرانی عطا کیا مگر ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی بہترین نظام سمجھا اور اختیار کیا رسول عربی ﷺتو ہمیں غریب پروری ، انسانی ہمدردی ، غم خواری کا درس دیں مگر نسبت محمدی پر فخر کرنے والے متمول افراد ہی غریبوں کو نان شبینہ سے محروم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔والی اللہ المشتکی۔
نام محمد اور پیغام محمد ﷺ کے ساتھ ہماری بے وفائی کا خمیازہ ہے کہ آج اغیار رحمت کائنات محمد رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں ایسے لمحے قوموں میں بیداری کا باعث بنتے ہیں ، بقول شاعر: ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح اعمال کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے اپنے دلوں میں داعی اسلام ﷺکی سنت وسیرت کے ساتھ وہ محبت وجذبہ پیدا کریں کہ ان کے بارے میں کسی کو بکواس کی جرأت پیدا نہ ہو ، یاد رہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کی محبت ایمان کا جزو لا ینفک ہے لیکن یہ محبت اسی وقت باعث نجات ہو گی جب احکام محمدی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے گا ۔اس موقع پر ہمیں مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً:
٭اقتصادایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ، معاشی بائیکاٹ خاکوں والوں کو خا ک میں ملا سکتا ہے ، مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات کو ختم کرنا ہی محبت رسول ﷺ کا عملی مظاہر ہ ہے ۔
٭عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔
٭ اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
٭علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو ناموس رسالت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کریں ۔ محض جذباتی نعرے اور دوچار ہزار افراد کا جلوس نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر ﷺ کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ: (لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا )
ترجمہ: ’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب اسوہ حسنہ کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔